محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دوبارہ زندہ ہونے کے منکروں کا نظریہ اور اس کا رد
کافروں نے موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار کیا،ان کا خیال ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا ممکن ہے لیکن ان کا یہ گمان باطل ہے،شریعت حس اور عقل اس کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔
شرعی نصوص سے منکرین بعث کا رد
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
زَعَمَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَن لَّن يُبْعَثُوا۟ ۚ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّى لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌۭ ﴿7﴾
تمام کتب سماویہ اس امر پر متفق ہیں۔ترجمہ: جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ وہ (دوبارہ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے۔ کہہ دو کہ ہاں ہاں میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر جو کام تم کرتے رہے ہو وہ تمہیں بتائے جائیں گے اور یہ (بات) اللہ کو آسان ہے (سورۃ التغابن،آیت 7)
حسی دلیل سے منکرین بعث کا رد
اللہ تعالیٰ نے اسی دنیا میں مردوں کو دوبارہ زندگی بخش کر اپنے بندوں کو اس چیز کا مشاہدہ کرادیا ہے ،چنانچہ سورۃ بقرہ ہی میں اس کی پانچ مثالیں مذکور ہیں ،جو درج ذیل ہیں:
• قوم موسی نے جب ان سے کہا کہ اے موسی!ہم تیری رسالت کا ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ،پس اللہ تعالیٰ نے ان کو مار ڈالا،پھر ان کو دوبارہ زندگی بخشی۔اسی واقعہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَإِذْ قُلْتُمْ يَٰمُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى ٱللَّهَ جَهْرَةًۭ فَأَخَذَتْكُمُ ٱلصَّٰعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ﴿55﴾ثُمَّ بَعَثْنَٰكُم مِّنۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿56﴾
• بنی اسرائیل کا ایک شخص ناحق مارا گیا جس کی ذمہ داری بنی اسرائیل میں سے کسی نے قبول نہ کی،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں گائے ذبح کرنے اور اس کے ایک ٹکڑے کو میت پر مارنے کا حکم دیا تاکہ وہ انہیں اپنے قتل کی خبر دے۔اس قصے کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:ترجمہ: اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تیرا یقین نہیں کریں گے جب تک کہ روبرو الله کو دیکھ نہ لیں تب تمہیں بجلی نے دیکھتے ہی دیکھتے آ لیا پھر ہم نے تمہیں تمہاری موت کے بعد زندہ کر اٹھایا تاکہ تم شکر کرو (سورۃ البقرہ۔آیت 55-56)
وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًۭا فَٱدَّٰرَتُمْ فِيهَا ۖ وَٱللَّهُ مُخْرِجٌۭ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ﴿72﴾فَقُلْنَا ٱضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْىِ ٱللَّهُ ٱلْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿73﴾
• بنی اسرائیل کی کئی ہزار افراد پر مشتمل ایک قوم موت کے خوف سے اپنی بستیوں سے نکل بھاگی،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ واضح کرنے کے لیے کہ موت سے کسی کو فرار حاصل نہیں ہے ان سب کو موت کی نیند سلا دیا،پھر ان کو زندہ فرمایا۔اس واقعہ کا تذکرہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:ترجمہ: اور جب تم ایک شخص قتل کر کے اس میں جھگڑنے لگے اور الله ظاہر کرنے والا تھا اس چیز کو جسے تم چھپاتے تھے پھر ہم نے کہا اس مردہ پر اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو اسی طرح الله مردوں کو زندہ کرے گا اور تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو (سورۃ البقرۃ،آیت 72-73)
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ خَرَجُوا۟ مِن دِيَٰرِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ ٱلْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ ٱللَّهُ مُوتُوا۟ ثُمَّ أَحْيَٰهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى ٱلنَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴿243﴾
• ایک شخص کا گزر کسی ویران اور تباہ شدہ بستی سے ہوا،بستی کی حالت دیکھ کر اسے یہ حیرت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اس بستی والوں کو (روز قیامت) کس طرح زندہ فرمائے گا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی روح بھی قبض کر لی اور اسے سو سال تک مردہ رکھا ،پھر اس کو زندہ فرمایا۔قرآن کریم میں اس واقعہ کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:ترجمہ: کیا تم نے ان لوگو ں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے حالانکہ وہ ہزاروں تھے پھر الله نےان کو فرمایا کہ مرجاؤ پھر انہیں زندہ کر دیا بے شک الله لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے (سورۃ البقرۃ،آیت243)
أَوْ كَٱلَّذِى مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍۢ وَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْىِۦ هَٰذِهِ ٱللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ ٱللَّهُ مِا۟ئَةَ عَامٍۢ ثُمَّ بَعَثَهُۥ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍۢ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِا۟ئَةَ عَامٍۢ فَٱنظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَٱنظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ ءَايَةًۭ لِّلنَّاسِ ۖ وَٱنظُرْ إِلَى ٱلْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًۭا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُۥ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ﴿259﴾
• حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت کا مشاہدہ کرانے کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں چار پرندوں کو ذبح کر کے ان کے جسم کے ٹکڑے (آپس میں ملا کر ) آس پاس کے پہاڑوں پر منتشر کر دینے اور پھر ان کو آواز دینے کا حکم دیا ،چنانچہ تمام ٹکڑے ایک دوسرے سے جڑ گئے اور دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آ گئے۔اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا تذکرہ قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا ہے:ترجمہ: یا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک شہر پر گزرا اور وہ اپنی چھتوں پر گرا ہوا تھاکہا اسے الله مرنے کے بعد کیوں کر زندہ کرے گا پھر الله نے اسے سو برس تک مار ڈالا پھر اسے اٹھایا کہا تو یہاں کتنی دیر رہا کہا ایک دن یا اس سے کچھ کم رہا فرمایا بلکہ تو سو برس رہا ہے اب تو اپنا کھانا اور پینا دیکھ وہ تو سڑا نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھ اور ہم نے تجھے لوگوں کے واسطے نمونہ چاہا ہے اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑدیتے ہیں پھر ان پر گوشت پہناتے ہیں پھر اس پر یہ حال ظاہر ہوا تو کہا میں یقین کرتا ہو ں کہ بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 259)
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِمُ رَبِّ أَرِنِى كَيْفَ تُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِى ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةًۭ مِّنَ ٱلطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ ٱجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍۢ مِّنْهُنَّ جُزْءًۭا ثُمَّ ٱدْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًۭا ۚ وَٱعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ﴿260﴾
یہ چند ایسی واضح اور روشن مثالیں ہیں جو مردوں کے دوبارہ زندہ کیے جانے پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔ترجمہ: اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتاہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑے پھر انہیں اپنے ساتھ ہلا لے پھر ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے اور جان لے کہ بے شک الله زبردست حکمت والا ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 260)
ان واقعات سے پہلے ہم اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو عطا کردہ نبوت کی نشانیوں میں سے ایک زبردست نشانی کا تذکرہ کر چکے ہیں اور بتا چکے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کس طرح مردوں کو زندہ کر کے قبروں سے نکال لیتے تھے۔
عقلی دلائل سے منکرین بعث کا رد
بے شک اللہ تعالیٰ نے آسمانوں،زمین اور جو کچھ ان میں ہے ،سب کو پہلی بار،بغیر کسی نمونے ،وجود اور سابقہ مثال کے پیدا کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ جو ہستی مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہو ،وہ اسے دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز نہیں ہو سکتی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَهُوَ ٱلَّذِى يَبْدَؤُا۟ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ۚ
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ: اور وہی ہے جو پہلی بار بناتا ہے پھر اسے لوٹائے گا اور وہ اس پر آسان ہے (سورۃ الروم،آیت 27)
يَوْمَ نَطْوِى ٱلسَّمَآءَ كَطَىِّ ٱلسِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَآ أَوَّلَ خَلْقٍۢ نُّعِيدُهُۥ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَآ ۚ إِنَّا كُنَّا فَٰعِلِينَ ﴿104﴾
جن لوگوں نے بوسیدہ اور گلی سڑی ہڈیوں کے دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کیا تھا ان کا رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:ترجمہ: جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹا جاتا ہے جس طرح ہم نے پہلی بار پیدا کیا تھا دوبارہ بھی پیدا کریں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے بے شک ہم پورا کرنے والے ہیں (سورۃ الانبیاء،آیت 104)
قُلْ يُحْيِيهَا ٱلَّذِىٓ أَنشَأَهَآ أَوَّلَ مَرَّةٍۢ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ ﴿79﴾
زمین پیاسی،بنجر اور مردار ہوتی ہے اس میں کوئی ہرا بھرا درخت نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے تو اس پر کتنا شاداب اور طراوت بخش سبزہ لہلہا اُٹھتا ہے ۔تو وہ قادر مطلق جو بنجر زمین کو زندہ اور شاداب کرنے پر قادر ہے اور مردوں کو دوبارہ زندگی بخشنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ: کہہ دوانہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ سب کچھ بنانا جانتا ہے (سورۃ یس،آیت 79)
وَمِنْ ءَايَٰتِهِۦ أَنَّكَ تَرَى ٱلْأَرْضَ خَٰشِعَةًۭ فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا ٱلْمَآءَ ٱهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۚ إِنَّ ٱلَّذِىٓ أَحْيَاهَا لَمُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰٓ ۚ إِنَّهُۥ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌ ﴿39﴾
اور ایک جگہ یوں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تو زمین کو دبی ہوئی دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو ابھرتی ہے اور پھولتی ہے بے شک جس نے اسےزندہ کیا وہی مردوں کو زندہ کرے گا بے شک وہی ہر چیز پر قادر ہے (سورۃ حم السجدۃ،آیت 39)
وَنَزَّلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ مُّبَٰرَكًۭا فَأَنۢبَتْنَا بِهِۦ جَنَّٰتٍۢ وَحَبَّ ٱلْحَصِيدِ ﴿9﴾وَٱلنَّخْلَ بَاسِقَٰتٍۢ لَّهَا طَلْعٌۭ نَّضِيدٌۭ ﴿10﴾رِّزْقًۭا لِّلْعِبَادِ ۖ وَأَحْيَيْنَا بِهِۦ بَلْدَةًۭ مَّيْتًۭا ۚ كَذَٰلِكَ ٱلْخُرُوجُ ﴿11﴾
ترجمہ: اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا پھر ہم پھر ہم نے اس کے ذریعے سے باغ اگائے اور اناج جن کے کھیت کاٹے جاتے ہیں او رلمبی لمبی کھجوریں جن کے خوشے تہہ بہ تہہ ہیں بندوں کے لیے روزی اورہم نے اس سے ایک مردہ بستی کو زندہ کیا دوبارہ نکلنا اس طرح ہے (سورۃ ق،آیت 9-11)
اسلام کے بنیادی عقائد از شیخ محمد بن صالح العثیمین