• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبند فرقے کی تبلیغی جماعت کے روحِ رواں کا تحفظِ شیعیت !!!

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
ویسے طارق جمیل صاحب کی شخصیت کسی تعرف کی محتاج نہیں ہے اور ماشاء اللہ علمی شخصیت ہیں ہو سکتا ہے اُمت میں انتشار اور فساد پیدا نہ ہو اس لئے وہ کچھ کہنا چاہ رہے ہوں کیونکہ بات مکمل نہیں ہوئی اس ٹپ میں جب تک پوری ٹیپ نہ سن لی جائے کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

یہ رائے میری نہیں بلکے دیوبندی کے فورم سے لی گئی ہیں وہ کیا فرماتے ہیں طارق جمیل کے بارے میں آپ خود دیکھ لے ھم کچھ کہے گے تو آپ کو اعتراض ھو گا-

ideal_man

بھائی یہ مفاہمت کا مظاہرہ کر رہے تھے شیعوں سے، مگر یہ مفاہمت میں اس قدر آگے بڑے کی شیعوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، :

حضرت جی شیعوں کو کفر سے بچانا چاہ رہے تھے ، فرمایا کہ اگر سارے صحابہ کو کافر سمجھے، سارے صحابہ کو، تو بھی کافر نہیں ہوگا، بھائی بات یہ ہے کہ اگر سارے صحابہ کو کافر مان لیا جائے تو اسلام، قرآن حدیث، کچھ تو بچے گا نہیں۔ کیونکہ سارے کے سارے کافر صحابہ (نعوذباللہ ) کا نہ قرآن معتبر ہوگا اور نہ کوئی حدیث، تو ظاہر ہے نہ ہی اسلام ، تو پھر کافر بنانے کے لئے یہودیوں کا دین ادھار لینا پڑے گا کیونکہ نہ اسلا م ہوگا، نہ قرآن :

تو ایسے نتیجے سے بھی کفر ثابت نہیں ہوتا تو پھر کفر کس بلا کا نام ہے، :
دوسری مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مفاہمت ہو رہی ہے یا جہالت، کیونکہ جن (شیعوں) سے یہ مفاہمت کر رہیں ہیں وہ بھی سارے کے سارے صحابہؒ ، سارے کے سارے صحابہؒ کو کافر نہیں مانتے، اُن کے یہاں بھی صحابہؒ کی ایک جماعت مسلمان تھی، اور اُن کو کافر مانے والا تو شیعوں کے نزدیک بھی کافر ہے۔ تو اِس کو کہتے ہیں جہل مرکب کے مربع کا مربع اور میرے پاس اِس سے زیادہ الفاظ نہیں ہیں۔ :

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اور لوگوں (یعنی صحابہ) کی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو جواب دیتے ہیں کہ ہم ایسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لائے ہیں، البقرہ ۱۳

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالٰی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے مثل اس کھیتی کے جس نے انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ الفتح ۲۹

یقیناً اللہ تعالٰی مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔ الفتح ۱۸

جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے فریق ہیں اور جو ایمان لائے ہیں لیکن ہجرت نہیں کی تو تمہارے لئے ان کی کچھ بھی رفاقت نہیں جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں ہاں اگر وہ دین کے بارے میں مدد طلب کریں تو تم پر مدد کرناضروری ہے سوائے ان لوگوں کے کہ تم میں اور ان میں عہد و پیمان ہے تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ خوب دیکھتا ہے۔ الانفال ۷۲

جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد پہنچائی۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔ اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا۔ پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہی ہیں اور رشتے ناطے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں اللہ کے حکم میں بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز کا جاننے والا ہے۔ الانفال ۷۴-۷۵
تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالٰی کا ان سب سے ہے الحدید ۱۰

اللہ نے وعدہ فرمایا لیا تم سے (اے مسلمانو !) بہت سی غنیمتوں کا جن کو تم لوگ (آسانی اور سہولت سے) حاصل کرو گے مگر یہ اس نے تم کو فوری عطا فرما دی اور اسی نے روک دیا (اپنے کرم سے) لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے (تاکہ تم محفوظ رہو ان کے شر سے) اور تاکہ یہ ایک نشانی ہو ایمان والوں کے لئے اور تاکہ وہ ڈال دے تم سب کو سیدھی راہ پر ف۱ الفتح ۲۰

وہی ہے جس نے خاص مکہ میں کافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک لیا اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دیا تھا اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ تعالٰی اسے دیکھ رہا ہے۔ اور اگر نہ ہوتے (مکہ میں) کچھ ایسے ایماندار مرد اور ایماندار عورتیں جن کو تم نہیں جانتے تھے اور اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ تم ان کو روند ڈالو گے انجانے میں جس کے نتیجے میں تم پر حرف آتا (سو اگر ایسے نہ ہوتا تو ان کا قصہ چکا دیا جاتا مگر ایسے نہیں کیا کہ) تاکہ اللہ داخل فرمائے اپنی رحمت میں جس کو چاہے الفتح ۲۴-۲۵

جب کہ ان کافروں نے اپنے دلوں میں غیرت کو جگہ دی اور غیرت بھی جاہلیت کی، سو اللہ تعالٰی نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو تقوے کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے اہل اور زیادہ مستحق تھے اور اللہ تعالٰی ہرچیز کو خوب جانتا ہے۔ الفتح ۲۶

اللہ تعالٰی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گھڑے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچالیا اللہ تعالٰی اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ ال عمران ۱۰۳

اگر اللہ تعالٰی کا فضل و کرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا۔ النور ۱۴

خبیث عورتیں خبیث مرد کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس (بہتان باز) کر رہے ہیں وہ ان سے بالکل بری ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت والی روزی النور ۲۶

پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں اور رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بنسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدار (ہاں) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو یہ حکم (الٰہی) میں لکھا ہے ۔ الاحزاب ۶
اللہ ان سے راضی ہوا اور یہ اس سے راضی ہوئے البینہ ۹۸

یہ تو میں نے نمونہ کے طور سے چند آیات پیس کردیں، اب جواِن تمام آیات کا منکر ہو جائے گا تو وہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اسلام سے نکل کر دینِ تبلیغ میں داخل ہوجائے۔ اگر سارے کے سارے صحابہؒ کافر ہوں تو نعوذ باللہ کیا یہ اللہ تعالی نے کفار کے اوصاف بیان کیئے ہیں، جو اللہ تعالی کی اِس قدر نصوص کا منکر ہو بلکہ اسلام کی روح و بنیاد ہی کا منکر ہو وہ کس زاویہ سے مسلمان ہوسکتا ہے۔

بھائی بات یہ ہے کہ اِن کا علماء دیوبند سے صرف نام کا رشتہ ہے، دراصل تبلیغی جماعت کے بنے کے بعد شاید ہی کوئی دیوبندیوں کا عالم ہو جس نے اِن پر رد کے لیے یا اصلاح کرنے کے لئے یا ان میں بہتری لانے کے لئے قلم نہ اٹھایا ہو۔ بلکہ بعض نے ان پر مستقل کتابیں لکھیں ہیں۔ اور زبانی تو وہ بولتے ہی رہتے ہیں۔ آپ علماء دیوبند سے ان کے بُعد کا اِس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اِن لوگوں نے وفاق المدارس سے جدا اپنا بورڈ بنایا ہوا ہے۔ وفاق المدارس علماء دیوبند کا پاکستان میں نمائندہ بورڈ ہے۔ :

بھائی علماء نے فرمایا کہ یہ لوگ تبلیغِ دین کے بجائے دینِ تبلیغ اختیار کر چکے ہیں۔ یہاں دینِ تبلیغ میں جوڑنے کی فکر ہے چاہے اللہ تعالی کی شان میں گستاخی ہوتی ہو، یا قرآن پر زد آتی ہو یا اسلام یا صحابہؒ پر، باقی کا تو کائی شمار ہی نہیں۔ :

اگر میں علماء دیوبند کی نام لکھنا شروع کروں تو وہ ایک طویل فہرست بن جائیے گی جنہوں نے ان پر نکیر کی ہے۔ ان کو چاہیے کہ علماء کے زیر نگوں رہ کر چلیں تو اس قسم کے خرافت سے بچ جائیں گے۔ :

مجھے پتہ ہے کہ حق کہنے کے جرم میں مجھے ہمیشہ کے لئے فورم پر بین کیا جا سکتا ہے۔ مگر میں تو حق بولوں گا۔ لوگوں کو چاہیے کہ جب تبلیغوں سے چندے بٹورتے ہیں تو اُن کو اللہ کا دین بھی سکھا دیں، نہ کہ تبلیغیوں سے چندے لے لے کر اللہ تعالی کی آیتوں کو بیچ بیچ کر اپنے پیٹوں کی آگ بجھائیں :

اب ہمارا یہ عام وطیرہ بنتا جا رہا ہے کہ جو کوئی ہمارا غلط کام کرے، اُس پر نکیر کرنے کے بجائے، ایک مناظروں کی فوج اُس کے دفاع میں نکل پڑتی ہے :
یوں گستاخیوں کے کرنے سے وہ بدنام نہ ہوتا :
افسوس کے مودودی و غامدی کو ہماری نہ سوجھی :

ویسے اِنھوں نے حضرت علامہ علی شیر حیدری رحمہ اللہ کے نکیر کرنے پر اِس سے توبہ کرلی تھی، مگر وہ توبہ بھی عامر لیاقت کی توبہ کی طرح تھی، بلکہ اُس سے بھی بدتر :

اِس لئے ہم طارق جمیل صاحب کی بات کو جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں :

http://www.haqforum.com/vb/showthread.php?16959-طارق-جمیل-صاحب-کی-قلابازیاں
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
محترم عامر یونس صاحب!
ایسی فضول اور فرقہ واریت والے دھاگہ میں مجھے ٹیگ نہ کیا کریں، آپ کی مہربانی ہوگی۔
اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں، تبلیغی جماعت ایک خالص اصلاحی فکر رکھنے والی جماعت ہے۔ وہ نہ کسی سے تعصب رکھتے ہیں، نہ نفرت کرتے ہیں، اور نہ ہی وہ کسی کے تعصب اور نفرت سے ناراض ہوتے ہیں۔
اس جماعت میں تمام شعبہ جات سے اور مکتبہ فکر رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ لہذا ان کا اپنا اصلاحی طریقہ ہے جس کی بنیاد پر لوگوں دین کے ساتھ تعلق کو جورا جاتا ہے۔
کئی خامیاں ہیں جن پر علماء کی طرف سے ان کی اصلاح کی جاتی رہی ہیں۔
شیعت کے خلاف دیوبند مکتبہ فکر نے جو کھل کر تعاقب کیا ہے اور گلی گلی ان کے کفر کو واضح کیا ہے ، جو جو شہادتیں اس ضمن میں دیوبند مکتبہ فکر کے شرفروشوں نے دیں ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
لہذا کسی بات کو منفی انداز میں سمجھنے اور پھر اسے پیش کرنے کے بجائے بات کو ہمیشہ مثبت انداز میں لینی چاہئے۔
تبلیغی جماعت کا بڑا گہرہ تعلق گاوں ،دیہات سے ہے، اور وہاں کے لوگ سادہ اور ایسے عقائد سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ ان دیہاتوں میں شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ تبلیغی جماعت کو بابرکت جماعت سمجھتے ہیں ان کا اکرام کرتے ہیں اور کئی شیعہ حضرات تین دن نکلتے ہیں پھر اللہ تعالی ان کو شعور عطا کرتا ہے وہ اپنے مذہب سے تائب ہوکر سنی مسلک اختیار کرتے ہیں۔ شاید آپ گاوں دیہاتوں کی زندگی اور لوگوں سے واقف نہیں اور نہ تبلیغی جماعت کے کام سے واقف ہیں۔


مولانا انعام الحسن صاحب بیان فرمارہے تھے۔ ایک شیعہ نے مائک چھین لیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں 73 فرقے ہونگے، ان میں ایک فرقہ جنت میں جائے گا، بتائیں وہ کونسا فرقہ ہے؟
مولانا نے بڑے پیار سے فرمایا، یہ وہ فرقہ ہوگا جو سارے فرقوں کو جنت میں لے کرجائے گا۔


یہ ہے وہ بنیاد جو تبلیغی جماعت کا اصول ہے۔ اگر آپ کی سمجھ نہ آئے تو میرے پاس اس کا علاج نہیں۔
یاد رکھیں پھر یاد دہانی کرا رہا ہوں، یہ خالص ایک اصلاحی جماعت ہے۔
شکریہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
محترم عامر یونس صاحب!
ایسی فضول اور فرقہ واریت والے دھاگہ میں مجھے ٹیگ نہ کیا کریں، آپ کی مہربانی ہوگی۔
اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں، تبلیغی جماعت ایک خالص اصلاحی فکر رکھنے والی جماعت ہے۔ وہ نہ کسی سے تعصب رکھتے ہیں، نہ نفرت کرتے ہیں، اور نہ ہی وہ کسی کے تعصب اور نفرت سے ناراض ہوتے ہیں۔
اس جماعت میں تمام شعبہ جات سے اور مکتبہ فکر رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ لہذا ان کا اپنا اصلاحی طریقہ ہے جس کی بنیاد پر لوگوں دین کے ساتھ تعلق کو جورا جاتا ہے۔
کئی خامیاں ہیں جن پر علماء کی طرف سے ان کی اصلاح کی جاتی رہی ہیں۔
شیعت کے خلاف دیوبند مکتبہ فکر نے جو کھل کر تعاقب کیا ہے اور گلی گلی ان کے کفر کو واضح کیا ہے ، جو جو شہادتیں اس ضمن میں دیوبند مکتبہ فکر کے شرفروشوں نے دیں ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
لہذا کسی بات کو منفی انداز میں سمجھنے اور پھر اسے پیش کرنے کے بجائے بات کو ہمیشہ مثبت انداز میں لینی چاہئے۔
تبلیغی جماعت کا بڑا گہرہ تعلق گاوں ،دیہات سے ہے، اور وہاں کے لوگ سادہ اور ایسے عقائد سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ ان دیہاتوں میں شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ تبلیغی جماعت کو بابرکت جماعت سمجھتے ہیں ان کا اکرام کرتے ہیں اور کئی شیعہ حضرات تین دن نکلتے ہیں پھر اللہ تعالی ان کو شعور عطا کرتا ہے وہ اپنے مذہب سے تائب ہوکر سنی مسلک اختیار کرتے ہیں۔ شاید آپ گاوں دیہاتوں کی زندگی اور لوگوں سے واقف نہیں اور نہ تبلیغی جماعت کے کام سے واقف ہیں۔


مولانا انعام الحسن صاحب بیان فرمارہے تھے۔ ایک شیعہ نے مائک چھین لیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں 73 فرقے ہونگے، ان میں ایک فرقہ جنت میں جائے گا، بتائیں وہ کونسا فرقہ ہے؟
مولانا نے بڑے پیار سے فرمایا، یہ وہ فرقہ ہوگا جو سارے فرقوں کو جنت میں لے کرجائے گا۔


یہ ہے وہ بنیاد جو تبلیغی جماعت کا اصول ہے۔ اگر آپ کی سمجھ نہ آئے تو میرے پاس اس کا علاج نہیں۔
یاد رکھیں پھر یاد دہانی کرا رہا ہوں، یہ خالص ایک اصلاحی جماعت ہے۔
شکریہ


تبلیغی جماعت کے اکابرین اور عقیدہ توحید
وحدت الوجود:

توحید دین اسلام کا ایک اولین اور اہم ترین جزو ہے آدم علیہ السلام سے لےکر مجمد رسول اللہ ۖ تک جتنے بھی پیغمبر مبعوث کئے گئے ان سب کی دعوت کا نقطہ آغاز توحید ہی تھا اور یہی ایک ایسا مسئلہ تھا کہ کسی بھی نبی کی قوم نے اس کو قبول کرنے میں سب سے زیادہ پسو پیش کی اور ہر نبی کی مخالفت پر اسکی قوم اکثر و پیشتر توحید کی دعوت ہی کی وجہ سے کمر بستہ رہی کیونکہ تلبیس ابلیس کے باعث ایک سے زائد معبودوں کا تصور ہر دور میں اس وقت کے لوگوں کے اذھان اور منطق کے حوالے سے تراش کر عوام کے سامنے پیش ہوتا رہا جسکے باعث توحید کی دعوت کو قبول کرنا کبھی بھی اتنا آسان نہیں رہا لیکن اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اور نبی کریم ۖ نے احادیٹ میں شرک کی تمام اقسام کو اس قدر تفصیل سے بیان کیا ہے کہ قرآن و حدیث کا علم رکھنے والوں کا شرک میں مبتلا ہوجانا محال ہے-
علماء اہلسنت و الجماعت نے توحید کی تین اقسام بیان کی ہیں-

1۔ توحید ربوبیت یعنی جو کچھ بھی انسان کو اس دنیا میں حاصل ہوتا ہے بظاہر اش کا مھیا کرنے والا کوئی بھی ہو مگر حقیقیت میں اس کا عطا کرنے والا صرف اللہ تبارک و تعالی ہے کویا اسکے شکر و تعریف کا اصل حق دار صرف اللہ تعالی ہے-

2۔ توحید الوہیت یعنی معبود صرف اللہ کو سمجھنا دراصل یہ توحید ربوبیت کا ایک منطقی نتیجہ ہے یعنی جب اللہ تعالی کو حقیقی ربّ مانا جائے تو عبادت بھی صرف اللہ تعالی کی ہونی چاہیے اور کوئی بھی دوسرا اس عبادت میں ہرگز شریک ہونا نہیں چاہیے-

3۔ توحید اسماء و صفات یعنی جب کسی کو حقیقی ربّ مانا جائے اور اسی کی اطاعت و بندگی حلوص دل کے ساتھ کی جائے تو پھر ضروری ہوجاتا ہے کہ انسان اس ہستی کے اسماء و صفات سے بھی واقف ہوتا کہ اسے اسکے صحیح ناموں اور شایان شان صفات سے پکارا سکے ورنہ شرک میں مبتلا ہوجانے کا قوی امکان ہوتا ہے یعنی توحید اسماء و صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنے جو بھی اسماء وصفات بیان کی ہین ان پر من وعن ایمان رکھا جائے اور ان میں سے کسی صفاتی نام کی کوئی تاویل نہ کی جائے اور ان تمام اسماء و صفات کو صرف اللہ تعالی کی ذات میں بیک وقت اور ہمہ وقت با تمام و کمال اور قائم و دائم مانا جائے-
لیکن بعض لوگوں نے چوتھی قسم بھی ایجاد کی ہے جسے۔۔۔

4۔توحید ذات کہا جاتا ہے یعنی جس طرح توحید ربوبیت میں حقیقی رب صرف اللہ تعالی کو مانا جاتا ہے اسی طرح توحید ذات میں حقیقی اور ذاتی وجود صرف اللہ تعالی کا مانا جاتا ہے اورباقی تمام مخلوق کو اللہ تعالی کا عکس یا سایہ تصور کیا جاتا ہے یعنی کائنات میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ حقیقیت میں موجود ہی نہیں ہے بلکہ موجود صرف اللہ تعالی کی ذات ہے اسی کو عقیدہ وحدۃ الوجود کہا جاتا ہے-
اس سے بھی ایک قدم اگے بڑھ کر صوفیاء نے توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کو جمع کرکے ایک نیا نام۔۔۔

5۔ توحید ایمانی دیا اور اس توحید کو عوام الناس کی توحید قرار دے کر باشعور طبقہ کی توجہ کو اصل توحید کی جانب مبذول ہونے سے روکا گیا حالانکہ یہی توحید دین کا اصل الاصول ہے اور ہر نبی کی دعوت کا مرکزی نقطہ یہی توحید رہی ہے جبکہ توحید ذات یعنی عقیدہ وحدۃ الوجود کی مزید شاخيں نکال کر اور اسے نئے نئے نام دے کر لوگوں میں عام کرنا شروع کردیا چونکہ اسلام نے علمی اعتبار سے شرک کے تمام راستے ہی بند کردیے تھے اس لیے شیطان نے منطق اور فلسفے کے ذریعے لوگوں کے ذھن میں وحدۃ الوجود کا باطل نظریہ پیدا کیا جو کئی اعتبار سے شرک سے بدتر چيز ہے مگر اس نظریے میں شامل فلسفے کے مباحث اور منطق کی باریکوں کے باعث ایک عام آدمی کے لیے از خود سمجھنا نہایت ہی مشکل ہے یہی وجہ ہے کہ یونانی منطق و فلسفہ سے متاٹر اور مرعوب لوگ اس نظریہ کو قبول کرنے اور اسے عوام الناس میں پھیلانے میں پیش پیش رہے اور تبلیغی جماعت کے تمام اکابرین بھی اس نظریہ کے زبردست حامی رہے ہین اور تبلیغی نصاب میں اسی عقیدہ وحدۃ الوجود کے سب سے بڑے مبلغ شیخ اکبر ابن عربی صوفی کے بارے میں مولانہ ذکریا صاحب فضائل اعمال فصل سابع میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

  • { شیخ اکبر تحریر فرماتے ہیں کہ اگر تیرا کام دوسرے کی مرضی کے تابع نہیں ہوتا تو تو کبھی بھی اپنے نفس کی خواہشات سے انتقال نہیں کرسکتا گو عمر بھر مجاہدے کرتا رہتا لہذا تجھے کوئی ایسا شخص ملے جسکا احترام تیرے دل میں ہو تو اس کی خدمت گذاری کر اور اسکے سامنے مردہ بن کے رہ کہ وہ تجھ میں جس طرح چاہے تصرف کرے اور تیری اپنی کوئی خواہش نہ رہے اسے حکم کی تعمیل میں جلدی کر اور جس چیز سے روکے اس سے احتراز کر اگر پیشہ کرنے کا حکم کرے تو پیشہ کر مکر اس کے حکم سے نہ کہ اپنی رائے سے، بیٹھ جانے کو کہے تو بیٹھ جا لہذا ضروری ہے کہ شیخ کامل کی تلاش میں سعی کرتا کہ تیری ذات کو اللہ سے ملادے}

  • یہی شیخ اکبر ابن صوفی عقید وحدۃ الوجود کا سب سے بڑا داعی ہے اور مولانا ذکریا اور زیادہ تر دیوبندی اور بریلوی علماء کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب اسی شیخ اکبر کے معتقد اور گرویدہ ہیں اور عقیدہ وحدۃ الوجود میں ابن عربی سے متفق ہیں چنانچہ شیخ اکبرابن عربی صوفی کے بارے میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فرماتے ہیں:

{ اول جس شخص نے اس مسئلہ "عقیدہ وحدۃ الوجود" مین خوض فرمایا وہ شیخ محی الدین ابن عربی ہیں، ان کا اجتہاد اس مسئلہ میں اور اثبات مسئلہ کا براہین واضحہ سے جمیع موحدان کی گردن پر روز قیامت موجود احسان ہے}
(شمائم امدادیہ،ص:33)
یعنی حاجی اماد اللہ مہاجر مکی فرمارہے ہیں کہ ابن عربی نے مسئلہ توحید جس میں کسی نبی کو بھی اجتہاد کرنے کا اختیار نہیں ہے اجتہاد کرکے امت موحدین پر بہت بڑا احسان کیا ہے-
ان ہی شیخ اکبر کے حوالے سے آئیے ہم تفصیلی وحدۃ الوجود کا جائزہ لیتے ہیں صوفیاء نے وحدۃ الوجود کا 4 درجوں یا صورتوں میں تقسیم کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے:

جاری ہے -


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
محترم عامر یونس صاحب!
ایسی فضول اور فرقہ واریت والے دھاگہ میں مجھے ٹیگ نہ کیا کریں، آپ کی مہربانی ہوگی۔
اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں، تبلیغی جماعت ایک خالص اصلاحی فکر رکھنے والی جماعت ہے۔ وہ نہ کسی سے تعصب رکھتے ہیں، نہ نفرت کرتے ہیں، اور نہ ہی وہ کسی کے تعصب اور نفرت سے ناراض ہوتے ہیں۔
اس جماعت میں تمام شعبہ جات سے اور مکتبہ فکر رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ لہذا ان کا اپنا اصلاحی طریقہ ہے جس کی بنیاد پر لوگوں دین کے ساتھ تعلق کو جورا جاتا ہے۔
کئی خامیاں ہیں جن پر علماء کی طرف سے ان کی اصلاح کی جاتی رہی ہیں۔
شیعت کے خلاف دیوبند مکتبہ فکر نے جو کھل کر تعاقب کیا ہے اور گلی گلی ان کے کفر کو واضح کیا ہے ، جو جو شہادتیں اس ضمن میں دیوبند مکتبہ فکر کے شرفروشوں نے دیں ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
لہذا کسی بات کو منفی انداز میں سمجھنے اور پھر اسے پیش کرنے کے بجائے بات کو ہمیشہ مثبت انداز میں لینی چاہئے۔
تبلیغی جماعت کا بڑا گہرہ تعلق گاوں ،دیہات سے ہے، اور وہاں کے لوگ سادہ اور ایسے عقائد سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ ان دیہاتوں میں شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ تبلیغی جماعت کو بابرکت جماعت سمجھتے ہیں ان کا اکرام کرتے ہیں اور کئی شیعہ حضرات تین دن نکلتے ہیں پھر اللہ تعالی ان کو شعور عطا کرتا ہے وہ اپنے مذہب سے تائب ہوکر سنی مسلک اختیار کرتے ہیں۔ شاید آپ گاوں دیہاتوں کی زندگی اور لوگوں سے واقف نہیں اور نہ تبلیغی جماعت کے کام سے واقف ہیں۔


مولانا انعام الحسن صاحب بیان فرمارہے تھے۔ ایک شیعہ نے مائک چھین لیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں 73 فرقے ہونگے، ان میں ایک فرقہ جنت میں جائے گا، بتائیں وہ کونسا فرقہ ہے؟
مولانا نے بڑے پیار سے فرمایا، یہ وہ فرقہ ہوگا جو سارے فرقوں کو جنت میں لے کرجائے گا۔


یہ ہے وہ بنیاد جو تبلیغی جماعت کا اصول ہے۔ اگر آپ کی سمجھ نہ آئے تو میرے پاس اس کا علاج نہیں۔
یاد رکھیں پھر یاد دہانی کرا رہا ہوں، یہ خالص ایک اصلاحی جماعت ہے۔
شکریہ



تبلیغی جماعت کے اکابرین اور عقیدہ توحید
وحدت الوجود:
پہلی صورت ظہور صفات:

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے حوالے سے اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں کہ انہوں نے عقیدہ وحدت الوجود کی ایک صورت جسے ظہور صفات کہتے ہیں کو قرآن سے ثابت کیا ہے فرماتے ہیں کہ:
{ حضرت پر توحید بہت زیادہ غلبہ تھا وحدۃ الوجود کو حضرت کے سامنے ایسا معلوم ہوتا کہ مشاہدہ عینی ہے ایک مرتبہ سورہ طہ شنتے رہے اس آیت پر پہنچ کر" اللہ لاالہ الا ھو لہ الاسماء الحسنی' حضرت پر اس کا غلبہ ہوگیا بطور تفسیر کے فرمایا کہ پہلے جملہ پر سوال وارد ہوا کہ جب سوا اللہ کے کوئی نہیں تو یہ حوادث کیا ہیں جواب میں ارشاد ہوا "لہ الاسماء الحسنی" یعنی سب اسی کی اسماء و صفات کے مظاہر ہیں}
(الافاضات الیومیہ الافادات القومیہ یعنی ملفوظات حکیم الامت مافوظ 366، ج1)
حالانکہ اس آیت کا ترجمہ ہے کہ" وہی اللہ ہے جس کے سواء کوئی معبود نہیں تمام بہترین نام اسی کے ہیں" یعنی عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے مگر اسکے صفاتی نام بہت ہیں اسلئے اسے اس کے صفاتی نام سے بھی چاہو پکار سکتے ہو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کے برخلاف حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب نے اس کے نئی تفسیر کی کہ کائنات میں جو بھی چيز ہے وہ اللہ کے اسماء و صفات کا مظہر ہے یعنی اللہ بذات خود ان تمام مخلوقات میں ظاہر ہوا ہے کیونکہ مظہر کے معنی ہیں ظاہر ہونے کی جگہ اس اعتبار سے چاند، سورج، ستارے، انسان، حیوان، شجر اور حجر جو کچھ بھی کائنات میں ہے ان سب میں اللہ کی اسماء و صفات کا کسی نہ کسی شکل میں ظہور ہوا ہے اسے لیے جس کسی کی بھی عبادت کی جائے وہ دراصل اللہ ہی کی عبادت ہوگی-

دوسری صورت فنا فی اللہ:

وجودیت کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے خیال میں فنا فی اللہ کے مقام کو پہنچ جاتا ہے تو وہ خود فنا ہوجاتا ہے اور جو نظر آتا ہے وہ دراصل صوفی نہیں ہوتا جیسا کہ ایک صوفی روئیم توحید کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ توحید بشریت کودور کرنے اور اپنے اوپر الوہیت کو ثابت کرنے کا نام ہے اس قسم کے وحدۃ الوجود کی سب سے بڑی مثال منصور حلاج ہے جس نے خدا ہونے کا دعوی کیا اور اس کے نتیجہ کے طور پر اسکو مجمع عام میں موت کی سزا سنادی گئی مولانا اشرف علی تھانوی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنے باطن کی وجہ سے اپنے آپ کو خدا کہتے تھے جیسا کہ ان کی سوانح حیات میں درج ہے کہ:

{ کسی جلسہ میں بعض لوگوں نے مولانا اشرف علی تھانوی کو مجبور کرنا چاہا کہ آپ وعظ کریں جبکہ واعظ کرنا ان دنوں حضرت نے موقوف کر رکھا تھا، حضرت والا کو نہایت ہی درجہ تنگی واقع ہوئی کیونکہ نہ انکار فرماسکتے تھے اور نہ اقرار کرسکتے تھے یہ حال دیکھ کر مولانہ ظہور الاسلام صاحب فتح پوری کا دل پانی پانی ہوگیا انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بس بھائی بس اب انھیں کچھ نہ کہو اپنے حال پر چھوڑ دو مولوی شاھ سلیمان پھلواری بھی آئے ہوئے تھے انھوں نے عجیب جواب دیا کہا اگر ایسی حالت میں اس شحض سے واعظ کہلوایا تو بس منبر پر بیٹھتے ہی اسکے منہ سے جو پہلا لفظ نکلے گا وہ "ان الحق" ہوگا ایسی حالت میں اسرار کرنا مناسب نہیں}-
(اشرف السوانح، ج1، ص:217)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی بھی فنا فی اللہ کے قائل تھے اور اسکی تصدیق انکے اپنے قلم سے درج شدہ اس حکایت سے بھی ہوتی ہے لکھتے ہیں کہ:

{ رام پور میں ایک مجذوب رہتے تھے جو اپنے آپ کو رب العالمین کہتے تھے ان کے پاس ایک خادم رہتا تھا اور ان کا مکان ہر وقت بند رہتا تھا جب کوئی آتا تو دروازہ پر تین مرتبہ دستک دیتا، اگر دروازہ نہ کھلتا تو وہ واپس ہوجاتا اور اگر ان مجذوب کو بلانا مقصود ہوتا تو خادم آکر دروازہ کھولتا تھا اور وہ شخص دروازہ میں داخل ہوتا خادم دروازے پر اس سے جوتے اتروادیتا اور جوتے ایک طرف کو موقع سے رکھ دیتا، یہ شخص ان کی خدمت میں جاکر سلام کرتا اور عرض و معروض کرتا، ان مجھوب کا قاعدہ تھا کہ اکثر دائيں بائيں اور اوپر منہ کرکے شوں شوں فوں فوں کرتے تھے، ان کی نسبت یہ بھی مشھور تھا کہ ایک مرتبہ انھوں نے خودکشی کرنے کے لیے اپنے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا جس سے آنتیں باہر نکل آئيں اور ان کی بہن رونے لگيں بہن کو راتا دیکھ کر انھوں نے آنتیں اندر کردی اور زخم اچھا ہوگیا، میں اپنے پھو پھا کے ہمراہ ان کے ہاں جایا کرتا تھا، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ میں اور پھوپھا ان کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں ان کو جوش ہوا اور انہوں نے حسب عادت شوں شوں فوں فوں شروع کی اور کہا فلاں مرتبہ رب العالمین نے رب العالمین سے ملنا چاہا تو فلاں مانع ہوا، اور کہا فلاں مرتبہ رب العالمین نے رب العالمین سے ملنا چاہا تو فلاں مانع ہوا اور فلاں مرتبہ فلاں، اور انھوں نے اپنا پیٹ کھول کر دکھایا تو سینے سے ناف تک ایک لکیر معلوم ہوتی تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ انھوں نے کبھی اپنا پیٹ چاک کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بھی کہا کہ دیکھو آج پھر صبح سے رب العالیمن کو رب العالمین سے ملنے کا شوق ہورا ہے دیکھو کوئی مانع نہ ہو اور یہ کہ کر انھوں نے اپنے بستر کے نیچے سے تراہ کا چھرا نکالا اور گردن پر رکھ کر چلانا چاہتے تھے کہ میرے پھو پھا نے جلدی سے ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کے ہاتھ سے چھرا لے لیا وہ بہت دین تک شوں شوں فوں فوں کرتے رہے، جب جوش فرد ہوا تو انہوں نے میرے پھوپھا سے کہا کہ اب چھرا دے دو اب مجھ پر وہ کیفیت نہیں ہے، یہ قصہ نواب یوسف علی خاں کے زمانے کا ہے اسکے بعد تو ہم لوگ رام پور سے چلے آئے، ہمارے چلے آنے کے بعد جب نواب کلب علی خان مسند ریاست رام پور پر متمکن ہوئے تو ان کے زمانے میں یہ قصہ پیش آیا کہ ان مجذوب صاحب نے ایک دن اپنے خادم سے کہا کہ رب العالمین کو رب العالمین سے ملنے کا آج پھر اشتیاق ہورہا ہے اور وہ اپنی گردن کاٹنا چاہتا ہے اگر سر تن سے جدا نہ ہو تو الگ کردینا یہ کہ کر سجدہ میں چلے گئے اور سجدہ میں جاکر اپنی گردن کاٹ لی سر تو تن سے جدا ہوگیا مگر یہ نہیں معلوم کہ خود انھوں نے جدا کیا یا حسب وصیت خادم نے جدا کیا،
اب انکی تجہیز و تکقین ہوئی مگر نماز کے متعلق علماء میں اختلاف ہوا مفتی سعد اللہ صاحب اور ان کی جماعت کہتی تھی کہ انھوں نے خود کشی کی ہے اسلیئے نماز نہیں پڑھنی چاہیے اور مولوی ارشاد حسین صاحب اور رام پور کے قاضی جو بدایوں کے رہنے والے تھے وہ کہتے تھے کہ یہ مغلوب و غیر مکلف تھے اس لیے ان کی نماز پڑھنی چاہیے چنانچہ مولوی ارشاد حسین کے فتوای اور نہایت ہی شان و شوکت کے ساتھ ان کی نماز جنازہ ہوئی اور ان کو دفن کیا گیا- ان مجذوب کے انتقال کے بعد اب ان کا خادم اپنے آپ کو رب العالمین کہنے لگا تھا مگر علماء کی راء سے نواب صاحب نے اسکو رام پور سے نکال دیا اور اسکے بعد اس کا پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا اور اس کا کیا ہوا}
(ارواح ثلاثہ حکایت نمبر 442، ص: 440 تا 443)-
ہمارا سوال یہ ہے کہ جس مولوی و مفتی نے ایسے شخص کی نمازہ جنازہ پڑھنے کا فتوای دیا جو اس کے خیال میں خدا تھا تو کیا خدا کا جنازہ بھی پڑھا جاسکتا ہے، سچ ہے کہ صوفیت حماقت کا دوسرا نام ہے-

تیسری صورت ظہور ذات:
وحدۃ الوجود کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ مخلوقات میں سے بعض میں نعوذ با اللہ اللہ تبارک وتعالی بذات خود ظہور فرماتا ہے خواہ و مخلوق اسلامی رو سے نجس یا پلید ہی کیوں نہ ہو بظاہر ہمارا یہ دعوای آپ لوگوں کو بہت ہی بڑا اور غیر معقول معلوم ہوگا مکر ہمارے پاس اس کے ثبوت میں دلائل موجود ہیں کہ صوفیاء حضرات نے اسلامی نظریہ توحید کو کتنی گھناونی سازش کے تحت پامال کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں سب سے پیش پیش ابن عربی صوفی ہیں مثلا موسی علیہ السلام کے اس واقعہ پر جس میں ان کی قوم نے گائے کے بچھڑے کا بت بناکر اسکی عبادت شروع کردی تھی پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ اکبر ابن عربی صوفی لکھتا ہے کہ:
{ حضرت موسی کو اس بات کا علم تھا کہ ان کی قوم نے بچھڑے کی نہیں بلکہ اللہ کی عبادت کی ہے اس لیے کہ عارف ہر شے میں حق کو دیکھتا ہے بلکہ اس کو ہر شئے کا عین دیکھتا ہے}
( فصوص الحکم اردو فص ہارونیہ ص: 384}
{ ابو الحسین نوری ایک مشھور صوفی ہیں ان کے متعلق معروف ہے کہ جب کسی کتے کو بھونکتے ہوئے سنتے تو کہتے تھے کہ "لبیک و سعیدیک" یعنی میں حاضر ہوں اور سعادت نصیب ہوں یہ الفاظ اگرچہ مبہم ہیں مگر صوفیاء کی اصطلاح میں جل شانہ کے الفاظ سے کسی طرح کم بھی نہیں ہیں}
(دین تصوف از محمد یحیی گوندلوی، ص:86)
لغت کے اعبار سے لبیک و سعدیک کے معنی ہوتے ہیں کہ تیری اطاعت پر مساعدہ اور مدد کرتا ہوں یہ الفاظ حج کے تلبیہ میں بھی مستعمل ہیں اور دونوں الفاظ مبالغہ کے ہیں جس کے معنی ہونگے کہ میں ہر وقت و ہر بار حاضر ہوں اور تیری اطاعت اور فرمانبرداری پر کمر بستہ ہوں اور اسکے لیے مساعد و مددگار ہون اس صوفی نے یہ الفاظ اس لیے کہے کہ وہ کتے کو اپنا الہ اور معبود سمجھتا اور مانتا تھا اور تبلیغی جماعت کے اکابرین کے اس عقیدہ کی مزید تصدیق کے لیے مولانا اشرف علی تھانوی ہی کی کتاب سے یہ واقعہ ملاحظہ فرمائيے لکھتے ہیں کہ:

{ میرے والد کے اندر چشيت بہت غالب تھی حالانکہ وہ کسی چشتی سے مستنفید نہیں ہوئے تھے اور اسی بناپر ان کی یہ کیفیت تھی کہ جس جگہ سنتے تھے کہ فلاں شئے خوبصورت ہے تو سفر کرکے اسے دیکھنے ضرور جاتے تھے (یعنی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ہر خوبصورت شئے میں اللہ تعالی خود ظہور فرماتا ہے) چنانچہ ایک مرتبہ انہیں معلوم ہوا کہ جے پور ایک تصویر بہت حسین پس اسے دیکھنے کے لیے جے پور روانہ ہوگئے، اسی طرح ان کو معلوم ہوا کہ لکھنو سے بہت دور مقام پر کسی کے ہاں ہانسی حصار سے کوئی اونٹنی آئی ہے جو بہت خوبصورت ہے یہ سن کر اس اونٹنی کو دیکھنے روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر اس اونٹنی کو دیکھا اور اسکی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسکے سر کو جھکایا اور بوسہ دے کر فرمایا کہ " کہاں ظہور فرمایا ہے" اسی طرح لکھنو کے اطراف میں ایک مقام پر ایک عالم رہتے تھے وہ ایک لڑکے پر عاشق تھے اور اسکو بہت محبت سے پڑھاتے تھے جب والد صاحب کو اس کے حسن کا قصہ معلوم ہوا تو حسب عادت اس کو دیکھنے چل دیئے جس وقت والد صاحب وہاں پہنچے تو اس وقت لڑکا سہ دری کی کوٹھڑی کے اندر تھا اور وہ عالم ایک چارپائی سے کمر لگائے ہوئے اس کوٹھڑی کی طرف پشت کئے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے، والد صاحب اسباب رکھ کر ان عالم سے مصافحہ کرنے گئے جب یہ سہ دری پر پہنچے تو وہ لڑکا ان کو دیکھ کر کوٹھڑی سے نکلا، والد صاحب نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھائے ہی تھے کہ ان کی نظر اس لڑکے پر پڑگئی جس سے مصاحفہ تو رہ گيا اور والد صاحب اس لڑکے کو دیکھنے میں مستغرق ہوگئے}
(ارواح ثلاثہ ص:234-235)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
محترم عامر یونس صاحب!
ایسی فضول اور فرقہ واریت والے دھاگہ میں مجھے ٹیگ نہ کیا کریں، آپ کی مہربانی ہوگی۔
اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں، تبلیغی جماعت ایک خالص اصلاحی فکر رکھنے والی جماعت ہے۔ وہ نہ کسی سے تعصب رکھتے ہیں، نہ نفرت کرتے ہیں، اور نہ ہی وہ کسی کے تعصب اور نفرت سے ناراض ہوتے ہیں۔
اس جماعت میں تمام شعبہ جات سے اور مکتبہ فکر رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ لہذا ان کا اپنا اصلاحی طریقہ ہے جس کی بنیاد پر لوگوں دین کے ساتھ تعلق کو جورا جاتا ہے۔
کئی خامیاں ہیں جن پر علماء کی طرف سے ان کی اصلاح کی جاتی رہی ہیں۔
شیعت کے خلاف دیوبند مکتبہ فکر نے جو کھل کر تعاقب کیا ہے اور گلی گلی ان کے کفر کو واضح کیا ہے ، جو جو شہادتیں اس ضمن میں دیوبند مکتبہ فکر کے شرفروشوں نے دیں ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
لہذا کسی بات کو منفی انداز میں سمجھنے اور پھر اسے پیش کرنے کے بجائے بات کو ہمیشہ مثبت انداز میں لینی چاہئے۔
تبلیغی جماعت کا بڑا گہرہ تعلق گاوں ،دیہات سے ہے، اور وہاں کے لوگ سادہ اور ایسے عقائد سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ ان دیہاتوں میں شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ تبلیغی جماعت کو بابرکت جماعت سمجھتے ہیں ان کا اکرام کرتے ہیں اور کئی شیعہ حضرات تین دن نکلتے ہیں پھر اللہ تعالی ان کو شعور عطا کرتا ہے وہ اپنے مذہب سے تائب ہوکر سنی مسلک اختیار کرتے ہیں۔ شاید آپ گاوں دیہاتوں کی زندگی اور لوگوں سے واقف نہیں اور نہ تبلیغی جماعت کے کام سے واقف ہیں۔


مولانا انعام الحسن صاحب بیان فرمارہے تھے۔ ایک شیعہ نے مائک چھین لیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں 73 فرقے ہونگے، ان میں ایک فرقہ جنت میں جائے گا، بتائیں وہ کونسا فرقہ ہے؟
مولانا نے بڑے پیار سے فرمایا، یہ وہ فرقہ ہوگا جو سارے فرقوں کو جنت میں لے کرجائے گا۔


یہ ہے وہ بنیاد جو تبلیغی جماعت کا اصول ہے۔ اگر آپ کی سمجھ نہ آئے تو میرے پاس اس کا علاج نہیں۔
یاد رکھیں پھر یاد دہانی کرا رہا ہوں، یہ خالص ایک اصلاحی جماعت ہے۔
شکریہ

تبلیغی جماعت کے اکابرین اور عقیدہ توحید
وحدت الوجود:
چوتھی صورت حلول:

یعنی عبادت خواہ شجر و حجر کی کی جائے یک چاند سورج اور ستاروں کو اپنا رب مانا جائے، عقیدہ توحید میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عبادت در حقیقت اللہ ہی کی ہے کیونکہ اللہ ہی ہر چيز میں حلول کیےہوئے ہے اس فکر کو بھی ابن عربی صوفی ہی نے عام کیا اور پھیلایا وہ لکھتا ہے کہ:

{ جو عارف کامل ہوتا ہے وہ ہر شے کو جلوہ گاہ حق جانتا ہے، انھیں جلووں کا سبب ہے کہ نادانوں نے باوجود اسم خاص کے مثلا پتھر، درخت، حیوان، انسان، آگ، ستارے اور فرشتے کو الہ و معبود مانا، الہویت کیا ہے عابد کا تخیل ہے کہ فلاں کے لیے مرتبہ معبودیت ہے}
( فصوص الحکم اردو فص ہارونیہ، ص:389)

یہی فکر ہے جسے صوفیاء نے اپنایا ہے اور اس نظریہ کی بنیاد عقیدء حلول پر ہے وحدت الوجود کے قائلین میں کچھ ظہور کے قائل رہے ہیں اور کچھ حلول کے قائل ہیں ویسے تو دونوں ہی عقیدے اپنی اپنی جگہ زندیقیت ہیں مگر وحدۃ الوجود کی بدتریں شکل حلول ہے یعنی یہ عقیدہ کہ اللہ تبارک وتعالی اس کائنات کے اندر حل ہوگیا ہے اور یہ کائنات در حقیقیت اللہ ہی ہے اور یہ بہت ہی برا عقیدہ ہے مگر تبلیغی جماعت کے اکابرین اسی کے قائل رہے ہیں مثلا اشرف علی تھانوی اپنے ملفوظات میں ظہور اور حلول میں فرق کرتے ہوئے اور نظریہ ظہور کی وضاحت اور اس سے برات کا اعلان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
{ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور ظہور وحلول میں کیا فرق ہے، فرمایا جیسے صورت کا عکس کہ آئینہ میں اس کا ظہور ہے نہ کہ حلول، باطل انسانی یعنی انسان کا سایہ کہ انسان کا ایک ظہور ہے انسان اس میں حلول کیے ہوئے نہین، صوفیہ کی ایسی مثالوں سے نادانوں کو شبہ حلول ہوجاتا ہے اس لیے مولانا اس سے تبریہ فرماتے ہیں کہ وہ اس سے بھی بالا تر ہے}
( الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ یعنی ملفوظات عکیم الامت ملفوظ 286۔ ج 1)
اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی عقیدہ حلول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
{ کسی سید ملتانی سے توحید کی مثال پوچھی کہنے لگے جس ایک مٹکے ک وریت سے بھر کر اس میں پانی ڈال دیا جاتے ہے اور وہ پانی اس ریت کے ہر ہر ذرے میں سرایت کرجائے اسی طرح ذات وحدہ لا شریک کائنات کے ہر ذرے میں سرایت کیے ہوئے ہے}
( انفاس العارفین، ص:372)

اور اگر مزید آسان طریقے سے حلول کو سمجھنا ہو تو یوں سمجھیں کہ اگر ایک گلاس پانی میں ایک چمچہ شکر ڈال کرملادیا جائے تو یہ حلول ہے یعنی دو چیزوں کا ایک جان ہوجانا اس طرح کہ ان علیحدہ علیحدہ کوئی وجود باقی نہ رہے چنانچہ صوفیاء کے نزدیک معاذ اللہ! اللہ تعالی کی ذات مخلوق میں حل ہوگئی ہے اور اب علحیدہ اس کا کوئی وجود نہیں ہے اور اس ضمن میں جو بات ہم نے ابن عربی کے حوالے سے کہی ہے اسی بات کے قائل دیوبندی علماء بھی ہیں اسکے ثبوت میں سورہ فاتحہ کی پہلی آیت "الحمد اللہ رب العالمین" کے ضمن میں شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی دیوبندی کی یہ تفسیر ملاحظہ ہو فرماتے ہیں کہ:
{ یعنی سب تعریفیں عمدہ سے عمدہ اول سے آخر تک جوہوئی ہیں اور جو ہونگی خدا ہی کے لائق ہیں، کیونکہ ہر نعمت اور ہر چيز کا پیدا کرنے والا اور عطاء کرنے والے وہی ہے خواہ بلا واسطہ عطاء فرمائے یا بواسطہ جیسے دھوپ کی وجہ سے اگر کسی کو حرارت یا نور پہنچے تو آفتاب کا فیض ہے-}
شعر:
ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے بڑی کوتاہی کی بات ہے جس کو اہل فہم خوب سمجھتے ہیں-
( تفسیر القرآن مطبع شاہ فہد پرنٹنگ پریس سعودیہ عریبیہ)
یعنی شبیر صاحب فرمارہے ہیں کہ جب سے کائنات وجود میں آئی ہے اس وقت سے لے کر اب تک جس کسی نےبھی کسی کی تعریف کی درحقیقت اللہ ہی کی تعریف کی جس طرح آفتاب کی پوجا کرنے والے آفتاب کی پوجا اس لیے کرتے تھے کہ ان کو آفتاب سے فیض حاصل ہوتا تھا لیکن آفتاب کی پوجا یا تعریف در اصل آفتاب کی تعریف نہیں بلکہ اللہ کی پوجا اور اس کی تعریف تھی اور اس سلسلہ میں جو شعر انھوں نے نقل کیا ہے اسکا ترجمہ اس طرح ہے کہ
" تعریف تیرے ہی لائق ہے اور جو کوئی کسی کے در پر جاتا ہے وہ در حقیقیت اللہ ہی کے در پر جاتا ہے"
اور اسکے بعد جو جملہ انھوں نے لکھا ہے وہ اس ضمن میں فیصلہ کن ہے فرماتے ہیں کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ
" ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کو سزاوار ہے"
اس جملہ کا آسان مطلب یہ ہے کہ ہر طرح کی تعریف جو ہونی چاہیے صرف اللہ تعالی ہی کی ہونی چاہیے لیکن شبیر احمد صاحب عثمانی فرماتے ہیں کہ یہ ترجمہ غلط ہے بلکہ اس آیت کا ترجمہ یہ ہونا چاہیے کہ
"جوبھی تعریف ہوتی ہے وہ در حقیقیت اللہ ہی کی تعریف ہوتی ہے"
اور مزید فرماتے ہیں کہ اہل علم اسے خوب سمجھتے ہیں اور واقعی اہل علم نے اسے بخوبی سمجھ لیا تب ہی یہ ترجمہ و تفسیر جو ان دیوبندیوں نے سعودی حکومت کو دھوکا دیکر چھپوائی تھی اس کو سعودی حکومت سے ہی ضبط کروایا اور پابندی عائد کرائی تاکہ اس ترجمہ و تفسیر کے شر سے بقیہ عوام الناس محفوظ رہ سکیں اور اب موجودہ ترجمہ و تفسیر جو سعودی حکومت کی جانب شایع ہوا ہے وہ مولانا محمد جونا گڑھی کے ترجمہ اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف کی تفسیر پر مشتمل ہے، اس میں سورہ فاتحہ کی اس آیت کی جو تفسیر درج کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ:
{ تمام تعریف اللہ کے لیے ہیں، یا اس کے لیے خاص ہیں کیونکہ اصل مستحق و سزاوار صرف اللہ تعالی ہے، کسی کے اندر کوئی خوبی، حسن یا کمال ہے تو وہ بھی اللہ تعالی کا پیدا کردہ ہے اس لیے حمد یعنی تعریف کا مستحق بھی وہی "اللہ" ہے}
(تفسیر القرآن مطبع شاہ فہد پرنٹنگ کمپلیکس سعودیہ عریبیہ)

حاصل کلام یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کے اکابرین و دیوبندی علماء عقیدہ وحدۃ الوجود کے قائل رہے ہیں جو ہر اعتبار سے ایک غلط اور گمراہ کن نظریہ ہے جو توحید کے منافی اور شرک سے بھی بدتر عقیدہ ہے پس جو لوگ تبلیغی جماعت یا ان کے اکابرین سے محبت رکھتے ہیں اور اکابرین کے عقیدہ کو جان لینے اور سمجھ لینے کے بعد بھی اس جماعت اور اسکے متعلقین سے اعلان برات نہیں کرتے انھیں جان لینا چاہیے یا قیامت کے دن ان کا حشر بھی انہی لوگوں کے ساتھ ہوگا اور ان کا کوئی عمل اور کوئی محنت ان کے کسی کام نہیں آسکے گی جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ:
{ ھل اتک حدیث الغاشیہ، وجوہ یومئذ خاشیہ، عاملہۃ ناصبہ،تصلی نارا حامیہ}
(سورہ الغاشیہ آیت 1 تا 4)
"تم کو چھپالنے والی قیامت کی خبر نہیں ملی جس دن بہت سے چہروں پر ذلت ہوگی اور محنتیں کرنے والے محنتین کر کر کے تھکے ہوئے ہونگے مگر پھر بھی وہ جہنم میں جائيں گے"

ان آیات کی تفسیر میں بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو دنیا میں محنتیں کرکر کے تھکے ہوئے ہونگے یعنی بہت عمل کرتے ہونگے مگر ان کا عمل باطل مذھب کے مطابق یا بدعات پر مبنی ہوگا اس لیے عبادات اور اعمال شاقہ کے باوجود جہنم میں جائيں گے کیونکہ عمل کا تعلق عقیدہ سے ہے اگر عقیدہ درست نہیں توکوئی بھی عمل کام نہیں آسکتا اور اگر عقیدہ درست ہے تو ان شاءاللہ تھوڑا عمل بھی کفایت کرجائے گا-

اقتباس: تبلیغی جماعت عقائد، افکار، نظریات اور مقاصد کے آئینے میں
از: ابوالوفاء محمد طارق خان
منہج سلف آف لائن ہے
 
شمولیت
ستمبر 12، 2013
پیغامات
143
ری ایکشن اسکور
227
پوائنٹ
40
ideal_man نے کہا ہے
تبلیغی جماعت ایک خالص اصلاحی فکر رکھنے والی جماعت ہے۔ وہ نہ کسی سے تعصب رکھتے ہیں، نہ نفرت کرتے ہیں، اور نہ ہی وہ کسی کے تعصب اور نفرت سے ناراض ہوتے ہیں۔


تبلیغی جماعت اورنامور عرب علماء

یہ کتاب (من الظلمات الی النور)صرف یک مصنف کی رائے پر مشتمل نہیں بلکہ ان عظیم علماءو مشائخ کے فتاویٰ پربھی مشتمل ہے جن میں سےکئی ا یک تو اپنے وقت کے عظیم محدث اور بعض اپنے اپنے زمانے میں سعودی عرب ، اردن ، جازان اور دمشق کے مفتی اعظم رہ چکے ہیں اور بعض کبار علماءکمیٹی کے رکن ہیں۔ اللہ تعا لیٰ ان میں سے فوت شدگان پر کروڑ ہار حمتیں نازل فرمائے اور جو بقید حیات ہیں ان کی حفاظت فرمائے ۔آمین

فضیلتہ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ:

یہ سوال شیخ ابن باز ر حمہ اللہ سے مورخہ 1416-12-6 کو مکہ مکرمہ میں کیا گیا ۔
سوال :محترم شیخ صاحب ! ہم تبلیغی جماعت اور اس کی دعوت کے بارے میں سنتے ہیں تو کیا آپ اس جماعت میں شمولیت اختیارکریں گے ؟ میں اس بارے میں آپ کی توجہ اور خیر اور خواہی کا امید وار ہوں ۔ اللہ آپ کے اجر کو بڑھائے ۔

جواب : جو کوئی بھی اللہ کی طرف بلائے وہ مبلغ ہے۔ (ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے)

بلغوا عنی ولوایتہ(صحیح بخاری)
"ایک بات بھی میری طرف سے پہنچے تو اسے آگے پہنچادو "۔

لیکن ہندوستان کی جو معروف تبلیغی جماعت ہے اس میں خرافات و بدعات اور شرکیات پائی جاتی ہیں لہذا کسی کے لئے ان کے ساتھ جانا جائز نہیں ہاں ایسے اہل علم کے لئے جائز ہے جو ان کی خرافات کا انکار کر کے صحیح علم کی طرف ان کی راہنمائی کر سکیں لیکن تبلیغی جماعت کی اتباع کرتے ہو ئے اس کے ساتھ جانا جائز نہیں۔
نوٹ : شیخ کا یہ فتوی ۱۴۱۶ھ کی کیسٹ سے ماخوز ہے۔

فضیلة الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (محدث دیار شام) کا فتویٰ :

سوال: تبلیغی جماعت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ کیا طالبعلم یا کوئی اور دعوت الی اللہ کے دعویٰ کے ساتھ ان کے ہمراہ نکل سکتا ہے ؟

جواب : "تبلیغی جماعت کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صا لحین کے منہج پر قائم نہیں ہے جب ایسا معاملہ ہے تو ان کے ساتھ نکلنا بھی جائز نہیں ہے۔ یہ لوگ یعنی تبلیغی جماعت والے کتاب و سنت کی دعوت دینے کے قائل نہیں بلکہ یہ کتاب و سنت کی دعوت کو فرقہ واریت کی دعوت سمجھتے ہیں۔ پس تبلیغی جماعت دور حاضر کی صوفی دعوت ہے جو اخلاق کی طرف تو بلاتی ہے مگر لوگوں کے غلط عقائد کی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتی۔ کیونکہ اس سے ان کے زعم کے مطابق فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے۔ کبھی کوئی سائل یہ بھی پوچھتا ہے کہ اس جماعت کی محنتوں سے بہت سے لوگ اسلام کی طرف آتے ہیں اور کبھی ان کے ہاتھ پر غیر مسلم اسلام بھی قبول کرتے ہیں ۔ کیا یہ سب کچھ اس جماعت میں شمولیت اور اس کے ہمراہ دعوت کے لئے نکلنے کو جا ئز قرار دینے کے لئے کافی نہیں؟
اس کا جواب یہ ہے یسی باتو ں کو ہم سمجھتے ہیں اور بہت سنتے آئے ہیں یہ تو صو فیوں کا انداز فکر ہے۔ مثلا فلاں جگہ یک بزرگ تھا اس کا عقیدہ فاسدہ تھا سنت کو جانتا تک نہیں تھا لیکن بہت سے فاسق وفا جراس کے ہاتھ پر توبہ کرتے تھے ہر خیر کی طرف بلانے والی جماعت کے متبعین تو ہوا ہی کرتے ہیں ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ان کی اصل کو دیکھو کہ یہ کس چیز کی طرف بلاتے ہیں کیا یہ لوگ کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دیتے ہیں اور اتباع سنت کا پیغام لوگوں کوسناتے ہیں کہ سنت پر عمل کرنا ہے جہاں کہیں سے اور جس کسی سے کیوں نہ ملے ۔ لیکن در حقیقت تبلیغی جماعت کوئی علمی منہج نہیں رکھتی بلکہ ان کا منہج جیسا دیس ویسا بھیس کے مطابق بدلتا رہتا ہے اور ان کے حسب ضروت رنگ بھی بدلتے رہتے ہیں"۔
(الفتاویٰ الاماراتیہ للا لبانی رحمہ اللہ)،

فضیلتہ الشیخ عبد الرزاق عفیفی رحمہ اللہ (کبا ر علما ءکمیٹی کے رکن کا فتویٰ)

"یہ بد عتی جما عت ہے جو صحیح منہج سے ہٹ چکی ہے یہ قا دری اور اس قسم کے صوفی طریقوں والے لو گ ہیں ان کا نکلنا اللہ کے راستے میں نہیں بلکہ مولانا الیا س کے
راستے میں ہے اور یہ لو گ کتا ب و سنت کی دعوت نہیں دیتے بلکہ شیخ الیاس کی طرف لوگوں کو بلا تے ہیں اسلام کی دعوت دینے کے قصد سے گھر سے نکلنا تو جہاد فی سبیل اللہ ہے لیکن یہ تبلیغی جما عت والا نکلنا نہیں ہے ۔میں تبلیغی جما عت کو زما نہ قدیم سے جا نتا ہوں یہ لوگ مصر میں ہوںیا اسرئیل میں ہوں ،امریکہ میں ہوں یا سعودیہ میں ہوں ،غرض جہاں بھی ہوں بدعتی امور کرتے ہیں اور یہ سارے کے سارے اپنے شیخ الیاس کے ساتھ مر تبط ہیں"۔
(الفتاویٰ ورسائل سماحتہ الشیخ عبدالرزاق عفیفی )

فضیلة الشیخ عبدالقادر الارناﺅ (دمشق میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم )کا فتویٰ:

"تبلیغی جماعت یک صوفی جماعت ہے جو صحیح اور فاسد عقیدے اور سنت وبدعت کو خلط مط کئے ہوئے ہے۔کتاب وسنت سے چمٹنے کا دعوی بھی ہے اور بشری مناہج سے بھی تعلق جوڑے ہوئے ہیں یہ لوگ نصوص شریعت کی تفسیر اپنے منہج کے مطابق کرتے ہیں سلف صالحین کے منہج کے مطابق نہیں کر تے جہاد کی تفسیر فقط نفس کے خلاف جہاد سے کرتے ہیں یہ لوگ دعوت تبلیغ اور تبلیغی سفرو سیا حت کی طرف تو بلا تے ہیں لیکن اس عقیدے(توحید )کے بارے میں خامو ش ہیں جو اسلام کی اساس ہے۔
ان کے ساتھ نکلنا ان کے طریقے کی تائید کرنا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ہمراہ کسی کے لئے بھی جانا صحیح نہیں ہے سوائے ان اہل علم کے کہ جو انہیں نصیحت کریں اورلوگ ان کی بات کو قبول کریں "۔

فضیلتہ الشیخ حمود بن عبد اللہ التو یجری رحم اللہ (ریاض کے عظیم مشائخ میں سے یک) کا فتویٰ:

"یہ بدعتی اور گمراہ جماعت ہے صوفیوں کے طریق اور بد عتیوں کے منہج پر کام کر رہے ہیں۔ میں سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنے دین کو شرک وغلواور بدعت و خرافات سے بچانا چاہتے ہیں تو تبلیغی جماعت کے ساتھ شرکت نہ کریں اور ان کے ساتھ بالکل نہ نکلیں، نہ اپنے علاقہ وشہر میں اور نہ شہر سے باہر "۔
(القول البلیغ فی التحذیر من جماعتہ التبلیغ)

فضیلتہ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ (کبار علماءکمیٹی کے رکن )کا فتویٰ:
"اگر تبلیغی جماعت والے چھ نمبر کہ جن کی وہ دعوت دیتے ہیں کو چھوڑ کر ان کے بدلے حدیث جبریل (صحیح بخاری۔ کتاب الایمان ) کو لے لیں تو اس میں سارہ دین موجود ہے۔ کسی بھی قصہ گو یا واعظ کے لئے جائز نہیں کہ وہ یسی حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرے کہ جس کی صحت کا اسے علم نہ ہو اور جس حدیث کا ضعیف ہونا معلوم ہے اس کا بیان کرنا بالا ولی جائز نہیں ہے۔ اسی طرح وہ قصے کہ جن کے جھو ٹے ہونے سے آگاہ ہے انھیں بھی بیان نہ کرے کیونکہ یہ جھوٹ ہے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے نیز اجتماعی دعا خواہ وہ بیانات کے بعد ہو یا مسجد سے نکلتے ہوئے یا دعوت کے لئے جاتے ہوئے اس کی کوئی اصل نہیں اور یہ بدعت کی یک قسم ہے"۔
(فتاویٰ بتو قیع فضیلتہ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ )

فضیلتہ الشیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ(کبار علماءکمیٹی کے رکن ) کا فتویٰ:
"کسی بھی دعوت کی صلاحیت اور استقامت اس کے منہج اور غیت ومقصد کے ذریعے سے پہچانی جاتی ہے کہ اس کے مقصد ومنہج کی نبوی منہج دعوت سے کتنی مطابقت ہے اور اصلاح عقائد اور شرک ومشرکین کی مخالفت میں اس کی تاثیر کی حد کیا ہے اور وہ دعوت کہ جو اس سے کم تر منہج رکھتی ہے مثلا ترک معاصی کی دعوت تو ہو لیکن ترک شرک کی دعوت نہ ہو ۔ بعض بدعتی اعمال کی طرف زیادہ محنت اور نفلی عبادات اور اذکار پر اقتصار کیا جائے۔ محدود مدت کے لئے سفرو خروج کی بدعت ، علم نافع سے بے پرواہی اور بعض مواعظ ، اذکارو وظائف اور فضائل اعمال کو ترجیح دینا تو جس دعوت میں یسی چیزیں پائی جائیں وہ ناقص دعوت کہلائے گی ۔ نہ ہی اس دعوت کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی یہ صحیح نتائج دے سکتی ہے لہذا کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس دعوت کا قصد کرے اور اس دعوت کی حامل تبلیغی جماعت کے ساتھ جائے کیونکہ ان کے ہمراہ جانے سے نہ تو دین کی صحیح بصیرت حاصل ہو گی اور نہ ہی صحیح عقیدہ کی معرفت"۔

فضیلتہ الشیخ سعد بن عبدالرحمن الحصین (اردن میں سعودیہ کے دینی مشیر) کا فتویٰ:
"میں آٹھ سال تبلیغی جماعت میں شامل رہا ہوں اور اس کی تائید کرتا رہا ہوں اور ان تہمتوں سے اس کا دفاع کرتا رہا ہوں جو میرے نزدیک ثابت نہ تھیں ۔ تبلیغی جماعت کتاب وسنت اور علماءامت کی صحیح فقہ کی بجائے قصوں کہانیوں اور خرافات پر قائم ہے اور انکی خرابی پر اس سے زیادہ ظاہر دلیل اور کون سی ہو سکتی ہے کہ دہلی میں انکی مرکزی مسجد میں قبریں موجود ہیں ۔ اسی طرح رائیونڈ کی مر کزی مسجد کے جوار میں اور سوڈان میں انکی مرکزی مسجد میں قبریں پائی جاتی ہیں بعض سعودی اور غیر سعودی علماءنے جو اس جماعت کی تائید کی ہے وہ اسکے بارے میں صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے حسن ظن اور ظاہر بینی سے کام لیتے ہوئے متاثر ہوئے اور ان سے ان کے حمیت میں فتاویٰ صادر ہوئے لیکن کوئی بھی یسا قابل ذکر عالم نہیں کہ جو اس جماعت میں رہا ہو اور پھر اس سے نکلنے کے بعد اس کا تزکیہ بیان کیا ہو۔بہت سے علماءنے تبلیغی جماعت سے لوگوں کو ڈرایا ہے مثلا حمود بن عبداللہ التو یجری ، عبدالرزاق عفیفی ، عبداللہ الغدیان اور صالح الفوزان وغیرہ "۔
(حقیقتہ التو حیدالی اللہ تعا لی وما اختصت بہ جزیرہ العرب)

فضیلتہ الشیخ احمد بن یحیی (جازان کے عظیم مشائخ میں سے یک) کا فتویٰ:
"تبلیغی جماعت کا بانی صوفیت پر پروان چڑھا اور چشتی مراقبے میں عبدالقدوس گنگوہی کی قبر کے پاس بیٹھا کرتا تھا جبکہ عبدالقدوس گنگوہی وحدت الوجود کا قائل تھا۔ ان کی وہ مسجد جس سے ان کی دعوت کا آغاز سفر ہوا اس میں چار قبریں ہیں ۔ اس جماعت کا بانی قبر والوں سے کشف اور روحانی فیضان کا طلبگار رہتا تھا۔ یہ یت کنتم خیرامتہ اخر جت للناس کے بارے میں اس کا قول ہے کہ اس ا یت کی تفسیر اسے کشف کے ذریعے الھام ہوئی"۔
(المو رد العذب الز لال فیما انتقدعلی بعض المناہج الدعو یتہ من العقا ئد والاعمال)

فضیلتہ الشیخ صالح بن سعد (جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ) کا فتویٰ:
"تبلیغی جماعت یک صوفی جماعت ہے جو چار صو فی سلسلوں نقشبند یہ، سہر ور دیہ ، قادریہ اور چشتیہ کے مطابق بیعت کرواتی ہے۔ کتاب و سنت کی نصو ص میں تحریف کرتی ہے خصوصا وہ آیات و احادیث جو جہاد کے متعلق ہیں۔یہ لوگ ان کو اس جماعت کے ساتھ نکلنے، بدعتی سیاحت کرنے اور ان کے ساتھ مل کر نفس کے مجاہد ہ پر محمو ل کرتے ہیں۔ اسلام کے قواعد سے یہ لوگ نا واقف ہیں۔ صحیح عقیدے کے حاملین سے لو گو ں کومتنفر کرتے ہیں اور علم وعلماءسے لوگو ں کو ڈراتے ہیں۔
"لو گو! اللہ کے لئے اس گمراہ جماعت سے بچ جاؤﺅ،اس سے تعلق نہ جوڑو،اسے قوت مت فراہم کرو، اسکے دھوکے میں نہ آؤ کہ شیطان نے تبلیغی جماعت والوں کو دھوکہ دے کر اپنی رسیوں میں جکڑ رکھا ہے اور انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ وتابعین کرام کے راستے کو چھوڑ رکھا ہے بتلانے پر بھی باز نہیں آتے گویا کہ صراط مستقیم کو جانتے ہی نہیں"۔

یہ فتاویٰ فضیلتہ الشیخ محمد بن ناصر العر ینی حفظہ اللہ کی کتاب کشف الستار عما تحملہ بعض الدعوات من اخطار سے لئے
 
Top