• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلاف قرآن روایات کا فلسفہ: تحقیق و جائزہ

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
نوٹ: اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ اس مضمون میں اغلاط کی نشاندہی، درستگی اور مزید دلائل فراہم کر کے شکریہ کا موقع ضرور دیجئے۔ جزاکم اللہ خیرا۔

الحاد و بے دینی کے اس دور میں جب کہ ایمانی حرارت مفاد پرستی اور دنیاوی محبت میں یخ بستہ ہوچکی ہے۔ غیرت کا فقدان ہے اور ہمارے ضمیر مردہ نہ سہی ،خوابیدہ تو ضرور ہیں، ایسے میں‌ہر وہ فلسفہ جو اسلام کی جانب سے عائد ان شرعی پابندیوں سے ، جو ہمیں بوجھ محسوس ہوتی ہیں، آزاد کر دے بشرطیکہ اسلام کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے، بڑا مرغوب محسوس ہوتا ہے۔ آج جب کوئی پی ایچ ڈی اسلامیات، مفکر و مجتہد عالم دین ٹی وی پر تشریف لا کر فرماتے ہیں‌کہ موسیقی اسلام میں بالکل جائز ہے تو روح تک میں‌ٹھنڈی پھوار سی پڑ جاتی ہے کہ گانے تو ویسے بھی سنتے تھے، لیکن وہی خوابیدہ سا ضمیر بہرحال ہلکے پھلکے کچوکے لگاتا رہتا تھا، اب الحمدللہ جب سے موسیقی جائز'ثابت' ہوئی ہے، حقیقی معنوں میں روح کی غذا محسوس ہونے لگ گئی ہے۔

زبانی کلامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دم بھرنے والے ہم مسلمانوں کی عملی محبت کا یہ حال ہے کہ سارے جہانوں کے سردار کی محبت میں‌ (چاہے یہ شریعت کا حکم ہو یا نہ ہو ) کپڑا ٹخنوں‌سے ایک انچ اونچا رکھنے کی بات ہو تو ہمارے پاس دس فلسفے موجود ہیں اس پر تنقید کے اور انکار کے۔ اور دور حاضر کی غالب تہذیب کی فکری مرعوبیت میں‌ مبتلا ہو کر گھٹنوں‌تک شارٹس پہن کر گھومتے پھرتے کیا مجال کہ ان فلسفہ جات کا کوئی شائبہ تک ذہن سے ہو گزرے۔

سلمان خان صاحب کسی فلم میں‌ اسٹائلش قسم کا ہئیر اسٹائل بنا لیں‌تو ان کی محبت میں‌قوم کے نوجوان دیوانے ہو کر بال بڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ فلمی ہیروز ، ماڈلز اور فنکاروں کی محبت میں لوگوں کا پاگل پن ہمارے روزمرہ کے مشاہدہ کی بات ہے۔ اور اس پر شرمندگی یا احساس کمتری کے بجائے اظہار فخر اس پر سوا ہے۔ لیکن کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں‌ ان کی سی بود و باش اپنا لے تو دقیانوسیت، تنگ نظری، ملائیت وغیرہ جیسی کئی اصطلاحات ایسے بیک ورڈ لوگوں کے لئے موجود ہیں۔

ان مثالوں کے تذکرہ سے مقصود یہ ہے کہ اس دھاگے کے مطالعہ سے قبل ہم اپنی عقل و فکر کا اور اپنے عمومی رویہ کا ایک مرتبہ جائزہ لے لیں۔ اور پھر یہ فیصلہ کریں‌کہ آیا ہمارا ایمان، ہماری محکومانہ سوچ، غلامانہ فطرت اس قابل ہے کہ اس کو معیار قرار دے کر ہم دین اسلام کے ثابت شدہ امور کا انکار کر ڈالیں؟

ازراہ کرم کچھ دیر سکون سے ٹیک لگا کر پندرہ بیس منٹ فرصت کے نکالیں اور ایک ہی نشست میں یہ مضمون پڑھ جائیے۔ اور اس کے لئے پیشگی شکریہ قبول فرمائیں۔

اس مختصر تمہید کے بعد اصل موضوع کی جانب آتے ہیں۔ چودہ صدیوں سے امت اس بات پر متفق ہے کہ اسلام کے دو بنیادی ماخذ ہیں۔ ایک قرآن اور دوسرے حدیث۔ گزشتہ ایک صدی بھر کے عرصہ سے حدیث کے ضمن میں شکوک و شبہات میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔ باقی سب شبہات سے صرف نظر کرتے ہوئے فی الحال ہمارا موضوع یہ ہے کہ آیا اگر کوئی حدیث بظاہر قرآن کی کسی آیت کے خلاف محسوس ہو ، لیکن سنداً وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو تو کیا ہم ایسی احادیث کا انکار کر سکتے ہیں؟ یا ان کی تاویل کرنی بہتر ہے۔

اس دھاگے کا مقصد اس سوچ ، فکر، فلسفہ یا اصول کی تردید ہے کہ کسی بھی حدیث کو خلاف قرآن کہہ کر رد کیا جا سکتا ہے اور کسی بھی گری پڑی بات کو چاہے وہ انجیل و تورات سے ملے یا گیتا رامائن سے، اسے مطابق قرآن کہہ کر قبول کیا جا سکتا ہے ۔

کیا حدیث صرف دو طرح کی ہو سکتی ہے؟
کیا ہم یہ مان لیں کہ حدیث کو قرآن سے مطابقت کے اعتبار سے صرف دو گروپس میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یعنی خلاف قرآن احادیث اور موافق قرآن احادیث؟؟
ذرا سی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس کا انکار کرے گا۔ کیونکہ ایک تیسری قسم ممکن ہو سکتی ہے یعنی ’’زائد از قرآن‘‘ احادیث۔ ایسی احادیث کہ جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔ اور ان احادیث کو نہ تو خلاف قرآن کی فہرست میں ڈالنا ممکن ہے اور نہ موافق قرآن کی فہرست میں۔ فوری طور پر دو مثالیں پیش خدمت ہیں:

ختنہ کرنا:
قرآن میں ختنہ کے بارے میں کوئی آیت موجود نہیں ہے۔ ہاں ایسی احادیث موجود ہیں جن میں ختنہ کے احکامات ہیں۔ مثلاً صحیح بخاری سے صرف ایک حدیث ملاحظہ فرمائیے:

حدثنا يحيى بن قزعة، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة ۔ رضى الله عنه ۔عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ الفطرة خمس الختان، والاستحداد، ونتف الإبط، وقص الشارب، وتقليم الأظفار ‏
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ، ختنہ کرنا، زیرناف کے بال بنانا ، بغل کے بال صاف کرنا، مونچھ چھوٹی کرانا اور ناخن کاٹنا۔ [صحیح بخاری: 6297]
اب دیکھئے درج بالا پانچوں باتیں قرآن میں موجود نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث زوائد قرآن میں سے ہے۔ اسے بطور حدیث قبول کر لیا جائے یا رد کر دیا جائے؟؟

نماز جنازہ:
قرآن میں نماز جنازہ کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی نماز جنازہ پڑھنے کو فرض کفایہ قرار دیا ہے۔

یصلی علیھا ویفرغ من دفنھا فانہ یرجع من الاجر بقیراطین کل قیراط مثل احد ومن صلی علیھا ثم رجع قبل ان تدفن فانہ یرجع بقیراط )) ( صحیح بخاری ، کتاب الایمان ، باب اتباع الجنائز من الایمان )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جو شخص بحالت ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ چلے یہاں تک کہ نماز پڑھے اور دفن کرنے سے فارغ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو دوقیراط کے برابر ثواب سے نوازیں گے اور ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے ۔ اور جو صرف نماز پڑھ کر واپس آجائے وہ ایک قیراط کے برابر ثواب پاتا ہے
قرآن اس ثواب کے ذکر سے بھی خاموش ہے۔ پھر نماز جنازہ کے کثیر احکام ہیں۔ مسجد میں ادا کیا جائے یا باہر، عورت کی نماز جنازہ کیسے ادا ہوگی ، مرد اور بچے کی کیسے ہوگی۔ بچہ مردہ پیدا ہو تو نماز جنازہ ادا کی جائے گی یا نہیں، شہید کی نماز جنازہ، غائبانہ نماز جنازہ ۔۔، نماز جنازہ کس پر واجب ہے، نماز جنازہ کا طریقہ کار وغیرہ وغیرہ۔۔ڈھیروں احکامات ہیں اور قرآن سے ایک کا بھی ثبوت میسر نہیں۔ ان تمام احادیث کا کیا کریں؟ قبول کریں یا رد کر دیں؟؟

لہٰذا حدیث کی بہرحال ایک تیسری قسم موجود ہے جسے خلاف و موافق قرآن کی کیٹگری میں نہیں ڈالا جا سکتا۔جو لوگ خلاف قرآن روایات کا فلسفہ پیش کرتے ہیں، وہ جانے کیوں کبھی بھی ایسی احادیث کے بارے میں کوئی بات کھل کر نہیں کرتے کہ وہ احادیث جو زوائد قرآن کی مد میں آتی ہیں، کیا وہ بذات خود (تعامل امت کے فلسفہ سے پاک ہو کر ) حجت ہیں یا نہیں؟

اگر زائد از قرآن حدیث حجت نہیں ہے تو پھر ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور گزشتہ انبیاء پر ایمان لانے میں کیا فرق رہا؟ جیسے ہم گزشتہ انبیاء پر زبانی ایمان لاتے ہیں، ان کی نبوت کی تصدیق و تائید کرتے ہیں، لیکن عملاً ان کی پیروی نہیں کرتے۔ کیا صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے بھی یہی مراد ہے؟ کہ زبانی تصدیق کی جائے، دل میں ایمان رکھا جائے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، لیکن عملاً اتباع نہ کی جائے؟؟؟

موافق قرآن احادیث:
موافق قرآن احادیث سے ہمارے بھائیوں کی مراد عموماً یہ ہوتی ہے کہ وہ تمام احادیث مان لی جائیں جن کی تائید قرآن کی کسی آیت سے کی جا سکتی ہو۔ اور یہ بھائی ایسی احادیث کو مانتے بھی ہیں۔ اسی لئے جب کوئی انہیں منکر حدیث کہتا ہے تو یہ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ہم تمام موافق قرآن احادیث کی حجیت کا اقرار کرتے ہیں، ہاں خلاف قرآن احادیث کا انکار ضرور کرتے ہیں، لیکن خلاف قرآن احادیث کا تو انکار ہی کرنا چاہئے، کون مسلمان ہے جو یہ کہنے کی جرات رکھا ہو کہ حدیث اگر قرآن کے صریح خلاف ہو تب بھی اسے مان لو۔؟‘‘

’’خلاف قرآن‘‘ والی بات کا جواب تو آگے آ رہا ہے، فی الحال ’’موافق قرآن‘‘ کے تعلق سے ہمارا الزامی سوال یہ ہے کہ موافق قرآن احادیث کو جو شخص مانتا ہے، کیا وہ احادیث کو مانتا ہے؟؟؟ ہر گز نہیں، وہ تو قرآن ہی کو مان رہا ہے۔ بھئی اگر موافق قرآن بات مکھن مسیح کی ہو یا رام داس کی، لینن کی ہو یا ماؤزے تنگ کی، یہودی کی ہو یا عیسائی کی، کسی گزشتہ نبی کی بات ہو یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی، ہم تو سب کی ہی مانیں گے۔ اور اس لئے نہیں مانیں گے کہ وہ مکھن مسیح یا رام داس کی بات ہے، یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے، بلکہ اس لئے مانیں گے کہ وہ درحقیقت قرآن کی بات ہے۔ لہٰذا فرق کیا ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اور دیگر تمام شخصیات میں؟

آج کوئی ہندو کہے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، چوری نہیں کرنی چاہئے۔ یا کوئی عیسائی اٹھے اور کہہ دے کہ ہمارا رب فقط ایک ہی ہے، یا کوئی یہودی کہے کہ خدا کا کوئی بیٹا نہیں، تو چونکہ ان کی یہ بات ’موافق قرآن‘ ہے لہٰذا ہم مان لیں گے۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم ہندوں، عیسائیوں یا یہودیوں کے پیروکار ہیں یا ان کی اطاعت کرتے ہیں؟ حاشا و کلا ہرگز نہیں۔ بلکہ ہم نے تو قرآن ہی کی بات مانی ہے نہ کہ اس ہندو، عیسائی یا یہودی کی۔

بعینہ جب کوئی شخص کسی حدیث کو دیگر تمام اصول و ضوابط کو ایک طرف رکھ کر، فقط اس معیار پر پرکھ کر مانتا ہے کہ چونکہ یہ حدیث قرآن کے مطابق ہے لہٰذا میں اس کو مانتا ہوں، تو دراصل وہ شخص قرآن کی ہی بات مان رہا ہے نا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ اور اس فلسفہ کی رو سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یعنی حدیث میں اور رام داس یا مکھن مسیح کی بات میں کوئی تفریق نہیں کر رہا۔ لہٰذا ہندو، عیسائی ، یہودی، کافر، عام مسلمان، گزشتہ نبی اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی تفریق قائم نہیں رہتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شارع، حاکم، قاضی، مربی، مزکی، مفسر قرآن سب حیثیتوں کا انکار کر کے انہیں ایک عام مسلم یا غیر مسلم کے برابر حق دیتے ہوئے یہ کہنا کہ ہم دیگر شخصیات کی طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی فقط وہی بات مانیں گے جو (ہماری عقل کے مطابق) موافق قرآن ہوگی، کس قدر سنگین گمراہی اور شدید جہالت ہے۔

خلاف قرآن احادیث:
اس فلسفہ کی بنیاد یہی ہے کہ ہر وہ حدیث جو قرآن کی کسی آیت کے خلاف ہو اسے رد کر دینا چاہئے۔ بظاہر یہ بہت ہی خوشنما اور نہایت ہی مسحور کن فلسفہ ہے۔ اور کسی حد تک درست بھی ہے، لیکن بباطن اس کی شناعت و قباحت اہل علم کے لئے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس اصول کے باطل ہونے کی چند اہم وجوہات ہیں:

۱۔ یہ فیصلہ کیسے کیا جائے گا کہ واقعی کوئی حدیث قرآن کے خلاف ہے یا نہیں؟ بعض اوقات بظاہر ایک حدیث قرآن کے خلاف معلوم ہوتی ہے، لیکن وہ ہوتی نہیں۔ مثال کے طور پر:

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ن یکون میتۃ اودما مسفوحا او لحم خنزیر فانہ رجس اوفسقا اھل لغیر اﷲ بہ فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فان ربک غفور الرحیم ‘‘۔(الانعام :145)
کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔
درج بالا آیت سے ثابت ہوا کہ کھانے پینے کی چیزوں میں کوئی چیز حرام نہیں سوائے مردار، بہتا ہوا خون ، سور کا گوشت اور وہ کھانا جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ اب درج بالا آیت سے ایک شخص یہ مفہوم مراد لے کہ بہتا ہوا خون تو حرام ہے لیکن وہ خون جو بہہ نہ رہا ہو وہ حلال ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو بہتا ہوا کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ اسی طرح کھانے پینے کی تمام چیزیں حلال ہیں، سوائے ان کے جو اس آیت میں بتا دی گئی ہیں۔ لہٰذا قرآن کی رو سے کتا، بلی، گدھا، چمگادڑ، مگرمچھ، چھپکلی، مینڈک، تمام درندے، نوچنے والے پرندے یہ سب حلال ہوئے۔ اوروہ احادیث جن میں درندوں اور نوچنے والے پرندوں وغیرہ کو کھانے کی ممانعت آئی ہے۔ وہ سب ’’خلاف قرآن‘‘ ہیں، لہٰذا ہمارے لئے حجت نہیں؟ تو بتائیے کہ ایسے شخص کی گمراہی میں کیا شک ہے؟

حالانکہ وہ شخص ’’خلاف قرآن و موافق قرآن‘‘ کے فلسفہ و اصول کے لحاظ سے بالکل درست بات کر رہا ہے، کیونکہ واقعی قرآن میں ان جانوروں کے حرام ہونے کی بابت کوئی آیت موجود نہیں۔ اور درج بالا آیت میں تو حصر ہے کہ سوائے ان چند چیزوں کے میں اور کوئی چیز حرام نہیں پاتا۔ جب اللہ نے حرام نہیں کیا، قرآن نے واضح کر کے بتا دیا کہ ان چیزوں کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں، تو جو حدیث ان چار چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز کو حرام قرار دے تو وہ حدیث ’’خلاف قرآن‘‘ ہوگی یا نہیں؟؟؟؟

اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس آیت میں عمومی طور پر مردار کو حرام قرار دیا گیا ہے ، جبکہ حدیث کہتی ہے کہ سمندر کا مردار (مچھلی) حلال ہے۔ گویا قرآن کی رو سے چار چیزیں حرام بقیہ سب حلال۔ حدیث کی رو سے ان چار کے علاوہ بھی سینکڑوں، ہزاروں چیزیں حرام قرار پاتی ہیں۔ گویا حدیث قرآن کی خصوص کی تعمیم کر رہی ہے۔ اور قرآن نے ان چار میں ہر مردار کو حرام کہا ہے، جبکہ حدیث قرآن کے عموم میں تخصیص کرتی ہے اور مچھلی کو حلال قرار دیتی ہے۔

اب ’’خلاف قرآن‘‘ والے فلسفہ کے حامی حضرات کو قرآن کی رو سے مچھلی حرام قرار دینی چاہئے اور درندے، کیڑے مکوڑے، رینگنے والے جانور وغیرہ سب حلال قرار دے دینے چاہئیں۔ اور اس مد میں آنے والی تمام احادیث کو ’’خلاف قرآن‘‘ قرار دے کر رد کر دینا چاہئے۔ لیکن جانے کیوں وہ ان مقامات پر تعارض کو رفع کرنے کے لئے احادیث کے انکار کا راستہ نہیں اپناتے بلکہ تاویل کا راستہ اپناتے ہیں۔ اور احادیث کو ’’خلاف قرآن‘‘ ہونے سے خود بچاتے پھرتے ہیں۔ایک سے بڑھ کر ایک نادر تاویلات لاتے ہیں۔ لیکن ان احادیث کو ’’خلاف قرآن‘‘ نہیں ہونے دیتے۔ اور جہاں کہیں حدیث قرآنی حکم زکوٰۃ کی تشریح میں یہ کہہ دے کہ زکوٰۃ کی شرح ڈھائی فیصد ہے، تو یہ ’’زائد از قرآن‘‘ ہونے کے باوجود ’’خلاف قرآن‘‘ کے فتویٰ کی زد میں آ جاتی ہے۔
اس طرز استدلال سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی نیک نیتی سے احادیث کا مطالعہ کرے تو انہیں ’’خلاف قرآن‘‘ قرار دے کر رد کرنے کے بجائے ان کی مناسب تاویل کر کے ’’مطابق قرآن‘‘ بنایا جا سکتا ہے۔ گویا کوئی حدیث درحقیقت ’’خلاف قرآن‘‘ یا ’’مطابق قرآن‘‘ نہیں ہوتی۔ بلکہ ان کے اخذ کردہ ’’خلاف مفہوم قرآن‘‘ یا ’’مطابق مفہوم قرآن‘‘ ہوا کرتی ہے۔ لہٰذا اصل معیار قرآن نہیں، بلکہ اس فلسلفہ کی عملی تطبیق practical implementation میں اصل معیار ان حضرات کی عقل ہی ہوتی ہے۔ ان کی عقل کسی مفہوم کو پہلے قرآن سے منسوب کر ڈالتی ہے اور پھر ہر حدیث ’’خلاف قرآن ‘‘ قرار دے کر رد کر دیتی ہے۔

۲۔ جو لوگ قرآن کو صاحب قرآن سے جدا کر کے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے لغت ضروری ہے۔ اور لغت کا یہ حال ہے کہ ایک ایک لفظ کے متعدد معنیٰ ہیں۔ اب کوئی شخص کسی آیت کی تشریح میں ان متعدد معانی میں سے اپنی مرضی کا ایک معنی منتخب کرے اور اسی کو قرآن کا منشاء بلکہ عین قرآن قرار دے ڈالے ۔ اور دوسرا شخص اسی آیت کی تشریح میں لغت سے اپنی مرضی کا ایک اور معنی منتخب کر لے جو پہلے کی ضد ہو اور اسے ہی درست قرآنی مفہوم قرار دے ڈالے۔ تو پہلے شخص کے نزدیک جو احادیث ’’خلاف قرآن‘‘ ٹھہریں گی ، دوسرے کے نزدیک وہی احادیث عین ’’موافق قرآن‘‘ ٹھہریں گی۔ نہیں سمجھے؟ یہ کوئی خیالی یا تصوراتی بات نہیں۔ عملاً بالکل یہی ہو رہا ہے۔ خلاف قرآن والے فلسفہ کی جس گروہ کی جانب سے تشہیر ہوتی ہے، وہ ’صرف قرآن‘ کو حجت ماننے کے باوجود اب تک لفظ ’’صلوٰۃ‘‘ کے معنی پر متفق نہیں ہو سکے ۔ اسی گروہ کے ایک نمائندہ کی جانب سے لگایا ہوا درج ذیل دھاگا ملاحظہ کیجئے:

اَلْمُرْجِفُوْنَ فِی الصَّلٰوۃ (یعنی) (مروجہ) نماز اسلام کے متعلق افواہیں اُڑانے والے

آپ کو معلوم ہوگا کہ کوئی بوہیو صاحب ہیں (یہ فقط قرآن کو حجت مانتے ہیں)۔ یہ قرآن میں جہاں بھی اقامت صلوٰۃ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان سے نظام ربوبیت یا دین الٰہی کا نفاذ قائم کرنا مراد لیتے ہیں ۔ اور ہماری مروجہ نماز پر جو اعتراضات کرتے ہیں، ان کی ایک جھلک یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ جبکہ دوسرے عبدالکریم اثری صاحب ہیں یہ بھی قرآن ہی کو حجت مانتے ہیں، اس کے باوجود یہ صلوٰۃ کے الفاظ سے مروجہ طریقہ عبادت یعنی نماز مراد لیتے ہیں۔ اب بوہیو صاحب کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنداً ثابت شدہ وہ سینکڑوں احادیث ’’خلاف قرآن‘‘ ہیں، جن میں صلوٰۃ بمعنی مروجہ طریقہ عبادت مراد لیا جا سکتا ہو، جن میں نمازوں کی تعداد ، رکعات، مسائل و احکام بتائے گئے ہیں۔ اور خلاف قرآن روایات کے فلسفہ کو ماننے والے دوسرے صاحب عنایت اللہ اثری کے نزدیک یہی سینکڑوں احادیث عین ’’مطابق و موافق قرآن‘‘ ٹھہرتی ہیں۔

قرآن وہی ہے، الفاظ میں ذرہ بھر اختلاف نہیں۔ لیکن اپنی مرضی کا معنی چن کر، ایک صاحب کے نزدیک سینکڑوں احادیث ’’خلاف قرآن‘‘ کی کیٹگری میں داخل ہو کر قابل تردید ٹھہریں، اور دوسرے صاحب کے نزدیک یہی احادیث ’’مطابق قرآن‘‘ کا درجہ پا کر قابل قبول ٹھہریں۔ جب صلوٰۃ جیسے اسلام کے اہم ترین رکن ، جس کے طریقہ عبادت ہونے کی صراحت و قطعیت بالکل اسی طرح ثابت ہے جیسے خود قرآن ثابت ہے، جب اس کے ساتھ ’’خلاف قرآن‘‘ فلسفہ کی آڑ میں سینکڑوں احادیث رد کی جا سکتی ہیں، تو دیگر معاملات میں جن کی باریکیاں عوام الناس سے اوجھل ہوتی ہیں، کیا کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا؟
۳۔ اس اصول میں تیسری خرابی یہ ہے کہ ثابت شدہ چیز کا انکار لازم آتا ہے۔ یعنی جو لوگ اس سوچ اور فلسفہ کے حامی ہیں، وہ کوئی بھی حدیث سنتے ہیں جو ان کی فکر کے خلاف ہوتی ہے تو بجائے اس کے کہ اس کی تاویل کر کے قرآن کے مطابق کوئی مفہوم متعین کر لیا جائے، وہ چھوٹتے ہی اس کا انکار کر ڈالتے ہیں، جو بہت بڑی گمراہی ہے۔ کیونکہ اس طرز کی سوچ سے خود قرآن کی بھی تغلیط و تنقید لازم آتی ہے۔
ابھی چند روز قبل ایک کتاب کے مطالعہ کے دوران ایک حدیث سامنے آئی جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ:

کچھ پتھر ایسے ہوتے ہیں جو خشیت الٰہی رکھتے ہیں۔

یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل صحیح طور پر ثابت ہے، میرا دل مطمئن ہو گیا کہ ایسے پتھر ضرور پائے جاتے ہوں گے۔ لیکن فوراً ہی سوچ میں پڑ گیا کہ اگر یہ حدیث ہمارے ان برادران کے ہاتھ لگی تو شاید وہ حدیث لکھ کر ارشاد فرمائیں گے کہ جناب عالی خشیت کے لئے دل ، دماغ، سوچ، روح وغیرہ درکار ہوتی ہے، اور قرآن سے کہیں ثابت نہیں کہ پتھروں میں یہ چیزیں ہوتی ہیں، اسی طرح سائنس اور عمومی عقل بھی اس کی تردید کرتی ہے۔ لہٰذا یہ حدیث خلاف قرآن ہے اور ناقابل حجت ہے۔

میں خود ہی سوچتا رہا کہ ایسے افراد کو کیا جواب دیا جا سکتا ہے۔ اور سچی بات ہے کہ کوئی معقول سائنسی یا لاجیکل توجیہہ نہیں سوچ پایا۔ لیکن پھر آخری جواب یہی سوجھا کہ اگر ہر شے کو سائنس اور عقل کی میزان پر تول کر ہی قبول کرنا ہے تو پھر قرآن نے جو یؤمنون بالغیب ، غیب پر ایمان لانے کا تقاضا کیا ہے، وہ کہاں رہا؟ سائنس اور عقل کی میزان میں تول کر تو غیر مسلم بھی چیزوں کو قبول و رد کردیتے ہیں۔ کیا ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو بھی اسی پیمانہ پر جانچیں گے؟؟؟ کل تک درخت بے جان مخلوق تھے، اور آج سائنس کے یو ٹرن لینے سے معلوم ہوا کہ وہ جاندار ہیں، حتیٰ کہ خوشی اور غم بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ گویا کل تک کچھ باتیں ’’خلاف عقل‘‘ تھیں ، لہٰذا کئی احادیث ’’خلاف قرآن‘‘ قرار پا رہی تھیں، اور آج وہی احادیث ’’مطابق عقل ‘‘ ہونے کی وجہ سے ’’موافق قرآن‘‘ قرار پا رہی ہیں۔ عین ممکن ہے کل کو سائنس کچھ خاص قسم کے پتھروں میں بھی زندگی کی رمق ڈھونڈ لے، تب درج بالا حدیث ’’موافق قرآن‘‘ ہونے کی وجہ سے قابل قبول ہوگی، تب تک کے لئے اسے ’’خلاف قرآن‘‘ کی کیٹگری میں رہنے دیا جائے۔ لیکن اگر سائنسی تحقیق سامنے آ جانے کے بعد مانا تو رسول کی بات تو نہ مانی ، پھر تو سائنس کی بات مانی۔ اطاعت یا ایمان بالغیب بھی نہ رہا۔

یہ سوچ کا فرق بھی خصوصیت سے اسی فلسفہ کی دَین ہے۔ کہ چھوٹتے ہی حدیث کو خلاف قرآن قرار دے کر رد کر دیا جائے، نہ تاویل کی ضرورت، نہ ایمان بالغیب کے تقاضا کی کوئی اہمیت۔ فکر کی بات ہے کہ ہمیں کوئی ماہر فن یہ بتائے کہ پانی کے ایک قطرے میں کئی بلین ایٹم کے ذرات پائے جاتے ہیں، کوئی تحقیقاتی رپورٹ شائع ہو کہ انسان کے مر جانے کے بعد بھی دماغ بیس منٹ کے لئے زندہ رہتا ہے، کوئی انجینئرنگ فرم اعلان کر دے کہ انسان کے دماغ سے کمانڈز وصول کی جانی ممکن ہیں، تو ہم تعجب و حیرت کے باوجود مان لیتے ہیں کہ امریکہ سے رپورٹ شائع ہوئی ہے ، ضرور مستند ہوگی۔ ڈاکٹرز کی ٹیم بیٹھی تھی تو یہی بیماری رہی ہوگی، بہت بڑا سائنسدان ہے تو تحقیق درست ہوگی۔ حالانکہ یہ تحقیقات ہمارے روزمرہ کے مشاہدہ کے خلاف بھی ہوتی ہیں اور کئی تحقیقاتی یو ٹرنز بھی ہمارے سامنے ہو چکے ہیں۔

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کوئی بات بتائیں تو جب تک ہماری عقل و دانش میں نہ سمائے ہم بھلا کیسے مان سکتے ہیں۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ عقل کے خلاف کا مطلب خلاف قرآن تو نہیں ہوتا۔ عملاً صورتحال یہی ہے کہ جو چیز خلاف عقل معلوم ہو، چاہے وہ زائد از قرآن ہی کیوں نہ ہو اسے خلاف قرآن قرار دے دیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ دیکھئے کہ اوپر ختنہ اور نماز جنازہ بھی زائد از قرآن کی فہرست میں داخل ہیں، لیکن اس طرز کی احادیث کو مان لینے میں ہمارے بھائیوں کو کوئی تامل نہیں۔ یہ زائد از قرآن ہونے کے باوجود خلاف قرآن کی فہرست میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ عقل کے خلاف نہیں۔ مان لینے میں کچھ حرج نہیں۔ لیکن ’’پتھر روتا ہے‘‘، ٹائپ حدیث ماننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، اسے زائد از قرآن کیٹگری میں داخل نہیں کیا جا سکتا، اسے تو کسی نہ کسی طرح ’’خلاف قرآن‘‘ ہی ثابت کرنا پڑے گا۔۔۔!!!

۴۔ اس فلسفہ سے جڑی ایک اور گمراہی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ شارح قرآن، مفسر قرآن ہیں۔ اور شرح و تفسیر میں یقیناً قرآنی الفاظ سے تجاوز کر کے ہی کچھ نہ کچھ کہا جاتا ہے۔ اگر قرآنی الفاظ ہی پیش کر دئے جائیں تو وہ تو فقط تلاوت قرآن یا ترجمہ قرآن قرار پا سکتے ہیں، تفسیر نہیں کہلا سکتے۔ لہٰذا وہ تمام احادیث جو قرآن کے احکامات کی تشریح میں منقول ہیں، انہیں تفسیر قرآن کے وقت سامنے نہیں رکھا جاتا۔

مثال کے طور پر، قرآن کی کسی آیت کے دو مفہوم برآمد کئے جا سکتے ہوں۔ اور پہلے مفہوم کی تائید میں کئی احادیث موجود ہیں۔ جبکہ دوسرے مفہوم کی تائید میں کوئی حدیث موجود نہیں۔ تو نیکی اور دیانت کا تقاضا تو یہ ہے کہ آیت کا وہی مفہوم مراد لیا جائے جس کی تائید میں کوئی حدیث موجود ہو۔ لیکن اس فلسفہ کے حاملین قرآن کی تفسیر کرتے وقت احادیث کو بالکل درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ اپنی عقل و فکر سے ایک مفہوم متعین کرتے ہیں اور پھر کوئی شخص اگر جواباً حدیث پیش کر دے کہ جناب عالی آپ نے جو مفہوم مراد لیا ہے وہ درست نہیں، کیونکہ فلاں فلاں احادیث اس مفہوم کے خلاف ہیں۔ تو بجائے اس کے کہ وہ مجتہد صاحب اپنی عقل کو حدیث کے سامنے جھکا دیں، حدیث کو ’’خلاف قرآن‘‘ قرار دے کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ حدیث اصلاً خلاف قرآن تھی ہی نہیں، حدیث تو اس مفہوم کے خلاف تھی، جسے زبردستی قرآن کے گلے مڑھ دیا گیا تھا۔

مثال یہ ہے کہ قرآن چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ہے۔ فاقطعو ایدیھما۔ اب خلاف قرآن فلسفہ والے گروہ کی ایک بہت بڑی نمائندہ شخصیت اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ قطع کا مطلب ہاتھ کاٹنا ہی نہیں، ہاتھ زخمی کرنا بھی ہو سکتا ہے اور یہ محاورہ بھی ہو سکتا ہے کہ جیسے قطع لسان کا مطلب ہوتا ہے زبان درازی سے روک دینا، ایسے ہی قطع یدسے مراد یہ ہو سکتا ہے کہ ہاتھوں کو روک دو، یعنی چور کو جیل میں ڈال دو تاکہ آئندہ چوری سے باز آ جائے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سزا صرف عادی مجرم کو دی جائے نا کہ پہلی دفعہ چوری کرنے والے کو۔ اب تاویلات کا یہ انبار دیکھئے، لغت کی تمام کتب قطع ید کا معنی ہاتھ کاٹنا ہی بتاتی ہیں۔ احادیث میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چور کے ہاتھ کٹوائے اور فرمایا میری بیٹی بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ کٹوا دئے جاتے۔ اب بجائے قرآن کی اس آیت کا مفہوم سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعین کیا جائے، الٹا قرآن کی آیت کا من چاہا مفہوم کھرچ کھرچ کر برآمد کرتے ہیں اور پھر ایسی تمام احادیث جن میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ثابت ہو سکتی ہے، ’’خلاف قرآن‘‘ قرار دے کر رد کر دی جاتی ہے۔۔!!!
بھلا بتائیے اس گمراہی کا کیا علاج؟ کیا یہ شدید ترین عقل پرستی نہیں؟ میری عقل میں قرآن کا جو مفہوم سمائے ، وہی قرآن قرار پا جائے اور رہیں احادیث تو ان کا کیا ہے، جب قرآن کا مفہوم میری عقل کے مطابق طے ہو گیا ہے تو اب سب احادیث ’’خلاف قرآن‘‘ کی ایک تلوار سے رد کی جا سکتی ہیں۔

۵۔ اس فلسفہ میں ایک اور سنگین قباحت یہ ہے کہ کوئی شخص جانتے بوجھتے قرآنی مفاہیم کے غلط معنی نہ بھی کرے ، بلکہ خوب دیانت اور نیک نیتی سے قرآن کا مطالعہ کرے، لیکن چونکہ ہمارے ذہن، عقل و فکر اور سوچ پر خارجی اثرات بہرحال اپنا اثر چھوڑتے ہیں، عین ممکن ہے کہ کوئی شخص نیک نیتی سے مطالعہ کے دوران بھی قرآنی آیات کے غلط مفاہیم سمجھ بیٹھے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی قرآنی آیات کا مطلب و مراد سمجھنے میں اختلاف ہو جایا کرتا تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا درست منشاء پوچھ لیا کرتے تھے۔ اب یہ نیک شخص مطالعہ قرآن میں خارجی اثرات، لغت ، اصطلاحی اور لفظی معانی میں تفریق، شان نزول سے ناواقفیت یا بحیثیت مجموعی قرآنی تعلیم پر نظر نہ ہونے کی وجہ سے کسی آیت سے اللہ تعالیٰ کی منشاء کے خلاف مفہوم برآمد کر لیتا ہے تو اگر یہ شخص اسی ’’فلسفہ خلاف قرآن‘‘ کا حامی ہے تو یقیناً اپنی اس نیک نیتی کے باوجود وہ گمراہ ہی رہے گا کیونکہ وہ اپنی طرف سے قرآن کی اطاعت کی شدید کوشش میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’خلاف قرآن‘‘ سمجھ کر رد کرتا رہے گا، اور بجائے اس کے کہ مستند احادیث رسول ﷺ کو درست معانی تک پہنچنے کے لئے زینہ کے طور پر استعمال کرے وہ اس ماخذ شرعی کا انکار کر کے گمراہی کی عمیق دلدل میں دھنستا رہے گا۔ اور آہستہ آہستہ اسے اپنے طرز فکر اور سوچ پر، قرآن فہمی اور اطاعت الٰہی کے جذبہ پر اتنا اعتماد ہو جائے گا کہ پھر اس کے لئے اس فلسفہ کے مخالف کسی بات کا قبول کر لینا ، بلکہ اس پر سوچنا تک گوارا نہیں ہوگا۔

اور میری رائے میں اس فلسفہ کی زد میں گمراہوں کی اکثریت اسی قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ شاید وہ نیک نیتی ہی سے قرآن کو پڑھتے ہوں گے، اطاعت الٰہی کا جذبہ بھی صادق ہوگا، لیکن وحی الٰہی کی روشنی بصورت احادیث ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے وہ گمراہ ہیں اور دوسروں کی گمراہی کا بھی سبب بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ان تمام بھائیوں کو بس بلا تعصب غور و فکر کی توفیق دے دے ، کیونکہ یہ پڑھے لکھے ذہین لوگ ہیں، اگر ایک دفعہ یہ چنگاری ان کے دل میں پیدا ہو جائے تو شاید ہم سے بڑھ کر حق کے طرفدار نکلیں۔ آمین یا رب العالمین۔۔۔


اب ہم اس ’فلسفہ خلاف قرآن ‘ کی تردید قرآن سے مختلف قسم کی مثالیں لے کر کرتے ہیں:

قرآن کے ناقابل عمل احکامات:
قرآن میں کچھ احکامات ایسے ہیں کہ جب تک ان کی درست توضیح حدیث سے نہ سمجھی جائے ان پر عمل ہی نہیں کیا جا سکتا۔ فی الوقت یہ مثال پیش خدمت ہے:

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ [البقرۃ: ۱۵۰]
اور اے رسول! جہاں کہیں آپ جا رہے ہوں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیا کریں اور اے مومنو! جہاں کہیں تم ہو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیا کرو۔
اب بتائیے، کہ اس قرآنی حکم پر کیسے عمل کیا جائے۔ یہاں صیغہ بھی امر کا ہے، یعنی حکم دیا جا رہا ہے۔ جہاں کہیں جائیں، جہاں کہیں ہوں،چلتے پھرتے، بحالت سکون، اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کیسے کیا جا سکتا ہے؟

اور اب بخاری و مسلم کی وہ حدیث ذہن میں لائیں کہ پیشاب و پاخانہ کے وقت اپنا منہ قبلہ کی طرف مت کیا کرو؟

قرآن کہتا ہے کہ ہر وقت منہ قبلہ رخ ہونا چاہئے، جب کہ حدیث اس عموم کی تخصیص کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ کچھ خاص حالتوں میں منہ قبلہ رخ نہیں کرنا چاہئے۔ کیا اس حدیث کو ’’خلاف قرآن‘‘ قرار دے کر رد کر دیا جائے؟؟؟؟

لہٰذا معلم کتاب و حکمت سے رجوع کرنا لازم ہے۔۔! اور یہ فلسفہ خود باطل ہے۔

مختصراً ایک مثال اور دیکھ لیجئے::

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا [البقرۃ: ۲۳۴]
جو مرد تم میں سے مر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو ان کی بیویوں کو چار مہینے اور دس۔۔۔عدت میں بیٹھنا چاہئے۔
کیا آپ قرآن مجید سے بتا سکیں گے کہ یہ دس کیا ہیں؟ سال یا مہینے؟ ہفتے یا دن؟ گھڑیاں یا گھنٹے؟

اب ایک شخص یہاں دس سے مراد ہفتے لے، کہ قرآن کا منشا یہ ہے کہ چار مہینے اور دس ہفتے خواتین کو عدت میں بیٹھنا چاہئے۔ اور وہ تمام احادیث ’’خلاف قرآن‘‘ کہہ کر رد کرتا جائے جن میں اس آیت کی درست وضاحت اور مفہوم ’’دس دن‘‘ مراد لیا جا سکتا ہو، تو ایسے شخص کی ضلالت میں کوئی امر مانع ہے؟؟

خلاف قرآن آیات:
جی ہاں، آپ نے درست پڑھا ہے۔ یہ ٹائپنگ کی غلطی نہیں ہے۔ ہم یہاں خلاف قرآن آیات ہی کی بات کرنے لگے ہیں۔ خلاف قرآن کا جو فلسفہ پیش کیا جاتا ہے، اس کی زد صرف احادیث پر نہیں پڑتی ، بلکہ خود قرآن کی کئی آیات بھی اس کی زد میں آتی ہیں۔ لہٰذا یہ عنوان اور اس میں موجود تمام بحث مخالفین کے طرز پر الزاماً پیش کی جا رہی ہے۔ ورنہ ہمارا عقیدہ نہ خلاف قرآن آیات کا ہے اور نہ خلاف قرآن احادیث کا۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی حدیث قرآن کی کسی مجموعی تعلیم کے خلاف ہو تو اسے موضوع (گھڑی ہوئی، جھوٹی) کہہ کر رد کیا جاتا ہے تو اگر قرآن کی کوئی آیت ایسی ہو جو قرآن کی مجموعی تعلیم کے خلاف ہو تو کیا اسے بھی سازش قرار دے کر قرآن سے باہر نکالا جا سکتا ہے؟؟؟ (نعوذباللہ، ثم نعوذباللہ)۔۔!!! اگر وہ آیت اس معیار پر موضوع قرار نہیں دی جا سکتی تو حدیث کو کیوں موضوع قرار دیا جاتا ہے؟؟ آپ یقیناً یہی سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا تو ممکن نہیں کہ کوئی آیت ہی قرآن کی مجموعی تعلیم کے خلاف ہو جائے۔ آئیے قرآن سے اس کا کچھ جائزہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

۱۔ ہر مسلم جانتا ہے کہ قرآن ہدایت و نور کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب سے محبت کرتے ہیں اور اللہ نیک و متقی لوگوں کو ہی پسند کرتا ہے۔ قرآن روشن کتاب ہے جو لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کے بندوں کے لئے نازل کی گئی ہے تاکہ لوگ اس پر ایمان لائیں اور ایمان لا کر ہدایت پائیں۔ یہ ہے قرآن کی مجموعی تعلیم، لیکن ایک آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَّيَهْدِي بِهِ كَثِيراً [البقرۃ: ۲۶]
اللہ اس (قرآن) کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے۔
تو کیا ہم یہ مان لیں کہ قرآن ہدایت کی بھی کتاب ہے اور گمراہی کی کتاب بھی ہے؟ کیا گمراہی کی نسبت قرآن کی جانب کر کے آج کے بعد ہم غیر مسلموں کو یہ کہا کریں کہ آؤ قرآن کا مطالعہ کرو اس سے ہدایت بھی ملتی ہے اور گمراہی بھی ملا کرتی ہے؟؟ (نعوذباللہ)، کیا اللہ نے اسی لئے روشن کتاب نازل کی کہ اپنے بندوں کو (اور وہ بھی بہت سوں کو) اسی روشن کتاب ہی کے ذریعے سے گمراہ کر دے؟ کیا اللہ یا قرآن کو ضال (گمراہ کرنے والا) اور قرآن پر ایمان رکھنے والوں کو مضل (گمراہ ہونے والے) کا خطاب دیا جائے؟؟ (نعوذباللہ ، ثم نعوذباللہ)۔۔!!! قرآن پر ایمان لانے کا کیا فائدہ جب ایمان لائے بغیر بھی گمراہی ملتی ہے اور ایمان لا کر بھی کیا پتہ گمراہی ہی ملے؟؟ ؟ معاذاللہ۔

یقیناً اس مفہوم کے ساتھ یہ آیت قرآن کی مجموعی تعلیم کے خلاف ہے۔ اور اس آیت کے درج بالا مفاہیم ہرگز نہیں لئے جا سکتے۔ اور نہ نعوذباللہ اس آیت کا انکار کیا جا سکتا ہے یا اسے موضوع کہا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس آیت کی مناسب تاویل کر کے اسے قرآن کی مجموعی تعلیم کے مطابق بنا کر ’’موافق قرآن‘‘ کی فہرست میں لایا جاتا ہے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کا کام ہدایت کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اوپر فرض کر لیا ہے ، ملاحظہ ہو یہ آیت:

إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَى [واللیل: ۱۲]
ہدایت دینا ہمارے ذمہ ہے۔
تو گویا تعلیمات قرآنی کا مسلمہ اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کرتا ہے۔ اب درج ذیل آیات بھی ملاحظہ فرمائیے:
أَن تَهْدُواْ مَنْ أَضَلَّ اللّهُ وَمَن يُضْلِلِ اللّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيل [النساء: ۸۸]
کیا تم اس شخص کو ہدایت کرنا چاہتے ہو جس کو اللہ نے گمراہ کر دیا ہے۔ اور جس شخص کو اللہ گمراہ کردے تو اس کے لئے کبھی بھی رستہ نہیں پاؤ گے
گویا یہ آیت بھی قرآن کی مجموعی تعلیم کے خلاف جا رہی ہے (نعوذباللہ) کیونکہ گمراہی کی نسبت اللہ کی جانب کی گئی ہے اور یہ آیت پہلی آیت سے بھی متعارض ہے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ النساء: ۸۸ آیت چونکہ قرآن کی مجموعی تعلیم کے خلاف ہے لہٰذا یہ آیت کسی اسلام دشمن نے گھڑ کر قرآن میں داخل کر دی ہے ۔۔ (نعوذباللہ)۔۔!؟

اسی قسم کی یہ آیت بھی ہے:
فَمَن يُرِدِ اللّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلاَمِ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ[الانعام: ۱۲۵]
تو جس شخص کو اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے اس طرح اللہ ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے عذاب بھیجتا ہے
یہ آیت بھی منکرین کے طرز پر بظاہر قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔ بھلا وہ رحمٰن و رحیم اپنے کسی بندے کا کیونکر دشمن ہوگا کہ اسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرے؟ اور پھر عذاب بھی دے گا حالانکہ ان کا سینہ تنگ بھی اس نے خود ہی کیا ہے؟؟؟ تو کیا ہم اس آیت کو قرآن سے باہر نکال دیں ، انکار کر دیں یا اس کی مناسب تاویل کر کے دیگر قرآنی تعلیمات سے ہم آہنگ کر لیں؟؟؟

۳۔ قرآن کی درج ذیل آیت کریمہ ملاحظہ ہو:

وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَى مِئَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ [الصّٰفّٰت: ۱۴۷]
اور رسول بناکر بھیجا تھا ہم نے اسے ایک لاکھ یا اس سے کچھ زائد لوگوں کی طرف۔
اب درج بالا آیت کو بنیاد بنا کر کیا اللہ تعالیٰ کے علم پر اعتراض نہیں ہو سکتا؟ کیا اللہ تعالیٰ کو درست تعداد معلوم نہ تھی (نعوذباللہ)؟؟ کیا یہ آیت کسی سازش کے نتیجہ میں قرآن میں داخل ہو گئی ہے؟ کیا وحی الٰہی میں حسابی Mathematical شکوک ہوسکتے ہیں؟ کیا یہ آیت اپنے مفہوم کے لحاظ سے ظنی تو نہیں ہو گئی، کیونکہ تعداد میں قطعیت تو بہرحال نہیں ہے؟ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بالا تر ہے کہ اسے زمین کے کسی ایک ذرہ پر بھی ناقص علم ہو، چہ جائیکہ ایک نبی کی قوم کے افراد کی تعداد ہی اس سے مخفی رہ جائے؟؟؟ ۔۔[نعوذباللہ]

اپنے دل میں جھانکئے، اگر ایسی ہی شک والی بات کسی حدیث میں مروی ہو تو کیا آپ اس حدیث کا فوری انکار تو نہیں کر دیں گے؟ تو پھر قرآن کے بارے میں بھی وہی رویہ کیوں نہیں اپنا لیتے؟

حقیقت یہ ہے کہ آیت ہو یا حدیث، ہم اس کی تاویل کر کے اس کے درست معنی متعین کرنے کی کوشش کریں گے نا کہ ایمان و تقویٰ کے خلاف انکار کا راستہ اپنائیں گے۔ کیونکہ ثابت شدہ چیز کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔


۴۔ ایک آیت ملاحظہ کیجئے:

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ [الانفال: ۶۷]
نبی کے لئے یہ زیبا نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں خوب خون ریزی نہ کرے۔
یہ آیت بھی قرآن کی مجموعی تعلیم کے بالکل خلاف معلوم ہوتی ہے (نعوذباللہ) کیونکہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اسلام خونریزی کو بہت پسند کرتا ہے۔ اور اتنا پسند کرتا ہے کہ اپنے نبی کی شان سے بعید سمجھتا ہے کہ وہ لوگوں کا خون بہانے کے بجائے انہیں قیدی بنا لے۔ اس آیت کے ظاہری معنوں سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا تصور پیدا ہوتا ہے؟ کیا ہم مان لیں کہ یہ آیت کسی عجمی سازش کا نتیجہ ہے اور انکار کر ڈالیں اس آیت کے کلام الٰہی ہونے کا؟ نعوذباللہ، ثم نعوذباللہ۔

یا سلامتی کی راہ پر چلتے ہوئے اس آیت کی تاویل پیش کریں؟؟؟ جب آیت قرآن کی مجموعی تعلیم کے خلاف محسوس ہو تو ظاہری معنوں کو ہم تاویل کے ذریعہ کسی قسم کے باطنی معنوں میں پھیر دیتے ہیں، سابقے لاحقے لگا کر ، اور کبھی شان نزول بتا کر، کبھی عموم کی تخصیص کر کے اور کبھی خصوص کی تعمیم کر کے ہم آیات کے معانی ، تشریح، تفسیر یا تاویل کر کے اس پر سے اعتراضات کی گرد و غبار کو صاف کرنے کی اتنی تگ و دو کرتے ہیں، تو حدیث کو سنتے ہی کیوں ’’خلاف قرآن‘‘ قرار دے کر رد کر دیں؟؟؟


۵۔ قرآن کی مجموعی تعلیم ہے کہ رسول ﷺ کے اخلاق بہت عمدہ ہیں، اور ہمیں انہی کے اسوہ کی پیروی کا بھی حکم ہوا ہے۔ مثلاً قرآن کی یہ آیت دیکھیں:

وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ[القلم:۴]
اور (اے رسولﷺ!) آپ کے اخلاق عظیم الشان ہیں۔
اور دوسری طرف قرآن ہی میں درج ذیل آیات بھی موجود ہیں:
عَبَسَ وَتَوَلَّى. أَن جَاءَهُ الْأَعْمَى[عبس: ۱۔ ۲]
(رسول نے) تیوری چڑھائی اور بے رخی برتی جب اس کے پاس ایک نابینا آیا۔
بتائیے کہیں اس آیت میں توہین رسالت تو نہیں، معاذاللہ۔ ایک ایسے رسول ﷺ جس کے اخلاق عظیم الشان ہوں، اور جن کے اسوہ کی پیروی امت پر لازم ہو، کیا اس سے ایسی بداخلاقی (نعوذباللہ) کی توقع کی جا سکتی ہے؟
اسی ضمن میں درج ذیل آیات بھی ملاحظہ ہوں:
إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا. لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا[الفتح: ۱، ۲]
بے شک ہم نے آپ کو کھلم کھلا فتح دی تاکہ اللہ تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کردے اور تمہیں سیدھے رستے چلائے
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ [محمد: ۱۹]
پس جان لو کہ سوائے الله کے کوئی معبود نہیں اور اپنے اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگیئے اور الله ہی تمہارے لوٹنے اور آرام کرنے کی جگہ کو جانتا ہے
ان سب آیات کا خلاصہ یہ نکلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاذاللہ، ثم معاذاللہ گناہ گار تھے؟؟ جس امت کے رسول کو خود اللہ حکم دے رہا ہو کہ اپنے گناہوں پر معافی مانگو (معاذاللہ)، اس امت کا اپنا حال کیا ہوگا؟ کہیں یہ آیات توہین رسالت (معاذاللہ) پر مبنی تو نہیں؟ کیا ہم ان آیات کو قرآن سے نکال دیں؟ کہیں یہ عجمی سازش سے قرآن میں تو نہیں داخل کر لی گئیں؟؟؟ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ

غرض جیسی جذباتی تقاریر کر کے احادیث کے ظاہری الفاظ کو خلاف عقل، خلاف سائنس، خلاف قرآن قرار دیا جاتا ہے اور پھر ان کی تاویل و تشریح کی فکر کے بجائے بس آسان راستہ سے ان کا انکار کر کے جان چھڑائی جاتی ہے، کیا آیات پر اعتراضات کے ضمن میں بھی یہی کرنا چاہئے؟ نہیں تو کیوں؟ اور ہاں تو وہی کام حدیث کے لئے کیوں نہیں کیا جا سکتا؟؟
خلاصہ:

درج بالا پوری بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ محدثین کرام نے احادیث کی صحت اور جانچ پرکھ کے جو کڑے اصول و ضوابط بنا دئے ہیں وہ بالکل کافی و شافی ہیں۔ ان تمام اصول و قوانین اور علوم سے بے پروا ہو کر فقط اپنی عقل کے بھروسہ پر کسی حدیث کو ’’خلاف قرآن‘‘ قرار دے کر رد کر دینا ہی انکار حدیث کہلاتا ہے اور یہ سخت ترین گمراہی اور شدید ضلالت ہے۔

اس فلسفہ خلاف قرآن و موافق قرآن کے نہ تو کوئی اصول و ضوابط ہیں، نہ اس کی کوئی جامع مانع تعریف ہے، نہ اس کی کبھی کوئی حدود بیان کی جاتی ہیں، نہ اس فلسفہ کو عملاً implement کرتے وقت کسی قسم کی شرائط کا خیال رکھا جاتا ہے، نہ یہ کوئی باقاعدہ مستند فن یا علم ہے کہ جس کی بنیاد پر جانچا جا سکے کہ آیا واقعی کوئی حدیث خلاف قرآن ہے یا اسے بنا دیا گیا ہے۔ نہ اس فن یا علم یا اصول کو باقاعدہ سیکھا سکھایا جاتا ہے۔ یہ فلسفہ سراسر ظنی ہے، اور اس کی implementation اس سے بڑھ کر ظنی ہے۔ اور فقط عقلی بنیادوں پر استوار ہے۔ اور یہ ہر شخص جانتا ہے کہ عقل میں فرق مراتب ہوتا ہے، کسی کے پاس ذہانت زیادہ ہوتی ہے ، تو وہ تطبیق کر کے احادیث و آیات کے موافق قرآن مفاہیم اخذ کر لیتا ہے، کسی کے پاس ذہانت کی کمی ہوتی ہے اور وہ انہی آیات و احادیث کو قرآن کی مجموعی تعلیم کے خلاف سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔
محدثین کے اصولوں پر آج بھی احادیث کی جانچ پرکھ کی جا سکتی ہے، وہ اصول اور فن مدون ہیں، ان کی درس و تدریس کے ذریعے امت تک متواتر منتقلی ہوئی ہے، جبکہ یہ ’’خلاف قرآن‘‘ یا ’’موافق قرآن‘‘ کہہ کر حدیث کے رد و قبول کا معیار بالکل باطل ہے، اور اس کے بطلان پر اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ خود قرآن کی کئی آیات اس معیار پر پوری نہیں اترتیں۔

لہٰذا حدیث کو ایسے معیار پر جانچنا، جس پر خود قرآن پورا نہ اتر سکے، یہ واضح کر دیتا ہے کہ یہ معیار خود باطل ہے اور احادیث کی تصحیح و تضعیف کے لئے اسی علم و فن پر اعتماد کیا جائے جس پر امت گزشتہ چودہ صدیوں سے اعتماد کرتی چلی آ رہی ہے۔ جس طرح ہم قرآنی آیات کے لئے تاویلات کر کے ان کے درست معنی و مفہوم تک پہنچنے کی سعی کرتے ہیں، ہمیں احادیث کے لئے بھی وہی کچھ کرنا چاہئے کیونکہ:
ثابت شدہ چیز کا انکار نہیں کیا جاتا۔



اوپر آپ وہ حدیث پڑھ آئے کہ پتھروں میں خشیت الٰہی ہوتی ہے، وہ دراصل احسن الحدیث تھی، جسے حدیث کے تعلق سے ایک اہم بات سمجھانے کے لئے بیان کیا گیا تھا۔ اب یہ احسن الحدیث باحوالہ ملاحظہ کیجئے:

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ [البقرۃ: ۷۴]
پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے۔ گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔ اور پتھر تو بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں، اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں،اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے، اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں، اور اللہ تمہارے عملوں سے بے خبر نہیں۔

اس مثال سے مقصود یہ تھا کہ ہم اپنا محاسبہ کر سکیں ، ایسا تو نہیں کہ حدیث پڑھ کر گھٹن پیدا ہو، دل انکار و تنقید پر مائل ہوا ہو اور جب وہی مفہوم قرآن سے ثابت ہو جائے تو طبیعت تاویل کی فکر میں مبتلا ہوئی ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو مبارک ہو آپ کو اسی دار الاعمال میں اپنے منہج اور فکر کی اصلاح کا وہ موقعہ مل گیا ہے جو بہت کم خوش نصیبوں کو ملتا ہے۔ اور اگر ثابت شدہ حدیث ہو یا آیت، آپ کا دل اس پر ایمان لے آیا ہو، تو مبارک ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو راست فکر عطا کی ہے اور آپ مبادیات دین کے ایک نہایت اہم شرعی مسئلے کی تفہیم میں دوغلے پن سے محفوظ ہیں۔ والحمدللہ ۔


یہ مضمون نہایت جلدی میں تحریر کیا ہے، اس لئے ترتیب اور تہذیب میں کمی بیشی کو درگزر فرماتے ہوئے فقط مفہوم پر نظر رکھیں۔ اس میں اگر کچھ بھی کمال و خوبی ہے تو وہ فقط اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی نقص اور خامی ہے تو وہ مجھ گناہ گار اور شیطان کی طرف سے ہے۔ اگر ہماری بات سے آپ کو اختلاف ہو تو بدلائل تردید کیجئے ، غلطی پر مطلع ہونے کے بعد اسے قبول کرنے میں ایک لحظہ کی تاخیر بھی ہماری طرف سے نہیں ہوگی۔ان شاءاللہ۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
اگر زائد از قرآن حدیث حجت نہیں ہے تو پھر ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور گزشتہ انبیاء پر ایمان لانے میں کیا فرق رہا؟ جیسے ہم گزشتہ انبیاء پر زبانی ایمان لاتے ہیں، ان کی نبوت کی تصدیق و تائید کرتے ہیں، لیکن عملاً ان کی پیروی نہیں کرتے۔ کیا صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے بھی یہی مراد ہے؟ کہ زبانی تصدیق کی جائے، دل میں ایمان رکھا جائے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، لیکن عملاً اتباع نہ کی جائے؟؟؟
ماشاءاللہ ۔جو شخص عقل رکھتا ہے اس کے لئے بہت ہی لاجیکل سوال ہے ۔سوچنے پر مجبور کرنے والا سوال ہے اگر تعصب نہ ہو تو !!

جزاک اللہ راجا بھائی لکھتے رہیے۔
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
آپ نے لکھا "
کچھ پتھر ایسے ہوتے ہیں جو خشیت الٰہی رکھتے ہیں۔

یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل صحیح طور پر ثابت ہے، میرا دل مطمئن ہو گیا کہ ایسے پتھر ضرور پائے جاتے ہوں گے۔"

محترم بھائی جب کوئی منکرین حدیث زبان درازی کرے گا تو آپ یہ ایت پڑھ دینا۔۔۔۔

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً ۭ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاۗءُ ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس بھی زیادہ سخت ہوگئے بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔
(سورہ البقرہ:٧٤)

اگر یہ حدیث ہے تو یہ تو بلکل قرآن کے الفاظ کے مطابق ہے۔۔۔
و ان منها لما يهبط من خشية الله
اور بعض اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں۔۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
آپ نے لکھا "
کچھ پتھر ایسے ہوتے ہیں جو خشیت الٰہی رکھتے ہیں۔

یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل صحیح طور پر ثابت ہے، میرا دل مطمئن ہو گیا کہ ایسے پتھر ضرور پائے جاتے ہوں گے۔"

محترم بھائی جب کوئی منکرین حدیث زبان درازی کرے گا تو آپ یہ ایت پڑھ دینا۔۔۔۔

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً ۭ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاۗءُ ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس بھی زیادہ سخت ہوگئے بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔
(سورہ البقرہ:٧٤)

اگر یہ حدیث ہے تو یہ تو بلکل قرآن کے الفاظ کے مطابق ہے۔۔۔
و ان منها لما يهبط من خشية الله
اور بعض اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں۔۔۔۔
جزاک اللہ خیرا جانی اعوان بھائی۔
دراصل یہ مضمون ایک دوسرے فورم کے لئے لکھا تھا جہاں منکرین حدیث حضرات فعال تھے۔
اس حدیث کے تعلق سے ایک پیراگراف جان بوجھ کر اپنے مضمون میں چھوڑ دیا تھا اور توقع یہ تھی کہ ان کا جواب آنے کے بعد اس پر بات کرنی مناسب رہے گی۔
محدث فورم پر پیش کرتے وقت بھی یہ پیراگراف شامل کرنا یاد نہیں رہا۔ اب کافی عرصے بعد گوگل سرچنگ کے دوران یہ مضمون پھر سے سامنے آیا تو آپ کا جواب دیکھا۔



اوپر آپ وہ حدیث پڑھ آئے کہ پتھروں میں خشیت الٰہی ہوتی ہے، وہ دراصل احسن الحدیث تھی، جسے حدیث کے تعلق سے ایک اہم بات سمجھانے کے لئے بیان کیا گیا تھا۔ اب یہ احسن الحدیث باحوالہ ملاحظہ کیجئے:
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ [البقرۃ: ۷۴]
پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے۔ گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔ اور پتھر تو بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں، اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں،اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے، اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں، اور اللہ تمہارے عملوں سے بے خبر نہیں۔
اس مثال سے مقصود یہ تھا کہ ہم اپنا محاسبہ کر سکیں ، ایسا تو نہیں کہ حدیث پڑھ کر گھٹن پیدا ہو، دل انکار و تنقید پر مائل ہوا ہو اور جب وہی مفہوم قرآن سے ثابت ہو جائے تو طبیعت تاویل کی فکر میں مبتلا ہوئی ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو مبارک ہو آپ کو اسی دار الاعمال میں اپنے منہج اور فکر کی اصلاح کا وہ موقعہ مل گیا ہے جو بہت کم خوش نصیبوں کو ملتا ہے۔ اور اگر ثابت شدہ حدیث ہو یا آیت، آپ کا دل اس پر ایمان لے آیا ہو، تو مبارک ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو راست فکر عطا کی ہے اور آپ مبادیات دین کے ایک نہایت اہم شرعی مسئلے کی تفہیم میں دوغلے پن سے محفوظ ہیں۔ والحمدللہ ۔



یہ اقتباس اوپر مضمون میں بھی شامل کر دیتا ہوں۔ ان شاء اللہ۔
 
Top