• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش کا ظہور کہاں اور کیسے ۔۔۔؟ الشیخ علی بن حسن الحلبی

Ibrahim Qasim

مبتدی
شمولیت
مارچ 14، 2016
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
25
داعش کا ظہور کیسے ہوا؟
الحمد للہ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم اما بعد !
سب سے پہلے جس بات کو جاننا بہت ضروری ہے ، وہ یہ ہے کہ داعش کا جب اعلانیہ طور پر ظہور ہوا تھا تو یہ عراق اور شام کے صرف چند محدود علاقوں میں تھے۔ یہ دونوں ممالک ایک لمبے عرصہ سے افتراق وانتشار بلکہ خانہ جنگی کا شکار ہیں، جیسا کہ سبھی جانتے ہیں۔ یہاں کوئی امن وامان نہیں ہے۔
اس اعتبار سے داعش کا ظہور ان حالات میں واقعتاً نبی کریمﷺ کے اس فرمان کے عین مطابق ہے جو آپﷺ نے خوارج کے بارے میں فرمایا تھا کہ
يَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنْ النَّاسِ
“وہ لوگوں کے باہمی اختلاف کے وقت ظاہر ہوں گے۔”
[اس حدیث کو ابن ابی عاصم نے اپنی کتاب السنۃ: 923، ابن ابی شیبہ نے مصنف: 37932 اور ابن عبد البر نے التمہید: 23/331 میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔]
اس کے بالمقابل آپﷺ نے فرمایا تھا کہ “لوگوں کے اختلاف کے وقت حق کو جاننے والے زیادہ علم والے ہوں گے۔”
[یہ روایت اپنی دو سندوں کی بناء پر حسن ہےجیسا کہ ہمارے شیخ علامہ البانی نے اپنی کتاب التعلیقات الرضیۃ علی الروضیۃ الندیۃ (2/150، بتحقیقي) میں فرمایا ہے۔]
ہم ایسا بننے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ اللھم لا تجعلنا منھم
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اسلامی تاریخ کی سب سے اہم دہائی ،تیس سے چالیس ہجری ،جس میں اہل سنت کو خوارج کی سختی، گمراہی اور برے افعال کا سامنا کرنا پڑا، اس ضمن میں وہ 37؁ھ ہجری کے واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“اگر یہ خارجی قوت پکڑ جاتے تو عراق وشام سمیت ساری زمین کو برباد کرکے رکھ دیتے۔ نہ کسی بچے، بچی کو چھوڑتے اور نہ کسی مرد وعورت کو۔ کیونکہ ان کے نزدیک سب لوگ اتنے بگڑ چکے تھے کہ انہیں ٹھیک کرنے کےلیے سوائے سب کے مجموعی قتل کے اور کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ “
[البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: 10/584]
ان کی یہ بات آج حرف بحرف مکمل طور پر مجسم ہوکر سامنے آچکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( یہ مضمون البانی رحمہ اللہ کی شاگرد الشیخ علی بن حسن الحلبی الاثری کی کتاب ” داعش العراق والشام فی میزان السنۃ والاسلام” سے لیا گیا ہے ۔ جلد اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی پیش کر دیا جائے گا ۔ ان شاء اللہ )
 
Top