انگریزوں کے زمانے میں ایک عالم بغاوت کے الزام میں بند تھے،،جمعے والے دن نہا دھو کر تیل کنگھی کر کے انتظار میں رھتے جونہی جمعے کی اذان ھوتی تیز تیز قدموں سے چلتے جیل کے مین گیٹ پر کھڑے رھتے،پوری اذان جیل کی کے گیٹ کی سلاخیں پکڑ کر سنتے اور پھر واپس آ جاتے،، انگریز جیلر جو ان کا یہ معمول دیکھ رھا تھا،، آخر اس نے حافظ صاحب کو دفتر طلب کیا اور پوچھا کہ
" تم یہ کیا تماشہ کرتے ھو ھر جمعے والے دن ؟ جب تم کو معلوم ھے کہ جیل کا دروازہ بند ھے اور تم اس سے باھر نہیں جا سکتے تو پھر اتنے دور چل کر جانے کا کیا مقصد ھے ؟ حافظ صاحب نے جواب دیا،، جیلر صاحب،میرے رب کا مجھے حکم ھے کہ جب جمعے کی اذان سنو تو سارے کام چھوڑ کر جھٹ پٹ مسجد پہنچو ! میں جہاں تک یہ حکم پورا کر سکتا ھوں ، کر دیتا ھوں اس امید کے ساتھ کہ آگے میری مجبوری کو دیکھ کر میرا رب میری حاضری خود لگا دے گا کیوں کہ وہ فرماتا ھے کہ وہ کسی کی استطاعت سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالتا، مجھے امید ھے میرا رب مجھے جمعے کا اجر عطا فرما دے گا،اگرچہ میں جیل میں ظہر پڑھتا ھوں،،جو چیز آپ کو تماشا لگتی ھے وہ میرے لیئے دین اور ایمان کا مسئلہ ھے،،
بس ھمارا معاملہ بھی یہی ھو،جہاں تک اسلام میں وسعت موجود ھے وھاں تک ہم کوشش کرتےرھیں دین کے دائرے میں رھتے ہوئے،