• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی۔۔۔

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے بارہا یاد آیا کہ محدث اراکین انٹرویوز کا خیال اس بات سے آیا تھا کہ کامیاب افراد کی کہانی بیان کی جائے بلکہ اپنی اپنی کامیابی کی کہانی کہی جائے۔ایک دوسرے کو ہمت دلانے کے بعد بھی کوئی کہانی نہیں کہی گئی تو انتہائی مفیدانٹرویوز کا سلسلہ شروع ہوا۔جس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ناممکن کو مشکل سے آسان بنانے کی لگن پیدا ہوئی۔مجھے یاد آیا کہ میں نے بھی حامی بھری تھی کہ میں اس حوالے سے کچھ تحریر کروں گی۔اپنے اردگرد افراد کی داستان،جو ابھی تک ان کہی ہے۔
میرے ایک عزیز ہیں۔بچپن اور جوانی انتہائی غربت میں گزاری۔والد معمولی ملازم تھے۔مشکل سے گھر کی ہانڈی روٹی پوری ہوتی۔تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔محض اپنے شوق کی بنا پر میٹرک کیا۔ذہین تھے۔اچھے نمبروں سے پاس ہوئے۔اب رشتہ داروں نے زور دیا کہ انہیں کمانا چاہیے تا کہ والد کا سہارہ بن سکیں۔ایک معمولی گھرانے سے تعلق رکھنے کی بنا پر وہ "وہ" نہیں بن سکتے،جس کی انہیں خواہش ہے۔انہوں نے ضد کر کےF.Sc میں داخلہ لے لیا لیکن غربت کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار تھے،اس لیے انہیں یقین تھا کہ وہ میڈیکل جوائن نہیں کر سکیں گے۔کرنے،نہ کرنے کے تذبذب میں پڑھائی سے دھیان جاتا رہا اور فیل ہو گئے۔سب نے مذاق الگ اڑایا اور خواب الگ ٹوٹے۔اب گھر والوں کی مان کر کمانے کے چکر میں لگ گئے۔چند سالوں بعد ایک ایسے گھرانے میں جو محنت سے زور پر نچلے طبقے سے درمیانے طبقے کی طرف چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہا تھا،جان پہچان کی وجہ سے شادی ہوگئی۔بیوی کے میکے میں سب تعلیم یافتہ تھے۔لہذا انہیں اس بات کا احساس رہتا کہ ان کے خاوند کو مزید تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔بیوی کی حوصلہ افزائی سے وہ بھی پڑھائی پر رضامند ہو گئے۔(زوجین کی مدد بہت اہم ہوتی ہے)مالی مشکلات کی بنا پر وہ ہچکچائے تو بیوی نے خود طے کیا کہ وہ میکے چلی جائیں گی اور پڑھائی مکمل ہونے تک خرچے کا مطالبہ نہیں کریں گی۔یوں انہوں نے پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ سے جوڑا۔کہاں وہ کیمسٹری جس میں برے سے فیل ہوئے تھے،بیوی کی مسلسل ہمت بندھانے سے بہترین نمبروں میں پاس کی۔ان دنوں ڈاکٹرز کی ضرورت تھی،لہذا دھڑا دھڑ میڈیکل میں داخلے جاری تھے۔انہیں بھی آسانی سے داخلہ مل گیا۔چھوٹے موٹے کام کر کے خرچہ نکالتے،کچھ نہ کچھ والدین کو بھی بھجوانا ہوتا تھا۔ادھربیگم نے بی۔اے کی تیاری شروع کر دی اور بھائی کے سکول میں پڑھانے لگیں تا کہ میکے میں بھی ان کا بوجھ نہ محسوس کیا جائے۔ساتھ میں بیٹے کو سنبھالتیں۔رشتہ دار ان کی ہمت و مستقل مزاجی دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ٹھیک پانچ سال بعد ان کے خاونداوور آل پہنے بیوی کو میکے لینے آئے۔چند سالوں بعد ان کی پہچان ایک قابل ڈاکٹر کے طور پر تھی۔وہی رشتہ دار،جو ٹھٹھہ لگاتے تھے،آج چیک اپ کروانے آتے۔والدین جنہیں اس وقت یہ بات بری لگتی تھی،آج بہو بیٹے کو دعائیں دیتے تھے۔ایک بیٹے کی تعلیم نے تمام اولاد کو معاشرے میں قابل عزت بنایا۔(آج سب مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں لیکن آگے نہیں بڑھ سکے کیونکہ ان کی بیویاں اسی سطحی ذہنیت کی مالک تھیں کہ کھا پی کر زندگی گزارو)محنت کی یہ داستان یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔آج انکے سب بچے ملک کے اعلی انجینئیرنگ اور میڈیکل اداروں کے فاضل یا زیر تعلیم ہیں۔اس سب کے لیے ان کی روٹین آج تک یہی ہے کہ صبح سرکاری ملازمت،شام میں ایک میڈیکل کالج میں لیکچرر اور رات گئے ایک کلینک میں پریکٹس۔کامیابی درختوں پر نہیں لگتی کہ توڑ توڑ کر پھل کھایا جائے۔یہ بلند آسمان سے منسلک ہے،جسے پانے کے لیے بہت محنت و عزم کی ضرورت ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بہترین ۔
 
Top