ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 569
- ری ایکشن اسکور
- 176
- پوائنٹ
- 77
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام تفاصیل کے بعد باخبر رہیے کہ ملتِ ابراہیمی کے قیام اور نصرتِ دین کے لئے خفیہ سرگرمیاں اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ دین کا اظہار اور خفیہ منصوبہ بندی باہم متضاد نہیں ہیں۔ سیرت میں خفیہ منصوبہ بندی اختیار کرنے کے بے شمار دلائل موجود ہیں۔
جہاں تک دعوت الی اللہ کا تعلق ہے تو وہ بہرالحال بر سر عام دی جائے گی، البتہ خفیہ سرگرمی اور منصوبہ بندی شروع سے ہی کر لینی چاہیے ورنہ بعد میں دعوت کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ بات از حد ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق دعوت الی اللہ کا کام دنیا میں بر سر عام ہوتے رہنا چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
﴿لا تزال طائفۃ من أمتی ظاہرین علی الحق﴾ [رواہ مسلم]
’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہتے ہوئے اُس کی طرف دعوت دیتا رہے گا‘‘
طاغوت کے خوف سے دعوت ہی کو چھپا دینا، یا حکمرانوں کا قرب حاصل کرنے کے لئے یا عہدوں پر ترقی کے لیے ایسا طرز عمل اختیار کرنا سیرت سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔ البتہ موجودہ تنظیموں کا طریقہ کار یہی ہے ۔ اس طریقہ پر چل کر کام یابی کی امید رکھنے والوں سے اپنا راستہ ابھی سے جدا کر لیں اور اُن سے کہیں۔
’’لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ‘‘ یعنی ہمارا اور تمہارا دین جدا جدا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں دعوت وتبلیغ علانیہ اور اُس کی منصوبہ بندی خفیہ ہوگی ۔
مذکورہ بالا وضاحت اس وجہ سے کرنا پڑی ہے کہ بعض افواہیں پھیلانے والے اور حق کو صحیح طور پر نہ سمجھنے والے اپنی جہالت کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ تم جس منہج کی دعوت دیتے ہو اس پر چل کر ہمارا سارا منصوبہ کھل کر سامنے آجائے گا، تمہاری جلد بازی دعوت کے ثمرات وفوائد ضائع کر دے گی۔
ایسے لوگوں کے لئے پہلا جواب تو یہ ہے کہ ’’تمہارے یہ ثمرآور خیالات اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہوں گے جب تک تم نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے طریقے پر اپنے پیڑوں کی آبیاری نہ کروگے۔ ِاس طریقہِ دعوت کے بے ثمر ہونے پر موجودہ دور کی تبلیغی کوششیں ایک بڑی دلیل ہیں کیونکہ ہمیں مسلمانوں کی نسلِ نو جہالت اور حق وباطل میں التباس کا شکار نظر آتی ہے۔
ان کو "ولاء والبرا" (دوستی دشمنی) کا فرق بھی معلوم نہیں ہے اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ قائدین حق کا اظہار اُس طرح نہیں کر رہے ہیں جس طرح انبیاء علیہم السلام کا طریقہ تھا، اگر یہ دعوتِ حق کو صحیح طرح بیان کرتے اور ان کو انبیاء کرام علیھم السلام کی طرح مصائب سے دوچار ہونا پڑتا تو لوگوں پر حق واضح ہوجاتا، اہل حق وباطل نکھر کر سامنے آجاتے۔
اﷲ کا پیغام لوگوں تک پہنچ جاتا خاص طور پر موجودہ دور میں اہم ترین مسائل سے جہالت کا پردہ ہٹ جاتا جیسا کہ مشہور مقولہ ہے کہ جب علماء اظہارِ حق کے وقت خاموش رہیں اور جہلاء اپنی جہالت پر مبنی موقف اختیار کریں، تو پھر حق ظاہر ہوگیا ! بھلا اِس طرح حق کیسے ظاہر ہوگا؟ جب اﷲ تعالیٰ کا دین بھی ظاہر نہیں ہو رہا اور، توحید عملی واعتقادی کا علم لوگوں کو نہیں وہ کون سے فوائد وثمرات ہیں جن کا انتظار یہ داعی حضرات کر رہے ہیں کیا اسلامی حکومت کا انتظار کر رہے ہیں!
بے شک توحید خالص کو لوگوں پر ظاہر کرنا اور شرک کے اندھیروں سے توحید کی روشنی کی طرف گامزن کرنا ہی اس دعوت کا مقصدِ عظیم ہے، اگرچہ اس کام کے لئے داعی حضرات کوکتنی ہی تکلیفیں اور آزمائشیں برداشت کرنا پڑیں، یاد رہے کہ دینِ اسلام صرف مصائب و آزمائشوں سے ہی ابھرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی کی یہ سنت ہر داعی کو یاد رکھنی چاہیے:
وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الأرْضُ [البقرہ : ۲۵۱]
اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا۔
مڈبھڑ سے ہی دین سربلند ہوتا ہے اور مبنی بر شرکیہ کاموں سے بچا جا سکتا ہے، توحید ہی وہ منتہائے مقصود ہے جس کے لئے آزمائشوں کو جھیلا جاتا ہے اور جس کی چوکھٹ پر قربانیاں دی جاتی ہیں اسلامی ریاست کا قیام تو صرف اس مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔
اصحابِ اخدود کے قصے میں اہل دانش کے لئے عبرت کا سامان موجود ہے۔ قرآن سورہ اخدود میں ایک نوجوان کا قصہ بیان کرتا ہے جو تنِ تنہا اکیلے رب العالمین کی عبادت کی گواہی دیتا ہے۔ وہ نہ صاحب اختیار ہے اور نہ کسی اسلامی ریاست کے بل بوتے پر اتنا بڑا قدم اُٹھاتا ہے، در اصل توحید بہ ذاتِ خود قوت کا نام ہے۔
اللہ کا کلمہ بلند کر کے وہ شہید ہو جاتا ہے، ہمارے اہل دانش کو اُس کی دعوت ناکام نظر آئے گی مگر اللہ کے نازل کردہ کلام میں وہ ہمیشہ زندہ جاوداں رہے گی، جب تک قرآن پڑھا جاتا رہے گا، اِس نوجوان کی گواہی سے توحید پرست سبق لیتے رہیں گے، تا قیامت!
جان دی، دی ہوئی جس کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اِس نوجوان کو زندگی کی سب سے بڑی متاع مل گئی تھی اس کامیابی کے سامنے زندگی کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی جلائے جانے کی یا قتل کیے جانے کی کوئی حیثیت، حکومت ملے یا نہ ملے، خواہ مؤمنوں کو گڑھے کھود کھود کر نذرِ آتش کیا جائے، منزل مراد صرف کلمۃ اﷲ کی سربلندی، اور اللہ کی نصرت ہے، شہادت ان کی شاہراہ اور جنت ان کی منزل ہے کیا خوب زندگی ہے ۔
اب ذرا ان جاہلوں کی باتوں پر غور کیجئے کہ اس طریقے پر چل کر تو دعوت کا نقصان اور اس کے ثمرات ضائع ہوجائیں گے بھائیو! یہ دعوت تو اﷲ تعالیٰ کے دین کے لئے ہے۔ اِس دین کی مدد اور نصرت کا وعدہ اﷲ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ وہ اس دین کو تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کرکے چھوڑے گا، خواہ اہل شرک کو کتنا ناگوار ہو، خدا کا یہ وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔
اِس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے اﷲ تعالیٰ کے دین کی مدد اور سر بلندی کا مخصوص افراد سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ یہ لوگ ہوں گے تو مدد آئے گی اور اگر یہ لوگ نہ ہوئے تو مدد نہ آئے گی، ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ فرمان الٰہی تویہ ہے کہ :
وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ [محمد: ۳۸]
اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
ایک اور مقام پر فرمایا :
وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [الحدید : ۲۴]
اب اگر کوئی روگردانی کرتا ہے تو اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے ۔
اگر کوئی اِس دعوت کو حقیقی معنی میں اُٹھانے کی ہمت نہیں رکھتا تو اللہ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ [المائدہ : ۵۴]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھِرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کردے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔
یہ ہے انبیاء کرام علیھم السلام اور ان کے متبعین کی دعوت جو ہر زمانے میں بہترین گواہی دیتی ہے ان لوگوں کو سخت ترین امتحانوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا مگر ان کی دعوت کا نور ختم نہیں ہوا بلکہ ہر لمحے بڑھتا اور لوگوں کے دلوں کو منور کرتا جا رہا ہے آج بھی نور کا متلاشی ہر شخص انہیں روشنیوں سے نور لے سکتا ہے۔