• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دستور امارت اسلامیہ افغانستان

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
مقدمہ

کسی بھی ملک یا حکومت کے لیے اساسی قانون یا دوسرے الفاظ میں دستوربہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن ایک حقیقی اسلامی ریاست یا حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے دستور اوردوسرے قوانین و قراردادوں شریعت اسلامیہ کے مکمل مطابق کرے۔

اسی بنیاد پر جناب امیر المؤمنین نے ٢٥ صفر ١٤١٩ھ کو ملک میں شرعی نظام کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے ہونے والی اٹھارویں قرارداد میں یہ فرمایا کہ عدالت عالیہ یعنی سپریم کورٹ کی نگرانی میں علماء کی ایک جماعت علاقے کے تمام قوانین اور قراردادوں کا ایک جائزہ لے گی اور اس میں سے غیر شرعی و غیر مذہبی مواد حذف کر دے گی۔

اسی مقصد کے حصول کی خاطر افغانستان کے جمیع علاقوں سے جید علمائے دین کابل شہر میں حاضر ہوئے' جن کے نام اور اور دستخط اس دستور کے آخر میں موجود ہیں' اور قاضی القضاۃ یعنی چیف جسٹس اورسپریم کورٹ کے صدر جناب حاجی مولوی نور محمد ثاقب کی سربراہی میں جید علماء کی ایک مجلس شوری تشکیل دی گئی تا کہ اس کام کو مکمل کیا جائے۔

اس مجلس شوری نے ٨ ربیع الأول ١٤١٩ہجری قمری' ١١اپریل ١٣٧٧ہجری شمسی اور ٢ جولائی ١٩٩٨ عیسوی کو اپنا کام شروع کیا۔شروع میں اساسی قانون یعنی دستور کی تکمیل ہوئی اور اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ افغانستان کے مختلف ادوار ومتعدد حکومتوں کا دستور (بنیادی قوانین) علمائے کرام کے سامنے پیش کیاگیا اور ایک ایک شق پر شرعی احکام کی روشنی میں جامع و دقیق بحث کی گئی۔ پھر جو شقیں شریعت اسلامیہ کے مطابق تھیں ان کو پاس کیا گیا اور جو شریعت اسلامیہ یا مذہب حنفی سے کچھ مغایرت رکھتی تھیں' ان میں ترمیم کی گئی ہے یا ان کو کلی طور پر حذف کر دیا گیا ہے۔ بعض جگہوں پر ضرورت کے مطابق کچھ اضافے بھی کیے گئے ہیں۔

کئی روز جاری رہنے والی مسلسل نشستوں کے بعد یہ کام اس عمدہ شکل اور کامیابی کی صورت میں ہمیں میسر ہوا۔ اور امارت اسلامیہ افغانستان کے بنیادی قوانین کی ترتیب وتوثیق کی تکمیل ''دستور امارت اسلامیہ افغانستان'' کے نام سے ہوئی ہے جو کہ شریعت اسلامیہ اور حنفی مذہب کے مطابق و موافق ہے۔

١٧ جمادی الأولی ١٤٢٦ہجری قمری' ٢ اپریل ١٣٨٤ ہجری شمسی اور ٢٣ جون ٢٠٠٥ عیسوی کو دوسری مرتبہ امارت اسلامیہ افغانستان کے مجلس عاملہ یعنی ایوان بالا (سینیٹ) نے اس دستور کی تائید و توثیق کی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پہلی فصل : عمومی و حتمی بنیادی اصول

آرٹیکل ١: امارت اسلامیہ افغانستان' ایک آزاد' خود مختار اکائی ہے جو کہ ناقابل تجزی ہے۔

آرٹیکل ٢: امارت اسلامیہ افغانستان میں حاکم مطلق نص قرآنی إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ کے مطابق اللہ کی ذات ہے۔

آرٹیکل ٣ : افغانی قوم کا دین اسلام ہے۔

آرٹیکل ٤: افغانستان کا سرکاری مذہب' مذہب حنفی ہے۔

آرٹیکل ٥ : اس ملک میں شریعت اسلامیہ قانون سازی کا واحد منبع و سرچشمہ ہے۔ عوام الناس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں منظم کیا جائے گا اور کسی بھی ضرورت یا وجہ کے تحت اسلامی اصولوں اور بنیادوں کے خلاف نہ تو کوئی قانون سازی ہو گی اور نہ ہی کوئی قرار داد پاس کی جائے گی۔

آرٹیکل ٦ : امارت اسلامیہ افغانستان کا سیاسی' معاشرتی' ثقافتی' معاشی ڈھانچہ اسلامی اصولوں اور معیارات کے مطابق بنے گا۔ معاشرتی زندگی کو منظم کرنے اور قانون سازی کے لیے' قرآن و سنت کے حنفی فہم کو بطور بنیاد سامنے رکھا جائے گا۔

آرٹیکل ٧ : امارت اسلامیہ افغانستان مختلف کام ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرے گی اور تقوی اہلیت کے لیے پہلی شرط ہو گی۔

آرٹیکل ٨ : سیاسی' معاشرتی' ثقافتی اور معاشی امور میں شریعت اسلامیہ کے درجات کے اعتبارات سے لوگوں کو متعین کیا جائے گا۔

آرٹیکل ٩ : امارت اسلامیہ افغانستان دعوت الی الخیر' أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو تمام مسلمانوں کا کام سمجھتی ہے اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ یہ فريضہ یکساں طور پر حکومت اور عوام دونوں پر عائد ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ شرعی قانون کی روشنی میں اس فریضے کی ادائیگی کی شروط و دائرہ کار مقرر کر گی۔

آرٹیکل ١٠: ایک مسلمان فرد اور خاندان کی تربیت' ایک کامل اسلامی معاشرے کا وجود' امت مسلمہ کے اتحاد کی کوشش اور اسلامی تعلیمات کی ممکن حد تک نشرو اشاعت' امارت اسلامیہ افغانستان کے بنیادی فرائض میں سے ہے۔

آرٹیکل ١١: پشتو اور فارسی' افغانستان کی سرکاری زبانیں ہیں۔ قوانین' تجاویز' دستاویزات' مدارس' کتب' درسی نصاب' باہمی ربط کے وسائل اور مختلف آداب وزبانوں کی تعلیم وغیرہ سے ان کے محل و مقام میں استفادہ کیا جائے گا اور امارت ان تمام امور کو فروغ دینے کی کوشش کرے گے۔

آرٹیکل ١٢: امارت اسلامیہ افغانستان' قرآن کی زبان یعنی لغت عربی اور اسلامی علوم و معارف کے خصوصی پروگراموں کو پیش کرے گی اور ان کی عملی تطبیق (application)کے ذریعے ان کو فروغ دے گی۔

آرٹیکل ١٣: امارت اسلامیہ افغانستان' سرکاری و غیر سرکاری سکولوں میں' اس علاقے کے کبار حنفی علماء کے قدیم طریقے کی روشنی میں' دینی عربی کتب کی تعلیم کا بندوبست کرے گی۔

آرٹیکل ١٤: اس ملک میں سالانہ کیلنڈر کی بنیاد اللہ کے رسول ۖ کی ہجرت ہو گی۔ پس قمری و ہجری کیلنڈر تمام دفاتر میں رائج ہو گا۔ جمعہ کا دن چھٹی کا دن ہو گا اور باقی تعطیلات قانون کے مطابق منظم کی جائیں گی۔

آرٹیکل ١٥: امارت اسلامیہ افغانستان کا نظام حکومت مرکزی (یعنی ایسا نظام حکومت کہ جس میں تمام علاقے اور صوبے ایک حکمران کے ماتحت ہوں اور صوبوں کو نیم خود مختاری حاصل نہ ہو ) نوعیت کا ہو گا اور اس کا دارالخلافہ کابل ہو گا۔

آرٹیکل ١٦: امارت اسلامیہ افغانستان' کا جھنڈا مستطیل شکل کا ہو گا اور اس کا رنگ سفید ہوگا۔ اس کی لمبائی اس کے عرض سے آدھی بڑی ہوگی۔ جھنڈے کی پہچان' حجم اور نشانات قانون کے مطابق وضع کیے جائیں گے۔

آرٹیکل ١٧:خاندان' اسلامی معاشرے کی بنیادی اکائی متصور ہو گا۔ امارت اسلامیہ' خاندان کی تشکیل اور خاندانی روابط کی بقاء و استحکام سے متعلقہ امور کو آسان بنانے کے لیے' اسلامی حقوق و اخلاق کی بنیاد پر قوانین مقرر کرے گی' تجاویز پاس کرے گی اور پروگرامات تشکیل دے گی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دوسری فصل : لوگوں کے بنیادی حقوق و فرائض

آرٹیکل ١٨ : افغانستان کے تمام افراد کے لیے بغیر کسی فضیلت و فرق کے' قانون کی نظر میں اسلامی درجات کا لحاظ رکھتے ہوئے مساوی حقوق و فرائض ہیں ۔

آرٹیکل١٩ : آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے اور کسی بھی شخص کی آزادی' عزت یا عمومی منافع' أمن عامہ اور مصالح عامہ یا اسلامی اصول و قواعد کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ اس بنیادی حق کو قانون کے ذریعے منظم کیاجائے گا۔

آرٹیکل٢٠ : اصل کسی شخص کا جرم و گناہ سے بری الذمہ ہونا ہے۔ جس شخص پر بھی تہمت لگائی جائے گی' وہ اس وقت تک بری الذمہ ہے جب تک کہ کوئی مختار عدالت اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ جاری نہیں کرتی۔

آرٹیکل ٢١ : کوئی بھی کام اس وقت تک جرم شمار نہ ہو گا جب تک کہ احکام شریعت میں اس کو جرم قرار نہ دیا جائے اور قوانین کے نفاذ سے پہلے کوئی پکڑ نہ ہوگی۔

آرٹیکل ٢٢ : کسی بھی شخص کو اس وقت تک سزا نہ دی جائے گی جب تک کہ اس کے بارے میں مختار عدالت کوئی فیصلہ جاری نہ کر دے۔ سزا' احکام شریعت اور ان قوانین کے مطابق ہو گی کہ جن کی تنفیذ اس جرم کے ارتکاب سے پہلے ہو گئی ہو۔

آرٹیکل ٢٣ : کسی بھی شخص کی نگرانی یا اس کوقانون کے مطابق ہی پکڑا جائے گا۔

آرٹیکل ٢٤ : کسی بھی شخص کومختار عدالت کے حکم اور قانون کے مطابق ہی قید کیا جا سکے گا۔

آرٹیکل ٢٥ : جرم کسی شخص کا ذاتی فعل ہے اور کسی بھی جرم کے ارتکاب کی وجہ سے مجرم کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو نہ تو سزا دی جائے گی' نہ ہی اسے پکڑا جائے گا اور نہ قید میں ڈالا جائے گا۔

آرٹیکل ٢٦ : مجرم کے اعتراف' یا گواہان کی گواہی یا جس پر تہمت لگائی گئی ہے اس کے اظہار جرم یا کسی دوسرے شخص کے اظہار جرم کے لیے جبرو اکراہ یاڈرانے دھمکانے یا تشدد یا لالچ کے ذرائع کو ممنوع ہوں گے۔ اس اقرار یا گواہی کا کوئی اعتبار نہ ہوگا جو کہ درج بالا ذرائع سے حاصل ہوگی۔

آرٹیکل ٢٧ : اگر کوئی سرکاری ملازم یا افسر تہمت لگائے یا کسی اور شخص پرگواہی کے حصول یا اقرار جرم کے تشدد کرے گا یا اس نے تشدد کا حکم جاری کیا ہوگا تو اس کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔

آرٹیکل ٢٨ : تہمت لگائے شخص کویہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بذاتہ اپنا دفاع کرے یا قانون کے مطابق کوئی وکیل مقرر کرے۔

آرٹیکل ٢٩ : کسی بھی افغانی کو کسی جرم کی تہمت کی وجہ سے کسی بھی دوسری ریاست کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔

آرٹیکل ٣٠ : جس شخص کو بھی انتظامیہ کی طرف سے کوئی ضرر پہنچے گا تو اس کی تلافی کی جائے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ متاثر شخص اپنے حق کے حصول کے لیے عدالت کی طرف رجوع کرے۔ حکومت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مختار عدالت کے بغیر اپنے حقوق کے حصول کے لیے کسی شخص کے خلاف کوئی اقدام کرے سوائے ان حالات کے کہ جن کی قانون میں وضاحت کر دی جائے گی۔

آرٹیکل ٣١ : کسی بھی افغانی سے اس کی قومیت(nationality) قانون کے احکام کے موافق ہی چھینی جائے گی۔ کسی بھی افغانی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ دو ماتحتیاں اختیار کرے۔ قبائل کی حدود قانون کے ذریعے منظم کی جائیں گی۔

آرٹیکل ٣٢ : کسی بھی شخص کی آزادی اور اس کے خط و کتابت' تار' ٹیلی فون اور دوسرے ذرائع سے روابط کو کسی بھی ممکنہ زیادتی سے محفوظ بنایا جائے گا۔ حکومت کوکسی بھی شخص کے ان ذاتی روابط کی تفتیش کا حق اس وقت تک حاصل نہ ہوگا جب تک کہ کوئی مختار عدالت قانون کے مطابق اس کی اجازت نہ فراہم کر دے۔

آرٹیکل ٣٣ : کسی بھی شخص کے گھر کو کسی بھی قسم کی زیادتی سے محفوظ قرار دیا جائے گا کسی بھی سرکاری ملازم کو یہ اجازت نہ ہو گی وہ کسی شخص کے گھر میں اس کی اجازت یا کسی خود مختار عدالت کے حکم یا کسی قانونی شق کے بغیر داخل ہو یا اس کے گھر کی تلاشی اس کی اجازت یا کسی خود مختار عدالت کے حکم یا کسی قانونی شق کے بغیر لے۔

آرٹیکل ٣٤ : فکر و بیان کی آزادی شرعی حدود کے اندر اندر ہر شخص کو حاصل ہوگی۔ کسی بھی افغانی کے لیے اپنے فکر کو تقریر' تحریر یا دوسرے ذرائع و وسائل سے بیان کرنے کی قانون کے مطابق اجازت ہوگی۔

آرٹیکل ٣٥ : افغانستان کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ شرعی و طے شدہ مقاصدکے حصول کے لیے' بغیر ہتھیار اٹھائے اور لوگوں کو تکلیف پہنچانے کے' پر امن طریقے سے قانون کے مطابق جمع ہوں۔

آرٹیکل ٣٦ : کسی شخص کی ذاتی ملکیت کو ہر قسم کی زیادتی سے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ کسی بھی شخص کے لیے کسی ملکیت کا حصول جبرو اکراہ سے ممکن نہ ہو گا سوائے کسی قانون یا کسی خو د مختار عدالت کی اجازت سے' خود مختار عدالت مختلف قسم کی شکایات خصوصا جبری انتقال ملکیت کے تنازعات کی تفتیش کر ے گی۔

آرٹیکل ٣٧ : کام کرنا' کسی بھی افغانی کا بنیادی حق ہے جبکہ وہ اس کام کے کرنے کی شرعی اہلیت بھی رکھتا ہو۔ مزدوروں اور کام لینے والوں کے درمیان ربط و تعلق کو قانون کے ذریعے عدل و مساوات کی بنیاد پر قائم کیاجائے گا۔ جبری کام کسی بھی صورت میں نہیں لیا جائے گا' چاہے حکومت ہی کیوں نہ ہو۔ جبری کام نہ لینے کا قانون' ان قوانین کی تطبیق میں رکاوٹ نہیں بنے گا جو اجتماعی سرگرمیوں کومنظم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں تاکہ منفعت عامہ کو حاصل کیا جا سکے۔

آرٹیکل ٣٨ : ابتدائی لازمی تعلیم کے عموم' تخصص (specialization) کی تعلیم کی توسیع اور ہائر سکینڈری کی تعلیم کا فروغ حکومت کے پروگراموں میں شامل ہو گا۔ ان تمام تعلیمی پروگراموں کو مفت جاری کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

آرٹیکل ٣٩ : عورتوں کی تعلیم کو شرعی حدود کے اندر ایک خاص قانون کے تحت منظم کیاجائے گا۔

آرٹیکل ٤٠ : کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ عمومی منفعت کی جگہوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے کسی دوسرے شخص کا ذریعہ بنے اور پھر اس طرح سے کچھ اپنا حق بھی وصول کرے۔

آرٹیکل ٤١ : جہاد کے اداروں کی حفاظت' امارت اسلامیہ کے حدود کا دفاع اور قوم کی ناموس کی حفاظت ہر مسلمان فرد پر واجب ہے۔ افغانستان کے تمام شہری قانون کے مطابق عسکری خدمت کی ادائیگی کے مکلف ہیں۔

آرٹیکل ٤٢ : انفرادی' خاندانی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی قوانین کا مکمل شکل میں احترام' اس دستور اور امارت کے جمیع قوانین کی اتباع' امن عامہ اور نظم کی پابندی اور امار ت اسلامیہ کے منافع کا تحفظ افغانستان کے ہر شہری پر واجب ہے۔ غیر اسلامی افکار کی دعوت ممنوع ہو گی اورپیچھے رہنے والے اندرونی و بیرونی عناصر کا فیصلہ شرعی سزاؤں کی روشنی میں کیا جائے گا۔

آرٹیکل ٤٣ : شرعی حجاب کا لحاظ واجب ہے۔

آرٹیکل ٤٤ : افغانی قوم کوخصوصی دینی مدارس کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہو گا۔

آرٹیکل ٤٥ : عام مدارس' خصوصی دفاتر اور غیرمذہبی مدارس کا قیام حکومت کی اجازت پر منحصر ہوگا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تیسری فصل : اسلامی شوری

آرٹیکل ٤٦ : اسلامی شوری' قانون سازی کرنے والی جماعت ہو گی جس کے ارکان کی تشکیل کا طریقہ کار یہ ہو گا کہ پہلے درجے کے صوبے سے زیادہ سے زیادہ تین' دوسرے درجے کے صوبے سے دو اور تیسرے درجے کے صوبے سے مقرر کیا جائے گا اور شوری کے ان اراکین کا انتخاب امیر المؤمنین فرمائیں گے۔

آرٹیکل ٤٧ : اسلامی شوری کے اراکین کی اہل حل و عقد کی صفات کے حامل ہوں گے۔

آرٹیکل ٤٨ : اس شوری کے طرز عمل اور سرگرمیوں کوایک داخلی پروگرام کے ذریعے منظم کیا جائے گا۔

آرٹیکل٤٩ : شوری کا ایک صدر' نائب صدر اور ایک جنرل سیکر ٹری ہو گا اور اس شوری کے صدر کی تعیین امیر المؤمنین کی طرف سے ہو گی اور وہ صدر اسی شوری میں سے ہو گا۔

آرٹیکل ٥٠ : اسلامی شوری کی ذمہ داریاں اور اختیارات درج ذیل ہوں گے:
١۔ قوانین منظوری دینا
٢۔ حکومتی اداروں کے جاری کردہ قوانین کی حتی الامکان نگرانی
٣۔ جن مسائل میں اختلافات ہیں' ان کے خاکے تیارکرنا
٤۔ حکومت کے لیے مختلف پراجیکٹس' پروگراموں اورعمومی و خصوصی بجٹ کی منظوری دینا
٥۔ امیر المؤمنین کی صدارت کے تحت وفاقی کابینہ اور سپریم کورٹ پر مشتمل' ایوان بالا (سینیٹ) کے ساتھ مشاورت کے بعد صلح اور جنگ کے بارے میں کسی قرارداد کو منظور کرنا
٦۔ وفاقی کابینہ اور سپریم کورٹ پر مشتمل ایوان بالا (سینیٹ)کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے عالمی سطح پر مختلف ممالک کے ساتھ معاہدات کی منظوری دینا
٧۔ حکومت کی سیاست کے خطوط کی منظور ی دینا
٨۔ حکومت سے وضاحت و جواب طلب کرنا
٩۔ جہاد کے اہداف' اقدارا ورمقاصد کا تحفظ و نگرانی
١٠۔ مختلف ممالک اور عالمی اداروں سے بغیر کسی عوض کے قرضے اور امداد وصول کرنے کی منظوری دینا
١١۔ جب بھی امیر المؤمنین اپنے منصب سے استعفی دے دیں گے تو وہ اس مجلس کو اپنے استعفی کی خبر دیں گے جو کہ چیف جسٹس ' وزیر اعظم اور پارلیمنٹ (ایوان زیریں) کے صدر پر مشتمل ہو گی۔ پھر بلا تاخیر پارلیمنٹ (یعنی ایوان زیریں) کا اجلاس بلایا جائے گا کہ جس میں چیف جسٹس اور وفاقی کابینہ کے صدر بھی شامل ہوں گیا اور وہ متفقہ طور پرکوئی قرارداد پاس کریں گے۔
١٢۔ امیر المؤمنین کی وفات یا استعفی کے بعد' ان کی عدم وصیت کی صورت میں' نئے امیر کی تعیین تک چیف جسٹس حکومت کے تمام معاملات کے نگران ہوں گے۔
١٣۔قانون کے مطابق غیر ملکیوں کو مختلف شعبوں سے متعلق بڑی و بھاری کمپنیاں قائم کرنے کے لیے لائسنس عطا کرنے کی منظوری دینا۔

آرٹیکل ٥١ : جب بھی پارلیمنٹ (ایوان زیریں) کے کسی رکن یا وفاقی کابینہ کے کسی وزیر یا ان دونوں اداروں کے ماتحتوں یا کسی جج کے بارے میں یہ الزام لگایا جائے گا کہ وہ کسی جر م میں ملوث ہے تومتعلقہ مسؤل شعبے کے صدر کو اطلاع دی جائے گی اور جب وہ صدر اجازت دے گا تو اس وقت اس تہمت لگائے گئے شخص کو عدالتی کاروائی سے گزارا جائے گا۔ اگر تو کسی جرم کی نوعیت اس قسم کی ہے کہ اس میں گواہیاں بھی موجود ہیں تومتعلقہ شعبے کا کوئی بھی مسؤل افسرتہمت لگائے گئے شخص کو عدالتی کاروائی سے گزارنے کا اختیار رکھتا ہے اور یہ بھی اس کے پاس اختیار ہے کہ اپنے شعبے کے صدر کی اجازت کے بغیر بھی متعلقہ شخص کو پکڑ سکے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
چوتھی فصل : امیر المؤمنین

آرٹیکل ٥٢ : امیر المؤمنین کو امارت اسلامیہ افغانستان کے سرپرست کی حیثیت حاصل ہو گی۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو اس دستور کے احکام اور قانون سازی' قوانین کی تنفیذ اور عدالتی فیصلوں سے متعلق دوسرے قوانین کے مطابق کھپائیں گے۔

آرٹیکل ٥٣ : امیر المؤمنین مسلمان ہو گا اور مذہب حنفی کا پیروکار ہو گا اور قومیت کے اعتبارسے افغانی ہو گا۔ یہ بھی ہو سکتاہے کہ وہ ایسے والدین کے ہاں پید اہوا ہو جو کہ اصلاً افغانی ہوں۔

آرٹیکل ٥٤ : امیر المؤمنین امارت اسلامیہ میں قانونی اختیارات کے دائرے میں رہتے ہوئے پہلے حکم دینے والے ہوں گے۔

آرٹیکل ٥٥ : امیر المؤمنین کے اختیارات اور ذمہ داریاں درج ذیل ہوں گی:
١۔ افغانستان کی اسلامی افواج کی اعلی قیادت
٢۔ وفاقی کابینہ کے وزراء اور ان کے صدر کا تقرر اور ان کی معزولی
٣۔ امیر المؤمنین کویہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ اپنے بعض اختیارات کسی دوسرے شخص کو سونپ دیں
٤۔ ان اراکین شوری کی تقرری کی منظوری دینا کہ جن کی پارلیمنٹ (ایوان زیریں) نے تائید کی ہو اوروفاقی کابینہ کے صدر نے انہیں نامزدکیا ہو
٥۔ سپریم کورٹ کے صدر کا تقرر
٦۔ سپریم کورٹ کے صدر کے ساتھ مشاورت کے بعد سپریم کورٹ کے اراکین کا تقرر
٧۔ مختلف ججوں کی تقرری اور معزولیت کی منظوری دینا
٨۔ اعلی سول(civil) و فوجی افسران کی تقرری و ریٹائر منٹ کی قانون کے مطابق منظوری دینا
٩۔ دوسرے ممالک میں سفراء (ambassadors) و مندوبین کا تقرر کرنا اور اعتماد کے پیغامات کی قبولیت کی منظوری دینا
١٠۔ قانون کے مطابق قابل افتخار القاب' اعزازی تمغوں اور نشان امتیاز سے نوازنا
١١۔ پارلیمنٹ (ایوان زیریں) کی تائید کی بعد جنگ و صلح کا اعلان کرنا
١٢۔ ریاستوں کے سربراہوں کی سطح پرعالمی کانفرنسز میں امارت اسلامیہ افغانستان کی نمائندگی کرنا
١٣۔ قوانین سازی سے حاصل شدہ احکام کو جاری کرنا اور ان کی نوک پلک سنوارنا
١٤۔ مختلف ممالک کے درمیان' قراردادوں کے پاس ہوجانے کے بعد منعقد ہونے والے معاہدات کی اسلامی پارلیمنٹ (ایوان زیریں) کی طرف سے منظوری دینا
١٥۔ شرعی احکام کے مطابق سزاؤں کومعاف کرنا' کم کرنا یا مؤخر کرنا
١٦۔ حکومت کے عمومی و خصوصی بجٹ کی نوک پلک سنوارنا
١٧۔ عارضی وزراء کی مجلس کی تشکیل
١٨۔ قانون کے مطابق افغان قومیت (nationality) جاری کرنا
١٩۔ وزارت برائے مالی امور کی تجویز سے کرنسی کی طباعت' نشر وتقسیم کی سرکاری اجازت فراہم کرنا
٢٠۔ اسلامی پارلیمنٹ (ایوان زیریں) کی قرارداد کے پا س ہونے کے بعدہنگامی حالات کے جاری اور ختم کرنے کا اعلان کرنا

آرٹیکل٥٦ : أمیر المؤمنین کے وظیفہ' الاؤنسز اور عوامی ملکیت کی اشیاء میں تصرفات کا تعین قانون کے ذریعے ہو گا۔

آرٹیکل٥٧:امیر المؤمنین کو یہ اجازت نہ ہو گی کہ وہ حکومتی اموال یا عوامی ملکیت کی اشیاء اپنی ذات یا رشہ داروں کے لیے خرید سکیں یا وہ حکومت کے ساتھ کوئی نفع حاصل کرنے کا معاملہ کریں۔

آرٹیکل٥٨ : امیر المؤمنین کی غیرموجودگی میں وہ شخص حکومت کے معاملات کی دیکھ بھال کرے گا کہ جس کو وہ یہ اختیارات سونپ کر جائیں گے۔

آرٹیکل٥٩ : امیر المؤمنین بھی قانون کے سامنے اسی طرح جوابدہ ہوں گے جیسا کہ باقی عوام کے لیے جوابدہی ہے۔

آرٹیکل٦٠ : امیر المؤمنین کے نام کا خطبہ پڑھاجائے گا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
پانچویں فصل : حکومت

آرٹیکل٦١ : حکومت سے مراد امارت اسلامیہ کی اعلی سطح کی تنفیذی و انتظامی قوت ہے جو کہ وزراء اور ان کے صدر یعنی وزیر اعظم پر مشتمل ہو گی۔ وزراء کی تعداد اور ان کے وظائف قانون کے ذریعے منظم کیے جائیں گے۔

آرٹیکل٦٢ : وزیر اعظم ایک مسلمان حنفی المسلک وہ شخص ہو گا کہ جس کے ماں' باپ بھی مسلمان ہوں۔

آرٹیکل٦٣ : وزیر اعظم اور حکومت کے دوسرے اراکین کی مناسب تنخواہیں قانون کے مطابق متعین ہوں گی۔

آرٹیکل٦٤ : وزیر اعظم کے حکومت کے صدر ہونے کی حیثیت سے درج ذیل ذمہ داریاں اور اختیارات ہوں گے:
١۔ حکومت کی نمائندگی کرنا
٢۔ حکومت کی سطح پر قانون کے مطابق عطا کرنے میں سب سے پہلا حکم دینے والا شخص وزیر اعظم ہو گا
٣۔ وفاقی کابینہ وزیر اعظم کی ماتحتی میں یکجا ہو کر کام کرے گی
٤۔ بعض اختیارات ' بعض وزراء کو منتقل کرنا
٥۔ حکومت کی سطح پر معاہدات کی منظوری دینا
٦۔ نظم و نسق کی نگرانی کرنا' مختلف امور اور وازرتوں کے اجراء کو منظم کرنااور مستقل انتظامی اکائیوں (units) کو حکومت کے تحت منظم کرنا
٧۔ قانون کے مطابق عہدے کی تقرری' عہدہ کا دینا' عہدے سے ریٹائر منٹ اور حکومت کے ملازمین کی معزولی کو قبول کرنا

آرٹیکل ٦٥ : حکومت کی ذمہ داریاں اور اختیارات درج ذیل ہیں:
١۔ ملک کے لیے داخلی و خارجی سیاست کا لائحہ عمل تیار کرنا
٢۔ مختلف وازرتوں کے اجراء کو منظم کرنا'مستقل انتظامی اکائیوں (units) اورباہم مربوط حلقوں کو منظم کرنا
٣۔ تنفیذی اور تنظیمی امور میں قانونی بنیادوں' قراردادوں اور پارلیمنٹ (ایوان زیریں) کی تائید کی روشنی میں لازمی تدابیر اختیار کرنا
٤۔ حکومتی قوانین اور پاس شدہ تجاویز کو درست کرنااور ان کا مسودہ تیار کرنا
٥۔ امارت اسلامیہ کے بجٹ کو منظم کرنا' اس میں اصلاح کرنا اور پارلیمنٹ (ایوان زیریں) کو پیش کرنا
٦۔ معاشرتی و اقتصادی ترقی کے پروگرامات کی پیش کش و تنفیذ اور نئی آبادیاں قائم کرنے کے لیے تدابیر اختیار کرنا
٧۔ حکومتی امانتوں اوربینکوں کے معاملات کی نگرانی و انتظام کرنا اور افراط زر کوکنٹرول کرنا
٨۔ پارلیمنٹ (ایوان زیریں) کی تائید سے داخلی وخارجی قرضوں کے حصول کے امورکو منظم کرنا
٩۔ مختلف شہروں کے اطراف میں امن عامہ اور نظم و نسق کو قائم کرنا
١٠۔ قانون کے مطابق مختلف ریاستوں اور عالمی ادارو ں کے ساتھ معاہدات منعقد کرنا
١١۔ اخلاقی و انتظامی بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے لازمی تدابیر اختیار کرنا
١٢۔ شرعی طریقے پر حجاب کو جاری کرنا
١٣۔ اعلی اسلامی ہدایات و اقدار کی روشنی میں عام شہریوں کے معنوی' علمی اور ثقافتی تشخص کی نشوونما کے لیے موزوں مواقع فراہم کرنا
١٤۔ قومی یکجہتی اور اسلامی اخوت کے تصور کوعام و نافذ کرنااور لوگوں کے درمیان باہمی تعاون و تقویت کی روح بیدار کرنا
١٥۔ امارت اسلامیہ کی رہنمائی میں اسلامی افواج کی تیاری' ان کو تقویت پہنچانا' ان کی تربیت کرنا' ان میں اضافہ کرنا اور ان کو صحیح شکل میں منظم کرنا
١٦۔ مریض' معذور' یتیم' بیواؤں اور شہداء کے ورثاء کے خاص حالات کو منظم کرنا
١٧۔ مہاجرین کی واپسی کے امور کو منظم کرنا اور ان کی رہائش و ابتدائی معیشت کے لیے سہولتیں فراہم کرنا
١٨۔حکومت' امارت اسلامیہ کی تنفیذی قوت ہونے کے اعتبار سے اپنے جاری کردہ احکامات کی پارلیمنٹ (ایوان زیریں) اور امیر المؤمنین کو جوابدہ ہو گی
١٩۔حکومت' مختلف عدالتوں کی طرف سے صادر شدہ حتمی احکام کی تنفیذ کی ذمہ دار ہو گی
٢٠۔ تمام تعلیمی اداروں کے تعلیمی نصاب کو اسلامی معیارات کی روشنی میں پیش کرنا' منظم کرنااورنافذکرنا
٢١۔ امارت اسلامیہ اور کسی شخص کی انفرادی املاک کو کسی غیر کے ظالمانہ تصرفات سے بچانا
٢٢۔ ایک نئے افغانستان کی تعمیر کے لیے مختلف ریاستوں اور عالمی اداروں کی امداد کو بغیر کسی قید و شرط کے حاصل کرنا
٢٣۔صحت عامہ کی حفاظت اور اس کو بہتر بنانے کے لیے حفاظتی و علاجی میڈیکل سائنس کی توسیع و ترقی
٢٤۔ غیر ملکی ماہرین فن کی خدمات حاصل کرنے پر موافقت اختیار کرنا

آرٹیکل ٦٦ : وزراء کی تقرری اور معزولی وزیر اعظم کی سفارش اور امیر المؤمنین کی موافقت سے ہو گی۔

آرٹیکل ٦٧ : حکومتی ارکان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی ملازمت کے دوران کسی نفع بخش حکومتی ادارے میں کام کریں یا امارت اسلامیہ کے ساتھ نفع والا کوئی معاملہ کریں۔

آرٹیکل ٦٨ : امارت اسلامیہ کے عاملین اور ملازمین کے حقوق و فرائض قانون کے ذریعے منظم کیا جائے گا۔

آرٹیکل ٦٩ : جرائم کا بیان کرنا اور تہمت لگائے افراد کو پکڑنا پولیس کا کام ہے۔ قانون کے مطابق مربوط نظم و نسق کی طرف سے تحقیق و تفتیش' نگرانی اور دعوی قائم کرنے کا عمل مکمل ہو گا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
چھٹی فصل : عدلیہ

آرٹیکل ٧٠ : عدلیہ' امارت اسلامیہ افغانستان کا ایک مستقل ستون ہے جو کہ سپریم کورٹ اور بقیہ عدالتوں پر مشتمل ہو گا۔ عدالتوں کی تشکیل و اختیارات قانون کے ذریعے منظم کیے جائیں گے۔

آرٹیکل ٧١ : عدالتیں اپنے فیصلوں میں خود مختار ہیں اور اس بات کی ذمہ دار ہیں کہ عدل اور کسی شرعی حکم کو بنیاد بناتے ہوئے فیصلے کریں۔

آرٹیکل ٧٢ : عدالتوں کی طرف سے جاری کردہ حتمی احکامات واجب العمل ہوں گے سوائے پھانسی کے حکم کے کہ جس کی تنفیذ امیر المؤمنین کی تصویب پر ہو گی۔

آرٹیکل ٧٣ : امارت اسلامیہ افغانستان میں مقدمے کی سماعت علی الاعلان ہو گی۔ وہ حالات کہ جن میں مقدمے کی سماعت خفیہ مجالس میں ہو' ان کا تعین قانون کے ذریعے کر دیا جائے گا۔ مقدمے کے فیصلے کا ابلاغ ہر حال میں علی الاعلان ہو گا۔عدالتیں اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ اپنے جاری کردہ حکم کے اسباب کا بھی تذکرہ کریں۔

آرٹیکل ٧٤ : مذکور عہدے کے لیے کامل اہلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس کا تقرر امیر المؤمنین کی طرف سے ہو گا۔ معاونین اور محررین کے ذمہ داران کا تقرر چیف جسٹس کے مشورے سے امیر المؤمنین دینداری' علم' تقوی' شہریوں کے حقوق اور عدالتی امور سے واقفیت جیسے معیارات کوسامنے رکھتے ہوئے کریں گے۔

آرٹیکل ٧٥ : ججوں کی تقرری چیف جسٹس کی سفارش پر امیر المؤمنین کی طرف سے ہو گی۔

آرٹیکل ٧٦ : جب بھی کوئی جج کسی جرم کا مرتکب ہو گا تو سپریم کورٹ اس کی صورت حال کا جائزہ لے گی اور متعلقہ جج کے مقدمے کی سماعت کے بعد یہ بھی امکان ہے کہ امیر المؤمنین اس کو معزول کرنے کی تجویز پیش کریں۔ جب امیر المؤمنین کی طرف سے اس کی معزولی کی تائید آ جائے گی تو متعلقہ جج کو معزول کر دیا جائے گا۔

آرٹیکل ٧٧ : کسی بھی قانون یا عہدے کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہو گی کہ وہ کسی مقدمے یا شعبے کو عدلیہ کے دائرہ اختیارات سے باہر نکال دے اور اس کا فیصلہ کسی اور کے سپرد کر دے۔

آرٹیکل ٧٨ : سپریم کورٹ کے بجٹ کی ترتیب' عدلیہ کی مجلس اعلی کی طرف سے مکمل ہو گی اور حکومت کے ذریعے پارلیمنٹ (ایوان زیریں) کے سامنے پیش کی جائے گی اور اس کی تائید حاصل کی جائے گی۔

آرٹیکل ٧٩ : امارت اسلامیہ کے انتظامی ملازمین و عاملین سے متعلقہ مخصوص قوانین' عدلیہ کے عاملین و ملازمین کے لیے بھی قابل تنفیذہوں گے۔

آرٹیکل ٨٠ : عدلیہ کے اختیارات' اس سے متعلقہ مقدمات تک رسائی حاصل کرنے کے علاوہ' تمام ایسے مقدمات کے حل و فیصلہ پر مشتمل ہوں گے کہ جن میں ایک مدعی اور ایک مدعی علیہ' بشمول امارت اسلامیہ' حقیقی یا حکمی شخص کی صورت میں ہوں گے۔ ایسے تمام مقدمات عدالت کے سامنے قانون کے مطابق پیش کیے جائیں گے۔

آرٹیکل ٨١ : کسی عہدے کی تبدیلی' اس کا عطا کرنا یا اس سے فارغ کرنا یا استعفی قبول کرنا یاججوں پر مقدمہ کی سماعت قانون کے مطابق سپریم کورٹ کے ذریعے ہو گی۔

آرٹیکل ٨٢ : چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے دوسرے ججوں کے لیے دوران ملازمت یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ امارت اسلامیہ کے ساتھ کوئی بھی نفع بخش معاملہ کریں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ساتویں فصل : انتظامیہ

آرٹیکل ٨٣ : امارت اسلامیہ افغانستان' انتظامی اعتبار سے انتظامی اکائیوں صوبوں' اضلاع' متصل علاقہ جات اور شہری چوکیوں میں منقسم ہو گی اور ان کے مالی و انتظامی معاملات حکومت کے ذریعے طے ہوں گے۔

آرٹیکل ٨٤ : انتظامی اکائیوں کی تشکیل حکومت کی تجویز' پارلیمنٹ کی تائید اور امیر المؤمنین کی موافقت سے ہو گی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
آٹھویں فصل : اقتصادی نظام اور مالی معاملات

آرٹیکل ٨٥ : امارت اسلامیہ کا اقتصادی نظام شخصی اور امارت کی ملکیت کی بنیاد پر قائم ہو گا۔ امارت اسلامیہ قانون کے مطابق منظم پروگراموں کے ذریعے ان دونوں قسموں میں شہروں کی اقتصادیات میں اضافے کے لیے رہنمائی فراہم کرے گی اور ترغیب و تشویق دلائے گی۔

آرٹیکل ٨٦ :
١۔ امارت اسلامیہ' بیت المال کی تقویت و اضافے اور اس میں موجود مال کو خرچ کرنے کے لیے اسلامی اصولوں کی پاسداری کی پابند ہو گی۔
٢۔ زکوة و عشرکا جمع کرنے اور ا س کا تقسیم کرنے کا مستقل لائحہ عمل احکام شریعت کے مطابق منظم کیا جائے گا۔
٣۔ تمام سودی اور بلاعوض نفع کے معاملات کو ختم اور باطل قراردینے کا اختیار امارت اسلامیہ کے پاس ہو گا۔

آرٹیکل ٨٧ : امارت اسلامیہ'تمام شہروں کے وسائل کواقتصادی تحفظ' پس ماندگی کے خاتمے' خود انحصاری کے حصول اور لوگوں کے معاشی معیار کو بلند کرنے کے لیے' معاشرتی و اقتصادی ترقی کے پرگراموں میں' شرعی احکام کے موافق استعمال کرے گی۔

آرٹیکل ٨٨ : زیرزمین وسائل' معدنیات' جنگلات' لاوارث چراگاہوں' طاقت (اسلحہ وغیرہ) کے بنیادی ذخائر' آثار قدیمہ' تعلقات عامہ کی کمپنیاں' بڑے ڈیم' سرحدی چوکیاں' شاہراہیں' بڑے بڑے کارخانے' ریڈیو سٹیشن اور ایئر پورٹس وغیرہ سے متعلقہ معاملات کو ایک خاص قانون کے تحت منظم کیا جائے گا کہ جس میں شرعی اصولوں اور عام شہریوں کی اعلی مصلحتوں کا لحاظ رکھاجائیگا۔

قانون عام چھاپہ خانوں کے قیام اور مطبوعات کی نشر و اشاعت کی اجازت و حق صرف امارت اسلامیہ کے شہریوں کے لیے ہو گا۔ جنگلات' چراگاہوں' طاقت کے ذرائع سے استفادے کے لیے اور اطلاع رسانی(intelligence) کے وسائل کی خرید و فروخت کے میدان میں خصوصی قسم کی سرمایہ کاری قانون کے ذریعے کی جائے گی۔

آرٹیکل ٨٩ : بینکوں کی مختلف شاخوں اور غیر ملکی کمپنیوں کی سرگرمیوں کو قانون کے تحت اسلامی اصولوں کے مطابق منظم کیا جائے گا۔

آرٹیکل ٩٠ : بینک سے متعلقہ معاملات وسرگرمیوں کی اصلاح اور ان میں اسلام کے اقتصادی احکام کے مطابق تبدیلیوں کی ذمہ داری' امارت اسلامیہ پر عائد ہو تی ہے۔

آرٹیکل ٩١ : امارت اسلامیہ کی توسیع اور معاون' پیداواری اور اشاعتی اداروں کی سر گرمیوں کو اسلامی اصولوں کے تحت مربوط نظم کے ذریعے مضبوط کیا جائے گا۔

آرٹیکل ٩٢ : امارت اسلامیہ کسانوں' مزارعین اور اصحاب مواشی (بھیڑ'بکریوں وغیرہ والے) کوزراعت کے احیاء و توسیع اور زراعت و مویشیوں کے میدان میں مختلف انواع کے پیداواری نتائج بڑھانے کے لیے مالی و فنی امداد مہیا کرے گی۔ امارت مخصوص و مخلوط عصری زراعت کی ایجاد' بنجر زمینوں کو آباد کرنے' راستوں کی وسعت اور آب پاشی کے معاملات میں بھی اپنے ایک مسؤول ادارے کے ذریعے قانون کے مطابق کوشش کرے گی۔

آرٹیکل ٩٣ : امارت اسلامیہ انڈسٹری' تجارت' کنسٹرکشن ' ایئر لائنز' ذرائع حمل و نقل' زراعت اور مختلف سروسز میں قومی معیشت میں اضافے کے ارادے سے قانون کے مطابق خصوصی اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کی ترغیب و تشویق دلائے گی اور اس میں دلچسپی کا اظہار کرے گی۔

آرٹیکل ٩٤ : غیر منقولہ جائیداد کی اشخاص اور سیاسی نمائندوں کو فروخت کی کیفیت قانون کے ذریعے منظم کی جائے گی۔

آرٹیکل ٩٥ : امارت اسلامیہ تمام عام و خاص قانونی املاک کا دفاع کرے گی۔ ہر شخص اپنے حلال کام اور محنت کی کمائی کا قانون مالک ہو گا۔ کسی شخص کی قانونی ملکیت کو ظلم و زیادتی سے محفوظ بنایا جائے گا۔ کسی کی ذاتی ملکیت کوجبراً صرف قانون اور خود مختار عدالت کے حکم کے مطابق ہی لیا جائے گا۔ منفعت عامہ کے تحفظ کی خاطر کسی بھی چیزکی ملکیت صرف اس صورت میں قانون کے مطابق حاصل ہو گی جبکہ عدل کے ساتھ اس کی پیشگی قیمت ادا کر دی جائے۔

آرٹیکل٩٦ : امارت اسلامیہ افغانستان میں ٹیکسز اورمحصولات کے معیارات' مقادیر اور انواع کا تعین شرعی قانون اور دیوانی عدالت (civil court)کے مطابق ہوگا۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے شہری اور غیر ملکی قانو ن کے مطابق حکومت کو ٹیکسز(taxes) اور محصولات ادا کریں گے۔

آرٹیکل٩٧ : قدرتی ذرائع پیداوار کی حفاظت اور ان کے منابع(sources) سے معقول استفادہ کی غرض سے امارت اسلامیہ مسؤول اداروں کے ذریعے لازمی تدابیراختیار کرے گی اور ممکن حد تک ماحول کو آلودگی سے بچانے کی کوشش کرے گے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
نویں فصل : خارجہ پالیسی
آرٹیکل ٩٨ : امارت اسلامیہ افغانستان کی خارجہ پالیسی' دین اسلام کی معتدل تعلیمات کی روشنی میں' انسانی اقدار' اجتماعی مصالح' سیاسی آزادی' زمینی تکمیل' عالمی امن اور ریاستی تعاون کی حفاظت کے لیے مؤثر اور تعمیری کردار کی ادائیگی کی بنیاد پرمبنی ہوگی۔

آرٹیکل ٩٩ : امارت اسلامیہ افغانستان یو نائیٹڈ نیشن آرگنائزیشن(UNO)' اسلامی کانفرنس کی تنظیم(OIC)' غیر جانبدار ممالک کی تحریک اورانسانی حقوق کے منشور وغیرہ جیسے اصولوں اور مقبول تجاویز کی حمایت کرے گی جب تک کہ وہ اسلامی اصولوں اور مصالح عامہ سے متعارض نہ ہوں۔

آرٹیکل ١٠٠ : امارت اسلامیہ افغانستان' شرعی تعلیمات کی روشنی میں' متبادل حقوق کی رعایت و باہمی احترام کے پیش نظر' خوشگوار تعلقات کی پختگی' بڑھوتری اور توسیع چاہے گی۔ وہ تمام ریاستوں کے ساتھ بالعموم اور اس ریاست کے ساتھ بالخصوص تعلقات قائم کرے گی کہ جس نے مظلوم افغانی قوم کی ان کے دفاعی پروگرام میں جہاد کے دوران پشت پناہی کی ہو گی۔

آرٹیکل ١٠١ : امارت اسلامیہ افغانستان پڑوسیوں کے حقوق کے پیش نظر ' ہمسایہ ممالک میں مزید تعاون اور امداد کی خواہش کااظہار کرے گی اور اسلامی بھائی چارے کو مضبوط بنانے' عالم اسلامی کو ملانے اور امت مسلمہ کو متحد کرنے کے لیے خصوصی کوششیں کرے گی۔

آرٹیکل ١٠٢ : امارت اسلامیہ افغانستان' شریعت اسلامیہ کے دائرے میں جمیع اقوام عالم کے حقوق کا احترام کرے گی اور ان کے حقوق میں کسی بھی قسم کے تجاوز اور ان کی آزادی چھیننے کو ناپسند جانے گی۔

آرٹیکل ١٠٣ : امارت اسلامیہ افغانستان جمیع انسانی معاشروں کے افراد کے انسانی حقوق کے تحفظ اور ان کی آزادی کی خاطر' محکوم اقوام کے جائز احتجاجات کی حمایت کرے گی اور اسلامی اصولوں اور انصاف کے ترازو کی روشنی میں علاقائی جھگڑوں کے معقول ومصالحانہ حل و فیصلوں کا مطالبہ کرے گی اور کسی بھی قسم کے دباؤ و قوت کے استعمال کو ناپسند کرے گی۔

آرٹیکل ١٠٤ : امارت اسلامیہ افغانستان معاصر عالمی مقتدر طاقتوں کے ہتھیار رکھوانے اور ہمہ گیر تباہی کے اسلحہ کے ازالے کے پروگرام کی حمایت کرے گی۔

آرٹیکل ١٠٥ : بیرون ملک' امارت اسلامیہ افغانستان کے شہریوں کوامارت کی حمایت حاصل ہوگی اور امارت ان کے شرعی حقوق و منافع کا دفاع کرے گی ۔
 
Top