• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دوسری شادی پسندیدہ یا ناپسندیدہ

شمولیت
ستمبر 21، 2013
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
2
کیا ایسی کوئی حدیث ہے کہ جس میں حضور کی کسی صاحبزادی نے اپنے شوہر کے بارے میں شکایت کی ہو کہ میرے شوہر دوسری شادی کررہے ہیں اور پھر حضور نے یہ فرمایا ہو کہ اچھا داماد وہ ہوتا ہے جو دوسری شادی کا ارادہ نہیں رکھتا ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
آپﷺکا حضرت علی﷜کو دوسری شادی سے منع فرمانا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 01 September 2012 12:50 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بخاری شریف میں حدیث ہے کہ حضرت علی﷜نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے جو کہ ابوجہل کی بیٹی تھی شادی کرنے کا ارادہ کیا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا تو انہوں نے حضور سے شکایت کی انہوں نے علی﷜ کو دوسری شادی سے منع فرمایا کہ تم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے دوسری شادی نہیں کر سکتے اس پر اعتراض پیدا ہوتا ہے حضورﷺ خود تو گیارہ بارہ بیویاں رکھیں اوراپنی بیٹی کی ایک سوکن بھی برداشت نہ کر سکیں حالانکہ چار بیویاں رکھنے کا حق اللہ پاک نے ہر مسلمان کو دیا ہے معترض کہتا ہے یا حدیث جھوٹی ہے یا حضور منصف نہیں حضور کے انصاف کے مخالف بھی قائل ہیں صادق اور امین جانتے تھے لہٰذا حدیث ہی غلط ہو سکتی ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہﷺ بھی منصف ہیں اور حدیث بھی غلط یا جھوٹی نہیں صحیح متفق علیہ ہے۔ توضیح کے لیے ایک مثال پیش خدمت ہے۔ ایک شخص کی اپنی چار بیویاں ہیں اس کے ایک بیوی والے داماد نے پروگرام بنا لیا اپنے سسر کی ہمشیرہ سے بھی شادی کر لی جائے دو بیویاں ہو جائیں گی۔ اس پر چار بیویوں والے سسر اپنے ایک بیوی والے داماد کو کہتے ہیں ایسا نہ کرو اگر ضرور کرنا ہی ہے تو میری بیٹی کو طلاق دے دو آگے سے داماد اور اس کے ہمنوا کہتے ہیں دیکھو صاحب آپ کی اپنی چار بیویاں ہیں قرآن مجید انسان کو چار بیویاں کرنے کا حق دیتا ہے تو پھر آپ اپنی بیٹی کی ایک سوکن برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں آخر کیوں ؟ یہ ناانصافی ہے وغیرہ وغیرہ باتیں کرتے ہیں حالانکہ داماد اور اس کے ہمنوائوں کی یہ سب باتیں فضول اورنامعقول ہیں کیونکہ سسر صاحب کے اپنے داماد کو اپنی ہمشیرہ کے ساتھ شادی کرنے سے منع کرنے میں بیٹی کی سوکنوں کو برداشت نہ کرنا سبب نہیں سبب فقط یہ ہے کہ پھوپھی بھتیجی دونوں کو بیک وقت ایک شخص کی بیویاں بنانا شریعت میں ناجائز ہے ۔
اسی طرح رسول اللہﷺکے اپنے داماد حضرت علی﷜ کو حضرت جویریہ بنت ابی جہل سے نکاح کرنے سے منع کرنے میں سبب یہ نہیں کہ آپﷺنے اپنی بیٹی کی ایک سوکن کو بھی برداشت نہیں کیا سبب فقط یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کی بیٹی ہے اور جویریہ رضی اللہ عنہا عدو اﷲ کی بیٹی ہے اور شریعت میں رسول اللہﷺ کی بیٹی اور عدو اﷲ کی بیٹی دونوں کو ایک شخص کے نکاح میں بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں چنانچہ صحیح بخاری ہی میں اسی موقعہ پر رسول اللہﷺ کا فرمان موجود ہے:

«اِنِّیْ لَسْتُ اُحَرِّمُ حَلاَلاً ، وَلاَ اُحِلُّ حَرَامًا ، وَلٰکِنْ وَاﷲِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ وَبِنْتُ عَدُوِّ اﷲِ اَبَدًا»جلد اول كتاب الجهاد باب ما ذكر من درع النبىﷺ وعصاه و سيفه الخ ص438


''بلا شبہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ ہی حرام کو حلال کرتا ہوں لیکن بخدا رسول اللہ کی بیٹی اور عدواﷲکی بیٹی دونوں کبھی جمع نہیں ہوتیں''

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1941/199/
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
وَلٰکِنْ وَاﷲِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ وَبِنْتُ عَدُوِّ اﷲِ اَبَدًا
"لیکن بخدا رسول اللہ کی بیٹی اور عدواﷲکی بیٹی دونوں کبھی جمع نہیں ہوتیں''

جس طرح ابو جہل دشمن خدا ہے ایسی طرح وليد بن مغيره بھی دشمن خدا ہے اور یہ دونوں ہی جنگ بدر میں واصل جہنم ہوئے اس لئے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی اور عدواللہ ابوجہل کی بیٹی کا ایک شخص کے نکاح میں ہونا حرام ہے ایسی طرح وليد بن مغيره کی بیٹی اور اللہ کے رسول کی بیٹی کا بھی ایک شخص کے نکاح میں ہونا ہمیشہ کے لئے حرام کیونکہ فرمان مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اَبَدًا فرمایا گیا ہے
اب یہ دیکھا جائے کہ اہل سنت کی کتب کیا کہتی ہیں امام بخاری نے مذکورہ با لا حدیث میں بیان کیا کہ حضرت علی نے اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سن کر عدو اللہ ابو جہل کی لڑکی سے شادی کا ارداہ ترک کردیا لیکن اہل سنت کے بڑے بڑے اماموں نے بیان کیا کہ کیسی نے اس فرمان مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فراموش کردیا
ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے
عبد الرحمن أبا محمد وكان بن عشر سنين حين قبض النبي صلى الله عليه وسلم ومات أبوه الحارث بن هشام في طاعون عمواس بالشام سنة ثماني عشرة فخلف عمر بن الخطاب على امرأته فاطمة بنت الوليد بن المغيرة وهي أم عبد الرحمن
الطبقات الكبرى ، الصفحة : 868
http://www.alwaraq.net/Core/AlwaraqSrv/bookpage?book=24&session=ABBBVFAGFGFHAAWER&fkey=2&page=1&option=1

عبد الرحمن ابا محمد (بن حارث بن هشام بن مغيرة) جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے گئے تو اسکی عمر 10 سال تھِی اسکا باپ حارث بن ہشام 18 ہجری میں طاعون عمواس سے مر گیا پھر عمر بن خطاب نے (اسکی بیوی) فاطمہ بنت ولید بن مغیرہ سے شادی کی اور یہ عبد الرحمان کی ماں ہے !

یہ 18 ہجری وہی سن ہے جس میں عمر بن خطاب کی شادی ام کلثوم سے ہونا بتایا جاتا لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ عمر بن خطاب نے ام کلثوم سے شادی سے پہلے عدو اللہ کی بیٹی فاطمہ بنت ولید کو طلاق دی ہو

اس طرح ہی ابن الأثيرنے اپنی کتاب أسد الغابة میں تحریر کیا ہے
وتوفي أبوه الحارث بن هشام في طاعون عمواس، فتزوج عمر بن الخطاب امرأته فاطمة أم عبد الرحمن
أسد الغابة ، الصفحة : 689
http://www.alwaraq.net/Core/AlwaraqSrv/bookpage?book=142&session=ABBBVFAGFGFHAAWER&fkey=2&page=1&option=1
اور جب ابوہ حارث کا انتقال طاعون عمواس کے باعث ہوا تو اس کی زوجہ سے عمر بن خطاب نے شادی کی یہ عبدالرحمٰن کی والدہ ہیں

اس کے علاوہ امام ابن حجر عسقلانی نے ترجمہ عبدالرحمٰن بن حارث میں بھی اس بات کو دھرایا ہے
عبد الرحمن بن الحارث: بن هشام بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن محزوم القرشي المخزومي يكنى أبا محمد.
تقدم ذكر أبيه وأمه فاطمة بنت الوليد بن المغيرة أخت خالد قيل كان ابن عشر في حياة النبي صلى الله عليه وآله وسلم حكى ذلك عن مصعب وهو وهم بل كان صغيراً وخرج أبوه بعد النبي صلى الله عليه وآله وسلم لما خرج إلى الجهاد بالشام فمات أبوه في طاعون عمواس سنة ثمانية عشرة وتزوج عمر أمه فنشأ في حجر عمر۔۔۔۔الخ

الإصابة في معرفة الصحابة ، الصفحة : 842
http://www.alwaraq.net/Core/AlwaraqSrv/bookpage?book=264&session=ABBBVFAGFGFHAAWER&fkey=2&page=1&option=1
والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جھوٹ کا اتنا پھیلادو کے وہ سچ لگنے لگے۔۔۔

یہ 18 ہجری وہی سن ہے جس میں عمر بن خطاب کی شادی ام کلثوم سے ہونا بتایا جاتا لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ عمر بن خطاب نے ام کلثوم سے شادی سے پہلے عدو اللہ کی بیٹی فاطمہ بنت ولید کو طلاق دی ہو
والسلام
 
Top