• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داڑھی منڈوانے کی خرابیاں !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
داڑھی منڈوانے کی خرابیاں !!!


10408504_1578312912415717_477011505626811259_n.jpg


1- داڑھی منڈانا باعث لعنت ہے ،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:

سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ.............وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي۔

’’چھ آدمیوں پر میں بھی لعنت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ بھی (ان میں سے ایک ہے) میری سنت کو چھوڑ دینے والا۔‘‘


(جامع ترمذی:۲۱۵۴،وسندہ حسن)

اس حدیث کو امام ابن حبان (۵۷۴۹) اور امام حاکم (۲؍۵۲۵) رحمہما اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اس کے راوی عبد الرحمٰن بن ابی الموال کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

ثقة مشهور۔ ’’یہ مشہور ثقہ راوی ہے۔‘‘
(المغنی ۲؍۴۱۴)

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:من ثقات المدنيين۔ ’’یہ ثقہ مدنی راویوں میں سے ہے۔‘‘ (فتح الباری:۱۱؍۱۸۳)

اس کا دوسرا راوی عبید اللہ بن عبد الرحمٰن بن موہب ’’ مختلف فیہ‘‘ ہے،راجح قول کے مطابق وہ جمہور کے نزدیک’’حسن الحدیث‘‘ ہے۔

یاد رہے کہ یہاں سنت سے مراد فرضی اور واجبی سنتیں مثلاً نماز ، روزہ، حج، زکوٰۃ، شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا، داڑھی رکھنا وغیرہ ہیں۔

اب جو بھی شخص منڈائے گا ،وہ اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت کا مستحق ہو جائے گا۔

۲۔ داڑھی منڈانا عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا موجبِ لعنت ہے ،جیسا کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ

’’رسول کریم ﷺ نے عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘

(صحیح بخاری:۵۸۸۵)
۳۔ داڑھی منڈانا ہندوؤں،یہودیوں،عیسائیوں،مجوسیوں اور مشرکوں کے ساتھ مشابہت ہے،سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔

جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی ،وہ (روزِ قیامت) انہی میں سے ہو گا۔‘‘


(سنن ابی داؤد:۴۰۳۱،مسند الامام احمد:۲؍۵۰،مصنف ابن ابی شیبہ:۵؍۳۱۳،شعب الایمان للبیہقی:۱۱۹۹،وسندہ حسن)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ (سیر اعلام النبلاء:۱۵؍۵۰۹) نے اس کی سند کو ’’صالح‘‘،حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (اقتضاء الصراط المستقیم:۱؍۲۴۰)نے ’’جید‘‘ اور حافظ عراقی رحمہ اللہ (تضریج احادیث الاحیاء۱؍۲۶۹) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

داڑھی منڈانا جب کافر اور باغی قوموں کا شعار ہےاور کفر کی رسم ہے تو کفار کے شعار اور ان کی رسومات کو اختیار کرنا کیونکر صحیح و درست ہو گا۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ ثَلاَثَةٌ: مُلْحِدٌ فِي الحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةَ الجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقٍّ لِيُهَرِيقَ دَمَهُ

’’اللہ تعالیٰ کے ہاں بدترین آدمی تین ہیں: (۱) حرم میں کج روی کرنے والا۔(۲) اسلام میں کفر کی رسم تلاش کرنے والا اور (۳) کسی آدمی کا ناحق خون بہانے کا متلاشی۔‘‘
(صحیح بخاری:۶۸۸۲)

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک خط میں لکھا تھا :

واياكم والتنعم وزي العجم

عیش پرستی اور عجمیوں کی وضع قطع اختیار کرنے سے بچو!‘‘


(مسند علی بن الجعد :۹۹۵،وسندہ صحیح)

۴۔ داڑھی منڈانا تمام انبیاء کی عملی طور پر مخالفت اور نافرمانی ہے ،ارشاد بای تعالیٰ ہے:

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ(النور:63)

’’جو لوگ اس(پیغمبر ) کے امر کی مخالفت کرتے ہیں،انہیں ڈرنا چاہیئے کہ ان کو کوئی آزمائش یا دردناک عذاب نہ آلے۔‘‘

نبیﷺ کا ارشاد ہے :

وَجُعِلَ الذِّلَّةُ، وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِي

’’میرے حکم کی مخالفت کرنے والے پر ذلت ورسوائی مسلط کر دی جاتی ہے۔‘‘


(مسند الامام احمد:۲؍۵۰،وسندہ حسن کما مر)

۵۔ داڑھی منڈانا تمام صحابہ،تابعین،ائمہ دین اور اولیاء اللہ کی مخالفت ہے، ارشاد الٰہی ہے:

وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَتْ مَصِيراً۔ (النساء:115)

’’اور جو شخص (راہِ) ہدایت واضح ہو جانے کے بعد بھی رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور مومنوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے پر چلتا ہے ،ہم اسے پھیر دیتے ہیں جس طرف وہ پھرتا ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور بری ہے یہ جگہ ٹھکانے کے اعتبار سے۔‘‘

۶۔ داڑھی منڈانے والا نبیﷺ کی کئی سنتوں ،مثلاً وضو کرتے وقت خلال کرنے ،داڑھی کو تیل لگانے ،داڑھی کو کنگھی کرنے اور داڑھی کو رنگنے وغیرہ سے محروم ہو جاتا ہے۔

۷۔ داڑھی منڈانے والا فاسق ہے اور داڑھی منڈا کر لوگوں کو اپنے فسق پر گواہ بناتا ہے۔

۸ ۔ داڑھی منڈانا ممنوع و حرام ہے اور فسق و فجور ہے ،فسق و فجور کا اظہار گناہ ہے۔

۹۔ اس حرام کام کے لیے حجام کو اجرت دی جاتی ہے اور حرام کام پر اس کا تعاون کیا جاتا ہے،حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ (المائده:2)

’’ایک دوسرے کا نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو،گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں پر تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘


۱۰۔ داڑھی منڈانے پر پیسہ خرچ کرنا باطل اور معصیت میں خرچ کرنا ہے جو کہ فضول خرچی ہے ،اس سے انسان شیطان کا بھائی بن جاتا ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَلا تُبَذِّرْ تَبْذِيراً (26) إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كانُوا إِخْوانَ الشَّياطِينِ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً۔(بني اسرائيل:27)

’’فضول خرچی مت کرو،بلاشبہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے رب کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا۔‘‘

۱۱۔ یہ پیسے اور وقت کا ضیاع ہے۔

۱۲۔ حجام کو داڑھی مونڈنے کا حکم دے کر برائی کا حکم دیا جاتا ہے۔

۱۳۔ داڑھی منڈا کر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زینت کو قباحت میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔داڑھی منڈانے والا آیتِ کریمہ(فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ)کے تحت اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے۔

۱۴۔ داڑھی منڈا کر زبانِ حال سے تخلیقِ الٰہی پر اعتراض کرتا ہے۔

۱۵۔ داڑھی منڈانے والا آئینہ دیکھتا ہے تو قبیحِ شرعی کو اپنے زعم میں حسین سمجھتا ہے اور یہ گناہ ہے۔

۱۶۔ اکثر داڑھی منڈانے والے وقار و تہذیب سے عاری ہوتے ہیں۔

۱۷۔ داڑھی منڈانے والا زبانِ حال سے یہ باور کراتا ہے کہ معاذ اللہ نبئ کریم ﷺ خوبصورت نہ تھے ،کیونکہ آپ کے چہرہ انور پر داڑھی موجود تھی۔

۱۸۔ اکثر داڑھی منڈانے والے داڑھی والوں کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

۱۹۔ بسا اوقات داڑھی منڈانے والے داڑھی والے کو بکرا،چھیلااور سِکھ تک کہ دیتے ہیں،یہ سنت ِ رسول کا استہزاء ہے جو کہ واضح کفر ہے۔

۲۰ - غیر مسلم قومیں داڑھی منڈانے سے خوش ہوتی ہیں۔

۲۱۔ داڑھی منڈانے والا اذان اور اقامت نہیں کہ سکتا کیونکہ اس کا فسق اعلانیہ ہے،یہ سعادت اور اجروثواب سے محرومی ہے۔

۲۲۔ داڑھی مندانے والا امامت کا اہل نہیں ،کیونکہ وہ واضح فسق ہے۔

۲۳۔ داڑھی مندانے والا ہیجڑوں جیسی شکل بنا کر اسلامی معاشرے کی عزت و وقار کو مجروح کرتا ہے۔

۲۴۔ داڑھی منڈانا مثلہ (شکل و صورت کا بِگاڑ) ہے اور مثلہ ممنوع و حرام ہے۔
سیدنا عبداللہ بن یزید الانصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النُّهْبَى وَالمُثْلَةِ

’’نبئ کریمﷺنے ڈاکہ ڈالنے اور مثلہ کرنے سے منع فر ما دیا ہے۔‘‘


(صحیح بخاری:۵۵۱۶)


علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

واتفقوا ان حلق جميع اللحية مثلة،لا تجوز.

’’امت کے علماءکرام کا اجماع و اتفاق ہےکہ داڑھی منڈانا مثلہ ہے (شکل و صورت کا بگاڑ ہے)اور یہ جائز نہیں ہے۔
(مراتب الاجماع:ص۱۵۷)

۲۵۔ داڑھی منڈانے والے کی اولاد اس گناہ کو گناہ نہیں سمجھتی،بلکہ اس میں ملوّث ہو جاتی ہے۔

۲۶۔ داڑھی منڈانا سنتِ رسول ﷺ سے بے رغبتی ہے ،جبکہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔

’جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی ،وہ میرے طریقے پر نہیں ہے۔‘‘

(صحیح ابن خزیمہ:۱۹۷،)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
یہ سارے اسناد ”انڈائریکٹ“ ہیں۔ صحیح احادیث سے ڈائریکٹ داڑھی کی مسنونیت بھی بیان کیجئے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
قیامت کے دن ڈاڑھی مونڈانے والے کی حسرت !!!

"قیامت کے دن ڈاڑھی مونڈانے والے کی حسرت"

جو جس حالت میں مرے گا قیامت کے دن اسی حالت میں اٹھایا جائے گا ۔اس لیے ڈاڑھی مونڈانا چھوڑ دیں ورنہ قیامت کے دن اسی منڈی ہوئی ڈاڑھی کی حالت میں اٹھائے جائیں گے اور اگر سرور عالم ﷺ نے یہ سوال کرلیا کہ اے میرے امتی!
"تو میری شفاعت کا امیدوار بھی تھا لیکن تجھ کو میری جیسی شکل بنانے میں نفرت تھی؟تو نے دنیا میں میری شکل کیوں نہیں بنائی ؟

تو کیا جواب دو گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟"
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
داڑھى منڈوانے يا كٹوانے كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:

صحيح احاديث اور صريح سنت نبويہ ميں وارد شدہ اخبار اور كفار كى عدم مشابہت كے عمومى دلائل كى بنا پر داڑھى منڈوانا حرام ہے، ان احاديث ميں درج ذيل حديث بھى شامل ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مشركوں كى مخالفت كرو، اور داڑھياں بڑھاؤ اور مونچھيں چھوٹى كرو "

اور ايك روايت ميں ہے:

" مونچھيں پست كرو، اور داڑھيوں كوم عاف كر دو "

اور اس موضوع ميں ان كے علاوہ بھى بہت سارى احاديث ہيں اور اعفاء اللحيۃ كا معنى يہ ہے داڑھى كو اپنى حالت پر چھوڑ ديا جائے اور داڑھى كى توفير يہ ہے كہ اسے بغير كاٹے اور اكھاڑے يا كچھ كاٹے اصل حالت ميں ہى باقى ركھا جائے.

ابن حزم رحمہ اللہ نے اجماع نقل كيا ہے كہ مونچھيں كاٹنا، اور داڑھى پورى ركھنا فرض ہے، اور انہوں نے كئى ايك احاديث سے استدلال كيا ہے جن ميں مندرجہ بالا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث بھى شامل ہے، اور زيد بن ارق مرضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث بھى:

زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو اپنے مونچھيں نہيں كاٹتا وہ ہم ميں سے نہيں ہے "

امام ترمذى رحمہ اللہ نے اسے صحيح كہا ہے.

الفروع ميں كہتے ہيں: اور يہ صيغہ ہمارے اصحاب كے ہاں ـ يعنى حنابلہ كے ہاں ـ تحريم كا متقاضى ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كتاب و سنت اور اجماع اس پر دلالت كرتا ہے كہ كفار كى مخالفت كا حكم ہے، اور اجمالا ان كى مشابہت اختيار كرنا منع ہے؛ كيونكہ ظاہر ميں ان كى مشابہت اخلاق اور افعال مذمہ ميں كفار كى مشابہت كا سبب ہے، بلكہ نفس الاعتقادات ميں بھى، چنانچہ يہ مشابہت باطن ميں ان سے محبت و مودت اور دوستى پيدا كرتى ہے، جس طرح باطن ميں محبت ہو تو وہ ظاہر ميں مشابہت پيدا كرتى ہے.

ترمذى رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو ہمارے علاوہ دوسروں سے مشابہت كرتا ہے وہ ہم ميں سے نہيں، يہود و نصارى سے مشابہت مت اختيار كرو " الحديث.

اور ايك روايت كےالفاظ يہ ہيں:

" جو كوئى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرتا ہے، وہ انہى ميں سے ہے "

اسے امام احمد نے روايت كيا ہے.

اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے تو داڑھى كے بال اكھيڑنے والے شخص كى گواہى ہى رد كر دى تھى.

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ " التمھيد " ميں كہتے ہيں:

" داڑھى منڈوانا حرام ہے، اور ايسا كام تو صرف ہيجڑے ہى كرتے ہيں "

يعنى جو مرد عورتوں سے مشابہت اختيار كرتے ہوں وہى يہ كام كرتے ہيں.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خود بھى گھنى داڑھى كے مالك تھے "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.

اور ايك روايت ميں كثيف اللحيۃ كے لفظ ہيں، يعنى بہت زيادہ بال تھے.

اور ايك روايت ميں " كث اللحيۃ " كے لفظ ہيں جن سب كا معنى ايك ہى ہے.

عمومى نہى كے دلائل كى بنا پر داڑھى كا كوئى بال بھى كاٹنا جائز نہيں ہے.

واللہ اعلم .

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 133 ).

http://islamqa.info/ur/1189
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
قیامت کے دن ڈاڑھی مونڈانے والے کی حسرت !!!

"قیامت کے دن ڈاڑھی مونڈانے والے کی حسرت"

جو جس حالت میں مرے گا قیامت کے دن اسی حالت میں اٹھایا جائے گا ۔اس لیے ڈاڑھی مونڈانا چھوڑ دیں ورنہ قیامت کے دن اسی منڈی ہوئی ڈاڑھی کی حالت میں اٹھائے جائیں گے اور

اگر سرور عالم ﷺ نے یہ سوال کرلیا کہ اے میرے امتی!
"تو میری شفاعت کا امیدوار بھی تھا لیکن تجھ کو میری جیسی شکل بنانے میں نفرت تھی؟تو نے دنیا میں میری شکل کیوں نہیں بنائی ؟


تو کیا جواب دو گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟"
آپ یہ پیشنگوئی کس بنیاد پر کررہے ہیں کہ روز حشر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کہیں گے ؟ قرآن و حدیث سے کوئی حوالہ ؟ یا آپ کو یہ خصوصی اختیار حاصل ہے کہ روز حشر پیش ہونے والے ”واقعات“ کی پیشگی اطلاع دے سکیں۔

نوٹ: میں داڑھی کا منکر نہیں ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ داڑھی کے فرض یا مسنون ہونے کے بارے میں خودساختہ دلیلوں پر خاموش رہوں۔ اللہ کے واسطے ایسی باتیں نہ بیان کیجئے جسے پڑھ کر کوئی بھی ”پڑھا لکھا داڑھی منڈا“ آپ کی بے تکی دلیلوں سے آپ سے ہی متنفر ہوجائے کہ ایسے شخص کی باتوں کا کیا اعتبار
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
آپ یہ پیشنگوئی کس بنیاد پر کررہے ہیں کہ روز حشر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کہیں گے ؟ قرآن و حدیث سے کوئی حوالہ ؟ یا آپ کو یہ خصوصی اختیار حاصل ہے کہ روز حشر پیش ہونے والے ”واقعات“ کی پیشگی اطلاع دے سکیں۔

نوٹ: میں داڑھی کا منکر نہیں ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ داڑھی کے فرض یا مسنون ہونے کے بارے میں خودساختہ دلیلوں پر خاموش رہوں۔ اللہ کے واسطے ایسی باتیں نہ بیان کیجئے جسے پڑھ کر کوئی بھی ”پڑھا لکھا داڑھی منڈا“ آپ کی بے تکی دلیلوں سے آپ سے ہی متنفر ہوجائے کہ ایسے شخص کی باتوں کا کیا اعتبار
میرے بھائی میں نے سوال کے انداز میں یہ بات کی ہے

میرے بھائی کیا داڑھی رکھنا ہر مسلمان پر فرض نہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
داڑھى ركھنے كے متعلق شبہات !!!

كئى ايك مسلمان علماء كرام كا فتوى ہے كہ مكمل داڑھى ركھنا ہر مسلمان پر واجب ہے، اور اس ميں حكمت يہ ہے كہ كفار سے مشابہت نہ ہو جيسا كہ كئى ايك احاديث ميں اس كے متعلق آيا ہے، ليكن سب لوگ ٹى وى سكرين پر مشاہدہ كرتے ہيں كہ اكثر يہودى داڑھى مكمل ركھتے ہيں تو كيا يہ حكمت ساقط ہو كر داڑھى ركھنا صرف سنت نہيں رہ جاتى ؟

اور اسى طرح داڑھى ركھنے ميں مطلقا كفار كى مخالفت كى حكم كا سبب فتوحات اسلاميہ كے دور ميں كفار اور مسلمانوں كا آپس ميں اختلاط تو نہيں، اس ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاہا كہ ہمارى ان سے تميز ہو سكے، اور الحمد للہ اب ہمارى سرزمين عرب پر اسلام كى حكمرانى ہے تو يہ چيز ساقط نہيں ہو جاتى.... تو كيا اس وجہ سے يہ حكم سنت ميں تبديل نہيں ہو جاتا ؟

الحمد للہ:

اول:

داڑھى منڈوانے كى حرمت كے تفصيلى دلائل سوال نمبر ( 1189 ) كے جواب ميں بيان ہو چكے ہيں، آپ ان كا مطالعہ كريں.

دوم:

اور رہا يہ قول كہ: " پورى داڑھى ركھنے كى علت مشركوں كى مخالفت ہے، اور اب يہ علت ختم ہو چكى ہے " تو اس بنا پر اب مكمل داڑھى ركھنا واجب نہيں رہى، اس كا جواب درج ذيل ہے:

1 - يہ كہنا كہ: " اب علت ختم ہو چكى ہے " يہ واقع كے مخالف ہے كيونكہ كہا جائيگا: مشركين ميں اكثر كيا ہے: آيا داڑھى منڈوانے والے زيادہ ہيں يا كہ پورى داڑھى ركھنے والے ؟

تو بلا شك و شبہ ان كى اكثريت داڑھى منڈوانے والى ہے.

2 - اور يہ بھى ہے كہ: مشركوں كى مخالفت ہى اس كى واحد علت نہيں، حتى كہ علت زائل ہونے كى بنا پر اس كا حكم بھى زائل ہو جائے، بلكہ اس كے علاوہ اور بھى كئى ايك علتيں ہيں، جن ميں سے كچھ يہ ہيں:

داڑھى منڈانے ميں عورتوں سے مشابہت ہوتى ہے.

اور داڑھى منڈانا اللہ تعالى كى خلقت ميں تغير ہے.

اور مكمل داڑھى بڑھانا سنن فطرت ميں شامل ہوتا ہے.

اور داڑھى پورى ركھنا سب رسولوں كى سنت ہے.

تو اگر فرض كر ليا جائے كہ اس كى علت مشركين كى مخالفت ہے اور يہ علت زائل ہو چكى ہے، تو پھر بھى داڑھى ركھنے كا حكم باقى رہتا ہے كيونكہ دوسرى علتيں موجود ہيں.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

بعض لوگ كہتے ہيں كہ داڑھى ركھنے كى علت مجوسيوں اور يہوديوں كى مخالفت ہے، جيسا كہ حديث ميں آيا ہے، اور اب يہ علت نہيں رہى، كيونكہ وہ بھى اب اپنى داڑھياں بڑھانے لگے ہيں، اس قول كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" اس كے متعلق ہمارا جواب كئى ايك وجوہات پر مشتمل ہے:

پہلى وجہ:

صرف مخالفت كى بنا پر ہى داڑھى بڑھانے كا حكم نہيں ديا گيا، بلكہ يہ فطرت ميں شامل ہوتا ہے، جيسا كہ يہ صحيح مسلم كى حديث سے ثابت ہے، تو پورى داڑھى ركھنى اس فطرت ميں شامل ہوتى ہے جس پر اللہ تعالى نے لوگوں كو پيدا كيا ہے، اور يہ مستحسن ہے، اس كے علاوہ باقى قبيح ہے.

دوسرى وجہ:

اس وقت سارے يہودى اور مجوسى اپنى داڑھياں نہيں ركھتے، اور نہ ہى ان ميں سے ايك چوتھائى حصہ داڑھى ركھنے والے ہيں، بلكہ ان كى اكثريت داڑھى منڈانے والى ہے، جيسا كہ فى الواقع اور مشاہدہ ميں بھى آيا ہے.

تيسرى وجہ:

جب كسى زائل شدہ معنى كى بنا پر كوئى شرعى حكم ثابت ہو، اور يہ حكم فطرت يا اسلامى شعار كے موافق ہو تو يہ حكم باقى رہےگا چاہے اس كا سبب زائل ہو چكا ہو.

كيا آپ ديكھتے نہيں كہ طواف ميں رمل ( پہلوانوں كى طرح چلنا ) كا سبب يہ تھا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ مشركين كے آگے اپنى قوت اور طاقت ظاہر كرنا چاہتے تھے، كيونكہ مشرك يہ كہنے لگے تھے كہ تمہارے پاس ايسى قوم آ رہى ہے جسے يثرب ( مدينہ ) كے بخار نے كمزور كر كے ركھ ديا ہے، ليكن اس علت كے زائل ہو جانے كے باوجود اس كا حكم باقى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر رمل كيا تھا.

تو حاصل اور نتيجہ يہ ہوا كہ:

مومن شخص پر واجب اور ضرورى ہے كہ جب اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كسى معاملہ كا فيصلہ كر ديں تو اسے اپنى زبان سے سمعنا اور اطعنا كہ ہم نے سنا اور اس كى اطاعت كرتے ہوئے اسے تسليم كر ليا ہى كہنا چاہيے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ نہيں سوائے اس بات كہ مومنوں كو جب اللہ تعالى اور اس كے رسول كى طرف بلايا جائے كہ وہ ان ميں فيصلہ كريں تو انہيں يہى كہنا چاہيے كہ ہم نے سن ليا اور اطاعت كى، اور يہى لوگ كامياب ہيں ﴾النور ( 51 ).

اور وہ ان لوگوں كى طرح نہ ہو جائيں جنہوں نے سمعنا و عصينا يعنى ہم نے سن تو ليا ليكن ہم اطاعت نہيں كرينگے كہا، يا پھر وہ واہى قسم كى علتيں اور عذر تلاش كرتے پھريں جن كى كوئى اصل اور دليل نہيں، يہ تو اس شخص كى حالت ہے جس نے دل سے اسلام كو قبول نہيں كيا، اور نہ ہى اس نے اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم سے سامنے اپنا سرخم تسليم كيا.

اللہ جلا و علا كا فرمان ہے:

﴿ اور جب اللہ تعالى اور اس كا رسول كسى امر كا فيصلہ كر ديں تو كسى مومن مرد اور مومن عورت كے ليے اپنے معاملہ ميں ان كو كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى نافرمانى كريگا تو وہ واضح اور كھلى گمراہى ميں جا پڑا ﴾الاحزاب ( 36 ).

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اورتيرے رب كى قسم وہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك وہ اپنے اختلافات اور جھگڑوں ميں آپ كا حكم تسليم نہ كر ليں اور پھر وہ آپ كے فيصلہ كے متعلق اپنے دلوں ميں كوئى حرج محسوس نہ كريں، اور اسے دل سے تسلم كر ليں ﴾النساء ( 65 ).

اور ميں يہ نہيں جانتا كہ كيا اس طرح كى كلام كرنے والا شخص روز قيامت اپنے رب كا سامنا كر سكےگا، تو ہم پر ضرورى ہے كہ ہم اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى ہر حالت ميں اطاعت و فرمانبردارى كريں، اور ان كے حكم پر عمل كريں " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 129 - 130 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" پورى داڑھى ركھنا سب رسولوں كى سنت ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے ہارون عليہ السلام كے متعلق فرمايا ہے كہ انہوں نے اپنے بھائى موسى عليہ السلام كو كہا تھا:

﴿ اے ميرے ماں جائے بھائى ميرى داڑھى نہ پكڑو، اور نہ ہى ميرا سر مجھے خدشہ تھا كہ تم يہ كہو گے كہ تو نے ميرے اور بنى اسرائيل كے مابين تفريق ڈال دى، اور ميرى بات كا انتظار بھى نہ كيا ﴾طہ ( 94 ).

اور ان ميں سب سے افضل اور خاتم الرسل محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى اپنى داڑھى پورى ركھى ہوئى تھى، اور اسى طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خلفاء راشدين اور آپ كے صحابہ رضى اللہ تعالى عنہم، اور آئمۃ اسلام، اور عام مسلمانوں كے سلف اور خلف علماء رحمہم اللہ نے بھى داڑھى پورى ركھى.

تو يہ انبياء و رسل اور ان كے متبعين كا طريقہ ہے، اور يہ وہ فطرتى چيز ہے جس پر اللہ تعالى نے لوگوں كو پيدا فرمايا ہے، جيسا كہ اس كا ثبوت صحيح مسلم كى حديث ميں ملتا ہے، اور اسى ليے داڑھى منڈانے كى حرمت كا قول ہى راجح ہے، جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اختيار كيا ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے داڑھى پورى ركھنے، اور بڑھانے كا حكم ديا ہے.

اور رہا يہ مسئلہ كہ داڑھى ركھنے ميں حكمت يہوديوں كى مخالفت ہے، اور اب يہ حكمت ختم ہو چكى ہے، تو يہ غيرمسلمہ بات ہے؛ كيونكہ اس ميں علت صرف يہوديوں كى مخالفت ہى نہيں.

بلكہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں فرمان نبوى ہے:

" مشركوں كى مخالفت كرو "

اور صحيح مسلم ميں بھى فرمان نبوى ہے:

" مجوسيوں كى مخالفت كرو "

پھر صرف ان كى مخالفت كرنا ہى اكيلى علت نہيں؛ بلكہ اس ميں كئى ايك اور بھى علتيں ہيں، مثلا: رسولوں اور انبياء كے داڑھى ركھنے عمل كى موافقت كرنا.

اور فطرت كے تقاضا كا التزام كرنا.

اور اللہ تعالى كے حكم كے بغير خلقت ميں تغير و تبدل كرنا.

تو مشركين اور يہود و مجوس كى مخالفت كے ساتھ ساتھ يہ سارى علتيں داڑھى پورى ركھنے اور بڑھانے كے وجوب كا تقاضا كرتى ہيں.

پھر اس علت كے زائل ہونے كا دعوى بھى غير مسلم ہے اسے تسليم نہيں كيا جا سكتا، كيونكہ اللہ تعالى كے دشمن يہوديوں وغيرہ كى اكثريت اپنى داڑھياں منڈواتى ہے، جيسا كہ مختلف قوموں اور امتوں كے حالات اور ا ان كے اعمال سے باخبر لوگوں كو اس كا علم ہے.

پھر اگر فرض بھى كر ليا جائے كہ آج ان لوگوں كى اكثريت اپنى داڑھياں بڑھانے لگى ہے، تو داڑھى ركھنے كى مشروعيت كو زائل نہيں كر سكتى؛ كيونكہ جو چيز اہل اسلام كے ليے شريعت اسلاميہ نے مشروع كى ہے اس ميں اعداء اسلام كى مشابہت سے شريعت اسے سلب نہيں كرتى، بلكہ اس كام كا زيادہ التزام كرنا ضرورى ہے، كيونكہ اس ميں غير مسلموں نے ہمارے ساتھ مشابہت كى ہے، اور وہ ہمارے تابع بن گئے ہيں، اور انہوں نے اس كام كے اچھا ہونے كى تائيد كى ہے، اور وہ فطرتى تقاضے كى طرف واپس پلٹ آئے ہيں " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 16 / 46 - 47 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/75525
 
Top