• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درسِ قرآن۔ سورة الفاتحہ

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
تسمیہ
بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

ب ۔ اسم ۔ الله ۔ الرَّحمٰنِ ۔ الرَّحیمِ ۔
ساتھ ۔ نام ۔ الله ۔ بہت مہربان ۔ نہایت رحم کرنے والا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الله کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔

اس آیہ مبارکہ میں الله تعالٰی کے تین نام بیان کئے گئے ہیں۔
اللهُ ۔ رَحْمٰنٌ ۔ رَحِیْمٌ ۔
اَللهُ :
الله ایسا نام ہے جو صرف اُسی کی ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کسی اور کو اس نام سے نہیں پکارا جاتا ۔ اسے اسم ذات کہتے ہیں ۔ الله لفظ کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔ کیونکہ الله واحد ہے اسکا کوئی شریک نہیں ۔ الله ہی وہ ذات ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا ۔زمین بھی اُسی کی پیدا کی ہوئی ہے اور آسمان بھی ۔ دریا ، پہاڑ ، نباتات، جمادات ، چاند ، سورج غرض ہر چیز اُسی کی پیدا کی ہوئی ہے ۔ اسی کی قدرت سے چاند اور ستارے روشن ہوتے ہیں ۔ پرندے اُسی کے حکم سے اُڑتے ہیں ۔ وہی بارش برساتا ہے اور ہر قسم کی پیداوار اُگاتا ہے ۔

رَحْمٰنٌ
( بہت مہربان ) الله تعالٰی کا صفاتی نام ہے ۔ لفظ رَحمٰن الله تعالٰی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔مخلوق میں سے کسی کو رحمٰن کہنا جائز نہیں ۔ کیونکہ صرف الله تعالٰی ہی کی ذات ایسی ہے جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہیں ۔ لفظ الله کی طرح لفظ رحمٰن کا بھی تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔ یہ اسکی رحمتِ عامہ کا اظہار ہے ۔ کہ وہ سب پر یکساں رحمت فرماتا ہے ۔ اسکی ہوا بارش ، دریا ، پہاڑ ، چاند ستارے اور دوسری مہربانیاں انسان وجانور ، نیک و بد ، کافر و مسلم پر یکساں ہوتی ہیں ۔ اور وہ بن مانگے ہم پر بے شمار انعام فرماتا ہے ۔

رَحِیْمٌ
( نہایت رحم کرنے والا ) یہ الله تعالٰی کا دوسرا صفاتی نام ہے ۔ اور اسکی خاص رحمت کا اظہار ہے ۔ وُہ اپنے بندوں پر خصوصی انعام فرماتا ہے ۔ ایک نیکی کے بدلہ میں ستّر بلند درجے بخشتا ہے ۔
حدیث مبارکہ ہے ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم جب کوئی کام شروع کرتے تو اس سے پہلے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھ لیا کرتے تھے ۔
جب ہم اسکا نام لے کرکسی کام میں ہاتھ ڈالیں گے تو گویا ہم یہ کہیں گے ۔ کہ میرا دل بالکل پاک ہے ۔ میری نیت میں پورا خلوص ہے ۔ میرا مقصد اعلٰی ہے ۔ میں صرف الله کا بندہ ہوں اور شرک سے پوری طرح بیزار ہوں ۔
جب الله تعالٰی رحمٰن اور رحیم ہے تو ہمیں اسی کی رحمت پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ ہمت نہ ہارنی چاہئے اور ڈرپوک بن کر پیچھے نہ ہٹنا چاہئے ۔ جب ہم اس طرح الله کی رحمت پر توکّل کریں گے تو ہر کام میں یقیناً کامیاب ہوں گے۔
پیارے رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے ۔ اگر کسی کام کے شروع کرتے وقت بسم الله نہ پڑھی جائے تو اس کام میں الله تعالٰی کی برکت شامل نہ ہو گی اور اس سے دل کو اطمینان نہ ہو گا ۔
ہم درسِ قرآن کی ابتداء اسی کے نام سے کرتے ہیں۔ اس کی مدد یقیناً ہمارے ساتھ ہو گی اور ہم اپنی زندگی و آخرت میں کامیاب ہوں گے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
تعوذ اور تسمیہ


تعوّذ کے معنی ہیں ۔۔۔ اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ۔۔۔ پڑھنا

قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالٰی ہے۔

فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیمِ

یعنی جب تم قرآن پڑھنے لگو تو الله تعالٰی کی پناہ مانگو شیطان مردود کے شر سے۔

تلاوتِ قرآن مجید سے پہلے تعوّذ پڑھنا باجماعِ امت " سنت " ہے خواہ تلاوت نماز کے اندر ہو یا باہر ۔ تعوذ پڑھنا تلاوتِ قرآن کے ساتھ مخصوص ہے ۔ علاوہ تلاوت دوسرے کاموں کے شروع میں صرف بسم الله پڑھی جائے گی ۔ تعوذ مسنون نہیں
اوّل۔۔۔ جب قرُان مجید کی تلاوت شروع کی جائے تو اس وقت اعوذ بالله اور بسم الله دونوں پڑھی جائیں
دوم ۔۔۔ تلاوتِ قرآن مجید کے درمیان میں جب ایک سورۃ ختم ہو کر دوسری سورۃ شروع ہو تو سورۃ توبہ کے علاوہ ہر سورۃ کے شروع میں دوبارہ بسم الله پڑھی جائے ۔
سوم ۔۔۔ اگر قرآن مجید کی تلاوت سورۃ توبہ ہی سے شروع کر رہے ہوں تو اس کے شروع میں اعوذ بالله اور بسم الله پڑھنی چاہئے۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
بعض آئمہ تفسیر کے نزدیک قرآن مجید میں چار مضامین بیان ہوئے ہیں ۔
  1. خالقیت ۔ ( سورة الفاتحہ کی الحمد سے لے کر سورة مائدہ کے آخر تک)
  2. ربوبیت ۔ (سورة انعام کی الحمد سے لے کر سورة بنی اسرائیل کے آخر تک )
  3. بادشاہت ۔ ( سورة کہف کی الحمد سے لے کر سورة احزاب کے آخر تک )
  4. قیامت ۔ سورة سبا کی الحمد سے لے کر سورة النّاس کے آخر تک )
اور بعض آئمہ تفاسیر کے نزدیک قرآن مجید میں چھ مضامین ہیں ۔
  1. توحید
  2. رسالت
  3. قیامت
  4. احکامِ عبادت
  5. احکام شریعت
  6. قصص ( ۱- ماننے والوں کے احوال ۔ ۲- نہ ماننے والوں کے احوال )
سورة فاتحہ ان تمام مضامین کا خلاصہ ہے۔
سورۃفاتحہ

تعارف
سورۃ فاتحہ قرآن مجید کی پہلی سورۃ ہے ۔ ہم اسکے متعلق چند ضروری باتیں بیان کرتے ہیں ۔
یہ مکّی سورۃ ہے ۔ فاتحہ کے معنی ہیں ابتداء کرنے والی ۔ یہ سورۃ قرآن مجید کے شروع میں آئی ہے اس لئے اسے الفاتحہ کہتے ہیں ۔ گویا یہ قرآن مجید کا دیباچہ ہے ۔ اس کا نام آنحضرت علیہ الصلٰوۃُ والسلام نےخود تجویز فرمایا ۔ اس کے اور بھی کئی نام ہیں ۔ مثلاً سورۃُ الشفاء ۔ کہ اس کی تاثیر سے روحانی اور جسمانی شفا حاصل ہوتی ہے ۔
اُمُّ القرآن ۔ کہ یہ قرآن مجید کی اصل ہے ۔ اور قرآن مجید کے سب علوم اس میں جمع ہیں ۔
تعلیم المسئلۃ ۔ کہ اس میں الله تعالی نے بندوں کو سوال کرنا سکھایا ہے ۔
السّبعُ المَثانی ۔ کہ اس کی سات آیات ہیں اور وہ بار بار پڑھی جاتی ہیں ۔
سورۃ الحمدِ ۔ کہ اس میں الله تعالی کی تعریف ہے ۔ اسی طرح الکافیہ ۔ کفائت کرنے والی۔ الکنز ۔ خزانہ ۔ الاساس ۔ بنیاد اور الصَّلٰوۃ وغیرہ بھی اس کے نام ہیں ۔ جن سے اس سورۃ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔
اس سورۃ کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہے کہ یہ نماز میں باربار پڑھی جاتی ہے ۔ الفاظ کے اعتبار سے گو مختصر ہے مگر مضامین اور معنی کے لحاظ سے گویا دریا کوزے میں بند ہے ۔
اگر ہم قرآن حکیم کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کرنا چاہیں تو یوں کہیں گے کہ قرآن کریم میں تین مضمون بیان کئے گئے ہیں اور ان کا بار بار ذکر کیا گیا ہے ۔
اوّل :
یہ کہ زمین وآسمان اور ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ تعالٰی ہے۔ اُس کا کوئی شریک نہیں ۔ وہ واحد ہے اور تمام چیزوں کی وہی نگہبانی اور پرورش کرتا ہے ۔
دوم:
یہ کہ ہر انسان اپنے کاموں کا خود ذمّہ دار ہے اور قیامت کے روز تمام لوگوں کو الله تعالی کے دربار میں حاضر ہونا ہے جہاں اعمال کی جانچ پڑتال کی جائے گی ۔ اور انہی کے مطابق جزاء اور سزا دی جائی گی ۔
سوم:
یہ کہ دنیا کے ہر مُلک اور قوم میں الله تعالی کی طرف سے رسول بھیجے گئے ہیں ۔ جو لوگوں کو سیدھی اور غلط راہ میں فرق بتلاتے رہے اور نیکی کی ہدایت کرتے رہے ۔
قرآن مجید کے یہ تینوں مضامین سورۂ فاتحہ میں چند جملوں میں بیان کر دئے گئے ہیں ۔
جناب ابی سعد بن معلٰی رضی الله عنہ سے روایت ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے ۔ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ۔ کہ دیکھو میں تمہیں مسجد سے باہر جانے سے پہلے قرآن مجید کی ایک اہم سورۃ بتاؤں گا۔ آپ میرا ہاتھ پکڑ کر چلے ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ وہ سورۃ الحمد ہے ۔ جس کی سات آئتیں ہیں ۔ اور وہ بہت بڑا ورد ہے جو مجھے عطا ہوا ہے ۔
جناب عبد الله بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام حاضر تھے ۔ کہ ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور کہا کہ یا رسول الله خوشخبری ہو آپ کو الله تعالی نے دو نور عطا فرمائے ہیں ۔ جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے ۔ایک سورۃ الفاتحہ اور دوسرا سورۂ بقرہ ۔

اسماء سورة الفاتحہ

فاتِحَةُ الْکِتاب ۔۔۔ کتاب کا افتتاح کرنے والی
سورةُ الْحمد ۔۔۔ تعریف کی سورة
اُمُّ الْکِتَابِ ۔۔۔ کتاب کی ماں
اُمُّ الْقُرآن ۔۔ قرآن کی ماں
اَلسّبْعَ الْمَثَانی ۔۔۔ سات دہرائی جانے والی آیات
سُورَة الصّلٰوةِ ۔۔۔ نماز کی سورة
سورةُ الوافیةِ ۔۔ وفا کی سورة
سورةُ الکافیة ۔۔۔ کفایت کرنے والی سورة
سورةُ الکنزِ ۔۔۔ خزانے کی سورة
سورة الشّفَآء ۔۔۔ شفا کی سورة
اساسُ القرآن ۔۔۔ قرآن کی بنیاد
اَخْیَرُ سُورةٍ ۔۔۔ سب سے پسندیدہ سورة
اعْظَمُ سورةٍ ۔۔۔ سب سے بڑی سورة
اَلقُرآنُ العظیم ۔۔۔ بڑا قرآن مجید
تَعلیمُ المسئلةِ ۔۔۔ مانگنے کی تعلیم


اَلْفَاتِحَةُ سِرُّ القرآنِ و سِرُّھا ھٰذِہِ الکلمات

اِیّاک نَعْبُدُ وایّاک نَسْتَعِینُ

حوالہ ۔۔ ابن کثیر

آپ نے دیکھا یہ سورۃ کس قدر فضیلت والی ہے گویا سارے قرآن مجید کا خلاصہ ہے ۔
اس سورۃ کو خاص توجّہ اور غور کے ساتھ پڑھنے ، سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ الله جلَّ شانُہُ ہم سب کو اس کی توفیق بخشے ۔
آمین
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
اَلْحَمْدُ ۔ لِلهِ ۔ رَبِّ ۔ الْعٰلَمِیْنَ (۱)

تمام تعریفیں ۔ الله تعالی کے لئے ۔ رب ۔ تمام جہانوں کا ۔

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔

تمام تعریفیں الله تعالی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔

اس آیہ مبارکہ میں چند لفظ آئے ہیں ۔ پہلے آپ انکا مطلب سمجھ لیجئے ۔
اَلْحَمْدُ۔ ۔۔۔( ال ۔ تمام ، حمد ۔ تعریفیں ۔ خوبیاں )
عربی زبان میں ال تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ۔ تمام ۔۔ خاص ۔۔ جو ۔۔یہاں پہلے ( تمام ) معنوں میں آیا ہے ۔ حمد سے مراد تعریف اور خوبی ہے ۔ جو مدح اور شُکر سے بلند تر ہے ۔

الله ۔۔ الله تعالی کا اسم ِ ذات ہے ۔ کسی اورکے لئے اسکا استعمال نہیں ہو سکتا ۔ نہ کبھی الله کے سوا کسی اور کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ یہ کسی اور لفظ سے نہیں بنا ۔ یہ نام اسکی ذات پاک کے لئے مخصوص ہے ۔

رب ۔۔ سے مراد وہ ذاتِ باری تعالی ہے ۔ جس نے سب چیزوں کو وجود عطا کیا ۔ پھر ایک حال سے دوسری حالت کی طرف ترقی دی ۔ یہاں تک کہ درجہء کمال تک پہنچا دیا ۔ رب کے معنی عربی زبان میں تربیت اور پرورش کرنے والا کے ہیں ۔ یہ لفظ الله تعالی کی ذات کے لئے مخصوص ہے ۔ مخلوق میں سے کسی کو رب کہنا جائز نہیں ۔

عَالَمِیْنَ ۔۔ سے مراد ہے تمام خلقت ۔ تمام موجودات ۔ تمام جماعتیں اور تمام جہان ۔ عالمین کا واحد عالَم ہے
اس آیہ مبارکہ میں الله تعالی کی پہچان کرائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ حمد وثنا درحقیقت الله تعالی ہی کے لئے ہے ۔ اگر کوئی حاکم انصاف کرتا ہے ۔ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ الله تعالی نے صفتِ عدل اس کے اندر رکھ دی ہے ۔ کسی کے ہاتھ میں اگر شفا ہے ۔ تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ الله تعالی نے اسے یہ کمال عطا کر دیا ہے ۔ کوئی حسین اور خوبصورت ہے یا کسی کی عادت پاکیزہ ہے ۔ تو اس کے لئے بھی صفت و ستائش کی اصل حقدار الله تعالی کی ذات ہے ۔ کیونکہ یہ اُسی کا عطیہ ہے
اس سے معلوم ہوا الحمد لله اگرچہ حمد وثنا کے لئے لایا گیا ہے لیکن اس سے مخلوق پرستی کی بنیاد ختم کر دی گئی ہے ۔ اور دل نشیں طریق پر توحید کی تعلیم دی گئی ہے ۔ غور کیجئے کہ سورۃ الفاتحہ کے اس مختصر سے ابتدائی جملے میں ایک طرف تو حق تعالی کی حمد و ثنا کا بیان ہے اسی کے ساتھ دُنیا کی رنگینیوں میں اُلجھے ہوئے دل ودماغ کو ایک حقیقت کی طرف متوجہ کر کے مخلوق پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی ۔ اور رب العٰلمین سے دلیل دی کہ جب تمام کائنات کی تربیت وپرورش کی ذمہ دار صرف ایک ذات الله تعالی کی ہے تو حمد وثنا کی اصل مستحق بھی وہی ذات ہے
اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسلام کا الٰہ کسی مخصوص نسل ، کسی مخصوص قوم یا قبیلے کا خُدا نہیں ۔ اسلام سے قبل جتنے مذہب موجود تھے ۔ وہ اس وسیع تصور سے واقف نہ تھے ۔ ہر قوم اللہ کو صرف اپنا خُدا سمجھتی تھی ۔ بنی اسرائیل جیسی توحید پرست قوم بھی الله کو صرف اپنا خُدا سمجھتی تھی ۔ مگر قُرآن کریم نے ان تمام غلط عقیدوں کو مٹا دیا ۔ اور بتایا کہ اس کائنات کے ہر ذرّہ اور ہر چیز کا رب صرف الله تعالی ہی ہے
ہمیں اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے ۔ کہ ہم تمام انسانوں کی خدمت کریں ۔ انسانوں کے علاوہ حیوانات سے بھی ہمدردی رکھیں ۔ کسی کو نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھیں
ہمارا تصور محدود نہیں ۔ بلکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں ۔ کہ ہمارا الله سارے جہانوں کا رب ہے ۔ وہ صرف انسانوں کا نہیں بلکہ ساری مخلوق کا پروردگار ہے ۔ صرف اس دنیا کا نہیں بلکہ سارے جہانوں کا پروردگار ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
رحمٰن و رحیم

اَلرَّحْمٰنِ ۔ الرَّحِیمِ

بہت زیادہ رحم کرنے والا ( اسم مبالغہ ) ۔ بہت بڑا مہربان ( اسم مبالغہ ) ۔

اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔

جو نہایت رحم کرنے والا بہت مہربان ہے ۔

الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ ۔
یہ دونوں الله تعالی کی صفات ہیں ۔
رحمان کے معنی عامُ الرّحمہ ( جس کی رحمت سارے عالم وکائنات پر حاوی اور شامل ہو ) ۔ اور رحیم کے معنی تام الرّحمہ ( جس کی رحمت کامل اور مکمل ہو ) ۔۔۔۔
رحمٰن ۔۔۔ یعنی بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔ انسان جب دنیا میں آتا ہے ۔ تو وہ جسمانی اور روحانی بلاؤں میں گرفتار ہوتا ہے ۔ اُسے سینکڑوں چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس دُنیا میں مومن وکافر ، اچھے بُرے سب رہتے ہیں ۔ انسان ، حیوان ، چرند پرند ، کیڑے مکوڑے ، نباتات غرض جتنی بھی مخلوق جہاں جہاں موجود ہے ۔ سب کو الله تعالی کی رحمت کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس لئے الله جل شانہ نے اپنی صفت رحمان بتائی ۔ یعنی وہ بلا تمیز اپنی تمام مخلوق پر رحمت برساتا ہے ۔ کسی کو اپنے انعامات سے محروم نہیں کرتا اور بغیر مانگے نعمتیں عطا فرماتا ہے ۔

رَحِیْمٌ ۔۔۔ یعنی بڑا مہربان ۔ اس لفظ سے اس نے بتایا ۔ کہ الله تعالی لوگوں کو اُن کے حق سے بہت زیادہ عطافرماتا ہے ۔ جو اُس کے احکامات کی پیروی کریں گے ۔ اُن پر خاص انعامات فرمائے گا ۔ اس نام کو آخر میں لانے سے ہمیں یہ بھی بتا دیا کہ اس دُنیا کے بعد ایک دوسری دُنیا آئے گی ۔ اور جب ہم یہاں سے کوچ کر کے دوسرے جہان میں جائیں گے ۔ تو ہمارے ایمان اور عمل کے لحاظ سے ہم پر الله تعالی کی خاص رحمت کا ظہور ہو گا ۔ رحمان اسکی صفت ِ عام ہے ۔ اور رحیم اُس کی صفتِ خاص ہے ۔
رحمٰن ہونے کی صورت میں اُس نے ہماری ہر حاجت کو پورا کرنے کا سامان کر دیا ۔ زمین و آسمان پیدا کئے ۔ سورج ، چاند اور ستارے بنائے ۔ دریا اور سمندر بہائے ۔ جنگل پھیلائے اور پہاڑ کھڑے کئے ۔ نباتات اور جمادات ، حیوانات پیدا کئے ۔ اپنی رحمت کا سایہ والدین کے دل پر ڈالا ۔ کہ وہ اولاد سے بے غرض اور دلی محبت کرتے ہیں ۔ اولاد کو ہر طرح کا آرام پہنچاتے ہیں ۔ بہن بھائیوں میں محبت کا جذبہ رکھا ۔لوگوں میں انسانیت کا درد اور احساس پیدا کیا ۔ الله کے یہ انعام مسلمان اور کافر سب کے لئے یکساں ہیں ۔ نیک اور بد کی کوئی تمیز نہیں ۔
رحیم۔ ہونے کی صورت میں الله تعالی ہمارے نیک کاموں کا اجر زیادہ سے زیادہ دیتا ہے ۔ اور اس دُنیا کے بعد بھی ہمیں اپنی رحمت میں ڈھانپ لے گا ؟ اور جنت کا وارث بنائے گا ( ان شاء الله ) ۔ وہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے بڑے بڑے نتائج پیدا فرماتا ہے ۔ معمولی معمولی نیکیوں کے اجر زیادہ سے زیادہ دے گا ۔
الله جلَّ شانُہ کی ان صفتوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے ۔ کہ ہم بھی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں ۔ اُن کی جو ضرورت ہم پوری کر سکتے ہوں ۔ اُن کی مدد کریں ۔ اور اُن کی لغزشوں سے درگزر کریں ۔ تاکہ دنیا میں الله تعالی کی ان صفات کا اظہار ہو ۔ اور اس کی مخلوق راحت حاصل کرے ۔۔۔۔
مسئلہ ۔۔۔۔۔ لفظ رحمان الله جلّ شانہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔ لفظ الله کی طرح اسکا بھی تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔ کیونکہ رحمان ایک ہی ذات کے لئے مخصوص ہے ، دوسرے اور تیسرے کا وہاں احتمال ہی نہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آجکل عبد الر حمٰن ، فضل الرحمٰن وغیرہ ناموں کو مختصر کر کے رحمٰن کہتے ہیں یہ نا جائز اور گناہ ہے ۔ البتہ لفظ رحیم انسان کے لئے بھی بولا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ اس کے معنی میں کوئی ایسی چیز نہیں ۔ ہو سکتا ہے کوئی شخص دوسرے سے پوری رحمت کا معاملہ کرے ۔ الله تعالی نے قرآن کریم میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لئے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے ۔
بِالْمُؤمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ماْخذ ۔۔۔۔
درسِ قرآن ۔۔۔ مرتّبہ درسِ قرآن بورڈ
معارف القرآن ۔۔۔۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ الله علیہ
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
جزاء وسزا

مَالِکِ ۔ یَوْمِ ۔ الدِّیْنِ (۳)

مالک ۔ بدلہ ۔ دن ۔

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ

اس آیہ مبارکہ میں الله تعالی کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی یہ کہ وہ بدلہ کی گھڑی کا مالک ہے ۔ آپ ان لفظوں کے معنی سمجھ لیجئے ۔
مالک ۔۔۔ الله تعالی کی صفت ہے ۔ ہر عقلمند کے لئے یہ بات بالکل واضح اور ظاہر ہے ۔ کہ کائنات کے ذرے ذرے کا حقیقی مالک الله تعالی ہے ۔ جس نے اس کو پیدا کیا ۔ بڑھایا ، تربیت کی اور جس کی ملکیت ہر چیز پر مکمل ہے ۔ وہ ظاہر کا بھی مالک ہے اور باطن کا بھی ۔ زندہ کابھی مالک ہے اور مُردہ کا بھی ۔ اور اسکی ملکیت ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گی ۔ بخلاف انسان کی ملکیت کے کہ ہر حال میں محدود ہے ۔ پہلے نہیں تھی ۔ پھر نہیں رہے گی ۔ اس کے علاوہ اس کی ملکیت ظاہر پر ہے باطن پر نہیں ہے ۔ اگرچہ دنیا میں میں بھی حقیقی مالک تو الله جل شانہ ہی ہے ۔ لیکن اس نے اپنے کرم سے ایک ناقص ملکیت انسان کو بھی دے رکھی ہے ۔
آج کی دنیا میں انسان مال ودولت کا مالک ہے ۔ زمین جائیداد کامالک ہے ۔ لیکن یہ عارضی ملکیت ہے ۔ کوئی حاکم یا قاضی کیسے ہی وسیع اختیارات رکھتا ہو ۔ بہر حال اسکے اختیارات محدود ہی ہوتے ہیں ۔ اور وہ مجرم کو قانون کے مطابق سزا دینے پر مجبور ہوتا ہے ۔ الله تعالی نے مالکِ یومِ الدین سے بتایا ہے ۔ کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے ۔ جس میں کوئی کسی چیز کا ظاہری طور پر بھی مالک نہ رہے گا ۔ نہ کوئی خادم رہے گا ۔ نہ کوئی مخدوم ۔ نہ کوئی آقا رہے گا نہ غلام رہے گا ۔ تمام کائنات کامالک صرف اور صرف الله تعالی ہی ہو گا ۔جسے پورے پورے اختیارات حاصل ہوں گے ۔ چاہے تو وہ مجرم کو بخش دے ۔ چاہے تو سزا دے ۔ اُس پر کوئی حاکم نہیں ۔
دِیْن ۔۔۔ اس کے لفظی معنی جزا اور بدلہ کے ہیں ۔ اور قیامت کو روزِ جزا اسی لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ حساب اور بدلہ کا دن ہو گا ۔ روزِ جزا کا مالک ہونے سے مراد یہ ہے ۔ کہ اس روز اس کی صفتِ مالکیت کو بڑے سے بڑا کافر اور منکر بھی دیکھ لے گا ۔ اور کوئی حساب کتاب اور جزا وسزا سے بھاگ نہیں سکے گا ۔
دنیا میں جتنے بھی نبی آئے ۔ وہ سب کے سب لوگوں کو بتاتے رہے ۔ کہ ہر انسان اپنے کاموں کا خود ہی ذمّہ دار ہے ۔ اور ایک وقت ایسا آئے گا جب اس سے اس کے کاموں کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ اور ٹھیک ٹھیک بدلہ دیا جائے گا ۔ یہ بدلہ اگرچہ دنیا میں بھی ملتا ہے مگر پورا پورا قیامت کو ہی ملے گا ۔ جبکہ زمین اور آسمان کی ہر چیز فنا ہو جائے گی ۔ تمام لوگ الله کے دربار میں جمع ہوں گے ۔ اُس روز اُسی کی بادشاہت ہو گی ۔ وہ لوگوں کے اچھے کاموں پر ثواب اور بُرے کاموں پر عذاب دے گا ۔ اُس روز کسی کو طاقت نہ ہو گی کہ اُس کے فیصلے کی نافرمانی کر سکے ۔ یا اجازت کے بغیر سفارش کر سکے ۔ یا مجرم کو زبردستی چھڑا کر لے جائے ۔ یا کچھ معاوضہ دے کر نجات حاصل کر لے ۔
جو شخص اس روز کامیاب ہوا ۔ وہ بہت خوش قسمت ہو گا ۔وہ عالیشان باغات اور محلوں میں آباد ہو گا ۔ اُس کے لئے قسم قسم کے میوے اور شہد اور دودھ کی نہریں ہوں گی ۔ اس کے برعکس اس روز جو شخص نا کام رہا ۔ وہ بہت بد نصیب ہو گا ۔ دوزخ کی آگ کے شعلوں میں جھونکا جائے گا ۔ ( اللھم اجرنی من النار ) ۔
اُس دن کی پریشانی اور عذاب سے بچنے کے لئے ہمیں اس دنیا میں تیاری کرنی چاہئے ۔ ہمیشہ ایسے کام کریں ۔ جن کا حکم الله تعالی اور اسکے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں دیا ہے ۔ تاکہ قیامت کے روز ہمیں شرمساری نہ ہو ۔ جہنم کے ہولناک عذاب سے نجات حاصل ہو ۔ اور جنت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں حاصل ہوں ۔۔ آمین ثمَّ آمین
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
اِیَّاکَ ۔ نَعْبُدُ

صرف تیری ۔ ہم عبادت کرتے ہیں

اِیَّاکَ نَعْبُدُ

ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں ۔

ہم الله تعالی کی چار صفات پڑھ چکے ہیں ۔ وہ تمام جہانوں کا رب ہے ۔ اُسی کی مدد سے زمین وآسمان کی ہر چیز ترقی پاتی ہے ۔ وہی ہر ایک کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے ۔ وہ بے حد مہربان ہے ۔ اپنی رحمت سے ہر شخص کی ضرورتیں پوری کرتا ہے ۔ ہر قسم کی مشکلات دور کرتا ہے ۔ وہ رحیم بھی ہے ۔ جو شخص اُس کا حکم مانے اور اُس کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق عمل کرے وہ اُسے اچھا بدلہ دیتا ہے ۔ وہ بدلہ کی گھڑی کا بھی مالک ہے ۔ اس دنیا میں ہمارے کاموں کے نتیجے پیدا کرتا ہے ۔ اور اُن کا بدلہ دیتا ہے ۔ اور قیامت کے دن بھی ہمارے اعمال کا ٹھیک ٹھیک بدلہ دے گا ۔
انسان پر تین حال گزرتے ہیں ۔ ماضی ، حال اور مستقبل ۔ اور ہر حال میں وہ الله رب العزت کا محتاج ہے ۔ الله تعالی نے ماضی میں جب وہ کچھ نہ تھا اسے پیدا کیا ۔ تمام کائنات سے بہترین شکل وصورت عطا کی ۔ عقل اور سمجھ دی ۔ اُسے اشرف المخلوقات بنایا ۔ اور حال میں اُس کی پرورش اور تربیت کا سلسلہ جاری ہے ۔ پھر خبردار کیا کہ مستقبل میں بھی انسان الله تعالی ہی کا محتاج ہے ۔ کیونکہ قیامت کے دن اُس کے سوا کوئی مدد گار نہ ہو گا ۔ تو جب ہر حال میں الله جلَّ شانہ ہی کارساز ہے ۔تو بندوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ صُبح وشام ، سوتے جاگتے ، اُٹھتے بیٹھتے صرف اُسی ایک الله کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہیں ۔ ہر وقت اسی کو پکاریں ۔ مصیبت کی گھڑی میں اسی سے فریاد کریں ۔ اور آرام اور سکون کے وقت اسی کا شکر ادا کریں ۔ تمام جھوٹے معبودوں سے ہٹ کر صرف اسی کی عبادت کریں ۔
عبادت کے معنی بندگی ، اطاعت اور فرمانبرداری کے ہیں ۔ اور اس سے مراد نہایت درجے کی عاجزی اور انتہائی درجے کی انکساری ہے ۔ جو کسی کی تعظیم کے لئے عمل میں آئے ۔ گویا ہر حرکت کرتے وقت انسان الله تعالی کی عبادت میں لگا رہے ۔ اسلام نے عبادت سے صرف پرستش اور بندگی مراد نہیں لی ۔ بلکہ عبادت میں مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کو شامل کیا ۔ مقصد یہ ہے کہ انسان ہر کام الله تعالی کے حکم کے مطابق کرے ۔ اور کوئی بات اسکی مرضی کے خلاف نہ کرے ۔

اِیَّاکَ ۔۔۔ صرف اور صرف تیری

نَعْبُدُ ۔۔۔۔۔ ہم عبادت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔

ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اس میں کسی اور کو شریک نہ کریں گے۔
ماخذ ۔۔۔
درسِ قرآن ۔۔۔ مرتّبہ درسِ قرآن بورڈ
معارف القرآن ۔۔۔مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله تعالی
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
وَ اِیَّاکَ ۔ نَسْتَعِیْنُ (۴)

اور خاص تیری ۔ ہم مدد طلب کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے

وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (۴)

اور ہم تیری ہی مدد طلب کرتے ہیں ۔

نستعین لفظ استعانت سے نکلا ہے ۔ عربی زبان میں سادہ طور پر اس کا مطلب ادا کرنے کے لئے کہ ہم مدد مانگتے ہیں ۔ نَسْتَعِیْنُکَ "" کہا جاتا ہے ۔ لیکن الله رب العزت نے معنی میں خاص زور اور تاکید پیدا کرنے کے لئے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ فرمایا ۔ اب اس کے معنی یہ ہو گئے کہ ہم سب کو چھوڑ کر صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔
انسان جب الله تعالی کو اپناربّ مہربان اور مالک تسلیم کر لیتا ہے ۔ اور اپنی عاجزی اور بندگی کا اقرار کرتاہے ۔ تو اب بندے کے لئے اس کے سوا کوئی صورت نہیں ۔ کہ وہ اپنی ہر ضرورت کے وقت اسی کو یاد کرے ۔ اور اپنے ہر کام میں کامیابی کے لئے ۔ ہر مصیبت میں بچاؤ کے لئے اور ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اسی آقا کو پکارے ۔
الله جلّ شانہ قرآن مجید میں جگہ جگہ فرماتے ہیں ۔ کہ اگر انسان پوری طرح اللہ تعالی کا فرمانبردار ہو کر رہے ۔ تو الله اسے کبھی ناکام اور نا مراد نہیں لوٹائے گا ۔ الله تعالی تمام کائنات کی ہر طرح کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔ بھوکوں کو روزی پہنچاتا ہے ۔ بیماروں کو شفا بخشتا ہے ۔ یتیموں اور مسکینوں کی نگرانی کرتا ہے ۔ دن رات کھلے ہاتھوں اپنی رحمت لُٹاتا ہے ۔ پھر بھی اس کی رحمت میں کوئی کمی نہیں آتی ۔ زمین اور آسمان کے بسنے والے سب اپنی اپنی آرزوؤں کا اظہار اپنے اپنے طور پر اُسی کے سامنے کرتے ہیں اور الله تعالی ان سب کو پورا کرتا ہے ۔ پھر بھی اس کے خزانے میں اتنی کمی نہیں ہوتی جتنی ایک سمندر میں سوئی ڈبو کر نکال لینے سے ہو سکتی ہے ۔ ہم میں سے کوئی شخص کتنا بھی امیر ہو ۔ وہ اسقدر دولت تقسیم نہیں کر سکتا ۔ اور اگر جرأت کرے بھی تو اس کا خزانہ پل بھر میں ختم ہو جائے گا ۔ اور آخر کار وہ بھی الله تعالی سے مانگنے پر مجبور ہو گا ۔
اس آیہ مبارکہ میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے ۔ کہ الله کریم کا ارشاد ہے کہ " ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں " کس کام میں مدد مانگتے ہیں اس کا ذکر نہیں ۔ زیادہ تر مفسرین کرام نے لکھا ہے ۔ کہ اسکا ذکر نہ کرنے میں عموم کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ ہم اپنی عبادت اپنے ہر دینی کام ، اپنے ہر دنیاوی کام اور ہر مقصد میں آپ ہی کی مدد چاہتے ہیں
انسان کی بے بسی اور بے چارگی کا تقاضا ہے ۔ کہ وہ کسی ضرورت کے لئے الله تعالی کے سوا کسی اور سے مدد نہ مانگے ۔ ہر امتحان میں اسی کا سہارا ڈھونڈے ۔ ہر مصیبت میں نجات اسی سے طلب کرے ۔ ہر مہم میں کامیابی کے لئے اسی کو پکارے ۔ اس کے سوا کون ہے جو اس کے درد کا درماں بن سکے ۔
اس لئے عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنے کے معنی یہ ہو گئے ۔ کہ نہ کسی کی محبت الله تعالی کی محبت کے برابر ہو ۔ نہ کسی دوسرے کا خوف الله تعالی کے خوف کے برابر ہو ۔ نہ کسی سے اُمید الله سے امید جیسی ہو ۔ نہ کسی دوسرے پر بھروسہ الله تعالی پر بھروسے جیسا ہو ۔ نہ کسی کی اطاعت ، خدمت اور کام کو اتنا ضروری سمجھے جتنا الله تعالی کی عبادت کو ۔ نہ الله تعالی کی طرح کسی اور کی نذر اور منّت مانے ۔ نہ الله تعالی کی طرح کسی دوسرے کے سامنے اپنی مکمل عاجزی اور تذلل کا اظہار کرے ۔ نہ ایسے افعال کسی دوسرے کے لئے کرے جوصرف الله تعالی کے لئے خاص ہیں ۔ جیسے رکوع اور سجدہ ۔اور استعانت میں کسی کو شریک نہ کرنے کی بہترین مثال یہ حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مرتبہ سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ رضوان الله سے فرمایا ۔ کہ تم میں سے کون ہے جو اس بات کا وعدہ کرے کہ وہ کبھی کسی سے نہیں مانگے گا ۔ اس پر تمام صحابہ نے عہد کیا کہ وہ الله تعالی کے سوا کسی سے نہیں مانگیں گے ۔ چنانچہ ان صحابہ نے زندگی بھر کسی سے کچھ نہیں مانگا ۔ بعض لوگوں نے یہاں تک کیا کہ اگر سواری پر بیٹھے ہوئے چابک گر جاتا ۔ تو کسی سے چابک اُٹھا کر دینے کا نہ کہتے ۔ بلکہ خود اترتے اور چابک اُٹھاتے ۔
یہ ہے ہمارے بزرگوں کا عمل ۔ ہم بھی اسی راہ پر چل کر اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنا سکتے ہیں
ماخذ ۔۔۔
درس قرآن ۔۔۔۔مرتّبہ درسِ قرآن بورڈ
معارف القرآن ۔۔۔۔ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله تعالی
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
اِھْدِ ۔ نا ۔ الصِّرَاطَ ۔ الْمُسْتَقِیْمَ۔ (۵)

تو ہدایت دے ۔ ہم کو ۔ راستہ ۔ سیدھا ۔


اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (۵)

تو ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے ۔

ہم نے الله تعالی کو اپنا رب ، مہربان اور مالک تسلیم کر کے اس کا اقرار کیا ۔ کہ ہم صرف اسی کی اطاعت اور بندگی کریں گے ۔ اور اسی سے ہر وقت مدد مانگیں گے ۔ اب ہماری یہ آرزو ہے ۔ کہ ہمارا آقا ہماری راہنمائی کرے اور ہم بھولے سے بھی کوئی ایسی غلطی نہ کر بیٹھیں ۔ جو اس کی ناراضگی کا سبب ہو ۔ اس کے لئے ہمیں ایسی راہ کی ضرورت ہے ۔ جس پر چل کر ہم اس کی خوشنودی حاصل کر سکیں ۔ اور جو ہمیں بالکل سیدھا اسی تک پہنچا دے ۔
اِھْدِ ۔۔۔۔ ( ہدایت دے ) ۔ ہدایت عربی زبان کا ایک بڑا جامع لفظ ہے ۔ اس کے معنی میں کئی باتیں شامل ہیں ۔
اول ۔۔۔ راستہ دکھانا
دوم ۔۔۔ راستہ پر چلانا
سوم ۔۔۔ منزلِ مقصود پر پہنچا دینا ۔
یعنی دُعا یہ ہے ۔ ہمیں اگر راستہ معلوم نہ ہو تو وہ دکھا دے ۔ اور جو راستے کا علم رکھتے ہیں ۔ انہیں اسپر چلنے کی توفیق بخش دے ۔ اور جو سیدھے راستے پر چل رہے ہیں ۔ تو اس پر قائم رکھ تاکہ کامیابی کی منزل کو پا لیں اور راستے ہی میں نہ رہ جائیں ۔
یہ راہ ہم اپنے علم اور عقل سے دریافت نہیں کر سکتے ۔ چونکہ علم محدود ہے اور عقل ناقص ہے ۔ اسلئے ہم الله جلّ شانہ ہی سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنے علم کی بنا پر ہمیں ایسی راہ بتا دے ۔ جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہ ہو ۔ کوئی اونچ نیچ نہ ہو ۔ کہیں ٹھوکر لگنے کا ڈر نہ ہو ۔ زندگی کا مکمل دستور العمل ہو ۔ زندگی کے ہر گوشہ اور ہر شعبہ میں ہدایت کا ایک مکمل طریقہ ہو ۔
یہ دُعا ہم جمع کے صیغے میں اس لئے کرتے ہیں ۔ تاکہ ہر شخص کا ذاتی تعلق پوری اُمت سے قائم رہے ۔ عبادت کرتے ہیں تو ہم سب ۔ مدد مانگتے ہیں تو ہم سب ۔ ہدایت کی درخواست کرتے ہیں تو ہم سب ۔ مل جُل کر رہنے کی ایسی تعلیم اسلام کے سوا کہیں نہیں پائی جاتی ۔
یہ دُعا کسقدر جامع اور مکمل ہے ۔ " الله تعالی ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے ۔" کون سا ایسا وقت ہے جب انسان کو صحیح راہ اور درست طریقہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ کھانا ، پینا ، چلنا پھرنا ، لکھنا پڑھنا ، خرید و فروخت ُ حکومت و سلطنت کے کام عدالت ومقدمات کے فیصلے ۔ غرض زندگی کا ایسا کون سا مسئلہ ہے ۔ جس میں انسان کو درست راہنمائی درکار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ الله تعالی نے یہ دُعا ہر نماز میں مقرر کر دی ۔ تاکہ صبح و شام اور رات دن ہر وقت انسان الله تعالی سے راہنمائی اور عمل کی توفیق مانگتا رہے ۔
ہر مذہب نے اپنے ماننے والوں کو دُعا کی تلقین کی ہے ۔ مگر کوئی روٹی مانگتا ہے ۔ کوئی طاقت کے لئے دُعا کرتا ہے ۔ کوئی دل کی روشنی چاہتا ہے ۔ کوئی گناہوں کی معافی کے لئے دُعا کرتا ہے ۔ ہمارے پروردگار نے ہمیں ایک جامع اور مکمل دُعا بتائی کہ ہر دم ہر کام میں صحیح اور درست راہ معلوم کرنے اور اس پر چلنے اور قائم رہنے کی دُعا کرو
اِھْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔آمین ثمَّ آمین
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
ھدایت کے درجات


اِھْدِناَ الصِّراطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔۔۔۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ سیدھے راستے کی ہدایت کے لئے دُعا جو کہ اس آیہ مبارکہ میں ہے ۔ اس کے مخاطب جس طرح تمام انسان اور عام مسلمان ہیں ۔ اسی طرح ہدایت یافتہ لوگ ، اولیاء اللہ اور انبیاء علیھم السلام بھی ہیں ۔
لفظ ہدایت کی بہترین تشریح امام راغب اصفہانی نے مفرداتُ القرآن میں تحریر فرمائی ہے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدایت کے اصلی معنی ہیں کسی شخص کو منزلِ مقصود کی طرف مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنا ۔ اور ہدایت کرنا حقیقی معنی میں صرف الله تعالی کا کام ہے ۔ جس کے مختلف درجات ہیں ۔
ایک درجہ ہدایت کا عام ہے ۔ جو کائنات و مخلوقات کی تمام اقسام جمادات ، نباتات ، حیوانات کے لئے ہے ۔ یہاں آپ یہ خیال نہ کریں کہ ان بے جان ، بے سمجھ چیزوں کو ہدایت کی کیا ضرورت ہے ۔ کیونکہ قرآنی تعلیمات سے یہ واضح ہے کہ کائنات کی تمام اقسام اور ان کا ذرہ ذرہ زندگی بھی رکھتا ہے ۔ اور احساس بھی ۔ عقل بھی رکھتا ہے اور سمجھ بھی ۔
کیونکہ قرآن مجید میں حق تعالٰی کا ارشاد ہے ۔

وَ اِنْ مَّنْ شَئیءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِِ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ

یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جو تعریف کے ساتھ اس ( الله تعالی ) کی پاکی بیان نہ کرتی ہو ( اپنے قول سے یا حال سے ) مگر تم لوگ ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ۔
سورۃ بنی اسرائیل آیہ -44-
اور سورۃ نور میں ارشاد ہے ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفَّاتٍ ط کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتُہٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ ط۔ وَاللهُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ

" یعنی کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ الله تعالی کی تسبیح بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور ( خاص طور پر ) پرندے جو پر پھیلائے ہوئے اُڑتے پھرتے ہیں ، سب کو اپنی اپنی دُعا اور تسبیح معلوم ہے ۔ اور الله تعالی خوب جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں ۔
سورۃ نور آیہ 41
ظاہر ہے کہ الله تعالی کی حمد وثنا اور اسکی پاکی بیان کرنا الله تعال کو خوب پہچان لینے کی وجہ سے ہے ۔ اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ الله تعالی کی پہچان یعنی معرفت ہی سب سے بڑا علم ہے ۔ اور یہ علم عقل اور سمجھ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے ان آیات مبارکہ سے ثابت ہوا کہ تمام کائنات کے اندر روح بھی ہے اور زندگی بھی ۔ احساس اور عقل و سمجھ بھی ہے ۔ مگر بعض مخلوقات میں یہ چیز اتنی کم اور چُھپی ہوئی ہے کہ عام دیکھنے والوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا ۔ اس لئے ان اشیاء کو بے جان یا بے عقل کہا جاتا ہے ۔ اسی لیا وہ احکام شریعت کے مکلف نہیں ہیں ۔یعنی ان کا حساب کتاب نہ ہو گا ۔
چنانچہ ہدایتِ خداوندی کا یہ پہلا درجہ تمام مخلوقات ، جمادات ، نباتات ، حیوانات ، انسان اور جنّات کے لئے ہے ۔
اسی ہدایتِ عام کا ذکر قرآن مجید کی آیہ

اَعْطٰی کُلَّ شَیءٍ خَلَقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی

میں فرمایا گیا ہے ۔ یعنی الله تعالی نے ہر چیز کو اس کی خِلقت عطا فرمائی ، پھر اس خلقت کے موافق اس کو ہدایت دی ۔
اور یہی مضمون سورہ اعلی میں ان الفاظ میں ارشاد ہوا ۔

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی ۔ اَلَّذِی خَلَقَ فَسَوّٰی ۔ وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی ۔

" یعنی آپ اپنے پروردگار عالی شان کی تسبیح بیان کیجئے ۔ جس نے ساری مخلوقات کو بنایا ۔ پھر ٹھیک بنایا اور جس نے تجویز کیا ، پھر راہ بتائی ۔
یعنی جس نے تمام مخلوقات کے لئے خاص خاص مزاج اور خاص خاص خدمتیں تجویز فرما کر ہر ایک کو اس کے مناسب ہدایت دی ۔ الله رب العزت نے جو چیز جس کام کے لئے بنا دی ہے وہ اس کو ایسی خوبی کے ساتھ کر رہی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ۔ زبان سے نکلی ہوئی بات کی سمجھ نہ تو آنکھ کو آسکتی ہے نہ ناک کو ۔ حالانکہ یہ زبان سے زیادہ قریب ہیں ۔ یہ کام الله تعالی نے کانوں کے سپرد کیا ہے وہی زبان کی بات کو لیتے ہیں ۔ اسی طرح کانوں سے دیکھنے یا سونگھنے کا کام نہیں لیا جا سکتا ۔
دوسرا درجہ ہدایت کا اس کے مقابلے میں خاص ہے ۔ یعنی ان چیزوں کے ساتھ خاص ہے جو ذوی العقول کہلاتی ہیں ۔ یعنی انسان اور جنّ ۔ یہ ہدایت انبیاء علیھم السلام اور آسمانی کتابوں کے ذریعے ہر انسان کو پہنچتی ہے ۔ پھر کوئی اسے قبول کرکے مؤمن ومسلم ہو جاتا ہے ۔ اور کوئی انکار کرکے کافر ہو جاتا ہے ۔
تیسرا درجہ ہدایت کا اس سے بھی خاص ہے ۔ جو صرف مؤمنین اور متقین کے لئے خاص ہے ۔ یہ ہدایت بھی الله تعالی کی طرف سے بغیر کسی واسطے کے انسان کو ملتی ہے ۔ اس ہدایت کا دوسرا نام توفیق ہے ۔ یعنی الله کریم ایسے حالات اور اسباب پیدا فرما دیتے ہیں کہ قرآنی ہدایات کا قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ اور اُن کی خلاف ورزی کرنا مشکل ہو جائے ۔ ہدایت کی یہ قسم بہت وسیع ہے اور اس کے بے شمار درجات ہیں ۔ یہی قسم انسان کی ترقی کا میدان ہے ۔ اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ اس درجۂ ہدایت میں ترقی ہوتی رہتی ہے ۔
قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس زیادتی کا ذکر ہے ۔

وَ الَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی

اور جو لوگ ھدایت پر ہیں ہم اُن کو ہدایت میں بڑھا دیتے ہیں ۔

وَ مَنْ یُّؤْمِنْ بِاللهِ یَھْدِ قَلْبَہٗ

جو شخص الله پر ایمان لائے اس کے دل کو ہدایت کر دیتے ہیں۔

وَ الَّذِینَ جَاھَدُوا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا

جو لوگ ہمارے راستے میں محنت کرتے ہیں ہم اُن کو اپنے راستوں کی مزید ہدایت کر دیتے ہیں ۔

یہی وہ میدان ہے جہاں ہر بڑے سے بڑے نبی ورسول اور ولی الله آخر عمر تک ہدایت کی زیادتی اور توفیق کے طلبگار نظر آتے ہیں ۔
چنانچہ ہدایت ایک ایسی چیز ہے ۔ جو سب کو حاصل بھی ہے ۔ اور اس کے اور بلند درجے حاصل کرنے کی ہر انسان کو ضرورت بھی ہے ۔ اسی لئے سورۃ فاتحہ کی اہم ترین دُعا ہدایت کو قرار دیا گیا ہے ۔
ماخذ ۔۔۔۔۔
معارف القرآن ۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی
 
Top