• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دل اور دماغ جیتنے والے لوگ

ایم اسلم اوڈ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
965
پوائنٹ
125
دل اور دماغ جیتنے والے لوگ

کیسے کیسے سوال ہیں جو لوگوں کی اس رائے کے بعد پوچھے گئے جس میں اس ملک کی اکثریت نے اپنے مسائل کا حل خلافت میں بتایا۔ کسی نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا یہ قوم ترقی نہیں کر سکتی جو آج بھی چودہ سو سال پرانے خوابوں میں زندہ ہو۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ کتنی صدیاں گزر چکی ہیں، کوئی تاریخ کے قصے لے بیٹھا، دیکھو یہ لوگ کیسی بے خبری میں زندہ ہیں۔ انہیں علم ہی نہیں کہ یہ جس خلافت راشدہ کے خواب دیکھتے ہیں، اس میں صرف پہلا خلیفہ طبعی موت سے ہمکنار ہوا، دو کو مسجد میں شہید کیا گیا اور ایک کو اس کے گھر میں، آخری خلیفہ کے دور میں تو مسلمان آپس میں دست و گریبان ہو گئے تھے۔ کشت و خون کا بازار گرام ہو گیا تھا۔ دو جنگیں تو بہت شدید تھیں۔ ہزاروں مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں جاں دے گئے۔ پھر بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ خلافت میں ان کے مسائل کا حل ہے۔ انہیں علم ہی نہیں کہ دنیا کتنی ترقی کر چکی ہے۔ طرز حکمرانی کے نئے نئے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں۔ انسانوں نے کیسے کیسے ادارے قائم کر لئے۔ حکومتوں کے وسیع سیکرٹریٹ ہوتے ہیں۔ ایک منظم بیورو کریسی ہوتی ہے۔ حکومت چلانے کے لئے مقامی سطح تک ڈھانچہ ہوتا ہے۔ معیشت کا ایک گورکھ دھندا ہے جس میں کرنسی، بینکاری، بجٹ، زرمبادلہ اور کئی ایسے معاملات ہیں جن میں خلافت کے زمانے کی سادگی نہیں چلتی بلکہ ایک مخصوص علم میں مہارت درکار ہوتی ہے۔ قانون کا علم بھی تو اب سائنس کا درجہ حاصل کر چکا ہے، عدالتیں ہیں، قوانین ہیں، ان قوانین کی بنیاد پر کیس لاء ہے جو ایک عالمی علم بن چکا ہے، فوج ہے، سرحدیں ہیں، دفاعی نظام ہے، تعلیم اور صحت کے پیشہ ورانہ ادارے ہیں۔ یہ سب ایک جدید ترین علم بن چکا ہے۔ اب کہاں وہ صدیوں پرانا سادہ سا معاشرہ اور کہاں آج کے الجھے ہوئے مسائل، کوئی ان لوگوں کو سمجھائے، ماضی میں الجھے رہنے سے ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے، وقت کے ساتھ ترقی کرنا سیکھیں۔ کچھ دردمند ایسے بھی تھے جو خلافت راشدہ کے حق میں رائے دیکھ کر خوش ہوئے لیکن پھر تشکیک کا شکار ہوتے ہوئے سوال کرنے لگے کہ اس نظام کو آج کی دنیا میں کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے؟
میرے یہ عظیم دانشور اور پڑھے لکھے لوگ بھی عجیب ہیں۔ دنیا بھر کے نظاموں کا تذکرہ کریں گے تو اس کے سسٹم، قانون اور لوگوں کو دی جانے والی سہولیات کا جائزہ پیش کریں گے۔ شہری ریاستوں والے یونان کا ذکر ہو گا تو وہاں رائج جمہوری اقدار کو فخر سے بیان کریں گے لیکن سقراط کے زہر کے پیالے سے موت اور جرنیل لیڈر کے مظالم کا ذکر نہیں کریں گے۔ ریاستوں کی آپس میں جنگوں اور ایک عورت ہیلن کے بدلے ٹرائے کے قتل عام کو الگ رکھ دیں گے اور یونان کی جمہوریت کو دنیا بھر کی جمہوریتوں کی ماں بتائیں گے اور اسے ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کریں گے۔ روم کے سینٹ اور اس میں جمہوری بحث و مباحثہ کو پارلیمنٹ کی بنیاد بتائیں گے لیکن نہ تو مفتوحہ علاقوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا تذکرہ کریں گے اور نہ رومن کھیلوں میں بھوکے درندوں کے سامنے مضبوط جسم والے غلاموں کو پھینکنے کی بات سامنے لائیں گے۔ نوشیرواں کے عدل کے قصے سنائیں گے لیکن کوئی گلا پھاڑ کر یہ نہیں کہے گا کہ کس نوشیرواں کی بات کرتے ہو جو اپنے سو کے قریب بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر بادشاہ بنا تھا۔ اشوک کے نظام کی ایک ایک تفصیل کتابوں میں درج کریں گے۔ اس کے جانوروں پر ظلم کے خلاف بنائے گئے قوانین کو سراہیں گے، اس کے چٹانوں پر کنندہ عدل اور انصاف کے اصولوں کو رہنما اصول بتائیں گے لیکن کوئی یہ نہیں کہے گا کہ اس نے کلنگا کی جنگ میں دس لاکھ لوگوں کو قتل کیا تھا۔ امریکہ کے آئین، اس کی جمہوریت اور اس کے سات بابائے قوم کے اصولوں پر قائم حکومتی ڈھانچے کا ذکر کریں گے لیکن اس جمہوریت کے تحت جنوبی ریاستوں میں غلاموں سے بدترین سلوک اور پھر ابراہیم لنکن کی ان کے خلاف جنگ کو الگ رکھ دیں گے۔ یہ سب لوگ خلافت راشدہ میں دیئے گئے اصولوں اور طرز حکمرانی کا تذکرہ نہیں کرتے بلکہ انہیں خلفاء کی شہادت اور جنگ جمل اور جنگ صفیں کے چند مہینے یاد رہ جاتے ہیں اور وہ یہ کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں کہ یہ کوئی نافذ العمل نظام نہیں جس میں خونریزی ہی خونریزی ہو۔ اگر خونریزی ہی کسی نظام کی ناکامی کی وجہ ہے تو دنیا میں جمہوریت اپنی موجودہ شکل میں 1900ء کے بعد آئی جب ریاست سے مذہب کو علیحدہ کر دیا گیا۔ انہی جمہوری حکومتوں نے رنگ، نسل اور علاقے کی بنیاد پر دو عظیم جنگیں لڑیں اور کروڑوں لوگوں کا خون بہایا۔ ہٹلر، چرچل اور روزویلٹ تینوں اپنے ملکوں میں بھاری اکثریت سے جیتے تھے۔ لیکن کوئی ان درندہ صفت انسانوں کی وجہ سے جمہوری نظام کو گالی نہیں دیتا، کوئی اسے ناقابل عمل نہیں سمجھتا۔
خلافت راشدہ نے جو نظام اس دنیا کو عطا کیا وہ دراصل اللہ کی آخری الہامی کتاب قرآن پاک کے اصول حکمرانی کے مطابق تھا جسے ایک دستور کی حیثیت حاصل تھی۔ دنیا بھر کے ملکوں کے دستور اٹھا کر دیکھ لیجئے، ان میں اصول حکمرانی بتائے جاتے ہیں، حقوق کا تعین کیا جاتا ہے، ذمہ داریوں کی تفصیل بتائی جاتی ہے۔ لیکن ان تمام اصولوں پر ایک مفصل طرز حکمرانی اور طریق کار کا تعین وہ لوگ کرتے ہیں جو حکومت پر فائز ہوتے ہیں۔ آیئے اس کسوٹی پر خلافت راشدہ کو پرکھ کر دیکھیں۔ دنیا بھر میں ان سے پہلے بھی اور ان کے دور میں بھی بڑے ممالک میں ایک مضبوط بیورو کریسی اور افسران کی فوج ظفر موج جو حکومت چلاتی تھی چین، ایران اور روم کی حکومتوں سب میں ایک عظیم الشان انتظامیہ تھی۔ عام ضلعی حکمران سے لے کر وزرائے اعظم تک۔ لیکن دنیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں یہ خلفاء وہ واحد حکمران تھے جنہوں نے کسی بھی قسم کی بیورو کریسی، سیکرٹریٹ اور وزارتوں کے بغیر ایران اور روم کی دو بڑی سلطنتوں کو فتح کیا اور ان کا نظام بھی چلایا۔ یہ دنیا میں اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم (Devolution کا پہلا اور سب سے بڑا تجربہ تھا۔ اس لئے کہ بصرہ، یمن، مصر یا کسی اور جگہ کا حاکم ابو بکر یا عمر کو نہیں بلکہ اللہ کو جوابدہ ہوتا تھا۔ خلفائے راشدین سے پہلے تاریخ میں عدلیہ کی بالادستی کی کوئی بھی مثال نہیں ملتی۔ لوگ بادشاہوں ہی سے اپنے فیصلے کرواتے تھے لیکن خلفائے راشدین نے ہر علاقائی حاکم کے اوپر ایک قاضی مقرر کیا جو یہ دیکھے کہ یہ گورنر یا حاکم کہیں بے انصافی تو نہیں کر رہا۔ پھر مرکزی سطح پر قاضی القضاۃ جس کی عدالت میں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ بھی پیش ہوئے تھے۔ اس خلافت سے پہلے دنیا نے کبھی بھی سوشل سکیورٹی کا یہ تصور نہیں دیکھا تھا کہ بچہ کے پیدا ہونے سے دودھ چھوڑنے تک وظیفہ مقرر کیا جائے۔ آج بھی مغرب میں اسے عمر لاء کے نام سے نافذ کیا گیا ہے۔ زمین کے بارے میں حق ملکیت اور اس پر مزارعت سے ممانعت کے قانون بھی پہلی دفعہ اسی دور میں آئے اور الارض للہ یعنی زمین اللہ کی ملکیت ہے، کا تصور پیش ہوا۔ اسی لئے دجلہ و فرات فتح ہونے کے باوجود کوئی جاگیردارنہ بنا اور نہ کسی فوجی جرنیل کو زمینیں الاٹ ہوئیں۔
میں ایک ایک تفصیل بیان کر سکتا ہوں، یہ ایک ایسا نظام تھا جس میں نہ کوئی سرخ فیتے والی بیوروکریسی تھی اور نہ وزیروں کی فوج ظفر موج۔ خلافت کے اس نظام کی یہ اصلاحات جو اس نے دنیا میں پہلی دفعہ متعارف کروائیں۔ آج دنیا بھر کی حکومتوں میں مشعل راہ سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں ان خلفاء کا کمال نہیں تھا بلکہ یہ سب میرے اللہ کے دیئے گئے اصول حکمرانی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں خلفائے راشدین نے نظام حکومت چلایا وہاں لوگ اپنی ثقافت، تہذیب، اقدار اور روایات حتیٰ کہ اپنی مادری زبان تک بھول کر اسلام کے رنگ میں رنگ گئے۔ عراق، شام، لبنان، اردن، مصر، لیبیا، تیونس، مراکش، سوڈان ان تمام ممالک میں کبھی عربی نہیں بولی جاتی تھی لیکن آج یہ سب عرب دنیا کہلاتے ہیں۔ ان سے پوچھو ان کے آبائواجداد کی زبان کیا تھی؟ ثقافت کیا تھی؟ تہذیب کیا تھی؟ انہیں یاد تک نہ ہو گا۔ وہ صرف عرب ہیں اور مسلمان ہیں۔ کیا دنیا میں کوئی فاتح قوم ایسی مثال دے سکتی ہے جہاں زمینیں نہیں، دل بھی فتح ہو گئے ہوں۔
(بشکریہ، ایکسپریس 12-03-11)

کالم نگار ۔۔۔ اوریا مقبول جان
والسلام علی اوڈراجپوت
ali-oadrajput
_______________
 
Top