• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعاوں کے باب میں ضعیف احادیث پر عمل کرنا کیسا ہے؟

ام حسان

رکن
شمولیت
مئی 12، 2015
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
32
پوائنٹ
32
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا یہ ممنوع اور حرام ہے کہ ہم ان دعاوں کے ذریعہ سے اللہ تعالی کو پکاریں اور مانگیں جو ضعیف احادیث میں وارد ہیں۔ اگر ان میں کوئی شرکیہ اور غلط بات موجود نہ ہو اور ہمارا مقصد بھی ان سے پورا ہوتا ہو اور دل کی دعا بھی وہی ہو۔ کیا یہ گناہ ہے جسکی وجہہ سے سزا ہوسکتی ہے؟ کیا اللہ تعالی قبول نہیں کرینگے ؟
اور اس حدیث کو صرف علامہ البانی رحمہ اللہ نے ہی ضعیف قرار دیا ہے یا کوئی اور محدث نے بھی اسے ضعیف کہا ہے؟
اللہ تعالی آپ سب کو دنیا اور آخرت میں اسکی بہترین جزا دے۔ آمین

zaeef hadees.jpg
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
لسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا یہ ممنوع اور حرام ہے کہ ہم ان دعاوں کے ذریعہ سے اللہ تعالی کو پکاریں اور مانگیں جو ضعیف احادیث میں وارد ہیں۔ اگر ان میں کوئی شرکیہ اور غلط بات موجود نہ ہو اور ہمارا مقصد بھی ان سے پورا ہوتا ہو اور دل کی دعا بھی وہی ہو۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ضعیف احادیث میں مروی دعائیں ، یعنی دعائیہ الفاظ ۔۔ اگر ان میں کوئی غیر شرعی بات نہ ہو ۔۔ اور پیغمبر اکرم ﷺ سے منسوب کئے بغیر پڑھیں جائیں ، تو بالکل صحیح و درست ہے ،
اور خوب سمجھ لیں :
نبی کریم ﷺ کی طرف بے بنیاد غیر ثابت شدہ بات منسوب کرنا انتہائی کبیرہ گناہ ہے ؛
خود جناب رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے :
قَالَ أَنَسٌ: إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»
(صحیح بخاری العلم )
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ مجھے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»(صحیح بخاری العلم )
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
اور فرمایا :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ»(صحیح مسلم ، مقدمہ )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے چلائے ، دوسروں کو سناتا پھرے ‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اور اس حدیث کو صرف علامہ البانی رحمہ اللہ نے ہی ضعیف قرار دیا ہے یا کوئی اور محدث نے بھی اسے ضعیف کہا ہے؟
اس حدیث کو امام ترمذیؒ نے سنن میں اور امام احمد ؒ نے مسند میں نقل فرمایا ہے
ترمذی کی روایت یہ ہے :
حدثنا قتيبة حدثنا عبد الواحد بن زياد عن حجاج بن أرطاة عن أبي مطر عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا سمع صوت الرعد والصواعق قال :
«اللَّهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ، وَلَا تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ، وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ»
قال أبو عيسى هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه
.‘‘ ( سنن الترمذي 3450)
یعنی سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بجلی کی گرج اور کڑک سنتے تو فرماتے : ” اے اللہ ! تو اپنے غضب سے ہمیں نہ مار ، اپنے عذاب کے ذریعہ ہمیں ہلاک نہ کر ، اور ایسے برے وقت کے آنے سے پہلے ہمیں بخش دے “ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں ۔
اور البانی نے چار کتب میں اسے ضعیف قرار دیا ہے

تحقيق الألباني :
ضعيف ، الضعيفة ( 1042 ) ، الكلم الطيب ( 158 / 111 ) // ضعيف الجامع الصغير ( 4421 ) ، المشكاة ( 1521 )
-------------------------
اور مسند احمد کی روایت یہ ہے :
حدثنا عبد الله ثنا أبي ثنا عفان ثنا عبد الواحد بن زياد حدثنا الحجاج حدثني أبو مطر عن سالم عن أبيه قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا سمع الرعد والصواعق قال اللهم لا تقتلنا بغضبك ولا تهلكنا بعذابك وعافنا قبل ذلك » مسند الأمام أحمد 5763
علامہ شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں : إسناده ضعيف لضعف حجاج، وهو ابن أرطاة، ولجهالة حال أبي مطر، (اس کی اسناد ضعیف ہے ) کیونکہ ایک تو اس میں حجاج بن ارطاۃ ضعیف ہے ، اور دوسرا یہ کہ ابو مطر نامی راوی مجہول الحال ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف تحقیقی مجلہ ’’ محدث ‘‘ (شمارہ ۲۰۸، جنوری ۱۹۹۶ ) مشہور محقق عالم جناب غازی عزیر کے مضمون میں اس سند کے متعلق درج ذیل تفصیل دی گئی ہے :
اس مطر کے متعلق امام ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: طبقہ ششم کا مجہول راوی ہے" علامہ ذہبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "نہیں معلوم کہ وہ کون ہے"، امام ابن الجوزی رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: "
امام رازی رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ یہ سب مجاھیل ہیں۔" علامہ ہثیمی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "میں اس کو نہیں جانتا۔"
اور علامہ زیلعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ابن القطان رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ نہ اس کا حال معلوم ہے اور نہ اس کا نام۔" صرف امام ابن حبان رحمة اللہ علیہ نے ابو مطر کو اپنی کتاب "الثقات" میں ذکر کیا ہے۔ لیکن امام موصوف کی توثیق غیر معتبر ہوتی ہے، کیونکہ آں رحمہ اللہ مجہول رواة کو بھی ثقاة بیان کر دیتے ہیں، جیسا کہ تمام علمائے تحقیق کے نزدیک معروف اور مشہور ہے۔


حجاج بن ارطاة النخعی سے اگرچہ امام مسلم رحمة اللہ علیہ نے مقرونا تخریج کی ہے، لیکن ابن مبارک رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ "حجاج مدلس تھا"، امام عجلی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: " جائز الحدیث مگر صاحب ارسال تھا۔ یحییٰ بن کثیر رحمة اللہ علیہ، مجاہد رحمة اللہ علیہ، مکحول رحمة اللہ علیہ اور زھری وغیرہ سے مرسل روایت بیان کرتا تھا، حالانکہ اس نے ان میں سے کسی سے کچھ بھی نہیں سنا تھا۔" امام ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "صدوق ہے، بکثرت خطا اور تدلیس کرتا ہے" ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: "امام نسائی رحمة اللہ علیہ وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ ضعفاء کے ساتھ تدلسی کرتا ہے۔ جن ائمہ نے اس پر تدلیس کا اطلاق کیا ہے، وہ یہ ہیں: ابن مبارک رحمة اللہ علیہ، یحییٰ بن القطان رحمة اللہ علیہ، یحییٰ بن معین رحمة اللہ علیہ اور امام احمد۔ ابو حاتم رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ "جب حدثنا کہے تو وہ صالح ہے مگر قوی نہیں" آں رحمہ اللہ ہی "فتح الباری" میں حجاج کے متعلق فرماتے ہیں: "ضعيف،فيه مقال،فيه ضعيف،مدلس،لايحتج به" امام ذہبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "احد اوعية العلم" ثوری رحمة اللہ علیہ نے ان میں "لچک" بتائی ہے۔ امام احمد رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ "حفاظ حدیث میں سے تھا" یحییٰ القطان رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ"میرے نزدیک وہ اور ابن اسحاق ہم پلہ ہیں۔" ابو حاتم رحمة اللہ علیہ کا قول ہے: صدوق لیکن مدلس ہے پس اگر "ثنا" کہے تو وہ صالح ہے" نسائی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "قوی نہیں ہے" یحییٰ وغیرہ کا قول ہے: "ضعیف ہے" ابن عدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "خطاء کرتا ہے" ابن حبان رحمة اللہ علیہ نے اسے "ثقات" میں ذکر کیا ہے۔ ابن خزیمہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس کے ساتھ حجت نہیں ہے الا یہ کہ وہ "انا" یا "سمعت" کے ساتھ روایت کرے" بزار رحمة اللہ علیہ کا قول ہے: حافظ لیکن مدلس اور فی نفسہ معجب تھا۔ شعبہ اس کی "ثنا" بیان کرتے تھے۔" ابن عدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "یہ ان رواة میں سے ہے جن کی حدیث لکھی جاتی ہے۔" "امام بیہقی رحمة اللہ علیہ، امام دارقطنی رحمة اللہ علیہ، عبدالحق اور ابن الہادی رحمہم اللہ نے حجاج کی "تضعیف" کی ہے۔ ابن القطان اور خطابی رحمہما اللہ فرماتے ہیں " تدلیس کے ساتھ معروف ہے۔" علامہ زیلعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "دارقطنی رحمة اللہ علیہ نے ان کا تذکرہ حفاظ ثقات میں کیا ہے۔" امام ابن الجوزی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: زائدہ اس کی حدیث ترک کرنے کا حکم دیتے تھے، امام احمد رحمة اللہ علیہ کا قول ہے: احادیث میں اضافہ کر دیا کرتا تھا اور ان لوگوں سے روایت بیان کرتا تھا جن سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی ہے، اس کے ساتھ کوئی حجت نہیں ہے، یحییٰ رحمة اللہ علیہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ آں رحمہ اللہ کا ایک اور قول ہے کہ اس حدیث کے ساتھ احتجاج نہیں ہے۔ ابو حاتم الرازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ضعفاء سے تدلیس کرتا ہے پس اگر "حدثنا فلان" کہے تو کوئی حرج نہیں"۔ ابن عدی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس پر زہری وغیرہ سے تدلیس کرنے کا عیب بیان کیا گیا ہے، کبھی کبھی خطا بھی کرتا ہے مگر اس پر کذب بیانی کی نسبت نہیں کی گئی ہے"۔ دارقطنی رحمة اللہ علیہ کا قول ہے: " اس کے ساتھ حجت نہیں ہے۔"ابن حبان رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ابن مبارک، یحییٰ القطان، ابن مہدی، یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے اس کو ترک کیا ہے" حجاج بن ارطاة کے تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ میں مذکور کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔

پس ثابت ہوا کہ زیر مطالعہ حدیث اصولا "ضعیف" ہے۔ امام ابوزکریا یحییٰ بن شرف النووی الدمشقی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب "الاذكار المنتخبة من كلام سيد الابرار صلي الله عليه وسلم" میں اس حدیث کے ضعف کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے:
"روينا في كتاب الترمذي باسناد ضعيف عن ابن عمر رضي الله عنه به"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top