• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خود اختیاری موت اور خودکشی ،اسلام کی روشنی میں

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یورپ میں ایسا مریض جو اپنی بیماری سے تنگ آ گیا ہو وہ اپنی مرضی سے موت اختیار کر لیتا ہے اور وہاں کے قانون بھی اسے تحفظ دیتے ہیں
کیا اسے خودکشی کہا جائے گا؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
زندگی کے مختلف مراحل میں جب کوئی شخص مختلف اقسام کے مصائب اور مشکلات میں گھر جاتا ہے یا مسائل و مصائب کا حل حسب منشا نہیں نکلتا تو شدید دکھ اور رنج کی کیفیت میں خود کشی جیسے انتہا ئی اقدام کے اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتاکہ وہ اپنے اندر مزید ناکامیوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں پاتا اس نامناسب اقدام کو کسی بھی سماج ومعاشرہ میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا۔ اسلام بھی اس عمل کو حرام قرار یتاہے۔ ایسا کرنے والوں کا ٹھکانہ سوائے جہنم کے اور کہیں نہیں ہے۔ جب کہ ملکی قانون میں یہ اقدام بذات خود کوئی برا نہیں ہے اورنہ قابل مواخذہ ہے کیوں کہ ہر شخص اپنی ذات کا مالک ہے اور وہ اس میں تصرف کرنے کا پورا اختار رکھتا ہے۔ البتہ اقدام خودکشی کو ضرور جرم قرار دیاگیا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس حوالے سے تو کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا لیکن اگر کوئی شخص کسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہو یا عمر کے کسی بھی حصے میں لاعلاج اور مہلک بیماری میں مبتلا ہوجائے حتی کے اپنی ذاتی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہو جاتا ہے اور تکلیف انتہا درجے کی ہو کہ مریض تو کجا لواحقین اور احباب دیکھ کر شدید اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض مریضوں کی تکلیف کی شدت کم کرنے کے لیے دوا اورآلات کے ذریعہ مستقل طور پر بے ہوشی میں رکھا جاتا ہے۔ اس صورت میں اگر ان تدبیروں کو بروئے کار نہ لایا جائے تو مریض کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور اس کی تکلیف میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں مریض خود یا اس کے قریبی رشتہ دار چاہتے ہیں کہ ایسے مریض کا زندہ رہنا نہ رہنے کے برابر ہے تو کیوں نہ اسے مناسب تدبیر کے ذریعہ موت کے آغوش میں پہنچادیا جائے۔ اس طرح سے مریض کو بھی ناقابل برداشت تکلیف سے نجات مل جائے گی اوران کے احباب کو بھی پریشانیوں سے چھٹکارا مل جائے گا جو مریض کی دیکھ بھال اور اس کی خدمت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اسی عمل کو جدید علم طب میں قطع حیات بہ جذبہٴ رحم کہا جاتا ہے جس کے لیے Mercy Killing کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس کے علاوہ ایک تیسری نوعیت جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ مریض پیدائشی طور پر یاوقتی طور پر کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہے مثلاً دماغی بخار، پولیو، نمونیہ، کینسر، یا شید بڑھاپا یا اپاہج وغیرہ جو بذات خود مہلک اور تکلیف دہ بیماریاں ہیں، جن کا ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق کوئی علاج نہیں۔ ایسی صورت میں وہ کسی دوسری بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو کیا ایسی صورت میں اس نئی بیماری کا علاج کرایا جائے یا نہیں، جب کہ وہ پہلے سے ہی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے اور اس نئی بیماری کے علاج سے شفایابی کے باوجود اس کی صحت پر کوئی خاص اثر پڑنے والا نہیں ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مغربی طریقہ علاج میں ایسے مریض کو مناسب طریقہ سے قبل از وقت مار دیا جائے تاکہ وہ اپنے لیے اور اپنے لواحقین کے لیے مزید پریشانی اور اذیت کا سبب نہ بنے۔اس کا آغاز بھی ایک انگریز ڈیرک ہپمرے نے ۱۸۸۰م میں کیا جب اس کی بیوی نے ایسے کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہو کر خود جان سے دی تھی اس کے بعد ڈیرک اس فکر کا داعی بن گیا اور ڈیرک نے جس فکر کی وکالت اور حمایت کی ہے وہ یہ کہ تکلیف دہ بیماری کی تکلیف کم کرنے کے لیے اوراس کی سانس کو برقرار رکھنے کے لیے جوادویہ یا آلات استعمال کیے جاتے ہیں وہ روک لیے جائیں اوراس کی دوا بند کردی جائے تاکہ مریض سکون سے دنیا سے رخصت ہوجائے۔

اس عمل کو بروئے کارلانے میں حرج ہی کیا ہے؟

مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تو اس عمل کو بروئے کار لانے میں لاعلاج اور شدید تکلیف میں مبتلا مریضوں کے ساتھ انتہائی ہمدردی کا پہلو مضمر ہے تاکہ نہ مریض زیادہ تکلیف اور پریشانیوں سے دوچار ہو اور نہ اس کے متعلقین۔ اس کے علاوہ اس کے علاج پر جو روپے خرچ ہورہے ہیں وہ محفوظ بھی رہ سکیں۔ اگرمریض یا اس کے قریبی متعلقین کی مرضی سے اس عمل کو بروئے کارلایا جائے تو بظاہر اس میں کیا قباحت ہے؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کیااسلام اس عمل کی اجازت دیتا ہے؟

لیکن اسلامی پہلو سے اس معاملہ پر اگر غور کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ اگراسلام میں اس کی اجازت ہوتی تو پھر وہ خودکشی جیسے اقدام کو ناجائز اورحرام نہ ٹھہراتا۔ خود اختیاری موت اور خود کشی کے مفاسد معاشرے پر ایک ہی جیسے مرتب ہوتے ہیں ۔ اس صورت میں مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کیا جانا از حد ضروری ہے۔ کیوں کہ الٰہی شریعت کا کردار ایک شفیق طبیب کی طرح ہے جو مریض کی حالت، عادت مرض کی قوت اور ضعف کے تقاضے کے مطابق مریض کو مرض کی اصلاح پر آمادہ کرتا ہے، یہاں تک کہ جب مریض کی صحت مستقل ہوجاتی ہے تو اس کے لیے ایک معتدل لائحہ عمل تجویز کردیتا ہے جو اس کے تمام حالتوں کے مناسب ہوتا ہے۔

اس سلسلہ میں اسلام کا موقف کیا ہے اس کے جاننے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اس مسئلہ پر غور کریں کہ اسلام میں انسان کی جان کی کیا قدروقیمت ہے اورکسی بندہ کو اپنی جان کے ختم کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ جب کوئی انسان بیمار پڑتا ہے تو اس بارے میں مریض، اس کے رشتہ دار اور ڈاکٹروں کا کیا فریضہ بنتا ہے۔ اس کے بعد بآسانی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ نہیں اوراگر دیتا ہے تو کیوں اورنہیں دیتا ہے تو کیوں اور اس میں کون سی مصلحت مضمر ہے؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
زندگی خدا کی طرف سے عطا کی ہوئی ایک امانت ہے:

انسان دنیا میں آتا ہے تو پہلے اسے بڑے دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ نو ماہ مادر شکم میں رہتا ہے جو ایک طرح سے اس کی دنیا ہوتی ہے۔ پھر وہ ایک خاص وقت میں کٹھن مرحلہ سے گزر کر اس دنیا میں آتا ہے۔ اس وقت نوزائیدہ بچے پر کیا گزرتی ہے وہ وہی جانتا ہے، مگر وہ اس تکلیف کا بعد میں اظہار نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اس کی ماں کی جو حالت ہوتی ہے اس کا دکر قرآن مجید میں اس طرح کیاگیا ہے: پیٹ میں رکھا اس کی ماں نے اس کو اور جنا اس کو تکلیف سے (احقاف:۱۵)

یہ مشیت خداوندی ہے کہ اتنی سخت تکلیف کے باوجود عورت دوسرا بچہ جننے کے لیے عمر کے ایک خاص حصے تک تیار رہتی ہے، ورنہ اس تکلیف کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ایک بچہ جننے کی تکلیف کا تصور کرکے آئندہ دوسرا بچہ پیدا کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس حالت میں کسی کی موت ہوجاتی ہے تو وہ شہادت کی موقت قرار دی گئی ہے۔ جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والمراة تموت بِجُمْع شہید.

پیدائش کے بعد سے لے کر بچہ کے ہوش سنبھالنے تک اس کی بڑی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگر بچہ کو ہلکی سی بھی تکلیف ہوتی ہے تو ماں تڑپ اٹھتی ہے اوراس کی بے چینی اسے سکون سے رہنے نہیں دیتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بظاہر بچہ کی دیکھ بھال اوراس کی حفاظت والدین کرتے ہیں، مگر درحقیقت اس کی ساری نگہبانی خدائے عزوجل کررہا ہے جس نے اسے عدم سے وجود بخشا ہے۔ ایسی صورت میں انسان کی جان کا مالک بھی خدا ہی ہے جس نے اس کو پیدا کیا اور وہی اس کی جان ختم کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ اگر کوئی اس کے عطا کردہ وجود میں خلل ڈالتا ہے یا اس کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ عند اللہ مجرم ہے:

”زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطئہ نظر موجودہ مغربی اور ہندووانہ نقطہ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ وہ اس دعویٰ ہی کو تسلیم نہیں کرتا کہ انسان اس دنیا میں کسی بھی چیز کا حتی کہ اپنی دات کا مطلق مالک ہے اور وہ اس میں اپنی آزاد مرضی سے تصرف کرسکتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ پوری دنیا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور وہ اسے چلارہا ہے۔ اس لیے وہی اس کا حقیقی مالک بھی ہے۔ اس دنیا میں انسان خود سے نہیں آیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اس کے لیے سامان زیست فراہم کیا ہے۔ اس لیے وہی اس کی ذات پر مالکانہ اقتدار بھی رکھتا ہے۔ انسان اپنی ذات یا اپنے کسی اقدام کے بارے میں کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں کرسکتا، ورنہ اس کی حیثیت اس مجرم کی ہوگی جو دوسرے کی چیزوں کو اپنی مرضی سے استعمال کرے اور ان کے بارے میں فیصلے صادر کرتا پھرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہی نہیں ہے کہ اسے کب تک دنیا میں رہنا ہے اور کب یہاں سے کوچ کرنا ہے، جس نے زندگی دی ہے وہی فیصلہ کرے گا کہ زندگی کب واپس لی جائے گی۔

اللہ کے نزدیک کسی انسان کی جان کتنی محترم ہے اوراس کا اس دنیا میں آنا کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ تنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کردیتے تھے تاکہ وہ اس کی پرورش کے بوجھ سے آزاد رہیں۔ مگر اسلام نے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ اس فعل کو حرام قرار دیا اور فرمایا:

(اورنہ قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے ہم ہی روزی دیتے ہیں ان کو اور تم کو بھی، بے شک ان کا مارنا بڑی خطا ہے) (بنی اسرائیل:۳۱)

ایک اور مقام پر اسی بات کو اس طرح بیان کیاگیا ہے:

اور اپنی اولادوں کو مال میں کمی کے خوف سے قتل نہ کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی (انعام:۵۱)

دونوں آیتوں میں الگ الگ دولوگوں کو خطاب کیاگیا ہے۔ ایک وہ ہیں جو فی الحال مفلس تو نہیں ہیں مگر ڈرتے ہیں کہ جب عیال زیادہ ہوں گے تو کہاں سے ان کو کیا کھلائیں گے۔ جب کہ دوسرے طبقہ کو عیال سے پہلے اپنی روٹی کی فکر ستارہی تھی۔ اس لیے ایک جگہ خشیہ املاق اور دوسری جگہ من املاق کے ذریعہ خبردار کیاگیا کہ تم کو رزق کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی۔

اگر کوئی آدمی کثرت اولاد کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کے لیے بچے کووجود میں آنے سے قبل ہی ماں کے شکم میں تلف کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسلام اس عمل کو حرام ٹھہراتا ہے۔ یا پھر سرے سے ہی کوئی شخص یہ چاہے کہ عورت دوسرا بچہ ہی نہ جنے اوراس کے لیے وہ احتیاطی تدابیر عمل میں لاتا ہے تو اس عمل کو بھی اسلام نے اچھا قرار نہیں دیا ہے:

اس طرح کے بہت سے احکام قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی میں ملتے ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جس خالق نے مفلسی کے عالم میں کسی کو وجود بخشا ہے تو وہی اس کو رزق بھی فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا اسے ہی اختیار ہے کہ کب کسی کی جان لی جائے۔ بس انسان کے ذمہ ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اوراس میں کوئی تصرف نہ کرے۔

کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا علاج نہ ہو:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تو ساتھ ہی اس کے دکھ، درد،آلام ومصائب کے علاوہ راحت وسکون اور صحت و تندرستی کو بھی اس کی زندگی کا اہم حصہ بنادیا۔ جب کبھی انسان بیمار پڑتا ہے تو بعضے وقت یہ بیماری بغیر دوا وعلاج کے دو چند روز کے بعد خود ہی ختم ہوجاتی ہے اوروہ صحت یاب ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح بعض وقت بیماری میں شدت ہوتی ہے اور تکلیف بھی، تو بغیر دوا اور ڈاکٹروں کی مدد کے اس کی بیماری ختم نہیں ہوتی۔ تھوڑی سی حفاظت اور علاج و پرہیز اسے تندرست و توانا بنادیتا ہے اور ذرا سی بے توجہی اس کی زندگی کو خطرہ میں ڈال دیتی ہے۔ ایسی صورت میں انسان کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی جان کی حفاظت اور تندرست رکھنے کے لیے مناسب ادویہ اور تدابیر اختیار کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا اور اس کی وجہ سے اس کی جان کو کوئی خطرہ پہنچتا ہے تو وہ عند اللہ گنہگار ہوگا، کیوں کہ صحت و تندرستی کے برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بیماری بھی رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری ہے جس کا اس نے تریاق یااس کی دوا نہ پیدا کی ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: کوئی ایسی بیماری نہیں اُتاری اللہ نے جس کی شفا نہ پیدا کی ہو.

ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیمار لوگوں کو علاج کرانے اور دوا کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اس ذات نے وا بھی اتاری جس نے بیماریاں اتاری ہیں.

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اوراسکی زندگی کا ایک عنصر صحت و تندرستی اوربیماری کو بھی بنایا اور بیماری کے ساتھ اس نے دوا بھی پیدا کی تاکہ وہ اس کو استعمال کرکے تندرست ہوجائے۔ مگر بعض وقت مریض اپنی صحت کے لیے جو دوا تجویز کرتا ہے وہ دوا تو ٹھیک ہوتی ہے مگر وہ اپنا اثر نہیں دکھاتی اور بے اثر ہوکر رہ جاتی ہے جس سے انسان کی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ جیساکہ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوا کے بے اثر ہونے کے متعلق فرمایا ہے:

ہرمرض کی دوا ہے جب دوا لگ جاتی ہے تو اللہ کے حکم سے صحت ہوجاتی ہے

اسی لیے فقہا نے لکھا ہے کہ صحت کی بحالی کے لیے دوا کرنا مباح ہے، بشرطیکہ اعتقاد یہ ہوکہ شفا دینے والا اللہ ہے اور صرف یہ اعتقاد ہو کہ دوا ہی شافی ہے تو جائز نہیں ہے۔

معالج کا باخبر اور تجربہ کار ہونا ضروری ہے:

اسلام نے صحت کی حفاظت کیلئے تجربہ کار اور علم رکھنے والے ڈاکٹروں سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیوں کہ حاذق طبیب ہی مریض کی صحت کو اچھی دوا کے ذریعہ بروقت بحال کرسکتا ہے اور وہ یہ رائے دے سکتا ہے کہ کون سی چیز اس کو تندرست رکھنے میں مفید ہوسکتی ہے اور کون سی غیرمفید۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے جس کے راوی حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے تشریف لائے، میرے سینہ پر دست مبارک رکھا، میں نے اپنے قلب کے اندر اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ آپ نے فرمایا: تمہیں دل کی شکایت ہے تم قبیلہ ثقیف کے حارث بن کلدہ کے پاس جاؤ وہ اس مرض کا علاج کرتا ہے۔ اس تکلیف میں آدمی کو مدینہ کے سات اچھی قسم کے چھوہارے گٹھلیوں سمیت کٹواکر پھانکتے رہنا چاہیے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف جان کار اور تجربہ کار ڈاکٹروں سے دوا علاج کرنے کا حکم دیا بلکہ ساتھ ہی آپ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ ناواقف اور ناتجربہ کار طبیب سے علاج نہیں کرانا چاہیے، اس سے نہ صرف صحت خراب ہوتی ہے بلکہ جان کے ہلاک ہونے کا پورا پورا خطرہ رہتا ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناواقف ڈاکٹروں کو بھی خبردار کیاہے کہ بغیر صحیح جان کاری کے کسی کا علاج نہیں کرنا چاہیے:

طب کو اچھی طرح نہ جاننے کے باوجود جس نے علاج کیا اوراس سلسلہ میں وہ متعارف نہیں تھا تو وہ کسی بھی نقصان کا ضامن ہوگا

ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

جس شخص کا پہلے سے طبیب ہونا معلوم نہیں تھا، اس نے لوگوں کا بہ تکلف علاج کیا اور نقصان پہنچایا تو وہ ضامن ہوگا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
چند مستثنیات کے ماسوا ہر بیماری کا علاج بندہ کے اختیار میں ہے:

علاج کے بعد بھی بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا کوئی علاج نہیں۔ اس میں ایک موت ہے اور دوسرا بڑھاپا۔ موت کسی کی واقع ہونے والی ہے تو کتنی ہی احتیاطی تدابیر اختیار کیوں نہ کرلی جائیں اسے کوئی روک نہیں سکتا اور وہ وقت معینہ پر آکر رہے گی۔ اسی طرح بڑھاپے کو بھی کوئی دوا ٹال نہیں سکتی، کیوں کہ بڑھاپا طاری ہی اسی لیے ہوتا ہے کہ اب اس کا کام اس دنیا سے ختم ہوگیا اس لیے اسے بڑھاپے کی منزل میں پہنچادیاگیا جس میں وہ کچھ دن مبتلا رہ کر اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ کے بندو! علاج کراؤ اس لیے کہ اللہ عزوجل نے موت اور بڑھاپے کے سوا جو بھی بیماری اتاری ہے اس کے لیے شفا بھی رکھی ہے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

ہر بیماری کا علاج اللہ نے پیدا کیا ہے مگر بڑھاپے کا کوئی علاج نہیں:
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کیا انسان نے بعض بیماریوں کے علاج میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے؟

باوجود اس کے بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج اطبا ڈھونڈھنے میں اب تک ناکام ہیں۔ یہ انسانوں کی کم علمی ہے نہ کہ خالق کائنات کا نقص۔ اسی لیے تو قرآن میں متعدد مقام پر اہل ایمان کو مخاطب کیاگیا ہے کہ تم کائنات کی تخلیق پر غور نہیں کرتے، تم اشیا کے رموز و حقائق کے جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے، تمہیں اتنا شعور کیوں نہیں کہ تم نامعلوم چیزوں کا علم حاصل کرلو۔

دنیا نے دیکھا ہے کہ انسان جن نامعلوم چیزوں کے جاننے کی کوشش برابر کرتے رہے انہیں اس میں کامیابی مل گئی۔ کینسر جو کسی زمانے میں لاعلاج بیماری تصور کیا جاتا تھا آج اطبا نے اس کا کلی علاج تو نہیں البتہ اس کے انسداد کا حل کافی حد تک تلاش کرلیاہے۔ سینکڑوں مریض دوا کے سہارے آج زندہ ہیں چہ جائے کہ ان کی جان کا خطرہ لگارہتا ہے۔ یہ کیاکم ہے کہ ان کا عرصہ حیات تنگ نہیں ہوا ہے۔ اگر بیماری پہلے اور دوسرے مرحلے ہی میں تھی اور بروقت اس کا علاج شروع کردیاگیا تو یہ بیماری بھی ختم ہوجاتی ہے۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا اندازہ تھا کہ بعض بیماریوں کا علاج ابھی انسان کی دسترس سے باہر ہے، لہٰذا آپ نے لوگوں کو اس میں کامیابی حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کی شفا بھی اتاری ہے، جاننے والا اسے جانتا ہے، نہیں جاننے والا نہیں جانتا۔

حالات اور وقت کے ساتھ آدمی کی ضرورتیں بدلتی رہتی ہیں۔ پہلے طب میں وہ سہولتیں نہیں تھیں جو آج کے زمانے میں ہیں اور آئندہ بھی مزید سہولتیں فراہم ہوں گی (انشاء اللہ) جو مریض اور طبیب کے لیے تقویت کا باعث ہوں گی۔ چنانچہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کل داء دواء مریض اور طبیب دونوں کے لیے تقویت کا باعث ہے۔ اس میں علاج کے تلاش کی ترغیب بھی ہے۔ اگر مریض کو یہ محسوس ہوکہ اس کا مرض لاعلاج نہیں ہے بلکہ اس کا علاج ممکن ہے تو اس کا دل امید سے بھرجائے گا اورمایوسی ختم ہوجائے گی۔ اس سے وہ اپنے اندر نفسیاتی طور پر مرض پر غالب آنے والی توانائی محسوس کرے گا۔ اسی طرح طبیب کو جب معلوم ہوگا کہ ہر بیماری کی اللہ نے دوا رکھی ہے تو تلاش وجستجو اس کے لیے ممکن ہوگی
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عیادت سے مریض کی صحت کو تقویت ملتی ہے:

یہیں سے عیادت کی شرعی حیثیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی مصیبت اوربیماری میں مبتلا ہوتو دوسرے بھائی کو چاہیے کہ وہ اس کی عیادت کے لیے پہنچے اور مریض کو تسلی بخش باتیں سناکر لوٹے۔ اس سے مریض کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے اندر سے مایوسی ختم ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری دیکھ بھال کرنے والے بہت سارے لوگ ہیں۔ کبھی کبھی یہ خیرخواہی مریض کے حق میں اتنی مفید ہوتی ہے کہ دوا بھی اس کا بدل نہیں ہوتی اور بیمارباتوں باتوں میں اچھا ہوجاتا ہے اور بستر مرض سے اٹھ کر چلنے پھرنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف مریض کے حق میں فائدہ ہوتا ہے بلکہ عیادت کے لیے جانے والے شخص کو بھی اللہ تعالیٰ ڈھیر ساری نیکیوں سے نوازتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ:

جو مسلمان بھی کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں۔ اگر وہ شام کے وقت اس کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں اور جنت میں اس کے لیے پھل ہوں گے

ایک دوسری حدیث میں ہے: بے شک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اس کے وہاں سے واپس ہونے تک وہ جنت کے پھلوں میں رہتا ہے۔

عیادت نہ صرف یہ کہ اپنے قریب ترین رشتہ دار کی کی جائے بلکہ اس کے مستحق سارے لوگ ہیں۔ بچہ، بوڑھا، جوان، عورت، مرد، پڑوسی، یہاں تک کہ غیرمسلموں کی بھی کی جانی چاہیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر کثرت سے عمل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تاکید کے ساتھ فرمایا:

بھوکے کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو،اور قیدی کو چھڑاؤ۔
 
Top