• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور تقلید ؟

شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
أنا أبو سعيد: محمد بن موسى الصيرفي , نا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم , نا الربيع بن سليمان , نا أيوب بن سويد , نا الأوزاعي , عن عطاء , عن ابن عباس: أن رجلا , أصابه جرح في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني: فاحتلم فأمر بالاغتسال , فاغتسل فمات , فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: «قتلوه قتلهم الله , إن شفاء العي السؤال» قال عطاء: فبلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل بعد ذلك , فقال [ص: ١٣٤] : " لو غسل جسده , وترك رأسه حيث أصابه يعني: الجرح " ولأنه ليس من أهل الاجتهاد فكان فرضه التقليد , كتقليد الأعمى في القبلة , فإنه لما لم يكن معه آلة الاجتهاد في القبلة , كان عليه تقليد البصير فيها وحكي عن بعض المعتزلة , أنه قال: لا يجوز للعامي العمل بقول العالم حتى يعرف علة الحكم , وإذا سأل العالم فإنما يسأله أن يعرفه طريق الحكم , فإذا عرفه وقف عليه وعمل به وهذا غلط , لأنه لا سبيل للعامي إلى الوقوف على ذلك , إلا بعد [ص: ١٣٥] أن يتفقه سنين كثيرة , ويخالط الفقهاء المدة الطويلة , ويتحقق طرق القياس , ويعلم ما يصححه ويفسده وما يجب تقديمه على غيره من الأدلة , وفي تكليف العامة بذلك تكليف ما لا يطيقونه , ولا سبيل لهم إليه وأما العالم: هل يجوز أن يقلد غيره؟ ؟ ينظر فيه فإن كان الوقت واسعا عليه , يمكنه فيه الاجتهاد , لم يجز له التقليد , ولزمه طلب الحكم بالاجتهاد ومن الناس من قال: يجوز له تقليد العالم
۔۔۔۔
الفقیه والمتفقه للخطيب البغدادي رحمه الله.......
...
اور اگر کوئی ابن ابی العز کو گمراہ کہے تو کیسا ھے؟

Sent from my XT1609 using Tapatalk
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
تقلید کا لغوی معنی:
تقلید کا معنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔
[مختار الصحاح : 758 ، موسوعه فقہیہ : 1 / 264- 265، فیروز الغات: ا - ت، صفحہ # ٦٢]

جائز و ناجائز اتباع و تقلید کی عقلی مثال
جس طرح لغت کے اعتبار سے کتیا کے دودھ کو بھی دودھ ہی کہا جاتا ہے اور بھینس کے دودھ کو بھی دودھ کہتے ہیں۔ مگر حکم میں حرام اور حلال کا فرق ہے اسی طرح تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفارومشرکین، اللہ اور رسول ﷺ کی مخالفت کےلئے اپنے گمراہ وڈیروں کی تقلید کرتے تھے۔ اگرحق پر عمل کرنے کےلئے تقلید کرے کہ میں مسائل کا براہِ راست استنباط(نکال) نہیں کرسکتا اور مجتہد کتاب وسنت کو ہم سے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اس لیے اس سے اللہ و رسول ﷺ کی بات سمجھ کر عمل کرے تو یہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔

علامہ خطیب البغدادی الشافعیؒ اپنی کتاب "الفقيه والمتفقه" میں رقم طراز ہیں:
احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی:؛
عقلی احکام میں تقلید جائز نہیں، جیسے صانع عالم (جہاں کا بنانےوالا) اور اس کی صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)، اسی طرح رسول الله اور آپ کے سچے ہونے کی معرفت وغیرہ.؛
عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصولِ دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو‘‘(سورہ الاعراف:3). اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں‘‘(البقرۃ:170)، اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکامِ حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم - حکم دینے والا), اللہ کو چھوڑ کر...‘‘(التوبۃ:31)
دوسری قسم: احکامِ شرعیہ، اور ان کی دو قسمیں ہیں:
؛
١) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے نماز، روزہ، حج، زكوة اسی طرح زنا و شراب کا حرام ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں، اس لئے ان میں تقلید کا کوئی معنی نہیں.
٢) دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانے جاسکتے، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے ’’فروعی‘‘ مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے. اللّہ تعالیٰ کے قول ’’پس تم سوال کرو اہلِ علم سے، اگر تم نہیں علم رکھتے‘‘۔(النحل:43، الانبیاء:7) کی دلیل سے. اور وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکامِ شرعیہ کے استنباط (النساء:83) کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو اس کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ نہیں ہے. الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’پس تم سوال کرو اہلِ علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے‘‘(النحل:43، الانبیاء:7)
حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله ﷺ کے دور میں زخمی ہوگۓ، پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی،لوگوں نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی. اس کی اطلاع نبی ﷺ کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج سوال کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود » كِتَاب الطَّهَارَةِ » بَاب فِي الْمَجْرُوحِ يَتَيَمَّمُ، رقم الحديث: 336)
[الفقيه والمتفقه: 2 / 128-134 ،علامہ خطیب بغدادی الشافعیؒ (392-462ھ)، مطبوعہ دار ابن الجوزیہ]



علامہ خطیب البغدادی الشافعیؒ اپنی کتاب "الفقيه والمتفقه" میں رقم طراز ہیں:
دوسری اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ اہلِ اجتہاد (مجتہدین) میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسے نابینا، جس کے پاس ذریعہِ علم نہیں ہے تو قبلے کے سلسلے میں اس کو کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.


بعض معتزلہ سے (یہ نظریہ) منقول ہے کہ ان کے نزدیک عامی (عوام) کے لئے بھی عالم کے قول پر اس وقت تک عمل جائز نہیں جب تک اسے حکم کی علت (وجہ و سبب) کا علم نہ ہوجاۓ،........اور یہ مسلک بلکل غلط ہے، اس لئے کہ عامی کے پاس حکم کی علت معلوم کرنے کی اس کے سوا کوئی سبیل نہیں ہے کہ وہ سالہا سال فقہ کی تعلیم حاصل کرے، طویل مدت تک فقہاء کی صحبت میں رہے، قیاس کے طریقوں کی پوری تحقیق کرے اور اس بات کا علم حاصل کرے کہ کونسا قیاس صحیح اور کونسا فاسد ہوتا ہے؟ اور کس دلیل کو دوسری دلیل پر مقدم رکھنا چاہیے؟ اور تمام لوگوں کو اس محنت کا مکلف کرنا "ما لایطاق" ہے یعنی جس کی ان میں قدرت نہیں اور اس (تقلیدِ مجتہد) کے سوا کو راستہ نہیں.

[الفقيه والمتفقه: ٢ /١٢٨-١٣٤ ،علامہ خطیب بغدادی الشافعیؒ (٣٩٢-٤٦٢ھ)، مطبوعہ دار ابن الجوزیہ]
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
قال ابن عبد البر:
ولم تختلف العلماء أن العامة عليها تقليد علمائها وانهم المرادون بوقل الله عز وجل "فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون"...وكذلك لم يختلف العلماء أن العامة لا يجوز لها الفتيا وذلك والله أعلم لجهلها بالمعاني التي منها يجوز التحليل والتحريم والقول في العلم.{جامع بيان العلم وفضله:2/115}.

حافظ ابن عبد البر المالکیؒ (المتوفی 463 ھ) فرماتے ہیں :علماء کے اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ عام لوگوں پر علماء کی تقلید لازم ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد : پس سوال کرو اہل الذکر سے اگر تم کو علم نہیں.[النحل:43، الانبیاء:7] سے علماء ہی مراد ہیں، اور علماء کا اس امر (بات) پر اجماع ہے کہ نابینا شخص پر جب قبلہ کی تعین میں اختلاف ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ غیر کی جس (کے علم و صداقت) پر اعتماد ہو عمل کرے جو اسے قبلہ کی تمیز کراسکے سو اسی طرح جس شخص کو دینی امور میں علم و بصیرت نہ ہو اس پر لازم ہے کہ وہ عالم کی تقلید کرے....[جامع بيان العلم وفضله : 2/115، طبع مصر]
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
السلام علیکم۔ جب تم مجھے اچھی طرح سے سمجھ نہ آجائے۔ تب تک یہ پوسٹ آف نہ کرے کوئی بھی ایڈمن۔ شکریہ
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
ثُمَّ هُوَ يَفْتَخِرُ عَلَى الْعَوَامِ بِذَهَابِ عُمْرِهِ فِي دَرْسِ الْكَلامِ ، وَيَرَى جَمِيعَهُمْ ضَالِّينَ سِوَاهُ ، وَاعْتَقَدَ أَنْ لَيْسَ يَنْجُو إِلا إِيَّاهُ ، بِخُرُوجِهِ زَعْمٌ عَنْ حَدِّ التَّقْلِيدِ ، وَانْتِسَابُهُ إِلَى الْقَوْلِ بِالْعَدْلِ وَالتَّوْحِيدِ ، وَتَوْحِيدُهُ إِذَا اعْتُبِرَ كَانَ شِرْكًا وَإِلْحَادًا ، لأَنَّهُ يَجْعَلُ لِلَّهِ مِنْ خَلْقِهِ شُرَكَاءَ وَأَنْدَادًا ، وَعَدْلُهُ عُدُولٌ عَنْ نَهْجِ الصَّوَابِ إِلَى خِلافِ مُحْكَمِ السُّنَّةِ وَالْكِتَابِ.

وَكَمْ يُرَى الْبَائِسُ الْمِسْكِينُ إِذَا ابْتُلِيَ بِحَادِثَةٍ فِي الدِّينِ ، يَسْعَى إِلَى الْفَقِيهِ يَسْتَفْتِيَهُ ، وَيَعْمَلَ عَلَى مَا يَقُولُهُ وَيَرْوِيهِ ، رَاجِعًا إِلَى التَّقْلِيدِ بَعْدَ فِرَارِهِ مِنْهُ ، وَمُلْتَزِمًا حُكْمَهُ بَعْدَ صُدُوفِهِ عَنْهُ ، وَعَسَى أَنْ يَكُونَ فِي حُكْمِ حَادِثَتِهِ مِنَ الْخِلافِ مَا يَحْتَاجُ إِلَى إِمْعَانِ النَّظَرِ فِيهِ وَالاسْتِكْشَافِ ، فَكَيْفَ اسْتَحَلَّ التَّقْلِيدَ بَعْدَ تَحْرِيمِهِ ؟ ! وَهَوَّنَ الإِثْمَ فِيهِ بَعْدَ تَعْظِيمِهِ ؟ ! وَلَقَدْ كَانَ رَفْضُهُ مَا لا يَنْفَعُهُ فِي الآخِرَةِ وَالأُولَى ، وَاشْتِغَالُهُ بِأَحْكَامِ الشَّرِيعَةِ أَحْرَى وَأَوْلَى.

مقدمة، شرف اصحاب الحدیث للخطیب
.
لیکن یہاں کچھ الگ کہہ رھے ھیں خطیب البغدادی ؟
 
Top