• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعوتِ حق الله کی عبادت اور طاغوت سے اجتناب

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
574
ری ایکشن اسکور
184
پوائنٹ
77
دعوتِ حق الله کی عبادت اور طاغوت سے اجتناب

تحریر : ابو علی السلفی حفظہ اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہ، وَنَسۡتَعِیۡنُہُ، وَنَسْتَغْفِرُِہ وَنَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاَتِ أَعْمَالِنَا مَنْ یَھۡدِہِ اﷲُ فَھُوَ الْمُھْتَدْ وَمَنْ یُضۡلِلۡ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ وَلِیًّا مُّرْشِدَا وَأَشْھَدُاَنْ لَااِلٰہَ اِلَّااﷲُوَحْدَہُ لَاشَرِیۡکَ لَہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُولَہ،، اَمَّابَعْدُ


تمام تعریفیں اُس ذات کے لئے جس نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ کائنات میں معبوث کیا۔

میری نظر سے ایک پمفلٹ گزرا جس کو پڑھ کر بہت تعجب ہوا جس شخص نے پمفلٹ تحریر کیا ہے۔ یا تو وہ شخص نفسیاتی مریض ہے یا دین اسلام سے ناواقف، کیوں کہ وہ خود طاغوت سے کفر کی آیت پیش کرکے یہ ثابت کر رہا ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی ان آیت کے متعلق دعوت دی ہی نہیں۔ ہم ان باتوں سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اُس شخص کو قرآن، حدیث اور سلف صالحین سے کوئی دلیل بھی نہیں ملی کے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ طاغوت سے کفر کے لئے لوگوں کو وعظ و نصیحت کی جاسکتی ہے۔ اس قسم کے لوگ ان شبہات کے سہارے موحدین سے جھگڑتے رہتے ہیں ۔ مسلمانوں سے آمادۂ جنگ رہتے ہیں تاکہ یہ اپنی گمراہی اور شرک مسلمانوں میں پھیلا سکیں اور طاغوت کا دفاع کرسکیں حالانکہ اﷲ نے طاغوت سے اجتناب اور اس سے انکار کا حکم دیا ہے ۔ایک جگہ فرمان ہے:

وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْت [النحل: ۳۶]

ہم نے ہرامت میں ایک رسول مبعوث کیا (جو ان سے کہتا تھا) کہ اﷲ کی عبادت کرو طاغوت سے اجتناب کرو۔


دوسری جگہ ارشاد ہے :

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہِ [النساء: ۶۰]

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ فیصلے طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اس (طاغوت) کا انکار کریں۔


ان ظالموں نے وہ بات بدل ڈالی جو ان سے کہی گئی تھی۔طاغوت سے انکار کے بجائے یہ لوگ طاغوت کی حفاظت، حمایت اور دفاع کرتے ہیں ہر وقت اس کے دفاع وتحفظ پر کمر بستہ رہتے ہیں اس طاغوت کے لیے اپنی زندگیاں قربان کرتے ہیں اس کی راہ میں اپنے اوقات صرف کرتے ہیں اپنی عمریں گنواتے ہیں۔ اور جب ہم ان میں سے کسی کو توحید کی یا شرک سے بیزاری کی طرف دعوت دیتے ہیں تو وہ ان شبہات کو سامنے لاتے ہیں جو شیطان نے ان کے دلوں میں ڈال دیے ہیں ان شبہات کی وجہ سے انہوں نے حق کو باطل اور روشنی کو اندھیرے کے ساتھ خلط ملط کردیا ہے ۔

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْن [الانعام: ۱۱۶]

اسی طرح ہم نے ہر نبی کا دشمن پیدا کیا ہے انسانوں میں سے اور جنات میں سے وہ ایک دوسرے کو مزین وملمع شدہ بات کی وحی کرتے ہیں جو دھوکہ پر مبنی ہوتی ہے اگر تیرا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرپاتے انہیں ان کی بنائی ہوئی باتوں کو (اپنے حال پر) رہنے دیں اور تاکہ اس کی طرف مائل ہوں ان لوگوں کے دل جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور تاکہ وہ اسے راضی کریں اور تاکہ وہ عیب لگائیں جو لگانا چاہتے ہیں۔ (یا گناہ کریں جو کرنا چاہتے ہیں)


اس آیت میں اﷲ نے اس بات کی وضاحت کردی کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے انہی کے دل اس طرح کی مزین شدہ جھوٹی باتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں وہی ان کے شبہات کو پسند کرتے ہیں تاکہ اپنے باطل نظریہ کو چھپا سکیں اور اپنے شرکیہ خیالات کی پردہ پوشی کرسکیں اور جو عیوب لگانا چاہتے ہیں لگائیں ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:

لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَا اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ وَ فِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْ وَ اﷲُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْن [التوبۃ: ۴۷]

اگر یہ تم میں مل کر نکلتے بھی تو تمہارے لیے سوائے فساد کے اور کوئی چیز نہ بڑھاتے بلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑا دیتے اور تم میں فتنے ڈالنے کی تلاش میں رہتے ان کے ماننے والے خود تم موجود ہیں، اور اﷲ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔


اس کے بعد ہم آپ کے سامنے قرآن، حدیث اور سلف صالحین سے یہ بات (ان شاء اللہ) ثابت کریں گے کہ کفر بالطاغوت اسلام کی بنیادی دعوت ہے۔

صحیحین میں عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں :

ہم سے نبی کریم ﷺ نے اس بات پر بیعت لی کہ ہم سنیں گے اطاعت کریں گے چاہے سخت حالات ہوں یا سازگار خوشی ہو یا غمی، ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے (ہم محروم کئے جائیں) پھر بھی ہم اہل حکومت سے اختیارات واپس نہ لیں سوائے اس صورت کے کہ ان سے ایسا واضح کفر سرزد ہوجائے کہ جس کے کفر ہونے پر اللہ کے دین میں صریح دلیل موجود ہو۔

[بخاری مسلم کے علاوہ احمد بیہقی وغیرہ نے بھی اس کو مختلف ابواب و عنوانات کے تحت روایت کیاہے]۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ہر وہ چیز جس کی اﷲ تعالیٰ کی سوا عبادت کی جائے ’’طاغوت‘‘ کہلاتی ہے ۔‘‘ [ھدایۃ المستفید: ۱۲۲۲]

علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایسے حکمران جن سے کفریہ افعال کا ظہور ہو ہر مسلم پر فرض ہوجاتا ہے کہ اس بارے میں اپنی ذمہ داری نبھانے کیلئے اٹھ کھڑا ہو جس میں طاقت و قوت ہوگی اسے ثواب ملے گا جو طاقت کے باوجود سستی کریگا اسے گناہ ملے گا اور جس کی طاقت نہ ہو اسے چاہیئے کہ ایسے ملک سے ہجرت کر لے اس پر اجماع ہے ۔ [فتح الباری۔۱۲۳/۱۳]

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اسی لئے ہر حاکم جو کتاب اللہ کے بغیر فیصلہ کرتا ہو اسے طاغوت کہا گیا ہے‘‘۔ [مجموع الفتاویٰ: ۱۲۸/۲۰]

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جب کچھ دین اللہ کا اور کچھ غیر اللہ کا چل رہا ہو تو ایسا کرنے والوں کے ساتھ قتال کرنا واجب ہے جب تک کہ صرف اللہ کا دین نافذ نہ ہو جائے۔‘‘ [مجموع الفتاوی ۲۸/ ۴۶۹]

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ’’طاغوت‘‘ کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں: ’’ہر وہ ہستی یا شخصیت طاغوت ہے جس کی وجہ سے بندہ اپنی حد بندگی سے تجاوز کرجاتا ہے چاہے وہ معبود ہو، یا پیشوا، یا واجب اطاعت، چنانچہ ہر قوم کا طاغوت وہ شخص ہوتا ہے جس سے وہ اﷲ اور رسول ﷺ کو چھوڑ کر فیصلہ کراتے ہوں، یا اﷲ کو چھوڑ کے اس کی عبادت کرتے ہوں، یا الٰہی بصیرت کے بغیر اس کے پیچھے چلتے ہوں، یا ایسے امور میں اس کی اطاعت کرتے ہوں جن کے بارے میں انہیں علم ہے کہ یہ اﷲ کی اطاعت نہیں۔‘‘ [ھدایۃ المستفید: ۱۲۱۹]

امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان لوگوں کے بارے میں جو اپنے فیصلے طاغوتی احکام کے پاس لے جاتے ہیں کہتے ہیں اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ یہ لوگ اللہ اور اسکی شریعت کے منکر ہیں وہ شریعت جس کی اتباع کا حکم اللہ نے محمد رسول اللہ ﷺ کی زبانی دیا ہے۔ بلکہ یہ لوگ آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک تمام آسمانی شریعتوں کے منکر ہیں ان کے خلاف جہاد لازم ہوگیا ہے جب تک کہ یہ اسلام کے احکام قبول نہ کریں اور ان پر یقین نہ کر لیں اور اپنے باہمی معاملات کے تصفیے شریعت مطہرہ کے مطابق نہ کریں اور ان تمام شیطانی طاغوتی امور کو چھوڑ نہ دیں جن میں یہ ملوث ہیں۔ [الدواء العاجل ۔ ص : ۳۴]

طاغوت کے معنی سے متعلق امام طبری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : میرے نزدیک طاغوت کے بارے میں سب سے بہتر قول یہ ہے کہ اللہ کے احکام سے ہر سرکشی کرنے والا جس کی عبادت زبردستی کروائی جائے یا کوئی کسی کی اطاعت کرے وہ معبود چاہے کوئی انسان ہو یا شیطان ہو، بت ہو یا کوئی بھی چیز ہو۔ [تفسیر طبری:۳/۲۱]

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ہر وہ شخص جسکی اﷲ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہو، اور وہ اپنی اس عبادت پر راضی ہو، چاہے وہ معبود بن کے ہو ، پیشوا بن کے، یا اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت سے بے نیاز ، واجب اطاعت بن کے ہو ‘طاغوت ہوتا ہے۔‘‘ [الجامع الفرید: ۲۶۵]

فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَاجَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعْالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَ اَبْنَآئَ کُمْ وَ نِسَآئَ نَا وَنِسَآئَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسْکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَۃَ اﷲِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اﷲُ وَ اِنَّ اﷲَ لَھُوَ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ ۔فَاِنْ َتوَلَّوْا فَاِنَّ اﷲَ عَلِیْمٌ بِالْمُفْسِدِیْنَ ۔ [آل عمران : ۶۱]

جب تیرے پاس علم آگیا اور پھر بھی تیرے ساتھ کوئی جھگڑا کرے تو ان سے کہدو کہ آؤ ہم بلالیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں ہم بھی اور تم بھی پھر ہم التجا کریں اور اللہ کی لعنت کریں جھوٹوں پر بے شک یہ سب حق کا بیان ہے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ غالب حکمت والا ہے اگر یہ لوگ پھر جائیں تو اللہ فساد کرنے والوں کو بخوبی جانتا ہے۔


امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے سند کے ساتھ ابوالبختری سے روایت کیا ہے ایک آدمی نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے ان آیات کے (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ-ہُمُ الظّٰلِمُوْن-ہُمُ الْفٰسِقُوْن) متعلق پوچھا کہ کیا یہ بنی اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہیں؟ حذیفہ نے کہا ہاں بنی اسرائیل تمہارے اچھے بھائی ہیں ان کے لیے ہر کڑوی اور تمہارے لیے ہر میٹھی چیز ہے؟ اللہ کی قسم تم ان کے طریقوں پر چلوگے قدم بقدم۔ [تفسیر طبری:۶/۳۵ ]

اس سے معلوم ہوا کہ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی رائے ہے کہ یہ آیات اگرچہ بنی اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہیں مگر ان کا حکم عام ہے ان کے لیے بھی ہے اور مسلمانوں کے لیے بھی جو بنی اسرائیل کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ .کے ضمن میں ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ براء بن عازب ، حذیفہ بن الیمان ، ابن عباس رضی اللہ عنہم ، ابو مجلز ، ابو رجاء العطاردی ، عکرمہ ، عبیداللہ بن عبداللہ اور حسن بصری رحمہم اللہ کہتے ہیں : کہ یہ آیات بنی اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہیں مگر اس امت کے لیے بھی ہیں ۔

وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنزَلَ اﷲُ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ......ھُمُ الظّٰالِمُونَ.......ھُمُ الفَاسِقُونَ [المائدۃ : ۴۴ تا ۷۴]

’’اور جو اﷲ کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہی کافر ہیں .....وہ ظالم ہیں......وہ فاسق ہیں‘‘

اﷲ ایسے لوگوں کو کافر کہے اور وہ کافر نہ ہوں ! ہرگز نہیں، یہ لوگ پکے کافر ہیں ۔ عبد اﷲ سے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں طاؤس وغیرہ سے جو روایت آئی ہے وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اﷲ کے نازل کردہ احکام کے علاوہ کسی اور چیز سے فیصلہ کرنے والا کافر ہے ۔
[رسالہ تحکیم القوانین]


ان سب دلائل یہ بات ثابت ہے کہ طاغوت سے کفر کی دعوت قرآن، حدیث اور سلف سصالحین کی دعوت ہے۔’’ تقلیدی رجحان‘‘ نہیں۔ ان دلائل کے بعد بھی اگر تم میں اللہ کا خوف نہیں تو ہم تم کو اُس کام کی دعوت دیتے ہیں۔ جو کام ائمہ بھی کر چکے ہیں جیسا کہ : امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں لوگوں کے پاس اصحاب السبت (یہودیوں) کی طرح حیلے ہیں میں اپنے مخالفین کو چار میں سے ایک کی طرف دعوت دیتا ہوں کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ ، اجماع اہل العلم ، اگر انکار کرتے ہیں تو پھر مباہلہ کا چیلنج جس طرح کہ سیدنا ابن عباسرضی اللہ عنہ نے بعض مسائل میراث میں اور سفیان اور اوزاعی نے مسئلہ رفع الیدین میں کیا اور دیگر علماء بھی مباہلہ کا چیلنج دے چکے ہیں۔ [الدرر السنیۃ کتاب العقائد ص: ۵۵]

ہم نے جو کچھ لکھا ہے یہ صرف الدین النصیحۃ کے تحت بھلائی کی نیت سے لکھا ہے اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ہر حال میں اسلام پر قائم رکھے۔

و آخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین
 
Top