• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رخصتی سے پہلے طلاق

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
السلام علیکم ۔۔۔۔ میرے سے یہ سوال میرے پیج پے اک بہن نے پوچھا ہے۔۔
رخصتی سے پہلے طلاق ہو گئی اور پھر دونوں رجوع کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کا کیا طریقہ کار ہے۔۔۔۔



Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ۔۔۔۔ میرے سے یہ سوال میرے پیج پے اک بہن نے پوچھا ہے۔۔
رخصتی سے پہلے طلاق ہو گئی اور پھر دونوں رجوع کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کا کیا طریقہ کار ہے۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رخصتی سے پہلے طلاق دے دی جائے ، تو اس کے نتیجے میں شرعاًتین چیزیں سمجھ لیں ،
(1) رخصتی قبل طلاق فوراً واقع ہوگی ، اس میں عدت نہیں ہوتی ،
(2 ) اس طلاق میں رجوع کا حق نہیں ہوتا ،
(3 ) نکاح جدید اسی خاوند سے ہوسکتا ہے ،
فتاوی الاسلام سوال و جواب میں لکھتے ہیں :
(( الطلاق إن وقع قبل الدخول والخلوة ، فهو طلاق بائن ، لا رجعة فيه ، فلا يملك الزوج أن يعود بعده إلى زوجته إلا بعقد جديد ومهر جديد ، مع استيفاء العقد لشروطه من رضا الزوجة ، والولي وحضور الشاهدين .
وأما إن كان الطلاق بعد الخلوة ، وقبل الدخول ، فهذا مما اختلف فيه الفقهاء ، فذهب الجمهور إلى أنه طلاق بائن ، كالأول .
وذهب الحنابلة إلى أنه طلاق رجعي ، فللزوج أن يراجع زوجته في العدة

ترجمہ :
اگر طلاق دخول اور خلوت سے قبل ہوئى ہو تو يہ طلاق بائن ہو گى اس ميں كوئى رجوع نہيں ہو سكتا، صرف اسى صورت ميں خاوند كو واپس مل سكتى ہے جب وہ نيا نكاح اور نيا مہر ہو، اور پھر اس ميں نكاح كى سب شروط پائى جائيں مثلا بيوى كى رضامندى اور ولى كى موجودگى اور دو گواہ كا ہونا.

ليكن اگر طلاق خلوت كے بعد اور دخول سے قبل ہوئى ہو تو اس مسئلہ ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، چنانچہ جمہور كہتے ہيں كہ يہ پہلے كى طرح طلاق بائن ہے.
اور حنابلہ كہتے ہيں كہ يہ طلاق رجعى ہوگى اس ليے خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ عدت كے اندر اندر بيوى سے رجوع كر سكتا ہے.

جاء في "الموسوعة الفقهية" (22/107) في شروط الرجعة :
" الشرط الثاني : أن تحصل الرجعة بعد الدخول بالزوجة المطلقة ، فإن طلقها قبل الدخول وأراد مراجعتها فليس له الحق في ذلك ، وهذا بالاتفاق ؛ لقوله تعالى : ( يا أيها الذين آمنوا إذا نكحتم المؤمنات ثم طلقتموهن من قبل أن تمسوهن فما لكم عليهن من عدة تعتدونها فمتعوهن وسرحوهن سراحا جميلا ) ، إلا أن الحنابلة اعتبروا الخلوة الصحيحة في حكم الدخول من حيث صحة الرجعة ؛ لأن الخلوة ترتب أحكاما مثل أحكام الدخول ، أما الحنفية والمالكية والشافعية على المذهب فلا بد عندهم من الدخول لصحة الرجعة ، ولا تكفي الخلوة " انتهى .

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں رجوع كرنے كى شروط كى شروط كے متعلق درج ہے:
" دوسرى شرط:
طلاق شدہ بيوى سے رجوع دخول كے بعد ہو، اگر دخول كرنے سے قبل بيوى كو طلاق دے دى اور اس سے رجوع كرنا چاہا تو بالاتفاق اسے رجوع كرنے كا حق حاصل نہيں ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كروا ور پھر انہيں چھونے سے قبل طلاق دے دو تو تمہارے ليے ان پر كوئى عدت نہيں جسے تم شمار كرو، چنانچہ تم انہيں فائدہ دو اور انہيں اچھے طريقہ سے چھوڑ دو }.

ليكن حنابلہ نے رجوع كے اعتبار سے صحيح خلوت كو دخول كے حكم ميں شامل كيا ہے؛ كہ اس سے رجوع كرنا صحيح ہے؛ كيونكہ خلوت پر دخول جيسے احكام مرتب ہوتے ہيں، ليكن احناف اور مالكي اور شافعى حضرات كے مسلك كے مطابق صحيح رجوع كے ليے دخول كا ہونا ضرورى ہے، صرف خلوت ہى كافى نہيں " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 107 ).
واللہ تعالی اعلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور نامور مفتی حافظ عبد الستار الحماد صاحب لکھتے ہیں :
قبل از رخصتی طلاق دیناسوال :
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی کا کسی لڑکی سے صرف نکاح ہوا۔ اس نے قبل از رخصتی اسے طلاق دے دی۔ تحریر میں یہ بھی لکھا کہ آیندہ ہمارا آپ سے اور تمہارا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب وہ صلح کرنا چاہتے ہیں جبکہ طلاق پر چھ ماہ گزر چکے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پر صرف دو صورتیں ایسی ہیں کہ عام حالات میں وہ دوبارہ اکٹھے نہیں ہوسکتےہیں۔
(الف)اگر خاوندزندگی میں وقفہ وقفہ بعد تین طلاقیں دے ڈالے۔ ایسی صورت میں مطلقہ عورت سابقہ خاوند کےلئے حرام ہوجاتی ہے۔ البتہ تحلیل شرعی کے بعد اکٹھا ہونے کی گنجائش ہے۔ (مروجہ حلالہ سے مراد نہیں کیونکہ یہ باعث لعنت ہے)
(ب)لعان کے بعد میاں بیوی کے درمیان جو جدائی عمل میں آتی ہے اس کی وجہ سے وہ آیندہ اکٹھے نہیں ہوسکتے ۔ کسی صورت میں ان کا باہمی نکاح نہیں ہوسکتا۔ ان دوصورتوں کے علاوہ او ر کوئی ایسی صورت نہیں ہے کہ وہ دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پر میاں بیوی کا آپس میں نکاح نہ ہوسکتا ہے۔ صورت مسئولہ میں چونکہ نکاح کے بعد قبل از رخصتی طلاق ہوئی ہے، لہٰذا ایسی صورت میں عدت وغیرہ نہیں ہوتی طلاق ملتے ہی نکاح ختم ہوجاتا ہے۔ آیندہ جب بھی حالات سازگار ہوجائیں تو شرعی نکاح کرنے کے بعد میاں بیوی کے طورپر زندگی گزارنے میں شرعاً قباحت نہیں ہے۔ اس نئے نکاح کے لئے چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے:
(۱)عورت کی رضامندی (۲)سرپرست کی اجازت
(۳)حق مہر کا تعین (۴)گواہوں کی موجودگی

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب آیت نمبر ۴۹ میں اس قسم کی طلاق کا ذکر فرمایا ہے۔ (واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج2ص359
محدث فتویٰ​
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
جزاکم اللہ خیرا
اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے۔

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 
Top