سوال یہ ہے کہ خوارج کے بارے میں ہمارے اسلاف رحمہم اللہ کا کیا فیصلہ تھا ؟
کیا وہ مرتد ہیں؟ یا
دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں؟
مسلمان ہیں لیکن کبائر کے مرتکب ہیں
اور سابقہ زمانوں کے خوارج اور آج جن پر خوارج کا حکم لگایا جا رہا ہے وہ ایک ہی ہیں یا الگ الگ ہیں؟
یا حالات اور وقت کو مدنظر رکھا جائے گا؟
السلام و علیکم رحمت الله-
بہت اچھا سوال کیا ہے فیض الابرار صاحب آپ نے - میں کافی عرصے سے اس موضوع پر تفصیل سے لکھنا چاہ رہا ہوں لیکن مصروفیت کی بنا پر فلوقت یہ ممکن نظر نہیں آ رہا -
مختصراً یہ ہے کہ دور قدیم کے خوارج مرتد تھے - جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ دین سے خارج لوگ- حضرت علی رضی الله عنہ نے ان سے نہروان کے مقام پر قتال کیا تھا - اس سے پہلے حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کا ان سے مناظرہ بھی ہوا تھا لیکن یہ لوگ اپنے باطل نظریات سے باز نہیں آے- قرآن کی اپنی من معنی تفسیر کرتے رہے-
اگر خوارج سے متعلق احادیث نبوی کو غور سے پڑھا جائے تو دور حاضر میں کسی گروہ کو خوارج پکارنا سراسر غلط بیانی ہے- احادیث نبوی میں ان کی سب سے خاص نشانی یہ بیان ہوئی ہے کہ یہ قرآن پڑھیں گے لیکن یہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا - یعنی اس کی غلط توجیہات بیان کریں گے - اول تو دور حاضر میں ٩٠ فیصد مسلمان قرآن کریم پڑھتے ہی نہیں تو حلق سے اترنا تو دور کی بات (یعنی یہ خوارج سے بھی گئے گزرے ہیں) - پھر جو لوگ قرآن پڑھتے ہیں ان میں سے بھی ٨٠ فیصد ایسے ہیں جن کے حلق سے قرآن نہیں اترتا - جو اپنے اپنے مسالک سے چمٹے ہوے ہیں -جب کہ اسلام میں فرقہ بنانا کفر ہے - تو اس لحاظ سے تو خود یہ سب کے سب اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں- اور جن جہادیوں کو یہ خوارج گردانتے ہیں ان پر بھی یہ یہود و نصاریٰ کے پروپوگنڈے کی بنا پر اندھا دھند اعتماد کرکے فتویٰ لگاتے ہیں کہ یہ خوارج ہیں وغیرہ - خود یہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں - اور کبھی جہاد بالسیف پرعمل تو دور کی بات اس کی نیت بھی نہیں کرتے-
ایک حدیث کے مطابق دورحاضر کے خوارج کا گروہ دجال اکبر کے زمانے میں اس کی ہمنوائی میں نکلے گا - اوردجال کے خروج میں ابھی کافی عرصہ و سال باقی ہیں- (واللہ اعلم)