• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دلائل عقلی صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
دلائل عقلی صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں


پہلی دلیل:

یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے عرب میں مبعوث کیا اور مکہ معظمہ میں اول اول حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اظہار نبوت کا حکم دیا تو اس وقت میں سب لوگ کافر اور مشرک تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز و اقارب، رشتہ دار اور بھائی بند اس خبر کو سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہو گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے تھے۔ کوئی مجنون کہتا تھا تو کوئی دیوانہ بتلاتا تھا ۔ (نعوذ باللہ من ذالک) اور چھ برس تک باوجود دعوت اور اظہار معجزات کے صرف چند آدمی جو چالیس سے کم تھے مسلمان ہوئے، مگر چھ برس کے بعد کسی قدر مسلمانوں کی جماعت ہو گئی اور اسلام کی دعوت عام اعلانیہ ہونے لگی اور ارکان دین کو حضرت نے علیٰ رؤس الاشھاد ظاہر کرنا شروع کیا، تب اہل مکہ نے یہاں تک تکلیف اور ایذا دینی شروع کی کہ آخر مکہ چھوڑنا اور مدینہ کو ہجرت کرنا پڑا اور اس کے بعد آہستہ آہستہ دین اسلام کی ترقی شروع ہوئی اور پھر اس قدر جلد اسلام پھیلا کہ چند سال کے عرصہ میں سینکڑوں سے ہزاروں کی اور ہزاروں سے لاکھوں کی نوبت آ گئی، اور جماعت کی جماعت اور فوج کی فوج خدا کے دین میں داخل ہو گئی۔

پس غور کرنے کا مقام ہے کہ
  • جن لوگوں نے ابتدائے دعوت میں اسلام قبول کیا
  • اور سب سے پہلے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کو سچ جانا
  • اور اول ہی اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق اور بلا توقف ، بلاتامل کلمہ شہادت پڑھا
  • اور بغیر صلاح اور مشورے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے اپنے قدیمی دین کو چھوڑ دیا
  • اور اپنے بھائی بندوں سے علیحدہ ہو کر اول ہی اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن رحمت پکڑا
  • اور اپنے دوست آشناؤں سے مخالفت کر کے اطاعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بوجھ اپنی گردن پر رکھا

تو ایسے لوگوں کے اسلام کا جو ایسے نازک وقت میں اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر نئے دین میں آئے کوئی نہایت قوی سبب ہوگا۔ ورنہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ اپنے قدیمی دین کو چھوڑنا اور نیا دین اختیار کرنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے اور اپنے عیش و آرام کا ترک کرنا اور مصیبت و ایذا میں پڑنا اور تکلیفیں اٹھانا بلا کسی خاص سبب کے کسی کو گوارہ نہیں ہوتا۔ پس اگر ہم ان اسباب کو سوچیں جن سے اول اول صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کیا تو صرف دو سبب معلوم ہوتے ہیں۔

  • یا دین کی خواہش اور نجات کی امید
  • یا دنیا کی طمع اور مال و دولت کی لالچ۔
اگرپہلے سبب کو ہم تسلیم کریں اور اس امر کو مانیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی نجات کی امید پر دین اسلام قبول کیا تھا اور صرف خدا کی رضامندی کے لیے اپنے گھر بار کو چھوڑا تھا تو ہمارے وہم میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ پھر ایسے لوگ کسی وقت میں اس دین سے پھر گئے ہوں گے اور کبھی انہوں نےاس محبت کو جو ان کو ایمان اور اسلام کے ساتھ تھی، دل سے نکال دیا ہو بلکہ ہم یقین کر سکتے ہیں کہ جن لوگوں نے صرف خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے اسلام کو مصیبت اور تکلیف کے وقت میں اختیار کیا ہوگا اور برسوں اس کے پیچھے رنج اور دکھ اٹھائے ہوں گے وہ کبھی اس دین سے نہ پھرے ہوں گے۔

اور اگر ہم دوسرے سبب پر نظر کریں کہ وہ لوگ دنیا کی طمع اور مال و دولت کے لالچ سے مسلمان ہوئے ہوں، تو یہ ایسی بات ہے کہ جس کی نسبت ہم فرضی خیال بھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی شخص جس کو ذرا ایمان اور عقل اور شرم کا پاس ہوگا اس امر کو خیال کر سکتا ہے۔۔۔اس لیے کہ ابتدائے اسلام میں جو کچھ دنیا کی طمع تھی وہ ظاہر، جو کچھ مال اور دولت کی حرص تھی، وہ معلوم ہے۔ پس ثابت ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایمان لانا اور مسلمان ہونا صرف نجات آخرت کی امید پر تھا، اور جب اس امید پر ان کا ایمان لانا ثابت ہوا تو پھرا س سے ان کا پھرنا غیر ممکن تھا۔

جاری ہے۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
دوسری دلیل:

جب ہم خلفائے راشدین اور مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم اجمعین کی حالت پر نظر کرتے ہیں اور ان کے چال چلن پر خیال کرتے ہیں تو اس سے ہم کو یقین کامل ہوتا ہے کہ وہ قدم بہ قدم اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے چلتے تھے اور حرص و ہوا کو کسی کام میں دخل نہ دیتے تھے اور شب و روز خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے طالب رہا کرتے تھے۔ ان کے دشمن بھی اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ انہوں نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا حق نہایت خوبی سے ادا کیا اور اپنی جانوں اور مالوں کو نہایت خوشی سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا کیا، کون سی مصیبت رہ گئی کہ جو کفار نے ان کو نہیں دی، کون سی تکلیف باقی رہ گئی کہ مشرکین نے ان کو نہیں پہنچائی۔ جب کفار نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانا اور ایذا دینا شروع کیا اس وقت اصحاب نبی نے کیسی حمایت اور رفاقت کی اور دعوت اسلام میں کیسی سعی بلیغ فرمائی۔ جب عرب عامتہً اور قریش خاصتہً حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا دہی پر مستعد ہوئے تو اس وقت "یاران وے خود را سپردے ساختہ از مشرب عشق چہ بادہا کہ نہ خوردند و چہ مستیہا کہ نکر دند، وہرگاہ کہ آنجناب بہ ہجرت و جہاد مامور شد اصحاب وے در مقابلہ کفار چہ رنجہا کہ نہ کشید ندوچہ غمہا کہ نہ چشید ند" یعنی ان کے دوستوں نے اپنے آپ کو ان کے لیے ڈھال بنایا اور میخانہ عشق ومستی کے کتنے جام لنڈھائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد اور ہجرت کا حکم ہوا تو آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے کفار کے مقابلہ میں کیا کیا رنج نہ جھیلے۔ پس اگر خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان لوگوں کو نہ تھی تو کیوں اپنی جانوں اور مالوں کو تلف کرتے تھے اور کیوں سختیاں مصیبتیں اپنے اوپر اٹھاتے تھے۔ سوچنا چاہئے کہ مہاجرین کو کس کے عشق نے گھروں سے نکالا اور انصار کو کس کی محبت نے دیوانہ کیا، آخر۔

رنگیں کہ کرد مژگا نم ایں چنیں
لعل و گہر کہ ریخت بدا مانم ایں چنیں

میں حضرات شیعہ سے پوچھتا ہوں کہ
صحابہ کبار اور مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم رنج و مصیبت کے وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے کہ نہیں؟
اور مال و جان و عزت و آبرو کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نثار کیا یا نہیں؟
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے انہوں نے اپنے عزیزوں اور قریبوں کو چھوڑا یا نہیں؟
اسلام کے پھیلانے میں انہوں نے تکلیف اور ایذا پائی یا نہیں؟
پس ایسی بدیہات سے انکار کیجئے یا اقرار، چونکہ انکار کر ہی نہیں سکتے۔ اس لیے لازم آیا کہ اقرار کریں۔ اور اگر ان کی محنتوں اور کوششوں کا اقرار کریں تو پھر ذرا انصاف بھی کریں کہ جس کے یپچھے انہوں نے یہ تکلیفیں گوارا کی ہوں گی ان کی نگاہ میں کیا کچھ بھی ان کی قدر و منزلت نہ ہوگی۔

اے یارو! تم کو اللہ ہی کی قسم ہے، اگر مصیبت کے وقت میں تمہارا کوئی شریک ہو اور دکھ درد کی حالت میں کوئی تمہارا ساتھ دے اور اپنے بھائی بندوں کو چھوڑ کر تمہارے ہمراہ ہووے اور اپنی جان و مال کو تمہارے پیچھے ضائع کردے تو تمہاری نگاہ میں اس کی کچھ بھی عزت اور تمہارے دل میں اس کی کچھ محبت ہوگی یا نہیں؟

اگر ہووے تو وہی مہاجرین و انصار کی نسبت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سمجھو اور انصاف کرو کہ جس وقت لوگ چاروں طرف سے یا ساحر یا مجنون کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دکھاتے ہوں گے ، اس وقت جو لوگ یا رسول اللہ اور حبیب اللہ ! کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتے ہوں گے اور جب کہ خویش و اقارب آپ کے ، آپ کو ستاتے اور تکلیفیں دیتے ہوں گے اس وقت جو لوگ اپنا سینہ سپر کر دیتے اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بچاتے ہوں گے، ان کی اس اعانت کی کیا کیا کچھ قدر و منزلت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ہوتی ہوگی!۔۔۔۔

اے یارو! اگر انصاف کی آنکھ بند نہ کر دو تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مرتبوں کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ کون شخص اس دنیا میں ایسا ہے کہ ان کے مرتبے پر پہنچے اور ان کا سا درجہ پا سکے۔ کہاں ہیں اب وہ رسول خدا کہ وہ دعوت کریں اور ان کے قبیلے کے لوگ ان کو جھٹلا دیں اور ہم میں سے کوئی سامنے آ کر صدقت یا رسول اللہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو خوش کرے، کہاں ہے وہ وقت کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کریں اور غار میں جا کر چھپیں اور کوئی ہم میں سے اس وقت ساتھ ہووے اور "یار غار" کہلائے، کہاں ہے وہ زمانہ کہ فقراء مہاجرین کو لے کر حضرت مدینے میں پہنچیں اور مدینے والے اپنے اوپر مصیبت گوارا کر کے ان کو اپنے گھروں میں ٹھہرائیں اور ا"انصار" کہلائیں، کیا اب وہ دن پھر مل سکتے ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی لڑائی پر جائیں اور ہم لوگ حضرت کے ساتھ ہوں اور ہماری مدد کے لیے خدا ملائکہ کو بھیجے اور لقد رضی اللہ عنھم کہہ کر اپنی رضامندی ظاہر فرمائے۔

اے بھائیو! وہ زمانہ گزر گیا ، وہ وقت باقی نہیں رہا، جن کو وہ نعمت ملنے والی تھی مل گئی، جن کو یہ دولت حاصل ہونے والی تھی ان کو حاصل ہو چکی، جو لوگ مہاجرین میں داخل ہونے والے تھے وہ مہاجرین میں شامل ہو گئے، اور جو انصار میں داخل ہونے والے تھے وہ انصار میں داخل ہو چکے۔ اب ہزار جان و مال کوئی نثار کرے مگر ((والسابقون الاولون من المھاجرین و الانصار)) کی فضیلت پا نہیں سکتا، تمام جہان کی کوئی دولت لٹا دے مگر اصحاب بدر یا یاران بیعت رضوان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ان دولتوں کو لینے والے لے گئے، ان نعمتوں کو لوٹنے والے لوٹ لے گئے۔

حریفاں بادھا خوردندورفتند
تھی خمخانھا کردند و رفتند
"مقابل لوگ باجود خوری کر کے میکدہ خالی چھوڑ کر جا چکے۔"

اے یارو! جن لوگوں نے بلا واسطہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم پائی اور جن شخصوں نے خود صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایت حاصل کی کیوں کر تمہارے دل میں ان کی محبت اور تمہاری نظروں میں ان کی قدر و منزلت نہیں ہے۔ کیا تمہاری عقل اس کو قبول کرتی ہے کہ ان ہزاروں ، لاکھوں آدمیوں میں جو برسوں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور رفاقت میں رہے کسی کے دل پر ایمان کامل کا اثر نہ ہوا اور ان بے شمار آدمیوں میں جو نمازوں اور جہادوں میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک رہے کوئی اسلام پر ثابت قدم نہ رہا، باوجود یکہ سفر اور حضر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے، شب و روز اپنے کانوں سے وعظ و نصیحت سنتے رہے، اپنی آنکھوں سے جبرئیل علیہ السلام کا آنا، وحی کا لانا دیکھتے رہے، لیکن اپنے نفاق اور کفر سے (والعیاذ باللہ منہ) باز نہ آئے، گو کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طرح طرح کے معجزات ان کو دکھلائے، انواع انواع کی دعائیں ان کے حق میں فرمائیں، لیکن نہ کسی معجزے کا ان پر اثر ہوا، نہ کوئی دعا ان کے حق میں مقبول ہوئی۔۔۔بھلا انصاف کرو کہ کوئی مسلمان ایسا عقیدہ رکھے گا اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو داغ لگائے گا اور اس کے تمام شاگردوں اور کل مریدوں کو کافر اور مرتد کہے گا۔۔۔۔ذرا سوچو تو سہی کہ اگر کسی عالم کے تمام شاگرد جاہل رہیں اور کسی امیر کے مصاحب سب کے سب بدچلن ہوں اور کسی ولی کے مرید کلہم اجمعین فاسق و فاجر ہوں تو کیا اس سے کچھ بدظنی اس عالم اور اس امیر اور اس ولی کی نسبت لوگوں کو نہ ہوگی، بے شک ضرور ہوگی۔۔۔پس اسی طرح پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے کفر و ارتداد پر اعتقاد رکھنا در پردہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں داغ لگانا ہے۔ (ونعوذباللہ من ذالک)


جاری ہے۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
تیسری دلیل:

اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں مبعوث ہوئے کہ لوگ توحید سے منکر ہو گئے تھے، دین ابراہیمیؑ میں تحریفیں کرنے لگے تھے، جانوروں کی طرح آپس میں لڑتے اور وحشیوں کی مانند باہم جھگڑتے تھے، علم اور حکمت سے بے بہرہ ہو گئے تھے، اخلاق حسنہ کو چھوڑ کر جاہلانہ رسموں کے پابند ہو گئے تھے۔ چنانچہ اللہ جل شانہ نے توحید کے بتلانے ، شرک کے چھڑانے، عبادت کے طریقے سکھانے، دین ابراہیمی ؑ کے جاری کرنے، اخلا ق حسنہ کی تعلیم دینے کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت اور رسالت کا مرتبہ دیا اور تمام بنی آدم کی ہدایت کا بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر رکھا اور چونکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خدا کو دوسرا نبی بھیجنا منظور نہ تھا اور سلسلہ نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ختم کرنا منظور تھا، اس لیے جو فضائل اور کمالات اور معجزات جدا جدا اور انبیاء علیھم السلام کو دیے گئے اور جو طریقے ہدایت اور تعلیم کے علیحدہ علیحدہ اور پیغمبروں کو سکھلائے گئے تھے وہ سب حضرت کو سکھائے گئے بلکہ اس نظر سے کہ کوئی فرقہ ، کوئی گروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان نبوت سے محروم نہ رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور تعلیم سے مثل اور بعض نبیوں کے بے اثر نہ ہو جائے اور کسی کو کوئی عذر ایمان اور اسلام لانے پر باقی نہ رہے اور کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے انکار کرنے کا موقع نہ ملے وہ معجزات حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے گئے جو کسی نبی کو نہیں دیے گئے اور ان ان باتوں کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی کہ اور کسی پیغمبر کو نہیں دی گئی۔ اس واسطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا اثر جلد اور کامل ہوا اور کچھ ایک ہی ذریعہ سے نہیں بلکہ مختلف ذریعوں سے لوگوں نے ایمان کو قبول کیا ۔ جو فصحاء اور بلغاء مشہور تھے وہ قرآن مجید کی فصاحت دیکھ کر قائل ہو گئے اور جو لوگ علم و حکمت کا دعویٰ کرتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکیمانہ تعلیم دیکھ کر معتقد ہو گئے، جو اشخاص معجزے کے طالب تھے وہ معجزات دیکھ کر ایمان لائے، جو لوگ شجاعت اور مردانگی میں مشہور تھے وہ میدان جنگ میں تاب مقابلہ نہ لا سکے ، آخر مغلوب ہو کر مطیع بن گئے اور جو غرض اللہ جل شانہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے تھی کہ دین اسلام تمام دنیا میں پھیل جائے اور باطل دینوں پر غالب ہو جائے ، وہ حاصل ہو گئی۔ لیکن یہ فائدہ جو بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا ، صرف اہل سنت کے اصول کے مطابق ثابت ہوتا ہے اور موافق اصول مذہب شیعہ کے ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ جو لوگ حضرت کے سامنے ایمان لائے جب ان کی نسبت یہ اعتقاد کیا جائے کہ ایمان اور اسلام میں کامل تھے اور دل سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے معتقد تھے اور مرتے دم تک اس پر ثابت قدم رہے تو یہ امر البتہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے جو غرض تھی حاصل ہو گئی، مگر جب ان کی نسبت یہ خیال کیا جائے کہ وہ ظاہر میں مسلمان تھے اور باطن میں (عیاذاً باللہ) کافر یا حضرت کی وفات کے بعد ہی مرتد ہو گئے تو کس کے منہ سے یہ بات نکل سکتی ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے کچھ فائدہ ہوا؟

حقیقت یہ ہے کہ جو اعتقاد شیعوں کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نسبت ہے اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر الزام آتا ہے اور سننے والے کو مذہب اسلام پر شبہ ہوتا ہے، اس لیے کہ جب کوئی اس امر پر یقین کرے کہ جولوگ حضرت پر ایمان لائے ان کے دلوں پر کچھ اثر ایمان اور اسلام کا نہ تھا اور وہ صرف ظاہر میں مسلمان اور (عیاذباللہ) باطن میں کافر تھے یا حضرت کے انتقال کرتے ہی وہ اس سے پھر گئے، وہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کر نہیں سکتا اور کہہ سکتا ہے کہ اگر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی ہوتے تو کچھ نہ کچھ ان کی ہدایت میں تاثیر ہوتی اور کوئی نہ کوئی دل سے ان پر ایمان لایا ہوتا اور مجملہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے جو ان پر ایمان لائے سو دو سو آدمی تو ایمان پر ثابت قدم رہتے۔ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمہارے عقائد باطلہ کے موافق اسلام اور ایمان میں کامل نہ تھے تو پھر وہ لوگ کون سے ہیں جن پر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا اثر ہوا ، اور وہ کتنے ہیں جن کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے فائدہ ہوا۔ اگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم معدودے چند کے سوا بقول تمہارے سب کے سب (عیاذاً باللہ) منافق اور مرتد تھے تو دین اسلام کو کس نے قبول کیا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تلقین سے کس کو نفع پہنچا، کن لوگوں نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے شرک چھوڑ کر توحید پر اعتقاد کیا، کن شخصیتوں نے عبادت کے طریقوں کو سیکھا، کس گروہ نے دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو جاری کیا، کس فرقے نے ایمان کو پھیلایا؟

اے یارو! تم کو تو اس کا نام لینا ور پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار ظاہری بھی نہ کرنا چاہیے۔ اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں میں سو دو سو، ہزار دو ہزار کو تم کافر کہتے یا ان لوگوں کو جو بعد غلبہ اسلام کے مسلمان ہوئے، تم منافق جانتے تو صبر آتا مگر افسوس تو اسی بات پر آتا ہے کہ تم انہی لوگوں پر اعتراض کرتے ہو جو سب سے پہلے اسلام لائے اور انہی کو منافق بتلاتے ہو جنہوں نے خدا کے دین کو جاری کیا اور ان ہزاروں لاکھوں آدمیوں میں سے جو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے سوائے چار چھ شخصیتوں کے کسی کو اچھا نہیں کہتے ہو، بھلا کیوں کر ایسے عقیدے پر تعجب نہ آئے اور کیوں کر تمہاری اس گمراہی پر افسوس نہ ہو۔

جاری ہے۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
چوتھی دلیل:

ہم لوگ کیا شیعہ اور کیا سنی، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو افضل ترین سعادت اور بہترین قربات سے سمجھتے ہیں۔ اور چونکہ اب زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا نہیں ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھ لینے کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور کی خاک آنکھوں میں لگانے کو غنیمت جانتے ہیں اور اسی کو بہترین سعادت سمجھتے ہیں اور اگر کوئی شخص خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو جاتا ہے تو وہ بڑے بزرگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور حقیقت میں جب تک کوئی شخص نہایت ہی نیک اور مخلص اور پرہیزگار نہیں ہوتا وہ خواب میں بھی سعادت زیارت سے مشرف نہیں ہو سکتا، پس نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہم ان لوگوں کی بزرگی اور فضیلت کا کچھ بھی اعتقاد نہ کریں جو برسوں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرتے رہے اور رات دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں حاضر رہے۔اور ہر لحظہ اور ہر ساعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوئے اور ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کلام رہے اور نہ صرف زیارت اور صحبت کی سعادت پائی بلکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غم اور خوشی میں شریک رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاری اور مددگاری اعلاء کلمۃ اللہ میں کرتے رہے۔ ابیات:

از وطنہا مہاجرت کرند
برالم ہا مصابرت کردند
در سفر ہمرکاب او بودند
در حضر ہم خطاب او بودند
ہمہ آثار وحی دیدہ ازو
ہمہ اسرار دیں شنیدہ ازو
بانبی در شدائدو اہوال
بذل ارواح کردہ و اموال
پایہ دیں بلند ازیں شاں شد
کار شرع ارجمند ازیشاں شد
رضی اللہ عنہم از سویٰ حق
بہر ایشاں بشارت مطلق

یعنی اپنے وطنوں سے ہجرت کی اور مصیبتوں پر صبر کیا۔
سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور حضر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب رہے۔
ان (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) سے وحی کی تمام علامتیں اور نشانیاں دیکھیں اور دین کے تمام رموز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے۔
مصائب اور پریشانیوں میں اپنے جان و مال کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کیا۔
دین کا پایہ ان حضرات سے بلند ہوا اور شریعت (محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ان سے عزت ملی۔
اور بلا قید و شرط ان کو اللہ کی طرف سے رضی اللہ عنہم (اللہ ان سے راضی ہو گیا) کی خوشخبری ملی۔

غرض کہ صرف زیارت اور صحبت ہی حضرت سید الانبیاء علیہ التحیۃ و الثناء کی ایسی فضیلت ہے کہ کوئی بزرگی اس کو نہیں پاتی نہ کہ جب اس کے ساتھ اور بھی فضائل ذاتی صحابہ رضی اللہ عنہم میں موجود ہوں تو پھر ان کے مدارج اور مراتب کی کیا انتہا ہے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
پانچویں دلیل:

اس امر کو سب مسلمان تسلیم کرتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ اسلام کی ابتدا اور ترقی کے مقام ہیں اور انہیں دو جگہوں کی سب دنیا سے بڑھ کر عزت ہے۔

ایک خدا کا گھر اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد ہے ، دوسرا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر اور مدفن ہے۔ مکہ معظمہ میں اسلام کی بنیاد قائم ہوئی اور مدینہ منورہ میں اس کی ترقی ہوئی اور ان دونوں جگہوں کی ایسی بزرگی ہے کہ کبھی کوئی باطل مذہب ان میں پھر جاری نہ ہوگا اور دجال ملعون کا بھی گزر ان میں نہ ہوگا۔ پس ہم کو غور کرنا چاہئے کہ ان دونوں شہروں کے رہنے والے اب تک صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت کیسا اعتقاد رکھتے ہیں، جو کچھ ان کا اعتقاد ہو اسی کو اصل ایمان سمجھنا چاہیے۔ ۔۔

پس خدا کے فضل سے ان دونوں شہروں کے رہنے والے بلکہ تمام عرب کے باشندوں کا جو اعتقاد صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت ہے وہ ظاہر ہے۔ اگر ہم شیعوں کے موافق یہ کہیں کہ وہ سب کے سب گمراہ ہیں اور باطل اعتقاد پر اب تک قائم ہیں تو اس سے اصل مذہب اسلام پر بڑا الزام آتا ہے کیونکہ خداوند عالم نے جہاں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا اور جہاں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا مدفن بنایا اور جہاں سے اسلام اور ایمان جاری کیا ، انہیں جگہوں کے رہنے والوں کو خدا نے اب تک باطل اعتقاد پر قائم رکھا اور ان لاکھوں کروڑوں آدمیوں کو جو تیرہ سو برس کے عرصہ میں وہاں پیدا ہوئے اور وہاں رہے، گمراہ رکھا۔ اور گمراہی پر ان کا خاتمہ کیا اور ایک مومن کا گزر بھی وہاں نہ ہونے دیا اور اب تک خدائے عزوجل کو وہی اصرار ہے کہ انہی بداعتقادوں سے مکہ اور مدینہ بھرا ہوا ہے اور وہی گمراہی اور ضلالت اب تک تمام عرب میں پھیلی ہوئی ہے اور باوجود گزر جانے اس قدر عرصہ دراز کے ، اب بھی کوئی مومن پاک بغیر تقیہ کے وہاں جانے نہیں پاتا اور اپنے ایمان و اعتقاد کو بخوف اپنی عزت اور جان کے ظاہر نہیں کر سکتا۔ قیامت تو قریب آ گئی، اس دنیا کے دن ختم ہونے کے نزدیک ہو گئے لیکن خدا ان ظالموں اور بداعتقادوں سے اپنے گھر، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو پاک نہیں کرتا اور مومنین سے ان شہروں کو آباد نہیں فرماتا اور گمراہوں کو ایسی پاک جگہ سے نہیں نکالتا، اگرچہ اس قدر زمانہ نبوت کا دور ہوتا گیا اور اسلام میں ضعف آتا گیا، شیعوں کو مذہب ترقی پاتا گیا اور ان کے عقائد باطلہ کو رواج ہوتا گیا اور اکثر شہروں اور ملکوں میں ان کی حکومت ہو گئی اور بادشاہت اور سلطنت بھی نصیب ہوئی لیکن بایں ہمہ مکہ ، مدینہ اور عرب میں جو دین پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تھا وہی جاری ہے اور جو مذہب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھا وہی اب بھی ہے:

ہست محفل براں قرار کہ بود
ہست مطرب براں ترانہ کہ بود
((محفل اسی طرز پر قائم ہے جیسی تھی اور مطرب (گانے والا) ابھی تک وہی ترانہ گنگنا رہا ہے۔))

ہم حیران ہیں کہ جب مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں اس تیرہ سو برس کے عرصہ میں ایک مسلمان پاک اعتقاد نہ ہوا اور ایسی پاک جگہ میں کسی مومن پاک کا گزر نہ ہوا تو پھر وہ کون سا مقام ہوگا جہاں کے رہنے والے مومن اور مسلمان ہوں گے اور خدا کے گھر اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو چھوڑ کر کس کے گھر میں ایمان والے رہتے ہوں گے۔۔۔؟ اے بھائیو! بغیر اس کے کہ یہ امر قبول کیا جائے کہ اصل دین و مذہب وہی ہے جو مکے اور مدینے کے رہنے والوں کا ہے، کوئی دوسرا علاج نہیں ہے۔

************* تمت *************​
 
Top