• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خطبہ جمعہ کے متعلق

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب

کچھ دوستوں کو میں نے درج ذیل حدیث مبارکہ پیش کی:
1094- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، الْمَعْنَى، عَنْ أَبِي الأَْحْوَصِ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ؛ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خُطْبَتَانِ [كَانَ] يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا، يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَيُذَكِّرُ النَّاسَ ۔
* تخريج: م/الجمعۃ ۱۰ (۸۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۶۹) (حسن)
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ( جمعہ کے دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خطبے ہوتے تھے، ان دونوں خطبوں کے درمیان آپ (تھوڑی دیر ) بیٹھتے تھے، (خطبہ میں) آپ قرآن پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔

تو دوستوں نے دو سوال کئے کہ:

کیا دونوں خطبوں کی مقدار نصف نصف وقت کی ہوگی؟
اور
خطبوں کے درمیان "تھوڑی دیر" بیٹھنے کی مقدار کا تعین کیسے ہو گا؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب
اس سوال:
خطبوں کے درمیان "تھوڑی دیر" بیٹھنے کی مقدار کا تعین کیسے ہو گا؟
کا جواب دوستوں کو میں نے اس طرح دیا ہے:

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے، کہتے ہیں: کان النبی یخطب خطبتین یقعد بینھما (صحیح بخاری :۹۲۸)
’’آپ دو خطبے دیتے اور ان کے درمیان (تھوڑی دیر کے لئے) بیٹھ جاتے۔‘‘
اور بخاری کی دوسری حدیث سے "قعدہ" کی مقدار کی شرح ہو رہی ہے..
صحیح بخاری:
جلد ۲
حدیث نمبر : 820
حدثنا محمد بن عبد الرحيم، قال حدثنا أبو أحمد، محمد بن عبد الله الزبيري قال حدثنا مسعر، عن الحكم، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن البراء، قال كان سجود النبي صلى الله عليه وسلم وركوعه، وقعوده بين السجدتين قريبا من السواء‏.

ہم سے محمد بن عبد الرحیم صاعقہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو احمد محمد بن عبد اللہ زبیری نے کہا کہ ہم سے مسعر بن کدام نے حکم عتیبہ کوفی سے انہوں نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ، رکوع اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی مقدار تقریباً برابر ہوتی تھی۔


یعنی سجدہ اور رکوع اور قعدہ کرنے کی مقدار تقریبا برابر ہوتی تھی...
گویا کہ دو خطبوں کے درمیان جو "قعدہ" ہو گا..اُس کی مقدار نماز کے "سجدے" یا "رکوع" یا نماز کے "دو سجدوں کے درمیانی قعدہ" کے ہی برابر ہوگی...

محترم شیخ صاحب
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے...اور پہلے سوال کے جواب کی بھی..
جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کچھ دوستوں کو میں نے درج ذیل حدیث مبارکہ پیش کی:
( جمعہ کے دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خطبے ہوتے تھے، ان دونوں خطبوں کے درمیان آپ (تھوڑی دیر ) بیٹھتے تھے "
تو دوستوں نے دو سوال کئے کہ:
کیا دونوں خطبوں کی مقدار نصف نصف وقت کی ہوگی؟
اور
خطبوں کے درمیان "تھوڑی دیر" بیٹھنے کی مقدار کا تعین کیسے ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
_________________
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَائِمًا، ثُمَّ يَجْلِسُ، ثُمَّ يَقُومُ». قَالَ: كَمَا يَفْعَلُونَ الْيَوْمَ
سيدنا عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم جمعہ کے دن ہميشہ کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا کرتے تھے اور (ان کے بيچ ميں ) بيٹھتے تھے اور پھر کھڑے ہوتے ،جیسا آج بھی (خطیب ) کرتے ہیں "
(صحیح مسلم )

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ خُطْبَتَيْنِ يَقْعُدُ بَيْنَهُمَا»
عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم (جمعہ ميں) دو خطبے ديتے اور دونوں کے بيچ ميں بيٹھتے تھے "
(صحیح بخاری )

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: «كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَتَانِ يَجْلِسُ بَيْنَهُمَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَيُذَكِّرُ النَّاسَ» (صحیح مسلم کتاب الجمعہ )
سيدنا جابر بن سمرہ رضي اللہ عنہ نے کہا کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم ہميشہ دو خطبے پڑھا کرتے تھے اور ان کے بيچ ميں بيٹھتے تھے اور خطبوں ميں قران مجید پڑھتے اور لوگوں کو نصيحت کرتے "
ــــــــــــــــــــــ
اس قعدہ کے متعلق شرعی لحاظ سے دو باتیں قابل توجہ ہیں ،
پہلی یہ کہ اسکی حکمت و غرض کیا ہے ؟
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله : " واختلف في حكمتها ، فقيل : للفصل بين الخطبتين ، وقيل : للراحة ، وعلى الأول وهو الأظهر يكفي السكوت بقدرها " انتهى من " فتح الباري " (2/ 406) .
علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ : (دو خطبوں کے درمیان ) اس قعدہ کی حکمت و غرض کیا ہے اس پر اہل علم کے مختلف اقوال ہیں ، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ قعدہ محض فصل کرنے کیلئے تھا ، جبکہ کچھ دوسرے کہتے ہیں کہ راحت کیلئے وقفہ تھا ، جبکہ پہلا قول زیادہ ظاہر و واضح ہے ، اس قعدہ کا وقت محض ایک سکوت (خامشی )جتنا کافی ہے ؛ فتح الباری

مزید لکھتے ہیں :
وَقَالَ صَاحِبُ الْمُغْنِي لَمْ يُوجِبْهَا أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّهَا جِلْسَةٌ لَيْسَ فِيهَا ذِكْرٌ مَشْرُوعٌ فَلَمْ تَجِبْ وَقَدَّرَهَا مَنْ قَالَ بِوُجُوبِهَا بِقَدْرِ جِلْسَةِ الِاسْتِرَاحَةِ وَبِقَدْرِ مَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْإِخْلَاصِ "
یعنی امام ابن قدامہ حنبلی (المغنی ) میں لکھتے ہیں : اکثر اہل علم کے ہاں یہ قعدہ واجب نہیں ، کیونکہ یہ ایک ایسا جلسہ ہے جس میں کوئی ذکر مشروع نہیں ، اسلئے یہ واجب نہیں ، اوراسے واجب کہنے والوں کے ہاں اس جلسہ کی مقدار نماز کے جلسہ استراحت جتنی ہے ، اور سورہ اخلاص پڑھنے میں جتنا وقت لگتا ہے اتنی ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قعدہ کے متعلق دوسری شق یہ ہے کہ : شرعاً اس کا حکم کیا ہے ؟ کیا یہ سنت ہے ،یا خطبہ کیلئے شرط ہے ؟
الاسلام سوال و جواب پر ایک فتوی میں لکھتے ہیں : اس بابت دو قول ہیں ، پہلا قول اس کے سنت ہونے کا ہے جو جمہور کا ہے ،
اور دوسرا قول اس کے شرط ہونے کا ہے یعنی یہ قعدہ خطبہ کے صحیح ہونے کیلئے شرط ہے ، شافعی فقہ میں اس کا یہی مقام بتایا گیا ہے ؛
اختلف العلماء في حكم جلوس الخطيب بين الخطبتين في الجمعة ، وذلك على قولين :
القول الأول : أن الجلوس بين الخطبتين سنة ، وهو مذهب الجمهور .
القول الثاني : أن الجلوس بين الخطبتين شرط لصحة الخطبة ، وهو المذهب عند الشافعية .
جاء في الموسوعة الفقهية (15/270) : " ذهب الحنفية , وجمهور المالكية , والحنابلة في الصحيح من المذهب إلى أن الجلوس بين خطبتي الجمعة , والعيدين سنة ؛ لما روي عن أبي إسحاق قال : رأيت عليا يخطب على المنبر فلم يجلس حتى فرغ .
ويرى الشافعية وهو رواية عن أحمد أن الجلوس بينهما بطمأنينة شرط من شروط الخطبة ؛ لخبر الصحيحين : ( أنه صلى الله عليه وسلم كان يخطب يوم الجمعة خطبتين يجلس بينهما ) " انتهى .
فعلى مذهب الجمهور إذا لم يجلس الإمام بين الخطبتين ، فإنه يفصل بينهما بسكوت .
قال ابن قدامة رحمه الله : " فإن خطب جالسا لعذرٍ فصل بين الخطبتين بسكتة , وكذلك إن خطب قائما فلم يجلس . قال : ابن عبد البر : ذهب مالك , والعراقيون , وسائر فقهاء الأمصار إلا الشافعي , أن الجلوس بين الخطبتين لا شيء على من تركه " انتهى من " المغني " (2/78) .
والله أعلم .


الإسلام سؤال وجواب
________________________
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
کیا دونوں خطبوں کی مقدار نصف نصف وقت کی ہوگی؟
دونوں خطبے برابر ہوں ، یا ایک دوسرے سے کم ،زیادہ ؟
اس پر کوئی نص صریح نہ مل سکی ،
لیکن اندازہ یہ ہے کہ پہلا خطبہ نسبتاً طویل ہوگا ، کیونکہ خطبہ میں نبی کریم ﷺ کا سورہ ق پڑھنا صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث سے ثابت ہے ،
عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُخْتٍ لِعَمْرَةَ، قَالَتْ: «أَخَذْتُ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ مِنْ فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَهُوَ يَقْرَأُ بِهَا عَلَى الْمِنْبَرِ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ» (صحیح مسلم 872 )
عَمرہ کی بہن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سوره «ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر یاد کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعہ کو خطبہ میں منبر پر پڑھا کرتے تھے۔

لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ کا خطبہ اور نماز درمیانے درجہ کے طویل ہوتے :
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: «كُنْتُ أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَتْ صَلَاتُهُ قَصْدًا، وَخُطْبَتُهُ قَصْدًا»
صحیح مسلم
سیدنا جابر بن سمره رضی اللہ عنہ کہتے: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی نمازیں پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور خطبہ دونوں درمیانے ہوتے تھے۔"

اور خطبہ آپ کی نماز کی نسبت کم ہوتا تھا ،
قَالَ أَبُو وَائِلٍ: خَطَبَنَا عَمَّارٌ، فَأَوْجَزَ وَأَبْلَغَ، فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا: يَا أَبَا الْيَقْظَانِ لَقَدْ أَبْلَغْتَ وَأَوْجَزْتَ، فَلَوْ كُنْتَ تَنَفَّسْتَ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ، وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ، مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ، فَأَطِيلُوا الصَّلَاةَ، وَاقْصُرُوا الْخُطْبَةَ، وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا»
(صحیح مسلم 872 )
ترجمہ :
جناب ابووائل فرماتے ہیں کہ خطبہ پڑھا ہم پر سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے اور بہت مختصر پڑھا اور نہایت بلیغ پھر جب وہ اترے منبر سے تو ہم نے کہا: اے ابوالیقظان! آپ نے بہت بلیغ خطبہ پڑھا اور نہایت مختصر کہا اور اگر آپ ذرا اس خطبہ کو طویل کرتے تو بہتر ہوتا۔ تب سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے: ”آدمی کا نماز کو لمبا کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے سمجھ دار ہونے کی نشانی ہے سو تم نماز کو لمبا کیا کرو اور خطبہ کو چھوٹا اور بعض بیان جادو ہوتا ہے۔“ (یعنی تاثیر رکھتا ہے)۔انتہیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز نہایت اہتمام اور خشوع و خضوع سے پڑھانی چاہیئے
اور خطبہ جمعہ درمیانی طوالت کا ہونا چاہیئے ،
نہ کہ ایسا طویل کہ حاضرین دعاء کرنے لگیں کہ کاش خطیب صاحب خاموش ہوجاتے ،
الخير كل الخير فى اتباع هدى المصطفى صلى الله عليه وسلم
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جزاکم اللہ خیرا یا شیخ
بارک اللہ فی علمک وعملک ومالک
 
Top