السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک بھائی کا سوال:
کیا یہ روایت درست ھے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی :جو روایت آپ نے لکھی ہے وہ امام ابن رجبؒ (زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب البغدادي، ثم الدمشقي، الحنبلي (المتوفى: 795 ھ) کی کتاب " لطائف المعارف " سے لی گئی ہے ،
روایت کے عربی الفاظ یہ ہیں :
" وروي عنه من حديث عائشة وأنس أنه صلى الله عليه وسلم كان في ليالي العشر يجعل عشاءه سحورا ولفظ حديث عائشة: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان رمضان قام ونام فإذا دخل العشر شد المئزر واجتنب النساء واغتسل بين الأذانين وجعل العشاء سحورا "
(قال ابن رجب ) أخرجه ابن أبي عاصم وإسناده مقارب "انتہی
(لطائف المعارف صفحہ 431 بتحقیق عامر بن علی یاسین ط دار ابن خزیمہ )
ترجمہ : بحوالہ سیدہ عائشہ سیدنا انس روایت کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ آخری عشرہ کی راتوں میں شام کا کھانا سحری کو ہی کھاتے ،اور حدیث عائشہ کے الفاظ ہیں کہ رمضان میں پیارے نبی ﷺ (رات ) قیام بھی کرتے اور کچھ دیر نیند بھی کرتے ،لیکن جب آخری دھاکہ شروع ہوتا تو کمر باندھ لیتے ،اور عورتوں سے جدا رہتے ،اور مغرب اور عشاء کے درمیان غسل فرماتے ،اور شام کا کھانا سحری کو کھاتے "
ابن رجب کہتے ہیں : اس روایت کو امام ابن ابی عاصم نے (اپنی کسی کتاب میں ) روایت کیا ہے ،اور اس کی سند "مقارب " ( تقریباً حسن ) ہے "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس روایت کو گو کہ امام ابن رجب رحمہ اللہ نے
"اسنادہ مقارب " کہہ کر گویا
" مقبول " کہا ہے کیونکہ " مقارب " تعدیل " کا ایک درجہ ہے ؛
مگر حقیقت یہ ہے کہ روایت ثابت نہیں ،کیونکہ امام ابن ابی عاصم کی جتنی کتب مطبوع و مخطوط ہم تک پہنچی ہیں ان میں یہ روایت نہیں ملی ،
دوسری بات یہ کہ یہ روایت امام طبرانی کی المعجم الاوسط میں ان الفاظ سے مروی ہے :
" وبه: عن الضحاك، عن مسروق، عن عائشة، قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر الأواخر شد المئزر، [ص:308] واجتنب النساء»
لم يرو هذا الحديث عن الضحاك، عن مسروق إلا نهشل، تفرد به: عامر بن إبراهيم "
اس میں " نھشل بن سعید واقع ہے جو متروک ،اور کذاب ہے
حافظ ابن حجر تھذیب التھذیب میں اس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
نهشل" بن سعيد بن وردان الورداني أبو سعيد ويقال أبو عبد الله الخراساني النيسابوري ويقال الترمذي بصري الأصل روى عن الضحاك بن مزاحم وداود بن أبي هند والربيع بن النعمان وثور بن يزيد الحمصي روى عنه الثوري وهو من أقرانه وأبو عمرو بن العلاء وهو أكبر منه وعبد الله بن نمير ومعاوية بن سلمة البصري وعبد الرحمن بن محمد المحاربي وغيرهم وقال أبو داود الطيالسي وإسحاق بن راهويه وكذاب وقال الدوري عن بن معين ليس بشيء وقال مرة ليس بثقة وقال أبو داود ليس بشيء وقال أبو زرعة والدارقطني ضعيف وقال أبو حاتم ليس بقوي متروك الحديث ضعيف الحديث وقال الجوزجاني غير محمود في حديثه وقال النسائي متروك الحديث وقال في موضع آخر ليس بثقة ولا يكتب حديثه وقال ابن حبان يروي عن الثقات ما ليس في أحاديثهم لا يحل كتب حديثه إلا على التعجب "الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے یہ حدیث ان الفاظ سے قابل قبول نہیں ،بہت ضعیف ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
البتہ سیدہ عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہ سے اس موضوع پر صحیحین میں بڑی واضح حدیث موجود ہے جو درج ذیل ہے ؛
" عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ العَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ»
ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رمضان شریف کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی کریم ﷺ اپنی کمر باندھ لیتے ،اور شب بیداری کرتے ،اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے " (صحیح بخاری و صحیح مسلم )
عنْ عَلِيٍّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يُوقِظُ أَهْلَهُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جناب علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اپنے گھر والوں کو جگاتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
اور سنن الترمذی باب لیلۃ القدر (حدیث نمبر 796 ) میں ہے :
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهَا "
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں عبادت میں اتنی کوشش کرتے تھے جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔
صحیح مسلم/الاعتکاف ۳ (۱۱۷۵)، سنن ابن ماجہ/الصیام ۵۷ (۱۷۶۷)، (تحفة الأشراف : ۱۵۹۲۴)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1767)