دلائل عقلی صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں
پہلی دلیل:
یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے عرب میں مبعوث کیا اور مکہ معظمہ میں اول اول حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اظہار نبوت کا حکم دیا تو اس وقت میں سب لوگ کافر اور مشرک تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز و اقارب، رشتہ دار اور بھائی بند اس خبر کو سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہو گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے تھے۔ کوئی مجنون کہتا تھا تو کوئی دیوانہ بتلاتا تھا ۔ (نعوذ باللہ من ذالک) اور چھ برس تک باوجود دعوت اور اظہار معجزات کے صرف چند آدمی جو چالیس سے کم تھے مسلمان ہوئے، مگر چھ برس کے بعد کسی قدر مسلمانوں کی جماعت ہو گئی اور اسلام کی دعوت عام اعلانیہ ہونے لگی اور ارکان دین کو حضرت نے علیٰ رؤس الاشھاد ظاہر کرنا شروع کیا، تب اہل مکہ نے یہاں تک تکلیف اور ایذا دینی شروع کی کہ آخر مکہ چھوڑنا اور مدینہ کو ہجرت کرنا پڑا اور اس کے بعد آہستہ آہستہ دین اسلام کی ترقی شروع ہوئی اور پھر اس قدر جلد اسلام پھیلا کہ چند سال کے عرصہ میں سینکڑوں سے ہزاروں کی اور ہزاروں سے لاکھوں کی نوبت آ گئی، اور جماعت کی جماعت اور فوج کی فوج خدا کے دین میں داخل ہو گئی۔
پس غور کرنے کا مقام ہے کہ
- جن لوگوں نے ابتدائے دعوت میں اسلام قبول کیا
- اور سب سے پہلے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کو سچ جانا
- اور اول ہی اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق اور بلا توقف ، بلاتامل کلمہ شہادت پڑھا
- اور بغیر صلاح اور مشورے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے اپنے قدیمی دین کو چھوڑ دیا
- اور اپنے بھائی بندوں سے علیحدہ ہو کر اول ہی اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن رحمت پکڑا
- اور اپنے دوست آشناؤں سے مخالفت کر کے اطاعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بوجھ اپنی گردن پر رکھا
تو ایسے لوگوں کے اسلام کا جو ایسے نازک وقت میں اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر نئے دین میں آئے کوئی نہایت قوی سبب ہوگا۔ ورنہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ اپنے قدیمی دین کو چھوڑنا اور نیا دین اختیار کرنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے اور اپنے عیش و آرام کا ترک کرنا اور مصیبت و ایذا میں پڑنا اور تکلیفیں اٹھانا بلا کسی خاص سبب کے کسی کو گوارہ نہیں ہوتا۔ پس اگر ہم ان اسباب کو سوچیں جن سے اول اول صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کیا تو صرف دو سبب معلوم ہوتے ہیں۔
- یا دین کی خواہش اور نجات کی امید
- یا دنیا کی طمع اور مال و دولت کی لالچ۔
اور اگر ہم دوسرے سبب پر نظر کریں کہ وہ لوگ دنیا کی طمع اور مال و دولت کے لالچ سے مسلمان ہوئے ہوں، تو یہ ایسی بات ہے کہ جس کی نسبت ہم فرضی خیال بھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی شخص جس کو ذرا ایمان اور عقل اور شرم کا پاس ہوگا اس امر کو خیال کر سکتا ہے۔۔۔اس لیے کہ ابتدائے اسلام میں جو کچھ دنیا کی طمع تھی وہ ظاہر، جو کچھ مال اور دولت کی حرص تھی، وہ معلوم ہے۔ پس ثابت ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایمان لانا اور مسلمان ہونا صرف نجات آخرت کی امید پر تھا، اور جب اس امید پر ان کا ایمان لانا ثابت ہوا تو پھرا س سے ان کا پھرنا غیر ممکن تھا۔
جاری ہے۔۔۔