• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دم،تعویذ گنڈوں کے بارے میں شرعی احکام'

مہوش حمید

مبتدی
شمولیت
اگست 31، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
19
دین اسلام ایک جامع مذہب اور کامل ضابطہ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کےلیے ہر سمت ہدایت کی راہیں ہموار کرتا ہے۔جتنے انبیاء کرام دنیا میں آئے ان سب نے سب سے پہلے توحید کا درس دیا۔ایک اللہ کی طرف بلایا ۔بہت سے لوگ ایمان بھی لائے یہ سلسہ نبیّ پہ آکر ختم ہوا۔آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد انسان ایک بار پھر شرک کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ ۔اللہ نے انسان اور جنوں کو اس لیے پیدا فرمایا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں ۔اور اس کے کسی\ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ شرک صرف یہ ہی نہیں کہ انسان اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنا لے بلکہ آج شرک ہمارے عقائد ہماری رسم و رواج میں بھی سما چکا ہے۔
ہمارے معاشرے میں آج کل دم کے نام پہ تعویذ گنڈے کرائے جاتے ہیں جس میں شرک کا عنصر چھپا ہوا ہوتا ھے۔جبکہ ان کی شرعی حقیقت کیا ہے؟ان کے بارے میں اللہ کے رسول نے کیا فرمایا؟
عبداللہ بن مسعود رض سے روایت ہےوہ کہتے ہیں کہ میں نے نبیّ کو فرماتے ہوےسنا کہ جھاڑ پھونک تعویذ اورحب کے اعمال[اس سے مراد شیطانی عمل ہے}سب شرک ہے۔{مسند احمد }۳۸۱/۱
ابو داود میں یہ واقعہ ان الفاظ میں منقول ہے۔
عبداللہ بن مسعود رض کی بیوی سیدہ زینب رض فرماتی ے کہ ایک دفعہ میرے شوہر عبداللہ رض نے میری گردن میں ایک دھاگہ دیکھا اور پوچھنے لگے یہ دھاگہ کیسا ہے ؟میں نے عرض کی یہ دھاگہ مجھے دم کرکے دیا گیا ہے۔یہ سنتے ہی انھوں نے وہ دھاگہ میری گردن سے کاٹ پھینکا اور کہا تم عبداللہ رض کاخاندان ہو تم شرک سے بے نیاز ہو میں نے آپّ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جھاڑ پھونک تعویذ اور حب کے اعمال شرک ہے۔میں نے عرض کی میری آنکھ میں چبھن محسوس ہوتی تھی چناچہ میں فلاں یہودی کے گھر دم کرانے جایا کرتی تھی اس کے دم کرنے سے مجھے سکون سا ہوجایا کرتا تھا ۔سیدنا عبداللہ رض بولے یہ شیطانی عمل ہے۔وہی اپنے ہاتھ سے چبھن کرتا تھا اور جب دم کر دیا جاتا تو اپنا ہاتھ روک لیتا۔لہذا تمھارے لیے اس طرح کہہ دینا کافی تھا جسطرح رسولّ فرماتے تھےکہ
اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لا شفاء الا شفاءک شفاء لا یغادر سقما۔
ترجمہ؛اے کائنات کے پروردگار تکلیف کو دور فرمادے اور تیری شفاء ہی دراصل شفاء ہے شفا عطا فرما کیوں کہ تو ہی بخشنے والا ہے ایسی شفا عطا فرما جس کے بعد کسی قسم کی تکلیف نہ رہے۔{سنن ابی داود حدیث نمبر ۳۸۸۳
اسکا مطلب یہ نہیں کہ دم کرناغلط ہے بلکہ رسولّ نے بھی خود دم کیا اور آپّ کو دم کیا بھی گیا ہے۔اور آپّ نے اسکی اجازت ہی نہیں دی بلکہ دم کرنے کا حکم بھی دیا ہے اگر دم قرآنی آیات پہ مشتمل ہے تو جائز پے۔البتہ اس دم کی ممانعت ہے جو عربی زبان میں نہ ہو کونکہ اکثر اوقات عربی الفاظ کفریہ ہوتے ہےیا ایسے الفاظ پہ مشتمل ہوتے ہیں جس میں شرکیہ کلمات پائے جاتے ہے
علمائے امت کا اس با ت پہ اتفاق ہے ایسا دم جس میں درج ذیل ۳ شرائط پائی جائے وہ دم جائز ہے۔
۱] وہ دم جو کلام اللہ ،اسماء اللہ، یا اس کی صفات پہ مبنی ہو ۔
[۲] وہ دم جو عربی زبان میں ہو ،اسکے معنی بھی واضح اور مشہور ہو اور شریعت کے مطابق ہوں۔
[۳] یہ کہ دم کرنے والا اور کروانے والا یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ دم خود کوئی بااثر چیز نہیں بلکہ سارا معاملہ اللہ کی تقدیر سے وابستہ ہے اگر اللہ نے چاہا تو اثر ہو گا۔
یعنی دم کرنا جائز ہے بشرتیکہ وہ شرکیہ نہ ہو خود نبیّ جب رات سونے کےلیے بستر پہ جاتے تو اپنے پرسورۃ الفلق، الناس، اور الاخلاص پڑھ کہ اپنے ہاتھوں پہ پھونکتے اور اسے تمام جسم پہ پھیر لیتے جب آپّ بیمار ہوئے تو حضرت عائشہ رض آپّ پہ دم کرتی تھیں اور برکت کے لیے آپّ کا ہاتھ آپّ کے جسم مبارک پہ پھرتی تھیں ۔
تو ایسا دم کرنے میں کوئی قباحت نہیں جو قرآنی آیات پہ مشتمل ہو۔
حضرت عبد اللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ نبیّ نے فرمایا جس شخص نے اپنے گلے یا بازو میں کوئی تعویذ یا دھاگہ لٹکایا ۔تو اس کی ذمہ داری اسی دھاگے تعویذ کے سپرد کر دی جاتِی ہے۔
[سنن ابی داود حدیث نمبر:۳۸۸۳]
حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص بھی کوئی تعویذ لٹکائے یا دھاگہ با ندھتا ہے تو وہ حقیقتا غیر اللہ سے تعلق
جوڑتا ہے اور تعویذ دھاگے اور جادو ٹونے سے جس نے وابستگی اختیا ر کرلی تو اللہ تعالی ایسے شخص کو اسی اشیاء کے سپرد کر دیتا ہے ۔اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔ اور اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔
اور جس شخص کے دل کا تعلق اللہ کے ساتھ استوار ہو گیا ۔اور اس نے اپنی تمام حاجات کی ذمہ داری اللہ پہ ڈا ل دی اللہ کی طرف ہی رجوع کیا اور تمام معاملات اللہ کے سپرد کر دیے ۔تو اللہ تعالی اس کی تمام ضررویات کو خود پورا کرنے کا ذمہ لے لیتا ہے ۔اس کی تمام حاجات کا خود کفیل بن جاتا ہے۔
سعید بن جبیر رض اللہ عنہ کہتے ہیں ۔رسولّ نے فرمایا " جو شخص کسی کے گلے سے تعویذ وغیرہ کاٹ دے تو اس کو ایک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔" [مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر ۳۵۲۴۔ و حدیث نمبر،۳۵۱۸]
ان تمام حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف اللہ کے آگے سر کو جھکایا جائے ۔کوئی بیماری یا تکلیف جو بھی انسان پہ آتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے ۔ اللہ ہی کے حکم سے شفاء ملتی ہے۔اس لیے بجائے غیر شرعی عمل کرکے اللہ کو ناراض کیا جائے ۔ تو اللہ کو ہی پکارا جائے اس کے آگے اپنی تمام حاجت اور پریشانی رکھی جاے اللہ سے جیسا جو گمان رکھے گا اللہ کو ویسا ہی پا ئے گا،۔
ا براہیم بن نخعی کوفی ر۔ح فرماتے ہیں ۔بہت سے علماء کرام فقہاء تعویذات کو وہ قرآن کی آیات پہ مشتمل ہوں یا غیر قرآن، پر مکروہ قرار دیتے ہیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو اس کی ہر حال میں اطاعت کرنے والا بنا دے اور ہر معاملے میں اپنی طرف رجوع کرنے والا بنا دے ان تمام غیر شرعی عمل کرنے سے بچائے۔ امین۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رہے کہ قرآنی تعویذ شرک نہیں ہے ،جس کا ذکر حدیث وہ قرآنی تعویذ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد شرکیہ تعویز ہے

اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رہے کہ قرآنی تعویذ شرک نہیں ہے ،جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے وہ قرآنی تعویذ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد شرکیہ تعویز ہے
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رہے کہ قرآنی تعویذ شرک نہیں ہے ،جس کا ذکر حدیث وہ قرآنی تعویذ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد شرکیہ تعویز ہے

یہ بات آپ نے کہاں سے نکالی؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
میری بات کا مقصد یہ ہے کہ کچھ لوگ قرآنی آیات کا تعویذ بنا کر استعمال کرتے ہیں وہ غلط ہے۔قرآنی آیات کا پڑھنا نہیں
غلط ہونے اور شرک ہونے میں بہت فرق جناب
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
بھائی پہیلیوں سے بہتر ہے کہ آپ اپنی بات کی واضح الفاظ میں وضاحت کر دیں۔۔
غلط کی کیا وجہ ہے ؟؟ اور شرک جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تو پھر قرانی تعویذ کے استثناء کی کیا وجہ؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
بھائی پہیلیوں سے بہتر ہے کہ آپ اپنی بات کی واضح الفاظ میں وضاحت کر دیں۔۔
غلط کی کیا وجہ ہے ؟؟ اور شرک جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تو پھر قرانی تعویذ کے استثناء کی کیا وجہ؟؟
تمیمہ کا معنی تعویذ نہیں ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
تمیمہ کا معنی تعویذ نہیں ہے
آپ اس کو صرف غیر مسنون کہہ سکتے ہیں شرک نہیں کہہ سکتے کیوں کہ قرآنی تعویذ کو شرک کہنے کے لیے دلیل درکا ر ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ایسا دھاگہ باندھنا جس پر قرآنی آیات پڑھی ‎گئیں ہوں۔

کیا یہ جائز ہے کا ہم دھاگہ وغیرہ پر قرآن پڑھ کر بچے کی کلائی پر باندھیں تاکہ وہ نظر بد اور بیماریوں سے بچا رہے؟

یا اس کے بدلہ میں قرآنی آیات لکھ کر اسے کسی معدنیاتی تعویذ میں بند کرکے مسلمان کی کلائی کے گرد باندھنا جائز ہے تاکہ نظر بد اور مصائب سے بچا جاسکے؟
یہ دونوں کام ہمارے رہائشی محلہ میں لوگ کثرت سے کرتے ہیں۔ اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ کام انکے محلہ کی مسجد کا امام سر انجام دے۔ اور میں اپنے بچے کے لئے یہ کام اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک کہ اسکا کوئی شرعی اور قابل قبول سبب نہ ہو۔ امید ہے کہ آپ حقیقت تک پہنچنے کے لئے میری مدد کریں گے۔

الحمدللہ

یہ دھاگے اور پٹے وغیرہ باندھنے جائز نہیں ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(جس نے تعویذ لٹکایا اللہ تعالی اسکے کام کو پورا نہ کرے)

اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

(جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپرد کردیا گیا۔)
اور فرمایا (جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا)

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کاٹنے کا حکم دیا جیسا کہ حدیث میں ہے عمران بن حصین کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں پیتل کا ایک کڑا تھا تو اسے کہا کہ یہ کڑا کیسا ہے؟ تو اس نے کہا کہ یہ کمزوری کی وجہ سے ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اتار دے کیونکہ یہ تیری بیماری اور کمزوری میں اور اضافہ کرے گا۔
اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ .

الشیخ ولید الفریان۔


http://islamqa.info/ur/11788
 
Top