• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رانا ریزورٹ اینڈ سفاری پارک کی سیر(سفر نامہ ظفر)

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
رانا ریزورٹ اینڈ سفاری پارک کی سیر(سفر نامہ ظفر)
از قلم: ظفر اقبال ظفر
رانا ریزورٹ اینڈ سفاری پارک کے نام سے واقفیت تو کچھ سالوں سے تھی ۔لیکن ذہن میں کوئی واضح تصویر نہیں بن رہی تھی کہ یہ جگہ کیسی ہوگی۔ بس اتنا اندازہ تھا کہ کچھ کچھ پسند آنے والی جگہوں جیسی ہی ہوگی‘ تو با وجود کوشش کے کبھی وزٹ کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ زیادہ سے زیادہ تعریف یہ کی جاتی کہ یہ چھانگا مانگا جنگل جیسی ہی کوئی تفریحی جگہ ہے۔بس کچھ وزٹ کرنے والے لوگوں سے ملاقات ہوتی اور وہ اس علاقے کی خوبصورتی اور قدرتی ماحول کے بارے میں ذکر کرتے تو اس جگہ کے وزٹ کے جذبات اندر کی اندر انگھڑائی لیتے اور جذبات کو اس کے وزٹ پر برانگیختہ کرتے۔2017 نومبر کی بات ہے جب میری شادی بھائی پھیروں کے علاقے منڈی سرائے مغل میں ہوئی اور اپنے برادر نسبتی سے مل کر وہاں ہیڈ بلوکی وزٹ کرنے گیا۔ تب اس کے باری میں کچھ زیادہ معلومات ملیں اس سے قبل اس علاقے کو کبھی سنا بھی نہیں تھا۔ تقریباً 2015 کی شاید بات ہے کہ ہمارے ایک کلاس فیلو علامہ ظہیر ادریس صاحب کی شادی پر یہاں سے گزر کر موڑ کھنڈہ شہر میں جانے کا اتفاق ہوا اور واپسی پر دوستوں کے ساتھ ہیڈ بلوکی روکے پانی وغیرہ پیا اور کچھ چہل قدمی کی اور چل دیے یہ بس چلتے ہوئے ایک سرسری سا جائزہ تھا ۔کچھ اڑتی خبریں اور ادھر ادھر بکھری تصاویر دیکھنے کو ملتی رہتی تھیں۔
بچپن سے ہی راقم الحروف کا شوق خاص تھا کہ ہر ایسی جگہ کا وزٹ کیا جائے‘ جسے قدرت نے رونق بخشی ہے اور اس قدر ت الہی کے مظاہر دیکھنے کو دل چاہتا ۔ مگر کئی قسم کی رکاوٹیں میری سیر وتفریح جو با مقصد ہوتی ‘ اس سے کوئی نصیحت اور سبق مل سکتا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا۔ان رکاوٹوں میں ایک تو گھر سے اجازت نہ ملنا اور غربت کی وجہ سے پیسے کی کمی ‘ خاندان اور گھر میں ان چیزوں کا ذوق کا نہ ہونا‘ کسی ضرورت و مقصد کا پروان نہ چڑھنا۔ یعنی اس طرح کی کئی رکاوٹوں نے مجھے 15 سے 16 سال کی عمر تک سرو سیاحت اور کسی بڑے شغل سے بہت دور رکھا ۔ 2007ء سے شروع ہونے والا یہ سیاحتی سفر کئی کامیاب سفر اور مراحل پر مشتمل ہے۔ارادے اگر پختہ ہوں اور مقصدیت کا جذبہ جواں ہو تو پھر یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا ۔
2021ء کا سال ہے اور ستمبر کا مہینہ ہے ‘صفر کا اسلامی مہینہ اختتام کو پہنچنے والا ہے ۔جامعہ بلال کے ششماہی امتحانات کے نتائج کے سلسلے میں ایک مطالعاتی ٹور کا اہتمام کرنے کا پروگرام بنا ۔جس پر مشاورت کئی دن تک اساتذہ میٹنگ میں جاری رہی مگر غوروفکر میں چند دن گزر گئے کہ آخر جایا جائے تو کہا جایا جائے ؟اس میں پہلا فیصلہ یہ ہوا کہ سوات جاتے ہیں اس پر ورک بھی شروع ہو گیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ صرف اصول شریعت کی بڑی کلاسز جائیں گی ۔یہ بات بچوں کے درمیان جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور تمام شعبہ جات کے تمام بچے اپنی اپنی سطح پر کہنے لگے کہ جی ہمیں بھی وہاں لیجایا جائے ۔مگر یہ کسی صورت نہ ممکن تھا جس کی کئی سکیورٹی اور انتظامی مجبوریاں سوات جانے میں رکاوٹ تھی اوپر سے موسم نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا کہ موسم تیزی سے تبدیل ہونے لگا اور بچے زکام اور بخار میں مبتلا ہو رہ ے تھے ۔جس پر انتظامیہ نے فوری مشاورتی مجلس کا انعقاد کیا کہ سوات والا فیصلہ ہم واپس لیتے ہیں ۔ اور اس پروگرام سے سب بچوں کو مستفید ہونے کا موقع دیا جائے۔پھر یہ بات زیر بحث تھی کہ کہا ں جایا جائے ؟جس میں تقریباً سب اساتذہ نے لاہور کے کسی پارک میں یہ پرو گرام منعقد کرنے کا مشورہ دیا ۔جب راقم الحروف کی باری آئی تو انہوں نے لاہور سے باہر کسی قدرتی مقام پر جس میں تھوڑا ساسفر بھی لمبا ہو اور جنگل کا سا ماحول ہو‘ وہاں جانے کا مشورہ دیا جس پر اتفاق رائے تو نہ ہوسکا ۔کیونکہ سب اساتذہ نے لاہور کے کسی پارک میں جانے کا مشورہ دیا تھا ۔سوموار 2021/10/04 کے روز لاہور کے تمام بڑے پارکس کا وزٹ کرنے کا پروگرام بنایا اور دو اساتذہ کی ذمہ داری لگا دی گئی کہ آپ وزٹ کر کے فوری طور پر انتظامیہ کو آگاہ کریں کہ بچو ں (طلبہ) کے لیے سیرو تفریح کے لیے کون سا پارک سہولیات اور کھیل کود کے حوالے سے زیادہ مناسب ہے ۔تاکہ وہاں پھر بکنگ کے لیے پارک کی انتظامیہ سے بات چیت کی جا سکے ۔ذمہ دار اساتذہ نے کئی ایک پارک کا وزٹ کیا ‘جس میں زیادہ رجحان جلو پارک کی طرف گیا جو تقریباً 600 ایکڑ پر مشتمل ہے اور کھیل کے بڑے وسیع میدان موجود ہیں ۔ابھی اس کے بارے میں غور و فکر جاری تھا ۔کہ منگل کی صبح طلوع ہوئی اور 2021/10/05 منگل کے دن جلو پارک پر کچھ نا کچھ اتفاق ہو گیا ۔ ابھی اس پر مزید مشاورت جاری تھی کہ حاضرین مجلس میں سے کسی صاحب کے اشارہ کرنے پر رانا سفاری پارک پر مشاورت شروع ہوئی۔ موڑکھنڈہ شہر کے ایک طالب علم جن کا اپنا چھوٹا سا چڑیاگھر بھی ہے۔ اس علاقے کی بااثر شخصیات میں سے ایک شخصیت اس طالب علم کے والد گرامی آصف صاحب تھے۔ ان سے جب رابطہ کیا گیا‘ تو انہوں نے کہا میں پتا کر کے بتاتا ہوں۔ کچھ ہی دیر بعد انہوں نے ویلکم کی کال دے دی اور رانا سفاری پارک جس کا انٹر ی ٹکٹ 250 روپے ہے 100 روپے پر انہوں نے بک کروا دیا ۔ پھر قیاس کے گھوڑوں کو لگام ڈالی اور سب کچھ آنے والے وقت پر ڈالا اور سوچا کہ چلو چل کر ہی دیکھتے ہیں۔ اگلے ہی دن 2021/10/06 بروز بدھ جامعہ بلال سے روانگی تھی۔جس میں 600 کے قریب طلبہ اور 30 کے قریب اساتذہ نے شرکت کی ۔یہ قافلہ 10 بڑی بسوں اور 4 کاروں کی صورت میں 8:30 کے قریب لاہور اعظم کلاتھ مارکیٹ کے کشمیری گیٹ سے روانہ ہوا ۔
لاہور کی طرف سے سفر کرتے یقینا پنجاب کے روایتی کھیت کھلیانوں کے مناظر اور پھر دریائے راوی کا علاقہ جو ہلکے کاسنی، گلابی پھولوں سے لیس سرکنڈوں کے جھنڈ کے جھنڈ سے بھرا ہوتا ہے ۔ ایک طرف دریا کا پشتہ سڑک کے ساتھ ساتھ تو دوسری طرف کہیں آبادی و ویرانی اور کھیت کھلیانی ۔ بھائی پھیروں سے ہیڈ بلوکی کی طرف جانے والی سڑک جس میں کھڈے نام کی کوئی چیز اس کارپٹ سڑک کے حسن کو داغدار کرنے کی جرت نہ کرتی ۔پھر وقت نے پلٹا کھایا اور موجودہ صورت حال کچھ یوں ہے کہ کارپٹ سڑک کھڈوں کی نظر ہو گی گویا اس کو نظر لگ گئی ہو ۔ اور ان کھڈوں میں جب کبھی سڑک کا کوئی حصہ دکھائی دیتا ہے تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور فوری کلمہ شکر زبان پر جاری ہو جاتا ہے ۔اتنے میں کھڈوں کا ایک طویل سلسلہ پھر سے شروع ہو جاتا ہےاور لاری کھڑ کھڑ کرتی آہستہ آہستہ ہیڈ بلوکی پہنچ جاتی ہے ۔
لاہور سے چلنے والا ہمار ا یہ قافلہ جس میں شامل کچھ بسیں ٹھوکر نیاز بیگ سے ہوتی ہوئیں بھائی پھیروں شہر اور وہاں سے ہیڈ بلوکی سے ہوتی ہوئیں رانا سفاری پارک پہنچیں۔بس کا سفر جو کچھ باہر کے تیزی سے گزرتے نظاروں میں بیت گیا۔ ساتھ ساتھ بالکل اجنبی رستے دیکھ کر خود کو تسلی دیتا کہ بس پہنچنا ہی چاہتے ہیں۔ اور کچھ بسیں کالا شاہ کاکو لاہور سےبراستہ موڑکھنڈا شہر سے ہوتی ہوئیں رانا سفاری پارک پہنچیں ۔ آصف صاحب جنہوں نے یہ بکنگ کروا کر دی تھی ‘وہاں موجود قافلوں کا انتظار کر رہے تھے ۔ جیسے ہی ریزورٹ میں داخل ہوئے محترم آصف صاحب استقبال کر رہے تھے اور پنجاب کے روایتی ڈھول کی استقبالیہ تھاپ نے محسوس کروایا کہ شاید یہ کسی خصوصی مہمان آمدپر استقبالیہ ویلکم کے لیے ڈھول بجا رہا ہے ‘جو شاید ہم نہ ہوں ۔لیکن ایسا نہیں تھا، یہ ہر آنے والے گروپ کے لیے تھا۔جو فوری ہم نے بند کروا دی کیونکہ یہ پورا اسلامی قافلہ تھا جو ڈھول وغیرہ کو لغویات سمجھتا ہے ۔
جامعہ بلال کی انتظامیہ اور آصف صاحب کی قیادت میں 11 بجے کے قریب پارک میں انٹر ہوئے اور طالب علم اور اساتذہ ایک جگہ جمع ہوئے اور مدیر الجامعہ کی طرف سے 1:30 پر ظہر کی نماز اور بچوں کے رزلٹ کے نتائج اور اس کے بعد کھانے کی کال دی گئی۔ کچھ بچے اور اساتذہ فٹ بال ‘ بالی بال ‘ کرکٹ اور دیگر گیمز میں مصروف ہو گئے اور کچھ بچے گدھا گاڑی‘ ٹانگہ گھوڑا‘ گھوڑ سواری ‘ کشتی رانی اور کئی دیگر قسم کی سواریوں پر سوار جنگل اور پارک کے گرد مختلف مقامات سے لطف اندوزی میں مصروف ہو گئے۔انتظامی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو اس ٹور (وزٹ پروگرام) کو تین بنیادی مراحل میں تقسیم کر دیا گیا ۔ پہلا مرحلہ تو یہ تھا کہ ایک دم سب لوگ پارک کا خوب وزٹ کریں اور ظہر سے پہلے کا جو وقت تھا وہ جیسے چاہیں گزاریں اور اس میں کوئی شخص بھی کسی قسم کی بد اخلاقی اور غیر مناسب سرگرمی میں مصروف نہ ہو اور ہر وہاں موجود مرد یا خواتین کا احترام اور کسی کو کسی قسم کی آپ سے شکایت نہ ہو اور نہ ہی انتظامیہ کے عملے یا وہاں پر موجود جانوروں کو تنگ کریں۔پورے وقار اور باعزت طریقے سے جو وقت ہم یہاں گزاریں وہ کسی بد نظمی کی نظر نہ ہو۔دوسرا مرحلہ بچوں کے امتحانات کے رزلٹ کا تھا ۔ اس کے ساتھ نماز ظہر اور کھانے کا ٹائم شامل تھا۔ تیسرا مرحلہ فائنل ٹرم کی صورت میں چہل قدمی ‘ جھولے اور باقی شخصی اور انفرادی یا اجتماعی مصروفیات کےلیے تھا کہ جو وقت ہمارا انتظامیہ سے طے ہے اس سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے سیر و تفریح کا سامان کیا جائے ۔ آخر میں مغرب اور عشاء کی نماز کو وہاں جمع کرنے کے بعد روانگی تھی ۔ سو اپنے اسی پلان کے تحت پروگرامز کو ترتیب اور حسن خوبی سے گزارا گیا ۔ انتظامیہ کی پالیسی اور وزن کے مطابق 1:30دوپہر کے بجنے کو تھے اور تمام اساتذہ اور طلبہ گرونڈ میں جمع ہونے لگے۔ نماز ظہر اور عصر ‘ قصر کی صورت میں ادا کیں اور امتحانات کے نتائج کے لیے پروگرام شروع ہوا ۔
پروگرام کو تین سیشن میں تقسیم کیا گیا ۔
پہلا سیشن: شعبہ حفظ کے امتحانی نتائج پر مشتمل تھا ۔شعبہ حفظ کے بچوں میں انعامات کی کچھ لمبی تفصیل ہے کیونکہ حفظ کی کلاسز کی تعداد کوئی 15 کے قریب ہے اور ہر کلاس میں پہلی ‘دوسری اور تیسری پوزیشن کے اعتبار سے تحریر کافی طوالت اختیار کر جاتی جس کی وجہ سے بس ان میں نمایا کلاسز میں انعامات کی تقسیم کا ذکر کافی سمجھا اور اس کو اختصار کے ساتھ ذکر کر دیا ۔
دوسرا سیشن: شعبہ کتب (درس نظامی ) کے طلبہ کے رزلٹ پر مشتمل تھا۔
جامعہ کی سب سے بڑی کلاس (السنۃ الخامسہ ) کے بچے محمد یوسف کو انعام کے لیے دعوت دی گئی جنہوں نے 86 فیصد 550 میں سے 472 نمبر حاصل کر کےکلاس میں سے پہلی پوزیشن حاصل کی ۔محمد سمیر راجہ نے 85 فیصد نمبر حاصل کیے یعنی 550 میں سے 467 نمبر حاصل کر کے دوسری پوزیشن پر رہے ۔ محمد بن مسعود نے 83 فیصد نمبر حاصل کیے اور یوں انہوں نے 550 میں سے 459 لےکر تیسری پوزیشن حاصل کی ۔ رابعہ کلاس کے نتائج کا اعلان شروع ہوا ۔طالب علم ’’ذیشان محمود‘‘ ہیں جو 550 میں سے 496 نمبر حاصل کرکے جو کہ 90 فیصدکے ساتھ پہلی پوزیشن پر رہے۔دوسرے طالب علم ہیں ’’ذوالقرنین حید ر‘‘ جو 550 میں سے 474 نمبر یعنی 86 فیصد نمبر حاصل کرکے دوسری پوزیشن پر رہے ۔تیسرے طالب علم ہیں ’’دانش عباس‘‘ جو 550 میں سے 437‘ یعنی 79 فیصد نمبر حاصل کر کے تیسری پوزیشن پر رہے ۔کلاس ثانیہ ۔الف ہے بچوں کو انعام کےلیے دعوت دی گئی جن میں سے 400 میں سے 389 نمبر یعنی 97 فیصد نمبر لے کر حافظ فائق علی نے پہلی پوزیشن حاصل کی ۔محمد جہانگیر صلاح الدین نے 400 میں 376 یعنی 94 فیصد نمبر حاصل کیےجو کلاس میں سے دوسری پوزیشن پر تھے ۔عبد الرحمن رفیع نے 400 میں سے 375 یعنی 94 فیصد نمبر کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی ۔ثانیہ ۔ب کلاس میں سے طلحہ نعیم بچے کو انعام کےلیے دعوت دی گئی جنہوں نے 500 میں سے 470 یعنی 94 فیصد نمبر کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ احتشام علی کو دعوت دی گئی جنہوں نے 500 میں 466 یعنی 93 فیصد نمبر لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی ۔محمد حسین کو انعام کے لیے دعوت دی گئی جنہوں نے 500 میں سے 453 یعنی 91 فیصد نمبر لے تیسری پوزیشن حاصل کی ۔اولیٰ۔ الف کلاس میں معظم علی کو انعام کے لیے دعوت دی گئی جس نے 500 میں سے 479 یعنی 96 فیصد نمبر لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی ۔سلمان عابد نے 500 میں سے 459 یعنی 92 فیصد نمبر لے کر دوسری جبکہ احمد کامران نے 500 میں 452 یعنی 90 فیصد نمبر لے کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔ کلاس ( اولیٰ ۔ ب) میں سے حسان شہباز کو انعام کےلیے دعوت دی گی جس نے 500 میں سے 475 نمبر لے کر پہلی ‘ احمد ذکریا نے 500 میں سے 449 یعنی 90 فیصد نمبر لے کر دوسری اور ابو بکر شہزاد نے 500 میں سے 438 یعنی 88 فیصد نمبر حاصل کر کے تیسری پو زیشن حاصل کی۔فاؤنڈیشن ۔ الف میں سے عبد الرحمن امتیاز نے 350 میں سے 308 یعنی 88فیصد نمبر حاصل کر کے پہلی ۔مبصر جان نے 350 میں سے 307 یعنی 88 فیصد نمب حاصل کر کے دوسری اور عبد الرحمن عابد نے 350 میں سے 303 یعنی 87 فیصد نمبر حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی ۔فاؤنڈیشن ۔ ب میں سے محمد انس اختر نے 350 میں سے 287 یعنی 82 فیصد نمبر حاصل کر کے پہلی ‘ مجاہد سلیم نے 350 میں سے 278 یعنی 79 فیصد نمبر حاصل کر کے دوسری جبکہ اسامہ سعید نے 350 میں سے 264 یعنی 75 فیصد نمبر حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی ۔ فاؤنڈیشن ۔ج میں سے ابو طلحہ نے 350 میں 291 یعنی 83 فیصد نمبر حاصل کر کے پہلی ‘ حمزہ انور نے 350 میں سے 287 یعنی 82 فیصد نمبر حاصل کرکے دوسری ۔ جبکہ عبد الواسع نے 350 میں سے 273 یعنی 78 فیصد نمبر حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی ۔
تیسرا سیشن:شعبہ حفظ کے اسا تذمیں انعامات کی تقسیم :۔
جن اساتذہ کی کلاسز اول ‘ دوم ‘ سوم پوزیشن پر رہی ہیں ان کو بھی انعام سے نوازا گیا۔جس میں قاری عبد الغفار صاحب کو شعبہ حفظ میں سے پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر انعام سے نوازہ گیا ۔ قاری صاحب کا تعلق مظفر گڑھ سے ہے ۔ قاری ثمامہ صاحب کی کلاس دوسری پوزیشن پر رہی اور قاری صاحب کا تعلق گوجرانولہ سے ہے اور قاری ابو بکر صاحب کو تیسری پوزیشن حاصل کرنے پر انعام سے نوازہ گیا قاری صاحب کا تعلق پتوکی ضلع قصور سے ہے ۔ قاری عمران صاحب کو شعبہ حفظ میں تلفظ اور ادائیگی کے معیار کو بہتر سے بہترین کرنے پر حوصلہ افزائی کے لیے انعام سے نوازہ گیا ۔قاری صاحب کا تعلق بھی مظفر گڑھ سے ہے ۔
امتحانات کے نتائج سے پہلے نماز ظہر اور عصر ادا گی گئی اور پروگرام کے آخر میں کھانا تھا ۔کھانے کے بعد بچے ایک دفعہ پھر جھولوں ‘ کشی رانی ‘ چہل قدمی ‘ اور مختلف قسم کی سواریوں پر سوار ہو کر پارک کے اطراف میں پھیل گئے جس کے ساتھ ہی پارک کی رونقیں ایک دفعہ پھر بحال ہو گئی اور ہر طرف لوگوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ ہر کوئی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں مصروف تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے سورج غروب ہونے لگا اور گویا وہ تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف سفر کے اختتامی لمحات کے گرداب سے نکل کر سفر کی تھکاوٹ دور کر نے کے لیے کسی آرام گاہ میں داخل ہو کر چراغ گل کر کے آرام کے لیے کسی چار پائی پر لیٹ گیا ہو اور نیند کی آغوش میں چلا گیا ہو۔ادھر رات کی تاریکی تھی کہ اپنے سفر کا آغاز کیے تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی اور پارک جو دن میں ہی جنگل کی وجہ سے تر یک سا نظر آتا ہے‘ رات کی تاریکی نے پارک کے حسن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا گویا پارک نے تاریکی اور اندھیرے کی بلیک چادر اوڑ لی ہو۔ لوگ بہت تیزی سے پارک کو الوداع کہہ رہے تھے اور اپنے گھرو کی طرف اپنی سواریوں پر سوار ہو کر جانے لگے ۔ہمارے قافلے بھی طے شدہ وقت پر پارک چھوڑ کر اپنی اپنی بسوں پر سوال ہو کر لاہور کی طرف روانہ ہو چکے تھے ۔یہ کچھ طویل سفر تھا جو 7 بجے کے قریب شروع ہوا اور 9:45 تک جاری رہا ں اور 9:45 پر سب لوگ لاہور کشمیری گیٹ پر پہنچ چکے تھے ۔ یوں اگر کہا جائے کہ پروگرام انتظامی لحاظ سے اور تفریح کے لحاظ سے بہت اچھا رہا جو کہ تمام شرکائے سفر کی رائے تھی ۔
محترم قارئین کرام : پارک میں داخل ہوتے ہی حیرت کا ساما تھا کہ وہاں دو رویہ قد آدم آئینےنسب ہیں ‘جو یک دم آپ کو حیران کرتے ہیں اور پھر آپ مسکراتے ہیں، اپنا چہرہ دیکھتے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ آگے بائیں طرف اک اونچے چبوترے پر اس ریزورٹ کے شاید بانی رانا شوکت محمود کی قبر ہے ۔ پارک کو اگر چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا جائے تو پارک میں داخل ہوتے ہی ایک حصہ بڑا میدان اور اس کے ساتھ مختلف قسم کے جھولے اور کینٹینز وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ ایک بہت بڑ ا حصہ بانس کی فصل میں جنگل کی صور ت پر مشتمل ہے جو کل پارک کا 90فیصد بنتا ہے۔ اس کے گرد لمبی چوڑی جھیل اور اس کے اندر مختلف قسم کی کشتیا ں اور ان پر سوار لوگ بھی سیاحت پر آنے والے لوگو ں کو خوش کرنے اور لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کر رہے ہوتے ہیں ۔پارک کا ایک بڑا حصہ مختلف قسم کے جانوروں اور پروندوں جن میں مور ‘ طوطے‘ خرگوش‘ ہرن ‘ شتر مرغ اور بطخ کے تالاب پر مشتمل ہے ۔ ایک حصے میں فیملی حال اور ریسٹورنٹ موجود ہیں ۔اس کے علاوہ فیملیوں کے بیٹھنے کی جگہیں‘ پارکنگ کی جگہ ‘ خواتین اور مردوں کے لیے علیحدہ علیحدہ خوبصورت واش رومز‘ وضوء کی جگہیں ‘ مردو خواتین کے لیے الگ الگ خوبصورت مساجد ‘ مچھلی کے تالاب وغیرہ ۔ یوں سارا پارک ہی بیٹھنے ‘ کھیلنے ‘ کھانے پینے ‘ اور گھومنے پھرنے کےلیے بہت ہی بہترین جگہ ہے۔
یہاں لوگوں کی ہر قسم کی تفریح کا انتظام ہے۔ جنگل کے اندر تک جانے والی ٹرام جس پر بیٹھ کر آپ ہرنوں کو ان کی قدرتی آزادی کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں، جنگل کے بہت سارے حصے پرسکون ہیں۔ آپ اک لمبی واک جنگل میں کر سکتے ہیں۔ بیل گاڑی، گدھا گاڑی، تانگے، اونٹ کی سواری جیسی مزے دار سرگرمیاں۔ ان پر اپنا اپنا میوزک سسٹم جو بے ہنگم شور لگتا ہے۔ کشتی رانی کی سہولت بھی موجود ہے اور بچوں کے لیے، ان کی دلچسپی کے مطابق ہر قسم کے جھولے بھی جیسے گھڑ سواری، زپ لائن، بونجی جمپ وغیرہ وغیرہ۔ کھانے پینے کی بھی چھوٹی چھوٹی دکانیں دکھائی دیں اور کچھ بچوں و خواتین کی دلچسپی کی چیزوں کی فروخت کے سٹال بھی۔ ایک ریسٹوران بھی ہے جو بوجوہ رش کے میں وزٹ نہیں کر سکا۔ یہاں کی انٹری فیس 250 روپے فی کس ہے۔ باقی کچھ فیملی و سکول کالج سٹوڈنٹ بپیکیجز بھی ہیں۔ ہفتہ اور اتوار کے ایام سکول کالج و فیملی کے لیے مختص ہیں۔ اگرچہ یہ شاید اتنا حیران کن نہ ہو‘ لیکن عام پاکستانیوں کے لیے یہ جگہ مکمل فیملی پکنک ایڈوینچر پیکج ہے۔ رہائش کا بہترین انتظام بھی موجود ہے۔یہاں نائٹ ایڈوینچر بھی ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں ونڈرز آف دا ولڈ زکے ماڈلز کو شامل کرنے سے آپ چند قدم میں دنیا گھوم لیتے ہیں اور کہہ سکتے آئی ایم آن ورلڈ ٹور۔
پارک کی سکیورٹی کے بارے میں اگر بات کی جائے تو سکیورٹی کے متعلقہ تمام ہدایات جو کسی پبلک مقام پر ضرور ہونی چاہیں وہ آپ کو اپنے اردہ گرد نظر آئیں گی ۔ مثلاً جگہ جگہ خواتین کی عزت و احترام بارے تنبیہی پیغامات درج ہیں۔ جانوروں کے احترام کے بارے میں ہدایات بھی آویزاں ہیں ۔پارک عملے سے تعاون اور عدم تعاون کی صورت میں انتظامیہ کی طرف سے ہدایات بھی جگہ جگہ آویزاں تھیں ۔ علاوہ ازیں دیگر بہت سارے خوش گوار پیغامات آپ کو پڑھتے ہوئے بھلے لگتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی کہ کسی قسم کی ہیراسمنٹ کی اجازت نہیں، بصورت دیگر وہیں پر سزا دی جائے گی۔ سکیورٹی گارڈ مختلف انداز میں اپنی ڈیوٹی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے‘ جن میں کچھ تو بعض مخصوص جگہوں پر بیٹھے تھے۔ کچھ سکیورٹی اہلکار سول کپڑوں میں عوام الناس کے جتھوں میں شامل کسی نا خوشگوار واقع کو رپورٹ کر رہے تھے اور کچھ حضرات کینٹین ‘ جھولوں ‘ کشتیوں پر ملاح کی صورت میں اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے ۔ کچھ لوگ پٹرولنگ و گشت پارٹی کی صورت میں کچھ پارک میں کچرا اٹھانے والے روپ بدل کر سکیور ٹی کو مضبوط کیے ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے اس پارک کو بنے 15 سال کے قریب کا عرصہ گزرنے کو ہے اور سکیورٹی گارڈ سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آج تک اس کے اندر کوئی ناگہانی واقع پیش نہیں آیا ۔
صفائی ستھرائی کے بہترین انتظامات ‘ پانی کی وافر مقدار میں فراہی نے پارک کے حسن کو چار چاند لگا رکھے تھے ۔ صفائی بارے نا صرف جگہ جگہ پیغامات آویزاں ہیں ‘بلکہ اس کا خاطر خواہ انتظام بھی ہے۔ کہیں آپ کو گند پڑا نظر نہیں آئے گا۔ سیمنٹڈ ڈسٹ بن جگہ جگہ موجود ہیں ‘ حتی ٰکے گھنے جنگل میں بھی رستوں کنارے ملیں گی۔ خصوصی طور پر یہ ریزورٹ خواتین و بچوں کو سامنے رکھ کر بنایا گیا لگتا ہے۔ بے پناہ رش ہونے کے باوجود آپ پوری بے فکری سے گھومتے ہیں۔ دوران وزٹ آپ کو طلبہ کے درمیان ہلکی پھلکی ہوٹنگ تو محسوس ہوتی ہے ‘لیکن اس میں ناگواری کا عنصر نہیں ملتا۔ ہر قسم کے لوگ آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں۔ کئی جوڑے بھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیکھنے کو ملے۔ صاف ستھرے واش رومز جہاں کسی قسم کی ناگوار بو سے واسطہ نہیں پڑا‘ جو عموماً ایسی پبلک جگہوں پر نا پید ہیں۔
از قلم : ظفر اقبال ظفر (لائبریری ‘جامعہ بلال یوکے سنٹر اعظم کلاتھ مارکیٹ لاہور ) 03074274135‘03114556322
 
Top