ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 569
- ری ایکشن اسکور
- 176
- پوائنٹ
- 77
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ملت ابراہیم اللہ تعالیٰ کو اس قدر عزیز ہے کہ وہ فرماتا ہے :
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [البقرہ: ۱۳۰]
دین ابراہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو ، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے۔
اسی طرح نبی ﷺ کو ملت ابراہیم کی پیروی کرنے کی تاکید کرتے ہوئے وہ فرماتا ہے:
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ [نحل: ۱۲۳]
پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے۔
محترم قارئین ! اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جس منھاج اور طرز زندگی کو بیان کیا ہے وہ نہایت جامع اور دو ٹوک ہے۔ مزید برآں اسے اختیار کرنا اس قدر ضروری ہے کہ اس طریقے کو چھوڑ کر مسلمان فتنے اور ہلاکت میں پڑ جائیں گے۔ شیطان کمزور ایمان والوں کو بھٹکانے کے لیے گھات لگائے ہوئے ہے ۔ اب جو شخص کہے کہ دعوت کا یہ اسلوب مصائب لانے والا ہے جدید دور میں دعوت کے لیے جدید اسلوب اپنانے کی ضرورت ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص ابراہیم علیہ السلام کے دعوتی اسلوب کو چھوڑ کر اپنی طرف سے کوئی طریقہ اپنانا چاہے تو وہ غلطی کا مرتکب ہوگا کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کی دانائی اللہ تعالیٰ کو حد درجے پسند ہے ۔اس کی تعریف کرتے ہوئے سورۃ الانبیاء میں وہ فرماتا ہے:
وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ [۵۱]
یقینا ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور ہم اس کے احوال سے بخوبی واقف تھے۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ ایسے تعریفی کلمات ملتے ہیں :
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [البقرہ: ۱۳۰]
دین ابراہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو ، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے۔
ہر قسم کی عبادات خالص ایک اللہ کے لیے کرنا ، شرک اور اہل شرک سے مکمل براءت اختیار کرنا ، محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو اس طرح بیان کیا ہے کہ دین اسلام کی دو بنیادیں ہیں ۔ ایک اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کا حکم دینا لوگوں کو اس کی دعوت دینا جو لوگ توحید پر کاربند ہوں انہیں اپنا دوست اور ولی سمجھنا اور دوسرا جو لوگ اکیلے اللہ کی عبادت کا انکار کریں اور اس کے ساتھ شرک کریں ان کی تکفیر کرنا۔
یہ وہی توحید ہے جس کی طرف تمام انبیاء نے دعوت دی۔ لا الہ الا اللہ کا معنی بھی یہ ہے کہ خالص اللہ کو بندگی کی جائے۔ زندگی کے ہر معاملے میں، دوستی اور دشمنی کا معیار بھی یہی عقیدہ توحید ہو ‘ اور اللہ رب العالمین کے علاوہ ہر معبود کا انکار کیا جائے۔ اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھی جائے۔ عقیدہ ولاء اور براء بیک وقت دل میں بھی ہو اور عمل سے بھی چھلکتا ہو۔ جہاں سورت اخلاص دِل میں عقیدہ ولاء اور براء کو راسخ کرتی ہے وہاں سورت کافرون عملی اظہار پر ابھارتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فجر کی سنتوں میں انہی دوسورتوں سے اپنے دن کا آغاز کیا کرتے تھے۔
انتباہ
جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ملت ابراہیم کا حق توحید کی تعلیم دینے کے لیے درس گاہوں کی کثرت سے ادا ہو جاتاہے اور توحید کی اقسام کو علمی انداز میں بیان کرکے اسوہِ ابراہیمی کا حق ادا کرلیتے ہیں تو وہ سخت مغالطے میں مبتلا ہیں ۔اہل باطل کے نظریات کا رد نہ کیا جائے‘ معاشرے میں وہ جو کرتے پھریں اس پر چپ سادھ لی جائے‘ ان سے اظہار براءت نہ کیا جائے اور پھر بھی وہ ملت ابراہیم کے دعوے دار ہوں‘ اگر یہی ملت ابراہیم کا تقاضا ہوتا تو پھر ابراہیم علیہ السلام کو ان کی قوم آگ کے آلاؤ میں نہ پھینکتی۔
اگر ابراہیم علیہ السلام توحید کی دعوت کو محض درس گاہوں میں پیش کرتے اور اپنی قوم کے باطل نظریات سے کوئی تعرض نہ کرتے ‘ قوم کے معبودوں کے خلاف اعلان جنگ بھی نہ کرتے، دوستی اور دشمنی، محبت اور عداوت کے سارے سوتے اللہ کی توحید سے برآمد نہ کرتے ہجرت اور جہاد کے راستے کو اختیار نہ کرتے تو آپ کی قوم آپ کو بڑھ کر خوش آمدید کہتی‘ درس گاہیں اور جامعات آپ کی سپردگی میں چلتے جیسا کہ ہمارے ہاں توحید کی تعلیم درس گاہوں کے بند کمروں میں دی جاتی ہے اور توحید کا عملی اظہار کہیں نہیں ہوتا۔
خلیجی ممالک میں تمہیں شاہراہوں پر اشتہارات پڑھنے کو ملیں گے ۔ مدرسۃ التوحید، کلیۃ الدعوۃ، کلیۃ اصول الدین وغیرہ وغیرہ۔ اہل باطل ایسی توحید کے کبھی آڑے نہیں آتے۔ اِن درس گاہوں میں لکھے جانے والے سینکڑوں مقالے ان کے لیے کسی تکلیف کا باعث نہیں بنتے بلکہ محققین کو تو انعام واکرام سے نوازا جاتا ہے۔ توحید کی مسخ صورت پیش کرنے سے سماج میں کوئی تبدیلی نہیں آجایا کرتی۔ اس کے لیے جیسا کے شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص اہل شرک سے عداوت نہیں رکھتا اس کا اہل توحید میں ہونے کا تصور بھی نہیں کیاجا سکتا ۔[الدررالسنیۃ؛ جزء الجھاد ص : ۱۶۷]
ذرا مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ دعوت کو بھی سامنے رکھیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کے بتوں کو کھلم کھلا برا بھلا کہنا چھوڑ دیتے‘ لات، عزیٰ، منات جیسے اہل مکہ کے بتوں کی جن آیات میں اہانت کی گئی تھی‘ وہ انہیں پڑھ پڑھ کر نہ سناتے تو مشرکین مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر اعتراض نہ ہوتا۔
مکہ کے بڑے بڑے مشرک ‘ ابو لہب اور ولید کے بارے میں جو آیات نازل ہوئیں انہیں اپنی قوم پر پیش نہ کرتے تو اہل مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی توقیر کرتے۔ لیکن آپ دیکھیں گے کہ توحید کے عملی اظہار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حالت سجدہ میں جانوروں کی آلائشیں ڈال دی جاتی ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی کے واقعات سرے سے پیش ہی نہ آتے جو سیرت کی کتابیں پڑھتے ہوئے ہماری نظروں کے سامنے سے بار بار گزرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت اور دوسرے مصائب برداشت نہ کرنا پڑتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے اصحاب مزے سے اپنے وطن میں امن وسکون سے رہتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام لانے والوں سے دوستی اور اسلام نہ لانے والوں سے دشمنی مسلمانوں پر اول روز سے ہی فرض تھی۔ نماز پنج گانہ ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ کی فرضیت تو بعد میں نازل ہوئی مگر فریضہ توحید پر عمل کرنے سے مصائب و آلام کا آغاز پہلے دن سے ہو گیا تھا۔
شیخ حمد بن عتیق آلِ شیخ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ہر صاحب ِ عقل جو اپنی جان کا خیر خواہ ہے اسے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ قریش نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مکہ جیسے محترم شہر سے کیوں نکالا؟ اس شہر میں داخل ہونے والا ہر شخص امن و سلامتی میں آجاتا ہے‘ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے ہجرت کیوں کرنا پڑی؟ یاد رکھیں کہ مکہ والوں نے یہ جسارت اس وقت کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دین کو غلط کہا اور ان کے آباء و اجداد کو شرک کرنے کی وجہ سے گمراہ قرار دیا۔
ابتداء میں انہوں نے معاشرتی دباؤ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے کی کوشش کی پھر شہر بدر کرنے کی دھمکیاں ملیں پھر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر طرح طرح کے مصائب آئے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان مصائب کا ذکر کردیا (اور کچھ رعایتیں چاہیں) مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سابقہ انبیاء کے پیروکاروں کو دی جانے والی تکالیف کا ذکر کرکے صبر و استقامت کی تلقین فرمائی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے یہ نہیں کہا کہ تم مشرکین کے دین اور ان کے معبودوں کو برا بھلا مت کہو‘ انہیں کافر اور گمراہ بھی نہ کہا کرو، اپنے رویے میں لچک پیدا کرو، لیکن اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزیز ترین وطن مکہ سے ہجرت کرنا گوارہ کر لیا۔ قرآن مجید میں یہی سیرت ہمارے لیے اسوہ حسنہ بتائی گئی ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا [الاحزاب:۲۱]
یقینا تمہارے لئے رسول اﷲ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اﷲ تعالیٰ اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اﷲ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔
طواغیت ہر زمانہ اور ہر جگہ اللہ کی توحید کی دعوت دینے والوں کے ساتھ یہی رویہ روا رکھتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی اسلام سے راضی نہیں ہوتے، اسلامی ممالک کے حکمران اسی طرح کرتے ہیں کہ جب اسلام پر مشکل ترین وقت آن پڑے تو اُس وقت اسلام اپنے لوگوں میں ہی اجنبی ہوکر رہ جائے۔ جب مومنوں سے دوستی اور کفار سے عداوت کا اظہار اس دین کی بقاء کے لیے اشد ضرورت بن جائے تو اس نازک وقت میں یہ لوگ اسلام کے دشمنوں سے مصالحت کی باتیں کرتے ہیں ۔اس مقصد کے لیے کانفرس اور مجالس منعقد ہوتی ہیں اور میڈیا پر امن وآشتی کے مضامین کی بھر مار ہوجاتی ہے۔
ہم نے سعودی عرب میں سربراہوں کا یہی کردار دیکھا ہے۔ یہاں کی سرکاری توحید بس کتب خانوں کی رونق تک محدود ہے۔ یہاں بس قبر پرستی، شرکیہ تعویز گنڈے ، آستانوں اور درگاہوں کے خلاف کتب چھپتی ہیں مگر جو امور عقیدہ ولاء اور براء سے متعلق ہیں وہاں حکومت صرف اپنے مفاد کو سامنے رکھتی ہے۔ بس یہاں توحید وہی معتبر ہے جس کی آواز ایوان بالا تک نہ پہنچے ۔
کبھی آپ نے سوچا کہ مملکت سعودی عرب میں شیخ جہیمان کی کتابوں کو کیوں فروغ نہیں دیا جاتا۔ کیا ان کتابوں میں توحید بیان نہیں کی گئی ہے‘ لطف تو یہ ہے کہ ان کتب میں حکمرانوں کو کافر بھی نہیں کہا گیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ان کتب میں جو توحید بیان کی گئی ہے وہ طاغوتوں کے مزاج اور خواہشات کے خلاف ہے کیونکہ اس میں کفار سے دوستی اور دشمنی کو بھی عقیدہ توحید میں شامل کیا گیا ہے۔
شیخ علامہ حمد بن عتیق رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔’’بہت سے لوگوں کا تصوُّرِ اسلام اس قدر محدود ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کلمہ شہادت منہ زبانی پڑھ لے ، مساجد میں نمازِ پنجگانہ ادا کرلے تو وہ دینِ اسلام کی تعلیمات پر کاربند ہے‘ خواہ وہ مشرک اور مرتد ہو جانے والوں کے ساتھ ہی رہتا رہے۔ ‘‘ یہ تصوُّر دین بالکل غلط ہے۔ یاد رکھو کہ کفر کی کئی انواع و اقسام ہیں۔ پھر ہر گروہ اور طبقے کے کافر ہو جانے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ بنابریں اظہار ِ دین اس وقت ہو گا جب وہ اپنے علاقے کے کفریہ گروہوں سے اظہارِ عداوت کرے ‘‘۔ [دیکھئے حوالہ : کتاب سبیل النجاۃ]
وہ اپنی کتاب الدررالسنیۃ‘ میں لکھتے ہیں ’’اظہارِ دین کا مطلب ہے کفار کی تکفیر کی جائے ان کے دین کو غلط اور مطعون ٹھہرایا جائے اور ان کی طرف کسی قسم کا میلان اور جھکاؤ کا تاثر نہ دیا جائے۔ اظہارِ دین کفار سے دشمنی رکھنے کا نام ہے۔ محض نماز ادا کرکے سمجھ بیٹھنا کہ ہم نے اپنے دین کا اظہار کر لیا ہے ‘ کلمہ شہادت کی حقیقت کو نہ جاننے پر دلالت کرتا ہے۔ [الدررالسنیۃ: جزء الجہاد، ص: ۱۹۶]
اللہ کے لیے دوستی اور اللہ ہی کے لیے دشمنی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے شیخ اسحاق بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’جو شخص معمول کی عبادات بجا لاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وعظ و نصیحت سے اسے منع نہیں کیا جا رہا ہے تو یہ دیکھ کر وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ دینِ اسلام کی نصرت کا کام بہت خوب ہو رہا ہے تو وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہے‘ عقلی اور شرعی دونوں لحاظ سے۔ اس دعوے کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوؤں ‘ عیسائیوں اور کفار کے ممالک میں دین آزاد ہے کیونکہ وہاں بھی نماز، اذان، اور وعظ و نصیحت پر پابندی نہیں ہے ۔ [الدررالسنیۃ: جزء الجہاد، ص: ۱۴۱]
ایک عالم نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے : ’’یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نماز کا ادا کرلینا اور حج کے موقع پر لبیک کہہ لینے سے خدا کا حق اور توحیدِ باری تعالیٰ کا تقاضا پورا ہو گیا ہے خواہ دین کے باقی معاملات پر سکوت اختیار کرلے ‘ دوسری طرف اسے اپنے دین کی سلامتی بھی اسی میں نظر آتی ہے۔ یاد رکھیں ہر سرکش گمراہ سے اظہارِ برأت کرنا ‘ تمام مسلمانوں سے شدید محبت رکھنا اور کفار سے بغض و عناد رکھنے سے ہی دین کا اظہار ہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح ابوالوفاء بن عقیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جب تم کسی دور میں مسلمانوں کے ایمان کی حالت دیکھنا چاہو تو یہ دیکھو کہ وہ دشمنانِ اسلام سے کیسے پیش آتے ہیں۔ اگر اس میں مداہنت نہ ہو‘ کفار پر وہ سخت ہوں اور مومنوں سے شدید محبت رکھتے ہوں تو سمجھ لو ان کے ایمان کی حالت بہتر ہے۔ مسلمانوں کے دشمنوں سے دور رہو۔ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مخالفین سے نفرت کرنا قربِ الٰہی کا افضل ترین ذریعہ ہے ان دشمنانِ اسلام سے ہاتھ زبان اور تمام اعضاء کے ساتھ بقدرِ استطاعت جہاد کرتے رہو ‘‘۔ [الدررالسنیۃ: جزء الجہاد، ص: ۲۳۸]
تنبیہ
شرک اور اہل شرک سے اظہار برأت عقیدہ اسلام کا بنیادی عنصر ہے، اسلام اور اہل اسلام سے محبت کرنا، ان کی نصرت اور اعانت کرنا، ان کی خیر خواہی چاہنا اور متحد ہو کر رہنا اور اسکا برملا اظہار کرنا اس عقیدے کا لازمی تقاضا ہے۔
جب ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے سخت لہجے میں بات کرتے ہیں تو بخدا اس کا مقصد محض اپنے ہم عقیدہ مسلمانوں کی اصلاح اور خیر خواہی ہی ہوتا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان کی مثال دوسرے مسلمان کے ساتھ ایسے ہے جیسے دو ہاتھ ہوتے ہیں اور ایک ہاتھ دوسرے کی اور دوسرا ہاتھ پہلے ہاتھ کی رگڑ رگڑ کر صفائی ستھرائی کر دیتا ہے، ہاتھوں کی صفائی کے دوران میں میل کچیل اتارنے کیلئے رگڑتے وقت بہرحال کچھ نہ کچھ تکلیف ہوتی ہے تو اس تکلیف سے مقصود ہاتھوں کو آلودگی سے پاک کرنا ہوتا ہے، بالکل اسی طرح ایک دوسرے کی اصلاح کرتے ہوئے (برمبنی حکمت) سختی سے بھی مقصود یہی ہوتا ہے۔
مسلمان کا مسلمان سے لاتعلق ہونا ہمارے ایمان کا حصہ نہیں ہے سوائے تین روز کے، ہر مسلمان کی ولایت اور نصرت کا حق دوسرے مسلمان پر رہتا ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص دائرہ اسلام سے ہی خارج ہو جاتا ہے تو پھر اس کا ولایت (دوستی) اور نصرت کا حق ختم ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کو باہمی اتفاق اور محبت کا درس دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِلا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ [الانفال: ۷۳]
’اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔‘‘
بسا اوقات مسلمان کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے یا بدعات اور خرافات کا شکار ہو جاتا ہے یا کسی جاہلی تصور سے متاثر ہو جاتا ہے تو ان باتوں سے اس کا حق موالات (آپس میں دوستی اور نصرت) تو باقی رہتا ہی ہے ایک اور حق بھی شروع ہو جاتا ہے وہ یہ کہ دوسرے مسلمان اس کی اصلاح کریں۔
کبھی مسلمانوں کا کوئی گروہ اسلامی ریاست کے خلاف بغاوت کر لیتا ہے یا دو مسلمانوں کے گروہ برسر پیکار ہو جاتے ہیں، اس ناگہانی صورت میں ہمیں اسلامی شریعت سے مکمل ہدایت مل جاتی ہیں کہ کس طرح دونوں گروہ بدستور مسلمان رہتے ہیں اور کس طرح ان میں عدل وانصاف اور شرعی احکام کی روشنی میں صلح کرائی جاتی ہے۔ البتہ مسلمانوں کی اِس باہمی لڑائی کا عنون ارتداد اور اسلام سے سرکشی اور بغض نہیں ہونا چاہیے۔ ارتداد اور مرتد (جو مسلمان کفر کا مرتکب ہو کر دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے) کے احکام اور مسلمانوں کے آپس کی لڑائی جھگڑے کے احکام خلط ملط نہیں ہونے چاہیں۔
رہے وہ لوگ جن کی دوستی اور دشمنی کا معیار اسلامی عقیدہ نہیں بلکہ طواغیت کی خوشنودی حاصل کرنا ہے یا حکام کے ہاں کوئی عزت ومنزلت پانے کیلئے ہے تو وہ طاغوت کے خیر خواہ ہیں۔ ہم ایسے لوگوں سے کبھی موالات نہیں رکھ سکتے جس سے طاغوت کا سینہ ٹھنڈا ہو۔ خود ان کا یہ حال ہے کہ ان کا اسلام اور راسخ العقیدہ مسلمانوں سے بغض وعناد بالکل واضح ہے۔ ان کے اخبارات وجرائد اور الیکٹرانک میڈیا اس پر گواہ ہیں۔
بسا اوقات اس پروپیگنڈے کا شکار ہمارے سادہ لوح مسلمان بھی ہو جاتے ہیں، عام مسلمانوں کیلئے تو شاید کچھ عذرات ہوں، حکام وقت کے بہی خواہ علماء بھی وہی انداز سخن اختیار کرتے ہیں جو سرکاری اخبارات میں ہر روز پڑھنے کو ملتا ہے۔
ملت ابراہیم کے اسوہ کو اپنانے والوں کے خلاف حکام کے ساتھ علماء وقت بھی شریک کار ہو جاتے ہیں۔ ان کے لئے وہی القابات استعمال کرتے ہیں جو سرکار نے انہیں نوازے ہوتے ہیں: خوارج، باغی اور دہشت گرد . . . مسلمانوں سے ان کی عداوت کفار سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ ہمارے بعض قابل احترام علماء ایسے بھی ہیں جو ملت ابراہیم کا نام لینے والوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ نوجوان برے نہیں ہیں صرف بہکاوے میں آئے ہوئے ہیں! ہمیں اِن القابات سے نوازتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی ایک کلمہ انسان کو دوزخ کے اندر ستر برس کی مسافت تک دھکیل دیتا ہے۔
ملت ابراہیم اللہ تعالیٰ کو اس قدر عزیز ہے کہ وہ فرماتا ہے :
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [البقرہ: ۱۳۰]
دین ابراہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو ، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے۔
اسی طرح نبی ﷺ کو ملت ابراہیم کی پیروی کرنے کی تاکید کرتے ہوئے وہ فرماتا ہے:
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ [نحل: ۱۲۳]
پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے۔
محترم قارئین ! اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جس منھاج اور طرز زندگی کو بیان کیا ہے وہ نہایت جامع اور دو ٹوک ہے۔ مزید برآں اسے اختیار کرنا اس قدر ضروری ہے کہ اس طریقے کو چھوڑ کر مسلمان فتنے اور ہلاکت میں پڑ جائیں گے۔ شیطان کمزور ایمان والوں کو بھٹکانے کے لیے گھات لگائے ہوئے ہے ۔ اب جو شخص کہے کہ دعوت کا یہ اسلوب مصائب لانے والا ہے جدید دور میں دعوت کے لیے جدید اسلوب اپنانے کی ضرورت ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص ابراہیم علیہ السلام کے دعوتی اسلوب کو چھوڑ کر اپنی طرف سے کوئی طریقہ اپنانا چاہے تو وہ غلطی کا مرتکب ہوگا کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کی دانائی اللہ تعالیٰ کو حد درجے پسند ہے ۔اس کی تعریف کرتے ہوئے سورۃ الانبیاء میں وہ فرماتا ہے:
وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ [۵۱]
یقینا ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور ہم اس کے احوال سے بخوبی واقف تھے۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ ایسے تعریفی کلمات ملتے ہیں :
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [البقرہ: ۱۳۰]
دین ابراہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو ، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے۔
دین ابراہیم کی امتیازی خصوصیات
ہر قسم کی عبادات خالص ایک اللہ کے لیے کرنا ، شرک اور اہل شرک سے مکمل براءت اختیار کرنا ، محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو اس طرح بیان کیا ہے کہ دین اسلام کی دو بنیادیں ہیں ۔ ایک اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کا حکم دینا لوگوں کو اس کی دعوت دینا جو لوگ توحید پر کاربند ہوں انہیں اپنا دوست اور ولی سمجھنا اور دوسرا جو لوگ اکیلے اللہ کی عبادت کا انکار کریں اور اس کے ساتھ شرک کریں ان کی تکفیر کرنا۔
یہ وہی توحید ہے جس کی طرف تمام انبیاء نے دعوت دی۔ لا الہ الا اللہ کا معنی بھی یہ ہے کہ خالص اللہ کو بندگی کی جائے۔ زندگی کے ہر معاملے میں، دوستی اور دشمنی کا معیار بھی یہی عقیدہ توحید ہو ‘ اور اللہ رب العالمین کے علاوہ ہر معبود کا انکار کیا جائے۔ اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھی جائے۔ عقیدہ ولاء اور براء بیک وقت دل میں بھی ہو اور عمل سے بھی چھلکتا ہو۔ جہاں سورت اخلاص دِل میں عقیدہ ولاء اور براء کو راسخ کرتی ہے وہاں سورت کافرون عملی اظہار پر ابھارتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فجر کی سنتوں میں انہی دوسورتوں سے اپنے دن کا آغاز کیا کرتے تھے۔
انتباہ
جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ملت ابراہیم کا حق توحید کی تعلیم دینے کے لیے درس گاہوں کی کثرت سے ادا ہو جاتاہے اور توحید کی اقسام کو علمی انداز میں بیان کرکے اسوہِ ابراہیمی کا حق ادا کرلیتے ہیں تو وہ سخت مغالطے میں مبتلا ہیں ۔اہل باطل کے نظریات کا رد نہ کیا جائے‘ معاشرے میں وہ جو کرتے پھریں اس پر چپ سادھ لی جائے‘ ان سے اظہار براءت نہ کیا جائے اور پھر بھی وہ ملت ابراہیم کے دعوے دار ہوں‘ اگر یہی ملت ابراہیم کا تقاضا ہوتا تو پھر ابراہیم علیہ السلام کو ان کی قوم آگ کے آلاؤ میں نہ پھینکتی۔
اگر ابراہیم علیہ السلام توحید کی دعوت کو محض درس گاہوں میں پیش کرتے اور اپنی قوم کے باطل نظریات سے کوئی تعرض نہ کرتے ‘ قوم کے معبودوں کے خلاف اعلان جنگ بھی نہ کرتے، دوستی اور دشمنی، محبت اور عداوت کے سارے سوتے اللہ کی توحید سے برآمد نہ کرتے ہجرت اور جہاد کے راستے کو اختیار نہ کرتے تو آپ کی قوم آپ کو بڑھ کر خوش آمدید کہتی‘ درس گاہیں اور جامعات آپ کی سپردگی میں چلتے جیسا کہ ہمارے ہاں توحید کی تعلیم درس گاہوں کے بند کمروں میں دی جاتی ہے اور توحید کا عملی اظہار کہیں نہیں ہوتا۔
خلیجی ممالک میں تمہیں شاہراہوں پر اشتہارات پڑھنے کو ملیں گے ۔ مدرسۃ التوحید، کلیۃ الدعوۃ، کلیۃ اصول الدین وغیرہ وغیرہ۔ اہل باطل ایسی توحید کے کبھی آڑے نہیں آتے۔ اِن درس گاہوں میں لکھے جانے والے سینکڑوں مقالے ان کے لیے کسی تکلیف کا باعث نہیں بنتے بلکہ محققین کو تو انعام واکرام سے نوازا جاتا ہے۔ توحید کی مسخ صورت پیش کرنے سے سماج میں کوئی تبدیلی نہیں آجایا کرتی۔ اس کے لیے جیسا کے شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص اہل شرک سے عداوت نہیں رکھتا اس کا اہل توحید میں ہونے کا تصور بھی نہیں کیاجا سکتا ۔[الدررالسنیۃ؛ جزء الجھاد ص : ۱۶۷]
ذرا مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ دعوت کو بھی سامنے رکھیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کے بتوں کو کھلم کھلا برا بھلا کہنا چھوڑ دیتے‘ لات، عزیٰ، منات جیسے اہل مکہ کے بتوں کی جن آیات میں اہانت کی گئی تھی‘ وہ انہیں پڑھ پڑھ کر نہ سناتے تو مشرکین مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر اعتراض نہ ہوتا۔
مکہ کے بڑے بڑے مشرک ‘ ابو لہب اور ولید کے بارے میں جو آیات نازل ہوئیں انہیں اپنی قوم پر پیش نہ کرتے تو اہل مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی توقیر کرتے۔ لیکن آپ دیکھیں گے کہ توحید کے عملی اظہار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حالت سجدہ میں جانوروں کی آلائشیں ڈال دی جاتی ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی کے واقعات سرے سے پیش ہی نہ آتے جو سیرت کی کتابیں پڑھتے ہوئے ہماری نظروں کے سامنے سے بار بار گزرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت اور دوسرے مصائب برداشت نہ کرنا پڑتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے اصحاب مزے سے اپنے وطن میں امن وسکون سے رہتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام لانے والوں سے دوستی اور اسلام نہ لانے والوں سے دشمنی مسلمانوں پر اول روز سے ہی فرض تھی۔ نماز پنج گانہ ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ کی فرضیت تو بعد میں نازل ہوئی مگر فریضہ توحید پر عمل کرنے سے مصائب و آلام کا آغاز پہلے دن سے ہو گیا تھا۔
شیخ حمد بن عتیق آلِ شیخ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ہر صاحب ِ عقل جو اپنی جان کا خیر خواہ ہے اسے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ قریش نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مکہ جیسے محترم شہر سے کیوں نکالا؟ اس شہر میں داخل ہونے والا ہر شخص امن و سلامتی میں آجاتا ہے‘ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے ہجرت کیوں کرنا پڑی؟ یاد رکھیں کہ مکہ والوں نے یہ جسارت اس وقت کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دین کو غلط کہا اور ان کے آباء و اجداد کو شرک کرنے کی وجہ سے گمراہ قرار دیا۔
ابتداء میں انہوں نے معاشرتی دباؤ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے کی کوشش کی پھر شہر بدر کرنے کی دھمکیاں ملیں پھر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر طرح طرح کے مصائب آئے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان مصائب کا ذکر کردیا (اور کچھ رعایتیں چاہیں) مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سابقہ انبیاء کے پیروکاروں کو دی جانے والی تکالیف کا ذکر کرکے صبر و استقامت کی تلقین فرمائی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے یہ نہیں کہا کہ تم مشرکین کے دین اور ان کے معبودوں کو برا بھلا مت کہو‘ انہیں کافر اور گمراہ بھی نہ کہا کرو، اپنے رویے میں لچک پیدا کرو، لیکن اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزیز ترین وطن مکہ سے ہجرت کرنا گوارہ کر لیا۔ قرآن مجید میں یہی سیرت ہمارے لیے اسوہ حسنہ بتائی گئی ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا [الاحزاب:۲۱]
یقینا تمہارے لئے رسول اﷲ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اﷲ تعالیٰ اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اﷲ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔
طواغیت ہر زمانہ اور ہر جگہ اللہ کی توحید کی دعوت دینے والوں کے ساتھ یہی رویہ روا رکھتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی اسلام سے راضی نہیں ہوتے، اسلامی ممالک کے حکمران اسی طرح کرتے ہیں کہ جب اسلام پر مشکل ترین وقت آن پڑے تو اُس وقت اسلام اپنے لوگوں میں ہی اجنبی ہوکر رہ جائے۔ جب مومنوں سے دوستی اور کفار سے عداوت کا اظہار اس دین کی بقاء کے لیے اشد ضرورت بن جائے تو اس نازک وقت میں یہ لوگ اسلام کے دشمنوں سے مصالحت کی باتیں کرتے ہیں ۔اس مقصد کے لیے کانفرس اور مجالس منعقد ہوتی ہیں اور میڈیا پر امن وآشتی کے مضامین کی بھر مار ہوجاتی ہے۔
ہم نے سعودی عرب میں سربراہوں کا یہی کردار دیکھا ہے۔ یہاں کی سرکاری توحید بس کتب خانوں کی رونق تک محدود ہے۔ یہاں بس قبر پرستی، شرکیہ تعویز گنڈے ، آستانوں اور درگاہوں کے خلاف کتب چھپتی ہیں مگر جو امور عقیدہ ولاء اور براء سے متعلق ہیں وہاں حکومت صرف اپنے مفاد کو سامنے رکھتی ہے۔ بس یہاں توحید وہی معتبر ہے جس کی آواز ایوان بالا تک نہ پہنچے ۔
کبھی آپ نے سوچا کہ مملکت سعودی عرب میں شیخ جہیمان کی کتابوں کو کیوں فروغ نہیں دیا جاتا۔ کیا ان کتابوں میں توحید بیان نہیں کی گئی ہے‘ لطف تو یہ ہے کہ ان کتب میں حکمرانوں کو کافر بھی نہیں کہا گیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ان کتب میں جو توحید بیان کی گئی ہے وہ طاغوتوں کے مزاج اور خواہشات کے خلاف ہے کیونکہ اس میں کفار سے دوستی اور دشمنی کو بھی عقیدہ توحید میں شامل کیا گیا ہے۔
شیخ علامہ حمد بن عتیق رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔’’بہت سے لوگوں کا تصوُّرِ اسلام اس قدر محدود ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کلمہ شہادت منہ زبانی پڑھ لے ، مساجد میں نمازِ پنجگانہ ادا کرلے تو وہ دینِ اسلام کی تعلیمات پر کاربند ہے‘ خواہ وہ مشرک اور مرتد ہو جانے والوں کے ساتھ ہی رہتا رہے۔ ‘‘ یہ تصوُّر دین بالکل غلط ہے۔ یاد رکھو کہ کفر کی کئی انواع و اقسام ہیں۔ پھر ہر گروہ اور طبقے کے کافر ہو جانے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ بنابریں اظہار ِ دین اس وقت ہو گا جب وہ اپنے علاقے کے کفریہ گروہوں سے اظہارِ عداوت کرے ‘‘۔ [دیکھئے حوالہ : کتاب سبیل النجاۃ]
وہ اپنی کتاب الدررالسنیۃ‘ میں لکھتے ہیں ’’اظہارِ دین کا مطلب ہے کفار کی تکفیر کی جائے ان کے دین کو غلط اور مطعون ٹھہرایا جائے اور ان کی طرف کسی قسم کا میلان اور جھکاؤ کا تاثر نہ دیا جائے۔ اظہارِ دین کفار سے دشمنی رکھنے کا نام ہے۔ محض نماز ادا کرکے سمجھ بیٹھنا کہ ہم نے اپنے دین کا اظہار کر لیا ہے ‘ کلمہ شہادت کی حقیقت کو نہ جاننے پر دلالت کرتا ہے۔ [الدررالسنیۃ: جزء الجہاد، ص: ۱۹۶]
اللہ کے لیے دوستی اور اللہ ہی کے لیے دشمنی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے شیخ اسحاق بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’جو شخص معمول کی عبادات بجا لاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وعظ و نصیحت سے اسے منع نہیں کیا جا رہا ہے تو یہ دیکھ کر وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ دینِ اسلام کی نصرت کا کام بہت خوب ہو رہا ہے تو وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہے‘ عقلی اور شرعی دونوں لحاظ سے۔ اس دعوے کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوؤں ‘ عیسائیوں اور کفار کے ممالک میں دین آزاد ہے کیونکہ وہاں بھی نماز، اذان، اور وعظ و نصیحت پر پابندی نہیں ہے ۔ [الدررالسنیۃ: جزء الجہاد، ص: ۱۴۱]
ایک عالم نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے : ’’یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نماز کا ادا کرلینا اور حج کے موقع پر لبیک کہہ لینے سے خدا کا حق اور توحیدِ باری تعالیٰ کا تقاضا پورا ہو گیا ہے خواہ دین کے باقی معاملات پر سکوت اختیار کرلے ‘ دوسری طرف اسے اپنے دین کی سلامتی بھی اسی میں نظر آتی ہے۔ یاد رکھیں ہر سرکش گمراہ سے اظہارِ برأت کرنا ‘ تمام مسلمانوں سے شدید محبت رکھنا اور کفار سے بغض و عناد رکھنے سے ہی دین کا اظہار ہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح ابوالوفاء بن عقیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جب تم کسی دور میں مسلمانوں کے ایمان کی حالت دیکھنا چاہو تو یہ دیکھو کہ وہ دشمنانِ اسلام سے کیسے پیش آتے ہیں۔ اگر اس میں مداہنت نہ ہو‘ کفار پر وہ سخت ہوں اور مومنوں سے شدید محبت رکھتے ہوں تو سمجھ لو ان کے ایمان کی حالت بہتر ہے۔ مسلمانوں کے دشمنوں سے دور رہو۔ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مخالفین سے نفرت کرنا قربِ الٰہی کا افضل ترین ذریعہ ہے ان دشمنانِ اسلام سے ہاتھ زبان اور تمام اعضاء کے ساتھ بقدرِ استطاعت جہاد کرتے رہو ‘‘۔ [الدررالسنیۃ: جزء الجہاد، ص: ۲۳۸]
تنبیہ
شرک اور اہل شرک سے اظہار برأت عقیدہ اسلام کا بنیادی عنصر ہے، اسلام اور اہل اسلام سے محبت کرنا، ان کی نصرت اور اعانت کرنا، ان کی خیر خواہی چاہنا اور متحد ہو کر رہنا اور اسکا برملا اظہار کرنا اس عقیدے کا لازمی تقاضا ہے۔
جب ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے سخت لہجے میں بات کرتے ہیں تو بخدا اس کا مقصد محض اپنے ہم عقیدہ مسلمانوں کی اصلاح اور خیر خواہی ہی ہوتا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان کی مثال دوسرے مسلمان کے ساتھ ایسے ہے جیسے دو ہاتھ ہوتے ہیں اور ایک ہاتھ دوسرے کی اور دوسرا ہاتھ پہلے ہاتھ کی رگڑ رگڑ کر صفائی ستھرائی کر دیتا ہے، ہاتھوں کی صفائی کے دوران میں میل کچیل اتارنے کیلئے رگڑتے وقت بہرحال کچھ نہ کچھ تکلیف ہوتی ہے تو اس تکلیف سے مقصود ہاتھوں کو آلودگی سے پاک کرنا ہوتا ہے، بالکل اسی طرح ایک دوسرے کی اصلاح کرتے ہوئے (برمبنی حکمت) سختی سے بھی مقصود یہی ہوتا ہے۔
مسلمان کا مسلمان سے لاتعلق ہونا ہمارے ایمان کا حصہ نہیں ہے سوائے تین روز کے، ہر مسلمان کی ولایت اور نصرت کا حق دوسرے مسلمان پر رہتا ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص دائرہ اسلام سے ہی خارج ہو جاتا ہے تو پھر اس کا ولایت (دوستی) اور نصرت کا حق ختم ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کو باہمی اتفاق اور محبت کا درس دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِلا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ [الانفال: ۷۳]
’اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوگا۔‘‘
بسا اوقات مسلمان کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے یا بدعات اور خرافات کا شکار ہو جاتا ہے یا کسی جاہلی تصور سے متاثر ہو جاتا ہے تو ان باتوں سے اس کا حق موالات (آپس میں دوستی اور نصرت) تو باقی رہتا ہی ہے ایک اور حق بھی شروع ہو جاتا ہے وہ یہ کہ دوسرے مسلمان اس کی اصلاح کریں۔
کبھی مسلمانوں کا کوئی گروہ اسلامی ریاست کے خلاف بغاوت کر لیتا ہے یا دو مسلمانوں کے گروہ برسر پیکار ہو جاتے ہیں، اس ناگہانی صورت میں ہمیں اسلامی شریعت سے مکمل ہدایت مل جاتی ہیں کہ کس طرح دونوں گروہ بدستور مسلمان رہتے ہیں اور کس طرح ان میں عدل وانصاف اور شرعی احکام کی روشنی میں صلح کرائی جاتی ہے۔ البتہ مسلمانوں کی اِس باہمی لڑائی کا عنون ارتداد اور اسلام سے سرکشی اور بغض نہیں ہونا چاہیے۔ ارتداد اور مرتد (جو مسلمان کفر کا مرتکب ہو کر دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے) کے احکام اور مسلمانوں کے آپس کی لڑائی جھگڑے کے احکام خلط ملط نہیں ہونے چاہیں۔
رہے وہ لوگ جن کی دوستی اور دشمنی کا معیار اسلامی عقیدہ نہیں بلکہ طواغیت کی خوشنودی حاصل کرنا ہے یا حکام کے ہاں کوئی عزت ومنزلت پانے کیلئے ہے تو وہ طاغوت کے خیر خواہ ہیں۔ ہم ایسے لوگوں سے کبھی موالات نہیں رکھ سکتے جس سے طاغوت کا سینہ ٹھنڈا ہو۔ خود ان کا یہ حال ہے کہ ان کا اسلام اور راسخ العقیدہ مسلمانوں سے بغض وعناد بالکل واضح ہے۔ ان کے اخبارات وجرائد اور الیکٹرانک میڈیا اس پر گواہ ہیں۔
بسا اوقات اس پروپیگنڈے کا شکار ہمارے سادہ لوح مسلمان بھی ہو جاتے ہیں، عام مسلمانوں کیلئے تو شاید کچھ عذرات ہوں، حکام وقت کے بہی خواہ علماء بھی وہی انداز سخن اختیار کرتے ہیں جو سرکاری اخبارات میں ہر روز پڑھنے کو ملتا ہے۔
ملت ابراہیم کے اسوہ کو اپنانے والوں کے خلاف حکام کے ساتھ علماء وقت بھی شریک کار ہو جاتے ہیں۔ ان کے لئے وہی القابات استعمال کرتے ہیں جو سرکار نے انہیں نوازے ہوتے ہیں: خوارج، باغی اور دہشت گرد . . . مسلمانوں سے ان کی عداوت کفار سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ ہمارے بعض قابل احترام علماء ایسے بھی ہیں جو ملت ابراہیم کا نام لینے والوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ نوجوان برے نہیں ہیں صرف بہکاوے میں آئے ہوئے ہیں! ہمیں اِن القابات سے نوازتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی ایک کلمہ انسان کو دوزخ کے اندر ستر برس کی مسافت تک دھکیل دیتا ہے۔