• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دنیاکےبدلتےنظریات اورنظریہ پاکستان کا تاریخی پش منظر ( از قلم : ظفر اقبال ظفر )

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
(ظفر اقبال ظفر )
دنیاکےبدلتےنظریات اورنظریہ پاکستان کا تاریخی پش منظر
یہ ملک جو اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور امانت ہے اس پر حکمرانی بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہونی چاہیے ۔اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں انبیاء و رسل کو مبعوث فرما کر اس دنیا میں طاغوتی اور باطل نظاموں کی جڑوں کو کاٹنے اور تمام انسانوں کو اللہ وحدہ لا شریک کی اطاعت و فرما بر داری میں لگانے اور اس روح زمین سے اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوتوں اور سر کشیوں اور شرک و بدعت و ضلالت و گمراہی کے اندھیروں سے انسانیت کو نکال کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا مشن دے کر اس دنیا میں بھیجا ۔آدم علیہ السلام سے لے کر نوح علیہ السلام تک ‘حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہ السلام سے لے کر نبی اکرم ﷺ تک تمام انبیاء اکرام نے جب بھی اللہ کی وحدانیت کی قوم کو دعوت دی اور شرک و بدعت سے باز رہنے کی تلقین کی تو شیاطین جو جنوں اور انسانوں کی صورت میں ہوتے وہ دشمن بن جاتے اور ان کو طرح طرح کی سزائیں دی جاتیں۔ جیسے فرعون ‘ قارون و ہامان اور ابو لہب و ابی بن کعب وغیرہ اور پھر صحابہ کے خلاف روافض و منافین اور مشرکین نے اعلان بغاوت کر دیا اور اللہ کی وحدانیت کا اعلان کرنے والوں کو اس اللہ کی سرزمین پر قتل کرنے لگے اور باطل و طاغوت باہم اللہ کی وحدانیت کا اعلان کرنے والوں کے خلاف متحد ہو گئے اور فساد فی الارض اور دہشت گردی و فتنوں کے ذریعے مسلمانوں اور موحدین کا جینا دوبھر کر دیا گیا۔
انبیا و رسل کو مبعوث کرنے کا مقصد باطل نظاموں کا خاتمہ اور اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں کو اس کی وحدانیت کی طرف دعوت دینا تھا جو کہ اتفاق و اتحاد اور امن و سلامتی کی علامت ہے ۔ نبی کریم ﷺ کو مکہ سے نکالنے کی بس ایک ہی وجہ تھی اور وہ یہ تھی کہ باطل نظاموں کا خاتمہ اور اللہ کی وحدانیت کے نظام کو نافذ کرنا ۔ نبی کریم ﷺ نے اس منہج اور مشن سے کسی صورت پیچھے ہٹنے کا سوچا تک نہیں تھا ۔ اگرچہ باطل نظاموں کے مقابلے میں کمزور تھے مگر اللہ کا حکم تھا اور اس پر یقین محکم تھا کہ اللہ مدد کرنے والا ہے۔اس طر ح نبی کریم ﷺ اپنے مشن میں بہت تھوڑے وقت میں کامیاب ہوئے اور مکہ کو فتح کر کے اس مکہ پر اللہ کے نظام کو نافذ کیا جہاں سے ان کو نکالا گیا تھا ۔ اللہ کے حکم کی تکمیل ہوئی اور اپنے مشن میں کامیاب ہوئے ۔ اس طرح خلفاء راشدین سے لے کر آئمہ سلف اور محدثین تک تمام کو ان کےمشن جو یہ تھا کہ اس دنیا میں اللہ کی وحدانیت کے نظام کو نافذ کیا جائے سزائیں بھی دی گئی اور ان کو قتل بھی کیا گیا ۔مگر وہ اپنے مشن کو کسی صورت ادھورا چھوڑ کر نہیں گئے بلکہ باطل کو دھول چٹا کر اللہ کے نظام کے سامنے باطل کو جھکنے پر مجبور کیا اور اپنی مراد کو پہنچے ۔
برصغیر پاک و ہند جو شرک و بدعت اور خرافات ‘ اللہ کی نافرمانی اور بغاوت میں اس حد تک گر چکا تھا کہ انسانیت تھی نہ خدا کا نام لینے والا کوئی تھا ۔ ا صحابہ کے دور میں اسلام نے اپنے قدم رکھے اور مسلمان ایک ہزار سال تک اللہ کی وحدانیت کا اعلان کرتے رہے ۔ مگر اپنوں کی بد اعمایوں اور اللہ کی بغاوت پر اتر آنے کی وجہ سے مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ اسلامی دور کا خاتمہ ہوتا ہے اور اللہ کے نظام کی جگہ خواہش نفس و غیر اللہ کے باطل نظاموں نےجگہ لے لی ۔ عیاشی و غفلت ‘ شراب نوشی اور زنا کاری کے عادی ہونے اور اللہ کی نافرمانی اور بغاوت کی وجہ سے اللہ نے یہاں کے مسلم حکمرانوں پر باطل و طاغوت کو بطور آزمائش اور عذاب مسلط کر دیا اور پھر باطل نے اپنے نظامو ں کا جب نفاذ شروع کیا تو یہ سر زمین انہیں مسلمانوں پر تنگ کر دی گئی اور پھر وہ اپنے کیے پر پش مان ہوئے مگر اس پشیمانی نے فائدہ نہ دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کی نئی لہر نے زور پکڑا کسی کو کالے پانیوں کی اور کسی کو تخت دار پر لٹا دیا گیا جن جرم صرف اللہ کی وحدانیت کے نفاذ کا اعلان اور عزم تھا ۔
جب انگریز نے آپنا ظالمانہ نظام نافذ کرنا شروع کیا تو طب اس کے نظام سے تنگ آ کر مسلمانوں میں ایک نیا جذبہ پیدا ہوا کہ اب ہر صورت انگریز کے ظالمانہ نظام سے نجات حاصل کرنی ہے ۔ دوسری طرف ہندو بھی یہی سوچ رہا تھا کہ ہندوستان میں صرف ہندو کی حکومت ہو اور مسلمان کسی صورت کامیاب نہ ہو ں۔یعنی انگریز کے نظام سے ہندو مسلم سب تنگ آ چکے تھے ۔تب ہندو میں ایک آزادی کی تحریک گانرس کے نام سے شروع ہوئی اور مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لیے ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ لگا دیا ۔ مگر تھوڑے ہی وقت میں مسلمانوں نے ہندو کی چال کو سمجھا اور متحد ہو کر ہندو اور انگریز کے خلاف بقائدہ تحریک آزادی کا آغاز کیا گیا اور ایک مسلم ریاست کے حصول کا تصور پیش کیا جہاں مسلمان امن کے ساتھ رہ سکیں اور اپنے مذہب پر آسانی سے عمل کر سکیں ۔
مسلمانوں کی بڑتی ہوئی تحریک آزادی دیکھ کر باطل نظاموں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ مسلمان پھر سے اس برصغیر میں کامیابی کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں اور پھر سے اللہ کے نظام کو غالب ہوتے دیکھ کر مسلمانوں میں سے ذر خریدہ مسلمانوں کو اس تحریک کو کچلنے اور ناکام کرنے کے لیے مشن سونپ دیا گیا ۔ تاریخ شاہد ہے مسلمانوں اور اسلام کو جتنا نقصان خود مسلمانوں نے پہنچایا ہے کسی دوسرے نے نہیں پہنچایا۔ مگر جو قومیں کسی خاص نظریے اور مذہبی جذبے کو بنیادی حیثیت دے کر آزادی کے لیے نکلتی ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی ۔تاریخ شاہد ہے مسلمانوں نے جب بھی مخلصانا کوششیں کی ہیں تو وہ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں ۔اور جو قومیں اپنے نظریے اور مقصد کو فراموش کر دیتی ہیں ناکامی و نامرادی اور غلامی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
انگریز کے طسلت کے بعد مسلمان جو کئی صدیوں تک انفرادی اور کچھ حد تک اجتمائی جدوجہد آزادی کرتے رہے ہیں جب یہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرتے ہے تو انگریز کو ان کی جدو جہد کے سامنے اگرچہ ایک منظم سازش کے تحت ہی سہی مگر ہتھیار ڈالنے پڑے اور دو قومی نظریہ کے پیش نظر تقسیم ہند کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ انگریز برصغیر میں اپنا کنٹرول قائم نہ رکھ سکا کیونکہ برصغیر پر مکمل قبضے کے لیے وسائل نہیں تھے نہ اتنی بڑی فوج تھی اور نام سرحدو کی حفاظت کے لیے کوئی بڑا نظام موجود تھا ۔ خیر انگریز کے کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے بڑی اور چھوٹی ریاستوں میں فسادات پھوٹ پرے اور جگہ جگہ انگریز کے خلاف بغاوتیں کھڑی ہو گئیں جو کو بر وقت انگریز کنٹرول نہ کر سکا جو بڑتی گئیں اور خون ریزی اور خانہ جنگی میں اتنا اضافہ ہوا کہ انگر یز بکھلاہٹ کا شکار ہو گیا پھر کنٹرول کی کوششیں تو اس نے کیں جن کے نتیجے میں قتل و غارت کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ ندی نالے میں پانی کی جگہ خون بہنے لگا۔ مگر انگریز طاقت کے استعمال کی وجہ سے کمزول ہوتا گیا اور قبل و غارت کی وجہ سے لوگوں میں مزید غم و غصہ پیدا ہوتا گیا جس نے لوگوں کو انگریز کے خلاف تحریکیں چلانے اور باہم متحد ہونے پر مجبور کیا اور انگریز ہر طلوع ہونے سورج کے ساتھ اس غروب ہوتا گیا ۔
انگریز اتنی جلدی برصغیر کو چھو ڑنے والا نہیں تھا مگر ہمیشہ سے انگریز کی ایک سازش رہی ہے جس کی بنیاد ایک تو دشمن میں اختلاف پیدا کر کے ان کو آپس میں لڑانا اور دوسرا کسی بھی ملک میں قابض ہونے کے بعد وہاں اپنے ایجنٹ چھوڑ کر وہ خطہ ان کے حوالے کر کے اور بظاہر میں دشمن کو خوش کرنے کے لیے ان کو علامتی قبضہ دے کر راہ فرار اختیار کرنا اور اپنے چھوڑے ہوئے ایجنٹوں سے جو وہاں کے بشندے ہی ہوتے تھے۔ ان کو باہر سے کنٹرول کر کے اپنے مقاصد کو حاصل کرنا ان کی خارجہ پالیسی کا حصہ رہا ہے جس کو نہ اس وقت ہندو نے سمجھا اور نا ہی مسلم قیادت نے سمجھا اور تقسیم کے ایجنڈے پر خوشی ظاہر کر کے ہمیشہ کے لیے باہمی لڑائی اور جنگ کا نا ختم ہونے والا سلسلہ دوبارہ سے شروع کر کے وہ یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوا اور اس برصغیر کو ہمیشہ کے لیے ایک نئی جنگ میں دھکیل کر چلا گیا ۔ آج اسی نا مکمل ایجنڈے کا نتیجہ ہے کہ ہندو ستان اور پاکستان کئی جنگوں سے گزر کر بھی برصغیر میں امن قائم کرنے میں اور باہمی اختلافات کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے اور مشروع دن سی ہی لڑتے آ رہے ہیں ۔ہندو چاہتا ہے کہ برصغیر میں مسلمان اور دیگر مذاہب ہندو کی ملکیت (سر زمین) پر قابض ہیں جس کو چھوڑانا ہمارا حق ہے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت چوکانی پڑے ۔
اگرچہ 14 اگست 1947 کو بطور علامت پاکستان ایک مسلم ریاست کے طور پر وجود میں آ گیا تھا جس کو پاکستان کا نام دیا گیا اور جس کے حصول کا مقد لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ اور دوقومی نظریہ تھا ۔ بد قسمتی سے ہندو آج بھی اپنے نظریے پر قائم ہے اور ہم نے اپنے نظریے کو فراموش کر دیا ۔ جس کے نتیجے میں ہندو نے پاکستان اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو کچلتے ہوئے مسلم ریاستوں میں فوج کشی کر کے قتل عام کیا اور ان پر قابض ہو گیا ۔ بنگلہ دیش اور کشمیر ان ریاستوں میں سے تھیں جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بات کی جس پر اقوام متحدہ نے کہا کہ ان کو حق خودارادیت دیا جائے ۔کیونکہ پاکستان سے الحاف جو دو قومی نظریہ ان ریاستوں کی ایمانی اور نظریاتی ضرورت تھی ۔ مگر مسلم حکمرانوں نے ہمیشہ نظریے سے دھوکا کیا اور اپنی کرسی بچانے کی خاطر ان ریاستوں کو کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے کھو دیا ۔اس کی بنیادی وجہ ہندو اور انگریز کی ساز باز تھی اور انگریز نے مسلمان کو نقصان پہنچایا ان کو وہ اپنا حقیقی دشمن تصور کرتا تھا ۔کیونکہ انگریز کے خلاف جہاد کرنا ان مسلمانوں کا نظریاتی مسئلہ تھا جس سے انگریز سخت پریشان تھا ۔ انگریز اسی وہ بنیاد بنا کر ہندو سے ساز باز کر کے اس کے لیے سہولت کاری کی اور تقسیم کے وقت سے اب تک الکفر ملت واحد کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں اور خاص کر پا کستان کے خلاف کفر متحد ہے ۔
حال ہی میں پاکستان میں اقتدار میں آنے والی پارٹی تحریک انصاف نے پھر سے قوم کو اس نظریے کی طرف علامتی طور پر متحد کرنے کی کوشش کی اور اقوام متحدہ اور عالمی ضمیر کو کشمیر پر اپنی قراردادوں کی روشنی میں قردار ادا کرنے پر زور دیا ۔ حکومت کے کشمیر کے متلقہ موجودہ اقدامات کو ذیل میں ذکر کرتے ہیں ۔
1۔ وزیر اعظم پاکستان نے 27 ستمبر 2019 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب تکرتے ہوئے کہا کہ کشمیر یوں پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ اور کرفیوں ختم کر وا کر ان کو اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارادیت دلوائے ۔
2۔ کشمیر کے موضوع پر تین دفعہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں معاملہ اور آواز کو اٹھایا گیا ۔
3۔نئے سرے سے اقوام متحدہ کی کشمیر کی آزادی کے حوالے سے قرادادوں کو پاس کروانے میں پاکستانی گورنمنٹ کامیاب ہوئی ۔
4۔ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا اور انڈیا کو کشمیر سے کرفیوں اٹھا نے پر اقوام متحدہ کی طرف سے کہا گیا ۔
5۔پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوانے اور کرفیوں ختم کرنے کے حوالے سے اقوام متحدہ کو خط لکھا ۔
6۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کو پاکستان میں دورے کی دعوت دی گئی اور ان کو کشمیر پر بھارتی اقدامت پر بریفنگ دی ۔
7۔ پانچ فروی کو یوم یکجہتی کشمیر سرکاری سطح پر منایا گیا اور پاکستانی وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر جمعہ کے روز ہر بندہ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج کرے اور پورے ملک میں جمعہ کے دن جلسوں اور ریلیوں کا انعقاد کیا جائے۔
8۔ پاکستان وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر پوری دنیا میں پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کیے گئے جن کا مقصد تھا کہ بر وقت کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا اور دنیا کو بریفنگ دینا ۔
9۔ کشمیر کے نقشے کو سرکاری طور پر پاکستانی نقشے میں شامل کر کے نصاب تعلیم کا حصہ بنا دیا گیا ۔
10۔ نئے پاکستانی نقشے کو گوگل میپ میں شامل کیا گیا اور ایک ایک کاپی اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کو بھی بھیجی گئی ۔
 
Top