• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درود کی وجہ سے دعائیں لٹکی رہتی ہیں تو سجدے میں، بازار جاتے وقت،گھرمیں داخل ہوتےوقت دعامیں درود کیوں

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
سوال: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (ہر دعا شرفِ قبولیت سے محروم رہتی ہے، جب تک اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھا جائے)
طبرانی نے "الأوسط" (1/220) میں روایت کیا ہے، اور شیخ البانی نے اسے "صحیح الجامع" (4399) میں اسے صحیح قرار دیا ہے لیکن بہت سی دعائیں ہم درود پڑھے بغیر پڑھتے ہیں ! مثلاً کھانے سے متعلقہ دعائیں، گھر سے نکلتے اور داخل ہوتے وقت کی دعائیں وغیرہ
سائل : حامد زیاد ،ریاض
جواب: یہ بات صحیح ہے کہ دعا میں درود پڑھنے کا خاص اثر ہے ،وہ یہ کہ اس کی وجہ سے اللہ کے یہاں اسے شرف قبولیت ملتی ہے جیساکہ متعدد احادیث سے ثابت ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ بغیر درود کی دعا قبول ہی نہیں ہوتی ہے ، درود دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے جیسےکہ آگے بات آرہی ہے ۔
وہ روایت جسے آپ نے بیان کیا ہے،اسے طبرانی نے اوسط میں بیہقی نے شعب الایمان میں، دیلمی نے مسند الفردوس میں اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں ذکر کیا ہے مگر بطور اثر ذکر کیاہے ۔
وعن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال :كل دعاء محجوب حتى يصلي على محمد صلى الله عليه وسلم وآل محمد صلى الله عليه وسلم . (صحيح الترغيب والترهيب: 1675 )
ترجمہ: علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہر دعا شرفِ قبولیت سے محروم رہتی ہے، جب تک اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھا جائے۔
اسے شیخ البانی نے صحیح الترغیب میں صحیح اور سلسلہ صحیحہ و صحیح الجامع میں حسن قرار دیا ہے ۔
اس معنی کا اثر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی صحیح سند کے ساتھ مروی ہے جو حکما مرفوع ہے ۔
عن عمرَ بنِ الخطابِ قال : إن الدعاءَ موقوفٌ بينَ السماءِ والأرضِ، لا يَصْعَدُ منه شيءٌ حتى تُصَلِّيَ على نبيِّك صلى الله عليه وسلم.(صحيح الترمذي؛486)
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے، اس میں سے ذرا سی بھی اوپر نہیں جاتی جب تک کہ تم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ ( درود ) نہیں بھیج لیتے۔
حافظ عراقی نے عمررضی اللہ عنہ کے اس قول کو مرفوع حدیث کا درجہ دیا ہے کیونکہ یہ معاملہ توفیقی ہے، یہی بات قاضی ابوبکر بن عربی نے کہی ہے ۔
ایک حدیث فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :
سمعَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ رجلًا يَدعو في صلاتِهِ لم يُمجِّدِ اللَّهَ تعالى ولم يُصلِّ علَى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ عجِلَ هذا ثمَّ دعاهُ فقالَ لَهُ أو لغيرِهِ إذا صلَّى أحدُكُم فليَبدَأ بتَمجيدِ ربِّهِ جلَّ وعزَّ والثَّناءِ علَيهِ ثمَّ يصلِّي علَى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ثمَّ يَدعو بَعدُ بما شاءَ(صحيح أبي داود:1481)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے سنا، اس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کی اور نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ( نماز ) بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص نے جلد بازی سے کام لیا ، پھر اسے بلایا اور اس سے یا کسی اور سے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ( نماز ) بھیجے، اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے ۔
ان احادیث کی روشنی میں علماء نے دعا میں درود پڑھنا مستحب قرار دیا ہے اس لئے ہمیں دعا کے شروع میں اللہ کی حمد وثنا کے بعد نبی ﷺ پر درود پڑھنا چاہئے ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ جب دعا میں درود کی اس قدر فضیلت ہے تو پھر ہم بعض دعائیں پڑھتے ہیں مثلا کھانے پینے کی دعائیں، گھر میں داخل ہونے کی دعا، بازار میں جانے کی دعا ،سجدے کی دعا وغیرہ تو ان دعاؤں کا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ قبول ہوتی ہیں یا نہیں اور بغیر درود کے ان دعاؤں کے پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟
واقعی یہ ایک اہم سوال ہے جس طرف لوگوں کی توجہ کم ہے ، یہاں ہم یہ سمجھ لیں کہ دین ،نام ہے محمد ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا۔ آپﷺ نے جو بتلایا ہم وہی کریں گے اور جس سے منع کیا اس سے رک جائیں گے اور جہاں خاموشی اختیار کی وہاں اپنی اٹکلیں نہیں لگائیں گے ۔
شریعت محمدیہ میں جو دعائیں وارد ہیں انہیں ہم دوقسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔دعا کی ایک قسم مطلق ہے اور دعا کی دوسری قسم مقید ہے ۔
مقید دعائیں وہ ہیں جو کسی خاص وقت میں پڑھنے کا حکم ہے مثلا دودھ پیتے وقت، کپڑا پہنتے وقت، سوتے وقت، بیدار ہوتے وقت، گھر میں داخل ہوتے وقت وغیرہ ان حالات میں چونکہ نبی ﷺ سے صرف دعا پڑھنے کا ذکر کیا ہے ،ان میں درود پڑھنے کا ذکر نہیں ہے اس لئے ہم مقید دعاؤں میں درود نہیں پڑھیں گے ۔وجہ یہ ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایسی ہی تعلیم دی ہے اور رسول اللہ کی زندگی ہمارے لئے اسوہ ہے ۔ ہاں جہاں کہیں مقید دعاؤں میں بھی درود پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے تو وہاں درود پڑھیں گے جیسے مسجد میں داخل ہوتے وقت، اذان کے بعد کی دعاپڑھنے سے پہلے۔
البتہ دعاکی مطلق قسم میں(مثلا رات کے آخری پہر،اذان واقامت کے درمیان، جمعہ کی افضل گھڑی میں یا جب کبھی دعاکرے) ہمیں رب کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد نبی ﷺ پر درود پڑھنا چاہئے ۔یہ دعاکے آداب میں سے نہ کہ شرائط میں سے ،یہی بات درست ہے ۔ کوئی اگر دعا کے شروع میں درود بھول گیا تو درمیان میں پڑھ لے ،اگر درمیان میں بھی نہ پڑھ سکا تو آخر میں پڑھ لے ۔اگر شروع، درمیان یا آخر میں بھی درود نہ پڑھ سکا تو دعا اپنی درست ہے کیونکہ درود پڑھنا مستحب ہے اور دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے جیسے کہ دعا کی قبولیت میں سےہے گناہوں سے بچے، حرام مال سے بچے ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گناہگار دعا کرے تو قبول نہیں ہوگی ۔
بہرکیف ! عام دعاؤںمیں درود کا خاص اہتمام ہونا چاہئے ،کوئی شروع دعا، وسط دعا اور آخردعا تینوں مقامات پر درود پڑھے تو بہت اچھا اور اگر کوئی دعا میں بکثرت درود بھی پڑھے تو بھی اچھا ہے کیونکہ درود پڑھنےسے بھی غم اورگناہوں سے پروانہ نجات ملتا ہے ۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ إذا ذَهَبَ ثُلُثا اللَّيلِ قامَ فقالَ : يا أيُّها النَّاسُ اذكُروا اللَّهَ اذكُروا اللَّهَ جاءتِ الرَّاجفةُ تتبعُها الرَّادفةُ جاءَ الموتُ بما فيهِ جاءَ الموتُ بما فيهِ ، قالَ أُبيٌّ : قلتُ : يا رسولَ اللَّهِ إنِّي أُكْثِرُ الصَّلاةَ علَيكَ فَكَم أجعلُ لَكَ مِن صلاتي ؟ فقالَ : ما شِئتَ قالَ : قلتُ : الرُّبُعَ ، قالَ : ما شئتَ فإن زدتَ فَهوَ خيرٌ لَكَ ، قُلتُ : النِّصفَ ، قالَ : ما شِئتَ ، فإن زدتَ فَهوَ خيرٌ لَكَ ، قالَ : قلتُ : فالثُّلُثَيْنِ ، قالَ : ما شِئتَ ، فإن زدتَ فَهوَ خيرٌ لَكَ ، قلتُ : أجعلُ لَكَ صلاتي كلَّها قالَ : إذًا تُكْفَى هَمَّكَ ، ويُغفرَ لَكَ ذنبُكَ(صحيح الترمذي:2457)
ترجمہ: جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے اور فرماتے: لوگو! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، کھڑکھڑانے والی آ گئی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے، موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے۔ موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت صلاۃ ( درود ) پڑھا کرتا ہوں سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کر لوں؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، میں نے عرض کیا چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دو تہائی؟آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھا کروں؟ ۔ آپ نے فرمایا: ”اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔


واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمدسلفی
 
Top