• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین میں تکفیر کا مقام اور مشرکین کی تکفیر میں توقف کرنے والے کا حکم

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
512
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
"سِلْسِلَةٌ عِلْمِيَّةٌ فِيْ بَيَانِ مَسَائِلَ مَنْهَجِيَّةٍ"
منہجی مسائل کے بیان میں علمی سلسلہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدُ للهِ ربِّ العالمين، وَ لَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ، وَ اَشْهَدُ اَنْ لاَاِلهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ اْلمُبِيْنَ، وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ إِمَامُ الْأَوَّلِيْنَ وَ الْآٰخِرِيْنَ، أَمَّا بَعْدُ:

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لیے ہے، اور ظالموں کے سوا کسی سے کوئی دشمنی نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور وہی بادشاہ، حق اور مبین ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جو کہ پہلوں اور بعد والوں کے امام ہیں، اما بعد:


اس سلسلہ میں ہم الله تعالیٰ کی مدد سے مشرکین کی تکفیر کے بارے میں بات کریں گے اور اس سلسلے میں ہم دو مسئلوں پر بات کریں گے۔
  • (۱) پہلے مسئلہ میں ہم اس سوال کا جواب دیں گے کہ دین میں تکفیر کا مقام کیا ہے ؟
  • (۲) دوسرے مسئلہ میں ہم مشرکین کی تکفیر میں توقف کرنے والے کے کفر کے سبب، علت اور وجہ کو ذکر کریں گے۔
شروع کرنے سے پہلے کافر کی تکفیر نہ کرنے والے کے کفر کے بارے میں ہم اہلِ علم کے بعض اقوال کو ذکر کرتے ہیں۔

ابو الحسین الملطی الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"جميع أهل القبلة لا اختلاف بينهم أن من شك في كافر فهو كافر"


کہ اہلِ قبلہ کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو کسی کافر کے بارے میں شک کرے تو وہ خود کافر ہے۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[التنبیہ الرد علی اھل الاھواء والبدع ( ص ۴۰) بتصرف]

قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا:

"نكفر من لم يكفر من دان بغير ملة المسلمين من الملل، أو وقف فيهم، أو شك، أو صحح مذهبهم، وإن أظهر مع ذلك الإسلام واعتقده واعتقد إبطال كل مذهب سواه، فهو كافر بإظهاره ما أظهر من خلاف ذلك"

ہم اس شخص کی تکفیر کرتے ہیں جو مسلمانوں کی ملت کے ماسوا دیگر ملتوں کے دین کو اختیار کرنے والے کے تکفیر نہ کرے، یا اس میں توقف کرے، یا شک کرے، یا ان کے مذہب کو صحیح گردانے، اگرچہ وہ اس کے ساتھ اسلام کو بھی ظاہر کرے اور اس کا عقیدہ بھی رکھے اور یہ بھی عقیدہ رکھے کہ اس کے ماسوا تمام مذاہب باطل ہیں، پس جو کچھ اس نے اسلام کے خلاف ظاہر کیا تو وہ اس کے اظہار سے ہی کافر ہے۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[الشفا بتعریف حقوق المصطفی (۲/۲۸۶)]

امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"من لم يكفر من دان بغير الإسلام كالنصارى، أو شك في تكفيرهم، أو صحح مذهبهم، فهو كافر"

جس نے اسلام کے ماسوا دین اپنانے والوں کی تکفیر نہ کی، جیسا کہ عیسائی وغیرہ یا ان کی تکفیر میں شک کیا، یا ان کے مذہب کو صحیح گردانا تو وہ کافر ہے۔

[روضۃ الطالبین (۱۰/۷۰)]

حجاوی رحمہ اللہ نے ازروئے دلیل کے فرمایا:

"من لم يكفر من دان بغير الإسلام؛ كالنصارى، أو شك في كفرهم أو صحح مذهبهم... فهو كافر"

جس نے اسلام کے ماسوا دین اپنانے والوں کی تکفیر نہ کی جیسا کہ عیسائی وغیرہ، یا ان کے کفر میں شک کیا یا ان کے مذہب کو صحیح گردانہ تو وہ کافر ہے۔

[الإقناع(۴/۲۹۸)- بتصرف یسیر]

ونص البهوتي -رحمه الله- على تكفير من " لم يكفر من دان بغير دين الإسلام كأهل الكتاب، أو شك في كفرهم، أو صحح مذهبهم"

امام بُہُوتِی رحمہ اللہ نے ازروئے نص کے اس شخص کی تکفیر کی ہے: جو اسلام کے ماسوا دین اپنانے والوں کی تکفیر نہیں کرتا جیسا کہ اہلِ کتاب وغیرہ، یا ان کے کفر میں شک کرتا ہے یا ان کے مذہب کو صحیح گردانتا ہے۔

[شرح منتھی الارادات(۳/۳۹۵)]

اور شیخ و مجدد محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے فرمایا:

"من لم يكفر المشـركين، أو شك في كفرهم، أو صحح مذهبهم كفر إجماعا"

جو مشرکین کی تکفیر نہ کرے یا ان کے کفر میں شک کرے یا ان کے مذہب کو صحیح گردانے تو اس نے بالاجماع کفر کیا۔

[الدرر السنیۃ (۱۰/۹۰)]


(اہلِ علم کے اقوال ختم ہوئے، رحمہم اللہ تعالیٰ)۔

اب ہم پہلے مسئلے کو بیان کرنا شروع کرتے ہیں۔ جو کہ اس سوال کا جواب ہے کہ دین میں تکفیر کا کیا مقام ہے؟

::: پہلا مسئلہ :::

دین میں تکفیر کا کیا مقام ہے؟

تو جواب ہے:

أن التكفير حكم شـرعي محض، لا مدخل للعقل فيه، ولا يدخل تحت مسائل ومعاني أصل الدين، والتي سبق وأن بيناها في الحلقة السابقة. إذن تكفير المشـركين من واجبات الدين وليس من أصل الدين.

تکفیر خالص شرعی حکم ہے اس میں عقل کا کوئی دخل نہیں، اور نہ ہی یہ ان اصل الدین کے معانی و مسائل میں داخل ہے کہ جو پہلے گزر چکے اور جن کو ہم نے گزشتہ حصے میں بیان کیا، چنانچہ مشرکین کی تکفیر واجباتِ دین میں سے ہے، اصل الدین میں سے نہیں۔


بہت خوب!

تو ان میں فرق کیا ہے؟

الفرق أن ما كان من أصل الدين، فإنه لا يعذر المرء فيه بجهل، ولا تشترط إقامة الحجة على تاركه أو تارك بعضه.

ان میں فرق یہ ہے کہ جو چیز اصل الدین میں سے ہے اس میں آدمی کو جہالت کا عذر نہیں دیا جائے گا، اور اسے کلی طور پر یا جزوی طور پر چھوڑنے والے پر اقامتِ حجت کی شرط نہیں لگائی جائے گی۔

أما التكفير فهو حكم شـرعي قد يعذر فيه بالجهل والتأويل.

پس جہاں تک تکفیر کی بات ہے تو یہ ایک شرعی حکم ہے اس میں جہالت اور تاویل کا عذر دیا جائے گا۔

ثم إن التكفير ليس على مستوى واحد، بل له مراتب، فأعلاها ما هو معلوم من الدين بالضـرورة؛ كتكفير من كفرهم الله تعالى في كتابه على التعيين؛ كإبليس وفرعون وكل من دان بغير الإسلام؛ كاليهود والنصارى وعباد الأصنام.

پھر تکفیر کی محض ایک سطح نہیں ہے، بلکہ اس کے کئی درجات ہیں، ان میں سے اعلیٰ ترین درجہ وہ ہے کہ جو دین میں بہر صورت معلوم ہو کر رہنے والا ہے، جیسا کہ ان لوگوں کی تکفیر کرنا کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تعیین کے ساتھ کافر قرار دیا ہے جیسا کہ ابلیس، فرعون، اور ہر وہ شخص جو دین ِ اسلام کے علاوہ سے دین کو اختیار کرے، جیسا کہ یہود ونصاریٰ اور بتوں کے پجاری وغیرہ۔

وأدناها ما اختلف في تكفير مرتكبه؛ كتارك الصلاة وغير ذلك، وبينهما مراتب متفاوتة، وهو ما سوف نتناوله في حلقة قادمة بإذن الله تعالى.

اور اس کا کم ترین درجہ وہ ہے کہ جس کے مرتکب کی تکفیر میں اختلاف ہو جیسا کہ نماز کو چھوڑنے والا وغیرہ وغیرہ، چنانچہ ان کے درمیان مختلف درجات ہیں جن پر ہم آئندہ حصے میں بارے کریں گے۔

قلنا: إن التكفير من واجبات الدين، وأنه حكم شـرعي، وليس له مورد سوى الأدلة الشـرعية، ولا مدخل للعقل فيه، وقد تتابع أهل العلم على تقرير ذلك وتأكيده، وإليكم بعض أقوالهم


ہم نے کہا تکفیر واجباتِ دین میں سے ہے اور یہ ایک شرعی حکم ہے اور شرعی دلائل کے علاؤہ اس کا کوئی مصدر نہیں اور اس میں عقل کا کوئی دخل نہیں، تحقیق اہلِ علم نے اسی تفصیل کو اختیار کیا ہے اور اسی کی تاکید کی ہے، چنانچہ ہم آپ کے سامنے ان کے بعض اقوال کو پیش کرتے ہیں:

قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا:

"فصل في بيان ما هو من المقالات كفر وما يتوقف أو يختلف فيه، وما ليس بكفر: اعلم أن تحقيق هذا الفصل وكشف اللبس فيه مورده الشـرع، ولا مجال للعقل فيه"

یہ فصل ان باتوں کے بیان میں ہے جو یا تو کفر ہیں، یا ان میں توقف کیا جاتا ہے، یا ان میں اختلاف پایا جاتا ہے، یا وہ کفر نہیں ہیں۔ جان لو اس فصل کی تحقیق کرنے اور اس میں موجود شبہات کو دور کرنے کا مصدر شریعت ہے، اس میں عقل کا کوئی دخل نہیں۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[الشفا بتعریف حقوق المصطفی(۲/۲۸۲)]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

"التكفير حكم شـرعي، يرجع إلى إباحة المال، وسفك الدماء، والحكم بالخلود في النار، فمأخذه كمأخذ سائر الأحكام الشـرعية"

تکفیر ایک شرعی حکم ہے جس کے نتیجے میں مال اور خون حلال ہو جاتا ہے اور آگ میں ہمیشہ رہنے کا حکم لگتا ہے، پس اس کا مأخذ بھی وہی ہے جو کہ شریعت کے دیگر تمام احکام کا مأخذ ہے۔

[بغیۃ المرتاد في الرد على المتفلسفة والقرامطة والباطنية (۳۴۵)]

اور آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:

"فإن الكفر والفسق أحكام شـرعية، ليس ذلك من الأحكام التي يستقل بها العقل؛ فالكافر من جعله الله ورسوله كافرا، والفاسق من جعله الله ورسوله فاسقا، كما أن المؤمن والمسلم من جعله الله ورسوله مؤمنا ومسلما.

بےشک کفر اور فسق شرعی احکام ہیں، یہ ان احکام میں سے نہیں ہیں جنہیں عقل خود بخود جان لیتی ہے، پس کافر وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے کافر قرار دیا ہے، اور فاسق وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے فاسق قرار دیا ہے، جس طرح مومن اور مسلمان وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے مومن اور مسلمان قرار دیا ہے۔


یہاں تک کہ آپ نے فرمایا :

فهذه المسائل كلها ثابتة بالشـرع"

یہ مسائل تمام کے تمام شریعت کے ساتھ ثابت ہوتے ہیں۔

[منھاج السنۃ النبویۃ(۵/۹۲) بتصرف]


اور آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:

"الإيمان والكفر هما من الأحكام التي ثبتت بالرسالة، وبالأدلة الشـرعية يميز بين المؤمن والكافر، لا بمجرد الأدلة العقلية"

ایمان اور کفر، یہ ان احکام میں سے ہیں جو کہ رسالت کے ساتھ ثابت ہوتے ہیں، اور مومن اور کافر کے درمیان تمیز شرعی دلائل کے ساتھ ہوتی ہے نا کہ محض عقلی دلائل کے ساتھ۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[مجموع الفتاویٰ (۳/۳۲۸)]

علامہ ابنِ القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:


الكفر حق الله ثم رسوله
ہے کفر حق اللہ کا، اور رسول کا

بالنص يثبت لا بقول فلان

ثابت ہو نص سے، ناکہ قولِ فرد سے

من كان رب العالمين وعبده

رب و پیمبر نے جسے کافر کہا

قد كفراه فذاك ذو الكفران

ہے کفر اس کا دور شک کی گرد سے


ابن الوزیر صنعانی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"أن الدليل على الكفر والفسق لا يكون إلا سمعيا قطعيا، ولا نزاع في ذلك"


بے شک کفر اور فسق پر دلیل سماعت شدہ قطعی ہی ہو گی اور اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[العواصم القواصم (۴/۱۷۹)]

پس اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں :

إن من جهل حكم الشـرع في أحد الكفار أو المشـركين أو إحدى طوائفهم: لا يكون حكمه كحكم من أشـرك، لأن الذي أشـرك نقض أصل الدين؛ كما ذكرنا في الحلقة السابقة، وإنما حكمه كحكم كل من جهل شـريعة أو فريضة من فرائض الإسلام، فمن قامت عليه الحجة الرسالية في ذلك كفر، ومن لم تبلغه الحجة الرسالية في ذلك فليس بكافر، بخلاف من جهل التوحيد؛ الذي هو أصل الدين؛ فإنه كافر كفر جهل.

جو کوئی بھی کسی کافر، مشرک یا ان کے گروہوں میں سے کسی کے بارے میں شرعی حکم سے ناواقف رہا، تو اس کا حکم اس کے حکم کی طرح نہیں ہو گا کہ جس نے شرک کیا، اس لیے کہ جس نے شرک کیا، اس نے اصل الدین کو توڑ دیا، جیسا کہ ہم نے گزشتہ حصے میں ذکر کیا، بلکہ اس کا حکم تو ان تمام لوگوں کے حکم کی طرح ہوگا کہ جو شریعت سے یا اسلام کے کسی فریضے سے ناواقف ہوں، پس اس حوالے سے جس کسی پر حجتِ رسالیت قائم ہو جائے گی تو وہ کافر قرار پائے گا، اور اس حوالے سے جس تک حجتِ رسالیت نہیں پہنچے گی تو وہ کافر نہیں ہوگا، بخلاف اس کے کہ جو توحید سے جاہل رہے جو کہ اصل الدین ہے، پس ایسا شخص اپنی جہالت کے باوجود کافر ہے۔

لہذا اہلِ علم نے واجباتِ شرعیہ سے جہالت کے درمیان اور اصل الدین سے جہالت کے درمیان فرق کی تفصیل کو یوں بیان فرمایا ہے:

امام محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ نے اہلیانِ حدیث میں سے ایک جماعت کے قول کو نقل فرمایا ہے:

"ولما كان العلم بـالله إيمانا والجهل به كفرا، وكان العمل بالفرائض إيمانا والجهل بها قبل نزولها ليس بكفر

جب اللہ کے بارے میں علم ایمان ہے اور اس کے بارے میں جہالت کفر ہے تو فرائض کو بجا لانا بھی ایمان ہے اور ان کے نزول سے قبل یعنی حجتِ رسالیت سے قبل ان کے بارے میں جہالت کفر نہیں ہے۔

یہاں تک کہ انہوں نے کہا :

وإنما يكفر من جحدها لتكذيبه خبر الله، ولو لم يأت خبر من الله ما كان بجهلها كافرا، وبعد مجيء الخبر من لم يسمع بالخبر من المسلمين لم يكن بجهلها كافرا، والجهل بـالله في كل حال كفر، قبل الخبر وبعد الخبر"

جو شخص اس کا انکار کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی خبر کو جھٹلانے کی وجہ سے کافر ہو گا، اور جس کے پاس اللہ تعالیٰ کی خبر پہنچی ہی نا ہو تو وہ اس سے جہالت کی وجہ سے کافر نہیں ہوگا، اور خبر آجانے کے بعد بھی جس نے مسلمانوں کی طرف سے اس خبر کو نہ سنا ہو تو وہ بھی اس سے جہالت کی وجہ سے کافر نہیں ہوگا، جبکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جہالت ہر حال میں کفر ہے، خبر سے پہلے بھی اور خبر کے بعد بھی۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[تعظیم قدر الصلاۃ (۲/۵۲۰]


وأما صفة قيام الحجة وكيفية تحقيق هذا الشـرط قبل التكفير، فإن ذلك يختلف بحسب ظهور المسألة وخفائها، فقد تقوم الحجة بمجرد وجود المتوقف عن التكفير في مظنة العلم، بحيث يكون بتوقفه معرضا لا جاهلا، وبحيث لا يعذر إلا من كان حديث عهد بإسلام، أو نشأ في بادية بعيدة، وقد تكون إقامة الحجة بتبيين النص الشـرعي الدال على كفر من فعل كذا أو قال كذا، ولا يكتفى بمجرد البلوغ العام للقرآن، وقد تكون إقامة الحجة بتبيين الدليل مع إزالة الشبهة والإجابة عن الدليل المعارض، وسيأتي مزيد توضيح لهذه المسألة عند الحديث عن مراتب المتوقفين.

اور جہاں تک تکفیر سے پہلے قیامِ حجت کی حد بندی اور اس شرط کے پورا ہونے کی کیفیت کی بات ہے ،تو یہ معاملہ ظہور اور پوشیدگی کے حساب سے مختلف ہے، پس کبھی تو حجت محض اس وجہ سے قائم ہو جائے گی کہ تکفیر سے توقف کرنے والا علم کی جگہ میں ہو، جہاں اس کا توقف کرنا روگردانی شمار ہوگا ناکہ جہالت، بایں طور یہ عذر صرف اسی کو حاصل ہوگا جو یا تو اسلام میں نیا نیا داخل ہوا ہو، یا دور دراز صحراء میں پلا بڑھا ہو، اور کبھی حجت ان شرعی دلائل کو بیان کرنے کے ساتھ قائم ہوگی کہ جو اس شخص کے کفر پر دلالت کریں کہ جس نے ایسا کیا یا ایسا کہا، اور محض قرآن کا عمومی طور پر پہنچ جانا کافی نہیں، اور کبھی حجت دلیل کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ شبہ کو ختم کرنے اور معترض کی دلیل کا جواب دینے کے ساتھ قائم ہوگی، اور جب ہم توقف کرنے والوں کے درجات کے حوالے سے بات کریں گے تو اس مسئلے کی مزید وضاحت آئے گی۔ (ان شاء اللہ)

ويستدل على التفريق بين الجهل بالشـرائع والجهل بأصل الدين أو على أن تكفير المشـركين من الشـرائع ليس من أصل الدين بعدة من الأدلة، أذكر منها

شرعی احکام سے جہالت اور اصل الدین سے جہالت کے درمیان فرق پر، بالفاظِ دیگر مشرکین کی تکفیر شرعی احکام میں سے ہے نا کہ اصل الدین میں سے ،اس بات پر متعدد دلائل موجود ہیں جن میں سے ہم کچھ کو ذکر کرتے ہیں:

إن جميع الأنبياء عليهم السلام بدءوا أقوامهم بالدعوة إلى عبادة الله وحده لا شـريك له، ولو أن الجهل بأحكام التكفير كفر لما تأخر بيانها عن بيان أصل الدين لحظة واحدة.

بےشک تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنی قوموں کو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف دعوت دینے سے اپنے کام کا آغاز فرمایا، اور اگر تکفیر کے احکام سے جہالت کفر ہوتا تو وہ اسے اصل الدین میں بیان کرنے سے پَل بھر کی بھی تاخیر نہ کرتے۔

ومن الأدلة أيضا على التفريق أن التكفير من واجبات الدين وأنه حكم شـرعي وليس من أصل الدين ما ثبت

پس تکفیر واجباتِ دین میں سے ہے، یہ ایک شرعی حکم ہے اور یہ اصل الدین میں سے نہیں ہے، اس فرق کی ایک دلیل یہ بھی ہے جو کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے :

أن من الصحابة رضي الله عنهم، من توقف في تكفير قوم وقعوا في الردة، وسموهم مسلمين، ولما نزلت الآيات التي بينت كفر هؤلاء القوم لم يستتابوا من توقفهم

بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ارتداد کا شکار ہونے والی ایک قوم کی تکفیر میں توقف اختیار کیا تھا اور انہیں مسلمان قرار دیا تھا، اور جب وہ آیات نازل ہوئیں کہ جن میں اس قوم کا کفر بیان کردیا گیا تھا تو ان سے ان کے توقف کی بنا پر توبہ نہیں کروائی گئی۔

بينما ثبت أن أحد الصحابة وقع في الشـرك جاهلا، ومع ذلك كفره الصحابة، وأمره النبي صلى الله عليه وسلم بتجديد إسلامه، وهذا يدل على الفرق بين من وقع في الشـرك جاهلا، وبين من جهل الشـرائع.


جبکہ صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ جب ایک صحابی نے جہالت کی بنا پر شرک کا ارتکاب کیا تو اس بنا پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کی تکفیر کی، اور نبی ﷺ نے انہیں اپنے اسلام کی تجدید کا حکم دیا۔
اور یہ سب اس فرق پر دلالت کرتا ہے جو کہ جہالت کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والے اور شرعی احکام سے جاہل رہنے والے کے درمیان ہے۔


ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"كان قوم من أهل مكة أسلموا، وكانوا يستخفون بالإسلام، فأخرجهم المشـركون معهم يوم بدر، فأصيب بعضهم وقتل بعض، فقال المسلمون: "كان أصحابنا هؤلاء مسلمين وأكرهوا فـــاستغفروا لهم"، فنزلت

اہلِ مکہ میں سے کچھ لوگ ایمان لے کر آئے تھے، اور وہ اپنے اسلام کو چھپا رہے تھے پس بدر کے دن مشرکین انہیں اپنے ساتھ لے کر نکلے تو ان میں سے کچھ قتل ہو گئے اور کچھ زخمی ہوئے، تو مسلمانوں نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھی ہیں یہ مسلمان ہیں انہیں مجبور کیا گیا تھا، چنانچہ انہوں نے ان کے لیے دعائے مغفرت کی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی:

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلآئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُواْ فِيمَ كُنتُمْ قَالُواْ كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ قَالْوَاْ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُواْ فِيهَا فَأُوْلَـئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءتْ مَصِيرًا.

ترجمہ: جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے؟ تویہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالٰی کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ پہنچنے کی بُری جگہ ہے۔

[النساء: ۹۷]

پس انہوں نے فرمایا:

فكتب إلي من بقي من المسلمين بهذه الآية، وأنه لا عذر لهم،

مسلمانوں میں سے جو بچ گئے تھے انہوں نے یہ آیت مجھے لکھ بھیجی اور یہ کہ ان کے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔

اور فرمایا:

فخرجوا فلحقهم المشـركون فأعطوهم الفتنة، فنزلت فيهم هذه الآية

کہ وہ نکل چکے تھے، پس انہیں مشرکین نے جا لیا اور انہیں فتنے کا شکار کر دیا تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ

ترجمہ: اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں۔

[العنکبوت: ۱۰]

[رواہ الطبری فی تفسیرہ (۹/۱۰۲) مستند]

شیخ عبداللہ بن محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے فرمایا:

"فأنزل الله هذه الآية، وبين فيها حكم هؤلاء المشـركين، وأنهم من أهل النار مع تكلمهم بالإسلام"

اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا اور اس میں ان مشرکین کا حکم بیان فرما دیا کہ وہ اسلام کی بات کرنے کے باوجود اہلِ دوزخ میں سے ہیں۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[الدرر السنیۃ (۱۰/۲۴۱)]

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:

كنا نذكر بعض الأمر، وأنا حديث عهد بالجاهلية، فحلفت باللات والعزى، فقال لي أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: بئس ما قلت، ائت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره؛ فإنا لا نراك إلا قد كفرت، فلقيته فأخبرته، فقال


ہم بعض معاملات کا ذکر کر رہے تھے اور میں دورِ جاہلیت سے ابھی نیا نیا ہی نکلا تھا، میں نے لات و عزیٰ کی قسم کھا لی تو رسول ﷺ کے صحابہ نے مجھ سے کہا کہ تو نے بہت برا کہا، رسول ﷺ کے پاس جاؤ اور آپ کو یہ بتلاؤ پس ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ تم نے تحقیق کفر کر لیا، پس میں آپ ﷺ سے ملا اور آپ کو یہ سب بتلایا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، وَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَاتْفِلْ عَنْ شِمَالِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَلَا تَعُدْ لَهُ

ترجمہ: تین بار لا الہ الا اللہ کہو اور تین بار شیطان سے پناہ مانگو اور اپنی بائیں جانب تین بار تھوک دو اور پھر ایسا مت پر کرنا۔

[رواہ النسائی فی السننہ (۷/۷/۳۷۷۶) مستند]


وقال ابن الوزير الصنعاني-رحمه الله- معلقا على هذا الحديث: "وهذا أمر بتجديد الإسلام"

ابن وزیر صنعانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
یہ اسلام کی تجدید کا حکم تھا۔(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[ایثار الحق علی الخلق (۳۸۰)]

ابن العربی المالکی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"فمن قال في الإسلام في يمينه واللات والعزى مؤكدا ليمينه بذلك على معنى التعظيم فيه: كافر حقيقة"

جس نے اسلام کو اختیار کرنے کے بعد ازروئے تعظیم کے اپنی قسم کو پکا کرتے ہوئے یہ کہا کہ لات کی قسم اور عزیٰ کے قسم تو وہ حقیقی کافر ہے۔

عارضۃ الاحوذی (۱/۲۸)]

شیخ سلیمان بن عبداللہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

"أخذ به -يعني حديث سعد -رضي الله عنه-طائفة من العلماء فقالوا يكفر من حلف بغير الله كفر شـرك، قالوا: ولهذا أمره النبي صلى الله عليه وسلم بتجديد إسلامه بقول لا إله إلا الله، فلولا أنه كفر ينقل عن الملة لم يؤمر بذلك، وقال الجمهور: لا يكفر كفرا ينقله عن الملة، لكنه من الشـرك الأصغر"

اس بارے میں یعنی سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں علماء کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ جس کسی نے بھی اللہ کے ماسوا کی قسم کھائی تو وہ شرک کے کفر کے ساتھ کافر ہو جائے گا، اور انہوں نے کہا: اسی لیے نبی کریم ﷺ نے انہیں لا الہ الا اللہ کہنے کے ساتھ اسلام کی تجدید کا حکم دیا، اور اگر یہ ملت سے خارج کے دینے والا کفر نہ ہوتا تو آپ ﷺ اس کا حکم نہ دیتے۔ جبکہ جمہور نے فرمایا کہ یہ ایسا کفر نہیں کہ جو ملت سے خارج کر دے بلکہ یہ شرکِ اصغر ہے۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[تیسیر العزیز الحمید (۵۲۹)]

چنانچہ اس میں آپ رضی اللہ عنہ کو کوئی عذر نہیں دیا گیا، باوجود اس کے کہ آپ کو جاہلیت سے نکلے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔

ومن الأدلة أيضا على التفريق أن التكفير من واجبات الدين، وأنه حكم شـرعي وليس من أصل الدين الذي لا يعذر فيه أحد: ما روي أن الصحابة -رضي الله عنهم- اختلفوا في تكفير بعض المرتدين، فلما بين الله تعالى كفر هؤلاء القوم لم يأمر من توقف فيهم بتجديد إسلامه.

پس، تکفیر واجباتِ دین میں سے ہے اور یہ ایک شرعی حکم ہے اور یہ ان اصل الدین میں سے نہیں ہے کہ جس میں کسی کو کوئی عذر حاصل نہیں ہوتا، اس فرق کے دلائل میں سے ایک دلیل وہ بھی ہے جو روایات میں مذکور ہے کہ بعض مرتدین کی تکفیر کے بارے میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف ہو گیا تھا، پس جب اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے کفر کو بیان کر دیا تو ان کے بارے میں توقف کرنے والوں کو اسلام کی تجدید کا حکم نہیں دیا گیا۔

چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَمَا لَکُمۡ فِی الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِئَتَیۡنِ وَ اللّٰہُ اَرۡکَسَہُمۡ بِمَا کَسَبُوۡا ؕ اَتُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَہۡدُوۡا مَنۡ اَضَلَّ اللّٰہُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ سَبِیۡلًا.

ترجمہ: تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ ہو رہے ہو؟ انہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے اوندھا کر دیا ہے۔ اب کیا تم یہ منصوبے بنا رہے ہو کہ اللہ تعالٰی کے گمراہ کیے ہوؤں کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو جسے اللہ تعالٰی راہ سے بھٹکا دے تُم ہرگز اس کے لئے کوئی راہ نہ پاؤ گے۔

[النساء: ۸۸]

اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں صحیح احادیث میں آیا ہے:

أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج إلى أحد، فرجع ناس ممن كان معه، فكان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فيهم فرقتين، قال بعضهم: "نقتلهم"، وقال بعضهم: "لا".

نبی ﷺ احد کی طرف نکلے پس آپ ﷺ کے ساتھ جو لوگ تھے ان میں سے کچھ واپس پلٹ گئے، اور نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں دو گروہ بن گئے، بعض نے کہا: ہم انہیں قتل کریں گے، اور بعض نے کہا : نہیں۔

[متفق علیہ، صحیح بخآری(۲/۱۰۵/۱۳۹۹)، صحیح مسلم(۲/۵/۷۸۱)]

مجاہد رحمہ اللہ سے صحیح روایت میں ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

"قوم خرجوا من مكة حتى أتوا المدينة يزعمون أنهم مهاجرون، ثم ارتدوا بعد ذلك، فـاستأذنوا النبي صلى الله عليه وسلم إلى مكة؛ ليأتوا ببضائع لهم يتجرون فيها، فـاختلف فيهم المؤمنون، فقائل يقول: "هم منافقون"، وقائل يقول: "هم مؤمنون"، فبين الله نفاقهم، فأمر بقتالهم"

کچھ لوگ مکہ سے نکلے تھے یہاں تک کہ وہ مدینہ آن پہنچے اور وہ گمان کر رہے تھے کہ وہ مہاجرین ہیں، پھر اس کے بعد وہ مرتد ہو گئے اور انہوں نے نبی ﷺ سے مکہ جانے کی اجازت طلب کی تاکہ وہ اپنا سامانِ تجارت لے آئیں، پس ان کے بارے میں مومنین کے درمیان اختلاف ہو گیا، چنانچہ کسی نے کہا کہ یہ منافق لوگ ہیں اور کسی نے کہا کہ یہ مومنین ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے نفاق کو بیان کر دیا اور ان سے قتال کا حکم جاری فرمایا۔

[رواہ الطبری فی الرفسیرہ(۸/۹/۱۰۰۵۲) مستند]


اور اسی معنی کی روایات عبد الرحمن بن عوف، ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں اور متعدد تابعین مثلاً عکرمہ، السدی، قتادہ اور محمد بن کعب القرظی رحمہم اللہ سے بھی صحیح سند کے ساتھ مرسل روایات منقول ہیں۔

امام طبری رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے اس قول "فَمَا لَکُمۡ فِی الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِئَتَیۡنِ وَ اللّٰہُ اَرۡکَسَہُمۡ بِمَا کَسَبُوۡا" کی تاویل میں فرماتے ہیں:

"يعني بذلك: والله ردهم إلى أحكام أهل الشـرك في إباحة دمائهم، وسبي ذراريهم"


اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے خون کے حلال ہو جانے اور ان کی نسلوں کو غلام بنانے کے حوالے سے اہلِ شرک کے احکام کی طرف پلٹا دیا ہے۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[تفسیر الطبری(۷/۸)]

اور تحقیق امام طبری رحمہ اللہ نے اس قول کو راجح قرار دیا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ جو اسلام سے مرتد ہو گئے تھے، چنانچہ آپ نے اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں سلف کے اقوال کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

"وأولى هذه الأقوال بالصواب في ذلك: قول من قال: نزلت هذه الآية في اختلاف أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في قوم كانوا ارتدوا عن الإسلام بعد إسلامهم من أهل مكة"

اس حوالے سے سب سے درست قول یہی ہے کہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے درمیان پیدا ہونے والے اس اختلاف کے بارے میں نازل ہوئی کہ جو اہلِ مکہ میں سے اسلام لانے کے بعد اپنے دین سے مرتد ہو جانے والے لوگوں کے بارے میں تھا۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[تفسیر الطبری(۸/۱۳)]

ابن ابی زمنین رحمہ اللہ نے فرمایا:

"هم قوم من المنافقين كانوا بالمدينة؛ فخرجوا منها إلى مكة، ثم خرجوا من مكة إلى اليمامة تجارا فـارتدوا عن الإسلام، وأظهروا ما في قلوبهم من الشـرك، فلقيهم المسلمون، فكانوا فيهم فئتين؛ أي فرقتين، فقال بعضهم: قد حلت دماؤهم؛ هم مشـركون مرتدون، وقال بعضهم: لم تحل دماؤهم؛ هم قوم عرضت لهم فتنة، فقال الله تعالى: {فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ}"

یہ لوگ مدینہ میں بسنے والے منافقین میں سے تھے، پس یہ وہاں سے مکہ کی طرف نکل گئے اور پھر تجارت کے لیے مکہ سے یمامہ چلے گئے، پھر وہ اسلام سے مرتد ہو گئے اور ان کے دلوں میں جو شرک تھا اس کو انہوں نے ظاہر کردیا، پس جب مسلمان ان سے ملے تو ان کے درمیان دو گروہ بن گئے یعنی دو حصوں میں بٹ گئے، ان میں سے بعض نے کہا کہ ان کا خون حلال ہو چکا ہے اور وہ مشرکین و مرتدین ہیں، اور بعض نے کہا کہ ان کا خون حلال نہیں ہوا ہے بلکہ یہ لوگ فتنے کا شکار ہو گئے ہیں۔ بس اللہ تعالیٰ نے فرما دیا: فَمَا لَکُمۡ فِی الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِئَتَیۡنِ۔
( آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[تفسیر القرآن العزیز ابن ابی زمنین (۱/۳۹۳)]

اور اس کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے، جسے علماء کی ایک جماعت نے ترجیح دی ہے وہ یہ کہ معاملے کی ابتداء میں عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے مانعینِ زکوٰۃ کی تکفیر میں توقف کیا تھا اور جب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ پر ان کے کفر کو بیان کیا تو آپ نے اس پر موافقت کر لی اور ان کے بارے میں آپ کے اس توقف پر آپ سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔

صحیح احادیث میں عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ نے مرتدین کے بارے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا :

كيف تقاتل الناس؟ وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فمن قالها فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه، وحسابه على الله »

آپ ان لوگوں سے کیونکر قتال کر رہے ہیں؟، جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہنے لگیں، پس جس نے یہ کہہ دیا تو اس کا مال اور جان میری طرف سے محفوظ ہو گیا سوائے اس کے حق کی ساتھ اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔

[متفق علیہ، صحیح بخآری(۳/۲۲/۱۸۸۴)، صحیح مسلم(۸/۱۲۱/۷۱۳۲)]


اور تحقیق قرآن کو مخلوق کہنے والے کے کفر کے بارے میں معاملے کی ابتداء میں بعض أئمہ سلف نے بھی توقف کیا تھا، اور ان میں سے بعض وہ تھے کہ جو جہمیہ کے کفر کی شدت کے باوجود بھی اس سے ناواقف تھے، پس وہ اس کے ساتھ کافر نہیں ہو گئے، اور جب ان پر ان کے کفر کی دلیل واضح ہو گئی تو انہوں نے اس پر کوئی توقف نہیں کیا اور نہ ہی اپنے سابقہ توقف کی وجہ سے اپنے اسلام کی تجدید کی۔

یعقوب بن ابراہیم الدورقی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"سألت أحمد بن حنبل عمن يقول: القرآن مخلوق، فقال: "كنت لا أكفرهم حتى قرأت آيات من القرآن: {وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ} [البقرة: ۱۴۵]، وَقَوْلَهُ: {بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ} [البقرة: ۱۲۰]" وقوله: {أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ } [النساء: ۱۶۶]"۔

میں نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا کہ جو کہتا ہو قرآن مخلوق ہے، تو آپ نے فرمایا : میں اسے کافر نہیں کہتا۔ یہاں تک کہ میں نے قرآن کی یہ آیات پڑھیں:


وَلَٮِٕنِ اتَّبَعۡتَ اَهۡوَآءَهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِ

ترجمہ: اور اگر تم باوجود اس کے کہ تمہارے پاس وحی آ چکی ہے، ان کی خواہشوں کے پیچھے چلو گے۔ [البقرة: ۱۴۵]

اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:


بَعۡدَ الَّذِىۡ جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِ.

ترجمہ: اگر تم اپنے پاس علم (یعنی وحی خدا) کے آ جانے پر۔ [البقرة: ۱۲۰]

اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:

اَنۡزَلَهٗ بِعِلۡمِهٖ‌ۚ

ترجمہ: اس نے اپنے علم سے نازل کی ہے۔
[النساء: ۱۶۶]

[نقلہ ابن ابی یعلی فی طبقات الحنابلۃ (۱/۴۱۴) عن کتاب الخلال، صحیح سند]

ابن عمار الموصلی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"يقول لي ابن المديني: ما يمنعك أن تكفرهم؟! -يعني: الجهمية-

مجھ سے ابن المدینی رحمہ اللہ نے کہا کہ آپ کو ان کی (یعنی جہمیہ کی) تکفیر سے کیا چیز روکے ہوئے ہے؟


اور فرمایا کہ:

وكنت أنا أولا أمتنع أن أكفرهم حتى قال ابن المديني ما قال، فلما أجاب إلى المحنة، كتبت إليه كتابا أذكره الله، وأذكره ما قال لي في تكفيرهم"

میں ابتداء میں ان کی تکفیر سے رکا ہوا تھا یہاں تک کہ ابن المدینی رحمہ اللہ سے جو بن پڑا کہہ گزرے، اور جب انہوں نے جواب میں سختی کی تو میں نے ان کی طرف ایک خط لکھا جس میں انہیں اللہ تعالیٰ کی یاد دہانی کروائی اور ان کی تکفیر کے بارے میں جو کچھ وہ مجھے کہہ گزرے تھے اس پر نصیحت کی۔

[رواہ الخطیب البغدادی فی تاریخ بغداد (۱۳/۴۲۱) صحیح سند]


پس اس کے ساتھ ہی ہم پہلے مسئلے کا اختتام کرتے ہیں اور دوسرے مسئلے کا بیان شروع کرتے ہیں۔

::: دوسرا مسئلہ :::

مشرکین کی تکفیر میں توقف کرنے والے کے کفر کا سبب، علت اور وجہ کیا ہے؟

تو جواب ہے:

هو تكذيب الشـرائع وردها.
شرعی احکام کو جھٹلانا اور انہیں رد کرنا۔


فبالنظر إلى نصوص أهل العلم في هذا الناقض يظهر جليا ما قرروه من أن مناط الكفر في المتوقف في الكافر يرجع إلى تكذيب الشـرائع وردها، لا من جهة انتقاض أصل الدين.

چنانچہ جب ہم اس ناقض کے بارے میں اہلِ علم کے اقوال کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ جس چیز کو انہوں نے ایک کافر کے بارے میں توقف کرنے والے کے کفر کی وجہ قرار دیا ہے تو وہ شرعی احکام کو جھٹلانا اور اسے رد کرنا ہے، نہ کہ اصل الدین کو توڑ دینا۔

وقد تتابع أكثر أهل العلم على ذكر هذا المناط بناء على أن الكفر إنما يكون بإنكار الأحكام المتواترة المجمع عليها، أو بإنكار المعلوم من الدين ضـرورة.

اور اکثر اہلِ علم نے اس وجہ کو اسی بنیاد پر اختیار کیا ہے کہ یہ کفر یا تو ان متواتر احکام کے انکار کی وجہ سے وقوع پزیر ہوتا ہے کہ جن پر اجماع ہو چکا ہے، یا ان چیزوں کے انکار کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے کہ جو دین میں بہرصورت معلوم ہو کر رہنے والی ہیں۔

شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

"والكفر إنما يكون بإنكار ما علم من الدين ضـرورة، أو بإنكار الأحكام المتواترة المجمع عليها ونحو ذلك".

یہ کفر یا توان چیزوں کے انکار کی وجہ سے ہوگا کہ جو دین میں بہر صورت معلوم ہو کر رہتی ہیں یا ان متواتر احکام کے انکار کی وجہ سے ہوگا کہ جن پر اجماع ہو چکا ہے وغیرہ وغیرہ۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[مجموع الفتاویٰ (۱/۱۰۶)]

اور ہم اپنے اس موقف پر اہلِ علم کے کچھ اقوال پیش کرتے ہیں کہ جس میں انہوں نے کافر کے بارے میں توقف کرنے والے کے کفر کی وجہ کو بیان فرمایا ہے۔


فقد علل القاضـي عياض تكفير المتوقف في اليهود والنصارى ومن فارق دين الإسلام بما نقله عن الباقلاني، قال:

قاضی عیاض رحمہ اللہ نے دین اسلام کو چھوڑ دینے والے اور یہود و نصاری کے بارے میں توقف کرنے والے کے کفر کی علت کو بیان کرتے ہوئے باقلانی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔ چنانچہ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:

"لأن التوقيف والإجماع اتفقا على كفرهم، فمن وقف في ذلك فقد كذب النص والتوقيف، أو شك فيه، والتكذيب أو الشك فيه لا يقع إلا من كافر".


اس لیے کہ توقیف اور اجماع دونوں ان کے کفر پر متفق ہیں، پس جس نے اس میں توقف کیا یا شک کیا تو اس نے نص اور توقیف دونوں کو جھٹلا دیا اور جھٹلانا یا شک کرنا، یہ ایک کافر کا ہی کام ہے۔ (آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[الشفا بتعریف حقوق المصطفی (۲/۲۸۰)]

وقال ابن الوزير الصنعاني -رحمه الله- في تكفير الشاك في عابد الصنم ومن لم يكفره:

ابنِ وزیر صنعانی رحمہ اللہ نے بت کے پجاری کے بارے میں شک کرنے والے یا اس کی تکفیر نہ کرنے والے کے کفر کے بارے میں فرمایا:

"ولا علة لذلك إلا أن كفره معلوم من الدين ضـرورة".

اس کی علت تو صرف یہی ہے کہ اس کا کفر دین میں بہرصورت معلوم ہو کر رہنے والا ہے۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[الروض الباسم (۲/۵۰۹)]

وعلل الشيخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب -رحمه الله- تكفير من قال: (أن من شهد الشهادتين لا يجوز تكفيره ولو عبد غير الله)، فقال:

اور جو شخص یہ کہے کہ جس نے شہادتین کا اقرار کیا تو اس کی تکفیر جائز نہیں چاہے وہ غیر اللہ کی عبادت ہی کیوں نہ کرے تو ایسے شخص کی تکفیر کی علت بیان کرتے ہوئے شیخ عبدااللہ بن محمد بن عبد الوہاب رحمہم اللہ نے فرمایا:

"لأن قائل هذا القول مكذب لله ورسوله، وإجماع المسلمين".

اس لئے کہ یہ بات کہنے والا اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے اجماع کو جھٹلانے والا ہے۔
(آپ رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی)۔

[الدرر السنیۃ (۱۰/۲۵۰)]

اور دعوتِ نجدیہ کے بعض أئمہ نے فرمایا :

"فإن الذي لا يكفر المشـركين غير مصدق بالقرآن، فإن القرآن قد كفر المشـركين، وأمر بتكفيرهم، وعداوتهم وقتالهم"

بےشک جو مشرکین کی تکفیر نہیں کرتا تو وہ قرآن کی تصدیق بھی نہیں کرتا اس لیے کہ قرآن نے مشرکین کو کافر قرار دیا ہے، ان کی تکفیر کا، ان سے دشمنی لگانے کا اور ان سے قتال کرنے کا حکم دیا ہے۔

[الدرر السنیۃ (۱/۲۹۱)]


آئندہ حصے میں ملاقات تک ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، (ان شاءاللہ تعالیٰ)۔ اور ہم اللہ تعالیٰ سے مدد، توفیق اور درستی کا سوال کرتے ہیں۔

وَصَّلىَ اللهُ وَسَلَّمَ وَبَارَكَ عَلَى عَبْدِهِ وَرَسُوْلِهِ مُحَمَّدٍ،وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيْماً َكَثِيْراً....

وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
 
Top