• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذات کی تربیت:طریقے اور فوائد

شمولیت
اپریل 06، 2015
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
37
ہم جب تربیت کی بات کرتے ہیں تو مختلف طرح کی اور مختلف انسانوں کی تربیت کی بات کرتے ہیں مثلا اولاد کی، شاگرد کی، استاد کی، مکاتب و مدارس اور جمعيات و تنظیموں کے ذمہ داروں کی، اہل و عیال کی وغیرہ وغیرہ،بہت اچھی بات ہے کہ ہم ان تمام لوگوں کی تربیت کی بات کرتے ہیں اور اس کے لیے کوششیں بھی کرتے ہیں لیکن ان تمام لوگوں کی تربیت سے ہٹ کر ہمیں ایک اور چیزکی تربیت کی طرف دھیان دینا چاہیےاور وہ ہے ذات کی تربیت،ہم دوسروں کی تربیت کا انتظام تو کرتے ہیں لیکن خود اپنی ذات کی تربیت کرنا بھول جاتے ہیں،ہمیں دوسروں کو بنانے کی فکر تو ہوتی ہے لیکن ہم خود کو بنانا بھول جاتے ہیں اور اس حمام میں تقریباً سارے لوگ ہیں،لیکن یہاں سوال کرنے والا سوال کر سکتا ہے کہ ذات کی تربیت کا کیا مطلب ہے تو سب سے پہلے ہم ذات کی تربیت کا مطلب جان لیتے ہیں۔
تربیت ذات کا مطلب:
تربیت ذات ان مختلف تربیتی طریقوں کا نام ہے جن سے مسلمان مرد وعورت اپنی ذات کو علمی،ایمانی،اخلاقی اور سماجی حیثیت سے اسلامی شخصیت بنانے میں معاون و مددگار ہو سکتا ہے اور بشری کمال کے مراتب طے کر سکتا ہے،دوسرے الفاظ میں اگر کہا جائے تو تربیت ذات کا مطلب یہ ہوگا کہ انسان مختلف طریقوں سے زندگی کے تمام گوشوںمیں خود اپنی تربیت کرے۔
اس معنی کے اعتبار سے یہ اس اجتماعی اور عام تربیت کے خلاف ہے جسے لوگ دوسروں کے ساتھ مل کر انجام دیتے ہیں یا ان کے ساتھ وہ خود تربیت پاتا ہے جیسے مسجد،خاندان، مدرسہ، سوشل میڈیا، سفر نیز دیگر پروگرام وغیرہ۔
ذات کی تربیت کیوں ؟ (تربیت ذات کی اہمیت)
مگر یہاں آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ ذات کی تربیت کرنا کیوں ضروری ہے اور انسان خود کی تربیت کیوں کرے؟
جواب یہ ہے کہ:
1- دوسروں کی تربیت سے زیادہ خود اپنی تربیت مقدم ہے،آپ پہلے خود کو بنائیں پھر کسی اور کو بنانے کی فکر کریں۔
اللہ نے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (التحریم:6)
اے ایمان والو!تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔
علامہ ابن سعدی رحمہ اللہ نفس کو بچانے کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: نفس کو اللہ کے احکام کی پاسداری اور اس کے منہیات سے اجتناب کا پابند بنانا، اللہ کو ناراض کرنے والی اور جہنم کو واجب کرنے والی چیزوں سے توبہ کرنا۔
یہی ذات کی تربیت کا معنی اور اس کا مقصد ہے۔
2- اگر آپ اپنی تربیت نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟
جب انسان بیس ،پچیس یا تیس سال کا ہو جاتا ہے تو اس کی تربیت کون کرتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اپنی تربیت خود نہیں کرے گا تو دوسرا کوئی اس کی تربیت ہرگز نہیں کر سکتا اور نہ ہی بیرونی کوئی چیز اس پر اثر انداز ہو سکتی ہے، کیونکہ والدین خصوصا اور تما م لوگ عموما یہ سوچتے ہیں کہ اب یہ عمر دراز ہو چکا ہے اور اپنی زندگی کے بارے میں خود بہتر فیصلہ کر سکتا ہے۔ رشتہ داروں اور دیگر تمام لوگوں کے دھیان نہ دینے کی وجہ سے اگر ایسا بندہ خود اپنی تربیت نہ کرے تو دھیرے دھیرے اس کی زندگی یونہی ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنی اصلاح نہیں کر پاتا،نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہوش اس وقت آتا ہے جب عمر کی آخری دہلیز پر پہونچ جاتا ہے لیکن اس وقت سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں ہوتا۔اس لئے ضروری ہے کہ انسان خود اپنی تربیت کرے،اگر آپ اپنی تربیت نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟
3- اپنی تربیت کرنا دوسروں کی تربیت کرنے سے زیادہ آسان ہے۔
کوئی بھی انسان عیب و کوتاہی اور گناہ کرنے سے محفوظ نہیں،خواہ کم ہو یا زیادہ،گناہ میں واقع ہونے کا مسئلہ جب اتنا یقینی ہے تو ابتدا ہی سے اس کا علاج ضروری ہے ،انسان اپنے عیوب و غلطیوں کو مکمل اس وقت تک درست نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ خود کی تربیت کی فکر نہ کرے، کیونکہ وہ خود کو بہتر جانتا ہے اور اگر وہ اپنی تربیت کرنا چاہے تو دوسروں کی بہ نسبت یہ اس کے لئے سہل اور آسان ہے۔
4- ذات کی تربیت معاشرے کی اصلاح کی ضامن ہے۔
آج کے معاشرے کا کیا کوئی ایسا شخص بھی ہوگا جو معاشرے کی خرابی اور برائی کی شکایت نہ کرتا ہو،حالات کا المیہ بیان نہ کرتا ہو؟ ہر کوئی معاشرے کی خرابی اور بربادی کی شکایت کرتا ہےاور اس کی اصلاح کے مختلف جتن بھی کئے جاتے ہیں لیکن کوئی اس کی اصلاح کا درست راستہ اختیار نہیں کرتا ،کیا صرف شکوہ شکایت کر لینے سے معاشرے کی اصلاح ہو جائے گی ؟ہرگز نہیں،معاشرے کی اصلاح کا سب سے بہتر اور آسان طریقہ یہی ہے کہ ہر بندہ اپنی تربیت کرتے ہوئے پہلے اپنی اصلاح کرےاور یقینا اگر ہر بندہ اصلاح کا آغاز خود اپنی ذات سے کرے تو پھر معاشرے سے برائیاں دور کرنا چنداں مشکل نہیں ہوگا۔
تربیت ذات سے غفلت کیوں؟
تربیت ذات کی اہمیت و ضرورت کے باوجود انسان اپنی تربیت کی فکر کیوں نہیں کرتا،دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ اکثر مسلمانوں میں ان کی روز مرہ کی زندگی کے مختلف گوشوں میں تربیت سے واضح غفلت نظر آتی ہے،اس کے لئے پوری توجہ اور صحیح اہتمام مفقود نظر آتا ہے ، اگر ہم اس سستی و غفلت کے اسباب تلاش کریں تو اس کے کئی اسباب نظر آئیں گے،چند اسباب درج ذیل ہیں:
1- علم کی کمی: ذاتی تربیت پر ابھارنے والے اور اس کی جانب دعوت دینے والے قرآن و حدیث کے نصوص سے اکثر مسلمانوں کی جہالت،اعمال صالحہ کے فضائل اور اس پر مرتب ہونے والے اجر وثواب کی معرفت سے لاعلمی ایک مسلمان کو ذات کی تربیت سے دور اور بہت دور رکھتی ہے۔
2- دنیا سے حد درجہ لگاؤ: دنیا سے لگاؤاور حددرجہ محبت بھی انسان کو تربیت ذات سے دور رکھتی ہے،انسان اپنی ساری کوششیں، سارے اوقات اور ساری توانائی صرف دنیا کمانے اور جمع کرنے میں لگا دیتا ہے،وہ روزی کی تلاش،فیملی اور مستقبل کے خیال کو مدنظر رکھ کر بھی اپنی تربیت کی فکر سے غافل ہو جاتا ہے۔
3- تربیت کا غلط مفہوم: حقیقی تربیت کا معنی،اس کے وسائل اور اس کے مقاصد کا غلط مفہوم بھی بسا اوقات ایک مسلمان کو اپنے نفس کا اہتمام کرنےسے روک دیتا ہے اور اس کی تربیت کے راستے میں آڑے آجاتا ہے۔
4- تربیتی مراکز کی کمی یا عدم دستیابی: جس ماحول یا معاشرے میں انسان رہتا ہے اس کا اس کی زندگی پر بڑا اثر پڑتا ہے خواہ مثبت ہو یا منفی،مثلا:گھر،راستہ،دوست،اسکول ومدرسہ یا بازار وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو ڈائریکٹ انسانی خیالات پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں،اگر تربیتی مراکز خصوصا انسان کا اپنا گھر نیکی اور اچھی چیزوں سے مزین ہو تو اس سے انسان کو ذات کی تربیت میں مدد ملتی ہے ،بصورت دیگر انسانی تربیت درست سمت میں جانے کے بجائے ذلت و پستی کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے۔
5- تربیت دینے والوں کی کمی یا نا اہلی: انسان کے سب سے بڑے مربی اس کے والدین اور پھر اس کے اساتذہ ہیںاور یہی دونوں انسان کی صحیح تربیت کے ذمے دار بھی،اگر یہ دونوں درست سمت میں اپنا کام کریں تو پھر انسان کے لئے ذات کی تربیت کا مسئلہ آسان ہو جاتا ہے ،مگر آج ہمارے معاشرے میں ان دونوں کے رول تقریبا نہ کے برابر ہیں،یا تو وہ خود ہی اپنی تربیت سے غافل ہیں،یا انہیں کوئی فکر ہی نہیں یا وہ خود ہی نا اہل ہیں بلکہ کسی لائق نہیں ہیں،ساتھ ہی ساتھ خیر خواہ دوست اور مرشد بھائیوں کی کمی ہے اس لئے اور بھی انسان اپنی تربیت کے تعلق سے غافل ہو چکا ہے،ضرورت ہے کہ والدین اور اساتذہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کریں تاکہ انسان کی ذاتی تربیت کا مسئلہ آسان ہو جائے۔
6- آج نہیں،کل سے: بہت سارے مسلمانوں کے دلوں میں یہ دائمی بیماری گھر کر چکی ہے کہ نفس کی تربیت اور اللہ کی اطاعت کے سلسلے میں جلدی کیوں؟ ابھی عمر بہت ہے۔کل سے،جمعہ سے،آئندہ مہینے سے یا اگلے سال سے سدھر جائیں گے،تھوڑا انتظار کرو کسی مناسب موقع اور کام کاج سے فراغت کے بعد خود کو اللہ والا بنا لیں گے۔اس طرح ہمیشہ اور ہر وقت یہ خطرناک احساس اسے گھیرے رکھتا ہے اور اس کی عمر گزرتی رہتی ہے ،یوں اس کی زندگی کے کئی سال اسی تمنا اور آرزو کے ساتھ گزرتے رہتے ہیں اور گزر جاتے ہیںلیکن ایسا انسان اپنے نفس کی اصلاح یا تربیت میں ایک قدم بھی درست سمت میں آگے نہیں بڑھ پاتا ہے۔
تربیت ذات کیسے ممکن ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ انسان خود اپنی تربیت کیسے کرے؟ اس کے طریقے کیا ہیں؟تو جواب یہ ہے کہ نفس کی تربیت کے بہت سارے طریقے ہو سکتے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
1- محاسبہ: مال و دولت اور تجارت کی طرح انسان کو اپنی ذات کا بھی حساب کتاب کرنا چاہیےکیونکہ عقلمند وہ ہے جو اپنا حساب کرتا رہے،دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا جمع کیا ہے، حساب دینے سے پہلے اپنا حساب کر لے۔
اما م غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اگر انسان اپنی زندگی میں بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے کرے تو وہ اپنی زندگی ایسے ہی بکھیر کر رکھ دے گا جیسے کوئی جاہل اپنا مال بکھیر کر رکھ دیتا ہے کہ اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر:18)
اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہواور ہر شخص دیکھ لے کہ کل قیامت کے واسطے اس نے کیا بھیجا ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:حساب لئے جانے سے پہلے اپنے نفسوں کا محاسبہ کر لو اور یہ دیکھ لوکہ قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے پیشی کے لئے کتنے نیک اعمال کا ذخیرہ کیا ہے اور یہ بات جان رکھو کہ وہ تمہارے تمام اعمال واحوال کو جاننے والا ہے اور اس پر تمہاری کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔
2- گناہوں سے توبہ: انسان بلا شبہ گنہگار ہے تو اسے اپنی ذات کی تربیت کرتے ہوئے گناہوں سے توبہ کرنا چاہیے، اول مرحلہ میں تو گناہوں سے بچنے کی تدابیر اختیار کرے اور اگر بشری تقاضے سے گناہ ہو جایے تو اس پر فورا اللہ سے معافی مانگ لےکہ توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:گناہوں سے فورا توبہ کرنا واجب ہےاسے موخر کرنا جائز نہیں،چنانچہ بندہ جب بھی تاخیر کرے گاتو اللہ کی نافرمانی کرے گااور جب گناہ سے توبہ کر لے گا تو اس پر دوسری توبہ باقی رہ جاتی ہےاور وہ توبہ میں تاخیر کی توبہ ہے۔
لہذا انسان سے جب بھی غلطی ہو جائے تو اس پر وہ اللہ سے معافی مانگ لےاور سچی توبہ کر لے کیونکہ اللہ رب العالمین خود فرماتے ہیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا (التحریم:8)
اے ایمان والو! تم اللہ سے سچی اور خالص توبہ کرو۔
گناہوں کی حقیقت ،اس کی معرفت اور پھر اس پر سچی ،خالص توبہ انسان کی ذاتی تربیت کے لئے نہایت ہی معاون و مددگار ہے۔
3- علم اور معرفت کا حصول: انسان علمی اعتبار سے بھی اپنے آپ کو بنائے، قرآن و حدیث سیکھنے، جاننے اور مختلف علوم و فنون کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرے اور اس تعلق سے اپنے اندر شوق پیدا کرے ،کیونکہ علم کا حصول اور اس میں مسلسل اضافہ نفس کی بہترین تربیت اور اس کی صحیح رہنمائی کرنے کا بہت اہم راستہ اور ضروری وسیلہ ہے،تربیت کے مسئلے میں علم کی اہمیت و افادیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں،محمد بن اساعیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ہمارے سامنے سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا گزر ہوا ،وہ بغداد کی گلیوں میں اپنی جوتیاں ہاتھوں میں اٹھائے ایک حلقہ سے دوسرے حلقہ کی طرف دوڑ رہے تھے،تو میرے والد اٹھے اور ان کا گریبان پکڑ کر کہا:اے ابو عبد اللہ!کب تک علم حاصل کرتے رہو گے؟ انہوں نے جواب دیا:مرتے دم تک۔ (شرف اصحاب الحدیث:68)
علم حاصل کرتے رہنے سے انسان کے دماغ کو جلا ملتی ہے اور اسے ذات کی تربیت میں آسانی حاصل ہو جاتی ہے،لہذا علم حاصل کریں اور نفس کی تربیت کرتے رہیں۔
4- کوشش اور محنت: کہتے ہیں کہ بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا، اپنے آپ کو بنانے کے لیے محنت اور لگن کی ضرورت ہے، بنا کوشش کے انسان کا ایک قدم چلنا بھی دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
5- دعوتی شرکت: ذاتی تربیت کے اسالیب میں دعوتی شرکت بھی بڑی اہمیت کی حامل ہےکیونکہ مسلمان جب اللہ کی جانب دعوت دیتا ہے اور تعلیم و تربیت کے لئے لوگوں سے ملتا جلتا ہے تو دوسری جانب وہ خود کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے قریب لے جاتا ہےیعنی دینی مجالس اور دروس میں شرکت کرنا،جمعہ کے خطبات کو بغور سننا اور انہیں دل و دماغ میں محفوظ رکھنااور ظاہر ہے اس کا فائدہ ذاتی تربیت کے راستے میں ضرور ہوتا ہے جو ہر اعتبار سے اس کے لئے اچھا اور بہتر ہی ہوتا ہے۔
6- ایمانی اعمال کی تطبیق: تربیت ذات میں یہ طریقہ بڑا موثر ہےکیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام کی عملی تطبیق ہے،اس کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیںجیسے: فرض عبادتوں کی بہترین طریقے سے ادائیگی،کثرت سے نفلی عبادات انجام دینا،ذکر و اذکار کا اہتمام کرنا،تلاوت قرآن،اور ہر طرح کی منہیات سے مکمل اجتناب کرنا،بالفاظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو کچھ اب تک سیکھا اور جانا ہے اس پر عمل کرناکیونکہ صرف جان لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ورنہ ہمارے دین کا علم تو یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس بھی ہے۔
7- اخلاقی قدروں کا اہتمام: اسلام نے اخلاق حسنہ پر خصوصی توجہ دی ہےاس لئے ایک مسلمان کو چاہیئے کہ اپنی ذات کی تربیت کے لئے وہ خود کو با اخلاق و با کردار بنائے،جیسے :صبر،محبت،سخاوت،سچائی ،امانت داری ،عدل وانصاف ،والدین کے ساتھ حسن سلوک،صلہ رحمی ،بڑوں کی عزت،چھوٹوں پر شفقت ،اچھی صحبت اور فقیر و مظلوم کی مددکرنا وغیرہ ،اس لئے کہ اخلا ق و کردار سے انسان کی نسلوں اور اس کے دین کا پتہ چلتا ہے اور اسی سے لوگ انسان کی شخصیت سے قریب و دور ہوتے ہیں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:دین کل کا کل اخلاق ہے،جو تم پر اخلاق میں بڑھ گیااس نے تم پر دین(ایمان)میں فوقیت حاصل کر لی۔
8- سچی دعا و التجا کا التزام: اپنی ذاتی تربیت میں اس کا بڑا اہم رول ہے کیونکہ مطلوبہ چیز کو حاصل کرنے اور ناخوشگوار چیز کو روکنے کے لئے جب تک مسلمان کو اللہ کی مدد و توفیق شامل نہ ہوگی تب تک وہ ذاتی تربیت میں کامیاب نہیں ہو سکتا ،دعا تربیت کے وسائل میں سے ایک وسیلہ ہے کیونکہ یہ بندہ کی اپنے رب کے سامنے عاجزی وخاکساری ہے اور یہ یاد رکھیں کہ صرف دعائیں مانگ لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان دعاؤں کا سچا ہونا اور یقین کے ساتھ مانگا جانا ضروری ہے، تم اللہ سے دعا کرو اور ایسی دعا کرو کہ تمہیں اس کے قبول ہونے کا مکمل یقین ہو۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :کسی شخص پر جو آفت و مصیبت آتی ہےوہ شکر کے ضائع کرنے اور اللہ سے دعا مانگنے کے سلسلے میں غفلت برتنے کے سلسلے میں آتی ہے،اور جو بھی کامیاب ہوتا ہے وہ شکر ادا کرنے اور دعا مانگتے رہنے کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔
تربیت ذات کے فوائد:
اپنی ذات کی تربیت کے چند فوائد درج ذیل ہیں :
1- ہماری کہی ہوئی بات مؤثر ہوتی ہے۔
2- دین و دنیا دونوں اعتبار سے مقام بلند ہوتا ہے۔
3- دین ودنیا دونوں جگہ ایسے بندے کو اطمینان اور سعادتمندی حاصل ہوتی ہے۔
4- اللہ کی خوشنودی اور جنت کی کامیابی ملتی ہے۔
5- تربیت ذات کی وجہ سے انسان لوگوں کی نظروں میں مقبول اور ان کا محبوب بن جاتا ہے۔
6- ذاتی تربیت سے انسان کامیاب ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ درست راستے پر چلتا رہتا ہے۔
7- ہر بری اور نا پسندیدہ چیز سے ایسا انسان محفوظ ہو جاتا ہے۔
8- ایسے انسان کے مال اور وقت میں اللہ رب العالمین برکت داخل کردیتے ہیں۔
9- نا مساعد حالات اور مصائب و آفات کے وقت انسان کے اندر تحمل اور برداشت کی قوت پیدا ہوتی ہے۔
10- ایسے انسان کو اپنے نفس کے تعلق سے امن کا احساس ہوتا ہے۔
مضمون کا پیغام:
پیغام صرف اتنا ہے کہ جس طرح ہم دوسروں کی تربیت کی فکر کرتے ہیں ایسے ہی ہمیں اپنی بھی تربیت کرنی چاہیے، اپنے آپ کو بھی بنانا اور سنوارنا چاہیے کیونکہ ذات کی تربیت دوسروں کی تربیت پر مقدم ہے۔
(خلاصہء کتاب: تربیت ذات ، مولف: فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن عبد العزیز العیدان، اردو ترجمہ: شمس الحق بن اشفاق اللہ)
 
Last edited:
Top