• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خیر القرون کا تعلیمی وتدریسی منہج حدیث

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
خیر القرون کا تعلیمی وتدریسی منہج حدیث

٭…وفاتِ رسول ﷺ ۱۱ھ کو ہوئی۔ تقریباً ۴۰ھ تک اکابر صحابہ فوت ہوچکے تھے۔ ۶۰ھ تک اصاغر کی اکثریت بھی اپنی حیاتِ مستعار کا چراغ گل کرچکی تھی۔ عالم بزرگی اور سن رسیدگی میں جو فوت ہوئے ان میں سب سے آخری صحابی ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ ۱۰۸ھ میں فوت ہوئے اور یہ دور ختم ہوا۔دور تابعین کا آغاز سن ۱ھ سے شروع ہوا۔ کیونکہ یہ لوگ پیدا ہونے کے باوجود متعدد وجوہات کی بنا پرزیارت رسول نہ کرسکے بلکہ وفاتِ رسول کے بعد اکابر صحابہ سے مستفید ہوئے۔

٭…ان صحابہ رسول میں ضرورۃً یہ شعور بھی بیدار ہوگیا کہ سنت ِرسول کو انتہائی ذمہ داری سے منتقل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دبے اور ابھرے فتنوں نے انہیں روایت حدیث اور اس کی ترویج کے لئے بہت محتاط کردیا تھا۔مقصد یہ تھا کہ ناہنجاروں کو یہ خاموش پیغام مل جائے کہ اس راہ میں بدنیتی سے قدم رکھنا بھی ذلت ورسوائی کا سبب ہے اور غیر محتاط رویہ ان کے برے مقاصد کو پورا نہ کرسکے گا۔صحابہ وتابعین نے درج ذیل اقدامات کئے:

٭…مدارسۂ حدیث:
جس کا مطلب ہے ایک دوسرے کو حدیث کی تعلیم دیتے رہنا اس کا سبق یاد دلاتے رہنا۔تاکہ زندگی اسوہ ٔرسول کے رنگ میں ہی ڈھلی رہے۔ صحابہ کرام کو یہ حدیث بہت کام آئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
تَسْمَعُوْنَ، وَیُسْمَعُ مِنْکُم، وَیُسْمعُ مِمَّنْ یَسْمَعُ مِنْکُمْ۔تم حدیث سن رہے ہو اور تم سے یہ سنی بھی جائے گی اور اس سے بھی سنی جائے گی جو تم میں سن رہا ہے۔(ترمذی باب ذم الإکثار من الروایۃ)۔
سیدنا ابن عباسؓ حدیث سننے کے لئے عین دوپہر کے وقت سینئرانصار صحابہ کے گھر آتے اور انتظار میں باہر بیٹھے رہتے۔اس لئے کہ علم کی ضرورت انہیں تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ طلبہ سے فرمایا کرتے :
تَفَقَّہُوْا قَبْلَ أَنْ تَسَوَّدُوْا۔
لیڈربننے سے پہلے علم سیکھ کر سمجھ لو۔

طلبۂ حدیث کو ابھارا کرتے:
تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَالسُّنَّۃَ کَمَا تَتَعَلَّمُوْنَ الْقُرآنَ
علم فرائض اور سنت کو اسی طرح سیکھا کرو جس طرح تم قرآن کو سیکھتے ہو۔(فتح الباری ۱/۱۶۵)، (جامع بیان العلم ۲/۳۴)

انہوں نے اپنی سلطنت کے ذمہ دار حضرات کو یہ لکھا:
أَنْ یَتَعَلَّمُوا السُّنَّۃَ وَالْفَرَائِضَ وَاللَّحْنَ یَعْنِی النَّحْوَ کَمَا یَتَعَلَّمُونَ الْقُرآنَ۔
لوگ سنت، فرائض اور لحن کو یعنی نحو کو اس طرح سیکھیں جس طرح وہ قرآن سیکھتے ہیں۔

ان کی کوشش یہ بھی ہوتی کہ علم کو بہر صورت دوسروں تک پہنچا دیا جائے۔ اس کی حکمت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ یہ فرمایا کرتے:
تَزَاوَرُوا وَتَذَاکَرُوا الْحَدِیْثَ فَإِنَّکُمْ إِلاَّ تَفْعَلُوا یَدْرُسُ۔
ایک دوسرے کو ملا کرو اور باہم مذاکرہ حدیث کیا کرو اگر ایسا نہیں کروگے تو یہ علم مٹ جائے گا۔( معرفۃ علوم الحدیث:۶۰)

سیدناابن مسعودؓ کا کہنا ہے:
عَلَیْکُمْ بِالْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ، وَقَبْضُہُ ذَہَابُ الْعُلَمَائِ۔
علم(حدیث) کا سیکھنا اپنے اوپر لازم کرلو اس سے پہلے کہ وہ ختم ہوجائے اور اس کا ختم ہونا علماء کا چلے جانا ہے۔

٭… سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اپنے عہد میں سرکاری سطح پر اس کام کو ہنگامی انداز میں کرواڈالا۔ جس کی وجہ انہوں نے بھی علماء حدیث کویہ بتائی:
فَإِنِّی خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَہَابَ العُلَمَائِ۔
مجھے حدیث کے ختم ہونے اور علماء کے فوت ہوجانے کا ڈر ہے۔

دونوں عہدکے معاصرین حدیث کوسیکھنے سکھانے اور پڑھنے پڑھانے کا خوب کام سرانجام دیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭…ابو الزناد کہتے ہیں:
ہم صرف حلال وحرام کی احادیث لکھا کرتے۔مگر ابن شہابؒ ہر سنی شے کو لکھ لیا کرتے۔ جب ان کی ضرورت پڑی تو مجھے حیرت ہوئی کہ وہ سب سے بڑے عالم ہیں۔

٭… ہشامؒ بن عروہ کا عہدِ یزید بن معاویہ میں واقعۂ حرّہ میں کتب خانہ جل گیا۔کہا کرتے:
کاش میرے پاس میرے اہل ومال کی بجائے میری کتب ہوتیں۔

٭… مذاکرہ ٔحدیث:
صحابہ کرام موقع ضائع کئے بغیر انفرادی و اجتماعی طور پر مذاکرہ حدیث کیا کرتے تاکہ انہیں حدیث بخوبی یاد ہو جائے ۔ یہی ان کی گفتگو کا محور ہوتی۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں:
کُنَّا نَکُونُ عِنْدَ النَّبِیِّ فَعَسٰی أَن تَکُونَ سِتِّینَ رَجُلاً، یُحَدِّثُنَا الْحَدِیْثَ ثُمَّ یُرِیْدُ الْحَاجَۃَ، فَنَتَرَاجَعُہُ بَیْنَنَا، فَنَقُومُ کَأَنَّمَا غَرَسَ فِی قُلُوبِنَا۔
ہم آپ ﷺ کی خدمت میں تقریباً ساٹھ کے قریب لوگ موجود ہوتے آپ ﷺ ہمیں حدیث بیان فرماتے پھر کسی کام کے لئے آپ ﷺ تشریف لے جاتے تو ہم آپس میں اس حدیث کی مراجعت کرتے۔ جب کھڑے ہوتے تو ہمارے دلوں میں وہ حدیث گڑ چکی ہوتی۔(الإلماع:۱۴۲)

یہ اصحاب صفہ بھی آپ ﷺ کے مختلف خطبات اور احادیث کو بخوبی یاد کرتے:
کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ فَنَسْمَعُ مِنْہُ الْحَدِیْثَ فَإِذَا قُمْنَا تَذَاکَرْنَاہُ فِیْمَا بَیْنَنَا حَتّٰی نَحْفَظَہُ۔
ہم آپ ﷺ کی خدمت میں ہوتے اور آپ کی احادیث سنتے۔ پھر جب علیحدہ ہونے کے لئے کھڑے ہوتے تو ہم آپس میں ان کا مذاکرہ کر لیتے یہاں تک کہ ہم انہیں یاد کرلیتے۔(الجامع لأخلاق الراوی:۴۶)

بعض صحابہ کرام نے اپنی رات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوتا ۔ ایک حصہ نمازکا، دوسرا حصہ نیند کا اور تیسرا حصہ مذاکرہ حدیث کا۔ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إِنِّی لَأُجَزِّئُ اللَّیلَ ثَلَاثَۃَ أَجْزَائٍ ، فَثُلُثٌ أَنَامُ وَثُلُثٌ أَقُومُ أَیْ لِلصَّلَاۃِ، وَثُلُثٌ أَتَذَکَّرُأَحَادِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ۔
میں اپنی رات کو تین حصوں میں بانٹتا ہوں۔ ایک تہائی سوتا ہوں، ایک تہائی قیام کرتا ہوں اور ایک تہائی احادیث رسول کو یاد کرتاہوں۔(سنن دارمی ۱؍۸۲)

٭… علم صحابہ یہی حدیث ہی تھی جس کا وہ مذاکرہ کیا کرتے۔ امام حاکمؒ نے ابو عبد اللہ البخاری کے ترجمہ میں لکھا ہے:
کَانَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ إِذَا اجْتَمَعُوْا إِنَّمَا یَتَذَاکَرُوْنَ کِتَابَ رَبِّہِمْ وَسُنَّۃَ نَبِیِّہِمْ، لَیْسَ بَیْنَہُمْ رَأیٌ وَلاَ قِیَاسٌ۔
اصحابِ رسول جب اکٹھے ہوتے تو اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کا مذاکرہ ہی کیا کرتے تھے کوئی رائے یا قیاس ان کے درمیان نہیں ہوتی تھی۔ (کتاب الفوائداز ابن القیم: ۱۵۴)

٭…وفاتِ نبوی کے بعد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی مرکزو مرجع اصحابِ رسول تھے اس لئے کہ انہیں سب سے زیادہ احادیث یاد تھیں۔ دیگر صحابہ کو اگر سفر بھی کرنا پڑا تو دنوں کی مسافتیں محض حدیث سننے کے لئے ہی طے کیں۔ ایسا بھی ہوا کہ حیاتِ نبوی میں اگر مسئلہ معلوم کرناناگزیر تھا تو مکہ سے مدینہ آپ ﷺ سے پوچھنے کے لئے بھی چل پڑتے۔

٭… آپ ﷺ نے خواتین کے لئے الگ سیشن منعقد کئے اور انہیں بھی احادیث کے ذریعے سے تشفی بخش جوابات دئے۔ آپ ﷺ رسول اللہ تھے مرکزِملت ِعرب نہیں تھے۔ اس لئے یہی مردوخواتین وفاتِ نبوی کے بعد بھی صفہ جیسی عظیم درس گاہ کو نہ صرف آباد کرتے رہے بلکہ دنیا کے کونے کونے میں اسی کی شاخیں بھی کھول لیں۔یہ وہ مشن تھا جو سچے اور پرخلوص جذبہ کے ساتھ حدیث نبوی کو علمی ، دینی اور ایمانی مقام دے گیا۔ ناقدرے لوگ کیا جانیں اس کی اہمیت کو۔ حدیثی ترویج وتعمیل پر نہ صرف وہ گامزن رہے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی یہ راہ دکھادی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭…تابعین کرام میں بھی حدیث کو تازہ رکھنے کی ریت چلی۔عبد الرحمن بن ابی لیلی نے شاگردوں سے فرمایا:
إِحْیَائُ الْحَدِیْثِ مُذَاکَرَتُہُ، فَتَذَاکَرُوْہُ۔ فَقَال عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ شَدَّادٍ: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ! کَمْ مِنْ حَدِیْثٍ أَحْیَیْتُہُ مِنْ صَدْرِیْ قَدْکاَنَ مَاتَ۔
حدیث کا احیاء اس کا مذاکرہ کرنا ہے لہٰذا مذاکرہ کیا کرو۔ عبد اللہ بن شداد نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے: کتنی احادیث ہیں جو آپ نے میرے سینے میں زندہ کردی ہیں جو تقریباً میں بھول گیا تھا۔(الجامع لأخلاق:۱۹۱)

مسلم البطین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رَأَیْتُ أبَا یَحْیَی الأَعْرَجَ ۔۔وَ کَانَ عَالِماً بِحَدیثِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔۔ اجْتَمَعَ ھُوَ وَ سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ فِیْ مَسْجِدِ الْکُوفَۃِ فَتَذَاکَرَا حَدِیثَ ابْنِ عَبَّاسٍ۔
میں نے ابویحییٰ اعرج کو دیکھا۔۔ وہ ابن عباسؓ کی احادیث کے عالم تھے۔۔وہ اور سعید بن جبیر مسجد کوفہ میں آپس میں ملے اور ابن عباسؓ کی احادیث کا انہوں نے باہم مذاکرہ کیا۔(الجامع:۱۸۴)

٭…ابلاغِ حدیث:
صحابۂ رسول نے جو کچھ آپ ﷺ سے سیکھا اسے امانت سمجھ کر تابعین تک منتقل کیا۔ آپ ﷺ کا ارشاد انہیں بخوبی یاد تھا کہ جو علم پاس ہے اسے دوسرے تک پہنچانا ہے۔سیدنا ابوذر غفاری ؓ فرماتے ہیں:
لَوْ وَضَعْتُمُ الصَّمْصَامَۃَ ۔أَیْ السَّیْفَ الصَّارِمَ۔ عَلَی رَقَبَتِیْ ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّیْ أُنَفِّذُ کَلِمَۃً سَمِعْتُہَا مِنَ النَّبِیِّ ﷺ قَبْلَ أَنْ تَجْہَزُوا عَلَیَّ لَاَنْفَذْتُہَا۔
اگر تم کاٹ دار تلوار بھی میری گردن پہ رکھ دو اور اس دوران مجھے علم ہوجائے کہ یہ کلمہ ہے جو میں نے نبی ﷺ سے سنا تھا تو اس سے پہلے کہ تم میری گردن کاٹو میں اسے ضرور کہہ ڈالوں گا۔ (فتح الباری ۱/۹۵)

٭…ان سرگرمیوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ صرف کوفہ میں سنہ ۸۰ھ سے قبل تک چار ہزار طلاب حدیث تھے جن میں چار سو علمِ حدیث حاصل کرنے کے بعد فقاہت واجتہادکے درجے پر پہنچ چکے تھے۔(المحدث الفاصل:۸۰) سیدنا ابوالدرداء ؓ کے حلقے میں جو مسجد دمشق میں ہوتا تھا تقریباً پانچ سو سے زائد طلبہ حدیث ِرسول سننے آتے۔

٭… صحابۂ رسول مختلف علاقوں میں جا بسے۔ مقامی لوگ انہیں بصد شوق ملنے آئے تا کہ ان مقدس ہستیوں کو ذرا جاکر دیکھ سکیں جوبراہ راست رسولِ خدا ﷺ سے مستفید ہوئے۔یہ صحابہ جس علاقہ میں بھی گئے لوگوں کا اژدحام ان کے استقبال کے لئے موجود ہوتا۔ یہ نو مسلم نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے حالات ان سے سنتے بلکہ شرعی مسائل بھی دریافت کرتے۔ صحابہ رسول کی بھی کمال احتیاط تھی کہ وہ صرف حدیث ِرسول سے ہی ان مسائل کا جواب دیتے۔ تعلیم کے یہ حلقے بتدریج وسیع تر ہوتے گئے کیونکہ نئی نسل میں سیرت ِرسول کو اپنانے کا جوش اور ولولہ تھا۔اور خدمت دین کی تڑپ بھی۔صحابہ کرام کے ان لائق شاگردوں نے بھی اپنے لکھے اور ازبر کئے علم کو اپنے تدریسی حلقات میں بڑی احتیاط سے منتقل کیا۔ مختلف اکناف میں قائم یہ سینکڑوں حلقات جن میں مشائخ کی لکھی کتب یا اپنی تصنیف کردہ احادیث جب روایت کی جاتیں تو کتاب کے اختتام پر اس کی سینکڑوں کاپیاں بھی تیارہوجاتی تھیں۔ یہ طلبہ اپنے لکھے نسخے میں اپنے شریک ِسبق طلبہ کا یا اپنی اولاد وازواج کا ذکر بھی اختتامی تاریخ اور مقام سمیت کرتے تھے۔ ساتھ ہی شیخ کی تصدیق ِسماع کے علاوہ اجازتِ روایت بھی لکھی ہوتی۔

٭…بڑے حلقات میں شیخ کی بات دور تک پہنچانے کے لئے املاء کرانے کے لئے مستملی ہوا کرتے ۔بعض حلقات میں ان مستملی حضرات کی تعداد تین سو سے بھی زائد بتائی گئی ہے۔ سینکڑوں کاتب بھی موجود ہوتے۔نوجوانوں کی اکثریت ان حلقات میں شامل ہوتی۔سیدنا ابن عباس ، امام نافع، امام الثوری، عبد اللہ بن مبارک، امام زہری، لیث بن سعد ، احمد بن حنبل، امام مالک، شافعی، علی بن مدینی،یحییٰ بن معین، عبد الرزاق صنعانی، فضل بن دکین اور بخار ی رحمہم اللہ وغیرہ سبھی نے دور مراہقت سے ان حلقات میں شامل ہو کر اپنے علم کو جلا بخشی اور جوانی میں ہی اپنے علم کی دھاک بٹھائی۔ان میں سے بعض کے مشائخ کی تعداد ایک ہزار سے بھی متجاوز ہے۔جب کہ امام بخاری سے اسی ہزار طلبۂ حدیث نے صحیح بخاری سنی۔اس طرح رواۃ حدیث وکتب میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔یوں ایک متن حدیث کی روایت سینکڑوں طلبہ نے جب کی تو اس کی اسانید خود بخود سینکڑوں ہوگئیں۔ یہی وہ مشکل کام ہے جو محدثین کرام کو کرنا پڑا کہ ان رواۃ یا اسانید میں کون ثقہ و صحیح ہے اور کون ضعیف؟ نقد حدیث کا یہ علم رواۃ اسانیدکی پہچان پر استوار ہوا جس نے مصطلحات کے ساتھ علم الرجال کو بھی وجود بخشا۔

٭٭٭٭٭

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top