• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دوگمراہ فرقے

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
اللہ تعالیٰ کی صفات کے مسئلے میں دو گمراہ فرقے

اس مسئلے میں دو گروہ گمراہی کا شکار ہوئے ہیں
معطلہ
وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات ،یا ان میں سے بعض کے منکر ہیں۔ان کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ان اسماء و صفات کا اثبات در حقیقت ایک تشبیہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق کے مشابہ بنا دیتی ہے ۔لیکن یہ دعوی بالکل لغو اور باطل ہے۔اس کے وجودہ درج ذیل ہیں:
• یہ دعوی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلام میں تضاد جیسے جھوٹے الزام پر مشتمل ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ات کے لیے ان اسماء و صفات کا اثبات کیا ہے لیکن کسی چیز کے اپنے ہم مثل ہونے کی نفی فرمائی ہے،لہذا اگر یہ مان لیا جائے کہ ان اسماء و صفات کا اثبات تشبیہ کا باعث ہے تو اس سے کلام اللہ میں تضاد اور بعض آیات کی بعض تردید و تکذیب لازم آتی ہے۔
• اسم یا صفت میں سے کسی بھی دو چیزوں کے اتفاق سے ان کا باہم ایک جیسا ہونا لازم نہیں آتا جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ دو شخصوں کے درمیان اس لحاظ سء اتفاق پایا جاتا ہے کہ وہ دونوں انسان ہیں،سنتے،دیکھتے ہیں اس سے یہ ہر گز لازم نہیں آتا کہ وہ انسانی مزاج ،سننے ،دیکھنے اور بولنے کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے کے ساتھ کُلی یکسانیت اور موافقت رکھتے ہیں۔اسی طرح جانوروں کی مثال لے لیجئے ،ان کے پاس ہاتھ،پاؤں اور آنکھیں پوتی ہیں لیکن اس امر سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے ہاتھ،پاؤں اور آنکھیں حقیقت میں ایک جیسی ہوتی ہیں۔
پس جب مخلوقات کے درمیان اسماء وصفات میں اتفاق کے باوجود بھی نمایاں اختلاف ہے،تو خالق و مخلوق کے درمیان تو اس سے کہیں زیادہ واضح اور بڑا ہوا۔

مشبہہ
یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا اثبات و اعتراف مخلوق کے ساتھ اس کی تشبیہ سے کرتے ہیں۔ان کا گمان ہے کہ یہی نصوص کی دلالت کا تقاضا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیی اپنے بندوں سے اسی طرح مخاطب ہوتا ہے جس طرح کہ وہ سمجھ سکیں۔لیکن یہ گمان بھی باطل ہے اور اس کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:
• اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ مشابہت کی بات ایسی بات ہے جو عقل اور شریعت دونوں کی رو سے یکسر باطل اور مردود ہے جبکہ یہ امر قطعا ناممکن ہے کہ کتاب و سنت کی دلالت اور تقاضا غلط اور باطل ہو۔
• بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اسی طرح خطاب فرمایا ہے جس طرح وہ اسے اصل معنی کی حیثیت سے سمجھتے ہیں لیکن اس خطاب کے معنی کا جو حصہ اس کی ذات یا صفات کے بارے میں ہے،اس کی حقیقت کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے یہ فرمایا ہے کہ میں "سمیع" ہوں تو"سمع"اپنے اصل معنی کے اعتبار سے تو معلوم ہے ۔یعنی آوازوں کا ادراک۔لیکن اللہ تعالیٰ کی "سماعت" کی نسبت سے اس کے "سمیع" ہونے کی حقیقت ہمین معلوم نہیں۔"سمع: کی حقیقت چونکہ مخلوقات میں بھی مختلف ہوتی ہے،اس لیے خالق و مخلوق کے درمیان اس کا مختلف ہونا اور بھی زیادہ واضح اور عیاں ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں یہ خبر دی ہے کہ وہ اپنے عرش پر مشتوی ہے تو "استوا" اپنے اصل معنی کے اعتبار سے یقینا واضح و معلوم ہے لیکن عرش پر اللہ تعالیٰ کے مستوی ہونے کی نشبت سے اس "استوا" کی اصل حقیقت کو ٹھیک اسی طرح مان لینا چاہیے جس طرح کلام الہی نے بیان فرمائی ہے۔یوں بھی اگر دیکھا جائے تو "استوا" کی حقیقت مخلوق میں بھی مختلف ہوتی ہے ،چنانچہ کسی مستقر کرسی پر مستوی ہونا (بلند ہونا)بے قابو ہونے والے اونٹ کے کجاوے پر مستوی ہونے کی طرح نہیں ہے۔پس یہ چیز جب مخلوق کے معاملے میں مختلف ہے تو خالق و مخلوق کے درمیان یہ اختلاف کہیں زیادہ واضح اور بڑا ہے۔

اسلام کے بنیادی عقائد از محمد بن صالح العثیمین​
 
Top