• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواتین کا اعتکاف، مسجد میں یا گھر میں

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
خواتین کا اعتکاف، مسجد میں یا گھر میں

تحریر : ابو بکر قدوسی

آج کل یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ خواتین اعتکاف مسجد میں کریں گی یا گھر میں ۔
لیکن !
خواتین کو بعد میں دیکھتے ہیں پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ اعتکاف کا تعلق مسجد سے ہے یا غیر مسجد سے بھی؟
تو عرض یہ ہے اعتکاف وہ عبادت ہے کہ جس کا تعلق ہی مسجد کے ساتھ ہے
قران کریم میں ہے :

وَلَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَاَنْـتُـمْ عَاكِفُوْنَ فِى الْمَسَاجِدِ ۗ

اورتم عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں ہو البقرۃ ( 187 ) ۔

اب ذرا اس آیت پر تدبر کیجیے ، مرد اپنی بیوی سے مباشرت کرنے کے لیے لازمی طور پر اپنے بیڈروم میں یا اپنے گھر میں یا کسی باپردہ پرسکون جگہ پر ہوتا ہے ۔ دوسری طرف مسجد میں مباشرت کا عمل باقاعدہ حرام ہے ۔اور اب یہاں اعتکاف میں بھی مباشرت کی ممانعت ہے ۔

اب ذرا غور کیجیے ، اللہ تعالی اعتکاف کی حالت میں مباشرت کو ممنوع قرار دے رہے ہیں اور ساتھ مسجد کا ذکر ہے ۔ اگر صرف یہ کہا جاتا ہے کہ اعتکاف کی حالت میں مباشرت حرام ہے تو کوئی بھی صاحب یہ نکتہ اٹھا سکتے تھے کہ :

"مباشرت خالصتاً بیڈ روم کا فعل ہے اور گھر کا کام ہے نہ سربازار ہوتا ہے اور نہ ہی مسجد میں ہوتا ہے تو لازمی بات ہے کہ اس سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اعتکاف گھر میں بھی ہو سکتا ہے"

لیکن اس "نکتہ رسی" کو روکنے کے لیے اللہ تعالی نے بڑے صاف لفظوں میں مباشرت کے ساتھ مسجد کا ذکر کردیا .
تو اب نتیجہ یہ نکلےگا کہ جب آپ مسجد میں اعتکاف کی حالت میں بیٹھے ہیں اور آپ کو بیوی سے قربت کا کوئی موقع مل جاتا ہے تو آپ ایسا نہیں کریں گے۔

بالفرض آپ کے گھر کا دروازہ مسجد میں کھلتا ہے یا آپ مسجد کے مؤذن ، خادم ، امام اور خطیب ہیں اور آپ کے لیے گھر میں رسائی آسان ہے تو اس امکان سے آپ ہرگز فائدہ اٹھا کر مباشرت نہیں کریں گے۔

مندرجہ بالا آیت میں اعتکاف کو مسجد کےساتھ خاص کیا گیا ہے لھذا یہ ثابت ہوا کہ مسجد کے علاوہ کہیں بھی اعتکاف کرنا صحیح نہيں ہوگا ۔

اسکی وضاحت ان احادیث سے بھی ہوتی ہے کہ جن میں اعتکاف کے احکامات کا بیان ہے ۔
سیدہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگي کے آخر تک رمضان المبارک کے مکمل آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے ، پھر ان کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف کرتی رہیں ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2026 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1172 ) ۔۔۔

ان احادیث میں کوئی بعید ترین اشارہ بھی نہیں کہ یہ اعتکاف گھر میں تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتکاف عمر بھر مسجد میں تھا اور ساتھ ہی روایت میں امہات المومنین کے اعتکاف کا ذکر ہے ۔ اگر اس اعتکاف کی کیفیت میں کوئی فرق ہوتا تو یقیناً اس روایت یا کسی اور میں اس کی طرف اشارہ ہی آ جاتا ، لیکن ذخیرہ حدیث ایسے کسی ذکر سے خالی ہے ۔

مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کو درست نہ سمجھنے والے احباب اپنے موقف کی تائید میں یہ حدیث لے کر آتے ہیں

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (مسجد میں) ایک خیمہ لگا دیتی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ کے اس میں چلے جاتے تھے۔ پھر حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا سے خیمہ کھڑا کرنے کی (اپنے اعتکاف کے لیے) اجازت چاہی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی اور انہوں نے ایک خیمہ کھڑا کر لیا جب زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی (اپنے لیے) ایک خیمہ کھڑا کر لیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی خیمے دیکھے تو فرمایا، یہ کیا ہے؟ آپ کو ان کی حقیقت کی خبر دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تم سمجھتے ہو یہ خیمے ثواب کی نیت سے کھڑے کئے گئے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینہ (رمضان) کا اعتکاف چھوڑ دیا اور شوال کے عشرہ کا اعتکاف کیا۔۔۔صحیح بخاری ۔۔۔۔

اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ مسجد میں عورتوں کا اعتکاف منع ہے ، درست استدلال نہیں ہے ، ہرگز اس کو درست نہیں سمجھا جا سکتا ۔
رسول مکرم صلی علیہ وسلم معلم بن کر آئے تھے اگر وہ کوئی خلاف شریعت کام دیکھتے تو ان کا معمول تھا کہ فوری اصلاح کرتے اور درست طرف رہنمائی فرماتے۔
مشہور فقہی قاعدہ ہے کہ
" تاخیر البیان عن وقت الحاجۃ لا یجوز "
سو کیسے ممکن تھا کہ رسول مکرم اصلاح میں تاخیر کرتے اور وہ بھی جائز و ناجائز جیسے کسی معاملے میں ۔

یہاں بھی اگر ایسا ہوتا تو بیبیوں سے ناراض ہونے کی بجائے ان کی درست سمت رہنمائی کرتے کہ مسجد میں اعتکاف عورتوں کے لئے درست نہیں ، خیمے اٹھا کر گھر میں لے جائیں۔۔

لیکن آپ ناراض ہو گئے اور خود اپنا خیمہ بھی اٹھا لیا ۔۔ آپ کو وہ واقعہ یاد دلاتا ہوں جب آپ نے اپنے لیے شہد کو حرام قرار دے لیا تھا ، یہ بھی آپ کی بیبیوں کی باہمی مسابقت کے اظہار کے سبب پیش آیا کہ جس میں ناراض ہو کر آپ نے قرار دیا کہ آئندہ عمر بھر آپ شہد استعمال نہیں کریں گے ۔۔ یہ واقعہ بھی اعتکاف کے اس معاملے سے ملتا جلتا اور خالص ازدواجی زندگی سے متعلق تھا لیکن اس میں شدت کچھ بڑھ کے تھی تو اللہ تعالیٰ کو مداخلت کرنا پڑی اور قرآن نازل ہوا ۔

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَۚ-تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ ( کیا ) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ۔

اب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف ختم کرنے اور بیبیوں کے بھی خیمے اٹھوانے میں مقصود یہ ہوتا ہے کہ مسجد میں عورتوں کا اعتکاف جائز نہیں تو کچھ تو اشارہ کیا ہوتا ۔۔جبکہ جو جملہ بولا جاتا ہے اس میں واضح ناراضی جھلک رہی ہے کہ :

" کیا تم سمجھتے ہو یہ خیمے ثواب کی نیت سے کھڑے کئے گئے ہیں" ظاہر ہے اس جملے میں پنہاں ناراضی اشارہ کر رہی ہے اس مسابقت کی طرف جو حضور کے قرب کے لیے تھی مگر بقول حضور مکرم ، روح عبادت متاثر ہو رہی تھی ۔۔۔

بعض اہل علم مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کو سیدھا ہی مکروہ تحریمی کہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔۔

جو دوست مساجد میں اعتکاف کو مفاسد کے اندیشہ ہائے دور دراز کے سبب مکروہ سمجھتے ہیں ، کل ان کے خدشات پر بات کریں گے ان شاءاللہ
 
Top