• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دوسروں کو بتائیں کہ آپ اُن کی بھلائی چاہتے ہیں

ضرب الحدید

مبتدی
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
7
دوسروں کو بتائیں کہ آپ اُن کی بھلائی چاہتے ہیں

آپ کا دل دوسروں کی خیر خواہی اور محبت کے احساس سے معمور ہو، آپ صدق دل سے ان سے اچھا برتائو کریں اور لوگوں کو محسوس ہو کہ آپ ان سے پیار کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں بھی آپ کی محبت اورمقبولیت لازمًا پروان چڑھے گی۔
ایک لیڈی ڈاکٹر تھیں جن کا کلینک مریض عورتوں سے بھرا رہتا تھا۔ خواتین ہمیشہ ان سے رجوع کرنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ ہر عورت یہی سمجھتی تھی کہ ڈاکٹر صاحبہ اس کی خاص دوست ہیں۔ اس کا راز ڈاکٹر صاحبہ کا اچھوتا طرزِ عمل تھا جس کے ذریعے سے وہ دوسروں پر جادو کر دیتی تھیں۔ انھوں نے اپنی سیکرٹری سے طے کر رکھا تھا کہ جب بھی کوئی مریضہ فون کرے اور ڈاکٹر صاحبہ سے بات کرنا چاہے تو وہ اسے خوش آمدید کہے اور نام پتا پوچھ کر پانچ منٹ بعد دوبارہ رابطہ کرنے کو کہے۔ اس دوران سیکرٹری مریضہ کی فائل ڈاکٹر صاحبہکو پیش کرے۔ ڈاکٹر صاحبہ مریضہ کی فائل میں درج تمام معلومات پڑھتیں کہ اس کا مشغلہ کیا ہے اور اس کے بچوں کے نام کیاہیں۔ مریضہ دوبارہ رابطہ کرتی تو ڈاکٹر صاحبہاس کی بیماری کی تفصیلات پوچھتیں، اس کے بچوں کا حال دریافت کرتیں اور اس کی ملازمت کے بارے میں سوال کرتیں۔ مریضہ حیران ہوتی کہ ڈاکٹر صاحبہ کو اس سے اس درجہ تعلقِ خاطر ہے کہ وہ اس کے بچوں کے نام تک جانتی ہیں اور اس کی ملازمت سے بھی واقف ہیں۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ اسی ڈاکٹر کو ترجیح دیتی۔ کیا خیال ہے دلوں کو مسخر کرنا کوئی ایسا مشکل کام تو نہیں۔ آپ دوسروں سے اپنی محبت کا برملا اظہار کریں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اپنے جذبات لوگوں سے چھپا کر نہ رکھیں۔ آپ جس سے محبت کرتے ہیں اس سے بلا جھجک کہیں کہ مجھے آپ سے اللہ کے لیے محبت ہے۔ آپ میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے دشمن سے بھی کہیں: ''آپ مجھے بہت لوگوں سے پیارے ہیں۔'' آپ نے جھوٹ تو نہیں کہا۔ وہ آپ کو لاکھوں یہودو نصاریٰ سے پیارا ہے۔ ذہانت سے کام لیں۔
مجھے یاد ہے کہ میں ایک مرتبہ عمرہ کرنے گیا۔ طواف وسعی کے دوران تمام مسلمانوں کی بھلائی، حفاظت اور نصرت کی دعائیں کرتا رہا۔ اکثر میں یہ دعا کرتا: ''یا اللہ! میرے احباب و اقارب کو بخش دے۔'' مناسک عمرہ ادا کرنے کے بعد میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے اس عبادت کی توفیق دی، پھر میں نے شب بسری کے لیے ہوٹل کاکمرہ کرائے پر لیا۔ رات کو سونے کے لیے تکیے پر سر رکھا تو کچھ سوچ کر اٹھ بیٹھا۔ موبائل فون پر ایک پیغام لکھا: ''میرا عمرہ اختتام کو پہنچا۔ میں نے اپنے احباب کو یاد رکھا۔ آپ بھی میرے احباب میں شامل ہیں، لہٰذا میں اپنی دعائوں میں آپ کو نہیں بھولا۔ اللہ آپ کی حفاظت کرے اورعملِ صالح کی توفیق دے۔''
یہ پیغام میں نے پانچ سو افراد کو ارسال کر دیا جن کے نام موبائل فون کی فائل میں محفوظ تھے۔ ان سب پر اس پیغام کاجو عجیب و غریب اثر ہوا، میںاس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
ایک نے مجھے پیغام بھیجا: ''واللہ! میں آپ کا پیغام پڑھ کر رو رہا ہوں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اپنی دعائوںمیں یاد رکھا۔''دوسرے نے لکھا: ''واللہ! اے ابو عبدالرحمن، میں نہیں جانتا کہ آپ کو کیاجواب دوں۔ بس اتنا کہتا ہوں کہ اللہ آپ کو جزائے خیردے۔''تیسرے نے کہا: ''میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ کی دعا قبول کرے۔ واللہ! ہم بھی آپ کو نہیں بھولے۔''ہمیں ہر آن ضرورت ہے کہ ہم لوگوں کو اپنی محبت یاد دلائیں۔ اس کا بہترین ذریعہ موبائل فون کے پیغامات ہیں۔ آپ اپنے احباب کو مختلف پیغامات ارسال کر سکتے ہیں مثلاً:''میں نے آپ کے لیے اذان اور اقامت کے درمیان دعاکی۔'' یا''میں نے آپ کے لیے جمعے کی آخری گھڑی میں دعا کی۔''آپ کی نیت درست ہے تو ایسے اقدامات میںریاکاری کا کوئی شائبہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس سے مسلمانوں میں محبت اور الفت بڑھتی ہے۔
ایک بار میں نے طائف شہر میں منعقد دعوتی سمر کیمپ میں لیکچر دیا۔ شفا کے پہاڑوں میں واقع یہ ایک تفریح گاہ تھی جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد آئی ہوئی تھی۔ لیکچر کے حاضرین کی اکثریت کا تعلق ان نوجوانوں سے تھا جن پر تقویٰ اور بھلائی کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ دیگر بے شمار نوجوان جو لیکچر سننے نہیں آئے تھے، تفریح گاہ کے اطراف و جوانب میں لہو و لعب میں مشغول تھے۔ لیکچر اختتام پذیر ہوا۔ کئی نوجوان میرے قریب آئے، سلام دعا ہوئی۔ ان میں ایک نوجوان تھا جس کے بالوں کی تراش خراش بڑی مضحکہ خیز تھی۔ اس نے جینز کی تنگ پتلون پہن رکھی تھی۔ اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور شکریہ ادا کیا۔ میں نے گرم جوشی سے اس کے سلام کا جواب دیا اور اس کا ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا: ''آپ کا چہرہ تو کسی بڑے داعی کا چہرہ معلوم ہوتا ہے۔''وہ مسکرایا اور چلا گیا۔
اس کے دو ہفتے بعد اچانک اس نے فون کیا: ''آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ یا شیخ! میں وہی ہوں جس کے بارے میں آپ نے کہا تھا کہ تمھارا چہرہ کسی داعی کا چہرہ لگتا ہے۔ واللہ! میں ان شاء اللہ ایک بڑا داعی بنوں گا۔'' پھر وہ مجھے بتانے لگا کہ اِن کلمات کے بعداس کے احساسات و جذبات کیا تھے۔ آپ نے دیکھا کہ جذبات کی سچائی لوگوں پر کیسا انوکھا اثر ڈالتی ہے۔
جلیل القدر صحابۂ کرام ابو بکر صدیق اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما بھلائی کے کاموں میں ہمیشہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس دوڑ میں ابوبکررضی اللہ عنہ اکثر آگے نکل جاتے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ منہ اندھیرے نماز کے لیے نکلتے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مسجد میں موجود پاتے۔ مساکین کو کھانا کھلانے کامعاملہ ہوتا تو بھی ابو بکر سبقت لے جاتے۔
ایک بار مسلمانوں کی ہنگامی ضرورت پوری کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے صدقہ کرنے کو کہا۔ ان دنوں عمررضی اللہ عنہ کے پاس خاصا مال جمع تھا۔ انھوں نے کہا: ''آج میں ابو بکر سے آگے بڑھ جائوں گا۔'' عمررضی اللہ عنہ گھر گئے اور اپنا نصف مال لاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیا۔آپ نے اتنا مال دیکھتے ہی پہلی بات کیا کہی؟ یہ نہیں دریافت کیا کہ مال کتنی مقدار میں ہے یا یہ نہیں پوچھا کہ سونا ہے یا چاندی بلکہ پہلا سوال آپ نے عمررضی اللہ عنہ سے یہ کیا:
''عمر! آپ نے گھر والوں کے لیے بھی کچھ بچایا ہے کہ نہیں؟''
عمررضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اسی قدر مال گھر والوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔''اب عمررضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ابو بکررضی اللہ عنہ کا انتظار کرنے لگے۔ اتنے میں ابوبکررضی اللہ عنہ بھی بہت سا مال لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا۔ آپ نے اُن سے بھی پہلا سوال یہی کیا: ''ابو بکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہیں؟''
ابو بکررضی اللہ عنہنے جواب دیا: ''اے اللہ کے رسول! میں ان کے لیے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔'' ابو بکررضی اللہ عنہ گھر کا سارا مال صدقے کے طور پر لے آئے تھے۔ اس پر عمررضی اللہ عنہ نے کہا: ''بلاشبہ میں کبھی ابو بکر سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔''
لوگ محسوس کرتے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں۔ وہ بھی آپ کی محبت میں سرشار تھے۔ ایک روز آپ نے نماز میں لمبی قراء ت کے بجائے مختصر قراء ت کے ساتھ نماز پڑھا دی۔ سلام پھیرا تو صحابۂ کرام کو حیران دیکھ کر فرمایا:
''شاید آپ کو تعجب ہوا ہے کہ میں نے مختصر قراء ت پڑھی۔ دراصل میں نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی تو مجھے اس کی ماں پر رحم آگیا۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے اسی طرح محبت کرتے اوراپنے طرزِ عمل سے اس کا اظہار بھی کر دیتے تھے۔
چند لفظی بات
''اپنے جذبات کا اظہار کریں۔ جرأت کرکے کہہ دیں: ''مجھے آپ سے محبت ہے۔ میں آپ سے مِل کر خوش ہوتا ہوں۔ آپ میرے نزدیک قیمتی ہیں۔''
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا
آپ کا یہ پہلا تھریڈ ہے اور پہلی پوسٹ ہے، جس میں آپ نے بہت زبردست باتیں لکھی ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے آمین
بس روایات کے ساتھ ان کا حوالہ ضرور لکھیں، اور اپنا تعارف بھی تعارف سیکشن میں پیش کریں۔ جزاک اللہ خیرا
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
تحریر پڑھتے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ شیخ عبدالرحمن العریفی صاحب کا اقتباس ہے۔
ماشاء اللہ بہت اچھا اور دلائل سے سمجھاتے ہیں۔
جزاک اللہ خیرا
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
ماشاءاللہ بہت زبردست پیغام ہے۔ واقعی ہمیں الفت و محبت کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔۔!
 
شمولیت
نومبر 11، 2013
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
63
آج جہاں سائنس نے انسان کو بے پناہ سہولتوں سے آراستہ زندگی دی ہے وہاں پریشانیوں کا ایک جہاں بھی ساتھ ہی ہدیہ کیا ہے۔ہمارے رویے تبدیل ہوچکے ہیں ہمارے اندر کی پریشانیوں کی وجہ سے ہم دوسروں کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش نہیں آتے۔آج بھی اگر کمی ہے تو انسان کے حسن خلق اور Listening Powerکی کمی ہے ہم دوسروں کے دکھ اور رائے کو سننا بھی تحمل سے گوارا نہیں کرتے یاد رکھیں دوسروں کے آدھے دکھ ان کی بات کو سننے اور ان کی رائے کو اہمیت دینے سے ختم ہو جاتے ہیں۔
 
Top