- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
خوش اخلاق انسان
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَحَبُّ عِبَادِ اللّٰہِ إِلَی اللّٰہِ أَحْسَنُھُمْ خُلُقًا۔ ))1
تشریح...: لفظ خُلُق اور خَلْق یکساں استعمال ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں اچھے خُلُق اور خَلْق والا ہے یعنی باطنی اور ظاہری اعتبار سے اچھا ہے۔ لفظ خَلْق سے ظاہری صورت اور خُلُق سے باطنی صورت مراد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان دو چیزوں سے مرکب ہے ایک جسم جو کہ بصارت سے دیکھا جاتا ہے اور دوسری چیز روح اور نفس ہے جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں دو طرح کی شکلیں رکھتی ہیں۔ ایک قبیح اور دوسری اچھی۔ چنانچہ جو ہیئت نفس میں راسخ ہو، اُسے خُلُق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس ہیئت سے بغیر غوروفکر کے آسانی اور سہولت کے ساتھ افعال سرزد ہوتے ہیں۔ اگر اس ہیئت سے عقلی اور شرعی لحاظ سے عمدہ اور اچھے افعال سرزد ہوں تو اسے اچھا خُلُق کہتے ہیں اور اگر قبیح افعال صادر ہوں تو اس کا نام برا خُلُق رکھتے ہیں۔'' اللہ تعالیٰ کے ہاں بندوں میں سب سے زیادہ محبوب بندہ وہ ہے جس کا (دوسروں کی نسبت) اخلاق اچھا ہے۔ ''
اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ انسان اسی وقت حسن خلق سے موصوف ہوگا جب یہ اس کے نفس میں راسخ ہوگا اور بغیر دیکھے بھالے آسانی کے ساتھ اس سے افعال صادر ہوں لیکن اگر تکلف، مشقت اور غوروفکر کی وجہ سے افعال سرزد ہوں، تو اسے حسن خلق نہیں کہتے۔ مثلاً ایک آدمی کو کسی حاجت کی وجہ سے مجبوراً مال خرچ کرنا پڑا یا غصے کے وقت بڑی مشقت کرکے اسے کنٹرول کیا تو اسے یہ نہیں کہا جائے گا کہ بلحاظِ خلق وہ بڑا سخی اور بردبار ہے۔
ظاہری خلقت کو بدلنا ممکن نہیں لیکن اخلاق کو بدلنا ممکن ہے، اسی لیے دین و دعوت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، وصیتیں، مواعظ اور تادیبات یہ سب کی سب اخلاقی قدروں کے لیے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِھِمْ o} [الرعد:۱۱]
اس جگہ بدلنے سے مراد برے اخلاق کو اچھے اخلاق کی طرف لے جانا ہے۔'' بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے نفسوں میں ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۷۷۔