• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعوت دين کی ضرورت و اہمیت

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
دعوت دین کی ضرورت و اہمیت
تعلیمات اسلامیہ کی روشنی میں



دعوتِ دین کا مفہوم:
دعوتِ دین کا مطلب ہے کہ اللہ عزوجل نے گناہ نیکی اور خیرو بھلائی کی جو چیزیں بتلائی ہیں ان کے بارے نوع انسانی کو آگاہ کرنا، برُے کاموں سے بچنے کی تلقین کرنا اور نیکی کا حکم دینا۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہa دعوت الی اللہ کا مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مقصود اللہ عزوجل پر ایمان لانے کی دعوت دینا اور تمام انبیاء ورسل کی تصدیق کے ساتھ ساتھ ان کی بتلائی ہوئی ہدایات اور ان کی اطاعت و فرما نبرداری کی دعوت دینا ہے۔ اس دعوت میں یہ تمام امور بھی شامل ہیں: اقرار شہادتین، اقامتِ صلاۃ، ایتائے زکوۃ،صومِ رمضان، حجِ بیت اللہ اور اللہ پر، فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اوراس کے رسولوں پر ایمان لانے کی دعوت دینا۔ 1
1مجموع الفتاوی:۵۱/۷۵۱
دعوتِ اسلام کا مطلب ہوا آنحضرتeکا پیغام اور اسلام کی دعوت تمام نوعِ انسانی تک پہنچانا جسے عام الفاظ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
دعوتِ دین کی اہمیت
دینِ اسلام کی دعوت دینا یقینا بہت اہم ذمہ داری ہے اور اس سے وابستہ اہل ایمان کثیر فضائل وامتیازات کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی سے دین کی بقا ہے۔ اسی سے امتِ مسلمہ کا قرار ہے اور اسی سے عظمتِ رفتہ کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔
دعوتِ دین ہی کے ذریعہ لوگوں کو اخلاقِ حسنہ کا پیکر بنایا جاسکتا ہے، اسی کے ذریعہ سے فتنہ وفساد کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے اور اس کی بدولت دنیا کو امن کا سکون و گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔ اجتماعی و انفرادی معاملات کی درستگی اسی دعوت پر منحصر ہے۔ اسلام کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی امور کی اصلاح و بہتری بھی اسی طریق سے ممکن ہے۔ دعوتِ دین کی ضرورت و اہمیت بارے ذیل میں چند امور کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
ربانی عمل:
اس عظیم عمل کی اہمیت کا اندازا اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دعوت دینا ربانی عمل ہے۔ خود پرورگار عالم نے اپنی مخلوق کو حصول جنت کی دعوت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ وَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ) 1
1یونس:۰۱/۵۲
”اللہ تمہیں سلامتی والے گھر کی دعوت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست پر چلنے کی توفیق سے نوازتا ہے۔“
قرآن کریم مکمل کا مکمل اللہ عزوجل کی طرف سے حصول جنت کا دعوت نامہ ہے اور یہ تمام کا تمام حصول جنت کے بارے آگہی پر مشتمل ہے۔
شیوہ پیغمبری:
دعوت الی اللہ نوعِ انسانی میں سے اللہ عزوجل کی سب سے معزز ہستیوں انبیاء ورسلo کا راستہ ہے۔ تمام انبیائے کرام o نے یہی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ)1
1النحل:۶۱/۶۳
”ہم نے ہر امت میں پیغمبر بھیجے کہ لوگو! صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔“
مزید فرمایا:
(وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْن)1
1الانعام:۶/۸۴
”ہم نے پیغمبر مبعوث کیے تو بشارتیں دینے اور ڈرانے ہی کے لیے“
نیکی پر جنت کی خوشخبری اور گناہ پر جہنم سے ڈرانا جیسے امور دعوت دین ہی کے مختلف انداز ہیں۔
نبوی منہج:
تمام انبیاء ورسل میں سے اولوالعزم پیغمبر حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰو عیسیٰo اور حضرت محمد مصطفیe بھی یہی اہم فریضہ ادا کرتے رہے۔ نبیِ کریم رسولِ معظم جناب رسالت مآبe بھی اسی عظیم مشن کی تکمیل وتبلیغ پر گامزن رہے، جس کی گواہی قرآن کریم یوں سے دیتا ہے۔
(قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ)1
1یوسف:۲۱/۸۰۱
”آپ کہہ دیجئے کہ میری راہ یہی ہے، میں تمہیں اللہ کی دعوت دیتا ہوں۔“
آنحضرتe کی اسی داعیانہ خوبی کو یوں سے بھی اجاگر کیا گیا ہے،ارشاد ہوتا ہے:
(وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًاo)1
1الاحزاب:۳۳/۶۴
”اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر بشارت۔“
دعوتِ دین کے فریضہ بارے آنحضرتe کی ذمہ داری کو یوں بھی نمایاں کیا گیا، ارشاد ہوتا ہے:
(یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ)1
1المائدۃ:۵/۷۶
”اے پیغمبر،جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دیں۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اُس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔“
تبلیغ دین اسی پیغمبرانہ عمل کا تسلسل اور نبوی منہج کا حصہ ہے جس کے وارث علمائے امت ہیں۔
بہترین قول وعمل:
دعوتِ دین دینے والے باعمل داعی کی بات سب سے اچھی اور افضل ہوتی جس کی ضمانت اللہ عزوجل نے اس طرح سے دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ)1
1فصلت:۱۴/۳۳
”اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔“
احسن الخالقین کی عبادت وریاضت فرض ہے۔ اس کی لوگوں کو تلقین ونصیحت کرنے والے کی بات سب سے افضل واعلی ہے کیونکہ وہ عمل صالح کے ساتھ احسن البیان کی تبلیغ کرتا ہے اور خود کے مسلمان ہونے کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام قرطبیaنے امام حسن بصری کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت ہر اس مسلمان کو شامل ہے جو دعوت دین کا فریضہ انجام دیتا ہے۔
بہترین امت کا اعزاز:
سابقہ امتوں میں صرف پیغمبر ہی پیغام ربانی لوگوں تک پہنچانے کے پابند ہوا کرتے تھے، دینِ اسلام کیونکہ آخری الہامی دین ہے اس لیے آنحضرتe کے بعد تبلیغ دین کی ذمہ داری امتِ مسلمہ کے کندھوں پر ڈالی گئی اور یہی چیز وجہ فضیلت اور بہترین امت ہونے کا سبب قرار دی گئی۔ اللہ رب العالمین فرماتے ہیں:
(کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ)1
1آل عمران:۳/۰۱۱
”اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔“
اسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں آنحضرتe سے مروی ہے کہ تم سترویں امت ہو اور تم ہی اللہ عزوجل کے ہاں سب سے بہتر اور سب سے بڑھ کر قابل تکریم ہو۔1
1سنن الترمذی:۱۰۰۳
آنحضرتe کی امت میں سے جو بھی ایمان لانے کے ساتھ ساتھ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ سرانجام دے گا وہ اس فضیلت کا حامل ہوگا اور خیر امت کا فرد ہوگا۔
نیکیوں میں اضافے کا ذریعہ:
جس کی دعوت پر کوئی بھی نیکی کا عمل شروع کرتا ہے تو دونوں ثواب میں برابر ہیں اور یوں جتنے بھی اس کی دعوت پر نیک عمل سرانجام دیں گے سب کا اسے بھی اجرو ثواب ملتا رہے گا، داعی اعظم جناب محمد رسول اللہe کا فرمان ذی شان ہے۔
((مَنْ دَلَّ عَلَی خَیْرٍ فَلَہُ مِثْلُ أَجْرِفَاعِلِہِ))1
1مسلم بن الحجاج،صحیح مسلم:۳۹۸۱وسنن الترمذی:۹۲۱۵
”جو بھی بھلائی کی رہنمائی کرتا ہے اسے بھی عمل کرنے والے کی طرح ثواب ملتا ہے۔“
اسی طرح سے آنحضرتe کا فرمان ہے:
((مَنْ دَعَا اِلٰی ھُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الْأجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مِنْ تَبِعَہُ لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُورِھِمْ شَیْأً))1
1مسلم بن الحجاج،صحیح مسلم:۴۷۶۲
”جو بھی کسی کو ہدایت کی دعوت دیتا ہے اسے بھی ہدایت اختیار کرنے والوں کے برابر ثواب ملتا ہے اور کسی کے ثواب میں کمی بھی نہیں ہوتی۔“
آنحضرتe کی دعوت وتبلیغ اور آپ کے اصحاب کی تبلیغ دین پر عمل کرنے والوں کے برابر آپ کو تاقیامت اجرو ثواب سے نوازا جاتا رہے گا اور جو بھی امتی اس فریضہ کو ادا کرے گا وہ خیر الناس میں بھی شمار ہوگا اور اس کی وجہ سے عمل کرنے والوں کے برابر اسے اجرو ثواب سے بھی ملتا رہے گا اور یوں نیکیوں کا سلسلہ آگے سے آگے تا قیامت جاری رہے گا۔
دیگر حدیث میں اسی بے مثل عمل کی اہمیت اسی طرح سے بھی واضح ہوتی ہے کہ جن تین چیزوں کو مرنے کے بعد بھی باعث اجرو ثواب قرار دیا گیا ہے ان میں سے ایک مفید علم اور نیک اولاد کا دعا کرنا بھی ہے۔1
1مسلم بن الحجاج،صحیح مسلم:۱۳۶
نیک اولاد اور مفید علم جیسے امور تبلیغ دین اور تعلیم و تعلم ہی سے ممکن ہیں۔
فلاح و کامیابی کا راستہ:
دعوتِ دین کے مشن پر گامزن مسلمان دنیا وآخرت میں کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوتا ہے جس کی ضمانت خود رب رحمان دیتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ)1
1آل عمران:۳/۴۰۱
”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضروری ہونے چاہیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔“
اتحاد و اتفاق کا ذریعہ:
اسی آیتِ دعوت کے بعد والی آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ دعوت دین باہمی اتحادو اتفاق کا موجب ہے، تبلیغ دین کا داعی اجتماعیت کا درس دیتا ہے جب کہ دعوت دین ترک کرنے سے اختلاف، تفرقہ بازی اور انتشار جنم لیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اُولٰٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْم)1
1آل عمران:۳/۵۰۱
”کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعدپھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اُس روز سخت سزا پائیں گے۔“
اہل ایمان کی خوبی:
دعوت دین دینا اہل ایمان کی خوبی ہے اور جس قدر کوئی یہ اہم ترین فریضہ کو ادا کرے گا وہ اسی قدر اعلیٰ ایمان کا حامل ہوسکتا ہے بصورتِ دیگر معاملہ اس کے برعکس ہوگا، اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
(وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ)1
1التوبہ:۹/۱۷
”مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔“
جبکہ گناہ کا اظہار وپرچار کرنا، خیرو بھلائی سے منع کرنا اور نیکی کے راستے میں روڑے اٹکانا اہل کفر و نفاق کی علامت بتلائی گئی ہے۔
دنیوی مال و متاع سے کہیں بہتر:
دعوت دین میں ایک تو اپنے بھائیوں کی اصلاح اور تذکیر ہوتی ہے اور دوسرا غیر مسلموں کو قبول اسلام کی دعوت ملتی ہے۔ ایسے میں کسی ایک کا حلقہ بگوش اسلام ہونا دنیوی منفعت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ آنحضرتe نے یہود سے غزوہ خیبر میں حضرت علیt کو علم جہاد تھماتے ہوئے فرمایا تھا:
((فَوَاللّٰہِ! لَأَنْ یَھْدِیَ اللّٰہُ بِکئَ رَجُلاً وَاحِدًا خَیْرٌ لَکئَ مِنْ أَنْ یَکُونَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ))1
1محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری:۱۰۷۳مسلم بن الحجاج،صحیح مسلم:۶۰۴۲
”اللہ کی قسم! تمہاری وجہ سے ایک آدمی کا بھی ہدایت قبول کرنا تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی کہیں بہتر ہے۔“
اس کا حقدار بندہ مومن تبھی بن سکتا ہے جب وہ دعوت دین کے مشن پر گامزن ہو۔
نبوی دعا کا حقدار بننا:
دعوت دین میں کمر بستہ رہنے والا یقینا داعی اعظم جناب محمد مصطفیeکی اس دعا کا حقدار ہے جس میں آپ نے فرمایا:
((نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَءً……حَتَّی یُبَلِغَّہُ))1
1سلمان الاشعث،سنن أبی داود:۰۶۶۳
”اللہ عزوجل اسے ہمیشہ خو ش وخرم رکھے جو میری حدیث سن کر یاد رکھے اور اسے دوسروں تک پہنچادے۔“
کوئی آیت یاحدیث آگے کسی کو سنانا بھی دعوت دین ہی کا ایک انداز ہے اور ایسا کرنے والے بھی اس دعائے نبوی کے حقدار ہیں۔ جس مسلمان کی زندگی ہی دین کی نشرو اشاعت کے لیے وقف ہے اس کے تو کیا ہی کہنے۔
عذاب الٰہی سے بچاؤ کا راستہ:
نوع انسانی کو رب تعالیٰ کی عبادت پر گامزن کرنے کے لیے دعوت و تبلیغ کے ذریعہ ہی سے تیار کیا جاسکتا ہے۔ اگر سب کے سب ہی اس فریضہ کو ترک کردیں تو پھر نیک اور بد سب پر اکٹھا عذاب آسکتا ہے۔ نیک افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ بقدر استطاعت دوسروں کو بھی اللہ عزوجل کی نافرمانی سے روکنے کی جستجو کریں۔ آنحضرتe کا فرمان ہے:
((اِنَّ اللّٰہَ لَا یُعَذِّبُ الْعَامَّۃ……والْعَامَّۃَ))1
1أحمد بن حنبل،المسند:۰۲۷۷۱والطبرانی، الکبیر:۲۱/۸۳۱
”اللہ عزوجل کچھ لوگوں کے عمل بد کی وجہ سے سب لوگوں کو مبتلائے عذاب نہیں کرتے اور جب وہ اپنے میں کچھ کو گناہ کرتے دیکھیں اور انہیں گناہ سے روکنے کی بھی ان میں استطاعت بھی ہو۔ لیکن پھر بھی نہ روکیں تو تب اللہ عزوجل تمام عام و خاص پر عذاب نازل کرتے ہیں۔“
عذاب الٰہی سے بچاؤ کے لیے خود امور خیر و بھلائی انجام دینے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ بقدر استطاعت دوسروں کو بھی عمل خیر کی دعوت دی جائے اور بدکردار واعمال کے حامل افراد کو گناہوں سے روکنے کی جستجو کی جائے۔ یہ فریضہ دعوت تبلیغ انفرادی اور اجتماعی دونوں صورت میں جاری رہنا چاہیے۔
رحمت الٰہی کا ذریعہ:
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا رحمت باری تعالیٰ کے حصول کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ پروردگار عالم نے اہل ایمان مرد وخواتین کی صفات بیان کی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں، باہم نیکی کا حکم دیتے اور ایک دوسرے کو برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں۔ اہل ایمان کی یہ صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا:
(اُولٰٓءِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ)1
1التوبہ:۹/۱۷
”یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔“
اس رحمت کا حقدار بننے کے لیے دیگر خصائل واعمال کے ساتھ ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ مرد اور عورت دونوں یہ راستہ اختیار کر کے رحمت الٰہی حقدار بن سکتے ہیں اگرچہ ان کے دعوت و تبلیغ کا دائرہ کار مختلف ہے۔
نصرت الٰہی اور ثبات فی الدین کا ذریعہ:
دین الٰہی کی نشرواشاعت میں بقدر استطاعت محنت اور جستجو کرنا ہر اہل ایمان کا فریضہ ہے۔فریضہ کی ادائیگی کے ساتھیہی عمل اللہ عزوجل کی نصرت ومدد کے حصول کا بھی ذریعہ ہے اور دین میں ثابت قدمی اور استقامت کے حصول کا بھی سبب بنتا ہے۔ اس کی ضمانت اللہ عزوجل کے قرآن سے اس طرح سے ملتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
(ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ تَنصُرُوا اللّٰہَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ)1
1محمد:۷۴/۷
”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جماد ے گا۔“
سورت محمد کی اس آیت مبارکہ میں امت محمدیہ کے لیے جو عظیم خوشخبری ہے اس کے حصول کی شرط اللہ عزوجل کی نصرت بیان کی گئی ہے اور اس کی دو ہی صورتیں ہیں ایک تو اس کے دین پر عمل کرنا ہے اور دوسرا اس کے نفاذ اور تبلیغ کے لیے ہر ممکنہ کوشش کرنا ہے۔ اس دین حق کو دوسروں تک پہنچانا تمام امت محمدیہ کی عمومی اور داعیان اسلام کی خاص ذمہ داری ہے۔
تزکیہ نفس اور گمراہی سے نجات کا ذریعہ:
پیغام ربانی نوع انسانی تک پہنچانے میں تزکیہ نفس کرنا بھی شامل ہے۔ دوسروں کے تزکیہ نفس کے ساتھ خود داعی میں بھی یہی صفت پروان چڑھے گی۔ اس سے صبرو قناعت اور تحمل و بردباری جیسی اعلیٰ صفات جنم لیں گی اور معاشرہ امن کا گہوارہ بنے گا۔ آنحضرتe کی بعثت کو امت کے لیے احسان عظیم بتلاتے ہوئے آپ کی ذمہ داری ایک تو کتاب و حکمت کی تعلیم بتلائی گئی ہے اور دوسری تزکیہ نفس جبکہ تیسری آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ)1
1آل عمران:۳/۴۶۱
”درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر بھیجا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے۔ ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔“
ضلال مبین سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دین کی دعوت والا نبوی منہج اختیار کر کے ہی گمراہی سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر معاشرہ دور جاہلیت کی برائیوں میں پھر سے دھنستا جائے گا اگرچہ دنیوی اعتبار سے وہ کس قدر ہی تعلیم یافتہ اور سمجھ دار شمار کیا جاتا ہو۔
خسارے سے بچاؤ:
تمام طرح کے نقصان اور خسارے سے بچنے اور ہر طرح کی کامیابی سے ہمکنار ہونے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے ہدایات ربانیہ پر عمل کرنا۔ انہی تعلیمات اسلامیہ میں سے جن چار امور کو باعث نجات اور ہرطرح کے خسارے سے بچنے کے لیے لازمی قرار دیا ہے وہ ہیں: ایمان لانا، عمل صالح کرنا، حق کی نصیحت و تبلیغ کرنا اور دعوت وتبلیغ کے رستے میں آنے والے مصائب پر صبرو ثبات کا مظاہرہ کرنا۔ اللہ عزوجل نے اسی حقیقت کو یوں سے بیان فرمایا:
(وَالْعَصْرِ۔۔۔۔بِالصَّبْرِ)1
1العصر:۳۰۱/۱-۳
”زمانے کی قسم انسان درحقیقت خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔“
اس انتہائی مختصر سورت مبارکہ میں بہت ہی خوبصورت انداز میں داعیان دین کو کامیابی کے اصول بتلائے گئے ہیں۔ ان میں سے تواصی بالحق اس اعتبار سے دیگر سے اہم ہے کیونکہ حق کی دعوت و تلقین کے بغیر نہ تو ایمان بارے صحیح معلو م ہوسکتا ہے، نہ عمل صالح بارے درست معلومات تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے اور نہ تواصی بالصبر کا کامل اور درست تصور ممکن ہے۔
محبت الٰہی کا حصول:
اللہ خالق و مالک کی محبت و قربت کا حصول بندہ مومن کی سب سے عظیم خوش بختی ہے اور اسی کے حصول ذرائع میں سے ایک ذریعہ لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے، رسول اللہe کا فرمان ہے:
((أَحَبُّ النَّاسِ اِلَی اللّٰہِ أَنْفَعُھُمْ))1
1الطبرانی، اوسط:۱۶۸و صحیح الجامع:۶۷۱
”لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا اللہ عزوجل کو انتہائی محبوب ہے۔“
لوگوں کے لیے سب سے مفید وہ آدمی ہے جو انہیں خیرو بھلائی سے آگاہ کرتا ہے۔ نیکی اور گناہ کی تعلیم دیتا ہے اور یوں داعی بھی اللہ عزوجل کی محبت اور قربت کا حقدار بن سکتا ہے۔
تمام مخلوق کی دعاؤں کا ذریعہ:
لوگوں کو خیر و بھلائی سے آگاہ کرنا اور انہیں تعلیم دین دینا زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کی دعائیں لینے کا بے مثل ذریعہ ہے۔ آنحضرتe کا فرمان عالی شان ہے:
((اِنَّ اللّٰہ ومَلاءِکَتَہُ…… عَلیَ مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَیْرَ))1
1سنن الترمذی:۵۸۶۲والمعجم الکبیر:۲۱۹۷
”لوگوں کو خیرو بھلائی کی تعلیم دینے والے پر اللہ عزوجل اپنی رحمت نازل کرتے ہیں جبکہ اللہ عزوجل کے فرشتے، اہل آسمان،اہل زمین، بِل میں موجود چیونٹیاں اور مچھلیاں بھی ایسے آدمی کے لیے نزول رحمت کی دعا کرتی ہیں۔“
اس حدیث کی شرح میں شارحینِ حدیث نے لکھا ہے کہ لوگوں کو تعلیم خیر دینے سے مراد انہیں علم دین سکھلانا ہے اور دیگر تمام ان امور کی تعلیم دینا ہے جن میں انسان کی فلاح و کامیابی مضمر ہے۔
جہنم سے بچاؤ:
دعوتِ دین ہی واحد رستہ ہے جس کی بدولت نوع انسانی کو آتش دوزخ سے بچایا جاسکتا ہے اور یہ عظیم عمل داعی اسلام سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا، داعی اعظم حضرت محمد مصطفیe نے فرمایا:
((اِنَّمَا وَمَثَلُ أُمِّیّ…… وَأَنْتُمْ تقَحَّمُوْنَ فِیْہِ))1
1مسلم بن الحجاج،صحیح مسلم:۴۸۲۲ومحمد بن اسماعیل،صحیح البخاری:۳۸۴۶
”میری اور میری امت کی مثال آگ جلانے والے آدمی کی طرح ہے، اس آگ میں کیڑے مکوڑے اور پتنگے آگرتے ہیں، میں بھی تمہاری کمر سے پکڑ کر تمہیں بچا رہا ہوں اور تم ہوکہ زبردستی آگ میں کودے جارہے ہو۔“
یہی فریضہ آنحضرتe کے بعد آپ کے حقیقی وارثوں اور پاسبان امت نے اداکرنا، اب اگر انسانیت کو دوزخ کا ایندھن بننے سے بچایا جاسکتا ہے تو وہ امر بامعروف اور نہی عن المنکر ہی کا راستہ ہے۔
دعاؤں کی قبولیت:
برائی سے روکنے اور نیکی کی تلقین جیسے مشن پر گامزن معاشر اللہ عزوجل کی قربت کے حصول کی جستجو کرتاہے اور یوں دعائیں بارگاہ الٰہی میں جلدی قبول ہوتی ہے جبکہ اس کے برعکس روش اپنانے سے دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں کیونکہ انسانیت گناہوں میں لتھڑ جاتی ہے، رحمت عالمe نے فرمایا:
((والَّذیِ نفسی بیدہ……فلایستجاب لکم))1
1سنن الترمذی:۹۶۱۲
”مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میری جان ہے! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور گناہوں سے روکو گے یا پھر اللہ اپنے ہاں سے تم پر عذاب بھیج دے گا، پھر تم دعائیں بھی کروگے تو تمہاری دعائیں قبول نہ ہوں گی۔“
دعاؤں کی عدم قبولیت کی وجہ معاشرے کا نافرمان ہونا اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ چھوڑ دینا ہے۔
اعلیٰ ایمان کی علامت:
جس قدر بندہ مومن میں ایمان مضبوط ہوتا ہے اسی قدر وہ نیک امور سرانجام دیتا اور گناہوں سے نفرت کرتا ہے، خود نیک انسان بننے کے ساتھ دوسروں کو بھی نیکی کا حکم دیتا اور گناہوں سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے، گناہ کو برا تک نہ جاننا بالکل ایمان کی نفی کرتا ہے۔ رسول اللہe نے اسی چیز کو یوں سے سمجھایا فرمایا:
((مَنْ رَأَی منکم منکراً ………………أَضْعَفُ الأیْمَانِ))1
1مسلم بن الحجاج،صحیح مسلم:۹۴وسنن ابن ماجہ:۳۱۰۴
”جو بھی تم میں سے کوئی گناہ ہوتا دیکھے وہ اسے بزورِ قوت ختم کرنے کی کوشش کرے اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اتنی بھی ہمت نہ ہو تو دل میں تو برا جانے یہ کم ترین ایمان ہے۔“
کسی انداز سے بھی دعوت دین دینے والا ادنیٰ ترین درجہ ایمان کی بجائے ایمان کے اعلیٰ رستے پر گامزن ہے۔
ہلاکت سے نجات:
نیکی باعث نجات اور گناہ ہلاکت کا سبب ہے۔ جس معاشرے میں بدکردار کو کوئی روکنے والا نہ ہو، تباہی اس معاشرے کا مقدر ہوتی ہے۔ اسی کی وضاحت اس حدیث نبوی سیہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا:
((مَثَلُ القَاءِمِ عَلَی حُدُودِ اللَّہِ وَالوَاقِعِ فِیہَا، کَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَہَمُوا عَلَی سَفِینَۃٍ، فَأَصَابَ بَعْضُہُمْ أَعْلاَہَا وَبَعْضُہُمْ أَسْفَلَہَا، فَکَانَ الَّذِینَ فِی أَسْفَلِہَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ المَاء ِ مَرُّوا عَلَی مَنْ فَوْقَہُمْ، فَقَالُوا: لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِی نَصِیبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا، فَإِنْ یَتْرُکُوہُمْ وَمَا أَرَادُوا ہَلَکُوا جَمِیعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَی أَیْدِیہِمْ نَجَوْا، وَنَجَوْا جَمِیعًا))1
1محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری:۳۹۴۲وسنن الترمذی:۳۷۱۲
”احکامِ خداوندی کی پاسداری کرنے والے اور ان کی پامالی کرنے والے کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جو کشتی میں بیٹھنے کے لیے قرعہ اندازی کرتے ہیں، بعض اوپر کے حصے میں بیٹھتے ہیں اور کچھ نیچے کے حصے میں،نیچے والے پانی کی غرض سے اوپر جاتے ہیں اور آخر نیچے والے منصوبہ بناتے ہیں کہ اوپر والوں کو تنگ کرنے کی بجائے ہم کشتی کے نیچے ہی سے سوراخ کرلیتے ہیں، اگر تو اوپر والے نیچے والوں کو سوراخ کرنے دیں گے تب سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے لیکن اگر وہ انہیں سوراخ کرنے سے روک لیں گے تو یہ خود بھی بچ جائیں گے اور دیگر سب بھی ہلاکت سے محفوظ رہیں گے۔“
جب تک اسلامی معاشرے کی تشکیل کا سلسلہ جاری رہے گا اور دعوت وتربیت کا امت کام کرتی رہے گی تب تک رب تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہوتا رہے گا اور عذاب الٰہی سے لوگ محفوظ رہیں گے۔
امت مسلمہ کی نشاۃِثانیہ جاری ہے۔ اس کے لیے داعیانِ اسلام کی خاص کر ان فضائل و برکات کو ملحوظ رکھتے ہوئے خوب دعوت دین کا سلسلہ بھر پور طریقے سے جاری رکھنے کی ضرورت ہے، اہل علم کو اس بارے امت کی تعلیم بارے خاص توجہ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ دعوت کے اصول و آداب اور موثر ترین اسلوب و انداز بارے بھی افراد امت کی تربیت بھی انتہائی اہم ہے۔ اللہ عزوجل تمام اہل ایمان کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر کماحقہ دعوت واصلاح کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

تمت بالخیر:۹۱۰۲۔۴۔۷۱
حافظ محمد فیاض الیاس الاثری
رکن دارالمعارف، لاہور
۲۶۶۶۳۴۴۶۰۳۰
 
Top