- شمولیت
- مارچ 07، 2012
- پیغامات
- 664
- ری ایکشن اسکور
- 741
- پوائنٹ
- 301
خلا کہاں رہ جاتا ہے؟۔۔۔ فقہ اوراصول فقہ سےدشمنی
حافظ مبشرحسین لاہوری کی ہفوات
حافظ مبشر حسین لاہوری ایک ایسے مدرسہ کے فارغ ہیں جس کے شیخ الحدیث(ناظم)اہل حدیث کہلانے کے باوصف اپنے ظاہری ہونے کا اظہار فخر سے کرتے ہیں۔اس بناء پر جب مفادات کی دنیا انہیں ایک ایسے تحقیقی ادارے میں لے گئی جس کا ماضی اہل الرائے سے بڑھ کر الحادی فتنوں کا شکار رہاہےتو انہوں نے اپنے مادی مفادات اسی میں دیکھے کہ مجھے خیر القرون کے اصول اجتہاد کے دو مکاتب فکر( اہل الحدیث اور اہل الرائے) میں سے اہل الرائے بزرگوں کی خدمت کرنی چاہئے۔اس پر کسی کو اعتراض نہ تھاکہ اہل الرائےبھی اہل سنت کا ہی ایک مکتب فکر ہے۔ لیکن ان کایہ مشن غلط ہے کہ انہوں نے اہل حدیث کی فقہ اور اصول فقہ سے دشمنی کا پروپیگنڈہ سر لے لیا ہے۔ چنانچہ اسلام آباد یونیورسٹی کے سیمینار میں جب انہوں نے یہ گوہر افشانی کی کہ اہل حدیث کا کوئی اصول فقہ اور فقہ نہیں ہے تو موقع پر موجود ان کے استاد پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی نے اس مغالطہ کا ازالہ ضروری سمجھا کیونکہ انہوں نے اپنے مدرسہ کے شیخ الحدیث کو سامنے رکھتے ہوئے متقدمین اور متاخرین تمام اہل حدیث کے خلاف یہ مہم چلا رکھی ہے کہ تمام اہل حدیث ظاہری ہیں۔انہی شیخ الحدیث کے استاد محترم حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی اپنی تصنیف"تحریک آزادی فکر" میں واضح کرتے ہیں کہ حافظ ابن حزم کا ظاہری مکتب فکر اصولی طور پر اہل الحدیث اور اہل الرائے سے الگ مکتب فکر ہے۔ جس کی مخصوص فقہ اور اصول فقہ مدون ہیں۔ حافظ مبشرحسین لاہوری کی ہفوات
چنانچہ پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب جواس سے قبل نشست کے صدر تھے نئے صدرمجلس کی اجازت سےسٹیج پر آئے اورحافظ مبشر حسین لاہوری کی ان ہفوات پر تبصرہ کرتےہوئے کہا:" حافظ ابن حزم اہل حدیث کے امام نہیں ہیں ۔بلکہ انہوں نےاپنے استاد محترم مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز کاحوالہ دیتےہوئے بتایا کہ وہ اہل حدیث اکابر میں سے ہونےکےباوجود حافظ ابن حزم کانام لینےپر کی دعابھی نہ کرتےتھے، کیونکہ حافظ ابن حزم اماموں سےاختلا ف کےساتھ ساتھ انہیں گالیاں بھی دیتے ہیں ۔انہیں ائمہ سلف سےدلیل کی بنیاد پر اختلاف کا تو ہرحق حاصل ہےلیکن انہوں نے جس طرح امام ابوحنیفہ(اہل الرائے کے امام)اورامام مالک(اہل الحدیث کے امام)کوگالیاں دی ہیں، وہ نہایت غلط رویہ ہے ۔اس لیے میں ان کےلیے علی الاعلان دعابھی نہیں کرناچاہتاکہ کہیں یہ ان کے احترام کاباعث نہ ہو۔" اپنےاستاد کی اس بات کاحوالہ دیتےہوئے ڈاکٹر مدنی صاحب نےتحریک اہل حدیث کادفاع کرتےہوئے بتایا کہ امام شافعی کارسالہ(تقلیدی دورسے قبل ) اورامام شوکانی (جوزیدی مسلک سےتوبہ کرنےکےبعد تقلید کی مخالفت میں کتاب بھی لکھتے ہیں )کی "ارشاد الفحول" فقہ مقارن کی کتابیں ہونے کی وجہ سے اہل حدیث ہی کی کتب اصول ہیں، گویا اہل حدیث کی فقہ واصول فقہ مقارن ہے، جن میں دلیل کی بنیاد پر ترجیح دی جاتی ہے ۔سارے اہل حدیث حافظ ابن حزم کافقہ واصول فقہ پسند نہیں کرتے۔ جیسا کہ مولانا محمد اسماعیل سلفی نےاپنی کتاب ’’تحریک آزادی فکر ‘‘میں واضح کیا ہے۔کیونکہ اہل حدیث امام ابوحنیفہ،امام مالک ،اورامام شافعی وغیرہ کی طرح شرعی دلیل کی بنیادپر ترجیح دینے کےقائل ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ تقلید کی بجائے اہل سنت کو شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ کی طرح کا سلفی بننا چاہئےکہ دور اسلاف کے( امام ابو حنیفہ وغیرہ کی طرح) عوام وخواص کا رویہ یہ تھا کہ وہ کسی صحابی/ تابعی وغیرہ کی بھی تقلید نہیں کرتے تھے۔
میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی اس فقہی کانفرنس کےموقع پر سامعین میں موجود تھا۔ میں نےاستاد محترم ڈاکٹر مدنی صاحب اورحافظ مبشرحسین لاہوری کی گفتگو خود سنی ہے کہ کس طرح حافظ مبشرحسین لاہور ی حیران وپریشان تھے۔ جبکہ ڈاکٹرمدنی صاحب کے تبصرے کےبعد نشست کی صدارت کرنےوالےحنفی بزرگ کےساتھ دوسرے مقررنےبھی مدنی صاحب کی تردید نہیں کی،گویا اسےقبولیت عامہ کامقام حاصل ہوا۔حافظ مبشرحسین لاہوری کی باقی باتیں مدنی صاحب سے تحریف شدہ حکایات ہیں یا ان پر صریح بہتان ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس اہل خیر کے چندوں پر چلتے ہیں بلکہ ڈاکٹر حافظ مدنی صاحب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے جامعہ کے بیشتر حصے بنانے کے لئے اپنے خاندانی کاروبار سے کروڑوں روپے خرچ کئے۔
یہی وجہ ہےکہ سعودی حکومت نےپورے پاکستان اورہندوستان کےایک پرائیویٹ جامعہ کو یہ اعزاز بخشاہے کہ امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی، ریاض کے چانسلر، ان کے پرائیویٹ جامعہ کے 'پروچانسلر' ہیں اوروہ مدنی صاحب کو اپنامحبوب اوروالدکہتے ہیں ۔انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ہیڈ(صدر/وائس چانسلر )انہیں علمی دعوت دیتےہوئے محبکم وابنکم کے الفاظ سےمخاطب کرتےہیں ۔
ہمیں ڈاکٹر حافظ مدنی صاحب نے اصول فقہ مقارن خود پڑھایا ہے اور ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ بھی 'اصول اجتہاد' پر ہے۔وہ حافظ مبشر حسین لاہوری کی تحریروں کو بڑی محنت سے درست کیا کرتے تھے جو ان کے تعارف کا باعث بنیں۔ اوراکثر یہ بھی کہتے کہ تم نے اصول فقہ نہیں پڑھا اس لئے جدید مسائل میں الجھ جاتے ہو کیونکہ اصول فقہ مقارن کے بغیر تحقیق واستدلال کی صحت وخطا کا امتیاز بہت مشکل ہے۔جن تربیتی دروس کا حافظ مبشر حسین لاہوری نے حوالہ دیا ہے وہ جدید پیش آمدہ مسائل پر مدنی صاحب کے گاہے بگاہے لیکچر ہوتے رہتے ہیں۔ جو اس وقت انہوں نے اپنی اسلامک ریسرچ کونسل کے ملازمین کو دئیے ، جن کا پہلا موضوع ''روحانی علاج پر اجرت" تھا۔ لہذا حافظ مبشر حسین لاہوری کی ایک تحریر بھی تنقید کا نشانہ بنی تو حافظ مبشر حسین لاہور ی سامعین میں سے غائب ہوگئے۔ یہ دروس اسی طرح وقتا فوقتا ہوتے رہتے ہیں جن میں لاہور اور بیرون لاہور ان کے شاگردان رشید اپنی شرکت کو سعادت مندی قرار دیتے ہیں۔
ایک شاگرد کو اپنے استاد کا شکر گزار ہونے کی بجائے ان کے علمی کاموں کی توہین یا مذاق نہیں اڑانا چاہئے۔ ان کا رویہ گستاخی کے معاملہ میں حافظ ابن حزم کی غلط پیروی ہے۔بلکہ جس خاندانی اہل حدیث کواپنے باس کوخوش کرنے کےلیے دوسرے مکاتب فکر کے اکابرین کی تعریفیں کرکےزمین وآسمان کے قلابےملانے کی عادت ہواورجوامریکہ جاکر سب سے پہلے دین کی نشانی داڑھی ختم کرتاہو، اسے قطعا یہ حق حاصل نہیں کہ تمام جھوٹےالزامات کے بعدمدنی صاحب کی مثال دے۔
ڈاکٹرمدنی صاحب اہل حدیث اکابرین کےعلاوہ دیوبند کےمشہور محدث مولانا رسول خان صاحب کےبھی شاگرد ہیں، چنانچہ وہ ہمیشہ دیوبندی اکابر ین کانام عزت سے لیتےہیں۔ انہیں مولانا مودودیاور دیگر دین کا دفاع کرنے والےاہل علم مصلحین کا نہایت احترام ملحوظ رہتا ہے، جسے بعض متشدد اہل حدیث پسند نہیں کرتے ۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ کسی کی علمی غلطی کی سزا یہ نہیں ہوسکتی کہ آپ اس کی عزت بھی نہ کریں۔ انہیں ان کےہم زلف جناب مولانا عبدالوکیل علوی(جنہیں فنافی المودودی بھی کہاجاتاہے۔) نے مولانا مودودی سےایک ملاقات کےبعد اس طرح خراج تحسین پیش کیا کہ مولانا مودودی آپ کارسالہ 'محدث' پڑھتےہیں۔اسی لئے مولانا مودودی صاحب نے اسی ملاقات کےموقع پر ڈاکٹر مدنی صاحب سے یہ گلہ کیاکہ آپ نےمجھ سے نیامضمون تیارکرواکرمحدث کے"رسول مقبول نمبر" میں شائع کیا لیکن وہ رسالہ مجھے نہیں ملا۔ میں نے کسی اور سے لیکر پڑھا ہے۔اس واقعہ کے ذکر سےمقصد یہ ہے کہ بعض متشدد اہل حدیث ان سےصرف اس لئے ناراض ہیں کہ وہ تمام فرقوں کےاکابرین کاذکر احترام سےکرتےہیں ۔اس لیے اتحاد امت کی تحریکوں میں وہ شوق سےشامل ہوتےہیں، جبکہ خود تنظیمی فرقہ بندی اورسیاسی فرقہ بندی سےالگ رہنے کی کوشش کرتےہیں اوراپنےشاگرد وں کو بھی اپنے استاد شیخ ابن باز کی ہدایت کےمطابق گروہی تعصبات سےدوررہنے کی تلقین کرتےہیں ۔
انہوں نے اپنے تمام بیٹوں، شاگردوں اور کئی بیٹیوں کو اصول تفسیر، اصول حدیث اور اصول فقہ اور اصول دین پر ڈاکٹریٹ کرنے کی ترغیب دی، کیونکہ ان کو قانون دانوں کی تربیت گاہوں میں اصول قانون اور اصول اجتہاد کا مقارنہ کرنے کا بھر پور تجربہ ہے۔ جبکہ ان کی شرکت پاکستان کے علاوہ عالم اسلام کے معروف علمی مراکز سعودی عرب، سوڈان، مصر، مراکش اور اردن وغیرہ میں اجتماعی نظاموں کے تقابل اور جدید علمی مسائل پر بین الاقوامی سیمینارز میں ہوتی رہتی ہے۔
پروفیسر حافظ طاھر الاسلام عسکری
منقول