• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

را کے ایجنٹوں کے دھماکے اور فساد کا خاتمہ کیسے؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
تمہید:

کچھ دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پورے پاکستان میں دھماکوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں کئی معصوم لوگوں کو مار دیا گیا ہے جیسا کہ لاہور میں میڈیکل سٹور والوں کے احتجاجی جلسےپہ حملہ ہوا پھر سہون دربار پہ حملہ ہوا یا ڈیفنس میں ہوٹل پہ حملہ ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں راء کے ایجنٹوں کے ملوث ہونے کے چانس ہیں پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ دھماکہ کرنے والوں کو کوئی را کا ساتھی کہتا تھا تو وہ اسکی تردید کرتے تھے کہ ہم را کے ساتھ ملکر یہاں دھماکے نہیں کر رہے لیکن اب صورتحال اس سے کہیں بڑھ گئی ہے اب تو سوشل میڈیا پہ دھماکہ والوں کے حامی سے ایک دن بحث ہو رہی تھی تو وہ کہ رہا تھا کہ ہاں ہم انڈیا اور را کے ساتھ ملکر یہاں حملہ کرتے ہیں اور اپنے اس عمل کو بھی وہ شریعت سے ثابت کر رہا تھا کہ جنگ میں کسی کو بھی حلیف بنانا جائز ہوتا ہے جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ بھی ایک کافروں کے مقابلے میں دوسرے کافروں کو حلیف بناتے تھے تو ہم پاکستانی کافروں کے مقابلے میں انڈیا کے کافروں کو حلیف بناتے ہیں جیسا کہ اسامہ اور دوسرے پاکستانی جہادی جماعتوں نے امریکہ کو روس کے خلاف حلیف بنایا تھا یعنی اب وہ انکار بھی نہیں کر رہے علی الاعلان را کے ساتھی یا ایجنٹ ہونے کا اظہار کررہے ہیں
خیر یہ دھماکوں کا سلسلہ کبھی کم ہو جاتا ہے کبھی زیادہ ہو جاتا ہے اسکے ساتھ ساتھ دوسری آفتیں بھی پاکستان پہ آتی رہتی ہیں مثلا سیلاب، زلزلے ، کرپشن، غربت، قتل و غارت، ڈاکہ زنی، زنا، بچوں سے زیادتی وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہاں سب سے بڑی خرابی یہ پائی جاتی ہے کہ ہم پاکستان میں سب فساد اور خرابیوں کی وجہ صرف انہیں را کے ایجنٹوں کو قرار دیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ اگر صرف انکو ختم کر دیا جائے تو سب کچھ درست ہو جائے گا اور فساد ختم ہو جائے گا یہ سب کچھ ہمیں ہمارےارباب اقتدار سمجھاتے ہیں کیونکہ انکو اپنے آقاوں کے ذریعے یہی سمجھایا جاتا ہےاور وہ میڈیا کے ذریعے پوری عوام کو بھی یہی بتاتے ہیں کہ پوری قوم بس کسی طرح ان را کے ایجنڈوں کے خلاف متحد ہو جائے پھر پورے ملک میں امن ہی امن قائم ہو جائے گا حالانکہ حقیقت ایسی نہیں ہے


دھماکوں کی وجہ اور اسباب میں فرق:
جب کسی قوم پہ اللہ کا عذاب آتا ہے یعنی وہاں فساد برپا ہوتا ہے تو اسکے ساتھ دو چیزیں لنک ہوتی ہیں
پہلی چیز اس عذاب یا فساد کی وجہ یعنی بندوں کی وہ غلطیاں جس کی وجہ سے اللہ انکو عذاب دیتا ہے اور دوسری چیز اس عذاب یا فساد کا سبب یعنی بندہ جب غلطی کرے اور اللہ اسکو عذاب دینے کا ارادہ کر لے تو وہ عذاب کس طریقے سے دے گا اللہ کس چیز کو سبب بنائے گا مثلا زلزلہ یا دھماکہ یا سیلاب وغیرہ

یاد رکھیں کہ عذاب کی وجہ کچھ اور چیز ہوتی ہے اور اس عذاب کا سبب بالکل اور چیز ہوتی ہے ان کو مکس نہیں کیا جانا چاہئے پس اس سلسلے میں نیچےکچھ بنیادی باتیں نمبر دے کر لکھی جاتی ہیں

1۔عذاب ہمارے غلطی کی وجہ سے ہوتا ہے

یاد رکھیں فسادکی وجہ انسان خود بنتے ہیں یعنی جو وہ غلطیاں کرتے ہیں انہیں وجوہات کی وجہ سے ان پہ عذاب آتا ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت اید الناس یعنی فساد تو لوگوں کی اپنی کمائی کی وجہ سے ہی ہوتا ہے
2۔غلطی ترک کرنے سے اللہ عذاب یا فساد کے اسباب بھی ختم کر دے گا
عذاب یا فساد چونکہ ہماری ہی غلطیوں کی وجہ سے ہوتا ہے اس لئے ہمارے اندر ان غلطیوں کو ختم کرنے کی استطاعت ہوتی ہے پس اگر ہم اپنی غلطی کا ادراک کر لیں گے اور اسکو چھوڑ دیں گے تو اللہ ہمارے وپر ظلم نہیں کرے گا جیسا کہ اللہ سورہ یونس کی آیت نمبر ۴۴ میں فرماتے ہیں
ان الله لا یظلم الناس شیئا و لکن الناس انفسهم یظلمون

خدا تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

3۔عذاب یا فساد کے اسباب ہمارے اختیار میں نہیں ہوتے

غلطی ہو جانے کے بعد اس کے اوپر عذاب اور فساد کا سبب اللہ کی طرف سے بنایا جاتا ہے وہ جو چاہے سبب بنا دے یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا اللہ چاہے تو گلبھوشن یا دیو جیسے را کے حقیقی لوگوں کے ذریعے پاکستان میں فساد برپا کر دے یا پھر را کے پاکستانی جہادی ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں فساد برپا کروا دے یہ مکمل ہمارے اختیار میں نہیں کہ ہم ان اسباب کو ختم کر سکیں ہم ایک سبب کو ختم کریں گے تو اللہ دوسرا سبب پیدا کر دے گا اللہ کے لئے سبب پیدا کرنا کون سا مشکل کام ہے بلکہ انجانے میں کبھی انسان خود ہی اپنے عذاب کا سبب پیدا کر رہا ہوتا ہے اور سمجھ یہ رہا ہوتا ہے کہ میں اس سبب کو ختم کر رہا ہوں لیکن الٹا وہ کوئی نیا سبب پیدا کر رہا ہوتا ہے مثلا ایک حکایت ہے کہ ملک الموت ،سلیمان نبی علیہ السلام کی بارگاہ میں آئے اور ان کے ساتھیوں میں سے ایک کو بڑے گھور کر دیکھنے لگے جب آپ چلے گئے تو اس شخص نے سلیمان علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ شخص کون تھے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ ملک الموت تھے اس نے عرض کی سرکار ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ میری روح نکالنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ پھر تمہارا کیا ارادہ ہے ۔۔۔؟ اس نے عرض کی کہ حضرت ہواﺅں کو حکم دیں کہ وہ مجھے سر زمین ہند میں پہنچا دیں ۔آپ نے حکم دیا اور ہوائیں اس شخص کو سر زمین ہند میں چھوڑ آئیں۔ پھر ملک الموت تشریف لائے تو جناب سلیمان علیہ السلام نے ان سے دریافت کیا کہ تم میرے ایک ساتھی کو گھور کر کیوں دیکھتے تھے ؟انہوں نے کہا کہ حضرت میں اس پر تعجب کر رہا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کی روح ہند میں قبض کروں اور یہ آپ کے پاس بیٹھا ہے کیسے ہند پہنچے گا پس وہ خود ہی اپنی موت کا راستہ ہمور کرنے والا بنا مگر یہ اللہ کی تقدیر سے ہی ہوا اگرچہ یہ درست روایت نہیں مگر سمجھانے کے لئے ہے کہ اللہ چاہے تو ہمارے ذریعے ہی اسباب پیدا کر دے
یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ جو سبب بناتا ہے وہ کسی کافر کو بھی سبب بنا سکتا ہے جیسا کہ ایرن کے بادشاہ نے جب آپ ﷺ کا خط پھاڑا تو اللہ نے خود اسکے کافر بیٹے کو ہی اس پہ مسلط کر دیا جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ انا کفینا ک المستھزئین

4۔پاکستان میں فساد کی اصل وجہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے جنگ ہے

اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں آنے والے عذابوں میں وجہ کون سی ہے۔اللہ سورہ اعراف آیت ۹۶ میں کہتا ہے کہ
ولو أن أهل القرى آمنوا واتقوا لفتحنا عليهم بركات من السماء والأرض ولكن كذبوا فأخذناهم بما كانوا يكسبون

اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہوجاتے۔ تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے مگر انہوں نے تو تکذیب کی۔ سو ان کے اعمال کی سزا میں ہم نے ان کو پکڑ لیا
اب جب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے قریہ والے والے کیا امنوا واتقوا پہ پورا اتر رہے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ نہیں وہ تو اسکے بالکل برعکس ہیں مثلا اللہ فرماتا ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ . فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور اگر تم مؤمن ہو تو باقیماندہ سود چھوڑ دو، اگر نہیں چھوڑو گے تو اللہ اور اسکے رسول سے جنگ کیلئے تیار ہوجاؤ
پس یہاں اللہ اسی امنوا اور وتقوا کے ساتھ سود کو چھوڑنے کو بطور شرط ذکر کر رہا ہے اور ساتھ دھمکی بھی دے رہا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا تو پھر اللہ اور اسکے رسول کی تمھارے ستھ کھلی جنگ ہے تو کیا پھر جب ہم نہ صرف ایمان نہ لا رہے ہوں اور تقوی نہ اختیار کر رہے ہوں بلکہ ساتھ ساتھ الٹا اللہ اور رسول کے ساتھ کھلی جنگ بھی کر رہے ہوں تو پھر کیا اسکے عذاب کی خود ہمارے علاوہ کوئی اور وجہ ہو سکتی ہے
اسی طرح ہم نے یہاں شرک کی مکمل سرپرستی کی ہوئی ہے یعنی مشرکوں کو یہاں کے غالب نظام نے مکمل سپورٹ اور سرپرستی فراہم کی ہوئی ہے جو کہ ایک اسلامی ریاست کے شایان شان ہو ہی نہیں سکتی کوئی دربار پہ جا کر نہایت حکمت بھرے اور پیارے انداز سے توحید کی بات کر لے تو سب اسکو مار مار کر لہو لہان کر دیں گے اور یہ غالب نظام الٹا اسی توحید کی دعوت دینے والے کو ہی پکڑے گا کہ تمھیں وہاں دعوت دینے کی کیا ضرورت تھی (یعنی توحید کی دعوت دینا ایک مسلمان کی بینادی ضرورت ہی نہیں ہے)
اسکے برعکس محرم اور ربیع الاول میں وہ کھلے عام بازاروں میں سب کے سامنے موحدین کے سینوں پہ مونگ دلتے ہوئے اپنے عقیدے کی دعوت دیتے پھرتے ہیں اور انکو مکمل سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے وہاں انکو یہ نہیں کہا جاتا کہ یہاں بازاروں میں سب کو دعوت دینے کی کیا ضرورت ہے وہاں تلبیس ابلیس سے کام لیتے ہوئے یہ منافقانہ غالب نظام کہتا ہے کہ یہ ان محرم والوں اور عید میلاد والوں کا مذھبی فریضہ ہے کہ بازاروں میں جلوس نکالیں اس لئے انکو نکالنے کی اجازت دیتے ہیں تو میری اس انتہائی غلیظ منافقانہ غالب نظام سے درخواست ہے کہ آپ کسی بھی اہل الحدیث عالم سے دریافت کر لیں کہ کیا شرک کے اڈوں پہ توحید کی دعوت دینا ہمارا پہلا اور سب سے پہلا اور بنیادی فریضہ نہیں ہے اگر سب اہل الحدیظ کے ہاں یہ متفقہ پہلا فریضہ ہے تو ہمیں بھی ذرا دربار پہ جا کر دعوت دینے کی نہ صرف اجازت دی جائے بلکہ اسی طرح فول پروف سیکورٹی فراہم کی جائے جس طرح ان محرم کے جلوسوں کو فراہم کی جاتی ہے اور محرم میں لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے کہ تمام راستے بند کر دیئے جاتے ہیں چاہے ایمبوللینس میں لوگ مرتے رہیں تمھیں کوئی پروا نہیں ہوتی یہ دو رخی کیوں ہے
اسی طرح پرلیمنٹ میں جا کر دیکھیں تو وہاں بھی اس منافقانہ غالب نظام کی دو رخی نظر آتی ہے پورے پارلیمنٹ میں توحید کے اوپر کوئی بات نہیں کر سکتا کہ یہ انکو باقی لوگوں کے خلاف اور فرقہ واریت لگتی ہے لیکن اسی پارلیمنٹ میں شرکیہ نعتیں بھی پڑھی جاتی ہیں ان میں فاتحہ خوانیاں بھی کی جاتی ہیں ہا رسول اللہ کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں مگر یہ کسی کو فرقہ واریت نظر نہیں آتے ہمارے دفتر میں بھی یہی حال ہے جب بھی کوئی فنکشن ہوتا ہے وہاں پہ نعت لازمی پڑھتے ہیں اور اگر کوئی غلطی سے وھابی شرک پہ کوئی ایک آدھ آیت ہی پڑھ دے تو اسکو فرقہ واریت کو ہوا دینے والا کہنا شروع کر دیتے ہیں ور بین لگا دیتے ہیں
پورے پاکستان میں یا رسول اللہ کے بینر اور شرکیہ نعتوں کے بینر ہر کوئی لگا سکتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں لیکن لاہور میں اسٹیشن کے پاس بوہر والے چوک میں ایک بندے نے بہت بڑے سائن بورڈ پر ایک آیت اور اسکا ترجمہ لکھ کر لگوا دیا (قل لا املک لنسفی نفعا ولا ضرا الا ما شاءاللہ) تو سارے مشرک اکٹھے ہو گئے اور اپنے یار اس منافقانہ غالب نظام کے ذریعے وہ سائن بورڈ ہی زبردستی ہٹوا دیا گیا اور الٹا پرچہ بھی کٹوا دیا گیا غرض ہر طرف اس منافقانہ غالب نظام کی دو رخیاں بھری پڑی ہیں

5۔غلطی کا احساس کرنا لازمی ہے

جب تک ہم اللہ اور اسکے رسول ﷺ اور اسکی شریعت سے حالت جنگ میں ہوں گے اللہ یہ عذاب اللہ کسی نہ کسی صورت بھیجتا رہے گا اور یہ فساد اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس نہیں ہو گا
اقبال کا ایک مشہور اور لاجواب شعر ہے کہ
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
یعنی مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارا توحید اور اسلام والا کارواں لٹ گیا ہے بلکہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمیں اسکے لٹنے کا احساس ہی ختم ہو گیا ہے کیونکہ اگر خالی کارواں لٹ جائے اور اسکا احساس باقی ہو تو اگلی دفعہ مناسب انتظام کر لیا جاتا ہے اور پیچھے والے کا بھی مناسب مداوا کر لیا جاتا ہے مگر جب لٹنے کا احساس ہی ختم ہو جائے تو پھر تباہی اور فساد سے کوئی نہیں بچا سکتا یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ علماء بدعت کے بارے کہتے ہیں کہ اس میں گناہ کے گناہ ہونے کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے پس بدعوت عام گناہ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ عام گناہ میں انسان شرمندہ ہوتا ہے اور توبہ کر لیتا ہے مگر بدعت کو تو وہ اچھا سمجھ کر کرتا ہے پس توبہ کیسے نصیب ہو گی پس ہمارے علماء کو اس کا احساس پیدا کرنا بھی بہت اہم ہے

6۔ غالب نظام کی غلطی کا لوگوں میں غیر عسکری طریقے سے احساس پیدا کرنا قانونی جرم نہیں ہے

ہم جانتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں دوسری غالب سیاسی جماعت کے خلاف لوگوں میں احساس پیدا کرتی رہتی ہیں انکی کرپشن وغیرہ کے بارے لوگوں کو آگاہ کرتی رہتی ہیں البتہ کسی کے خلاف تلوار اٹھا لینا اسکی نہ تو قانون اجازت دیتا ہے نہ ہی شریعت اجازت دیتی ہے مگر ہمارے ہاں کچھ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں غالب نظام کی اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف جنگ کی نشاندہی بھی بالکل نہیں کرنی چاہئے تو یہ بلکل درست نہیں کیونکہ اگر توحید کی بات ہی نہیں کرنی اور سود وغیرہ کی بات ہی نہیں کرنی قرآن کی بات ہی نہیں کرنی تو پھر باقی دین ہے کس کا نام۔ کس دین کی دعوت دیں گے کیا ہمارے لئے کوئی نیا دین آیا ہوا ہے جو پہلے لوگوں کے لئے نہیں تھا واللہ ہم بدعتیوں کو تو کہتے ہیں کہ انکو رسول اللہ ﷺ سحقا سحقا کہ کر اپنے سے دور کریں گے کہ جنہوں نے انکے بعد انکے دین کو بدل دیا تو کیا ہم نے اپنے بارے کبھی غور کیا کہ کہیں ہم نے دین کی دعوت کو تو نہیں بدل دیا

نوٹ: بعض دفعہ کسی عذاب کی وجہ اور سبب ایک بھی ہو سکتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا ہونا لازمی نہیں ہے مثلا بعض دفعہ کوئی معاشرہ ویلنٹائن ڈے کی فحاشی میں پڑتا ہے تو وہی ویلنٹائن ڈے کی فحاشی ہی اسکے لئے دنیاوی عذاب کا سبب بنتی ہے اور اسکی اپنی بیٹی بھی جب اسکو کسی سے پھول لیتے نظر آتی ہے یا کمرہ بک کراتے نظر آتی ہے تو وہ اسکے لئے دنیوی عذاب ہی ہوتا ہے یعنی عذاب کا سبب بھی وہی عذاب کی وجہ بن جاتی ہے اسی طرح قوا انفسکم واھلیکم نارا پہ عمل نہ کرنے والوں پہ دنیاوی عذاب کی وجہ اولاد کی تربیت نہ کرنا ہے اور اس عذاب کی شکل بھی وہی اولاد بن جاتی ہے جو باپ کو مارتی اور برا بھلا کہتی ہے تو باپ کو عذاب لگتا ہے یعنی اللہ سبب بھی وہی اولاد ہی اللہ بنا دیتا ہے جو پہلے وجہ تھی اسی طرح جو لوگ بے گناہ مسلمان کو شرک یا کسی اور غلطی کی وجہ سے دھماکہ سے ہی مار دیتے ہیں وہ تو بہت بڑی غلطی کرتے ہیں کہ جو خوارج جیسی غلطی ہے تو اس غلطی کی وجہ سے اللہ جو عذاب دیتا ہے وہ بھی انہیں دھماکوں کی صورت میں دے سکتا ہے یعنی انہیں دھماکوں کو ہی سبب بنا سکتا ہے لیکن یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ کیا قوم یا حکمرانوں کی صرف یہی ایک ہی غلطی تھی کہ جس کا سبب بھی وہی بنا دیا گیا اگر صرف یہی غلطی ہو تو پھر تو واقعی صرف اسی سبب کو روکنے سے غلطی بھی خود بخود رک جائے گی لیکن اگر غلطیاں اور بھی ہوں یعنی غلطی کی وجوہات کوئی اور بھی ہوں اور دوسری وجوہات زیادہ بڑی ہوں یا وہ دوسری وجوہات پہلے کی ہوں اور یہ دوسری وجوہات ان پہلی غلطیوں کے سبب کے طور پہ ہوں تو ہمیں انکو بھی ختم کرنے کا سوچنا ہو گا ورنہ مرض (فساد) کی جڑ ختم کیے بغیر فرض (فساد) کن کو ختم کرنے کا سوچنا کیا عقل مندی ہو گی یہ ایک سوال ہے جس کا جواب چاہئے
اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بت کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے نہیں گلہ تیری رہبری کا سوال ہے
یعنی خارجی اور انڈیا کے ایجنٹ رہزنوں سے گلہ نہیں کیونکہ ان سے تو امید ہی نہیں رکھی جا سکتی انکو تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی نہیں سمجھا سکے تھے انکا علاج تو اپنی جگہ اپنی استطاعت سے کرنا ہے مگر کیا دوسری غلطی کا احساس ہی لوگوں میں مٹا دینا ہے ہم رہبروں کو؟​
 
Last edited:
Top