• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلا کہاں رہ جاتا ہے؟۔۔۔ فقہ اوراصول فقہ سےدشمنی

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
664
ری ایکشن اسکور
741
پوائنٹ
301
خلا کہاں رہ جاتا ہے؟۔۔۔ فقہ اوراصول فقہ سےدشمنی
حافظ مبشرحسین لاہوری کی ہفوات
حافظ مبشر حسین لاہوری ایک ایسے مدرسہ کے فارغ ہیں جس کے شیخ الحدیث(ناظم)اہل حدیث کہلانے کے باوصف اپنے ظاہری ہونے کا اظہار فخر سے کرتے ہیں۔اس بناء پر جب مفادات کی دنیا انہیں ایک ایسے تحقیقی ادارے میں لے گئی جس کا ماضی اہل الرائے سے بڑھ کر الحادی فتنوں کا شکار رہاہےتو انہوں نے اپنے مادی مفادات اسی میں دیکھے کہ مجھے خیر القرون کے اصول اجتہاد کے دو مکاتب فکر( اہل الحدیث اور اہل الرائے) میں سے اہل الرائے بزرگوں کی خدمت کرنی چاہئے۔اس پر کسی کو اعتراض نہ تھاکہ اہل الرائےبھی اہل سنت کا ہی ایک مکتب فکر ہے۔ لیکن ان کایہ مشن غلط ہے کہ انہوں نے اہل حدیث کی فقہ اور اصول فقہ سے دشمنی کا پروپیگنڈہ سر لے لیا ہے۔ چنانچہ اسلام آباد یونیورسٹی کے سیمینار میں جب انہوں نے یہ گوہر افشانی کی کہ اہل حدیث کا کوئی اصول فقہ اور فقہ نہیں ہے تو موقع پر موجود ان کے استاد پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی نے اس مغالطہ کا ازالہ ضروری سمجھا کیونکہ انہوں نے اپنے مدرسہ کے شیخ الحدیث کو سامنے رکھتے ہوئے متقدمین اور متاخرین تمام اہل حدیث کے خلاف یہ مہم چلا رکھی ہے کہ تمام اہل حدیث ظاہری ہیں۔انہی شیخ الحدیث کے استاد محترم حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی﷫ اپنی تصنیف"تحریک آزادی فکر" میں واضح کرتے ہیں کہ حافظ ابن حزم کا ظاہری مکتب فکر اصولی طور پر اہل الحدیث اور اہل الرائے سے الگ مکتب فکر ہے۔ جس کی مخصوص فقہ اور اصول فقہ مدون ہیں۔
چنانچہ پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب جواس سے قبل نشست کے صدر تھے نئے صدرمجلس کی اجازت سےسٹیج پر آئے اورحافظ مبشر حسین لاہوری کی ان ہفوات پر تبصرہ کرتےہوئے کہا:" حافظ ابن حزم اہل حدیث کے امام نہیں ہیں ۔بلکہ انہوں نےاپنے استاد محترم مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز﷫ کاحوالہ دیتےہوئے بتایا کہ وہ اہل حدیث اکابر میں سے ہونےکےباوجود حافظ ابن حزم کانام لینےپر﷫ کی دعابھی نہ کرتےتھے، کیونکہ حافظ ابن حزم  اماموں سےاختلا ف کےساتھ ساتھ انہیں گالیاں بھی دیتے ہیں ۔انہیں ائمہ سلف سےدلیل کی بنیاد پر اختلاف کا تو ہرحق حاصل ہےلیکن انہوں نے جس طرح امام ابوحنیفہ﷫(اہل الرائے کے امام)اورامام مالک﷫(اہل الحدیث کے امام)کوگالیاں دی ہیں، وہ نہایت غلط رویہ ہے ۔اس لیے میں ان کےلیے علی الاعلان دعابھی نہیں کرناچاہتاکہ کہیں یہ ان کے احترام کاباعث نہ ہو۔" اپنےاستاد کی اس بات کاحوالہ دیتےہوئے ڈاکٹر مدنی صاحب نےتحریک اہل حدیث کادفاع کرتےہوئے بتایا کہ امام شافعی ﷫ کارسالہ(تقلیدی دورسے قبل ) اورامام شوکانی﷫ (جوزیدی مسلک سےتوبہ کرنےکےبعد تقلید کی مخالفت میں کتاب بھی لکھتے ہیں )کی "ارشاد الفحول" فقہ مقارن کی کتابیں ہونے کی وجہ سے اہل حدیث ہی کی کتب اصول ہیں، گویا اہل حدیث کی فقہ واصول فقہ مقارن ہے، جن میں دلیل کی بنیاد پر ترجیح دی جاتی ہے ۔سارے اہل حدیث حافظ ابن حزم کافقہ واصول فقہ پسند نہیں کرتے۔ جیسا کہ مولانا محمد اسماعیل سلفی﷫ نےاپنی کتاب ’’تحریک آزادی فکر ‘‘میں واضح کیا ہے۔کیونکہ اہل حدیث امام ابوحنیفہ﷫،امام مالک﷫ ،اورامام شافعی﷫ وغیرہ کی طرح شرعی دلیل کی بنیادپر ترجیح دینے کےقائل ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ تقلید کی بجائے اہل سنت کو شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ﷫ کی طرح کا سلفی بننا چاہئےکہ دور اسلاف کے( امام ابو حنیفہ﷫ وغیرہ کی طرح) عوام وخواص کا رویہ یہ تھا کہ وہ کسی صحابی/ تابعی وغیرہ کی بھی تقلید نہیں کرتے تھے۔
میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی اس فقہی کانفرنس کےموقع پر سامعین میں موجود تھا۔ میں نےاستاد محترم ڈاکٹر مدنی صاحب اورحافظ مبشرحسین لاہوری کی گفتگو خود سنی ہے کہ کس طرح حافظ مبشرحسین لاہور ی حیران وپریشان تھے۔ جبکہ ڈاکٹرمدنی صاحب کے تبصرے کےبعد نشست کی صدارت کرنےوالےحنفی بزرگ کےساتھ دوسرے مقررنےبھی مدنی صاحب کی تردید نہیں کی،گویا اسےقبولیت عامہ کامقام حاصل ہوا۔حافظ مبشرحسین لاہوری کی باقی باتیں مدنی صاحب سے تحریف شدہ حکایات ہیں یا ان پر صریح بہتان ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس اہل خیر کے چندوں پر چلتے ہیں بلکہ ڈاکٹر حافظ مدنی صاحب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے جامعہ کے بیشتر حصے بنانے کے لئے اپنے خاندانی کاروبار سے کروڑوں روپے خرچ کئے۔
یہی وجہ ہےکہ سعودی حکومت نےپورے پاکستان اورہندوستان کےایک پرائیویٹ جامعہ کو یہ اعزاز بخشاہے کہ امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی، ریاض کے چانسلر، ان کے پرائیویٹ جامعہ کے 'پروچانسلر' ہیں اوروہ مدنی صاحب کو اپنامحبوب اوروالدکہتے ہیں ۔انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ہیڈ(صدر/وائس چانسلر )انہیں علمی دعوت دیتےہوئے
محبکم وابنکم کے الفاظ سےمخاطب کرتےہیں ۔
ہمیں ڈاکٹر حافظ مدنی صاحب نے اصول فقہ مقارن خود پڑھایا ہے اور ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ بھی 'اصول اجتہاد' پر ہے۔وہ حافظ مبشر حسین لاہوری کی تحریروں کو بڑی محنت سے درست کیا کرتے تھے جو ان کے تعارف کا باعث بنیں۔ اوراکثر یہ بھی کہتے کہ تم نے اصول فقہ نہیں پڑھا اس لئے جدید مسائل میں الجھ جاتے ہو کیونکہ اصول فقہ مقارن کے بغیر تحقیق واستدلال کی صحت وخطا کا امتیاز بہت مشکل ہے۔جن تربیتی دروس کا حافظ مبشر حسین لاہوری نے حوالہ دیا ہے وہ جدید پیش آمدہ مسائل پر مدنی صاحب کے گاہے بگاہے لیکچر ہوتے رہتے ہیں۔ جو اس وقت انہوں نے اپنی اسلامک ریسرچ کونسل کے ملازمین کو دئیے ، جن کا پہلا موضوع ''روحانی علاج پر اجرت" تھا۔ لہذا حافظ مبشر حسین لاہوری کی ایک تحریر بھی تنقید کا نشانہ بنی تو حافظ مبشر حسین لاہور ی سامعین میں سے غائب ہوگئے۔ یہ دروس اسی طرح وقتا فوقتا ہوتے رہتے ہیں جن میں لاہور اور بیرون لاہور ان کے شاگردان رشید اپنی شرکت کو سعادت مندی قرار دیتے ہیں۔
ایک شاگرد کو اپنے استاد کا شکر گزار ہونے کی بجائے ان کے علمی کاموں کی توہین یا مذاق نہیں اڑانا چاہئے۔ ان کا رویہ گستاخی کے معاملہ میں حافظ ابن حزم کی غلط پیروی ہے۔بلکہ جس خاندانی اہل حدیث کواپنے باس کوخوش کرنے کےلیے دوسرے مکاتب فکر کے اکابرین کی تعریفیں کرکےزمین وآسمان کے قلابےملانے کی عادت ہواورجوامریکہ جاکر سب سے پہلے دین کی نشانی داڑھی ختم کرتاہو، اسے قطعا یہ حق حاصل نہیں کہ تمام جھوٹےالزامات کے بعدمدنی صاحب کی مثال دے۔
ڈاکٹرمدنی صاحب اہل حدیث اکابرین کےعلاوہ دیوبند کےمشہور محدث مولانا رسول خان صاحب کےبھی شاگرد ہیں، چنانچہ وہ ہمیشہ دیوبندی اکابر ین کانام عزت سے لیتےہیں۔ انہیں مولانا مودودی﷫اور دیگر دین کا دفاع کرنے والےاہل علم مصلحین کا نہایت احترام ملحوظ رہتا ہے، جسے بعض متشدد اہل حدیث پسند نہیں کرتے ۔لیکن وہ کہتے ہیں کہ کسی کی علمی غلطی کی سزا یہ نہیں ہوسکتی کہ آپ اس کی عزت بھی نہ کریں۔ انہیں ان کےہم زلف جناب مولانا عبدالوکیل علوی﷫(جنہیں فنافی المودودی بھی کہاجاتاہے۔) نے مولانا مودودی سےایک ملاقات کےبعد اس طرح خراج تحسین پیش کیا کہ مولانا مودودی﷫ آپ کارسالہ 'محدث' پڑھتےہیں۔اسی لئے مولانا مودودی﷫ صاحب نے اسی ملاقات کےموقع پر ڈاکٹر مدنی صاحب سے یہ گلہ کیاکہ آپ نےمجھ سے نیامضمون تیارکرواکرمحدث کے"رسول مقبول نمبر" میں شائع کیا لیکن وہ رسالہ مجھے نہیں ملا۔ میں نے کسی اور سے لیکر پڑھا ہے۔اس واقعہ کے ذکر سےمقصد یہ ہے کہ بعض متشدد اہل حدیث ان سےصرف اس لئے ناراض ہیں کہ وہ تمام فرقوں کےاکابرین کاذکر احترام سےکرتےہیں ۔اس لیے اتحاد امت کی تحریکوں میں وہ شوق سےشامل ہوتےہیں، جبکہ خود تنظیمی فرقہ بندی اورسیاسی فرقہ بندی سےالگ رہنے کی کوشش کرتےہیں اوراپنےشاگرد وں کو بھی اپنے استاد شیخ ابن باز ﷫ کی ہدایت کےمطابق گروہی تعصبات سےدوررہنے کی تلقین کرتےہیں ۔
انہوں نے اپنے تمام بیٹوں، شاگردوں اور کئی بیٹیوں کو اصول تفسیر، اصول حدیث اور اصول فقہ اور اصول دین پر ڈاکٹریٹ کرنے کی ترغیب دی، کیونکہ ان کو قانون دانوں کی تربیت گاہوں میں اصول قانون اور اصول اجتہاد کا مقارنہ کرنے کا بھر پور تجربہ ہے۔ جبکہ ان کی شرکت پاکستان کے علاوہ عالم اسلام کے معروف علمی مراکز سعودی عرب، سوڈان، مصر، مراکش اور اردن وغیرہ میں اجتماعی نظاموں کے تقابل اور جدید علمی مسائل پر بین الاقوامی سیمینارز میں ہوتی رہتی ہے۔

پروفیسر حافظ طاھر الاسلام عسکری
منقول
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مجلس التحقیق الاسلامی واٹس ایپ گروپ میں اس پر کافی بحث و مباحثہ ہوا ، میرا احساس یہ ہے کہ تحریر میں مبشر لاہوری کا جواب تو کہیں موجود نہیں ، البتہ اہل حدیث کے ہی دو دھڑے بناکر ایک دوسرے پر تنقید کا شوق پورا کیا گیا ہے ۔ گویا آپ نے میرے شیخ الحدیث پر تنقید کی ہے تو آپ کے شیخ الحدیث صاحب تو ایسے ہیں ـ انا للہ و انا الیہ رجعون ۔ حالانکہ مبشر لاہوری صاحب جس راہ پر گامزن ہوئے ہیں ، ان کے نزدیک ہر ’ شیخ الحدیث ‘ چاہے تیرا ہو یا میرا ، قابل عتاب ہیں ۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اہل حدیث کے اصول فقہ کے تذکرہ میں ابن حزم سے ’ رحمہ اللہ ‘ تک حق چھیننے تک پہنچ گئے ہیں ، حالانکہ ابن حزم نے اصول فقہ اور فقہ میں جلیل القدر کتب لکھ کر اس علم و فن کے ذخیرہ میں شاندار اضافہ کیا ہے ، باقی سو فیصد اتفاق تو کسی سے بھی نہیں ہوتا ، اہل حدیث کا منہج بھی یہی ہے کہ ہمارے سوفیصد نمائندہ امام سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی ہستی نہیں ہے ۔ جس طرح ہم دیگر کتب اصول و فقہ سے ہم خذ ما صفا و دع ما کدر کے اصول پر گامز ہیں ، ابن حزم بھی کتب بھی اسی اصول کے تحت ہماری کتب اصول ہیں ۔
خیر مبشر لاہوری ثم امریکی صاحب کے جواب میں یہ بحث اچھی ہے کہ اہل حدیث کے اصول فقہ کیا ہیں ؟ اس حوالے سے مذکورہ واٹس ایپ گروپ میں کئی ایک اہل علم نے شرکت کی ، کوشش کروں گا کہ سب کو یا سب کا خلاصہ یہاں ذکر کردوں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ابن حزم رحمہ اللہ کے حوالے سے درج ذیل باتیں ہوئیں :
1۔ ان کا عقیدہ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ نہیں ۔
2۔ فقہی مسائل میں ان کا کتاب و سنت سے تمسک کا جذبہ ان کی بہت بڑی خوبی ہے ۔
3۔ کیا وہ اہل حدیث کےنمائندہ امام کہلائے جاسکتے ہیں کہ نہیں ؟ اس میں اختلاف رائے ہوا ،
میں انہیں اہل حدیث کا امام سمجھتا ہوں ، اور میرے مشاہدہ کے مطابق یہ سوچ کئی ایک اہل حدیث علماء کرام کی بھی ہے ۔ میں نے اس حوالہ سے ایک پی ایچ ڈی کے رسالہ کا بھی تذکرہ کیا ، جو ابن عبد البر اور ابن حزم کے طرز استدلال کے تقابل اور موازنہ پر لکھا گیا ہے، خلاصہ میں انہوں نے دونوں بزرگوں کے طرز استدلال کا فرق واضح کرتے ہوئے یہ ذکر کیا ہے کہ دونوں اہل سنت کے امام ہیں۔
لیکن اس حوالے سے اکثر مشارکین کی رائے نفی میں تھی ۔ ان اہل علم نے ابن تیمیہ ، ابن قیم اور پھر مولانا اسماعیل سلفی ، حافظ گوندلوی ، حافظ ثناء اللہ مدنی وغیرہم کی ابن حزم اور منہج ظاہریت پر سخت تنقیدات کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔ فضیلۃ الشیخ محترم حافظ محمد شریف حفظہ اللہ نے ایک آوازی پیغام ارسال کیا ، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ منہج ظاہریت اور اہل ظاہر اشخاص میں فرق رکھنا چاہیے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
تین بڑے آدمی

تحریر :ڈاکٹر زبیر صاحب (@ابوالحسن علوی )
میں اپنی زندگی میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں تو ان میں سے تین کو بڑا آدمی پایا ہے؛ مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب، ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور احمد جاوید صاحب۔ تینوں کی صحبت میں رہنے اور ان سے براہ راست استفادہ کا موقع ملا اور ان تینوں کا میری شخصیت پر بہت گہرا اثر ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری شخصیت کی تعمیر اور تکمیل میں ان تینوں کا بہت حصہ ہے۔
ان تینوں اساتذہ اور شیوخ میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ فکری ذوق رکھنے والے ہیں جبکہ ان میں امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب تعلیم وتعلم، ڈاکٹر اسرار احمد صاحب دعوت وتحریک اور احمد جاوید صاحب تزکیہ وتربیت کے میدان کے آدمی ہیں۔
مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ میری شخصیت کے تین پہلو ہیں؛ علمی، تحریکی اور اخلاقی۔ علمی شعور کی تکمیل مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب کے مرہون منت ہے، تحریکی شعور ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ سے حاصل ہوا اور اخلاقی شعور کی بنیاد احمد جاوید صاحب کی صحبت سے پڑی۔ کبھی علمی شعور غالب آ جاتا ہے تو کبھی تحریکی اور کبھی اخلاقی۔
تحریکی شعور غالب آ جائے تو مصلح بن جاتا ہوں اور اخلاقی شعور غالب آنے لگے تو صالح بننے کی کوشش کرتا ہوں اور علمی شعور غالب آ جائے تو پریشان ہو جاتا ہوں کہ صالح بننا ہے یا مصلح؛ یعنی اپنی اصلاح کو اہمیت دینی ہے یا دوسروں کی تربیت کو اور اسی شعور کی روشنی میں اس مسئلے میں کسی قدر اعتدال حاصل ہو جاتا ہے۔
پچھلے دنوں قاری حنیف ڈار صاحب نے احمد جاوید صاحب کی شخصیت پر اپنی وال سے کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی تو قلبی اذیت ہوئی اور اب مبشر حسین لاہوری صاحب نے مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب کی شخصیت کو بدنام کرنا چاہا تو ذہنی کوفت ہوئی حالانکہ لاہوری صاحب بھی مدنی صاحب کے شاگردوں میں سے ہیں۔ اللہ عزوجل ان دونوں حضرات کو ہدایت دے کہ وہ کوئی مثبت کام کر سکیں ورنہ کیچڑ تو پیغمبروں پر بھی بہت اچھالا گیا جبکہ وہ معصوم بھی تھے۔
چند دن پہلے والد محترم مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب کی خدمت میں حاضری ہوئی تو سیر پر لے کر نکل پڑے اور اکثر جب بھی حاضری ہوتی ہے تو سیر پر لے کر نکل جاتے ہیں اور خوب علمی بحثیں کرتے ہیں۔ جس پارک میں سیر کر رہے تھے تو اس کا چکر کوئی ایک کلومیٹر کا ہو گا تو چار چکر مکمل ہونے کے بعد مجھ سے کہنے لگے کہ ہم نے ایک چکر لگا لیا ہے؟ میں نے کہا نہیں، یہ چوتھا ہے۔ میرا تھکاوٹ سے برا حال تھا اور وہ پچھتر سال سے اوپر ہونے کے باوجود علمی بحث کے دوران اپنے آپ کو یوں محسوس کر رہے تھے جیسے بیس سال کا جوان ہو۔
برادر محترم طاہر الاسلام عسکری صاحب کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے بروقت والد محترم کے دفاع میں مبشر حیسن لاہوری صاحب کو ریسپانس کیا۔ جزاکم اللہ خیرا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کی تعظیم اور ادب نہ کرے۔ یہ دین ہم میں ایک نظام درجات قائم کرتا ہوں کہ جس میں کوئی چھوٹا ہے اور کوئی بڑا۔ اور اسی نظام درجات کا تقاضا ہے کہ شاگرد اپنے استاذ کا احترام کرے اور اس پر یوں تنقید نہ کرے کہ جسے استاذ اپنے لیے گالی سمجھے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
پورے مباحثے کو ایک مربوط اور مفہوم شکل میں نقل کرنا ، بہت مشکل کام ہے ، چند ایک پیغامات بلا ناموں کے ذکر کر رہا ہوں ، جس سے کم ازکم معاملہ کے مختلف پہلو واضح ہو جائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا سلفی رح کی طرح اکثر بلکہ تقریبا اھل حدیث ھی محدث گوندلوی رحمہ اللہ کے بھی شاگرد ھیں اور منھج ظاھریت پر محدث گوندلوی جتنا برسے ھیں، کاش اھل حدیث اس پر کچھ غور فرمائیں ۔۔۔۔ بڑا افسوس اس پر ھے کہ معاصر اھل حدیث حضرات میں۔۔۔ آلا ما شاء اللہ۔۔۔۔ اکثر کا اپنے بزرگوں سے صرف عقیدت مندی کا تعلق ھے، اور وہ ان کے منھج وفکر سے کوئی شعوری تعلق نہیں رکھتے،،، مثلا دیکھیں شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی اصول فقہ پر دو کتب ھیں اور وہ دیوبند کے فاضل ھیں،،، کیا معاصر اھل حدیث ان کے اصول فقہ یا دیوبند سے نسبت فقاھت کو قابل اتباع جانیں گے؟؟؟
مولانا گوندلوی رحمہ اللہ کی اصول فقہ پر کتاب ھے اور منھج ظاھریت اور حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کے شدید ناقد ھیں، کیا معاصر اھل حدیث اسے قابل پیروڈی سمجھیں گے؟؟؟ یہی معاملہ مولانا اسماعیل سلفی وغیرہ کا ھے لیکن افسوس ھم غور نہیں کر رھے،،، اسی لیے شیخ غیروں کے بجائے اپنی صفوں میں اٹھنے والے چہرہ دکھا رھے ھیں تو ھم حسب سابق سوچنے کے بجائے محض جزباتی عقیدت کی باتیں کر رھے ھیں
میں نے اسی لیے گزشتہ دنوں لکھا تھا کہ ھمیں محقق اھل حدیث بننا چاھیے، روایتی اھل حدیث نہیں!!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محدث شوکانی رحمہ اللہ جو رد تقلید میں یمن کے سرخیل اھل حدیث تھے،،،، وہ تمسک بالحدیث کے باوصف اصول فقہ میں ارشاد الفحول جیسی عظیم کتاب اصول فقہ میں لکھ گئے ،،،، بعد میں اسی کتاب کی تلخیص، حاشیہ وتشریحات وغیرہ کئی کام اکابرین نے سر انجام دیے،،، مثلا شاہ اسماعیل سلفی، نواب صدیق الحسن خان، مولانا امرتسری، محدث گوندلوی رحمہم اللہ وغیرہ ساروں نے ارشاد الفحول پر ھی علمی اضافے کرکے اھل حدیث کی اصول فقہ کی خدمت کی اور بتایا کہ اھل الحدیث اھل الظاھر قطعا نہیں،،،، کاش اھل حدیث سمجھیں کہ ان کے نمائندہ آئمہ کون ھیں اور وہ فقہ و اجتہاد میں کس کے منھج پر ھیں،،،، ورنہ مبشر لاھوری پیدا ھوتے رھیں گے اور ھم صرف ان کا لفظی رد کرتے رھیں گے لیکن اس سارے کام کا کوئی فایدہ تو نہیں ھوگا جب تک کہ ھم اپنی اصلاح نہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ مبشر لاہوری پیدا ہوتے رہیں گے اور ہم صرف ان کا لفظی رد کرتے رہیں گے.....شیخنا یہ وہ بات ہے جس کے کرنے سے احناف آج تلک ڈرتے ہیں اور ان میں تقلیدی جمود عمار ناصر.حسن الیاس وغیرہ پیدا ہو رہے ہیں اور اہلحدیث کے یہاں اسامہ حسن اور مبشر لاہوری. حضرت موصوف نے استاذالاساتذۃ حفظ مدنی حفظہ اللہ پر زبان درازی کی ہے جو قابل مذمت ہے لیکن اس کی مجموعی کیفیات جو فیس بک پر پوسٹوں سے مترشح ہیں وہ مسلک اہلحدیث کے حاملین کے ہاں فقہ اور اصول فقہ بارے اسی مجموعی خلا کا پتہ دیتی ہیں جو روایتی اور تقلیدی اہلحدیث ذہن کو تو جوڑے رکھتا ہے لیکن ذہین بچے اس کے نتیجے میں تجدد کی راہوں پر دھکیلے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الاعتصام بالکتاب والسنہ کا درس دینے میں حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کا شائد ھی کوئی ثانی ھو،،، یہی ان سے اھل حدیث کی وجہ محبت ھے کہ وہ رائے پرستی کے بالمقابل تمام بالکتاب والسنہ کے ھی تو داعی ھیں ۔۔۔۔ یہاں تک امام ابن حزم ھمارے پیشرو تھے،،، لیکن یہاں تک اھل الرائے کا رد ھو گیا ،،، اب ھمارا مثبت منھج کیا ھے کام کا؟؟؟ وہ شروع ھوتا ھے اور وہ امام ابن حزم سے آگے دیگر اکابر آئمہ دیتے ھیں ، ان میں شافعی، احمد بخاری ابن تیمیہ رحمہم اللہ کا نام آتا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اصول" سے اھل الحدیث کی مراد بنیادی عقائد ھیں۔۔۔ اب جب ھم سب یہ جانتے ھیں کہ تمام علمائے اھل سنت بنیادی منھاج فکر میں ایک ھیں تو یہ سب اھل السنۃ والجماعۃ میں شامل ھوئے ۔۔۔۔ رھا عمل سے متعلق احکام یا اصول احکام، تو یہ بہرحال "فروع" کی بحث ھے جس میں بالعموم تو آئمہ کرام میں اختلاف تعبیرات وتنوع کا ھوتا ھے اور اگر کہیں اختلاف حقیقی بھی ھو تو وہ دائرہ اھل السنۃ کے اندر ھوتا ھے جسے تشریح وتوضیح کا اختلاف سمجھنا چاھیے، واللہ اعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⁠⁠⁠دو دن سے مجموعہ میں سیر حاصل گفتگو ہوئی اس پر جملہ علماے کرام اور بالخصوص شیخ حمزہ مدنی .شیخ فراز الحق اور شیخ طاہر اسلام حفظھم اللہ کا شکریہ ادا کرنا بنتا ہے.
اگر یہ بات گفتگو میں نہ آتی تو مجھ ایسا کم سواد ازخود بات کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا کہ سارا مسئلہ مبشر لاہوری کا نہیں ہے خود روایتی اہلحدیث کو بھی اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے. علامہ ابن حزم کا مقام محتاج بیان نہیں لیکن وہ طرز استدلالال میں منہج اہلحدیث سے الگ ہیں لیلن لاشعوری طور پر ان کا تتبع ایک اچھے خاصے طبقے کی روش بن چکا ہے. اس کو نارملائز کرنے کی ضرورت ہے.
دوسرا تاثر یہ ہے کہ محققین کے ہاں اصول فقہ بھی مقارنے کے بعد طے ہوا کرتے ہیں اور تمام محققین اہلحدیث اپنی تحقیق و مقارنہ پر راے رکھتے ہیں یہی اصول فقہ کے باب میں مسلک اہلحدیث ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
البتہ عموما جمیع اہلحدیث کون سے حتمی نتایج مقارنہ پرچل رہے ہیں؟ اصول فقہ کا متعین سوال کرنے والے اس کا جواب چاہتے ہیں اوراس حد تک شاید کہا جا سکتا ہے کہ بالعموم مابین العلماء المحققین ابھی تک اجتماعی طور پر متفقہ اصول جاری نہیں کیے گئے ہیں. اس سے شیخ حامد کی کی گئی ایک سے زیادہ دھاروں والی بات قرین قیاس معلوم ہوتیٰ ہے کہ جو حضرات علمی و ذوقی جس محقق کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اسی سے مسایل لیتے ہیں اور لا محالہ اسی محقق کے اصول پر ہوتے ہیں.چنانچی اس منہج کے ڈائنامزم کی وجہ سے متفق علیہ اصول کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالرّحمٰن مدنی حفظہ اللہ محدثین اور اہلحدیث کی فی زمانہ فکری و نظریاتی نمائندگی کا حق ادا کرنے کی بھر پور صلاحیت سے مالا مال ہیں۔
انجینئر عبد القدوس سلفی صاحب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ہمارے ایک استاد محترم صاحب نے دو مرتبہ ایک آڈیو بیان واٹس ایپ پر بھیجا ہے، آٹھ منٹ اور کچھ سیکنڈ پر مشتمل اس بیان کے تمام مشمولات سے اتفاق تو نہیں لیکن بہرصورت یہ اپنے مقصد و مدعا کے حوالے سے بالکل واضح ہے ، اس میں بیان کردہ نکات یوں ہوسکتے ہیں :
1۔ برصغیر میں عمل بالحدیث ، تحریک آزادی فکر ، اور رد تقلید وغیرہ ناموں سے جو تحریک شروع ہوئی ، وہ تقلیدی جمود کو توڑنے اور تمسک بالکتاب والسنۃ کے حوالے سے بہت مبارک تحریک تھی ، اور اس تحریک کے اکثر لوگوں کا رجحان بھی اسی طرف تھا ۔ شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ رد عمل کی نفسیات تھیں ۔
2۔ اس سے آگے بڑھ کر یعنی غلط منہج کی تردید کے بعد ، استدلال میں صحیح منہج کیا ہے ؟ اصل سوال یہی ہے ، جو محقق اور اہل علم لوگ تھے ، انہوں نے اس پر بھی تفصیل سے لکھا ہے ، ہمیں رد کی نفسیات سے نکل کر اس منہج کو سمجھنے سوچنے پر بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔
3۔ اس تحریک میں چونکہ جن کا رد کیا جارہا تھا ، وہ اپنے غلط منہج کی آڑ ائمہ کرام اور بڑے بڑے علماء کرام کو بنائے ہوئے تھے ، اس لیے اہل حدیث کے ایک طبقہ میں ’ رد تقلید ‘ کے ساتھ ساتھ علماء کرام سےتنفر و بیزاری کا بھی ایک مزاج پیدا ہوگیا ہے ۔
4۔ اہل حدیث علماء میں مولانا اسماعیل سلفی ، عبد اللہ محدث روپڑی ، مولانا گوندلوی وغیرہ صرف ’ رد تقلید ‘ کی بجائے ’ مسلک اہل حدیث کو ایک مکمل منہج سمجھتے ، اور اسی انداز سے اس کی تشریح کیا کرتے تھے ۔
5۔ اہل حدیث کا درست اسلوب فقہ مقارن کا اسلوب ہے ، اس میں ائمہ کرام کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ، صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہا جاتا ہے ، یا کہا جانا چاہیے ۔
6۔ اہل حدیث علماء میں اصول فقہ کے ماہر دو طرح کے ہیں ، ایک وہ جو کتاب وسنت سے درست طرز استدلال کے اصولوں پر مہارت رکھتے ہیں ، کچھ وہ جو غلط اصول استدلال کی تردید میں مہارت رکھتے ہیں ، اس میں انہوں نے بطورنام حافظ عبد المنان نورپوری ، مولانا عبد السلام بھٹوی ، اور حافظ ثناء اللہ الزاہدی صاحب کا نام ذکر کیا ہے ۔
جبکہ دوسری طرف انہوں نے حافظ ثناء اللہ مدنی کو فقہاء اہل حدیث میں شمار کیا ہے ، لیکن ان کے نزدیک ان پر حدیثی رنگ غالب ہے ، جبکہ حافظ عبد الرحمن مدنی کے ہاں فقیہانہ نکتہ رسی زیادہ ہے ۔ جبکہ محدث روپڑی اور حافظ گوندلوی دونوں کے جامع تھے ۔
محترم استاد صاحب کے بقول یہ تمام علماء گلدستہ اہل حدیث کے مختلف پھول ہیں ، ان سب کو ملا کر مسلک کی صحیح شکل سامنے آتی ہے ، گویا ان میں سے کوئی بھی طرز یا اسلوب مستقل طور پر مسلک کا مکمل ترجمان نہیں ۔
( جیسا کہ پہلے عرض کیا ، مجھے اس بیان سے جزئی اتفاق ہے ، لیکن بہر صورت یہ ایک سوچ ہمارے ہاں عرصہ دراز سے موجود ہے ، جس میں بہت سی باتیں قابل اخذ و رد ہیں ، زیر بحث آئیں گی تو حل ہوجائیں گی ، ورنہ یونہی سینہ بہ سینہ یا تلمیذ عن شیخ یہ دھارے بہتے رہیں گے ۔)
 
Last edited:
Top