• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین اور نظام مملکت کی تقسیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیکولرازم

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
دین اور نظام مملکت کی تقسیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیکولرازم

کیا ووٹ مقدس امانت ہے؟
حامد کمال الدین حفظہ اللہ

سیکولزازم اس پوری دنیا میں رائج خبیث ترین کفر ہے ۔ہمارے ہاں اسے عموماً کمیونزم کا ہم معنی وہم وزن خیال کرکے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ کوئی خدا کا منکر نظریہ ہو گا جبکہ یہ دنیا کاایک ایسا انوکھا کفر ہے جو مذہب کا انکار کرنے کی بجائے نہ صرف اسے انسان کی ضرورت تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کے احترام کا بھی بھرپور طور پر قائل ہے ۔دین کے اس احترام کی خاطر ۔۔۔۔۔۔۔کہ یہ لوگوں کے لئے بوجھ نہ بن جائے ‘تصادم کا سبب بھی نہ بنے اور دنیا داری میں پڑکر بے آبرو بھی نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔صرف اتنی جسارت کرتا ہے کہ دین کا مناسب مقام متعین ہوجائے جو ویسے تو مسجد گرجا یا مندر ہے تاہم سوسائٹی میں بھی اسے ایک پرائیویٹ مسئلہ کے طور پر قبول کرلیا جاتا ہے ۔

یوں سیکولرازم دین کو بڑے احترام سے انفرادی زندگی کی نکیل ڈال دیتا ہے ۔چنانچہ سیکولرازم کسی بھی ملک میں رائج دھرم کے تہواروں ‘رسم ورواج اور شادی بیاہ ایسے طور طریقوں کا آئینی طور پر بھرپور احترام کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اکثریتی مذہب کو بعض اوقات اگر یہ حق بھی دے دیا جائے کہ صدر یا وزیر اعظم اکثریتی مذہب سے ہوگا اوقاف‘عبادت خانوں کی تعمیر وتدبیر اور اس کی روحانی کتابوں کی طباعت کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے ‘اخباروں میں دینی صفحہ اور ریڈیو ‘ٹی وی پر روحانی پروگرام ’’بصیرت‘‘وغیرہ کا بڑی عقیدت سے اہتمام ہوتا ہو مگر نظام مملکت اور کاروبار حیات میں دین کا دخل نہ ہو تو سمجھ لیجئے وہاں سیکولرازم کا راج ہے ۔نتیجۃً اس نظام میں اﷲکو اجتماعی نظام زندگی سے باہر باہر الہ اور معبود ماناجاتا ہے رہا ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کے میدان میں تو ’’لھم شرکاء شرعوا لھم من الد ین ما لم یاذن بہ اﷲ‘‘۔
اچھے بھلوں کے لئے ابھی تک یہ معمہ ہے کہ پاکستان میں دین کو سیاست سے کیسے بے دخل کیا جاسکتا ہے ۔نہ جانے اتنی سادہ بات سمجھنی مشکل کیوں ہوگئی کہ جب آئین و نظام سازی عملاً حق پارلیمنٹ کا تسلیم کرلیا جائے تو پھر مساجد اور تقریبات کو سجانے کے سوا معاشرے میں دین کا کوئی مصرف ہی نہیں رہتا ۔رہا نظام وقانون کامعاملہ تو جب اصولاً یہ طے ہوجائےکہ قانون وہ کہلائے گا جو پارلیمنٹ پاس کرے ‘تو پھر قانون کا رتبہ پانے کے لئے شریعت کا نہ تو اﷲرب العالمین کی طرف سے نازل ہونا کافی ہوا ‘نہ جبریل کا لے کر آنا اور نہ محمدﷺکا ابلاغ وبیان فرمانا نہ قرآن میں بیان ہونا اور نہ بخاری اور مسلم میں روایت ہونا ۔

یہ سب کچھ سر آنکھوں پر ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر قانون کے درجے کو نہیں پہنچتا ۔پھر جب یہ حق پارلیمنٹ کا تسلیم کرلیا جائے تو وہ قرآن کی ایک آیت کو بھی قانون کا ویساہی درجہ عطا کرسکتی ہے جیسا فلم انڈسٹری کی ایک فاحشہ کے مطالبے کو ۔
یوں پارلیمنٹ کا حکم نازل ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اس کی اور قرآن کی قانونی پوزیشن اس نظام میں ایک سی ہوتی ہے۔قانون دان ’’تکلف‘‘سے کام نہ لیں تو اس سے انکار نہیں کرسکتے ۔اسی کفر کو امر کرنے کے لئے آئین کے بنیادی حقوق کا باب سیکولرازم کے اس مشہور ومعروف عقیدے کا ہو بہو عکاس ہے کہ کسی انسان پر اگر کوئی پابندی ہوسکتی ہے تو وہ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہے‘اس کے باہر ہر انسان کو ہر معاملے میں آزادی کی ضمانت اس کا بنیادی حق ہے ۔اس بناپر حقوق وفرائض (آپ بے تکلف ہونا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں حلال وحرام )قانون کی نظر میں وہ ہونگے جو آئین اور قانون کود مقرر کرے ۔
پھر آئین کاآرٹیکل 4سیکولرازم کے اس بنیادی فلسفے کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے کہ جرم اور سزا کا تعین صرف اس ملک میں رائج قانون کرے گا‘یوں اﷲاور رسول جو بھی کہتے رہیں جرم صرف وہ ہوگا جسے مروجہ قانون جرم کہتاہو اور سزا بھی صرف وہی اور اتنی ہی روا ہوگی جو یہ قانون مقرر کریگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
مزید وضاحت کے لئے چند مثالیں

(۱)ہر محلے اور گلی کے اندر آپ نے ہندو مت اور سفلہ پن کی تعلیم دینے والی پاکستانی اور انڈین فلموں کے اڈے تو ضرور دیکھ رکھے ہوں گے ۔ان میں غیر قانونی فلمیں جانے دیجئے ‘صرف ایسی فلمیں نکال لیجئے جو غلیظ اور برہنہ تو ضرور ہوں مگر سنسر قوانین سے جواز کی باقاعدہ سند یافتہ ہوں ۔’’سادہ لوحی‘‘میں آکر اگر آپ ہلاکت اور عذاب کو دعوت دینے والے اس گھناؤنے جرم کو پاکستان کی کسی عدالت میں چیلنج کرنا چاہیں تو آپ کو کیا جواب ملے گا ؟یہی ناکہ دین میں یہ جرم ضرور ہوگا مگر قانون کی نظر میں جرم نہیں!پھر دین اورنظام وقانون جدا جدا ہوئے نا !بتائیے اور کافری کیا ہے ؟جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘

(۲)پاکستان میں کسی جگہ اگر کوئی بااثر مذہبی آدمی غلاظت سے لتھڑی ہوئی ان لچر فلموں کو بزور بازو بند کرانے کی کوشش کرے تو آپ کو کیا معلوم ہے کہ آئین کے آرٹیکل ۴ کی نظر میں اس نے پاپ کیاہے؟اس کا پاپ یہ ہے کہ جس چیز سے آئین اور قانون نے منع نہیں کیا ویڈیو سنٹر مالکان کو اس ’’جائز ‘‘کام سے منع کرکے اور Wrongful Confinementکا مرتکب ہو کے اس نے قانون کا ’’تقدس ‘‘پامال کیا ہے ؟سنسر قوانین کی رو سے ‘ایک ’’جائز اور قانونی حق ‘‘کے استعمال میں رکاوٹ بنے تو قانون کے آرٹیکل ۴ ہی کے بموجب ’’معزز‘‘شہریوں کو ہراساں کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرم مین قانون اسے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کریگا ۔کون نہیں جانتا کہ ان معاملات میں قرآن کی آیات نہیں ‘قانون کی دفعات معتبر ہیں ؟ذرا سوچ کے بتائیے کہ تو پاکستان میں قرآن کا مسجد کے علاوہ کیا مناسب مقام رہ جاتا ہے ؟

(۳) پاکستان کے نظام میں شراب حرام ہے مگر سود حلا ل ! اس کی وجہ ؟ہر دین کے حلال وحرام اپنے ہوتے ہیں ۔جی ہاں قرآن مجید نے قانون اورنظام کو دین قرار دیا ہے ۔بادشاہ مصر کے قانون کو اﷲنے دین الملک (بادشاہ مصر کا دین )کہا ہے’’ ما کان لیا خذ اخاہ فی دین الملک ‘‘یوسف علیہ السلام بادشاہ کے دین (قانون)کی رو سے بھائی کو اپنے پاس نہرکھ سکتے تھے ۔سو پاکستان کے دین الملک کے حلال وحرام اگر کبھی اسلام کے حلال وحرام سے متفق یا مختلف ہوجائیں تو یہ محض اتفاق ہوگا ۔دراصل کسی بھی نظام یا دین کی تفصیلات اور جزئیات کی اپنی کوئی بھی حیثیت نہیں ہوتی کہ اس بنیاد پر ہم اس سے اپنے دین کی موافقت یا مخالفت تلاش کرتے پھریں یا اس میں کچھ جزئیات کو نکالنے یا کچھ کو شامل کرانے پر ضد کریں ۔
دنیا کا ہر نظام کچھ نہ کچھ جزئیات میں کسی دوسرے نظام سے متفق ہوا ہی کرتا ہے ۔اصل میں نظام اور دین کے اندر دیکھا یہ جاتا ہے کہ چلتی کس کی ہے اور قانوناً یہ حیثیت کس کی ہے کہ روک دے تو رکنا پڑے اور حکم یا اشارہ بھی کرے تو اسے قانون مانا جائے ۔اگر پاکستان میں ایسا اختیار صرف اﷲکا ہے اوراس میں ذرہ برابر بھی کوئی اس کا شریک نہیں تو یہاں اﷲکے علاوہ کوئی معبود نہیں لیکن اگر یہ حق صرف اس کا نہیں تو اس میں جو اﷲکے ساتھ شریک ہوتا ہے وہ اس نظام کا معبود ہے اور اس آسمان تلے بدترین مخلوق ان معبودوں کی آسامیوں کے لئے آپ داڑھی والوں کا انتخاب کریں یا ٹخنوں سے اونچی شلوار والوں کا اس سے کوئی بھی فرق نہیں پڑتا۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
ہر آدمی ‘قبل اسے موت االے اور فرشتے سوال کرلیں کہ بتا تیرا دین کیا تھا ‘اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ جس نظام کے سائے میں زندگی بسر کررہا ہے وہ اﷲ کا دین ہے یا دین الملک ۔

(اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ ٰامَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلٰلااً بَعِیْدًا) (النساء:۶۰)
’’اے نبیﷺ !تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو ان سے پہلے نازل کی گئی ہیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لئے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔شیطان انہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتاہے‘‘۔
مجالس شرک کی رکنیت حرام تو ہے مگر یہ حرام کی وہ قسم ہے جو شرک کہلاتی ہے ۔حتیٰ کہ شرک کا بھی یہ عام سا درجہ نہیں بلکہ شرک کی وہ قسم ہے جو اﷲکی ہمسری کہلاتا ہے ۔انسانوں کیلئے تشریع اور قانون سازی کا اختیار صرف اﷲوحدہ لاشریک کا حق ہے ۔جو شخص اس میں اﷲکا شریک بنتا ہے شریعت کی زبان میں وہ عام مشرک نہیں بلکہ وہ طاغوت کہلاتا ہے ۔

بقول مولانا مودودی رحمہ اللہ:

’طاغوت لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا جو اپنے جائز حق سے تجاوز کرگیا ہو قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خود آقائی وق خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے ۔خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً ا س کی فرمانبرداری ہی کو حق مانے ‘مگر عملاً اس کے احکام کے خلاف ورزی کرے اس کا نام فسق ہے ۔دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ ا س کی فرمانبرداری سے اصولاً منحرف ہو کر یا تو خود مختار بن جائے یا اس کے سو ا کسی اور کی بندگی کرنے لگے ۔یہ کفر ہے ۔تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہوکر اس ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اﷲکا مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو‘‘
یہ واضح ہوجانا بھی ضروری ہے کہ پارلیمنٹ جو اس ملک کا سب سے بڑا طاغوت ہے وہ اسلام آباد کی کسی بلڈنگ کانام نہیں بلکہ انسانوں کے ایک مجموعہ سے عبارت ہے ۔یہ سب انسان اس دھرتی کے طاغوت ہیں ۔دھرتی پر سب سے بھاری بوجھ یہی ہیں ۔دین (اطاعت وبندگی اوروفاداری)اﷲکیلئے خالص نہیں ہوسکتا جب تک ان سے صاف صاف کفر نہ کردیا جائے ‘چاہے مشرکین کو یہ بات کتنی بھی ناگوار گزرے اور ملت ابراھیم پہ چلنے والوں کے اس واشگاف اعلان سے دنیا کے بتکدوں میں جو بھی رد عمل ہو۔

((وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ))(البقرۃ:۱۳۰)
’’کون ہے‘‘جو ابراہیم ؑ کی راہ سے علیحدگی اختیار کرے؟جس نے خود اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کرلیا ہو‘(اس کے سوا کون یہ حرکت کرسکتا ہے؟)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
حرب بن شداد بھائی،آپ نے کہا:
اللہ آپ کے علم اور فہم میں مزید اضافہ کرے
یہ تحریر’’شیخ حامد کمال الدین حفظہ اللہ‘‘کی ہے،۔۔بغور مطالعہ کے بعد،میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اس تحریر سے باقی افراد بھی استفادہ کریں،تو اس غرض وغایت کے پیش نظر میں نے کمپوزنگ کے بعد اسے یہاں شئیر کردیا۔
اللہ ’’شیخ حامد کمال الدین حفظہ اللہ‘‘کے علم و فہم میں مزید برکت دے۔آمین
 
Top