• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دینی مدارس ۔۔۔ ایک دلخراش رخ

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
دینی مدارس۔ ایک دلخراش رخ ...جرگہ…سلیم صافی

یہی گناہگار ہے جس نے ملٹری کورٹس کے دائرہ اختیار کو صرف مذہبی اور مسلکی دہشت گردوں تک محدود کرنے کے خلاف لکھا اور بولا۔ اسی گناہگار نے مدارس کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دینے کی رائے سے اختلاف کیا اور اپنے ’’جرگہ‘‘ میں مثالوں کا انبار لگا دیا کہ القاعدہ کے رہنمائوں سے لے کر بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کرنے والوں کی اکثریت کا مدارس سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ عاجز ہی ہے جو مدارس کے حوالے سے حکومتی یا لبرل طبقات کی تشخیص سے اور علاج دونوں سے اختلاف کی جسارت کررہا ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مدارس کی طرف سب اچھا ہے ‘ والا معاملہ ہے ۔ جو خامیاں مجھے بعض اہل علم کی تحریروں اور تقریروں سے سمجھ آئی تھیں یا پھر جو خود مدارس کے مشاہدے کے نتیجے میں ذہن میں بیٹھ گئی تھیں‘ ان کا اظہار ’’جرگہ‘‘ میں کردیا لیکن افسوس کہ حسب عادت مذہب کے بعض ٹھیکیدار اس پر سیخ پا ہوگئے ۔ ان کے اعتراضات کے جواب میں عرض یہ ہے کہ تنقید عموماً عموم سے متعلق کی جاتی ہے ‘ مستثنیات سے متعلق نہیں ۔ مجھے معلوم ہے کہ دارلعلوم کراچی اور جامعہ بنوریہ جیسے مدارس صفائی اور حسن انتظام کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں ۔ بعض مدارس میں عصری علوم بھی نہایت بہتر انداز میں پڑھائی جاتے ہیں بلکہ وہاں عام ا سکولوں اور کالجوں سے بھی عصری علوم پڑھانے کا بہتر انتظام ہے ۔ لیکن جو تنقید ہوتی ہے ‘ وہ عموم سے متعلق ہوتی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جواب دینے والے عموماً پھر مستثنیات کا سہارا لیتے ہیں ۔ ایک تنقید مجھ پر یہ ہورہی ہے کہ میں خود مدرسے کا پڑھا ہوا ہوں اور نہ مدرسے کے اندرون سے واقف ہوں لیکن پھر بھی مدارس کے حوالے سے زبان یا قلم چلاتا ہوں۔ میں نے کبھی بھی اس حوالے سے اتھارٹی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ گزشتہ کالموں میں بھی اپنے تجزئیے کی بجائے ‘ ایک ایسے شخص کا تجزیہ پیش کیا جو دینی مدرسے کے اندر سے نکلے ہیں اور جو ایک عالم اور صوفی کے بیٹے ہیں ۔ آج کے کالم میں بعض مدارس کے اساتذہ سے متعلق ایک اور دلخراش پہلو کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں لیکن اپنی رائے کی بجائے میں ایک ایسے قاری کے خط کا سہارا لے رہا ہوں جو مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے بڑے خیرخواہ بھی ہیں ۔ یہ ایک خط ہے جو امیر جان حقانی صاحب نے وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کو بھیجا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ :

بسم اللہ الرحمان الرحیم
فضیلۃ الشیخ صدرالوفاق ،ناظم اعلیٰ قاری حنیف جالندھری صاحب،و دیگراکابرین وفاق،دامت فیوضہم و برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

امید ہے مزاج بخیر ہونگے۔چنداہم گزارشات کے عرض کرنے سے پہلے اپنا مختصر تعارف کروانا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آپ اکابراس فقیر کی صدا کو سنجیدگی سے لیں گے۔میرا مختصر تعارف یہ ہے۔میرانام حافظ امیرجان حقانی ہے۔پاکستان کے سب سے پسماندہ ضلع دیامر کا باسی ہوں۔کراچی سے حفظ قرآن اور درس نظامی (2010 جامعہ فاروقیہ) کے ساتھ جامعہ کراچی سے ایم اے سیاسیات(2009) اوروفاقی اردو یونیورسٹی سے ایم اے صحافت(2011) کی ڈگری حاصل کی ہے۔2011ء سے ڈگری کالج گلگت میں بطور سیاسیات کے لیکچرار اور ایک دینی جامعہ میں درس نظامی کی تدریس سے منسلک ہوں۔

الحمد للہ! عقائد و نظریات میں اپنے اکابرعلمائے دیوبند کی تحقیقات و تدقیقات پر اندھا اعتماد ہے اور یہ سبق استادالمحدثین شیخ سلیم اللہ خان مدظلہ سے ملا ہے۔رہی بات عارضی پالیسیوں سے اختلاف اگر مستحسن نہیں تو کوئی غلط بھی نہیں، اور یہاں تو آپ اکابر کے دربار میں ایک اجنبی کی فریاد ہے ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مجھے دینی مدارس و جامعات میں تعلیم حاصل کرنے اور قریب سے نظام و نصاب کو دیکھنے کے ساتھ عصری تعلیم گاہوں سے پڑھنے اور کافی عرصہ پڑھانے کا موقع ملا ہے۔ اس لئے اس قابل ہوا ہوں کہ آپ کے مقدس و محترم فورم میں فریاد و گزارش بلکہ ایک درمندانہ اپیل دائر کروں تاکہ مجھے اور مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کی تسکین و طمانیت کا کوئی راستہ نکل آئے اور انصاف مل سکے۔

آج آپ بزرگوں سے بعض دینی مدارس و جامعا ت کے اساتذہ جو ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں کے لئے بھیک مانگنے لگا ہوں، کیا آپ اپنے کسی شاگرد، تربیت یافتہ کو یہ بھیک دینے کے لئے تیار ہوں گے؟ آج کی اس محفل میں مدارس کے ان چندمہتممین کی شاندار کوٹھیوں، لگژری گاڑیوں اورشاہانہ خرچوں کو زیر بحث نہیں لانا ہے، ورنہ تو شعبہ صحافت سے تھوڑا تعلق کی وجہ سے سب تو نہیں لیکن کچھ ایسے مہتمم اور رئیس الجامعات کو بھی جانتا ہوں کہ ان کے کپڑے کہیں سے دھل کرآتے ہیں اور کہیں استری ہوتے ہیں، ان کے بیٹے مرسڈیز میں گھومتے ہیں، ان کی شادیاں مہنگے شادی ہالوں میں ہوتی ہیں، ان کا ایک وقتی کھانا تیس ہزار سے مہنگا ہوتا ہے،وہ بلڈنگیں ایسی تعمیر کرواتے ہیں کہ تاج محل کے انجینئر بھی دنگ رہ جائے،ان کا ماہانہ فیول(ڈیزل، پٹرول) کا خرچہ لاکھ سے تجاوز کرتا ہے، غرض کئی مہتمم صاحبان کا کروفر دیکھ کرکروڑ پتی لوگ بھی انگلیاں منہ میں دابے رہ جاتے ہیں ۔ اُف یا خدا!میرا مقصد ان کی ذاتی زندگی کو موضوع بحث بنانا نہیں بلکہ مدعا اتنا سا ہے کہ ان بیچارے مدرسین کو بھی انسان سمجھا جائے، ان کی بھی معاشرتی مجبوریاں ہوتی ہیں، ان کے والدین بھی ان سے آس رکھتے ہیں،مالی تعاون کی امید رکھتے ہیں،ان کے بچے بھی اچھی تعلیم کے حقدار ہوتے ہیں، ان کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی بیمار ہوسکتی ہیں، ان کا بھی ہفتے میں ایک دفعہ گوشت کھانے کو دل کرتا ہے، وہ بھی عید کے دن سوٹ اورنئی چپل کی خواہش رکھتی ہیں۔ وہ بھی کسی خوبصورت وادی کی سیر کرنا چاہتے ہیں، ان کے سینے میں بھی ایک دل ہے اور ان کا دماغ بھی ضرور سوچتا ہے۔ مگر آپ اپنے سینے میں ہاتھ رکھ کر، ایک سیکنڈ کے لئے خدا تعالیٰ کو حاضر سمجھ کر ،آنکھیں بند کرکے سوچیں کہ آپ کے پانچ ہزار سے کیا ان کی یہ معصوم سی خواہشات پوری ہوسکتی ہے۔ ایسا ہونا کے لیے ان کو سات جنم جینا ہوگا۔

اپنے اولاد اور اصاغر کی شکایات پر سیخ پا نہ ہوں بلکہ ہمارے درد کو سنیں۔ کیا اس پوری کائنات میں ان چند مدارس کے اساتذہ مظلوم ترین انسان نہیں ہیں؟ کیا ان کی خدمات کا صلہ انہیں ملتا ہے؟ کیا و ہ دنیاوی ضروریات و حاجات سے مبرا ہیں؟کیا آج کے دور میں چوبیس گھنٹہ خدمت کے عوض ایک عالم دین، مفتی اور قاری کو چار ہزار سے آٹھ ہزار کی تنخواہ دینا سراسر ظلم نہیں ہے؟کیا اسلامی تعلیمات یہی ہیں؟کیا قرآن نے تقوی ،قربانی اور اخلاص صرف مدرسے کے مدرسین کے لئے مخصوص کرکے بیان کیا ہے؟ کیا قناعت صرف ان کے حصے میں آئی ہے ؟ مہتممین بری ہیں؟سچ بتایا جائے کہ کیا ہماری چند ایک جامعات میں مہتمم مدرسین کے ساتھ برا سلوک نہیں کرتے؟ واللہ العظیم، میرے پاس ایسے واقعات اور کہانیاں ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ بعض مدارس میں ان پڑھ باورچی اور ترکھان کی تنخواہ شیخ الحدیث اور رئیس الافتاء سے زیادہ نہیں ہے؟ کئی قابل ترین فضلاء و قراء پیٹ پالنے کے لئے چھوٹی چھوٹی سرکاری نوکریاں کرتے ہیں، میں بھی سرکار کا ملازم بلکہ غلام صرف پیٹ کی خاطر ہوں،(کاش میں سرکار کا غلام نہ ہوتا ، یہی تعلیمات تو نہیں تھی میرے اساتذہ کی کہ کیچڑ میں لت پت نظام کا غلام بنو اور نہ میرے اکابر کی تاریخ)۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پاکستان کے کسی بھی مدرسے سے (سب میں نہیں ایک دو مثالیں ایسی ہیں)کسی بھی بڑے استادبلکہ شیخ الحدیث و رئیس الافتاء تک کو کسی بھی وقت بغیر کسی عذر کے فارغ کردیا جاتا ہےکیا ان کی نوکری کا تحفظ ہے؟ کوئی فورم ہے کہ ان کی اپیل سنا جائے؟کیا پورے مدرسے میں مہتممین کے چمچے اور دیگچوںکی من مانیاں نہیں چلتی؟ ان کے کہنے پر(اکثر مدرسوں میں ایسا نہیں ہوتا) بڑے بڑے اساتذہ کو گھسیٹ کر گیٹ سے باہر نہیں کیا جاتا؟کیا چند ایک کے اس روئیے سے مدرسین اور نوجوان علماء میں خوداریت، استغنا اور دیگر صفات جمیلہ پیدا ہوسکتی ہیں؟ میں طول دینا نہیں چاہتا ورنہ دل و ماغ میں اتنا کچھ ہے کہ کاغذ کے ان صفحات میں اتنی گنجائش نہیں۔ ایک اپیل ہے کہ خدارا! مدارس و جامعات پر رحم کرتے ہوئے ان مدرسین کے لئے دستور وفاق میں ایسا قانون شامل کریں کہ قابل اور ذہین لوگ تجارت، سرکاری غلامی اور دیگر امور کو ترک کرکے درس و تدریس کو ترجیح دیں ،دستور وفاق بحث و تمحیص اور ترمیمی و تجویزی مراحل سے گزر کر حتمی مرحلے میں ہے، اس میں مدرسین کے حقوق کا مکمل تحفظ ہونا چاہئے۔ ورنہ یاد رہے خراب معاشی حالات سے ادارے کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتے۔

تلخ نوائی و کلامی پر اس امید کے ساتھ اپنے استادوں اور بزرگوں سے معذرت کرتا ہوں کہ بیٹا باپ سے حق مانگ رہا ہے، چھوٹا بھائی بڑے بھیا سے بھیک مانگا رہا ہے۔ آپ سے ہمیں حق و صداقت کی پہچان ملی،صراط مستقیم تک رسائی ہوئی، اب آپ ہی ہمارے دکھوں اورمجبوریوں کو سمجھ کر کچھ ایسا کرجائیں کہ تاریخ سنہرے الفاظ میں یاد رکھے گا۔میرے دل کے اندر ایک لاوا ابل رہا تھا، میں نے بلاکم وکاست آپ کی عدالت میں پیش کردیا ہے، آپ بدعائی اور تادیبی کارروائی کے بجائے ٹھنڈے دل و دماغ سے ان ٹوٹی پھوٹی احمقانہ باتوں پر غور کریں،انشاء اللہ کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ اللہ کرے۔

بہت ساری امیدوں کے ساتھ: آپ اپنا اور اپنے چاہنے والوںکا بہت خیال رکھیں۔
والسلام مع الاکرام:
خاک پائے اکابرین دیوبند: الاحقر، امیرجان حقانی

(بشکریہ: روزنامہ جنگ 20 جنوری 2015 ء)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
دینی مدارس اور دارالعلوم میں اساتذہ کا ایک یکساں پے اسکیل ہونا چاہئے۔ مثلاً اگر دارالعلوم کی کوئی سند ایم اے کے مساوی ہے تو ایسے اساتذہ کو سرکاری گریڈ سترہ کے مساوی اور کوئی سند بی اے کے برابر ہے تو سرکاری گریڈ چودہ کے مساوی تنخواہ ملنی چاہئے۔
دارالعلوم کے اندر موجود رہائش اور دیگر سہولیات کو سینیارٹی کی بنیاد پر اساتذہ کو ملنی چاہئے۔ اور جن اساتذہ کو رہائش، کنونس وغیرہ کی سہولت نہ ملے، انہیں اس کے مساوی الاؤنسز ملنا چاہئے تاکہ وہ اپنی نجی رہائش اور کنوینس کا انتظام کرسکیں
مدارس اپنی آمدن میں سے سب سے پہلے اساتذہ کی معقول تنخواہوں کا بندوبست کریں پھر مدرسہ کی تعمیر و توسیع کا منصوبہ بنائیں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کروڑوں کا فنڈ تو شاندار عمارات اور نئے نئے منصوبوں پر لگادیں اور اساتذہ کو آٹھ دس ہزار روپے میں ٹر خا دیں۔

لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ؟ دارالعلوم کے وہ منتظمین تو ایسا ہرگز نہیں کریں گے، جن کا صافی صاحب کے کالم میں ذکر ہے۔ اور اگر حکومت نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اس پر مدارس میں مداخلت کا الزام لگ جائے گا اور کہا جائے گا کہ جب نجی اسکولوں میں اساتذہ کی تنخواہوں کو حکومت کنٹرول نہیں کرسکتی اور وہ اساتذہ کو اشک بلبل کے برابر تنخواہیں دے کر طلبا سے بھاری فیسیں اپنی جیبوں میں رکھ سکتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے جبکہ ہم تو (بالعموم) طلبا سے کچھ نہیں لیتے۔ ہمارا سارا فنڈز تو ہماری اہنی ”ذاتی کاوشوں“ کا نتیجہ ہوتا ہے جو ہم عوام الناس سے زکوٰۃ، صدقات اور عطیات جمع کرکے حاصل کرتے ہیں۔
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
ایک ہزار کوکئ ہزاروں سے ضرب دو تو اتنے فیصد بھی ٹھیک
یعنی سو فیصد ٹھیک ہے
ہم اتفاق کرتے ہیں
گڈ سلیم صافی صاحب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مدارس کے ضعیف العمر اوربیمار اساتذہ

(مسائل،مشکلات اور ان کا حل)​
سرکاری امداد ومراعات سے محروم دینی مدارس وجامعات کا ہمارے ملک میں ایک طویل سلسلہ ہے جن میں ملک کے ہزاروں مسلمان بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔کہنے کو بلا شبہ یہ خالص مذہبی تعلیم ہے لیکن اس سے فارغ ہونے کے بعد طلبہ میں جو صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ،اس کی بنیاد پر وہ تعلیم وتدریس کے علاوہ دوسرے کئی پیشہ ورانہ کاموں سے بھی وابستہ ہوجاتے ہیں اور اپنی محنت سے اپنی فیملی کی کفالت کرتے ہیں۔ملک کی یہ ایک بہت بڑی خدمت ہے جو دینی مدارس وجامعات انجام دیتے ہیں۔ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگانے والے حضرات ان کے نظام تعلیم وتربیت سے واقف نہیں ہیں یا پھر وہ تعصب میں گرفتار ہیں اور مسلم دشمنی میں منفی باتیں کرتے ہیں۔ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر وترقی میں فضلائے مدارس وجامعات کا بڑا اہم کردار رہا ہے ۔۱۵؍اگست اور ۲۶؍جنوری کے موقع پر بہت سی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے ،ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اس سلسلے میں تحریر وتقریر کے ذریعے فیض یافتگان مدارس وجامعات کی قربانیوں اور ان کی خدمات سے ملک کی نئی نسل کو واقف کرائیں۔
ملک کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت میں جن حضرات نے اپنی جوانی کے بیش قیمت ماہ وسال لگادیے ،یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ایسے حضرات کی ضعیفی اور بڑھاپے کے لیے نہ ملک کوئی انتظام کرتا ہے اور نہ ہماری ملت ان کے بارے میں فکر مند ہے ۔ریٹائرمنٹ کی عمر کے بعد بھی ان میں بعض حضرات کی خدمات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک ان کے جسم میں جان باقی رہتی ہے لیکن یہی اساتذہ کرام اگر تدریس کے دوران یا ضعیفی میں کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوجائیں جس پر دوچار لاکھ روپے خرچ ہورہے ہوں تو کوئی ان کا پرسان حال نہیںہوتا۔مدارس وجامعات میں اساتذہ کرام کو جو مشاہرہ دیا جاتا ہے وہ بہت کم ہوتا ہے ،اس میں بہ مشکل وہ اپنی فیملی چلاپاتے ہیں۔اس قلیل آمدنی میں بچت کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اپنے بچوں کی شادی یا اپنے ذاتی گھر کی تعمیر ان کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ اپنے مستقبل کو لے کر بہت زیادہ فکر مند نہیں ہوتے بلکہ انھیں اطمینان ہوتا ہے کہ سرکاری سطح پر ان کے لیے ایک قابل لحاظ رقم مختص ہوچکی ہے جوذمہ داری سے سبک دوش ہونے کے بعد انھیں مل جائے گی یا پنشن کے نام سے تاحیات ایک معقول رقم انھیں ملتی رہے گی جس سے ان کا بڑھاپا سکون کے ساتھ گزر جائے گا۔اس کے برعکس دینی مدارس وجامعات میں جو محترم اساتذہ کرام تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں ،وہ اپنے مستقبل کو لے کر بہت فکر مند ہوتے ہیں ۔ملک اور ملت کے بچوں کی تعلیم وتربیت کا فریضہ انجام دینے والوں میں یہ فرق وامتیاز حددرجہ تکلیف دہ ہے ،اس سلسلے میں ملک کو بھی سوچنا چاہئے اور ملت کو بھی۔دینی مدارس کے تعلق سے جو منفی سوچ اس ملک میں بنی ہوئی ہے اور جو اب کسی حد تک مستحکم ہوتی جارہی ہے ،اس کے ہوتے ہوئے مدارس کے اساتذہ کو سرکاری طور پر کوئی سہولت یا مدد حاصل ہوگی ،اس کا تصور بھی محال ہے۔کیا ملت اس سلسلے میں کچھ کرسکتی ہے یا وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے،اس پر ہمیں ضرور سوچنا چاہئے۔
بار بار یہ خیال دل ودماغ کو پریشان کرتا ہے کہ ہم سیکولر اور لادینی نظام کے مقابلے میں کسی دینی نظام کو کیسے کامیاب بناسکتے ہیں اور کیسے کسی شخص سے کہہ سکتے ہیں کہ اہل اسلام جو نظام چلاتے ہیں ،اس میں انسان کے بنیادی حقوق محفوظ ہیں ۔جس استاذ نے مشقت کی زندگی گزاری ہے اور جس کے بچوں نے اپنے باپ کو چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے دوسروں سے قرض مانگتے دیکھا ہے اور گھر میں عسرت اور تنگی کی زندگی دیکھی ہے کیا ان بچوں کے دل میں اس نظام کے تئیں کوئی ہم دردی پیدا ہوسکتی ہے بلکہ وہ اس نظام سے بے زار ہوجائیں گے اور اپنے باپ کو دنیا کا سب سے زیادہ ناکام انسان سمجھیں گے۔ایک طرف دینی مدارس وجامعات کے اساتذہ کی تصویر یہ ہے لیکن دوسری طرف ان کی انتظامیہ یا صدر اور ناظم کی تصویر دوسری ہے۔ان کے پاس زندگی کی ساری آسائشیں ہیں۔گھروں میں ان کی خواتین بیش قیمت لباس زیب تن کرتی ہیں،زیورات سے لدی رہتی ہیں ،پورا گھر خوشبو سے مہکتا رہتا ہے اور کھانے پینے کی اشیا کی فراوانی ہر وقت ان کے دستر خوان پر ہوتی ہے۔اس قبیلے کی اکثریت اپنے بچوں کو ان کے اپنے مدارس وجامعات میں تعلیم نہیں دلاتی بلکہ ان کے بچے عصری تعلیمی اداروں میں بھاری بھرکم فیس ادا کرکے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔حیرت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ دیکھا جاتاہے کہ انتظامیہ کی خاصی بڑی تعداد کے پاس کوئی خاص ذریعہ آمدنی نہیں ہے لیکن ان کے اخراجات کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔بلکہ ہر دوتین سال بعد گراں قیمت نئی گاڑیاں دروازے پر جھومتے ہاتھی کی طرح نظر آتی ہیں۔
ممکن ہے بعض حضرات پوری درد مندی کے ساتھ یہ بات کہیں کہ سرکاری اور پرائیویٹ نظام میں یہ فرق تو رہے گا ہی۔مدارس کے پاس اتنی رقم کہاں ہے کہ وہ اپنے بیمار اساتذہ کا علاج کراسکیں یا خدمات سے سبک دوش کیے جانے کے بعد انھیں کوئی پنشن جاری کرسکیں۔جن حالات میں اس ملک میں دینی مدارس اپنا کام کررہے ہیں ،اس میں یہی کیا کم ہے کہ وہ طلبہ کے قیام وطعام اور اساتذہ کے مشاہروں کا انتظام کرلیتے ہیں۔اس کے لیے مدارس کی انتظامیہ شب وروز محنت کرتی ہے اور لوگوں سے ان کی زکوٰۃ،صدقات اور عطیات جمع کرکے کسی نہ کسی طرح اس نظام کو قائم رکھنے میں کامیاب ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مدارس کا نظام چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ملت کو مدارس کی انتظامیہ کی ان خدمات واحسانات کا اعتراف ہے لیکن اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اسی نظام سے ایک ایسی چیز کو نہ جوڑا جائے جو انسان کے بنیادی حقوق سے تعلق رکھتی ہے ۔کیا اسلام اتنا سنگ دل ہوسکتا ہے کہ ایک استاذ کی جوانی وتوانائی کا ایک ایک قطرہ کشید کرلینے کے بعد اسے بڑھاپے میں بے یارومدد گار چھوڑ دے یا اس کی بیماری میں اسے سہارا نہ دے۔جس استاذنے ملت کی دوتین نسلوں کی تربیت کی ہے ،جن کے دلوں میں اپنے لیے احترام پیدا کیا ہے ،اب اپنی ضعیفی اور بیماری میں سماج کے سامنے اپنی عزت نفس اور خودداری کو نیلام کردے۔پنشن جاری کرنے یا کسی ہنگامی صورت حال میں کوئی خاص مدد بہم پہنچانے کا نظام پوری دنیا میں مروج ہے ۔انسانی حقوق کے تعلق سے دنیا اب اس قدر آگے جاچکی ہے کہ کارخانوں کے مزدوروں کے بھی حقوق متعین ہیں۔کسی ناگہانی کے موقع پر ان کو یا ان کے بچوں کو سہارا ملتا ہے۔ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم ابھی تک انسان کے بنیادی حقوق کا نہ ادراک کرسکے ہیں اور نہ اپنے دینی سماج کو اس کی تفہیم کراسکے ہیں۔
ذیل میں چند ایک تجاویز ملت، مدارس کی انتظامیہ اور فیض یافتگان مدارس کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی جارہی ہے ،امید ہے کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا اور اہل قلم سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں آپ اپنی تجاویز اور مشوروں سے بھی نوازیں تاکہ ایک مسئلے کی سنگینی کا احساس پیدا کیا جاسکے اور اپنے بچوں کے اساتذہ کرام کی عزت وناموس کی حفاظت ہوسکے۔
(۱) مدارس کے نظام میں پنشن کی اسکیم پر غور کیا جائے۔بعض دینی مدارس نے اپنے یہاں یہ اسکیم نافذ کررکھی ہے ،ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ہماری حکومت پنشن کی اسکیم کو کیسے چلاتی ہے ،اس کے ماہرین سے مشورہ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔اساتذہ کرام کو جو مشاہرہ دیا جاتا ہے ،اسی سے کچھ رقم ماہ بہ ماہ مختص کی جائے اور اس کا الگ حساب کتاب رکھا جائے ۔کسی استاذ کو کوئی ہنگامی ضرورت پیش آئے تو اس کی مدد کی جائے۔اس نظام کو شفافیت کے ساتھ قائم کیا جائے ۔انتظامیہ اساتذہ کے درمیان کوئی فرق وامتیاز نہ کرے اور نہ عزیز واقارب کو بغیر کسی وجہ کے ترجیح دینے کی مذموم کوشش کی جائے۔اسلام عدل وقسط،مساوات اور انصاف کا علم بردار مذہب ہے ،اگر اس کے اپنے گھر میں اس کا یہ امتیاز نمایاں نہیں ہوتا تو پھر کوئی ضرورت نہیں ہے کہ زبان سے اسلام کا نام لیا جائے ،اللہ کا دین ایسے دوہرے کردار کے حاملین کا محتاج نہیں ہے۔ایک چھوٹے سے دینی نظام میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کی دھجیاں بکھیر کر جو تعفن ہم پھیلاتے ہیں،اس سے ہمارا پورا سماج بیمار ہوجائے گا ۔پیٹ بھرنے کے لیے کوئی دوسرا پیشہ اختیار کیا جاسکتا ہے ،کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن اسلام کے نام پر یہ اجازت کسی کو ہرگز نہیں دی جاسکتی کہ وہ امانت میں خیانت کرکے ایک بابرکت اور پاکیزہ نظام کو اپنی خواہشات کا آلۂ کار بنالے۔
(۲) ملت کے سرمایہ دار اور اصحاب ثروت حضرات سے درخواست کی جائے کہ وہ اس اہم اور سنگین مسئلے کو سمجھیں ۔مدارس کو تعاون دیتے وقت الگ سے ایک خاص رقم اس اسکیم کو قائم کرنے کے لیے دیں اور انتظامیہ کو مجبور کریں کہ وہ اپنے ضعیف العمر اور بیماراساتذہ کے لیے اس کا انتظام کرے ۔ حالت تو ہے کہ اگر کسی استاذ کی طبیعت خراب ہو اور وہ مطعم سے مدد نہ ملنے کی شکایت کرے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ مدرسہ ہے اسپتال نہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ اس اسکیم پر عمل کیا جارہا ہے یا نہیں۔رفاہی ادارے اور عطیہ دہندگان کی ہی سستی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے مدارس کے نظام میں بے اعتدالی کو راہ مل گئی ہے ۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی اکثریت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے۔محرومیوں کا شکار یہ بچے جب میدان عمل میں اترتے ہیں تو خود اعتمادی اور کسی حدتک جراء ت اور ہمت سے تہی دست ہوتے ہیں۔مجبوری میں بہت کچھ سہتے اور برداشت کرتے ہیں۔لیکن کیا ایسا استاذ اپنے طلبہ میں وہ کردار پیدا کرسکے گا جو سماج کی دینی قیادت کے لیے مطلوب ہے۔اگر ملت کے اصحاب ثروت بیدار ہوجائیں تو اس عذاب سے اساتذہ کو باہر نکالا جاسکتا ہے۔ رفاہی ادارے ملت کا عظیم سرمایہ ہیں ۔اگر ملت نے ان پر اعتماد کیا ہے تو ان کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ اس اعتماد کو مجروح نہ ہونے دیں۔بعض رفاہی ادارے جدید تقاضوں کے پیش نظر کمپیوٹر،سلائی مشین اور دست کاری کے دوسرے آلات خوش دلی سے فراہم کرتے ہیں۔لیکن پھر پلٹ کر نہیں دیکھتے کہ ان کا کیا ہورہا ہے۔کسی مہمان، عطیہ دہندہ یا رفاہی ادارے کے سربراہ کی آمد پر مہینوں سے بند پڑے کمپیوٹر لیب میںجو جھاڑ پونچھ کی جاتی ہے،مشینوں پر جمی دھول کی تہہ صاف کی جاتی ہے اور وقتی طور پر جو چمک دمک اور سیکھنے سکھانے کا تسلسل دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ،یہ ملت کی امانت میں بدترین قسم کی خیانت ہے۔اس سے ماہرین علوم شریعت کو تو بہر حال دور رہنا چاہئے۔یہ ملت اور اس کے بچوں کے ساتھ انصاف نہیں ہے کہ کسی رفاہی ادارے سے انجینئرنگ کالج کی عالی شان عمارت تعمیر کرالی جائے اور پھر اسے چمگادڑوں کا مسکن بناکر چھوڑ دیا جائے یاکسانوں کو اجازت دے دی جائے کہ تم اس میں اپنے جانوروں کا بھوسہ بھرلیا کرو۔اللہ کی کتاب کے نام پر اکیڈمی کی بھاری بھرکم عمارت بنادی جائے اور پھر اسے سیلن کھانے کے لیے خالی چھوڑ دیا جائے۔اگر آنکھیں سلامت ہیں،بصیرت زندہ ہے ،ضمیر مرا نہیں ہے تو ان عجائبات کا مشاہدہ ہر کوئی کرسکتا ہے۔آخر کب تک اپنے اندر کی آواز کو ہم دباتے رہیں گے،گھٹن بڑھ گئی تو دم نکل جائے گا۔ہندوستان کی ملت اسلامیہ اپنی تاریخ کے بہت نازک دور سے گزررہی ہے ،ہمارا دینی نظام ہی اس کا واحد سہارا ہے ،جو اس کی تہذیب،ثقافت،مذہب اور تشخص کی حفاظت کرسکتا ہے۔اس نظام کو جواب دہ اور ذمہ دار بنائیں۔اس تحریر کو تنقید نہ سمجھیں ،لکھنے والا بھی اسی نظام کا حصہ ہے،ایک پریشان دل کی یہ آواز ہے ،خدارا اسے سنیں اور محسوس کریں۔
(۳) ایک استاذاپنی تدریس کے ماہ وسال میں سیکڑوں طلبہ کی تعلیم وتربیت کرتا ہے۔ان کی زندگیوں کوسنوارتا ہے اور انھیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ میدان عمل میں اتر کر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔استاذ بوڑھا ہوتا ہے،اس کے تلامذہ بالعموم جوان ہوتے ہیں۔استاذ کی کارکردگی سمٹتی جارہی ہوتی ہے اور اس کے شاگردوں کی کارکردگی وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہوتی ہے ۔شاگردوں میں بھی سب ایک جیسے نہیں ہوتے،کوئی امیر بنتا ہے اور کوئی بہت زیادہ امیر،کوئی تجارت میں لاکھوں کماتا ہے تو کسی کو زیادہ آمدنی والی ملازمت مل جاتی ہے۔کیاملک اور بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ایک استاذ کے شاگردوں کی اپنے محترم استاذ کے تعلق سے کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟جس استاذ نے علم دیا،اپنی زندگی کے تجربات سے فیض یاب کیا ،لکھنا اور بولنا سکھایا ،بھلے برے کی پہچان عطا کی ،دنیا میں سر اٹھاکر جینے کا سلیقہ سکھایا ،اگر آج وہ بیمار ہے،اگر اس کی ضعیفی نے اسے بستر پر ڈال دیا ہے،اس کے اعضائے جسم اس قابل نہیں رہ گئے کہ اپنی ضروریات پوری کرسکے تو کیا اس کی شاگردوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اس کی اس مشکل وقت میں خبرگیری کریں۔یہ کیسی قساوت قلبی ہے کہ اللہ کا دیا ہوا ہمارے پاس سب کچھ ہے اور ہم ایک بیمار استاذ کا علاج نہیں کراسکتے ،اس کی ضعیفی کا انتظام نہیں کرسکتے۔اسلام کی عمومی تعلیم تو تمام کمزور طبقات کے لیے یہ ہے کہ ان کی مدد کی جائے تو بھلا ہمارا استاذ جو آج مشکلات سے دوچار ہے ،اس کا حق دار کیوں نہیں ہے۔استاذ کی خودداری اور عزت نفس اسے اجازت نہیں دیتی کہ کسی شاگرد کے سامنے دست سوال دراز کرے اور نہ وہ خود کو اس قابل پاتا ہے کہ اس کے سامنے اپنا دکھڑا لے کر بیٹھ جائے لیکن کیا ایک شاگرد کو اتنی سمجھ نہیں ہے کہ استاذ کن حالات سے دوچار ہے ،ان کا چہرہ کیا کہہ رہا ہے،ان کی آواز اور اعضاء کی کپکپاہٹ کیا کہانی سنارہی ہے۔شاگردوں کی طرف سے اپنے محترم اساتذہ کی خبرگیری اور ان کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کا سلسلہ رہنا چاہئے ۔مجھے ذاتی طور پر ایسے بعض خوش نصیب اور سعادت مند ساتھیوں کا علم ہے جو ہمیشہ اپنے اساتذہ کا خیال رکھتے ہیں اور ان سے جو بھی ہوسکتا ہے،وہ اپنی استطاعت کے مطابق کرتے ہیں۔
لیکن یہاں کیا یہ ممکن ہے کہ تلامذہ اپنے اساتذہ کے لیے ایسا کچھ انتظام کرسکیں کہ انھیں پنشن بھی ملے اور ناگہانی مصیبتوں میں ان کی مدد بھی ہوسکے۔اوپر جس اسکیم کا ذکر آیا ہے،اس میں شاگردوں کی بھی شمولیت ہوسکتی ہے ۔مدارس کی طرف سے قائم کیے جانے والے فنڈ میں ہر شاگرد اپنے اساتذہ کے لیے کچھ نہ کچھ ماہانہ یا سالانہ تعاون کرے ۔دانہ دانہ مل کر ذخیرہ اور قطرہ قطرہ مل کر سمندر ہوتا ہے۔ہر شاگرد اپنے استاذ کے لیے اگر ماہانہ صرف دس روپے مدرسے کے پنشن اسکیم میں ڈال دے تو ایک بڑی رقم ہمارے پاس جمع ہوجائے گی اور ہم دنیا پر یہ ثابت کرسکیں گے کہ آج بھی ہمارا دینی نظام انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرسکتا ہے۔
(۴) اسلام نے سودی نظام کے مقابلے میں اپنا ایک ایسا معاشی نظام ترتیب دیا تھا جس میں ضرورت مندوں کو آسانی سے قرض حسنہ مل جاتا تھا اور مضاربت کا طریقہ رائج کیا تھا جس میں ددلت گردش کرتی رہتی تھی ،وہ منجمد نہیں ہوتی تھی۔اگر فرد پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا تو کیا تجارتی فرم بھی نہیں کھولے جاسکتے جس میں مضاربت کے شرعی اصولوں کی روشنی میں بینکوں میں جمع رقوم استعمال کی جائیں ۔بہت سے اللہ کے بندے ایسے ہیں جو سودی نظام کا حصہ نہیں بننا چاہتے لیکن ان کے سامنے کوئی بدل نہیں ہے۔مدارس کے پاس جو روپے جمع ہوتے ہیں،وہ بھی منجمد رہتے ہیں۔اگر مضاربت کا تجربہ چھوٹی سطح پر کیا جائے تو اس سے فائدہ ہوسکتا ہے ۔اسی میں اساتذہ کی تنخواہوں سے ماہ بہ ماہ وضع کی جانے والی رقم،پنشن اسکیم میں اصحاب ثروت سے ملنے والا تعاون اور شاگردوں کی طرف سے ملنے والی امداد بھی جمع کی جاسکتی ہے اور اس کو بارآور بنایا جاسکتا ہے۔ہمارے ملک میں مضاربت کے کئی ایک تجربے کیے گئے اور وہ ناکام بھی ہوگئے ،کتنے لوگوں کی رقمیں ڈوب گئیں اور وہ خالی ہاتھ ہوگئے ،اس تعلق سے کئی ایک کمپنیوں کے تجربات ہمارے سامنے ہیں لیکن مجھے یہ بات بھی معلوم ہے کہ ان کمپنیوں نے لوگوں کو لبھانے کے لیے غیر فطری کام کیے اور آمدنی سے زیادہ منافع دینے کی کوشش کی ،نتیجہ یہ ہوا کہ وقت سے پہلے یہ کمپنیاں ٹوٹ گئیں۔تجارت کے فن سے واقف لوگ ہی اس قسم کا کاروبار چلاسکتے ہیں اور کامرس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ہی اسے دیکھ سکتے ہیں۔مجھے اس تجویز پر اصرار نہیں ہے ،ویسے اسلام نے مضاربت کا جو راستہ کھولا تھا ہم نے عملاً اسے بند کررکھا ہے ۔امام بخاری اور امام ابن تیمیہ رحمہما اللہ کی سیرت سے یہ کہیں نہیں معلوم ہوتا کہ انھوں نے کوئی تجارت کی تھی یا کسی کی ملازمت قبول کی تھی۔گھرمیں جو سرمایہ موجود تھا ،وہ مضاربت ہی پر لگا ہوا تھا اور اسی کی آمدنی سے ان کی گزر بسر ہوتی تھی۔آج کوئی استاذ کچھ روپے اپنے اخراجات سے اگر بچاتا بھی ہے تو اس کے بڑھنے کا کوئی واضح اور سود سے محفوظ راستہ نہیں ہے۔اگر مضاربت کا مسئلہ کسی طرح ہم حل کرسکیں تو یہ ملت پر ایک بڑا احسان ہوگا اور شاید ہم مدارس وجامعات کے ضعیف العمر اساتذہ کو پنشن دینے اور بیمار اساتذہ کا علاج کرانے کے قابل ہوسکیں۔عملی اقدام سے پہلے ذہن سازی کی ضروت ہوتی ہے ،اگر ہمیں کسی چیز کی فکر لاحق ہوجائے تو اس کی کوئی نہ کوئی عملی شکل ضرور متعین ہوجائے گی۔امید ہے کہ اہل فکر ودانش وقت کے اس اہم اور سنگین مسئلے پر غور کریں گے اور اپنے خیالات وتجاویز سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں گے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اکثر مدارس میں یہ المیہ ہے ، جس کی اصلاح کی طرف ہم سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ، چند دن پہلے پاکستان کی معروف دینی درسگاہ کےناظم فضیلۃ الشیخ عتیق اللہ سلفی صاحب سے ایک ملاقات میں انہوں نے کچھ حوصلہ افزا خبریں سنائی تھیں کہ انہوں نے اپنے ادارے میں اس حوالے سے کچھ اصلاحی قدم اٹھائے ہیں ، مثلا
1۔ اساتذہ کے لیے پنشن کا نظام شروع کیا گیا ہے ، جس میں ایک بنیادی شرط یہ تھی کہ جو بھی استاد مدرسے میں 15 سال خدمات سر انجام دے رہا ہے ، اور پھر وہ کسی وجہ سے مدرسے میں تدریس برقرار نہیں رکھ سکتا تو اس کی پنشن مقرر کی جائے گی ۔
2۔ ادارے کے فنڈ کا کچھ حصہ اس لیے مختص ہے کہ اگر کسی بھی استاد کو ایمرجنسی میں پیسوں کی ضرورت پڑ گئی ہے ، تو اس بجٹ سے فورا اس استاد کو قرض حسنہ دیا جائے گا ، اس کے لیے انہیں کسی ناظم ، مہتمم وغیرہ سے دستخط وغیرہ کی ضرورت نہیں ۔
3۔ مدرسے کے ساتھ ہی ایک سکول قائم کیا گیا ہے ، جس میں مدرسین کے بچوں کو اعلی تعلیمی سہولیات فری میں دی جاتی ہیں ۔
شیخ @محمد فیض الابرار صاحب اس موضوع پر کچھ لب کشائی فرمائیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم رفیق احمد رئیس سلفی حفظہ اللّہ کی تحریر جس کا عنوان تھا "مدارس کےبوڑھے اور بیمار اساتذہ" مطالعہ کرنے کے بعد بہت کچھ محسوس ہوا.
اِس تحریر میں اُمّت کے لائق و فائق اساتذہ کی بے حرمتی و ظالمانہ رویے پر ایک درد تھا جو محرّر نے بہت خوش اسلوبی سے تحریر فرمایا.
موصوف نے وارثینِ انبیاء( اساتذہ) کے ساتھ نازیبا سلوک کو اُمّت کے سامنے طشت ازبام کیا کہ اساتذہ کے خون و پسینے کو چوس کر کچرے کی طرح بے دخل کر دینا اور عمر کے آخری ایّام میں گھُٹ گھُٹ کر مرنے پر مجبور کر دینا یہ عمل انصاف سے کوسوں دور ہے.
موصوف نے نظماء اور اساتذہ کا مالی موازنہ پیش کیا جس میں حقیقت واضح کی کہ نظماء عیش و عشرت کے دلدادے اور انھیں کے ما تحت اساتذہ عُسرت زدہ. تفریق کی اعلٰی مثال.
موصوف نے بوڑھے اور بیمار اساتذہ کی دیکھ ریکھ کے لیئے چند تجاویز پیش کیں جو بہتر سے بہتر تر ہے.مَیں اِس کی تائید کرتا ہوں اور مُستقبل میں جب کبھی موقعہ ملا تو انشاءاللہ اِس تحریر کے پیش کردہ اُمور پر عمل کی کوشش کرونگا.
حافظ خلیل سنابلی بھائی, فرحان عبدالمجيد بھائی اور عتیق الرحمٰن بھائی اور دوسرے تمام احباب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے محترم رفیق بھائی کی تحریر کو شییر, کمینٹ اور لائک کیا.
صرف اتنے ہی سے کام نہیں چلے گا ہمیں اجتماعی نہیں تو کم از کم انفرادی طور پر آگے آنا ہوگا اُمّت کا درد اپنے دلوں میں محسوس کرنا ہوگا ظلم کا خاتمہ کرکے انصاف قائم کرنا ہوگا.
ہم کِس چیز سے ڈرتے ہیں؟
مال و دولت اور کسی کے جاہ و مرتبہ اور عیش و عشرت سے ڈرتے ہیں؟
آخر وجہ کیا ہے؟
اگر دلوں میں حق پسندی ہے تو کیوں نہیں حق بیانی کرتے.؟
مُجھے افسوس ہے اُن لوگوں پر جو ظالم کا ساتھ صرف اِس لیئے دیتے ہیں کہ وہ میرے قبیلے یا خاندان کا ہے. یہ رنگ و نسل کا کھیل کب ختم ہوگا؟
یہ صرف رفیق احمد رئیس سلفی کی جنگ نہیں بلکہ ہم سب کی جنگ ہے ظلم و عدوان و سرکشی کے خلاف.آؤ کم از کم جہاد بالقلم کر لو تم پر ذمہ داری ہے.
فیس بک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناقل کا تحریر سے کلی اتفاق ضروری نہیں ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اساتذہ اور مشائخ کے حقوق
ہمارے معاشرے میں بہت لوگ ایسے ہیں جو دین کی تعلیم وتعلم، درس وتدریس، وعظ ونصیحت، دعوت وارشاد یا بحث وتحقیق میں اپنے اوقات کا ایک بڑا حصہ لگا دیتے ہیں۔
ایک محقق یا ریسرچر کی مثال لے لیں۔ کوئی ایک صاحب انہیں ایک حدیث کے بارے کہتے ہیں کہ اس کا حوالہ چاہیے جبکہ ایک دوسرے صاحب ان سے ایک دوسری حدیث کی صحت کے بارے معلوم کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ ایک تیسرا دوست ان سے اپنے ایک مضمون کی اصلاح مانگ رہا ہے تو چوتھے صاحب کسی مسئلے میں تحریری فتوی کے طلبگار ہیں۔ اب ہر ایک کےنزدیک انہوں نے ان سے ایک ہی کام کہا ہے لیکن ہر ایک کو یہ معلوم نہیں سوائے محقق کے کہ انہیں کتنے لوگوں نے ایک ہی دن میں کتنے کام کہے ہیں یا وہ اپنی ملازمت، گھر بار اور اپنی روٹین کی منظم دینی مصروفیات کے علاوہ کتنا وقت اس قسم کی دینی خدمات کے لیے نکال سکتے ہیں؟
ایک عالم کی مثال لے لیں۔ ان سے موبائل پر مسئلہ پوچھنے والا شخص ایک ہی مسئلہ پوچھتا ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اس دن میں بیسواں شخص ہے، جو اس عالم دین سے ایک مسئلہ پوچھ رہا ہے۔ اس لیے بعض اوقات ایسے علماء یا داعیان دین کہ جن کی طرف لوگ کثرت سے رجوع کرتے ہیں، سے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے موبائل اکثر بند رہتے ہیں یا وہ اپنا موبائل نہیں اٹھاتے۔ تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی اپنی ذاتی یا گھریلو زندگی تو بالکل ختم ہو ہی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات ان کی منظم دینی مصروفیات بھی متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
ایسے میں ان لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے جو ایسے مدرسین، علماء، داعیان دین یا واعظین کی طرف کسی مسئلہ میں رجوع کرتے ہیں کہ ان سے اس قدر اصرار نہ کریں کہ وہ اپنی ذات میں تنگ ہو کر مروت میں آپ کا کوئی کام کریں بلکہ کسی مطالبے کے اظہار میں ہمیشہ ایسا انداز اختیار کریں کہ وہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں اور اگر کسی کام سے ناں بھی کرنا چاہیں تو سہولت سے ناں کر سکیں اور ان کی ناں کو محسوس بھی نہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر واٹس ایپ پر موصول ہوئی ، کاتب کا نام نہیں لکھا ہوا ، لیکن غالبا یہ محترم ابو الحسن علوی صاحب کی ہے ۔ عرصہ قبل فورم پر ہی کہیں پڑھی تھی ۔ موقعہ کی مناسبت سے یہاں درج کی جاری ہے ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ایک عالم کی مثال لے لیں۔ ان سے موبائل پر مسئلہ پوچھنے والا شخص ایک ہی مسئلہ پوچھتا ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اس دن میں بیسواں شخص ہے، جو اس عالم دین سے ایک مسئلہ پوچھ رہا ہے۔ اس لیے بعض اوقات ایسے علماء یا داعیان دین کہ جن کی طرف لوگ کثرت سے رجوع کرتے ہیں، سے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے موبائل اکثر بند رہتے ہیں یا وہ اپنا موبائل نہیں اٹھاتے۔ تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی اپنی ذاتی یا گھریلو زندگی تو بالکل ختم ہو ہی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات ان کی منظم دینی مصروفیات بھی متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کی ”دونوں“ طرف سے شکایت کی جارہی ہے اور دونوں کی شکایت جائز ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل بھی تلاش کرنا چاہئے۔جن مراکز یا علمائے کرام کے پاس سائلین کا تانتا بندھا ہو، وہاں ایسا ”انتظام“ کیا جائے کہ لوگ 24 گھنٹہ فون یا واٹس اپ پر اپنے مسائل کا جواب حاصل کرسکیں۔
  1. یاد رکھئے سائلین اپنے مسائل کا ”فوری جواب“ چاہتے ہیں۔ ایسا جواب جو ”دوٹوک اور مختصر“ ہو۔ طویل مقالہ جات قسم کے فتاویٰ عوام الناس کے سر کے اوپر سے گذر جاتے ہیں۔ تاخیر سے جواب کی صورت میں سائل متعلقہ عالم دین یا دینی مرکز سے بھی متنفر ہوجاتا ہے۔
  2. ہر معروف اور بڑے دینی مراکز میں ایسے چند نوجوان، فعال، علمائے کرام کی ”ڈیوٹی“ ہو جو باری باری 24 گھنٹہ ”دستیاب“ رہیں۔ یہ علمائے کرام میڈیا، سوشیل میڈیا، ای میل، واٹس اپ، فون کال ، اسکائپ وغیرہ پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود فتاویٰ کے ذخائر اور سینئر علمائے کرام تک ”پہنچ“ رکھتے ہوں تاکہ کم سے کم وقت میں سائلین کو جواب دے سکیں۔
  3. یہ ایک ادنیٰ سی تجویز ہے، گر قبول افتد زہے عزو شرف ۔ واضح رہے کہ بیشتر دینی ادارے اور علمائے کرام عوام تک دینی تعلیمات پہنچانے میں اپنی زندگیاں اور کثیر رقوم خرث کرتے ہیں۔ مگر تاحال وہ یہ فریضہ ”ون وے“ طریقہ سے انجام دیتے ہیں کہ ہم کتب، ویب سائٹ اور تقاریر کے ذریعہ دین کا پیغام پہنچا رہے ہیں، عوام انہی سے استفادہ کریں۔ جبکہ یہ عمل ”ٹو وے“ ہونا چاہئے۔ عوام بھی جب چاہیں، جیسے چاہیں اپنے مسائل پیش کرکے ان کا حل حاصل کریں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کی ”دونوں“ طرف سے شکایت کی جارہی ہے اور دونوں کی شکایت جائز ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل بھی تلاش کرنا چاہئے۔جن مراکز یا علمائے کرام کے پاس سائلین کا تانتا بندھا ہو، وہاں ایسا ”انتظام“ کیا جائے کہ لوگ 24 گھنٹہ فون یا واٹس اپ پر اپنے مسائل کا جواب حاصل کرسکیں۔
  1. یاد رکھئے سائلین اپنے مسائل کا ”فوری جواب“ چاہتے ہیں۔ ایسا جواب جو ”دوٹوک اور مختصر“ ہو۔ طویل مقالہ جات قسم کے فتاویٰ عوام الناس کے سر کے اوپر سے گذر جاتے ہیں۔ تاخیر سے جواب کی صورت میں سائل متعلقہ عالم دین یا دینی مرکز سے بھی متنفر ہوجاتا ہے۔
  2. ہر معروف اور بڑے دینی مراکز میں ایسے چند نوجوان، فعال، علمائے کرام کی ”ڈیوٹی“ ہو جو باری باری 24 گھنٹہ ”دستیاب“ رہیں۔ یہ علمائے کرام میڈیا، سوشیل میڈیا، ای میل، واٹس اپ، فون کال ، اسکائپ وغیرہ پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود فتاویٰ کے ذخائر اور سینئر علمائے کرام تک ”پہنچ“ رکھتے ہوں تاکہ کم سے کم وقت میں سائلین کو جواب دے سکیں۔
  3. یہ ایک ادنیٰ سی تجویز ہے، گر قبول افتد زہے عزو شرف ۔ واضح رہے کہ بیشتر دینی ادارے اور علمائے کرام عوام تک دینی تعلیمات پہنچانے میں اپنی زندگیاں اور کثیر رقوم خرث کرتے ہیں۔ مگر تاحال وہ یہ فریضہ ”ون وے“ طریقہ سے انجام دیتے ہیں کہ ہم کتب، ویب سائٹ اور تقاریر کے ذریعہ دین کا پیغام پہنچا رہے ہیں، عوام انہی سے استفادہ کریں۔ جبکہ یہ عمل ”ٹو وے“ ہونا چاہئے۔ عوام بھی جب چاہیں، جیسے چاہیں اپنے مسائل پیش کرکے ان کا حل حاصل کریں۔
ماشاء الله ، تجويز اچھی ہے ، لیکن اس کی کوئی عملی صورت بنا کردیں ، شاید کسی کو خاکہ اچھا لگے اور وہ خیر کے اس کام کو آگے بڑھائے ۔
بہت حیرانی کی بات ہے کہ دنیاوی کاروبار میں اس قدر سہولت ہے کہ کنواں پیاسے کے پاس پہنچ رہا ہوتا ہے ، لیکن دینی معاملات میں سائل مولوی صاحب کے پاس حاضر بھی ہو جائے تو یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا مسئلہ حل ہوگا ۔
کیا خیال ہے ، جس طرح بینک ، اور بڑی بڑی کمپنیاں ، کمائی کرکے کنوؤں کو تنخواہ دے کر پیاسے کے پاس بھیجتی ہیں ، مولویوں کو بھی ایسا کاروبار شروع کرلینا چاہیے ؟
جس طرح کی صورت حال آپ چاہ رہے ہیں ، انڈیا میں اس ضرورت کو کسی حد تک ’’ دینی سنٹرز ‘‘ پورا کر رہے ہیں ۔ لیکن پاکستان میں غالبا اس طرح کا کوئی رواج نہیں ۔
 
Top