- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 305
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
بسم ا للہ ا لرحمان ا لرحیم
دعوت وتبلیغ اور عفودروگزر
اشاعتِ اسلام کی جستجو کرنے والے داعیان اسلام خاص مقام ومرتبہکے حامل ہوتے ہیں۔ داعیان کرام کی دعوت پر لوگوں ان کے قافلہ دعوت و تبلیغ میں شامل بھی ہوں اور مخالفت کرنے والے بھی ہوں۔ایسے تمام طرح کے افراد سے عفودرگزر کرنا اور قابل معافی خطاؤں کو دل سے معاف کرنا ایک داعی کی خوبی ہونی چاہیے۔ مفاد عامہ کی خاطر چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے درگزر کرنا انتہائی مفید ہوتا ہے۔
حکم ربانی:اللہ عزوجل نے داعی اعظم ﷺکو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
(خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ)(الأعراف:199/7)
”آپ معاف کرتے رہا کریں، نیکی کا حکم دیتے جائیں اور جاہلوں سے اعراض برتیں۔“
عباد الرحمان کی صفت:اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی متعدد ایک صفات بیان کی ہیں۔ان کی ایک صفت عفودروگزر بتلائی ہے،فرمایا:
(وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ)(آل عمران:134/3)
”وہ تو غصہ پی جاتے اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں اور ایسے ہی احسان کرنے والے اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔“
باعثِ عزت: عفودروگزر کا فائدہ سرکارعالم ﷺنے یوں سے بیان فرمایا:
((وَمَا زَادَ اللہُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا))(صحیح مسلم:2588)
”معاف کرنے سے اللہ بندے کی عزت و مقام میں اضافہ ہی فرماتے ہیں۔“
اجر و ثواب کا موجب:اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر معاف کرنا وسیع ظرف اہل ایمان کا شیوہ ہے اور یہ عمل باعث اجرو ثواب بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ)(الشوریٰ:40/42)
ََ”ہر معاف کرنے والے اور صلح صفائی کرنے والے کو بارگاہ الٰہی سے اجرو ثواب سے نوازا جاتا ہے۔“
نبوی اسوہ:ام المومنین سیدہ عائشہr سرتاج رسل اور ہادی عالم کے بارے بیان کرتی ہیں کہ
((مَاانْتَقَمَ رَسُولُ اللّٰہِ لِنَفْسِہِ))(صحیح مسلم:2327)
”رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کی خاطر تو کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔“
کتب سیر و تاریخ میں اس کی لاتعداد مثالیں ہیں۔ ایک دفعہ ایک دیہاتی نے آپ کی چادر مبارک اس زور سے کھینچی کہ آپ کی گردن مبارک پر نشانات پڑگے۔پھر وہ بولا:
((یا محمدُ! مُرلِی مِن مَالِ اللّٰہِ الّذِی عِندَکَ))
”محمد! آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کا جو مال ہے اس سے مجھے بھی دیں۔“
آپ ﷺ نے اس کی بد اخلاقی اور ضرر رسانی پر کچھ بھی نہیں فرمایابلکہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرادیتے ہیں اور اسے نوازے جانے کا حکم فرماتے ہیں۔
فتح مکہ اورعام معافی:فتح مکہ پر
آپ ﷺنے عفودر وگزر کی ایسی مثال پیش کی کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ تمام طرح کا ظلم و ستم کرنے والے مشرکین مکہ کو معاف کردیا۔ اپنے محبوب چچا حضرت حمزہt کے قاتل کو پروانہ معافی عطا کیا۔ امت کو بھی اپنے مخالفین سے یہی سلوک کرنا چاہیے، تبھی جاکر اسلام کی حقیقی تصویر پیش کی جاسکتی ہے۔
حافظ محمد فیاض الیاس الاثری
رکن د ا ر ا لمعارف لاہور
دعوت وتبلیغ اور عفودروگزر
اشاعتِ اسلام کی جستجو کرنے والے داعیان اسلام خاص مقام ومرتبہکے حامل ہوتے ہیں۔ داعیان کرام کی دعوت پر لوگوں ان کے قافلہ دعوت و تبلیغ میں شامل بھی ہوں اور مخالفت کرنے والے بھی ہوں۔ایسے تمام طرح کے افراد سے عفودرگزر کرنا اور قابل معافی خطاؤں کو دل سے معاف کرنا ایک داعی کی خوبی ہونی چاہیے۔ مفاد عامہ کی خاطر چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے درگزر کرنا انتہائی مفید ہوتا ہے۔
حکم ربانی:اللہ عزوجل نے داعی اعظم ﷺکو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
(خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ)(الأعراف:199/7)
”آپ معاف کرتے رہا کریں، نیکی کا حکم دیتے جائیں اور جاہلوں سے اعراض برتیں۔“
عباد الرحمان کی صفت:اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی متعدد ایک صفات بیان کی ہیں۔ان کی ایک صفت عفودروگزر بتلائی ہے،فرمایا:
(وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ)(آل عمران:134/3)
”وہ تو غصہ پی جاتے اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں اور ایسے ہی احسان کرنے والے اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔“
باعثِ عزت: عفودروگزر کا فائدہ سرکارعالم ﷺنے یوں سے بیان فرمایا:
((وَمَا زَادَ اللہُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا))(صحیح مسلم:2588)
”معاف کرنے سے اللہ بندے کی عزت و مقام میں اضافہ ہی فرماتے ہیں۔“
اجر و ثواب کا موجب:اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر معاف کرنا وسیع ظرف اہل ایمان کا شیوہ ہے اور یہ عمل باعث اجرو ثواب بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ)(الشوریٰ:40/42)
ََ”ہر معاف کرنے والے اور صلح صفائی کرنے والے کو بارگاہ الٰہی سے اجرو ثواب سے نوازا جاتا ہے۔“
نبوی اسوہ:ام المومنین سیدہ عائشہr سرتاج رسل اور ہادی عالم کے بارے بیان کرتی ہیں کہ
((مَاانْتَقَمَ رَسُولُ اللّٰہِ لِنَفْسِہِ))(صحیح مسلم:2327)
”رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کی خاطر تو کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔“
کتب سیر و تاریخ میں اس کی لاتعداد مثالیں ہیں۔ ایک دفعہ ایک دیہاتی نے آپ کی چادر مبارک اس زور سے کھینچی کہ آپ کی گردن مبارک پر نشانات پڑگے۔پھر وہ بولا:
((یا محمدُ! مُرلِی مِن مَالِ اللّٰہِ الّذِی عِندَکَ))
”محمد! آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کا جو مال ہے اس سے مجھے بھی دیں۔“
آپ ﷺ نے اس کی بد اخلاقی اور ضرر رسانی پر کچھ بھی نہیں فرمایابلکہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرادیتے ہیں اور اسے نوازے جانے کا حکم فرماتے ہیں۔
فتح مکہ اورعام معافی:فتح مکہ پر
آپ ﷺنے عفودر وگزر کی ایسی مثال پیش کی کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ تمام طرح کا ظلم و ستم کرنے والے مشرکین مکہ کو معاف کردیا۔ اپنے محبوب چچا حضرت حمزہt کے قاتل کو پروانہ معافی عطا کیا۔ امت کو بھی اپنے مخالفین سے یہی سلوک کرنا چاہیے، تبھی جاکر اسلام کی حقیقی تصویر پیش کی جاسکتی ہے۔
حافظ محمد فیاض الیاس الاثری
رکن د ا ر ا لمعارف لاہور