• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلافت عثمانیہ کے متعلق ترکی ڈرامہ ارطغرل

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ارطغرل ڈرامہ اور جامعۃ الرشید، کراچی کا فتوی

حافظ محمد زبیر
ترکی کے معروف ڈرامہ ارطغرل کے بارے دار الافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی کا ایک فتوی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا کہ جس میں اس ڈرامے کو دیکھنے کا جواز نقل ہوا تھا بشرطیکہ خواتین کی تصاویر سے غض بصر کیا جائے۔ بعد ازاں دار الافتاء، جامعۃ الرشید ہی کی طرف سے ایک اور تحریر بھی عام کی گئی کہ جس میں یہ بیان ہوا کہ پہلے والا فتوی اگرچہ لکھ لیا گیا تھا لیکن دار الافتاء کے اہم ذمہ داران کی نظر سے نہیں گزرا تھا۔ اور دار الافتاء کے ایک طالب علم نے بغیر اجازت اس کی امیج لے کر سوشل میڈیا پر ڈال دیا لہذا حتمی فتوی بعد والا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ موسیقی اور مرد وزن کے اختلاط دو وجوہات کی بنا پر اس ڈرامے کو دیکھنا جائز نہیں ہے۔
میں ڈرامہ نہیں دیکھتا اور نہ ہی ارطغرل ڈرامہ دیکھا ہے اور نہ ہی دیکھنے کا شوق ہے البتہ انباکس میں کبھی کوئی دو چار منٹ کا کلپ بھیج دے تو دیکھ لیتا ہوں۔ لیکن ڈرامے کے بارے مجھے یہ کہنا ہے کہ ماڈرن ڈرامہ چار چیزوں کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے ایک اسٹوری ہے، دوسرا کردار ہیں، تیسرا ویڈیو تصویر ہے اور چوتھا بیک گراؤنڈ میوزک ہے۔ جہاں تک اسٹوری کا معاملہ ہے تو اگر تو وہ دینی مقاصد کو پورا کرنے والی ہے تو اس میں حرج نہیں بلکہ معاشرے کی اصلاح کے لیے ایسی اسٹوریز کا لکھنا اور عام کرنا ضروری اور دینی فریضہ ہے۔
دوسری چیز ویڈیو تصویر ہے تو اس میں بھی حرج نہیں کہ اکثر علماء اس کے جواز کے قائل ہیں جبکہ مقاصد تربیتی، اصلاحی اور دینی ہوں۔ تیسری چیز کردار ہیں۔ تو کیا کسی ڈرامے میں کوئی خاتون کردار ہو سکتا ہے؟ تو اس پر ہم کافی پہلے گفتگو کر چکے کہ دنیا میں کئی ایک کامیاب (hit) موویز اور ڈرامے ایسے موجود ہیں کہ جن میں خاتون کا کردار نہیں ہے۔ کسی زمانے میں ایکشن انگلش مووی ریمبو۔1 دیکھی تھی کہ جس میں خاتون کا کردار اتنا ہی ہے کہ شاید بیس تیس سیکنڈ کے دو سین ہوں گے۔ اور ان کا بھی اصل مووی سے کوئی تعلق نہیں یعنی وہ اسٹوری کے کردار نہیں تھے۔ تو اگر ڈرامہ میں خاتون کا باقاعدہ کردار نہ ہو اور کسی عورت کے چہرے کو فوکس نہ کیا جائے جیسا کہ چلتا پھرتا ہجوم دکھایا گیا ہے اور اس میں مردوں کے علاوہ کچھ بچے اور عورتیں بھی ہیں تو اس مغلوب پہلو کو قابل برداشت کہا جا سکتا ہے۔
چوتھی چیز بیک گراؤنڈ میوزک ہے۔ ایک بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ میوزک اور بیک گراؤنڈ میوزک دونوں کا حکم ایک نہیں۔ میوزک میں مقصود میوزک ہوتا ہے لہذا وہ تو منع ہے ہی لیکن بیک گراؤنڈ میوزک میں مقصود میوزک نہیں ہوتا بلکہ وہ اسٹوری میں جان ڈالنے کے لیے ایک اضافی افیکٹ ہوتا ہے۔ یہ بیک گراؤنڈ میوزک اب بہت عام ہو چکا جیسا کہ آپ کی موبائل ٹونز میں بھی ہے اور نیوز میں بھی چل رہا ہوتا ہے تو کیا نیوز سننا حرام ہے؟ نہیں، ہم یہ نہیں کہیں گے کہ نیوز سننا حرام ہے البتہ یہ کہیں گے کہ اس کا بیک گراؤنڈ میوزک ختم یا تبدیل کریں۔ اسی طرح ہم ڈرامے میں بھی کہیں گے کہ اس کا بیک گراؤنڈ میوزک ختم یا تبدیل کریں کہ آلاتی میوزک (instrumental music) کے ذریعے انسانی طبیعت پر اثر ڈالا جاتا ہے۔ اور اس اثر کی وجہ سے آپ وہاں لازما روتے ہیں جہاں آپ کو رلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس رونے کی وجہ سے آپ انفعالی موڈ (passive mode) میں چلے جاتے ہیں اور ڈائریکٹر جو چاہتا ہے، آپ کے ذہن میں انڈیل دیتا ہے کیونکہ آپ کے فلٹرز کام کرنا بند کر چکے ہوتے ہیں۔
تو خلاصہ یہ ہے کہ اگر ڈرامے کی اسٹوری تربیتی، اصلاحی اور دینی مقاصد کو پورا کرنے والی ہو، اس میں عورت کا کردار نہ ہو یا نہ ہونے کے برابر ہو، اور اس میں بیک گراؤنڈ میوزک آلاتی نہ ہو بلکہ فطری اور نیچرل ہو جیسا کہ پرندوں کی آوازیں، دف جیسے آلات کی آوازیں، انسانوں کی سریلی آوازیں تو اس ڈرامہ کو دیکھنے میں حرج نہیں ہے۔ اور جو لوگ پہلے سے ہی ڈرامہ دیکھتے ہیں تو انہیں تو ارطغرل دیکھنے میں بھی حرج نہیں ہے بلکہ بہتر ہے کہ وہ دوسرے ڈرامے دیکھنے کی بجائے یہ دیکھیں۔ تو فتوی، جو دیکھ رہا ہے اور جو نہیں دیکھ رہا، دونوں کے لیے ایک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جو ڈرامہ دیکھ رہا ہے، اس کے لیے یہ فتوی بے کار ہے تو اسے کسی لیول پر لے کر آئیں کہ کم از کم واہیات اور فحش ڈراموں سے کسی سنجیدہ اور تاریخی ڈرامے کی طرف آ جائے۔ بیانیے اصل میں تین ہیں، نفس مطمئنہ کے لیے الگ، نفس لوامہ کے لیے الگ اور نفس امارہ کے لیے الگ۔ یہ بات بہت پہلے ایک مقام پر ہم تفصیل سے کر چکے ہیں۔
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
صاحب تحریر کی منطق عجیب و غریب ہے-

ایک طرف کہتے ہیں کہ" اسٹوری تربیتی، اصلاحی اور دینی مقاصد کو پورا کرنے والی ہو، (تو کوئی حرج نہیں)

یعنی ایک حرام چیز سے تربیت کا پہلو ڈھونڈ رہے ہیں ؟؟

پھر کہتے ہیں کہ ڈرامے میں عورت کا کردار نہ ہو یا نہ ہونے کے برابر ہو - سوال ہے کہ پھر عورتوں کے لئے کیا حکم ہے ؟؟ کیا جو عورتیں یہ ڈرامہ دیکھیں گی وہ غیر مردوں کو نہیں دیکھیں گی ؟؟

پھر کہتے ہیں کہ "اس میں بیک گراؤنڈ میوزک آلاتی نہ ہو بلکہ فطری اور نیچرل ہو جیسا کہ پرندوں کی آوازیں، دف جیسے آلات کی آوازیں، انسانوں کی سریلی آوازیں تو اس ڈرامہ کو دیکھنے میں حرج نہیں " - کیا کبھی کسی نے کہا ہے کہ فطری اور نیچرل آوزیں بھی میوزک کے زمرے میں آتی ہیں ؟؟

صاحب تحریر مزید کہتے ہیں کہ "جو ڈرامہ دیکھ رہا ہے، اس کے لیے یہ فتوی بے کار ہے تو اسے کسی لیول پر لے کر آئیں کہ کم از کم واہیات اور فحش ڈراموں سے کسی سنجیدہ اور تاریخی ڈرامے کی طرف آ جائے" - یہ ایسے ہی ہے کہ کہا جائے کہ سردی کی شدت میں اس نیت سے شراب پی لی جائے
کہ اس سے جسم کو گرمائش مل جائے تو کوئی حرج نہیں-

ویسے بھی اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ پردہ اسکرین پر جو کچھ لوگوں کو دکھایا جاتا ہے اس کا اصلاحی اثر وقتی ہوتا ہے کبھی بھی دیرپا نہیں ہوتا- اس کے مقابلے میں کتابی اثر یا نالج دیرپا ہوتا ہے-

ماضی میں بھی مصر، ایران ترکی اور امریکہ میں اس قسم کی اصلاحی کوشش کی گئیں- انبیاء کرام اور اصحاب کرام کی زندگیوں پر کافی فلمیں اور ڈرامے بنے- جن میںthe message ، commandments ten ، bin-hur وغیرہ قابل ذکر ہیں- لیکن یہ فلمیں مسلم بلکہ غیر مسلموں پر بھی کوئی مثبت و دیرپا اثرات ڈالنے میں ناکام رہیں -

اس لئے اس قسم کے فتوے جاری کرنا وقت کا ضیاع ہے -

الله سب کو ہدایت دے (آمین)-
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ڈرامہ نگاری اسلامی حدود اور سید مودودی کی رائے

سوال:
میں ایک طالب علم ہوں۔ میں نے جماعت اسلامی کے لٹریچر کا وسیع مطالعہ کیا ہے۔ خدا کے فضل سے مجھ میں نمایاں ذہنی و عملی انقلاب رونما ہوا ہے۔ مجھے ایک زمانے سے سینماٹو گرافی سے گہری فنی دلچسپی ہے اور اس سلسلے میں کافی معلومات فراہم کی ہیں۔ نظریات کی تبدیلی کے بعد میری دلی خواہش ہے کہ اگر شرعاً ممکن ہو تو اس فن سے دینی و اخلاقی خدمت لی جائے۔ آپ براہ نوازش مطلع فرمائیں کہ اس فن سے استفادے کی گنجائش اسلام میں ہے یا نہیں۔ اگر جواب اثبات میں ہو تو پھر یہ بھی واضح فرمائیں کہ عورت کا کردار پردہ فلم پر دکھانے کی بھی کوئی جائز صورت ممکن ہے یا نہیں؟
جواب:
میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ یہ خیال ظاہر کرچکا ہوں کہ سینما بجائے خود جائز ہے، البتہ اس کا ناجائز استعمال اسکو ناجائز کردیتا ہے۔ سینما کے پردے پر جو تصویر نظر آتی ہے، وہ دراصل ’’تصویر‘‘ نہیں بلکہ پرچھائیں ہے، جس طرح آئینے میں نظر آیا کرتی ہے، اس لیے وہ حرام نہیں رہا۔ وہ عکس جو فلم کے اندر ہوتا ہے، تو وہ جب تک کاغذ یا کسی دوسری چیز پر چھاپ نہ لیا جائے، نہ اس پر تصویر کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ وہ ان کاموں میں سے کسی کام کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جن سے باز رہنے ہی کی خاطر شریعت میں تصویر کو حرام کیا گیا ہے۔ ان وجوہ سے میرے نزدیک سینما بجائے خود مباح ہے۔

جہاں تک اس فن کو سیکھنے کا تعلق ہے، کوئی وجہ نہیں کہ آپ کو اس سے منع کیا جائے۔ آپ کا اس طرف میلان ہے تو آپ اسے سیکھ سکتے ہیں، بلکہ اگر مفید کاموں میں اسے استعمال کرنے کا ارادہ ہو تو آپ اسے ضرور سیکھیں۔ کیوں کہ یہ قدرت کی طاقتوں میں سے ایک بڑی طاقت ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسے بھی دوسری فطری طاقتوں کے ساتھ خدمت حلق اور مقاصد خیر کے لیے استعمال کیا جائے۔ خدا نے جو چیز بھی اس دنیا میں پیدا کی ہے، انسان کی بھلائی اور حق کی خدمت کے لیے پیدا کی ہے۔ یہ ایک بدقسمتی ہوگی کہ شیطان کے بندے تو اسے شیطانی کاموں کے لیے خوب خوب استعمال کریں اور خدا کے بندے اسے خیر کے کاموں میں استعمال کرنے سے پرہیز کرتے رہیں۔

اب رہا فلم کو اسلامی اغراض اور مفید مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا سوال تو اس میں شک نہیں کہ بظاہر ایسے معاشرتی، اخلاقی ، اصلاحی اور تاریخی فلم بنانے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی جو فواحش اور جنسی ہیجانات، اور تعلیم جرائم سے پاک ہوں، اور جن کا اصل مقصد بھلائی کی تعلیم دیناہو۔ لیکن غور سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ اس میں دو بڑی قباحتیں ہیں جن کا علاج ممکن نہیں ہے۔

" اول یہ کہ کوئی ایسی معاشرتی فلم بنانا سخت مشکل ہے جس میں عورت کا سرے سے کوئی پارٹ نہ ہو۔ اب اگر عورت کا پارٹ رکھا جائے تو اس کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں عورت ہی ایکٹر ہو۔ دوسرے یہ کہ اس میں مرد کو عورت کا پارٹ دیا جائے۔ شرعاً ان میں سے کوئی بھی جائز نہیں ہے"۔

" دوم یہ کہ کوئی معاشرتی ڈراما بہرحال ایکٹنگ کے بغیر نہیں بن سکتا۔ ایکٹنگ میں ایک عظیم الشان اخلاقی خرابی یہ ہے کہ ایکٹر آئے دن مختلف سیرتوں اور کرداروں کا سوانگ بھرتے بھرتے بالآ خر اپنا انفرادی کیرکٹر بالکل نہیں تو بڑی حد تک کھو بیٹھتا ہے۔ اس طرح چاہے ہم فلمی ڈراموں کو معاشرے کی اصلاح اور اسلامی حقائق کی تعلیم و تبلیغ کے لیے کیوں نہ استعمال کریں، ہمیں بہرحال چند انسانوں کو اس بات کے لیے تیارکرنا پڑے گا کہ وہ ایکٹر بن کر اپنا انفرادی کیرکٹر کھو دیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں اپنی شخصیت کی قربانی دیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ معاشرے کی بھلائی کے لیے، یا کسی دوسرے مقصد کے لیے، خواہ وہ کتنا ہی پاکیزہ اور بلند مقصد ہو، کسی انسان سے شخصیت کی قربانی کا مطالبہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ جان، مال، عیش، آرام، ہر چیز تو قربان کی جاسکتی ہے اور مقاصد عالیہ کے لیے کی جانی چاہئے، مگر یہ وہ قربانی ہے جس کا مطالبہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بھی نہیں کیا ہے، کجا کہ کسی اور کے لیے اس کا مطالبہ کیا جاسکے"۔

ان وجوہ سے میرے نزدیک سینما کی طاقت کو فلمی ڈراموں کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

نوٹ :-
(بعد ازاں یہ سلسلہ اس حد تک دراز ہوتا ہے کہ مقدس شخصیات کی کردار سازی شروع ہو جاتی ہے مغرب میں یہی سلسلہ حضرت مسیح علیہ السلام کی کردار سازی سے شروع ہوا اور ہمارے ہاں معاملہ صحابہ رض تک پہنچ چکا ہے بلکہ بعض ایرانی ڈراموں میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی کردار نگاری بھی کی گئی ہے جو کسی طرح بھی جائز نہیں)

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ طاقت اور کس کام میں لائی جاسکتی ہے؟ میرا جواب یہ ہے کہ ڈرامے کے سوا دوسری بہت سی چیزیں بھی ہیں جو فلم میں دکھائی جاسکتی ہیں، اور وہ ڈرامے کی بہ نسبت بہت ریادہ مفید ہیں مثلاً:

ہم جغرافیائی فلموں کی ذریعے اپنے عوام کو زمین اور اس کے مختلف حصوں کے حالات سے اتنی وسیع واقفیت پہنچا سکتے ہیں کہ گویا وہ دنیا بھر کی سیاحت کرآئے ہیں۔ اسی طرح ہم مختلف قوموں اور ملکوں کی زندگی کے بے شمار پہلو ان کو دکھا سکتے ہیں جن سے ان کو بہت سے سبق بھی حاصل ہوں گے اور ان کا نقطہ نظر بھی وسیع ہوگا۔

ہم علم ہئیت کے حیرت انگیز انکشافات اور مشاہدات ایسے دلچسپ طریقوں سے پیش کرسکتے ہیں کہ لوگ شہوانی فلموں کی دلچسپیاں بھول جائیں اور پھر یہ فلم اتنی سبق آموز بھی ہوسکتی ہیں کہ لوگوں کے دلوں پر توحید اور اللہ تعالیٰ کی ہیبت کا سکہ بیٹھ جائے۔

ہم سائنس کے مختلف شعبوں کو سینما کے پردے پر اس طرح پیش کرسکتے ہیں کہ عوام کو ان سے دلچسپی بھی ہو اور ان کی سائنٹفک معلومات بھی ہمارے انڈر گریجویٹوں کے معیار تک بلند ہوجائیں۔

ہم صفائی اور حفظان صحت اور شہریت (Civies) کی تعلیم بڑے دلچسپ انداز سے لوگوں کو دے سکتے ہیں جس سے ہمارے دیہاتی اور شہری عوام کی محض معلومات ہی وسیع نہ ہوں گی بلکہ وہ دنیا میں انسانوں کی طرح جینے کا سبق بھی حاصل کریں گے۔ اس سلسلے میں ہم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے مفید نمونے بھی لوگوں کو دکھا سکتے ہیں تاکہ وہ ان کے مطابق اپنے گھروں اور اپنی بستیوں اور اجتماعی زندگی کو درست کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔

ہم مختلف صنعتوں کے ڈھنگ، مختلف کارخانوں کے کام، مختلف اشیاء کے بننے کی کیفیات اور زراعت کے ترقی یافتہ طریقے سینما کے پردے پر دکھا سکتے ہیں جن سے ہماری صنعت پیشہ اور زراعت پیشہ آبادی کے معیار علم اور معیار کارکردگی میں غیر معمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔

ہم سینما سے تعلیم بالغاں کا کام لے سکتے ہیں اور اس کام کو اتنا دلچسپ بنایا جاسکتا ہے کہ ان پڑھ عوام اس سے ذرا بھی نہ اکتائیں۔

ہم اپنے عوام کو فن جنگ کی، سول ڈیفنس کی، گوریلا وار فیر کی، گلیوں اور کوچوں میں دفاعی جنگ لڑنے کی، اور ہوائی حملوں سے تحفظ کی ایسی تعلیم دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کے لیے بہترین طریقے پر تیار ہوسکیں۔ نیز ہوائی اور بری اور بحری لڑائیوں کے حقیقی نقشے بھی ان کو دکھا سکتے ہیں تاکہ وہ جنگ کے عملی حالات سے پیشگی باخبر ہوجائیں۔

یہ اور ایسے ہی بہت سے دوسرے مفید استعمالات سینما کے ہو سکتے ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی تجویز اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی، جب تک کہ ابتداًء حکومت کی طاقت اور اس کے ذرائع اس کی پشت پر نہ ہوں۔ اس کے لیے اولین ضرورت یہ ہے کہ عشق بازی اور جرائم کی تعلیم دینے والی فلمیں یک لخت بند کردی جائیں۔ کیوں کہ جب تک اس شراب کی لت زبردستی لوگوں سے چھڑائی نہ جائے گی، کوئی مفید چیز ان کے منہ کو لگنی محال ہے۔ دوسری اہم ضرورت یہ ہے کہ ابتداء میں مفید تعلیمی فلم حکومت کو خود اپنے سرمائے سے تیار کرانی ہوں گے اور ان کو عوام میں رواج دینے کی کوشش کرنی ہوگی، یہاں تک کہ جب کاروباری حیثیت سے یہ فلم کامیاب ہونے لگیں تب نجی سرمایہ اس صنعت کی طرف متوجہ ہوگا۔
(ترجمان القرآن۔ ذی القعد 1371ھ مطابق اگست 1952ء)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مشہور زمانہ ڈرامہ سیریل ارطغرل اختتام کو پہنچا، آئندہ اس کے بیٹے عثمان کی شخصیت پر ڈرامہ بنایا جائے گا، ارطغرل ڈرامے کا اختتام کافی اچھا تھا، ارطغرل اور اس کے ساتھی اپنے علاقے اور ارد گرد کے دشمنوں سے نپٹ کر، مل جل کر بڑے جہاد کے لیے نکلتے ہیں، اس وقت کی سپر پاور تاتاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے، آخری چند منٹوں میں سورہ فتح کی آیات کی تلاوت نے ماحول کو کافی روحانی اور جذباتی بنادیا تھا۔ ترکی حکومت کی ایک ویب سائٹ کے اردو ورژن میں ارطغرل ڈرامہ کے اختتام اور عثمان بن ارطغرل کی تیاریوں کا ذکر کیا گیا، اور بتایا گیا کہ آئندہ ستمبر تک لوگ اس کو دیکھ سکیں گے۔
ارطغرل ایک انقلابی شخصیت تھی، اس پر بننے والا ڈرامہ بھی تمثیل کی دنیا میں کسی انقلاب سے کم نہیں تھا۔ عثمان بن ارطغرل چونکہ عثمانی خلافت کا مؤسس و بانی تھا، دیکھیں اس کے کردار و شخصیت کو پیش کرنے میں کس قدر کامیابی ملتی ہے۔
 
Top