• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلقِ قرآن کا فتنہ اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ کی استقامت

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
قرآن اگر مخلوق نہیں تو پھر کیا ھے؟

خلقِ قرآن کا فتنہ اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ کی استقامت

امام صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان خلقِ قرآن کا فتنہ تھا۔ یہ فتنہ برپا کرنے والا شخص قاضی احمد بن ابودائود تھا۔ یہ بڑا عالم فاضل تھا۔ معتزلی عقیدہ کا مالک تھا۔ خلیفہ مامون کے بہت قریب تھا۔ اس نے خلیفہ مامون کو پٹی پڑھائی کہ قرآن مخلوق ہے۔ اس عقیدے کی اشاعت کی جانی چاہیے اور دراصل یہ یہودیوں کا عقیدہ تھا۔ اسلام سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ اس شخص نے قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ بشر مدلیسی سے لیا تھا۔ بشر مدلیسی نے جہم بن صفوان سے ٗجہم بن صفوان نے جعد بن درہم سے ٗ جعدبن درہم نے ربان بن سمعان سے اور ربان بن سمعان نے لبید بن اعصم یہودی کے بھانجے طالوت سے سیکھا تھا۔ یہ لبید بن اعصم وہی یہودی ہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کرایا تھا ٗ یہ تورات کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھتا تھا۔ طالوت بددین اور زندیق تھا۔ سب سے پہلے اس نے اس موضوع پر کتاب لکھی تھی۔

قاضی احمد کی بات مان کر خلیفہ نے سن218 ہجری میں پورے عالمِ اسلام میں سرکاری حکم جاری کر دیا کہ ہر مقام کا امیر اور حاکم اپنے ہاں کے علماء سے اس کا اقرار لے۔ کوئی انکار کرے تو اسے گرفتار کر کے خلیفہ کے دربار میں بھیج دے۔

بغداد کے پولیس آفیسر اسحاق بن ابراہیم کو یہ حکم پہنچا۔ اس نے وہاں کے علماء کو بلا لیا۔ ان میں امام احمد بن حنبل بھی تھے۔ ان کے سامنے مامون کا حکم سنایا گیا اور کہا گیا

سب لوگ اقرار کریں کہ قرآن اللہ کی مخلوق ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فوراً کہا

قرآن اللہ کا کلام ہے۔

آپ کے ساتھ تین اور محدثین نے بھی قرآن کو مخلوق ماننے سے انکار کیا۔ اسحاق بن ابراہیم نے انہیں قید میں ڈال دیا۔ دوسرے دن اس نے چاروں کو جیل سے نکلوایا اور کہا

اقرار کر لو کہ قرآن اللہ کی مخلوق ہے۔

ان میں سے ایک نے اقرار کر لیا۔ امام صاحب اور ان کے باقی دو ساتھیوں کو پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔ تیسرے دن اس نے تینوں کو بلا کر پھر اقرار کروانا چاہا۔ آج بھی ان میں سے ایک نے اقرار کر لیا۔ اب امام صاحب کے ساتھ صرف ایک ساتھی رہ گئے۔ ساتھی کا نام محمد بن نوح تھا۔ ان دونوں کو حالتِ قید ہی میں طرسوس روانہ کر دیا گیا۔ محمد بن نوح طرسوس کے راستے میں انتقال کر گئے۔ امام احمد بن حنبل نے ان کی تجہیز و تکفین کی۔

ایسے حالات میں ایک دن مامون کا ایک درباری روتا ہو آپ کے پاس آیا اور بولا

ابو عبداللہ! معاملہ بہت سخت ہے۔ مامون نے تلوار نیام سے نکال لی ہے اور قسم کھا کر کہہ رہا ہے ٗ اگر احمد نے خلقِ قرآن کا اقرار نہ کیا تو میں اس تلوار سے اس کی گردن اڑادوں گا۔

یہ سن کر امام احمد بن حنبل نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیک دیا اور آسمان کی طرف دیکھا ٗ پھر بولے

اے اللہ! اس فاجر کو تیرے حلم نے اتنا مغرور کر دیا ہے کہ اب وہ تیرے دوستوں پر بھی ہاتھ اُٹھانے سے باز نہیں آرہا… اے اللہ! اگر قرآن تیرا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے تو مجھے اس پر ثابت قدم رکھ… اور میں اس کے لئے ساری مشقیں برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔

یہ دُعا ابھی ختم ہوئی ہی تھی کہ رات کے آخری حصے میں مامون کی موت کی خبر آ گئی۔ حضرت امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں ٗ

مجھے یہ خبر سن کر بہت خوشی ہوئی… لیکن پھر مجھے معلوم ہوا کہ معتصم کو خلیفہ بنایا گیا ہے اور محمد بن ابی دائود اس کا وزیر مقرر ہوا ہے تو صورتِ حال اور زیادہ خوفناک محسوس ہونے لگی۔

خلیفہ مامون کے بعد معتصم خلیفہ بنا تھا۔ مامون نے اس بارے میں اسے تاکید کی تھی کہ علماء سے یہ مسئلہ منوایا جائے۔ اس نے خلیفہ بنتے ہی حکم دیا کہ ان علماء کو پیش کیا جائے۔

امام صاحب اور ان کے ساتھیوں کو جیل خانے میں ڈال گیا ۔ اس حالت میں بھی ان کی بیڑیاں نہ کھولی گئیں۔ امام صاحب بیڑیوں میں رہ کر قیدیوں کی امامت کراتے رہے۔ امام صاحب کو جیل سے نکال کر بھرے دربار میں پیش کیا جاتا۔ معتصم قرآن کے مخلوق ہونے کے بارے میں بحث کرتا۔ جب آپ نہ مانتے تو جیل میں بھجوا دیتا۔ آخر اس نے ایک دن کہا

اگر آپ نہیں مانیں گے تو پھر آپ کو کوڑے لگوائے جائیں گے۔

امام صاحب کہتے ہیں

اس بات سے میں خوف زدہ ہو گیا… کوڑوں کی سزا میرے لئے خوفناک تھی اور میرا خیال تھا کہ میں برداشت نہیں کر سکوں گا… لیکن انھی حالات میں ایک دن جب خلیفہ نے بات کرنے کے لئے بلایا تو ایک دیہاتی راستے میں آپ کے سامنے آ گیا۔ اس کا نام جابر بن عامر تھا۔ اس نے امام احمد کو سلام کیا اور کہا

امام صاحب ! آپ کی ذات اس وقت مُسلمانوں کے لئے بہت اہم ہے۔ آپ اس وقت مُسلمانوں کے نمائندے بن کر بادشاہ کے دربار میں جا رہے ہیں۔ اللہ کے لئے آپ مُسلمانوں کو شرمندہ نہ کرائیے گا۔ ہرگز ہرگز خلقِ قرآن کا اقرار نہ کیجئے گا۔ اگر آپ اللہ کو دوست رکھتے ہیں تو صبر کیجئے گا… بس جنت اور آپ میں آپ کے شہید ہونے کی دیر ہے… اور موت تو بہر حال آنے والے ہے… اگر آپ اس فتنے میں کامیاب ہو گئے تو آپ کی دُنیا اور آخرت دونوں بن جائیں گی۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی یہ باتیں میرے دل پر اثر کر گئیں اور میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ خلیفہ کی بات ہرگز نہیں مانوں گا۔

اس کے علاوہ ایک اور واقعہ یہ پیش آیا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک خط ربیع کے ہاتھ امام احمد کی طرف بھیجا۔ ربیع کہتے ہیں

جس وقت میں ان کے پاس پہنچا ٗ وہ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر واپس ہو رہے تھے۔ میں نے خط انہیں پیش کیا۔ آپ نے پوچھا

’’تم نے اس خط کو پڑھا ہے۔

میں نے بتایا کہ نہیں ٗ میں نے خط نہیں پڑھا۔ اب آپ نے خط کھول کر پڑھا۔

امام شافعی رحمہ اللہ نے لکھا تھا

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے ٗ وہ فرماتے ہیں کہ احمد کو میرا سلام کہو… اور انہیں اطلاع دو کہ عن قریب خلقِ قرآن کے مسئلے میں ان کی آزمائش ہو گی… خبر دار خلقِ قرآن کا اقرار نہ کریں… اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان کے علم کو قیامت تک برقرار رکھیں گے۔

خط پڑھ کر امام احمد رونے لگے ۔ پھر اپنا کرتا اُتار کر مجھے دیا۔ میں اسے لے کر مصر واپس آ گیا اور امام شافعی رحمہ اللہ سے سفر کے حالات بیان کیے۔ اس کے کرتے کا بھی ذکر کیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے سن کر فرمایا

میں وہ کرتا تو تم سے نہیں مانگتا… ہاں اتنا کرو کہ اسے پانی میں تر کر کے ٗ وہ پانی مجھے دے دو… تاکہ میں اس سے برکت حاصل کروں۔ بیہقی

ان واقعات سے آپ کو بہت حوصلہ ملا۔ آپ کو 18 ماہ تک قید میں رکھا گیا۔ پائوں میں بیڑیاں ڈال دی گئی تھیں۔ اسی حالت میں آپ قیدیوں کی امامت کرتے رہے۔ آخر 18 ماہ بعد اور بعض روایات کے مطابق تیس ماہ بعد آپ کو قید خانے سے نکال کر معتصم کے سامنے لایا گیا۔ بھاری بیڑیوں کی وجہ آپ کے لیے چلنا حد درجے دشوار ہو رہا تھا۔ امام صاحب فرماتے ہیں

اس وقت حالت یہ تھی کہ بیڑیوں کو ازار بند سے باندھا اور ہاتھوں سے اُٹھا کر کچھ دور تک چلا ٗ پھر سواری لائی گئی۔ کوئی سواری پر بیٹھنے میں مدد دینے کو تیار نہیں تھا ٗ خود ہی ہزار دِقّت کے ساتھ سوار ہوا۔ اس طرح دارالخلافہ لایا گیا۔ یہاں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ کمرے میں چراغ تک نہیں تھا۔ وضو کی ضرورت پیش ائی تو اندھیرے میں ٹٹولنے لگا۔ ایک کونے میں پانی کا برتن مل گیا ہے۔ اس سے وضو کیا۔ نماز کے لئے اس طرح کھڑا ہو ا کہ قبلے کی سمت معلوم نہیں تھی۔ پھر دن نکلنے پر مجھے معتصم کے سامنے پیش کیا گیا۔ ابن ابی دائود بھی موجود تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا

امیر المومنین! میرا تو خیال تھا ٗ یہ کوئی جوان آدمی ہو گا۔ یہ تو ادھیڑ عمر معلوم ہوتا ہے۔

پھر میں معتصم کے قریب چلا گیا۔ اس نے اور نزدیک ہونے کے لئے کہا ٗ میں اور نزدیک ہو گیا اور سلام کیا۔ اس کے بعد میں نے کہا

امیر المومنین! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کی طرف دعوت دی تھی؟

معتصم نے کہا

لاالہ الا اللہ کی طرف۔

میں نے کہا

تو میں گواہی دیتا ہوں ٗ اللہ ایک ہے ٗ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

اب اس نے پوچھا

قرآن کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟

میں نے جواب دیا

قرآن اللہ کا کلام ہے جس نے اللہ کے کلام کو مخلوق کہا ٗ اس نے کفر کیا۔

اس پر سارے درباری طیش میں آ گئے اور بول اُٹھے

اس نے ہم سب کو کافر کہا ہے۔

معتصم نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ اب معتزلی گروہ نے آپ سے سوالات شروع کیے۔ آپ ہر سوال کا مکمل جواب دیتے رہے۔

تمام دن سوالات اور جوابات ہوتے رہے… آخر بات دوسرے دن پر گئی… دوسرے دِن پھر سوالات شروع ہوئے… وہ دن بھی گزر گیا… پھر تیسرے دن مناظرہ شروع ہوا… آپ کی ایک اکیلی آواز سب پر بھاری رہی… ادھر معتصم ان سے بار بار یہ کہ رہا تھا

احمد ! تم میرے مسلک کی تائید کرو ٗ میں تمہیں اپنا خاص مقرب بنائوں گا۔ پھر تم ان لوگوں میں سے ہو جائو گے جن کو میرے اس قیمتی فرش پر چلنے کا فخر حاصل ہے۔

اس کے جواب میں آپ یہی فرماتے

نہیں! میں اللہ کی کتاب اور سنتِ رسول سے اس کی دلیل چاہتا ہوں۔

ادھر معتزلیوں نے دیکھا ٗ امام ان کے سوالات کی زد میں بالکل نہیں آ رہے تو معتصم سے کہنے لگے

امیر المومنین! یہ شخص کافر ہے ٗ گمراہ ہے ٗ اسے ضرور سزا ملنی چاہیے ٗ اگر اسے چھوڑ دیا گیا تو یہ بات خلافت کے خلاف ہو گی۔ پھر آپ کی کیا عزت رہ جائے گی۔

معتصم کا اپنا ذہن معتزلی تھا۔ اپنے دربار یوں کی باتیں سن کر اس نے سخت لہجے میں کہا

اللہ تیرا برا کرے ٗ میں نے تو تجھے اپنی طرف لانے کی پوری کوشش کی تھی ٗ لیکن تو بہت ضدی اور ناسمجھ نکلا۔

پھر اس نے حکم دیا

اسے کوڑے لگائے جائیں۔

تب میرے دونوں ہاتھ باندھ دیے گئے۔ کوڑے مارنے والے نزدیک آئے تو میں نے معتصم سے کہا

امیر المومنین ! اللہ اللہ ! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں… اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات کے ہوتے ہوئے میرا خون حلال کیا جا رہا ہے ٗ کیا میں مُسلمان نہیں ہوں… قیامت کے دن آپ میرے اس خون کا حساب کیسے دیں گے؟

میری یہ بات سن کر معتصم بہت متاثر ہوا اور قریب تھا کہ مجھے چھوڑ دینے کا حکم دے دیتا ٗ لیکن شریر لوگوں کی جماعت نے بھی یہ بات بھانپ لی۔ وہ پکار اُٹھے

امیر المومنین! یہ شخص بدترین گمراہ ہے… سزا ضرور ملنی چاہیے۔

آخر کوڑے مارنے والوں نے کوڑے مارنا شروع کیے۔

جب پہلا کوڑا پڑا ٗ میں نے کہا ٗ بسم اللہ ! دوسرا کوڑا مارا گیا تو میں نے کہا لاحول ولاقوۃ الا باللہ۔ تیسر کوڑا مارا گیا تو میں نے کہا ٗ القرآن کلام اللہ

ادھر کوڑے مارنے والے کہتے تھے

اللہ تمہارا برا کرے ٗ اپنی نافرمانی کا بدلہ چکھو۔

مجھے یہاں تک کوڑے مارے گئے کہ میں بے ہوش ہو گیا۔ کوڑے روک دیے گئے… ہوش آیا تو معتصم نے پھر پوچھا

میں نے کوئی جواب نہ دیا تو کوڑے پھر برسنے لگے۔ غرض خلیفہ نے بار بار کوڑے لگوائے… آخر میں پھر بے ہوش ہو گیا۔ ہوش آیا تو ایک کوٹھری میں بند تھا۔ یہ واقعہ 25 رمضان المبارک سن 221 ہجری کا ہے۔ اس کے بعد خلیفہ نے مجھے میرے گھر پہنچانے کا حکم دیا

کہا جاتا ہے… آپ کو اسّی کے قریب کوڑے لگائے گئے۔ آپ کو گھر کی طرف لے جایا گیا تو راستے میں آپ اسحاق بن ابراہیم کے ہاں بھی ٹھہرے۔ آپ روزے سے تھے۔ کھانے کے لئے ستور وغیرہ لایا گیا تو آپ نے انکار کر دیا۔ اسی تکلیف کی حالت میں روزہ پورا کیا۔ ظہر کی نماز بھی جماعت سے پڑھی۔ کسی نے اشکال کیا

آپ نے خون بہنے کی حالت میں نماز پڑھی ہے؟

آپ نے جواب دیا

ہاں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسی حالت میں نماز پڑھی تھی کہ ان کے زخم سے خون فوارے کی طرح نکل رہا تھا۔

کوڑے لگنے کے وقت کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس وقت اپ کا ازار بند کھل گیا اور آپ کو بے ستر ہونے کا خوف لاحق ہو گیا تھا ٗ چنانچہ آپ نے ان الفاظ میں دُعا فرمائی تھی

اے اللہ! اگر یہ مشقت میں حق کے لئے برداشت کر رہا ہوں تو میری ستر پوشی فرما۔

آپ کی اس دُعا کی وجہ سے پاجامہ سرک کر اپنی جگہ پر آگیا اور بدن سے چمٹ گیا۔

جرح نے آپ کا علاج کیا اور آپ تندرست ہو گئے ٗ لیکن ان زخموں کی تکلیف موسمِ سرما میں عمود کر آتی تھی۔ وفات تک یہ صورت رہی۔ اپ نے معتزلہ کے سوا سب کے قصور معاف کر دیے۔ انہیں اس لیے معاف نہ کیا کہ وہ اہلِ بدعت تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے

اپنے کسی مومن بھائی کو اپنے لئے تکلیف دینا اچھا نہیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب لوگون کو ان کے اعمال کی جزا دینے کے لئے بلائے گا تو وہی شخص پہلے جائے گا جس نے دُنیا میں کسی کا قصور معاف کیا ہوگا۔

آپ کے ساتھ یہ حضرات بھی اسی مسئلے میں ڈٹے رہے اور شہادت پائی

محمد بن نوح نیشا پوری ٗ نعیم بن حماد خزاعی ٗ ابویعقوب یوطی۔

پھر آپ نے معتصم کو بھی معاف کر دیا۔ معتصم کے بعد واثق خلیفہ تھا ٗ یہ بھی معتزلی تھا۔ اس نے بھی اس مسئلے پر علماء کو جمع کیا اور خلقِ قرآن کے مسئلے میں انہیں مشکل میں ڈالا لیکن امام احمد بن حنبل کو اس نے نہیں چھیڑا۔ وہ جانتا تھا کہ انہیں ستانے کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ البتہ اس نے امام صاحب کو یہ پیغام بھیج دیا کہ آپ اس شہر میں نہ رہیں ٗ چنانچہ امام صاحب واثق کے دور میں روپوشی کی زندگی بسر کرتے رہے۔

واثق کے بعد متوکل خلیفہ ہوا۔ اس نے اس فتنے کو ختم کیا اور علماء کو ہدایت کی درس و تدریس کی مجلس قائم کیں اور معتزلہ اور اس جیسے دوسرے فرقوں کا رد کریں۔

ح
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم ۔۔۔
یہ تمام تاریخی کتب کے اقتباسات ہیں جن کی کوئی سند نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی معتبر حوالے سے ثابت ہے کہ امیر المؤمنین مامون الرشید نے ایسا کوئی حکم دیا تھا۔
ابو العرب التمیمی کی کتاب المحن ہو یا صالح بن حنبل کی کتاب المحنہ۔۔۔ کسی جگہ بھی یہ معتبر حوالہ موجود نہیں کہ امیر المؤمنین نے ایسا حکم دیا ہو۔۔۔ امام احمد بن حنبل پر ظلم و ستم امیر المؤمنین مامون الرشید کے دور میں تو ہوا ہی نہیں البتہ معتصم کے دور میں ہوا۔
جہاں تک یہ بات کہ امیر المؤمنین کے گورنر نے انہیں گرفتار کیا تھا اور ان پر کوئی ظلم کیا تھا یا دوسرے علماء پر ظلم کیا تھا تو یہ گورنر کا اپنا ذاتی فعل تھا، اس وقت امیر المؤمنین مامون الرشید سینکڑوں میل دور شہر رقہ میں تھے اور اسی دوران طرسوس چلے گئے تھے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ ۱۹۸ ھ میں برسر اقتدار آنے والے امیر المؤمنین کو ۲۰ سال بعد ۲۱۸ھ میں یہ ظلم و ستم ڈھانے کا تب خیال آیا جب وہ سرحدوں پر غیر مسلموں کے حوالے سے اقدامات میں مصروف تھے؟
کیا وہ یہ کام بغداد میں خود موجود ہوتے ہوئے نہیں کرسکتے تھے؟
امیر المؤمنین مامون نے اس وقت کے ایک کمزور اور عیاش حکمران کو ختم کرکے حکومت اسلامیہ کی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے حوالے سے جو اقدامات کئے وہ کسی سے چھپے ہوئے نہیں۔
غیر مسلم ہمیشہ سے اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے عظیم حکمرانوں کو تاریخ کے آئینے میں برا ثابت کریں اور بدقسمتی سے انہیں مسلمانوں کے پاس ہی سے ایسا میٹیریل مل جاتا ہے اور بلاشبہ یہ بھی غیر مسلموں اور زندیقوں کی ہی سازش ہے کہ اتنے بڑے حکمران کو بدنام کیا جائے۔
اس حوالے سے کوئی معتبر حوالہ ہے تو پیش کریں۔
تاریخ کی کتب کی بے سند روایات مت پیش کریں۔ قیامت کو آپ کو اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔
 
Top