• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوش اخلاق انسان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خوش اخلاق انسان

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَحَبُّ عِبَادِ اللّٰہِ إِلَی اللّٰہِ أَحْسَنُھُمْ خُلُقًا۔ ))1
'' اللہ تعالیٰ کے ہاں بندوں میں سب سے زیادہ محبوب بندہ وہ ہے جس کا (دوسروں کی نسبت) اخلاق اچھا ہے۔ ''
تشریح...: لفظ خُلُق اور خَلْق یکساں استعمال ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں اچھے خُلُق اور خَلْق والا ہے یعنی باطنی اور ظاہری اعتبار سے اچھا ہے۔ لفظ خَلْق سے ظاہری صورت اور خُلُق سے باطنی صورت مراد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان دو چیزوں سے مرکب ہے ایک جسم جو کہ بصارت سے دیکھا جاتا ہے اور دوسری چیز روح اور نفس ہے جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں دو طرح کی شکلیں رکھتی ہیں۔ ایک قبیح اور دوسری اچھی۔ چنانچہ جو ہیئت نفس میں راسخ ہو، اُسے خُلُق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس ہیئت سے بغیر غوروفکر کے آسانی اور سہولت کے ساتھ افعال سرزد ہوتے ہیں۔ اگر اس ہیئت سے عقلی اور شرعی لحاظ سے عمدہ اور اچھے افعال سرزد ہوں تو اسے اچھا خُلُق کہتے ہیں اور اگر قبیح افعال صادر ہوں تو اس کا نام برا خُلُق رکھتے ہیں۔
اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ انسان اسی وقت حسن خلق سے موصوف ہوگا جب یہ اس کے نفس میں راسخ ہوگا اور بغیر دیکھے بھالے آسانی کے ساتھ اس سے افعال صادر ہوں لیکن اگر تکلف، مشقت اور غوروفکر کی وجہ سے افعال سرزد ہوں، تو اسے حسن خلق نہیں کہتے۔ مثلاً ایک آدمی کو کسی حاجت کی وجہ سے مجبوراً مال خرچ کرنا پڑا یا غصے کے وقت بڑی مشقت کرکے اسے کنٹرول کیا تو اسے یہ نہیں کہا جائے گا کہ بلحاظِ خلق وہ بڑا سخی اور بردبار ہے۔
ظاہری خلقت کو بدلنا ممکن نہیں لیکن اخلاق کو بدلنا ممکن ہے، اسی لیے دین و دعوت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، وصیتیں، مواعظ اور تادیبات یہ سب کی سب اخلاقی قدروں کے لیے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِھِمْ o} [الرعد:۱۱]
'' بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے نفسوں میں ہے۔ ''
اس جگہ بدلنے سے مراد برے اخلاق کو اچھے اخلاق کی طرف لے جانا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۷۷۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اچھا اور عمدہ اخلاق انسان نفس کے مجاہدے اور ریاضت کے ذریعہ حاصل کرسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ سے اچھے اخلاق کو عادت بنانے اور اس کی طرف رہنمائی کی دعا مانگا کرتے تھے دعا کے الفاظ و معانی درج ذیل ہیں:
(( أَللّٰھُمَّ اھْدِنِيْ لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا یَھْدِيْ لِأَحْسَنِھَا إِلاَّ أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّيْ سَیِّئَھَا لَا یَصْرِفُ عَنِّيْ سَیِّئَھَا إِلاَّ أَنْتَ۔ ))1
'' اے اللہ تو مجھے عمدہ اخلاق کی طرف ہدایت دے (کیونکہ) اچھے اخلاق کی طرف صرف تو ہی ہدایت دے سکتا ہے اور مجھ سے اس کی (اخلاق کی) برائی دور کردے (کیونکہ) اس کی برائی صرف تو ہی مجھ سے دور کرسکتا ہے۔ ''
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وصیت بھی کیا کرتے تھے:
(( وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔ ))2
'' کہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے معاملہ کرو۔ ''
اخلاق انسان کے وہ خصائل ہیں جن کے ذریعے وہ کسی سے معاملہ کرتا ہے اور یہ خصائل یا تو محمود ہوں گے یا مذموم۔ محمود اور اچھے خصائل کی اجمالی تعریف یہ ہے کہ غیر کے ساتھ ایسے ہوجانا کہ جہاں اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، وہاں اس کی بجائے خود نقصان برداشت کرلینا۔ تفصیل حسب ذیل ہے: درگزر کرنا، بردباری، سخاوت، صبر، تکلیف کو برداشت کرنا، شفقت کرنا، حاجات کو پورا کرنا، آپس میں محبت اور نرمی کا مظاہرہ کرنا وغیرہ۔
مذموم اخلاق اس کے برعکس ہیں۔
نوع انسان میں خُلُق ایک جبلت ہوتی ہے جس کی بناء پر انسانوں کے مختلف درجات بن جاتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں کہ ان کی جبلت میں اچھا اخلاق غالب ہوتا ہے اور بعض لوگوں کو عمدہ اخلاق بنانے کے لیے مجاہدے کا حکم ہے۔ چنانچہ اسی طرح اگر عمدہ اخلاق کمزور ہے تو اسے قوی بنانے کے لیے انسان کو ریاضت کرنا پڑے گی۔
عمدہ اخلاق کے ثمرات...: اچھے اخلاق کے ثمرات ہوتے ہیں جو کہ عمدہ اخلاق پر دلالت کرتے ہیں، مثلاً بعض کے نزدیک چہرہ خوش رکھنا، سخاوت کرنا، کسی کی تنگی دور کرنا اور مشقت برداشت کرنا اچھا اخلاق کہلاتا ہے۔ بعض کا قول ہے کہ چونکہ اس کی اللہ کے متعلق معرفت شدید ہوتی ہے، اس لیے نہ تو اس کے ساتھ کوئی جھگڑے اور نہ ہی یہ کسی سے جھگڑے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ لوگوں کے قریب ہونا اور جو اُن کے پاس ہے (یعنی مال) اس سے اجنبی ہونا، عمدہ اخلاق ہے۔ یہ قول بھی ہے کہ مخلوق کو آسانی اور تنگی میں راضی رکھنا۔ اللہ تعالیٰ سے راضی ہونے کو بھی خوش اخلاقی کہا گیا ہے اس کا کم سے کم درجہ حسب ذیل بتایا گیا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم في کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب: صلاۃ النبي ﷺ ودعاؤہ باللیل، رقم: ۱۸۱۲۔
2 صحیح ترمذی، رقم :۱۶۱۸۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
برداشت کرنا اور بدلہ نہ لینا، ظالم پر شفقت اور رحم کرنا اور اس کے لیے استغفار کرنا۔ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ رزق میں حق تعالیٰ پر تہمت نہ لگانا اور اسی پر توکل رکھنا اور جس چیز کا ضامن ہے، اسے پورا کرنا، اللہ تعالیٰ اور اس کے درمیان، نیز اس کے اور دیگر انسانوں کے درمیان، جو امور ہیں ان سب میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا اور اس کی نافرمانی نہ کرنا۔ بعض اچھے اخلاق کو تین خصلتوں میں بیان کرتے ہیں۔
(۱) حرام اشیاء سے اجتناب،
(۲) حلال کی طلب،
(۳) اہل و عیال پر فراخی کرنا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ حق کے مطالعہ کے بعد مخلوق کی زیادتی اس پر اثر انداز نہ ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ فکر صرف اور صرف اللہ کی ہو۔ بعض لوگوں نے عمدہ اخلاق کی علامات کو اس طرح جمع کیا ہے۔
(۱) آدمی کثیر الحیاء ہو،
(۲) کسی کو بہت قلیل تنگی پہنچائے،
(۳) بہت اصلاح کرنے والا ہو،
(۴) سچی زبان والا ہو،
(۵) قلیل الکلام،
(۶) کثیر العمل،
(۷) کم لغزشوں والا،
(۸) غیر متعلقہ باتوں میں نہ پڑنے والا ہو،
(۹) نیکی کرنے والا،
(۱۰) میل ملاپ رکھنے والا،
(۱۱) باوقار،
(۱۲) بہت شکر کرنے والا،
(۱۳) حلیم الطبع،
(۱۴) پاک دامن اور شفقت کرنے والا ہو،
(۱۵) بہت لعنت کرنے والا نہ ہو،
(۱۶) گالی بکنے والا نہ ہو،
(۱۷) چغل خور نہ ہو،
(۱۸) غیبت کرنے والا نہ ہو،
(۱۹) جلد باز نہ ہو،
(۲۰) کینہ اور حسد رکھنے والا نہ ہو،
(۲۱) بخیل بھی نہ ہو،
(۲۲) ہشاش بشاش ہو اور
(۲۳) اللہ کے لیے ہی کسی سے بغض اور محبت رکھنے والا ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَا مِنْ شَيْئٍ یُوْضَعُ فِيْ الْمِیْزَانِ أَثْقَلَ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ، وَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الْخُلُقِ لَیَبْلُغُ بِہِ دَرَجَۃَ صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلَاۃِ۔ ))1
'' قیامت کے روز ایماندار کے ترازو میں اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی شے نہیں ہوگی، اچھے اخلاق والا اپنے اخلاق کی وجہ سے روزے دار اور نمازی کے درجے کو پہنچ جاتا ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۶۲۹۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسری حدیث میں فرمایا کہ:
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ: (( إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَیُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقِہِ دَرَجَۃَ الصَّائِمِ اَلْقَائِمِ۔ ))1
'' ایماندار اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے قیام کرنے والے، روزے دار کے درجے کو پہنچ جاتا ہے۔ ''
روزے دار اور رات کو قیام کرنے والے کے ساتھ مشابہت اس طرح سے ہے کہ یہ دونوں اپنے نفسوں سے جنگ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی مختلف طبیعتوں کے باوجود جو انسان ان سے اچھے اخلاق کا برتاؤ کرتا ہے، وہ بھی کئی نفوس سے جنگ کرتا ہے۔ چنانچہ روزے دار اور رات کو قیام کرنے والے کو جو انعامات ملتے ہیں، اس کو بھی مل جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات یہ ان دونوں سے بڑھ جاتا ہے۔2
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح سنن أبي داود، رقم: ۴۰۱۳۔
2 احیاء العلوم الدین للغزالی، ص: ۵۲۔ ۷۰ ؍ ۳۔ فتح الباری، ص: ۴۵۶، ۴۵۹ ؍ ۱۰۔ عون المعبود، ص: ۱۰۷، ۱۳۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
حُسن اخلاق کا بیان

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ أَبُو الْجَمَاهِرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو كَعْبٍ أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّعْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ الْمُحَارِبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا، ‏‏‏‏‏‏وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ مَازِحًا، ‏‏‏‏‏‏وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش خلق ہو ۔

سنن ابو داؤد : 4800 صحیح
 
Top