• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعیانِ سیکولرزم کے ساتھ نرم گرم گفتگو

شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
کونسی شریعت!


فضیلۃ الشیخ صلاح الصاوی




اسلامی شریعت کی داعی تحریکیں عالمی اسٹیج پر روز بروز نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔ سیکولر دماغ اس سیلاب کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں مگر اسلام کی پیش قدمی اللہ کا شکر ہے اپنی رفتار سے جاری ہے اور سیکولرزم کی بہت سی تنصیبات رفتہ رفتہ اس کے زیر آب آنے لگی ہیں۔ جن شبہات کے نشر واشاعت کی صورت میں آج کے سیکولر دماغ رب العالمین کی شریعت کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کر رہے ہیں ان میں سے چند شبہات کا جائزہ ہم اِس کتاب میں لیں گے۔

سیکولرز کا پیش کردہ اشکال: شریعت شریعت تو سب کرتے ہیں۔ مگر اِن داعیانِ شریعت میں سے آج تک کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ کونسی شریعت؟ کوئی ایک شریعت ہو تو بات کریں۔ یہاں خمینی کی شریعت ہے۔ نمیری کی شریعت ہے۔ ضیاءالحق کی شریعت ہے۔ قذافی کی شریعت الگ ہے۔ سعودیہ میں وہابیوں کی اور ہی شریعت ہے۔ اب طالبان ایک اور ہی شریعت لانے جا رہے ہیں۔ آپ حضرات پہلے شریعت پر متفق ہو لیں کہ شریعت کے نام پر آپ لانا کیا چاہتے ہیں!

مسلمانوں کا جواب:

رب العالمین کی شریعت پر اتنی آسانی سے دھول پھینک جانا اور اسکو کوئی ایسی مہمل چیز ثابت کر لینا ممکن نہیں۔ ہماری شریعت کا تعین کرنے کیلئے تو اللہ کا شکر ہے کتاب اللہ پوری کی پوری محفوظ کر رکھی گئی ہے اور پچھلی چودہ صدیوں سے امت اسکو سینے سے لگائے بیٹھی ہے کہ جب بھی کسی کو رب العالمین کی شریعت دریافت کرنا ہو وہ اس کتاب کو کھولے اور اپنے سوال کا جواب پا لے بشرطیکہ ایمان ہو اور اتباع کا ارادہ ہو۔ اس پر اللہ کے فضل سے کبھی بھی دھول پڑنے والی نہیں خواہ تم جتنا مرضی زور لگا لو۔ پھر ہماری شریعت کا تعین کرنے کیلئے ہمارے نبی کی سنت کا پورا ذخیرہ موجود ہے جس کیلئے امت کے محدثین نے چھان پھٹک کرنے میں عمریں کھپا دیں۔ پھر اس شریعت کے فہم و تفسیر کیلئے اور اس سے استدلال کے اصول وضع کرنے کیلئے اور اسکے اختلاف کو ضبط میں لانے کیلئے فقہائے امت نے اپنی زندگیاں صرف کر دیں۔ پس ہماری شریعت تو ایک نہایت معلوم چیز ہے اور جو بھی اخلاص کے ساتھ ، نہ کہ کھلواڑ کرنے کیلئے، اِس شریعت کی طرف بڑھے گا وہ ہرگز اِس شریعت کی پہچان اور تعین کرنے میں کوئی الجھن نہ پائے گا۔

البتہ تم ذرا اپنی شریعت کی بابت بتاؤ، یہ کہاں سے ثابت ہوتی ہے؟ تم جو روز ’جمہوریت‘ کی گردان لے کر بیٹھ جاتے ہو، کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کونسی جمہوریت؟ امریکہ کی جمہوریت؟ برطانیہ کی جمہوریت؟ فرانس کی جمہوریت (جو پیچاری مسلم خاتون کے سکارف کا بوجھ نہ سہار سکی)؟ حسنی مبارک کی جمہوریت؟ پرویز مشرف کی جمہوریت؟ چائنا کی جمہوریت؟ جیسا کیسا جمہوریت کا دعویٰ تو یہ بھی سارے ہی کرتے ہیں! یہاں تو کبھی تمہیں کسی کو الجھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ بھئی کونسی جمہوریت؟

ذرا دہرے معیار دیکھتے جائیے۔ نمیری اور ضیاءالحق کے اعمال کی ذمہ داری ’شریعت‘ کو اٹھوا دی جائیگی اور انکے اعمال کو جھٹ سے ’شریعت‘ کے خلاف دلیل بنا دیا جائیگا۔ یہاں تک کہ شریعت کے ہر طلبگار کو چڑا کر پوچھا جائے گا کہ ارے صاحب کونسی شریعت، ضیاءالحق والی یا نمیری والی؟ البتہ حسنی مبارک اور پرویز مشرف کے اعمال کی ذمہ داری ’جمہوریت بی‘ کو نہیں اٹھوائی جائے گی۔ ظاہر ہے جمہوریت کا ڈھونگ حسنی مبارک نے بھی رچا کر رکھا ہے اور ہر بار ’ننانوے فیصد‘ کی اکثریت سے الیکشن جیت کر دکھایا ہے۔ اب الیکشن ’جمہوریت‘ ہی کے اندر تو ہوتے ہیں! اِسی جمہوریت کا ڈھونگ پرویز مشرف نے بھی رچایا۔ الیکشن کروائے۔ اور پارلیمنٹ بٹھائی۔ لیکن ’جمہوریت‘ کیونکہ حق ہے اور ’آسمان سے اتری ہے‘، لہٰذا کسی کی بد اعمالیوں کی ذمہ داری اِس پر نہیں ڈالی جا سکتی؛ یہ منزہ مبراء ہی رہے گی۔ نہ صرف یہ کہ کسی کی بد اعمالیوں کی ذمہ داری ’جمہوریت‘ پر نہیں ڈالنے دی جائے گی بلکہ اُس ظالم شخص کو جمہوریت کا باقاعدہ مجرم گردانا جائے گا اور الٹا یہ رونے روئے جائیں گے کہ ’جمہوریت‘ کے ساتھ ظلم ہوا ہے!

سچ ہے....، جس بات پر آدمی کا ایمان ہو، اُسکے ساتھ وہ اِسی اخلاص کے ساتھ پیش آتا ہے۔ جمہوریت پر تمہارا ایمان تھا، دیکھ لو، لوگوں کے سب برے کرتوتوں کے باوجود یہ کس طرح صاف کی صاف اور پاک کی پاک رہی! بلکہ اور بھی مقدس ہو گئی!!! اور اس کی حرمت کیلئے دہائی مچانا اور بھی ضروری ہو گیا! شریعتِ خداوندی تمہارے ایمان کا حصہ ہوتی، تو کسی کی بدعملی کی ایک بھی چھینٹ تم شریعت پر نہ پڑنے دیتے اور اسکی پاکی بیان کرنے میں تم کم از کم اتنا ہی زور صرف کرتے جتنا کہ جمہوریت کی پاکی بیان کرنے میں صرف کرتے ہو، بلکہ اُس سے زیادہ:
وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا....!

جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں اس سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں

یہاں تک کہ سیکولرزم ہی کی بابت، واقفانِ حال جانتے ہیں کہ خود اِسکے بہت سارے ورژن ہیں۔ کسی ملک میں ’مذہب‘ کو سوسائٹی میں زیادہ رسوخ رکھنے دیا جاتا ہے اور کہیں پر کم۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں معاملہ اور ہے اور فرانس میں اور۔

آپ دیکھتے ہیں، اِن سب افکار کے پیروکار ایک ہی فرانسیسی سہگانہ شعار کی مالا جپتے ہیں، یعنی: برادری۔ آزادی۔ مساوات۔ مگر کوئی معروضی معیارات جن کی جانب تحاکم ہو انکے ہاں عملاً مفقود ہیں۔ مارکسسٹوں نے اِس سہ گانہ شعار کا اقتصادی معیار سامنے لانا چاہا؛ یہ معاشی حوالے سے دنیا کو ایک نرالا ماڈل دینے چل پڑے۔ لبرلسٹوں نے اس کا سیاسی معیار سامنے لانا چاہا اور یہ سیاسی آزادی کو باقی دونوں چیزوں پر فوقیت دینے چلے گئے۔ جبکہ چینیوں نے اِن ہردو کو غلط گردانا اور ایک ’جمہوریۂ نو‘ کا تصور پیش کیا، جیسا کہ ایشیائی وافریقی انقلابیوں نے اول الذکر ہر دو کے طریقے کو ٹھکراتے ہوئے ’اشتراکی جمہوریت‘ کی داغ بیل ڈالی۔ اِن سب گروپوں میں وہ رسہ کشی اور وہ کھینچا تانی رہی ہے __ افکار کی دنیا میں بھی اور عمل کی دنیا میں بھی، بلکہ عالمی سیاست کی بساط پر بھی __ کہ پوری انسانیت اس کے شکنجے میں کراہتی رہی ہے۔

اِن لوگوں کے پاس تو کوئی ایک معیار، اور انسانیت کو اکٹھا کرنے کیلئے کوئی واضح بنیاد ہے ہی نہیں۔ جس کا زور چلے وہ اپنا ایک نظریہ گھڑ لیتا ہے؛ چند عشروں کے بعد وہ نظریہ پٹخا جاتا ہے اور کسی نئے تجربے کا ڈول ڈالا جا رہا ہوتا ہے۔ کوئی بتائے، اِن کی قلابازیوں کا یہ عمل آج تک رکا کب ہے؟

مارکسزم ہی کو لے لیجئے، جوکہ ایک نہیں بے شمار شکلیں رکھتا ہے۔ اِس کے باوجود مارکسسٹوں کو کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ جب تک تم مارکسزم کی ایک متعین تفسیر پر متفق نہیں ہو لیتے تب تک تمہیں بولنے کا کوئی حق نہیں۔ حالانکہ مارکسزم کی تحریکیں آپس میں اِس قدر متعارض رہی ہیں کہ ان میں بعد المشرقین پایا جاتا رہا ہے۔ فرانس کا ایک معروف مارکسسٹ رہ چکا مؤلف میکسم روڈنسن Maxime Rodinson لکھتا ہے:

حقیقت یہ ہے کہ مارکسزم کوئی ایک نہیں بلکہ درجنوں سینکڑوں صورتیں رکھتا ہے۔ کارل مارکس کے ارشادات متعدد ہیں۔ یہ کچھ ایسا مشکل نہیں کہ اُس کے چھوڑے ہوئے علمی ورثے کو بنیاد بنا کر مارکسزم کے نام پر کسی بھی نظریہ کو ثابت کر لیا جائے۔ سمجھو مارکس کی کتاب بھی مقدس بائبل ہی کی طرح ہے، جس کی نصوص میں سے شیطان بھی اپنی کسی گمراہی کا ثبوت پیش کرنے لگے تو کر سکتا ہے۔ (بحوالہ کتاب الاسلام والعالمانیۃ وجہا لوجہ۔ د۔ یوسف القرضاوی۔ 185)
میکسم روڈنسن کا یہ قول بھی ملاحظہ ہو:
کوئی شک نہیں کہ اشتراکی دعوتیں کئی ساری ہیں۔ چنانچہ بابن کی اشتراکت بروڈن کی اشتراکیت کی نسبت ایک بے حد مختلف چیز ہے۔ پھر سیمن اور بروڈن دونوں کی اشتراکیت پلانکی کی اشتراکیت سے مختلف ہے۔ اور یہ سب اشتراکیتیں لویس پلان، کابیہ، فوربیہ اور بیکر کے اشتراکی افکار سے بالکل مختلف ہیں۔ پھر تم ہر اشتراکی فرقے کے ہاں دوسرے کے خلاف شدید جذبات اور دھڑے بازی بھی دیکھو گے۔ (سابقہ حوالہ صفحہ۔ 184)
یہ سیکولرسٹ جن کے اپنے ہزاروں مذاہب ہیں، اور بھانت بھانت کی بولیاں ہیں، اور خود اِن کو پتہ ہے کہ یہ کسی ٹھوس بنیاد پر کھڑے نہیں ہوئے.... آپ خوب واقف ہیں کمیونسٹوں نے جمہوریت پرستوں کے کیسے کیسے پرخچے اڑائے ہیں، اور جمہوریت پرستوں نے کمیونسٹوں کے کیسے کیسے لتے لئے ہیں، جبکہ یہ دونوں گروہ (یعنی کمیونسٹ اور جمہوریت پرست) انسان پرستی کے ٹھیکیدار رہے ہیں۔ ان میں ہر ایک گویا خلق خدا کے درد میں صبح شام لوٹتا رہا ہے.... یہ سب سرگرداں ظالم آج شریعتِ محمدی کو یہ طعنہ دینے چلے ہیں کہ یہ کسی واضح چیز پر کھڑی ہوئی نہیں ہے! دوہرے پیمانے اِس کے سوا اور کیا ہوتے ہیں:
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَالَّذِينَ إِذَا اكْتَالُواْ عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَوَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَأَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ
(المطففین: 5- 1)
تباہی ہے ڈنڈی ماروں کیلئے۔ جنکا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے ناپ یا تول لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔ اور جب انکو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔ کیا نہیں سمجھتے یہ لوگ کہ یہ اٹھائے جانیوالے ہیں۔ ایک بڑے دن کو؟

رہ گیا شریعت کا نام استعمال کرنے میں کسی حکمران شخص یا ٹولے کا ایک غلطی یا زیادتی کا مرتکب ہونا....، تو جہاں بھی کسی نظریے یا نظام کا استحصال ہوا ہو، عقلاءکے ہاں اِسکی ذمہ داری اُس شخص یا اشخاص پر ڈالی جاتی ہے نہ کہ اُس نظریے یا نظام پر۔ یہ ایک معروف بات ہے اور شریعت کا معاملہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ہاں اُس شخص کی وہ غلطی جو لغزش کے زمرے میں آتی ہو اور بدنیتی کے ساتھ سرزد نہ ہوئی ہو، اُسکا ذمہ دار وہ شخص خود ہوتا ہے، تاہم اس پر اُس کیلئے بخشش و درگزر کی امید رکھی جاتی ہے۔ جبکہ وہ زیادتی جس کا محرک اُس شخص کی اپنی ہوسِ اقتدار اور اُسکے اپنے سیاسی مفادات ہوں، تو وہ اُسکے ذاتی جرائم میں شمار ہوگی، جس پر وہ دنیا میں بھی جوابدہ ہے اور آخرت میں بھی۔

٭٭٭٭٭

اور اب آئیے، اِس مسئلہ کے علمی پہلو کی طرف:

اللہ کا شکر ہے ہماری کئی شریعتیں نہیں، ایک ہی شریعت ہے جس کو لے کر محمد رسول اللہ ﷺ دنیا کے اندر مبعوث ہوئے ہیں، اور جس کا خدا نے زمین پر بسنے والے ہر انس و جن کو قیامت کا صور پھونکے جانے تک باقاعدہ پابند اور مکلف کر رکھا ہے۔ ہاں البتہ یہ کہا جائے گا کہ یہ شریعت جس کو محمد ﷺ لے کر مبعوث ہوئے، دو طرح کے احکام پر مشتمل ہے:

اِس کا ایک حصہ محکم ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جس پر دلیل قاطع پائی جاتی ہے، نصِ صحیح کی صورت میں یا اجماعِ صریح کی صورت میں۔

اِس کا دوسرا حصہ متشابہ ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جس میں اجتہادات متفاوت ہو جاتے ہیں اور آراءمتعدد ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ اس کے دلائل قطعی نہیں، یا تو ثبوت کے لحاظ سے اور یا دلالت کے لحاظ سے۔

چنانچہ شریعت کے اندر پائے جانے اصولِ ثابتہ، جو کتاب اور سنت اور اجماع سے ملتے ہیں، دراصل یہ شرعِ محکم ہے۔ یہ شریعت کا وہ حصہ ہے جس سے خروج کرنا کسی کیلئے روا نہیں ہے۔ نہ اِس میں ہم کسی کو اختلاف کا حق دیتے ہیں۔ شریعت کے اِس حصہ میں جو شخص شذوذ (اپنی علیحدہ راہ اختیار) کرتا ہے اُس کا شذوذ اُس کو جہنم میں لے جانے والا ہے۔ جو شخص اِس سے مفارقت اختیار کرتا ہے وہ شخص جماعتِ اسلام سے مفارقت اختیار کرتا ہے اور گمراہی کا دروازہ کھولتا ہے۔
رہ گیا شریعت کا دوسرا حصہ، یعنی جس میں اجتہاد کا تنوع اور فہم و آراءکا تعدد آجاتا ہے تو وہ شرعِ مؤول ہے۔ اِس کے معاملہ میں قاعدہ یہ ہے کہ اِس باب میں جو اجتہادات اور جو آراءفقہائے اسلام کے ہاں پائے جاتے ہیں ان اجتہادات اور آراءکا موازنہ کیا جاتا ہے اور وہ قول جو حجت میں قوی تر نظر آئے اور جو مسلمانوں کے مصالح کو پورا کرنے میں زیادہ مضبوط لگے، اُس کو اختیار کر لیا جاتا ہے۔ شریعت کا یہی وہ حصہ ہے جس میں زمان یا مکان یا احوال کے تغیر کے سبب سے فتویٰ کے اندر بھی تغیر آ سکتا ہے۔ نیز ایک مجتہد اپنے سابقہ قول کو چھوڑ کر کسی دوسرے قول کی جانب بھی جا سکتا ہے۔ امام شافعی کا عراق میں کثیر مسائل کی بابت ایک مذہب تھا جبکہ مصر میں جا کر ان مسائل کی بابت آپ کا وہ مذہب نہیں رہا تھا۔ پھر بھی یہ تغییر (یعنی زمان و مکان و احوال کی تبدیلی سے فتویٰ میں تبدیلی آنا)، جس کی اجازت ہے، کچھ خاص قواعد اور فریم کی پابند ہے، جو کہ اِس میدان کے ماہرین پر واضح ہے۔ ایسا بہرحال نہیں ہے کہ چلیں شریعت کے اِس حصہ میں تو اہواءاور خواہشات ہی کی پیروی کر لی جائے! کیونکہ شریعت کا لوگوں کو جو مکلف کرنا ہے، اُ س ”تکلیف“ کی حقیقت ہی یہ ہے کہ مکلف کو اُس کی خواہش نفس کے داعیہ سے نکال کر اُس کے مالک کی اطاعت اور فرماں برداری میں لے کر آیا جائے۔

بنابریں، وہ اسلام جس کی ہم صدا لگاتے ہیں، اور جس کی آج ہر مسلمان راہ تک رہا ہے، وہ اسلام ہے جو ایک قطعی انداز میں کتاب اللہ سے ثابت ہوتا ہے، سنت رسول اللہ سے ثابت ہوتا ہے اور اس امت کے اولین دور کے اجماع سے ثابت ہوتا ہے۔ یہی چیز شریعت کا وہ محکم حصہ ہے، جس کے اندر مسلمانوں کے مابین جھگڑا ہی کوئی نہیں ہے۔ کوئی فقہی نزاع شریعت کے اِس حصہ میں نام کو نہیں ہے۔ سب ائمہ، سب فقہیں شریعت کے اِس بنیادی و مرکزی حصہ کی بابت آپ کو ایک ہی بات بتائیں گی۔ رہ گیا اِس کے ماسوا حصہ، جس میں ظنیات اور متشابہات آ جاتے ہیں، تو وہ اجتہاد اور تحقیق کا میدان ہیں۔ اس میں کسی کی رائے آپ کی رائے کے مخالف چلی گئی ہے تو نہ آپ اُسکے ساتھ شدت کریں گے اور نہ وہ آپکے ساتھ۔ اہل علم کا یہ حق مسلم ہے کہ ہر دور اور ہر علاقے کے حالات کی رعایت کرتے ہوئے __ شریعت کے اِس حصہ میں __ وہ جس قول یا رائے کو دلیل شرعی کا اقتضاءجانیں اور مصلحتِ راجحہ کا مطلوب جانیں، اُسکو اختیار کریں۔ اِس میں بھی حرج نہیں کہ علاقوں
علاقوں کے فرق سے شریعت کے اِس حصہ میں اجتہادات مختلف ہوں۔ ایک خطہ میں کسی ایک رائے یا اجتہاد کو اختیار کیا جائے تو کسی دوسرے خطہ میں کسی دوسری رائے یا اجتہاد کو۔ لوگوں سے حرج کو رفع کرنا شریعت کا اپنا ہی اقتضاءہے۔ اِس بات تک کی گنجائش ہے کہ جب بھی کوئی نئی صورتحال جنم لے لے اور حوادث نئے سامنے آئیں، پچھلے اجتہاد کے اندر ایک نظرثانی کر لی جائے، اور اُس متعین فریم کا پابند رہتے ہوئے نئے حالات کی رعایت سے اس میں کوئی تبدیلی یا پیشرفت ہو جائے۔

قطعی بات ہے کہ فقہاءکے جتنے اجتہادات پائے جاتے ہیں آپ اُن میں سے کسی ایک خاص اجتہاد کے پابند نہیں ہیں۔ اور نہ اس بات کے پابند ہیں کہ کہیں پر کوئی تجربہ ہوا ہے تو آپ بعینہ وہی تجربہ کریں۔ صرف آپ یہ کریں گے کہ فقہائے اسلام کے جتنے اجتہادات ہیں مجموعی طور پر اُن اجتہادات سے باہر نہیں جائیں گے؛ اُنہی میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا البتہ آپ کو پورا اختیار ہے، جس کے اختیار کرتے وقت بنیاد یہ ہو گی کہ کونسے اجتہاد کے پیچھے دلیل کی قوت ہے اور کونسا اجتہاد کسی دی ہوئی صورتحال میں مصلحت کے قرین ہے، جبکہ یہ کام (فقہائے اسلام کے اجتہادات میں سے کسی ایک اجتہاد کو اختیار کرنے، یا کسی نئی صورتحال میں نیا اجتہاد کرنے) والے علماءہوں گے نہ کہ غیر علماء۔ ہاں جس چیز کی لازماً پابندی ہو گی وہ ہے شریعت کے وہ احکام جو کتاب اور سنت اور اجماع سے کسی دلیل قطعی کے ساتھ ثابت ہیں۔ ہاں دین کا یہ حصہ شرعِ محکم ہے، اس میں کسی بھی شخص کیلئے نزاع یا اختلاف کرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہستی ہو:
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا
(النساء: 115)
اور جو شخص رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے، تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے اُدھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری ہے وہ انجام کی جگہ۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
(الاحزاب: 36)
کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اسکا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اُسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنیکا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا

رہ گئے مسائل اجتہاد، تو یہاں ہر ملک کے علماءمجاز ہیں کہ مختلف آراءکا موازنہ کرنے کے بعد ادلہ کی روشنی میں جو چیز اُنکو راجح نظر آئے اور جس سے انکی نظر میں شرعی مصلحت پوری ہوتی ہو اسی رائے کو اختیار کر لیں۔ اِس میں حرج کی کوئی بھی بات نہیں بشرطیکہ یہ کام ان لوگوں نے کیا ہو جو علمی طور پر اس بات کے اہل ہیں٭۔

حیرت یہ ہے کہ شریعت نے لوگوں کیلئے یہ جو ایک وسعت اور ایک گنجائش اور ایک آسانی رکھی تھی، کچھ طبقوں کو یہ سوجھی کہ یہ اس بات کو الٹا شریعت ہی سے لوگوں کو متنفر کرنے کیلئے استعمال کریں اور اسکو بنیاد بنا کر شریعت کی ایک ایسی عجیب و غریب تصویر پیش کریں کہ دیکھیں جناب شریعت میں تو کتنا اختلاف ہے اور کس قدر تنوع اور تعدد ہے! حالانکہ یہ جتنا سا اختلاف اور جتنا سا تعددِ اقوال اور تنوعِ اجتہادات ہمارے معروف فقہی مذاہب (مانند حنفی، شافعی، مالکی حنبلی وغیرہ) کے مابین پایا جاتا ہے، یہ تو شریعت کی عظیم ترین خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے، اور شریعت کو امر کر دینے والے عظیم ترین عوامل میں سے ایک عامل ہے۔ یہی تو وہ چیز ہے جس کے دم سے شریعت قیامت تک آنے والے ہر قسم کے زمان و مکان کی احتیاج کو پورا کرتی ہے اور ہر قسم کے مصالح العباد پر پورا اترتی ہے۔ یہی تو وہ چیز ہے جو امت کیلئے یہ بات ممکن بناتی ہے کہ ہر زمانے میں یہ اجتہاداتِ فقہاءمیں سے دلیل کی روشنی میں اور مصالح کے اقتضاءکو سامنے رکھتے ہوئے مناسب ترین قول کو اختیار کرے اور اپنے علمائے ثقات کے ذریعے اپنی یہ ضرورت پوری کروائے۔ چنانچہ یہ چیز تو امت کیلئے رحمت اور گنجائش ہے۔ اگر یہ پوری کی پوری امت ایک ہی مذہب اور ایک ہی قول کی پابند ہوتی اور قیامت تک اسی کی اسیر رکھی جاتی تو کس قدر تنگی میں ہوتی۔ جبکہ اس کیلئے یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ جہاں یہ ایک خاص مذہب میں اپنے لئے تنگی پائے، دلیل اور اقتضائے مصلحت کی روشنی میں، اپنے علمائے اہل حل وعقد کی وساطت، یہ اسکا متبادل قول یا اجتہاد اختیار کر لے۔ واضح رہے اُس خاص دائرہ کے اندر جو دین کی قطعیات کے ماسوا ہے۔

حضرات یہ تو وہ بات ہے، جس کی شہادت انصاف پسند غیر مسلم تک دے چکے ہیں۔ آج سے کچھ عرصہ پیشتر پیرس یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں عالمی تنظیم برائے تقابلی قانون کی دوسری کانفرنس کے انعقاد کے دوران (جوکہ ”ہفتہ فقہ اسلامی“ کے عنوان کے تحت ہوئی تھی).... کانفرنس کے شرکاءنے جہاں کئی اور نقاط پر اتفاق کیا، وہاں اِس نقطے پر بھی اُنکا اتفاق دیکھا گیا کہ اسلام کے فقہی مذاہب کے مابین پایا جانے والا اختلاف ایک ایسے علمی ومعلوماتی وقانونی سرمائے پر مشتمل ہے جو عقل انسانی کو دنگ کر دیتا ہے۔ اسلامی فقہ اس سے کام لے کر سول لائف کے تمام مطالب و ضروریات پر پورا اترنے کی قدرت رکھتی ہے۔ شرکاءنے یہ امید بھی ظاہر کی کہ ایک ایسی کمیٹی قائم کی جائے جو فقہ اسلامی کا کوئی انسائیکلوپیڈیا وجود میں لے کر آئے۔
(دیکھئے کتاب مشاکلنا فی ضوءالاسلام مولفہ د۔ عبد المنعم النمر: ۷۳)


http://www.eeqaz.com/main/articles/11/20110405_shariah_version.htm
 
Top