• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خطا ، بھول چوک اوراکراہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا (سلسلہ رمضانی دروس حدیث) {5}

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
خطا ، بھول چوک اوراکراہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا (سلسلہ رمضانی دروس حدیث) {5}

● ● ● ●
تحریر : کفایت اللہ سنابلی
● ● ● ●
”عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ“
”صحابی رسول عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی نے میری امت سے (انجانے میں ہونے والی ) غلطی ، بھول چوک اور زورزبردستی کے نتیجہ میں ہونے والے خلاف شرع کاموں کو معاف کردیاہے“ [سنن ابن ماجه رقم 2045 صحیح بالشواہد]

اس حدیث‌ میں تین چیزوں کے نتیجہ میں ہونے والے خلاف شرع کاموں کو معاف قراردیا گیاہے ۔
● پہلی چیز ’’خطا‘‘ یعنی غیرارادی طورپر انجانے میں کوئی خلاف شرع کام ہوجائے۔
● دوسری چیز’’نسیان ‘‘ یعنی بھول چوک سے خلاف شرع کوئی کام ہوجائے ۔
● تیسری چیز’’مَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ‘‘ یعنی جبرا خلاف شرع کوئی کام کروالیاجائے۔

ان تینوں صورتوں‌ میں‌ انجام پانے والے خلاف شریعت کاموں کو اللہ نے معاف قرار دیا ہے، رمضان میں اگرتینوں میں سے کسی ایک کے نتیجہ میں افطار ہوجائے اورعذر ختم ہوتے ہی فوراکھانے پینے سے رک جائیں تو یہ چیز نہ صرف معاف ہے بلکہ ایسی صورت میں‌ روزہ بھی معتبرہوگا، اوراس کی قضاء نہیں کی جائے گی۔
’’نسیان‘‘ بھولنے کے بارے میں‌ تو باقائدہ نص صریح وارد ہوئی ہے لیکن خطاء اور اکراہ کے بارے میں گرچہ نص صریح منقول نہیں لیکن عام دلائل سے پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں کا بھی یہی حکم ہے۔ نیز مذکورہ حدیث میں‌ تینوں کے احکام کو یکساں بتلایا گیا ہے لہٰذا جب ان تینوں میں‌ سے کسی ایک کے بارے میں نص مل گئی تو بقیہ کا معاملہ بھی یہی ہوگا۔ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے کتاب وسنت کے نصوص سے استدلال کرتے ہوئے یہی موقف پیش کیا ہے ، ملاحظہ:[مجموع الفتاوى 20/ 572]۔


اس وضاحت کے بعد مذکورہ حدیث‌ سے مستنبط روزے کے مسائل ملاحظہ ہوں:


✿ اولا:
حدیث‌ میں پہلی چیز ہے ’’خطا‘‘ یعنی انجانے میں ہونے والی غلطی معاف ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی روزہ دارانجانے میں کھا پی لے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ، مثلا کوئی مغرب سے پہلے افطار کے لئے اذان کا انتظار کررہاتھا اسی دوران کوئی بچہ شرارت کرتے ہوئے اذان کہنا شروع کردے اوریہ شخص اس اذان کو مسجد کی اذان سمجھ کر روزہ کھول دے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا، بشرطیکہ حقیقت معلوم ہونے پر فورا رک جائے۔
اسی طرح کوئی بدلی کے دن غلط فہمی کا شکارہوکر قبل از وقت افطار کرلے اور افطار کے بعد پتہ چلے کہ ابھی تو سورج غروب ہی نہیں ہوا۔
عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورمیں تقریبا اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’الْخَطْبُ يَسِيرٌ وَقَدِ اجْتَهَدْنَا‘‘ معاملہ بہت آسان ہے، ہم نے اجتہاد کیا ہے[موطأ مالك:1/ 303واسنادہ صحیح]۔
شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا صحیح مطلب یہی ہے کہ قضاء کی ضروت نہیں جن لوگوں‌ نے اس سے قضاء مراد لی ہے انہوں نے تاویل کی ہے جو درست نہیں [مجموع الفتاوى 20/ 573]۔
شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ ہی کی بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس عمل کو اجتہادی عمل قراردیا ہے جس سے اشارہ ملتاہے کہ قضاء کی ضرورت نہیں ۔
ایک روایت میں صراحت ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کہا : ”وَاللهِ لَا نَقْضِيهِ“ یعنی اللہ کی قسم ہم قضاء نہیں کریں گے۔[السنن الكبرى للبيهقي 4/ 368 رجالہ ثقات]۔
شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے[مجموع الفتاوى 20/ 573] اورکئی محققین کی نظرمیں یہ روایت صحیح ہے لیکن درست بات یہ ہے کہ اس کی سند میں‌ اعمش کا عنعنہ ہے جس کے سبب یہ روایت صحیح نہیں، لیکن اول الذکر روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے واللہ اعلم۔

اسی طرح کوئی شخص انجانے میں یا غلط فہمی کا شکارہوکرفجر بعد کچھ کھا پی لے تو یہ بھی خطا کے ضمن میں آئے گا اور یہاں‌ بھی قضاء کی ضروت نہیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض صحابہ شروع میں سحری کے وقت کے اختتام کے لئے کالے اورسفید دھاگے کو دیکھا کرتے تھے اور ایسا کرنے سے ظاہرہے کہ سحری کے وقت نکل جانے کے بعد بھی سحری کا وقت باقی معلوم ہوگا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا پتہ چلا تو اس سے منع فرمایا لیکن روزوں کے قضاء کا حکم نہیں دیا[مجموع الفتاوى 20/ 572]۔


✿ ثانیا:
حدث میں دوسری چیز نسیان یعنی بھول چوک کا ذکرہے ، اورروزہ کی حالت میں بھول کر کھانے کے سلسلے بخاری کی ایک ایک صحیح روایت میں صراحت ہے کہ اس سے روزہ نہیں‌ ٹوٹتا ، اللہ کے نبی صلی اللہ فرماتے ہیں:
”إِذَا نَسِيَ فَأَكَلَ وَشَرِبَ، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ“
”یعنی اگر روزہ دار بھول کر کھا، پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کرے ، کیونکہ اللہ نے اسے کھلایا پلایا ہے یعنی اس نے عمدا اپنے ارادے سے ایسا نہیں کیا ہے لہٰذا یاد آتے ہی رک جائے اورباقی روزہ مکمل کرے“[صحيح البخاري رقم 1933]

واضح رہے کہ اس حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ بھول چوک سے کھانے والے کو اللہ تعالی کھلا تا ہے تو اس سے کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے اور وہ سمجھتے ہیں‌ کہ اگر روزہ دار کوبھول چوک کرکھاتے ہوئے دیکھا جائے تو اسے ٹوکنا نہیں چاہئے کیونکہ اسے کھلانے والا اللہ ہے۔
یہ سوچ غلط ہے کیونکہ یہاں اللہ تعالی کے کھلانے پلانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس بھول چوک سے ہونے والی اس غلطی کو معاف کردیا ہے یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ روزہ دارکی یہ غلطی ، غلطی نہیں رہ گئی ، بلکہ بلاشبہ یہ غلطی ہے اوراورغلط کام کو دیکھتے ہیں‌ ٹوکنے کا حکم ہے جیساکہ مسلم کی حدیث ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ۔۔۔“
”یعنی تم میں سے جوبھی کسی غلط کام کو دیکھے تو اس کو روکنے کی کوشش کرے ۔۔۔“[صحيح مسلم 1/ 69]
الغرض یہ کہ اگر کوئی روزہ دار بھول کر کچھ کھا ، پی لے تو یہ معاف ہے اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا، لیکن یاد آتے ہیں‌ ایسے شخص کو کھانے یا پینے سے رک جانا چاہئے اوراگرکوئی کسی روزہ دار کو کھاتے ہوئے دیکھے تو اسے فورا روک دینا چاہئے۔


✿ ثالثا:
حدیث میں تیسری چیز ہے ’’مَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ‘‘ یعنی زور زبردستی کسی سے کوئی خلاف شریعت کام کرا یا جائے تو وہ بھی معاف ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ کسی روزہ دار کو اگر کرئی زبردستی روزہ کھلوا دے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا مثلا بعض شیطان قسم کے ساتھی کسی روزہ دار کو زبردستی اس کا منہ کھول کر پانی پلادیں یا کچھ کھلا دیں تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
(کفایت اللہ سنابلی)
 
Last edited:
Top