رد اہل تشیع:
پہلی آیت:
تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ
کہ لوگوں کو نیک کام سکھلاتے ہو اور بری باتوں سے بچاتے ہو۔
جو شخص ذرا غور اور انصاف سے دیکھے، تو یہی ایک آیت عقائد شیعیان عبداللہ بن سبا کے بطلان پر کافی ہے کہ خداوند کریم جبکہ اصحاب رضی اللہ عنہم کی نسبت فرما دے کہ وہ بہترین امت سے ہیں اور بنی آدم کی ہدایت کے واسطے پیدا کئے گئے ہیں اورا ن کے افعال حسنہ کی تصدیق کرے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں اور باوجود اس کے حضرات شیعہ ان کو بدترین امت سے جانیں اور ان کی بزرگی اور فضیلت سے انکار کریں۔ ہم نہایت تعجب کرتے ہیں کہ ایسی صریح آیتوں اور ایسی صاف شہادتوں پر بھی وہ اپنے عقیدوں کے فساد پر خیال نہیں کرتے اور ذرا بھی قرآن مجید کے لفظوں کو نہیں دیکھتے۔۔۔
اگر صحابہ کبار رضی اللہ عنہم بہترین امت سے نہیں تھے تو خدا کا یہ خطاب کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ ، یعنی تم بہترین امت سے ہو، کس سے ہے؟ اور اگر ان کے اعمال نیک نہ تھے تو اللہ جل شانہ کا یہ ارشاد کہ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ، تم نیک کام اوروں کو بتلاتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو، کس کی طرف ہے۔۔۔اگر وہ سچے دل سے ایمان نہیں لائے تھے تو خدا کی اس تصدیق کہ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ تم خدا پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہو، کے کیا معنی ہیں؟ ۔۔
آیتیں تو ایسی صاف ہیں کہ ان میں کوئی تاویل اور کوئی بناوٹ ہو ہی نہیں سکتی، سیدھے سیدھے لفظوں میں اللہ جل شانہ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان اور اعمال کو بیان کر رہا ہے اور کمالِ عنایت سے انہی سے مخاطب ہو کر خود ان کی تعریفیں کر رہا ہے، لیکن ہم کو سخت حیرت ہے کہ شیعیان پاک کے نزدیک اس آیت کے الفاظ کیا مہمل ہیں، جن کے کچھ معنی نہ ہوں، یا یہ کوئی لغز (معمہ) اور پہیلی ہو جو اس کا مطلب ان کو سمجھ میں نہ آئے، یا کوئی دقیق معمہ ہے کہ وہ ان سے حل نہ ہو سکے، یا ان کے عقیدے میں یہ الفاظ قرآن کے نہیں ہیں اور جامع قرآن نے اپنی اور اپنے بھائیوں کی بزرگی ظاہر کرنے کے لیے بڑھا دیے ہیں کہ اس پر ایمان نہ ہو۔۔۔آخر ان باتوں میں سے کوئی بات اگر نہیں ہے تو یہ کیا بات ہے کہ اس کا اقرار کرتے جاتے ہیں ، یہ آیتیں خدا کی کتاب کی ہیں، اس کی تصدیق کرتے جاتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں نازل ہوئی ہیں اور پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر اعتقاد رکھنے کا کیا ذکر، ان کے ایمان اور اسلام کی بھی تصدیق نہیں کرتے اور جن کو خداوند کریم خَيْرَ أُمَّةٍ فرمائے، شرّ أُمَّةٍ سمجھتے ہیں اور جن کی نسبت خدا تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ کہے، ان کے حق میں تَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اگرچہ آیات بینات قرآن مجید کی ایسی صریح اور صاف ہیں کہ تفسیر دیکھنے کی حاجت نہیں ہے۔ لیکن ہم حضرات شیعہ کے اطمینان خاطر کے لیے انہیں کی معتبر تفسیروں کی سند لاتے ہیں۔
اے بھائیو! سنو، تفسیر مجمع البیان طبرسی میں ( جع کہ تفسیروں میں سے تمہاری بہترین تفسیر ہے اور 1275ء میں بمقام تہران دارالسطنت ایران میں چھپی ہے) اس کے صفحہ 300 میں لکھا ہے کہ :
اے یارو! اس تفسیر کو دیکھو اور اپنے مفسر کی تصدیق پر غور کرو کہ وہ خود اقرار کرتا ہے، خدا نے ان آیتوں میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر اس لیے کیا کہ اور لوگ ان کی پیروی کریں۔ تو کیا پیروی اسی کا نام ہے، جو تم کرتے ہو، اگر بیزاری تمہاری اصطلاح میں بمعنی پیروی ہے تو بے شک تم کلام کی تصدیق کرتے ہو ورنہ صریح تکذیب۔۔۔
اس مقام پر جاہلوں کو كُنتُمْ کی لفظ پر ایک شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ خدا نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا ہے کہ "تم بہترین امت سے تھے" اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اخیر تک ویسے ہی رہے ہوں، شاید بعدہٗ بدترین امت سے ہو گئے ہوں، لیکن انہی کے علامہ طبرسی نے اس کا جواب دےد یا۔ چنانچہ اپنی تفسیر میں علامہ موصوف لکھتے ہیں کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ اللہ جل شانہ نے تاکید کے واسطے فرمایا کہ ضرور ایسا ہی ہوگا اور اس کے وقوع میں کچھ شک نہ ہوگا اور صحابہ رضی اللہ عنہم جیسے بہترین ہیں ویسے ہی رہیں گے اور اس کی مثال یہ ہے کہ خدا نے اپنی نسبت فرمایا ہے کہ وکان اللہ غفورا رحیما ، تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا بخشنے والا مہربان تھا اور اب نہیں ہے یا آئندہ نہ رہے گا۔۔۔۔
غرض کہ جب ان آیتوں اور تفسیروں سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت ثابت ہو گئی اور کوئی موقع ان کی بزرگی کے انکار کا نہ رہا، تب بعض حضرات نے اپنا قدم دوسری راہ پر اٹھایا اور قرآن مجید کی تحریف کا اقرار کیا، چنانچہ بعض نے فرمایا ہے کہ بجائے خَيْرَ أُمَّةٍ کے خَيْرَ أُئِمَّةٍ تھا اور یہ خطاب خدا نے اماموں سے کیا تھا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُئِمَّةٍیعنی تم سب اماموں سے بہتر ہو۔ مگر جامعان قرآن نے بجائے ائمۃ کے لفظ امۃ بنا دیا۔۔۔
اگرچہ اور علمائے شیعہ کو حیا نے کسی قدر منع کیا ہے اور انہوں نے اس جواب کو پسند نہیں کیا، مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ اس کا اثر اب تک باقی ہے۔ چنانچہ جناب میرن صاحب قبلہ بھی اپنے حدیقہ سلطانیہ کے باب سوم میں اس کا ذکر کرتے ہیں:
موضوع ابھی جاری ہے۔۔۔ازراہ کرم تکمیل تک تبصرہ جات سے گریز کیجئے، شکریہ۔
قرآن مجید کی شہادتیں صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں
پہلی آیت:
اس آیت میں اللہ جل شانہ، صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلتوں کو اور ان کی بزرگیوں کو خود ان سے بیان فرماتا ہے اور ان سے مخاطب ہو کر ارشاد کرتا ہے کہ تم بہترین امت سے ہو اور تم کو میں نے اور مخلوق سے منتخب کر لیا ہے تاکہ لوگوں کو ہدایت کرو، چنانچہ تم جس کام کے لیے مقرر ہوئے وہ کرتے رہو اور جو خدمت تمہارے سپرد ہوئی، اس کو ادا کرتے رہو۔كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ (سورہ آل عمران: 110)
"تم بہترین امت ہو چن لیے گئے ہو، آدمیوں کے لیے، حکم کرتے ہو نیک باتوں کا اور روکتے ہو بری باتوں سے اور ایمان رکھتے ہو خدا پر، اور اگر ایمان لاتے اہل کتاب تو بہتر ہوتا ان کے حق میں، بعض ان میں سے مؤمن ہیں اور اکثر فاسق۔"
تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ
کہ لوگوں کو نیک کام سکھلاتے ہو اور بری باتوں سے بچاتے ہو۔
جو شخص ذرا غور اور انصاف سے دیکھے، تو یہی ایک آیت عقائد شیعیان عبداللہ بن سبا کے بطلان پر کافی ہے کہ خداوند کریم جبکہ اصحاب رضی اللہ عنہم کی نسبت فرما دے کہ وہ بہترین امت سے ہیں اور بنی آدم کی ہدایت کے واسطے پیدا کئے گئے ہیں اورا ن کے افعال حسنہ کی تصدیق کرے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں اور باوجود اس کے حضرات شیعہ ان کو بدترین امت سے جانیں اور ان کی بزرگی اور فضیلت سے انکار کریں۔ ہم نہایت تعجب کرتے ہیں کہ ایسی صریح آیتوں اور ایسی صاف شہادتوں پر بھی وہ اپنے عقیدوں کے فساد پر خیال نہیں کرتے اور ذرا بھی قرآن مجید کے لفظوں کو نہیں دیکھتے۔۔۔
اگر صحابہ کبار رضی اللہ عنہم بہترین امت سے نہیں تھے تو خدا کا یہ خطاب کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ ، یعنی تم بہترین امت سے ہو، کس سے ہے؟ اور اگر ان کے اعمال نیک نہ تھے تو اللہ جل شانہ کا یہ ارشاد کہ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ، تم نیک کام اوروں کو بتلاتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو، کس کی طرف ہے۔۔۔اگر وہ سچے دل سے ایمان نہیں لائے تھے تو خدا کی اس تصدیق کہ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ تم خدا پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہو، کے کیا معنی ہیں؟ ۔۔
آیتیں تو ایسی صاف ہیں کہ ان میں کوئی تاویل اور کوئی بناوٹ ہو ہی نہیں سکتی، سیدھے سیدھے لفظوں میں اللہ جل شانہ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان اور اعمال کو بیان کر رہا ہے اور کمالِ عنایت سے انہی سے مخاطب ہو کر خود ان کی تعریفیں کر رہا ہے، لیکن ہم کو سخت حیرت ہے کہ شیعیان پاک کے نزدیک اس آیت کے الفاظ کیا مہمل ہیں، جن کے کچھ معنی نہ ہوں، یا یہ کوئی لغز (معمہ) اور پہیلی ہو جو اس کا مطلب ان کو سمجھ میں نہ آئے، یا کوئی دقیق معمہ ہے کہ وہ ان سے حل نہ ہو سکے، یا ان کے عقیدے میں یہ الفاظ قرآن کے نہیں ہیں اور جامع قرآن نے اپنی اور اپنے بھائیوں کی بزرگی ظاہر کرنے کے لیے بڑھا دیے ہیں کہ اس پر ایمان نہ ہو۔۔۔آخر ان باتوں میں سے کوئی بات اگر نہیں ہے تو یہ کیا بات ہے کہ اس کا اقرار کرتے جاتے ہیں ، یہ آیتیں خدا کی کتاب کی ہیں، اس کی تصدیق کرتے جاتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں نازل ہوئی ہیں اور پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر اعتقاد رکھنے کا کیا ذکر، ان کے ایمان اور اسلام کی بھی تصدیق نہیں کرتے اور جن کو خداوند کریم خَيْرَ أُمَّةٍ فرمائے، شرّ أُمَّةٍ سمجھتے ہیں اور جن کی نسبت خدا تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ کہے، ان کے حق میں تَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اگرچہ آیات بینات قرآن مجید کی ایسی صریح اور صاف ہیں کہ تفسیر دیکھنے کی حاجت نہیں ہے۔ لیکن ہم حضرات شیعہ کے اطمینان خاطر کے لیے انہیں کی معتبر تفسیروں کی سند لاتے ہیں۔
اے بھائیو! سنو، تفسیر مجمع البیان طبرسی میں ( جع کہ تفسیروں میں سے تمہاری بہترین تفسیر ہے اور 1275ء میں بمقام تہران دارالسطنت ایران میں چھپی ہے) اس کے صفحہ 300 میں لکھا ہے کہ :
اور اس واسطے کہ کسی کو شبہ نہ رہے کہ یہ خطاب كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ کا کس سے ہے۔ اسی تفسیر میں بعضوں نے لکھا ہے کہ مراد اس سے خاص مہاجرین ہیں اور بعضوں نے لکھا ہے کہ یہ خطاب صحابہ رضی اللہ عنھم سے ہے لیکن اور امت بھی شامل ہے۔"پہلے خداوند تعالیٰ نے امرو نہی کا ذکر کیا، پیچھے اس کے ان لوگوں کا ذکر کیا جو کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں اور ان کے واسطے ان لوگوں کی تعریف کی تاکہ اور لوگ ان کی پیروی کریں اور اس واسطے انہیں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم بہترین امت سے ہو۔"
اے یارو! اس تفسیر کو دیکھو اور اپنے مفسر کی تصدیق پر غور کرو کہ وہ خود اقرار کرتا ہے، خدا نے ان آیتوں میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر اس لیے کیا کہ اور لوگ ان کی پیروی کریں۔ تو کیا پیروی اسی کا نام ہے، جو تم کرتے ہو، اگر بیزاری تمہاری اصطلاح میں بمعنی پیروی ہے تو بے شک تم کلام کی تصدیق کرتے ہو ورنہ صریح تکذیب۔۔۔
اس مقام پر جاہلوں کو كُنتُمْ کی لفظ پر ایک شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ خدا نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا ہے کہ "تم بہترین امت سے تھے" اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اخیر تک ویسے ہی رہے ہوں، شاید بعدہٗ بدترین امت سے ہو گئے ہوں، لیکن انہی کے علامہ طبرسی نے اس کا جواب دےد یا۔ چنانچہ اپنی تفسیر میں علامہ موصوف لکھتے ہیں کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ اللہ جل شانہ نے تاکید کے واسطے فرمایا کہ ضرور ایسا ہی ہوگا اور اس کے وقوع میں کچھ شک نہ ہوگا اور صحابہ رضی اللہ عنہم جیسے بہترین ہیں ویسے ہی رہیں گے اور اس کی مثال یہ ہے کہ خدا نے اپنی نسبت فرمایا ہے کہ وکان اللہ غفورا رحیما ، تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا بخشنے والا مہربان تھا اور اب نہیں ہے یا آئندہ نہ رہے گا۔۔۔۔
غرض کہ جب ان آیتوں اور تفسیروں سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت ثابت ہو گئی اور کوئی موقع ان کی بزرگی کے انکار کا نہ رہا، تب بعض حضرات نے اپنا قدم دوسری راہ پر اٹھایا اور قرآن مجید کی تحریف کا اقرار کیا، چنانچہ بعض نے فرمایا ہے کہ بجائے خَيْرَ أُمَّةٍ کے خَيْرَ أُئِمَّةٍ تھا اور یہ خطاب خدا نے اماموں سے کیا تھا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُئِمَّةٍیعنی تم سب اماموں سے بہتر ہو۔ مگر جامعان قرآن نے بجائے ائمۃ کے لفظ امۃ بنا دیا۔۔۔
اگرچہ اور علمائے شیعہ کو حیا نے کسی قدر منع کیا ہے اور انہوں نے اس جواب کو پسند نہیں کیا، مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ اس کا اثر اب تک باقی ہے۔ چنانچہ جناب میرن صاحب قبلہ بھی اپنے حدیقہ سلطانیہ کے باب سوم میں اس کا ذکر کرتے ہیں:
اور پھر اخیر میں خود ہی فرما دیا ہے کہ "وجہ اوّل بعید است"۔ ہمارے نزدیک بجائے اس کے کہ خیر امّۃ کی تصدیق کر کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے خیر امت ہونے سے انکار کریں شیعیان پاک کے حق میں یہی بہتر ہے کہ بجائے خیر امّۃ کے خیر ائمّۃ کا اقرار کریں اور تحریف قرآنی کے عذر سے اپنے آپ کو صریح منکر آیات بینات کا نہ بنا دیں۔ افسوس کہ جناب میرن صاحب قبلہ اور ان کے والد ماجد انتقال فرما گئے ورنہ میں اس حدیقہ سلطانیہ اور صوارم کو لیے ہوئے ان حضرات کی خدمت میں حاضر ہوتا اور پوچھتا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ جامعین قرآن کی تحریف ہے تو بندہ عرض کرتا کہ اس وقت اور ائمہ کرام سوائے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے کون تھا؟ اور کس نے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کیا تھا۔ جن سے خدا یہ خطاب کرتا اور جن کی یہ فضیلتیں بیان کرتا ہے۔۔۔اور اگر فرماتے کہ نہیں، خیر امّۃ صحیح ہے تو کمترین التماس کرتا کہ پھر اس گروہ سے جس کو خدا خیر امّۃ فرماتا ہے اور جس کی آپ بھی تصدیق فرماتے ہیں، بیزاری کفر ہے یا نہیں۔ اور ان کے آگے انہی کی کتاب کھول کر اس کے صفحہ 186 کی یہ عبارت نکال کر پوچھتا کہ حضرت اس کا کیا مطلب ہے۔وھو ھذہ:((تغیر و نقصان در قرآن منحصر در چھار چیز است یکے تبدیل لفظی بلفظ آخر مثلاً اینکہ گفتہ شود بجائے کنتم خیر امّۃ خیر ائمّۃ بودہ لیکن بعضے از اعدائے اھل بیت آں را تبدیل نمودہ اند۔))
"قرآن میں کمی و تغیر کا انحصار چار چیزوں پر ہے ۔ ایک لفظی تبدیلی دوسرے لفظ کے ساتھ جیسے کنتم خیر امّۃ (تم بہترین امت ہو) کے بجائے خیر ائمّۃ (بہترین ائمہ) تھا، لیکن بعض دشمنان اہل بیت نے اسے بدل دیا۔"
اور قسم دے کر پوچھتا کہ جس قرآن کو امام صاحب فرماتے ہیں کہ اس میں انوار ہدایت اور روشن چراغ ہیں، اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت کیا لکھا ہوا ہے۔ اگر كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ لکھا ہے تو پھر آپ کیوں انکار کرتے ہیں اور کیوں روشنی چھوڑ کر تاریکی میں پڑتے ہیں، اور پھر اسی کتاب کی یہ عبارت نکالتا:((ازاں جلہ است آنچہ از حضرت صادق علیہ السلام ماثور است کہ فرمود آں ھذالقرآن فیہ منار الھدی و مصابیح الدجی یعنی دریں قرآن انوار ھدایت و چراغھائے دورکنندہ تاریکی ضلالت و غوایت روشن است۔))
"منجملہ اس کے حضرت صادق علیہ السلام کی زبانی یہ منقول ہے کہ اس قرآن میں انوار ہدایت اور گمراہی و تاریکی کو دور کرنے والے چراغ موجود ہیں۔"
اور یہ کہتا کہ قبلہ و کعبہ سنیے ، آج کل کوئی فتنہ اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ ہم صحابہ رضی اللہ عنہم کو بہترین امت جانتے ہیں اور آپ بدترین امت سے۔ اور نہ آپ ہماری مانتے ہیں، نہ ہم آپ کی۔ اب آپ آئیے ، امام علیہ السلام کے قول پر عمل کیجئے اور قرآن سے رجوع کیجئے ، اگر اس میں كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت لکھا ہو تو بس جنت کی راہ اختیار کیجئے اور اپنا مذہب چھوڑیے اور اگر اس میں کنتم شر امّۃ ان کی نسبت ہو تو ہم کو اپنے مذہب میں لیجیے اور تاریکی سے نکالیے۔ معلوم نہیں کہ اگر یہ حضرات موصوف زندہ ہوتے تو کیا جواب دیتے اور خبر نہیں کہ اب ان کے جانشین کیا جواب دیں گے۔((از حضرت امام باقر علیہ السلام منقول است کہ درھنگامے کہ فتنھا برشما ملتبس شود و مانند پارہ شب تار پس رجوع آرید بقرآن کی شفاعت کنندہ و مقبول الشفاعت ست ھر کسی کہ آں را پیش نھداللہ اورا براہ جنت می برد۔))
"امام باقر سے منقول ہے کہ جس وقت تم پر فتنہ و فساد روشن نہ ہوں اور رات کی تاریکیاں محیط ہوں تو قرآن کی طرف رجوع کرو کیونکہ یہ شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت مقبول و منظور ہے۔"
موضوع ابھی جاری ہے۔۔۔ازراہ کرم تکمیل تک تبصرہ جات سے گریز کیجئے، شکریہ۔