- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
پہلی قسط
ارض حرمین شریفین ، مہبط وحی ، وہ جگہ جہاں پیام ہدایت کی تنزیل و تفسیر اورتوضیح ہی نہیں ، تطبیق بھی ہوئی ، ویسے تو حرمین کا چپہ چپہ ہی تاریخی حیثیت رکھتا ہے ، لیکن کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں رونما ہونے والے واقعات یا وہاں قدم رنجہ فرمانے والی شخصیات کی وجہ سے ان کی حیثیت بڑھ گئی ہے ۔ حرمین شریفین کے تاریخی مقامات کی کھوج ، ان کی زیارت ، اور ان کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا ، سیاحوں کی ایک کثیر تعداد کے ہاں ایک دلچسپ موضوع رہا ہے ۔
بعض معروف مقامات کی سیاحت تو ہم نے بھی کئی کئی بار کی ہے ، لیکن کئی سال سے یہ خواہش ہی رہی کہ ان مقامات ایک رسمی اور عمومی وزٹ کی بجائے ، ذرا دلچسپی کے ساتھ تتبع کیا جائے ، اسی سلسلے میں آج ہم چار دوست ، علامہ احسان الہی ظہیر ، علامہ فرمان مشتاق ، قاری حبیب الرحمن قاسم اور راقم الحروف جامعہ اسلامیہ سے روانہ ہوئے ، اور مدینہ منورہ کے تین مقامات کے متعلق کچھ جاننے کی کوشش کی :
1۔ ترکی ریلوے میوزیم
2۔ مسجد قباء کی مغربی جانب بئر خاتم
3۔ قبا سے دائیں جانب ذرا ہٹ کرحضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے منسوب کھچوروں کا باغ
ریلوے میوزیم بعض معروف مقامات کی سیاحت تو ہم نے بھی کئی کئی بار کی ہے ، لیکن کئی سال سے یہ خواہش ہی رہی کہ ان مقامات ایک رسمی اور عمومی وزٹ کی بجائے ، ذرا دلچسپی کے ساتھ تتبع کیا جائے ، اسی سلسلے میں آج ہم چار دوست ، علامہ احسان الہی ظہیر ، علامہ فرمان مشتاق ، قاری حبیب الرحمن قاسم اور راقم الحروف جامعہ اسلامیہ سے روانہ ہوئے ، اور مدینہ منورہ کے تین مقامات کے متعلق کچھ جاننے کی کوشش کی :
1۔ ترکی ریلوے میوزیم
2۔ مسجد قباء کی مغربی جانب بئر خاتم
3۔ قبا سے دائیں جانب ذرا ہٹ کرحضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے منسوب کھچوروں کا باغ
ترکی ریلوے میوزیم دراصل عثمانی دور کا ریلوے اسٹیشن ہے ، جہاں سے ریلوے لائن دمشق اور استنبول وغیرہ علاقوں تک جاتی تھی ۔
سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا ، البتہ مدینہ منورہ میں اس کا اسٹیشن کافی حد تک محفوظ حالت میں موجود ہے ، اس تاریخی یادگار کی حفاظت کے لیے سعودی حکومت کی طرف سے یہاں ’ متحف سکۃ الحدید ’ یعنی ’ ریلوے میوزیم ’ قائم کردیا گیا ہے ۔
اور اس میں مزید کئی ثقافتی اور تاریخی چیزوں کے نمونے جمع کردیے گئے ہیں ، اہم اہم چیزیں جو یہاں دیکھنے کا موقعہ ملا یہ ہیں :
1۔ تیر اندازِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک ’ کمان ’ موجود ہے ، جس بر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور جملہ جو آپ نے غزوہ احد کے موقعہ پر حضرت سعد بن أبی وقاص کے متعلق فرمایا تھا ، کنندہ ہے ، وہ جملہ یہ تھا :
ارم فداک أبی و أمی ( آپ پر میرے ماں باپ قربان ، ( خوب ) تیر اندازی کیجیے (بخاری و مسلم)
صحابہ کرام میں سے تو بہت سارے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ جملہ بولا ہے ، لیکن حضرت خود حضور کسی کے متعلق یہ جملہ فرمائیں ، یہ فضیلیت صرف حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ہی حصے میں آئی ہے ۔
2۔ پہلی صدی ہجری میں رائج بعض بازنطینی اور ساسانی سکوں کے نمونے بھی موجود ہیں ، اسی طرح بعد کے ادوار کے سکے بھی ہیں ، بعض سکے ایسے ہیں ، جو اصلا ساسانی ہیں ، لیکن مسلمانوں نے ان پر ’ بسم اللہ ’ وغیرہ جیسے کلمات کی نقش نگاری کی ہوئی ہے ۔
3۔ بہت سارے ایسے پتھر موجود ہیں ، جن پر مختلف قسم کی لکھائیاں ہیں ، جو بعض معروف و غیر معروف شخصیات کی طرف منسوب ہیں ، اور دعوی ہے کہ یہ تحریریں پہلی ، دوسری تیسری صدی ہجری سے چلی آرہی ہیں ۔
اسی مختلف ادوار میں حروف تہجی کس طرح لکھے جاتے رہے ، اس پر مشتمل بھی ایک تفصیلی چارٹ موجود ہے جس میں ایک ایک لفظ کو پانچ پانچ دس دس انداز سے لکھا گیا ہے ۔
4۔ پرانے ادوار میں خوشبو ، صابن ، اور کھانے پینے کے لیے کس قسم کے ظروف استعمال ہوتے تھے ، اس تعلق سے بھی کافی دلچسپ نمونے موجود ہیں ، اسی طرح ’ کأس ، اباریق ’ جرۃ ’ وغیرہ الفاظ قرآن وسنت میں استعمال ہوئے ہیں ، ان شکلوں کے برتن بھی وہاں موجود ہیں ۔ زجاج اور حنتم وغیرہ دھاتوں کے برتنوں کا اسلامی ورثے میں ذکر ملتا ہے ، ان کی بھی مثالیں متوفر ہیں ۔
5۔ پانے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے کس قسم کی نالیاں ، اور ظروف استعمال ہوتے تھے ، اس تعلق سے بھی نمونے موجود ہیں ۔
5۔ خلافت عثمانیہ میں دفتری نظام میں استعمال ہونے والی چیزیں مثلا گھڑی ، کلینڈر ، قلم دوات ، حاضری رجسٹر وغیرہ بھی وہاں رکھے گئے ہیں ۔
6۔ بعض سعودی امراء و بادشاہوں کی تمثیلی یا حقیقی عکس بندی بھی موجود ہے ، اسی طرح ان کے ابتدائی دور میں استعمال ہونے والا اسلحہ مثلا خنجر ، بندوق وغیرہ کے بھی متعدد نمونے دکھائے گئے ہیں ۔
7۔ مدینہ منورہ جب ’ یثرب ’ تھا تو کیسا تھا ، اس کی تمثیل ، اسی طرح مسجد نبوی دور نبوی میں کیسی تھی ، ان دونوں کی تمثیلی تصویریں موجود ہیں ، مدینہ منورہ کے تاریخی اعتبار سے بعض اہم مقامات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے ، جن میں وادی زی خشب کا تذکرہ کثرت سے ہے ، مدینہ منورہ کی مختلف مساجد کی تصاویر موجود ہیں ، مسجد نبوی میں فضا معطر کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ، اسی طرح باب الرحمۃ اور باب السلام وغیرہ کی پرانی اور حقیقی تصویریں موجود ہیں ۔
8۔ شادی بیاہ کے تعلق سے بعض اہم چیزیں مثلا دلہن کے ساتھ بھیجا جانے والا صندوق ، عرب ہاں استعمال ہونے والے لباس وغیرہ کے متعلق بھی کچھ حقیقی اور کچھ تمثیلی چیزیں رکھی گئی ہیں ۔
9 ۔ ایک اہم چیز جسے پہلے ذکر ہونا چاہیے تھا ، قرآن کا وہ نسخہ جسے مصحف عثمانی کہا جاتاہے ، اس کی ایک فوٹو کاپی بھی یہاں موجود ہے ، جس کی اصل ترکی کے شہر استنبول میں ہے ۔ اسی طرح قرآن مجید کا ایک اور نسخہ موجود ہے ، جس میں ساتھ ساتھ اردو ترجمہ اور مختصر حواشی بھی ہیں ، چونکہ درمیان سےکھلا ہوا تھا ، اس لیے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کس بزرگ کا تھا ، بہر صورت اس کے تعارف میں لکھی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ وہ 12ویں صدی ہجری میں لکھا گیا ہے ۔
10۔اس کے علاوہ اسی میوزیم کے احاطے میں ’ السقیا ’ کے نام سے ایک چھوٹی سی مسجد بھی موجود ہے ، اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے ، کہ یہ بالکل اس جگہ پر بنائی گئی ہے ، جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قحط کے زمانے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر بارش کی دعا کی تھی ۔ استسقاء کا یہ واقعہ بخاری و مسلم سمیت حدیث کی دیگر کتابوں میں مشہور ہے ۔
11۔ ریل گاڑی کا انجن ، ریل کی پٹڑی ، مسافروں کے لیے گاڑی ، اسی طرح مال گاڑی اس طرح کی کچھ بوگیاں ( ڈبے ) بھی وہاں کھڑی ہیں ، انجن تقریبا مکمل لوہے کا ہے ، جبکہ بوگیوں کا اکثر حصہ لکڑی اور ساتھ لوہے سے بنایا گیا ہے ۔
مال گاڑی پر پانی کا ایک بڑا سا ٹینکر رکھا ہوا ہے ، معلوم ہوتا ہے ، اسے ادھر ادھر پانی منتقل کرنے کےلیے استعمال کیا جاتا رہا ہوگا ۔
مسافر گاڑی اندر سے بالکل خالی ہے ، سیٹیں وغیرہ نہیں ہیں ، اللہ بہتر جانتا ہے کہ کرسیاں پہلے سے ہی موجود نہیں تھی ، یا حوادث زمانہ کی نظر ہوگئی ہیں ۔
ریل گاڑیوں میں کھانے بینے کے لیے مستقل ڈبے ہوتے ہیں ، اس قسم کی ایک بوگی بھی وہاں موجود ہے ۔
یہ ریلوے سٹیشن مدینہ منورہ کے مشہور علاقے عنبریہ ( یا اس کے جانب ) میں واقع ہے ، اس کی عمارت مدینہ منورہ کے معروف کالے پتھروں سے بنائی گئی ہے ، اس کے سامنے ہی انہیں پتھروں سے اور تقریبا اسی انداز میں گول دائرہ نما مسجد بھی موجود ہے ، جو ترکی مسجد کے نام سے معروف ہے ۔
بئر خاتمسقوط خلافت عثمانیہ کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا ، البتہ مدینہ منورہ میں اس کا اسٹیشن کافی حد تک محفوظ حالت میں موجود ہے ، اس تاریخی یادگار کی حفاظت کے لیے سعودی حکومت کی طرف سے یہاں ’ متحف سکۃ الحدید ’ یعنی ’ ریلوے میوزیم ’ قائم کردیا گیا ہے ۔
اور اس میں مزید کئی ثقافتی اور تاریخی چیزوں کے نمونے جمع کردیے گئے ہیں ، اہم اہم چیزیں جو یہاں دیکھنے کا موقعہ ملا یہ ہیں :
1۔ تیر اندازِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک ’ کمان ’ موجود ہے ، جس بر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور جملہ جو آپ نے غزوہ احد کے موقعہ پر حضرت سعد بن أبی وقاص کے متعلق فرمایا تھا ، کنندہ ہے ، وہ جملہ یہ تھا :
ارم فداک أبی و أمی ( آپ پر میرے ماں باپ قربان ، ( خوب ) تیر اندازی کیجیے (بخاری و مسلم)
صحابہ کرام میں سے تو بہت سارے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ جملہ بولا ہے ، لیکن حضرت خود حضور کسی کے متعلق یہ جملہ فرمائیں ، یہ فضیلیت صرف حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ہی حصے میں آئی ہے ۔
2۔ پہلی صدی ہجری میں رائج بعض بازنطینی اور ساسانی سکوں کے نمونے بھی موجود ہیں ، اسی طرح بعد کے ادوار کے سکے بھی ہیں ، بعض سکے ایسے ہیں ، جو اصلا ساسانی ہیں ، لیکن مسلمانوں نے ان پر ’ بسم اللہ ’ وغیرہ جیسے کلمات کی نقش نگاری کی ہوئی ہے ۔
3۔ بہت سارے ایسے پتھر موجود ہیں ، جن پر مختلف قسم کی لکھائیاں ہیں ، جو بعض معروف و غیر معروف شخصیات کی طرف منسوب ہیں ، اور دعوی ہے کہ یہ تحریریں پہلی ، دوسری تیسری صدی ہجری سے چلی آرہی ہیں ۔
اسی مختلف ادوار میں حروف تہجی کس طرح لکھے جاتے رہے ، اس پر مشتمل بھی ایک تفصیلی چارٹ موجود ہے جس میں ایک ایک لفظ کو پانچ پانچ دس دس انداز سے لکھا گیا ہے ۔
4۔ پرانے ادوار میں خوشبو ، صابن ، اور کھانے پینے کے لیے کس قسم کے ظروف استعمال ہوتے تھے ، اس تعلق سے بھی کافی دلچسپ نمونے موجود ہیں ، اسی طرح ’ کأس ، اباریق ’ جرۃ ’ وغیرہ الفاظ قرآن وسنت میں استعمال ہوئے ہیں ، ان شکلوں کے برتن بھی وہاں موجود ہیں ۔ زجاج اور حنتم وغیرہ دھاتوں کے برتنوں کا اسلامی ورثے میں ذکر ملتا ہے ، ان کی بھی مثالیں متوفر ہیں ۔
5۔ پانے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے کس قسم کی نالیاں ، اور ظروف استعمال ہوتے تھے ، اس تعلق سے بھی نمونے موجود ہیں ۔
5۔ خلافت عثمانیہ میں دفتری نظام میں استعمال ہونے والی چیزیں مثلا گھڑی ، کلینڈر ، قلم دوات ، حاضری رجسٹر وغیرہ بھی وہاں رکھے گئے ہیں ۔
6۔ بعض سعودی امراء و بادشاہوں کی تمثیلی یا حقیقی عکس بندی بھی موجود ہے ، اسی طرح ان کے ابتدائی دور میں استعمال ہونے والا اسلحہ مثلا خنجر ، بندوق وغیرہ کے بھی متعدد نمونے دکھائے گئے ہیں ۔
7۔ مدینہ منورہ جب ’ یثرب ’ تھا تو کیسا تھا ، اس کی تمثیل ، اسی طرح مسجد نبوی دور نبوی میں کیسی تھی ، ان دونوں کی تمثیلی تصویریں موجود ہیں ، مدینہ منورہ کے تاریخی اعتبار سے بعض اہم مقامات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے ، جن میں وادی زی خشب کا تذکرہ کثرت سے ہے ، مدینہ منورہ کی مختلف مساجد کی تصاویر موجود ہیں ، مسجد نبوی میں فضا معطر کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ، اسی طرح باب الرحمۃ اور باب السلام وغیرہ کی پرانی اور حقیقی تصویریں موجود ہیں ۔
8۔ شادی بیاہ کے تعلق سے بعض اہم چیزیں مثلا دلہن کے ساتھ بھیجا جانے والا صندوق ، عرب ہاں استعمال ہونے والے لباس وغیرہ کے متعلق بھی کچھ حقیقی اور کچھ تمثیلی چیزیں رکھی گئی ہیں ۔
9 ۔ ایک اہم چیز جسے پہلے ذکر ہونا چاہیے تھا ، قرآن کا وہ نسخہ جسے مصحف عثمانی کہا جاتاہے ، اس کی ایک فوٹو کاپی بھی یہاں موجود ہے ، جس کی اصل ترکی کے شہر استنبول میں ہے ۔ اسی طرح قرآن مجید کا ایک اور نسخہ موجود ہے ، جس میں ساتھ ساتھ اردو ترجمہ اور مختصر حواشی بھی ہیں ، چونکہ درمیان سےکھلا ہوا تھا ، اس لیے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کس بزرگ کا تھا ، بہر صورت اس کے تعارف میں لکھی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ وہ 12ویں صدی ہجری میں لکھا گیا ہے ۔
10۔اس کے علاوہ اسی میوزیم کے احاطے میں ’ السقیا ’ کے نام سے ایک چھوٹی سی مسجد بھی موجود ہے ، اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے ، کہ یہ بالکل اس جگہ پر بنائی گئی ہے ، جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قحط کے زمانے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر بارش کی دعا کی تھی ۔ استسقاء کا یہ واقعہ بخاری و مسلم سمیت حدیث کی دیگر کتابوں میں مشہور ہے ۔
11۔ ریل گاڑی کا انجن ، ریل کی پٹڑی ، مسافروں کے لیے گاڑی ، اسی طرح مال گاڑی اس طرح کی کچھ بوگیاں ( ڈبے ) بھی وہاں کھڑی ہیں ، انجن تقریبا مکمل لوہے کا ہے ، جبکہ بوگیوں کا اکثر حصہ لکڑی اور ساتھ لوہے سے بنایا گیا ہے ۔
مال گاڑی پر پانی کا ایک بڑا سا ٹینکر رکھا ہوا ہے ، معلوم ہوتا ہے ، اسے ادھر ادھر پانی منتقل کرنے کےلیے استعمال کیا جاتا رہا ہوگا ۔
مسافر گاڑی اندر سے بالکل خالی ہے ، سیٹیں وغیرہ نہیں ہیں ، اللہ بہتر جانتا ہے کہ کرسیاں پہلے سے ہی موجود نہیں تھی ، یا حوادث زمانہ کی نظر ہوگئی ہیں ۔
ریل گاڑیوں میں کھانے بینے کے لیے مستقل ڈبے ہوتے ہیں ، اس قسم کی ایک بوگی بھی وہاں موجود ہے ۔
یہ ریلوے سٹیشن مدینہ منورہ کے مشہور علاقے عنبریہ ( یا اس کے جانب ) میں واقع ہے ، اس کی عمارت مدینہ منورہ کے معروف کالے پتھروں سے بنائی گئی ہے ، اس کے سامنے ہی انہیں پتھروں سے اور تقریبا اسی انداز میں گول دائرہ نما مسجد بھی موجود ہے ، جو ترکی مسجد کے نام سے معروف ہے ۔
جسے بئر عریس بھی کہا جاتا ہے ، یہ مسجد قباء کے مغربی جانب ایک کنواں تھا ، اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم وسلم کی ’ خاتم ’ یعنی انگوٹھی ، جسے آپ بطور سرکاری مہر بھی استعمال کیا کرتے تھے ، جب خلیفہ بننے کے لیے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو منتقل ہوئی ، تو ان سے ایک کنویں میں گر کئی تھی ، پوری تگ و دو کے باوجود کہیں اس کا سراغ نہ ملا ، بعد میں یہ کنواں اسی نام سے مشہور ہوا ’بئر الخاتم ’ یعنی وہ کنواں جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی گری تھی ۔
اس کنویں کے مقام و مکان کے متعلق ہم نے کچھ معلومات ایک مختصر لائیو ویڈیو میں بتانے کی کوشش کی ہے ۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا باغاس کنویں کے مقام و مکان کے متعلق ہم نے کچھ معلومات ایک مختصر لائیو ویڈیو میں بتانے کی کوشش کی ہے ۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ حق کی تلاش میں کس طرح فارس سے مدینہ پہنچے مشہور قصہ سیرو سوانح کی کتب میں موجود ہے ، مدینہ منورہ میں یہودی کے ہاں کام کرنا ، اسلام لانا ، پھر یہودی سے آزاد ہونے کے لیے اس کی شرط پوری کرنے کے لیے باغ لگانا ، اس کا معجزاتی طور پر بہت مختصر مدت میں پھلدار بن جانا یہ سب چیزیں زبان زد عام ہیں ، سوال یہ ہے کہ اب یہ باغ موجود ہے کہ نہیں ؟
اس حوالے سے مختلف کہانیاں مشہور ہیں ، بعض مستند مؤرخین کے نزدیک یہ مدینہ منورہ کے ایک علاقے عوالی میں موجود ہے ، جو مسجد قباء سے دائیں جانب کچھ فاصلے پر واقع ہے ۔
وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ وہاں آس پاس کھجوروں کے کئی ایک باغات ہیں ، بلکہ اس سے ہٹ کر بھی بعض احاطوں میں مختلف چیزیں کاشت کی گئی ہیں ، وہاں ایک خالی میدان میں محکمہ آثار قدیمہ کا بورڈ بھی لگا ہوا ہے ، جس میں یہ لکھا ہوا کہ یہ علاقہ آثار سے تعلق رکھتا ہے ، لہذا اس میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کرنا قابل سزا جرم ہے ۔ یہ بورڈ لوہے کی جس باڑ پر لگا ہوا ہے ، اس کے اندر ایک پرانا کنواں نظر آتا ہے ، وہاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے نام کی تصریح موجود نہیں ، البتہ وہاں کے ایک بزرگ کے مطابق وہ ’ خالی میان ’ جس کے کچھ حصے میں یہ کنواں بھی ہے ، پھر آگے ایک سکول شروع ہوجاتا ہے ، یہ سب زمین حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے باغ کی ہی زمین ہے ۔ اس علاقے کے ارد گرد کھجورے کے باغ ہیں ، لیکن جس کو ’باغ سلمان ’ کہا گیا ، اس میں سوائے خالی میدان اور سکول کی عمارت اور ایک کنواں کے اور کچھ نہیں ہے ۔
بعض زیارتیں کروانے والے ، یا کھچوروں کا کاروبار کرنے والے واضح و مبہم الفاظ میں حاجیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے اپنے باغوں میں لے جاتے ہیں ، اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا باغ کہہ کر ایک تو دروغ گوئی کے مجرم بنتے ہیں ، دوسرا حاجیوں کو مہنگی کھچوریں بیچنے کا مکروہ کاروبار کرتے ہیں ۔
اس مقام کی کچھ لائیو ویڈیوز بھی میری ٹائم لائن پر موجود ہیں ۔
نوٹ :
مقامات سے متعلق اکثر معلومات جو میں نے لکھی ہیں ، یہ ہمارے رفیق سفر علامہ @احسان الہی ظہیر صاحب کی فراہم کردہ ہیں ، فجزاہ اللہ خیرا
اس حوالے سے مختلف کہانیاں مشہور ہیں ، بعض مستند مؤرخین کے نزدیک یہ مدینہ منورہ کے ایک علاقے عوالی میں موجود ہے ، جو مسجد قباء سے دائیں جانب کچھ فاصلے پر واقع ہے ۔
وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ وہاں آس پاس کھجوروں کے کئی ایک باغات ہیں ، بلکہ اس سے ہٹ کر بھی بعض احاطوں میں مختلف چیزیں کاشت کی گئی ہیں ، وہاں ایک خالی میدان میں محکمہ آثار قدیمہ کا بورڈ بھی لگا ہوا ہے ، جس میں یہ لکھا ہوا کہ یہ علاقہ آثار سے تعلق رکھتا ہے ، لہذا اس میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کرنا قابل سزا جرم ہے ۔ یہ بورڈ لوہے کی جس باڑ پر لگا ہوا ہے ، اس کے اندر ایک پرانا کنواں نظر آتا ہے ، وہاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے نام کی تصریح موجود نہیں ، البتہ وہاں کے ایک بزرگ کے مطابق وہ ’ خالی میان ’ جس کے کچھ حصے میں یہ کنواں بھی ہے ، پھر آگے ایک سکول شروع ہوجاتا ہے ، یہ سب زمین حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے باغ کی ہی زمین ہے ۔ اس علاقے کے ارد گرد کھجورے کے باغ ہیں ، لیکن جس کو ’باغ سلمان ’ کہا گیا ، اس میں سوائے خالی میدان اور سکول کی عمارت اور ایک کنواں کے اور کچھ نہیں ہے ۔
بعض زیارتیں کروانے والے ، یا کھچوروں کا کاروبار کرنے والے واضح و مبہم الفاظ میں حاجیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے اپنے باغوں میں لے جاتے ہیں ، اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا باغ کہہ کر ایک تو دروغ گوئی کے مجرم بنتے ہیں ، دوسرا حاجیوں کو مہنگی کھچوریں بیچنے کا مکروہ کاروبار کرتے ہیں ۔
اس مقام کی کچھ لائیو ویڈیوز بھی میری ٹائم لائن پر موجود ہیں ۔
نوٹ :
مقامات سے متعلق اکثر معلومات جو میں نے لکھی ہیں ، یہ ہمارے رفیق سفر علامہ @احسان الہی ظہیر صاحب کی فراہم کردہ ہیں ، فجزاہ اللہ خیرا
Last edited: