• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رد اہل تشیع: قرآن مجید کی شہادتیں صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
رد اہل تشیع:

قرآن مجید کی شہادتیں صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں


پہلی آیت:

كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ أُخْرِ‌جَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرً‌ا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُ‌هُمُ الْفَاسِقُونَ (سورہ آل عمران: 110)
"تم بہترین امت ہو چن لیے گئے ہو، آدمیوں کے لیے، حکم کرتے ہو نیک باتوں کا اور روکتے ہو بری باتوں سے اور ایمان رکھتے ہو خدا پر، اور اگر ایمان لاتے اہل کتاب تو بہتر ہوتا ان کے حق میں، بعض ان میں سے مؤمن ہیں اور اکثر فاسق۔"
اس آیت میں اللہ جل شانہ، صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلتوں کو اور ان کی بزرگیوں کو خود ان سے بیان فرماتا ہے اور ان سے مخاطب ہو کر ارشاد کرتا ہے کہ تم بہترین امت سے ہو اور تم کو میں نے اور مخلوق سے منتخب کر لیا ہے تاکہ لوگوں کو ہدایت کرو، چنانچہ تم جس کام کے لیے مقرر ہوئے وہ کرتے رہو اور جو خدمت تمہارے سپرد ہوئی، اس کو ادا کرتے رہو۔

تَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌
کہ لوگوں کو نیک کام سکھلاتے ہو اور بری باتوں سے بچاتے ہو۔

جو شخص ذرا غور اور انصاف سے دیکھے، تو یہی ایک آیت عقائد شیعیان عبداللہ بن سبا کے بطلان پر کافی ہے کہ خداوند کریم جبکہ اصحاب رضی اللہ عنہم کی نسبت فرما دے کہ وہ بہترین امت سے ہیں اور بنی آدم کی ہدایت کے واسطے پیدا کئے گئے ہیں اورا ن کے افعال حسنہ کی تصدیق کرے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں اور باوجود اس کے حضرات شیعہ ان کو بدترین امت سے جانیں اور ان کی بزرگی اور فضیلت سے انکار کریں۔ ہم نہایت تعجب کرتے ہیں کہ ایسی صریح آیتوں اور ایسی صاف شہادتوں پر بھی وہ اپنے عقیدوں کے فساد پر خیال نہیں کرتے اور ذرا بھی قرآن مجید کے لفظوں کو نہیں دیکھتے۔۔۔

اگر صحابہ کبار رضی اللہ عنہم بہترین امت سے نہیں تھے تو خدا کا یہ خطاب کہ كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ ، یعنی تم بہترین امت سے ہو، کس سے ہے؟ اور اگر ان کے اعمال نیک نہ تھے تو اللہ جل شانہ کا یہ ارشاد کہ تَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌ ، تم نیک کام اوروں کو بتلاتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو، کس کی طرف ہے۔۔۔اگر وہ سچے دل سے ایمان نہیں لائے تھے تو خدا کی اس تصدیق کہ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ تم خدا پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہو، کے کیا معنی ہیں؟ ۔۔

آیتیں تو ایسی صاف ہیں کہ ان میں کوئی تاویل اور کوئی بناوٹ ہو ہی نہیں سکتی، سیدھے سیدھے لفظوں میں اللہ جل شانہ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایمان اور اعمال کو بیان کر رہا ہے اور کمالِ عنایت سے انہی سے مخاطب ہو کر خود ان کی تعریفیں کر رہا ہے، لیکن ہم کو سخت حیرت ہے کہ شیعیان پاک کے نزدیک اس آیت کے الفاظ کیا مہمل ہیں، جن کے کچھ معنی نہ ہوں، یا یہ کوئی لغز (معمہ) اور پہیلی ہو جو اس کا مطلب ان کو سمجھ میں نہ آئے، یا کوئی دقیق معمہ ہے کہ وہ ان سے حل نہ ہو سکے، یا ان کے عقیدے میں یہ الفاظ قرآن کے نہیں ہیں اور جامع قرآن نے اپنی اور اپنے بھائیوں کی بزرگی ظاہر کرنے کے لیے بڑھا دیے ہیں کہ اس پر ایمان نہ ہو۔۔۔آخر ان باتوں میں سے کوئی بات اگر نہیں ہے تو یہ کیا بات ہے کہ اس کا اقرار کرتے جاتے ہیں ، یہ آیتیں خدا کی کتاب کی ہیں، اس کی تصدیق کرتے جاتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں نازل ہوئی ہیں اور پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر اعتقاد رکھنے کا کیا ذکر، ان کے ایمان اور اسلام کی بھی تصدیق نہیں کرتے اور جن کو خداوند کریم خَيْرَ‌ أُمَّةٍ فرمائے، شرّ أُمَّةٍ سمجھتے ہیں اور جن کی نسبت خدا تَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌ کہے، ان کے حق میں تَأْمُرُ‌ونَ بِالْمُنكَرِ‌ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُ‌وفِ کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اگرچہ آیات بینات قرآن مجید کی ایسی صریح اور صاف ہیں کہ تفسیر دیکھنے کی حاجت نہیں ہے۔ لیکن ہم حضرات شیعہ کے اطمینان خاطر کے لیے انہیں کی معتبر تفسیروں کی سند لاتے ہیں۔

اے بھائیو! سنو، تفسیر مجمع البیان طبرسی میں ( جع کہ تفسیروں میں سے تمہاری بہترین تفسیر ہے اور 1275ء میں بمقام تہران دارالسطنت ایران میں چھپی ہے) اس کے صفحہ 300 میں لکھا ہے کہ :
"پہلے خداوند تعالیٰ نے امرو نہی کا ذکر کیا، پیچھے اس کے ان لوگوں کا ذکر کیا جو کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں اور ان کے واسطے ان لوگوں کی تعریف کی تاکہ اور لوگ ان کی پیروی کریں اور اس واسطے انہیں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم بہترین امت سے ہو۔"
اور اس واسطے کہ کسی کو شبہ نہ رہے کہ یہ خطاب كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ کا کس سے ہے۔ اسی تفسیر میں بعضوں نے لکھا ہے کہ مراد اس سے خاص مہاجرین ہیں اور بعضوں نے لکھا ہے کہ یہ خطاب صحابہ رضی اللہ عنھم سے ہے لیکن اور امت بھی شامل ہے۔

اے یارو! اس تفسیر کو دیکھو اور اپنے مفسر کی تصدیق پر غور کرو کہ وہ خود اقرار کرتا ہے، خدا نے ان آیتوں میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر اس لیے کیا کہ اور لوگ ان کی پیروی کریں۔ تو کیا پیروی اسی کا نام ہے، جو تم کرتے ہو، اگر بیزاری تمہاری اصطلاح میں بمعنی پیروی ہے تو بے شک تم کلام کی تصدیق کرتے ہو ورنہ صریح تکذیب۔۔۔

اس مقام پر جاہلوں کو كُنتُمْ کی لفظ پر ایک شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ خدا نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا ہے کہ "تم بہترین امت سے تھے" اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اخیر تک ویسے ہی رہے ہوں، شاید بعدہٗ بدترین امت سے ہو گئے ہوں، لیکن انہی کے علامہ طبرسی نے اس کا جواب دےد یا۔ چنانچہ اپنی تفسیر میں علامہ موصوف لکھتے ہیں کہ كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ اللہ جل شانہ نے تاکید کے واسطے فرمایا کہ ضرور ایسا ہی ہوگا اور اس کے وقوع میں کچھ شک نہ ہوگا اور صحابہ رضی اللہ عنہم جیسے بہترین ہیں ویسے ہی رہیں گے اور اس کی مثال یہ ہے کہ خدا نے اپنی نسبت فرمایا ہے کہ وکان اللہ غفورا رحیما ، تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا بخشنے والا مہربان تھا اور اب نہیں ہے یا آئندہ نہ رہے گا۔۔۔۔

غرض کہ جب ان آیتوں اور تفسیروں سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت ثابت ہو گئی اور کوئی موقع ان کی بزرگی کے انکار کا نہ رہا، تب بعض حضرات نے اپنا قدم دوسری راہ پر اٹھایا اور قرآن مجید کی تحریف کا اقرار کیا، چنانچہ بعض نے فرمایا ہے کہ بجائے خَيْرَ‌ أُمَّةٍ کے خَيْرَ‌ أُئِمَّةٍ تھا اور یہ خطاب خدا نے اماموں سے کیا تھا کہ كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُئِمَّةٍیعنی تم سب اماموں سے بہتر ہو۔ مگر جامعان قرآن نے بجائے ائمۃ کے لفظ امۃ بنا دیا۔۔۔

اگرچہ اور علمائے شیعہ کو حیا نے کسی قدر منع کیا ہے اور انہوں نے اس جواب کو پسند نہیں کیا، مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ اس کا اثر اب تک باقی ہے۔ چنانچہ جناب میرن صاحب قبلہ بھی اپنے حدیقہ سلطانیہ کے باب سوم میں اس کا ذکر کرتے ہیں:

((تغیر و نقصان در قرآن منحصر در چھار چیز است یکے تبدیل لفظی بلفظ آخر مثلاً اینکہ گفتہ شود بجائے کنتم خیر امّۃ خیر ائمّۃ بودہ لیکن بعضے از اعدائے اھل بیت آں را تبدیل نمودہ اند۔))
"قرآن میں کمی و تغیر کا انحصار چار چیزوں پر ہے ۔ ایک لفظی تبدیلی دوسرے لفظ کے ساتھ جیسے کنتم خیر امّۃ (تم بہترین امت ہو) کے بجائے خیر ائمّۃ (بہترین ائمہ) تھا، لیکن بعض دشمنان اہل بیت نے اسے بدل دیا۔"
اور پھر اخیر میں خود ہی فرما دیا ہے کہ "وجہ اوّل بعید است"۔ ہمارے نزدیک بجائے اس کے کہ خیر امّۃ کی تصدیق کر کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے خیر امت ہونے سے انکار کریں شیعیان پاک کے حق میں یہی بہتر ہے کہ بجائے خیر امّۃ کے خیر ائمّۃ کا اقرار کریں اور تحریف قرآنی کے عذر سے اپنے آپ کو صریح منکر آیات بینات کا نہ بنا دیں۔ افسوس کہ جناب میرن صاحب قبلہ اور ان کے والد ماجد انتقال فرما گئے ورنہ میں اس حدیقہ سلطانیہ اور صوارم کو لیے ہوئے ان حضرات کی خدمت میں حاضر ہوتا اور پوچھتا کہ كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ جامعین قرآن کی تحریف ہے تو بندہ عرض کرتا کہ اس وقت اور ائمہ کرام سوائے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے کون تھا؟ اور کس نے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کیا تھا۔ جن سے خدا یہ خطاب کرتا اور جن کی یہ فضیلتیں بیان کرتا ہے۔۔۔اور اگر فرماتے کہ نہیں، خیر امّۃ صحیح ہے تو کمترین التماس کرتا کہ پھر اس گروہ سے جس کو خدا خیر امّۃ فرماتا ہے اور جس کی آپ بھی تصدیق فرماتے ہیں، بیزاری کفر ہے یا نہیں۔ اور ان کے آگے انہی کی کتاب کھول کر اس کے صفحہ 186 کی یہ عبارت نکال کر پوچھتا کہ حضرت اس کا کیا مطلب ہے۔وھو ھذہ:

((ازاں جلہ است آنچہ از حضرت صادق علیہ السلام ماثور است کہ فرمود آں ھذالقرآن فیہ منار الھدی و مصابیح الدجی یعنی دریں قرآن انوار ھدایت و چراغھائے دورکنندہ تاریکی ضلالت و غوایت روشن است۔))
"منجملہ اس کے حضرت صادق علیہ السلام کی زبانی یہ منقول ہے کہ اس قرآن میں انوار ہدایت اور گمراہی و تاریکی کو دور کرنے والے چراغ موجود ہیں۔"
اور قسم دے کر پوچھتا کہ جس قرآن کو امام صاحب فرماتے ہیں کہ اس میں انوار ہدایت اور روشن چراغ ہیں، اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت کیا لکھا ہوا ہے۔ اگر كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ أُخْرِ‌جَتْ لِلنَّاسِ لکھا ہے تو پھر آپ کیوں انکار کرتے ہیں اور کیوں روشنی چھوڑ کر تاریکی میں پڑتے ہیں، اور پھر اسی کتاب کی یہ عبارت نکالتا:
((از حضرت امام باقر علیہ السلام منقول است کہ درھنگامے کہ فتنھا برشما ملتبس شود و مانند پارہ شب تار پس رجوع آرید بقرآن کی شفاعت کنندہ و مقبول الشفاعت ست ھر کسی کہ آں را پیش نھداللہ اورا براہ جنت می برد۔))
"امام باقر سے منقول ہے کہ جس وقت تم پر فتنہ و فساد روشن نہ ہوں اور رات کی تاریکیاں محیط ہوں تو قرآن کی طرف رجوع کرو کیونکہ یہ شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت مقبول و منظور ہے۔"
اور یہ کہتا کہ قبلہ و کعبہ سنیے ، آج کل کوئی فتنہ اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ ہم صحابہ رضی اللہ عنہم کو بہترین امت جانتے ہیں اور آپ بدترین امت سے۔ اور نہ آپ ہماری مانتے ہیں، نہ ہم آپ کی۔ اب آپ آئیے ، امام علیہ السلام کے قول پر عمل کیجئے اور قرآن سے رجوع کیجئے ، اگر اس میں كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت لکھا ہو تو بس جنت کی راہ اختیار کیجئے اور اپنا مذہب چھوڑیے اور اگر اس میں کنتم شر امّۃ ان کی نسبت ہو تو ہم کو اپنے مذہب میں لیجیے اور تاریکی سے نکالیے۔ معلوم نہیں کہ اگر یہ حضرات موصوف زندہ ہوتے تو کیا جواب دیتے اور خبر نہیں کہ اب ان کے جانشین کیا جواب دیں گے۔

موضوع ابھی جاری ہے۔۔۔ازراہ کرم تکمیل تک تبصرہ جات سے گریز کیجئے، شکریہ۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
دوسری آیت:
فَالَّذِينَ هَاجَرُ‌وا وَأُخْرِ‌جُوا مِن دِيَارِ‌هِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَ‌نَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ (سورہ آل عمران: 195)
یعنی جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میر ی راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے اُن کے سب قصور میں معاف کر دوں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ اُن کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے"

اس آیت میں اللہ جل شانہ مہاجرین کی تعریف کرتا ہے اور ان کے جنتی ہونے کی بشارت دیتا ہےا ور فرماتا ہے کہ جن لوگوں نے میرے پیچھے اپنے وطن، گھر اور کنبے قبیلے کو چھوڑا اور جن کے اوپر ایمان لانے سے تکلیفیں پہنچیں اور جن کو میری راہ میں ایذائیں دی گئیں تو میں بھی اپنے ایسے سچے ایمان لانے والوں اور پکے مسلمانوں سے بڑی مہربانی سے پیش آؤں گا اور ان کی محنتوں، مصیبتوں اور جاں فشانیوں کا ان کو اچھا بدلہ دوں گا، ان کے گناہوں سے درگزر کروں گا، ان کی بھول چوک کو نہ دیکھوں گا، بلکہ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دوں گا اور بن پوچھے بتلائے، ان کو ایسی جنتوں میں جگہ دوں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، جہاں نہ ان کو کچھ غم رہے گا، نہ رنج نہ کوئی فکر ان کو رہے گی نہ کھٹکا۔ اور یہ ثواب ان کو اپنی طرف سے دوں گا اور اپنے فضل و مہربانی سے ان کے اعمال سے بہت بڑھ کر ان کو درجہ عطا کروں گا۔

اب ان آیتوں کو دیکھ کر مہاجرین کی فضیلت اور بزرگی پر خیال کرنا چاہیے کہ کس محبت اور پیار سے خدائے عزوجل ان کا ذکر کرتا ہے اور ان کے مدارج اور مراتب کا کس خوبی سے اظہار فرماتا ہے اور ان کے قطعی جنتی ہونے کا اقرار کرتا ہے اور ان کے گناہوں اور سیئات سے درگزر کرنے کا اور نیکیوں سے بدل دینے کا وعدہ کرتا ہے اور ان کے اعمال کی جزا میں جو کچھ دے گا وہ تو ایک طرف، اپنی طرف سے براہِ تفضلات ثواب دینے کا بیان کس مہربانی سے فرماتا ہے۔۔۔

پس اب ان آیتوں کے دیکھنے والوں سے ہم عرض کرتے ہیں کہ جن مہاجرین کی نسبت خدا نے یہ وعدے کیے ہیں اور جن کے بہشتی ہونے کا ذکر فرمایا ہے وہ کون تھے، کیا وہ لوگ مہاجرین نہ تھے، جن کا نام ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ ہے، اور کیا گھر بار چھوڑنے والوں میں وہ اشخاص نہ تھے، جن کو شیعہ برا جانتے ہیں اور کیا یہ لوگ اس آیت سے مستثنیٰ کر دیے گئے ہیں اور کیا یہ اشخاص لَأُكَفِّرَ‌نَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ کے وعدے سے خارج کر دیے گئے ہیں۔

اے بھائیو! اس آیت کو پڑھ کر اب تم مہاجرین کے گناہوں کے ڈھونڈنے میں اوقات ضائع نہ کرو اور ان کی برائیوں کی تلاش میں اپنی عمر نہ گنواؤ۔ ۔۔اگردو چار عیب تم نے ان کے ڈھونڈ بھی لیے تو بھی جب تک تم مہاجرین میں ہونے سے انکار نہ کرو گے اور جب تک تم ان کی ہجرت کا اقرار کرتے رہو گے، تمہاری عیب جوئی اور نکتہ چینی کچھ کام نہ آئے گی اور اس سے ان کے یقینی جنتی اور قطعی بہشتی ہونے میں کچھ ضرر نہ ہوگا، اس لیے کہ وہ خود فرما چکا ہے کہ
لَأُكَفِّرَ‌نَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ
کہ میں ان کے گناہوں سے درگزر کروں گا اور ضرور ضرور ان کو جنت میں داخل کروں گا، اس لیے کہ وہ میرے پیچھے گھروں سے نکالے گئے، میری بدولت رنجوں اور مصیبتوں میں گرفتار ہوئے، اپنے دوستوں کو چھوڑ کر میرے دوست کے ساتھ ہوئے ، اپنے محبوں سے جدا ہو کر میرے محبوب کے شریک ہوئے، پس ان کا ہجرت ہی کرنا ایک ایسا عمل ہے کہ ہزار اعمال اور لاکھ عبادات اور کروڑ نیکیوں سے بہتر ہے۔

موضوع ابھی جاری ہے۔۔۔ازراہ کرم تکمیل تک تبصرہ جات سے گریز کیجئے، شکریہ۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
تیسری آیت:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِ‌ينَ وَالْأَنصَارِ‌ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّ‌ضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَ‌ضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورۃ التوبہ: 100)
وہ مہاجرین و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے
اس آیت میں اللہ جل شانہ، مہاجرین اور انصار کی نسبت اپنی رضامندی ظاہر فرماتا ہےا ور ان کو اور ان کی پیروی کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری پہنچاتا ہے۔۔ہمارے نزدیک اگر کوئی شخص اس آیت پر ذرا بھی غور کرے اور اس کے مطلب کو سوچے تو وہ ہرگز صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین اور مہاجرین و انصار کی نسبت سوائے فضیلت اور بزرگی کے دوسرا اعتقاد نہ رکھے، اس لیے کہ جب ان کی شان میں خدائے جل شانہ فرما دے کہ "رَّ‌ضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَ‌ضُوا عَنْهُ" کہ میں ان سے راضی اور وہ مجھ سے راضی اور ان کے حق میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد کرے کہ أَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ کہ تیار کر رکھی گئی ہیں ان کے لیے جنتیں اور آراستہ کر دی گئی ہیں ان کے واسطے بہشتیں۔ ۔۔تو پھر کون ہے کہ ان کی فضیلت کا قائل نہ ہو۔۔۔پس شیعیان پاک کو صرف اس قدر غور کرنا چاہیے کہ مہاجرین و انصار میں صحابہ کبار رضی اللہ عنہم، جن سے وہ عداوت رکھتے ہیں، داخل ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو پھر ان کے جنتی ہونے میں کیا شک ہے اور اگر نہیں ہیں ، تو خدا کا یہ خطاب کس سے ہے؟

اے بھائیو! ذرا سوچو کہ قرآن مجید پر ایمان اسی کا نام ہے کہ جن کے حق میں اللہ اپنی رضامندی ظاہر کرے ، ان سے تم ناراض ہو اور جن کے جنتی ہونے کی خبر خدا دے ان کو تم مسلمان بھی نہ سمجھو۔۔۔اور اگر اس آیت پر بھی کوئی ایمان نہ لاوے اور یہ شبہ کرے کہ اس میں خلفائے ثلاثہ کے نام تو مذکور نہیں ہیں، اس لیے ان کی فضیلت کا انکار مستلزمِ انکارِآیت نہیں ہے۔ تو اس کے شبہ کو دور کرنے کے لیے ہم امام باقر علیہ السلام کی شہادت پیش کرتے ہیں اور جس طرح پر انہوں نے خلفائے ثلاثہ کو اس آیت کے حکم میں داخل بیان کیا ہے، اس کو ہم بیان کرتے ہیں، اس کو ذرا دل سے سنو اور اپنے ہی مذہب کی کتاب سے اس کی سند لو، وھو ھذا۔

صاحب الفصول نے امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ "ایک روز حضرت امام باقر علیہ السلام کا گزر ایک جماعت پر ہوا جو کہ خلفائے ثلاثہ کی عیب جوئی کر رہے تھے، آپ نے پوچھا کہ مجھے بتلاؤ کہ تم ان مہاجرین میں سے ہو جو خدا کے گھر سے نکالے گئے اور خدا کے لیے ان کا مال لوٹا گیا اور جنہوں نے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی ، انہوں نے کہا کہ نہیں، ہم ان میں سے نہیں۔ تب آپ نے پوچھا کہ پھر کیا تم ان لوگوں میں سے ہو، جنہوں نے دارِ ہجرت میں اور دارِ ایمان میں گھر بنایا تھا اور مہاجرین کو آرام دیا تھا، انہوں نے کہا کہ نہیں، تب آپ علیہ السلام نے کہا کہ خود تم بیزار ہوئے اور نہیں چاہتے کہ دونوں فریقوں میں سے ہو اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تم ان میں سے بھی نہیں ہو، جن کی نسبت خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ان مہاجرین و انصار کے بعد آئیں گے، وہ ایسے مومن ہوں گے کہ یہ دعا کیا کریں گے کہ الٰہی ہماری اور ہمارے اگلے بھائیوں کی جو ہم سے ایمان میں سبقت لے گئے ہیں ، مغفرت کر اور ہمارے دلوں میں مسلمانوں کی طرف سے کینہ مت رکھ، بے شک تو نرمی کرنے والا مہربان ہے۔

اے بھائیو! تم اپنے آپ کو امامیہ کہتے ہو اور ائمہ کرام کے اقوال کو کم از آیات نہیں سمجھتے، مگر معلوم نہیں کہ ان اقوال کو جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل میں ہیں، کیوں نہیں مانتے اور کیوں اپنے اماموں کی پیروی نہیں کرتے اور کیوں ان کو صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل بیان کرنے میں جھوٹا جانتے ہو۔۔۔!

غرض کہ امام باقر علیہ السلام کی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک خلفائے ثلاثہ اس آیت کے حکم میں داخل ہیں اور جو وعدے جنت وغیرہ کے خدا نے مہاجرین و انصار سے کیے ہیں، ان میں وہ شریک ہیں اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ جو لوگ ان کی عیب جوئی کرتے تھے ، ان سے حضرت امام موصوف بیزار تھے اور ان کو اسلام اور ایمان سے خارج سمجھتے تھے۔۔۔پس سوائے تقیہ کے اور تو دوسرا کوئی جواب ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن معلوم نہیں کہ کہاں تک تقیہ کا عذر کیا کریں گے اور کب تک تقیہ کو ڈھال بنائے رہیں گے۔۔۔افسوس ہے کہ جب خدا صاف صاف مہاجرین اور انصار کی تعریف کرے اور ائمہ علیہم السلام خلفائے ثلاثہ کی صاف فضیلت بیان کریں اور پھر بھی حضرات شیعہ قائل نہ ہوں، اب معلوم نہیں کہ مہاجرین اور انصار کی فضیلت کے لیے کیسی دلیل چاہتے ہیں۔

حضراتِ شیعہ بعض دفعہ یہ شبہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ جل شانہ نے ان مہاجرین اور انصار کی تعریف بیان کی ہے جنہوں نے خاص خدا کے لیے ہجرت اور نصرت کی تھی نہ کہ ان کی جنہوں نے دنیا کی طمع سے ہجرت اور نصرت کی تھی۔۔اس شبہ کو ہم تین طرح سے رد کرتے ہیں۔

1۔ یہ کہ جب مہاجرین نے ہجرت کی اور انصار نے نصرت، اس وقت دنیا اور دولت کہاں تھی، جس کی طمع ہوئی ہو۔۔۔جب مہاجرین نے مکہ سے ہجرت کی تب کیا مدینے میں کسی خزانے کے نکلنے کی خبر ان کو ملی تھی، جس کو لوٹنے کے لیے گئے ہوں، یا جب انصار نے مہاجرین کی خاطر کی اور ان کو اپنے گھر ٹھہرایا تو کیا مہاجرین کچھ بہت سا مال اپنے ہمراہ لے گئے تھے، جس کے چھین لینے اور لوٹ لینے کی نیت سے انہوں نے ان کی مدد کی ہو۔ اگر مہاجرین نے خدا کے لیے ہجرت اورانصار نے اللہ کے واسطے نصرت نہیں کی تو پھر ان کی ہجرت اور نصرت کا کیا سبب تھا۔

2۔ اگر تمام مہاجرین اور انصار نے ہجرت اور نصرت دنیا کی طمع پر کی تھی ، تو خدا کا مہاجرین اور انصار کی تعریف کرنا (معاذاللہ) فضول اور مہمل ہوا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جب کسی نے خدا کے لیے ہجرت اور نصرت نہیں کی تو خدا کس کی شان میں ((وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِ‌ينَ وَالْأَنصَارِ‌)) فرماتا ہے اور جب سب کے سب منافق تھے تو کن کی نسبت لقد رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ارشاد کرتا ہے۔ اور اگر بعضوں کی ہجرت اور نصرت خدا کے لیے اور بعضوں کی دنیا کے لیے تھی تو ان کا نشان دیجیے کہ وہ کتنے صاحب تھے، جنہوں نے خدا کے لیے ہجرت اور نصرت کی، جب نام لینا اور نشان دینا شروع کرو گے تو سوائے تین چار کے اور کوئی نہ نکلے گا اور تین چار کی ہجرت اور نصرت کے ثبوت سے کچھ فائدہ حاصل نہ ہوگا۔

3۔ اللہ جل شانہ نے خود اپنی کتاب پاک میں اس شبہے کو دور کر دیا اور اپنے مہاجرین اور انصار کی طرف سے جواب دے دیا۔ چنانچہ اور دو آیتوں میں اللہ جل شانہ نے اس امر کو تصدیق کر دیا کہ مہاجرین اور انصار نے جو کچھ کیا وہ میرے ہی واسطے کیا ہے۔ چنانچہ ہم دو آیتوں کو ایک مہاجرین کی نسبت اور دوسری انصار کی نسبت بیان کرتے ہیں۔

ایک اور آیت۔۔
اللہ جل شانہ مہاجرین کی نسبت فرماتا ہے۔
الَّذِينَ أُخْرِ‌جُوا مِن دِيَارِ‌هِم بِغَيْرِ‌ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَ‌بُّنَا اللَّهُ الخ (سورۃ الحج: 40)
"جو لوگ نکالے گئے اپنے گھروں سے، ان سے کوئی قصور نہیں ہوا تھا ، سوائے اس کے کہ وہ اللہ کو اپنا پروردگار کہتے تھے "
پس اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مہاجرین کی ہجرت کا باعث سوائے اس کے دوسرا نہ تھا کہ کفار ان کے اسلام لانے سے خفا ہو گئے تھے اور ان کے خدا کو رب کہنے سے ناراض ہو گئے تھے کہ اسی قصور میں انہوں نے ایذا دینی شروع کی اور بہ مجبوری ان کو گھر بار چھوڑنا پڑا۔

اب اگر اس آیت کو بھی سن کر حضرات شیعہ یہ کہیں کہ مہاجرین نے بہ طمع دنیا کے ہجرت کی تھی تو ان کو زیبا ہے۔ ہمارے تو منہ سے ایسی بات نکل بھی نہیں سکتی۔۔۔!

ایک مزید آیت:
اللہ جل شانہ، انصار کی شان میں فرماتا ہے:
وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ‌ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ‌ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِ‌هِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُ‌ونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (سورۃ الحشر: 9)
"جو اِن مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالحجرت میں مقیم تھے یہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے اِن کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی اُن کو دیدیا جائے اُس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں "
پس دیکھنا چاہیے کہ خدا انصار کی نصرت کی ایسی تعریف کرتا ہے اور اس امر کی کہ ان کی نصرت صرف خدا کے واسطے ہے، کیسی تصدیق فرماتا ہے، پس اب ہم حیران ہیں کہ جب اللہ جل شانہ، مہاجرین کی ہجرت کو صرف اپنے واسطے فرما دے اور انصار کی نصرت کو فقط اپنے لیے تصدیق کرے اور پھر شیعوں کے منہ سے یہ بات نکلے کہ ان کی ہجرت اور نصرت دنیا کے واسطے تھی؟

اے یارو! ذرا سوچو کہ تم خدا کے کلام کی تصدیق کرتے ہو یا تکذیب۔ اللہ کے حکم کو مانتے ہو ، یا اس سے مقابلہ کرتے ہو۔۔۔خدا تو فرمائے کہ مہاجرین اور انصار اچھے، تم کہو کہ نہیں وہ برے سے برے ، وہ کہے کہ میں ان سے راضی وہ مجھ سے راضی،تم کہو کہ نہیں بالکل غلط، نہ خدا ان سے راضی نہ وہ خدا سے راضی، اللہ فرماوے کہ انہوں نے ہجرت میرے لیے کی اور نصرت میرے واسطے کی اور تم کہو کہ نہیں وہ دنیا کی طمع سے نکلے، حرص و دولت کے پیچھے پیغمبر ﷺ کی نصرت میں شریک ہوئے۔۔۔آخر ذرا تو غور کرو کہ کیا کہتے ہو اور کیا کرتے ہو۔۔

اے بھائیو! ایک آیت ہو، دو آیات ہوں، اس کی تاویل ہو سکتی ہے، اس کے معنی بن سکتے ہیں، جب سارا قرآن مجید مہاجرین اور انصار کے ذکر سے بھرا ہوا ہے تو کہاں کہاں تاویل کروگے، کس کس آیت کی تحریف معنوی فرماؤ گے (تن ہمہ داغ داغ شدپنبہ کجا کجا نہی)۔ حقیقت تو یہی ہے کہ مذہب تو عبداللہ بن سبا کا اختیار کر لیا، مگر اب کوئی بات بن نہیں پڑتی، نہ قرآن مجید سے انکار ہو سکتا ہے، نہ اس کی تصدیق کی جاتی ہے۔

عشق چہ آساں نمود آہ چہ دشوار بود
ہجر چہ دشوار بود یار چہ آساں گرفت
(عشق کتنا آسان دکھائی دیا، مگر کتنا سخت تھا اور ہجر (دوری) کتنی دشوار تھی، مگر یار نے کتنا آسان سمجھا)

موضوع ابھی جاری ہے۔۔۔ازراہ کرم تکمیل تک تبصرہ جات سے گریز کیجئے، شکریہ۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
چوتھی آیت:

لَّقَدْ رَ‌ضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَ‌ةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِ‌يبًا ﴿١٨﴾ وَمَغَانِمَ كَثِيرَ‌ةً يَأْخُذُونَهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٩﴾ وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَ‌ةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَذِهِ وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنكُمْ وَلِتَكُونَ آيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَ‌اطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿٢٠﴾ وَأُخْرَ‌ىٰ لَمْ تَقْدِرُ‌وا عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّهُ بِهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرً‌ا ﴿٢١﴾ (سورۃ الفتح: 18 تا 21)

اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی، ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی ۔ اور بہت سا مال غنیمت انہیں عطا کر دیا جسے وہ (عنقریب) حاصل کریں گے اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ اللہ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے، تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے۔ اِس کے علاوہ دوسرے اور غنیمتوں کا بھی وہ تم سے وعدہ کرتا ہے جن پر تم ابھی تک قادر نہیں ہوئے ہو اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ حضرتﷺ نے ارادہ کیا کہ عمرہ ادا کریں، پس اعراب اور بادیہ نشینوں کو اس سفر میں ہمراہی کے لیے دعوت دی۔ اس لیے کہ اندیشہ تھا کہ کفار مکے میں لڑائی کریں اور مکے کے اندر نہ جانے دیں، لیکن اکثر اعراب نے حضرت ﷺ کی دعوت کو نہ سنا اور اس سفر میں آپ ﷺ کے ہمراہ نہ ہوئے، مگر وہی خالص مخلص کہ جو سراپا ایمان سے بھرے ہوئے تھے، حضوری میں چلے، جب مکے کے قریب پہنچے، قریش مانع ہوئے، تب حضرت نے حراش کو اہل مکہ کے پاس بھیجا مگر لوگ اس کے قتل کے درپے ہوئے، وہ لوٹ آیا، تب حضرت ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجا، اہل مکہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قید کر لیا اور ان کے قتل کی خبر مشہور ہوئی ، تب حضرت ﷺ نے اپنے یاروں کو جو آپ ﷺ کے ساتھ تھے، جمع کیا ، جن کی تعداد باختلاف روایات چار سو سے لے کر دو ہزار تین سو تک تھی اور حضرت ﷺ نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر سب سے بیعت لی کہ قریش سے لڑیں اور کسی طرح پر منہ نہ پھیریں، چنانچہ ان سب نے خوشی سے بیعت کی، سوائے قید بن قیس منافق کے ، کسی نے اس بیعت سے تخلّف نہ کیا۔ چونکہ اس سفر میں منافقوں کا نفاق اور مخلصوں کا اخلاص ظاہر ہوا اور بیعت میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی مضبوطی اور ایمان کا حال کھل گیا، اس لیے اس بیعت کا نام "بیعت الرضوان" ہوا۔ اور انہی بیعت کرنے والوں کی شان میں خدا نے فرمایا:

لَّقَدْ رَ‌ضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَ‌ةِ
کہ خدا راضی ہوا ان ایمان والوں سے کہ جنہوں نے درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کی۔

فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ اور ان کے دلوں کا اخلاص اس سے ظاہر ہو گیا، اگر وہ منافق ہوتے تو اس سفر میں ساتھ نہ آتے اور کبھی ایسے وقت پر بیعت نہ کرتے ،فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ اور ان کے دلوں کو طمانیت اور تسکین دے دی ، حتیٰ کہ بلا خوف و خطر لڑائی پر مستعد ہوئے اور مرنے مارنے پر تیرے ہاتھ پر بیعت کی، وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِ‌يبًا اور ان کی شکستگی دور کرنے کے لیے ان کو بہت ہی جلد بہت سی غنیمتیں دیں اور بڑی بڑی فتوحات اور غنائم کا مثل روم اور فارس کے وعدہ کیا۔

پس ان آیتوں سے ان سب اصحاب رضی اللہ عنہم کی جنہوں نے حضرت ﷺ کے ساتھ درخت کے نیچے بیعت کی، بزرگی ثابت ہوتی ہے اور ان کا اخلاص اور ایمان میں کامل ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ کوئی لفظ کوئی حرف بھی خدا نے ان آیتوں میں ایسا ذکر نہ کیا ، جس سے کوئی موقع کوئی محل انکار کا ہو، بلکہ اپنی رضامندی کا اظہار اس طور سے کیا کہ جس کا کبھی زوال نہ ہو اور ان فتوحات کا وعدہ کیا، جن کا ظہور انہی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاتھ پر ہوا۔

  • اب ہم شیعیان علی سے پوچھتے ہیں کہ وہ اوّل یہ فرمائیں کہ یہ آیت قرآن مجید کی ہے یا نہیں؟
  • اگر ہے تو یہ انہی لوگوں کی شان میں ہے، جنہوں نے پیغمبر خدا ﷺ کی بیعت درخت کے نیچے کی تھی یا نہیں؟
  • اگر انہی کی شان میں ہے تو ان میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین داخل تھے یا نہیں؟
  • اگر تھے تو جو کچھ خدا ان بیت کرنےوالوں کے حق میں فرماتا ہے کہ ((لقد رضی اللہ)) کہ میں ان سے راضی ہوا تو اس رضا میں وہ لوگ بھی آ گئے یا نہیں؟
  • اگر نہیں آئے تو ان کے مستثنیٰ ہونے پر کیا دلیل ہے؟
  • اور اگر وہ بھی آ گئے تو جن سے خدا راضی ہو اور جن کی شان میں خود لقد رضی اللہ فرما دے، ان سے ناراض ہونا اور ان کو برا جاننا، آیت قرآنی سے انکار ہے یا نہیں؟
  • اگر یہ کہو کہ وہ منافق تھے تو اس کا رد بھی خدا نے خود فرما دیا کہ ((فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ)) کہ میں نے ان کے دلوں کا امتحان کر لیا اور سمجھ لیا کہ یہ بڑے پکے مسلمان اور سچے ایمان والے ہیں، اسی لیے میں نے نازل کی ان پر تسلی اور دی ان کو فتح، اور اگر وہ لوگ منافق ہوتے تو کیوں خدا ان کے ایمان پر شہادت دیتا اور کیوں ان کوفتح اور غلبہ عنایت کرتا؟


ان آیتوں کو دیکھ کر اگر کسی شیعہ کو خطرہ پیدا ہو کہ جب ایسی صریح آیت صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں خدا کی کتاب میں موجود ہے تو پھر کیا سبب ہے کہ ہمارے مذہب کے علماء نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت سے انکار کیا، ضرور کوئی نہ کوئی سبب ہوگا، ورنہ کیا سب عالم، سب مولوی، سب فاضل، سب مجتہد ہمارے مذہب کے نادان تھے کہ ایسی آیت سے ایسا صریح انکار کیا اور اس کے باوجود بھی صحابہ کو برا جانا۔۔۔اس لیے ہم انہی کے مذہب کی معتبر تفسیروں سے اپنے دعوے کو ثابت کرتے ہیں اور یہ امر کہ ان کے مولوی اور عالم نادان تھے یا دانا، ایمان والے تھے یا بے ایمان، منصف تھے یا متعصب، انہی کی عقل پر چھوڑتے ہیں، ان کی تفسیروں کو دیکھ کر جو کچھ وہ انصاف سے مناسب جانیں ویسا کریں۔

اے بھائیو! سنو کہ تمہارے یہاں کے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں کیا لکھا ہے۔ کاشانی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
((آنحضرت فرمودند بدوزخ نہ رودیک کس از مومناں کہ درزیر شجرہ بیعت کردندو ایں رابیعت الرضوان نام نھادہ اند نجھت آں کہ حق تعالیٰ درحق ایشاں فرمود کہ لقد رضی اللہ عن المؤمنین اذیبا یعونک تحت الشّجرۃ))
"آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے جن مسلمانوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ہے، ان میں سے کوئی دوزخ میں نہیں جائے گا اور اس بیعت کو بیعت الرضوان کہتے ہیں ، کیونکہ اللہ نے ان بیعت والوں کی شان میں فرمایا ہے کہ اللہ ان مسلمانوں سے راضی ہوا، جنہوں نے آپ ﷺ سے درخت کے نیچے بیعت کی ہے۔ "
اگر اس روایت پر اطمینان نہ ہو اور حضرات شیعہ کو اپنے متکلمین اور متعصبین کے جواب سننے کا اشتیاق ہو تو اس کو بھی سنیں کہ ان کے علماء نے اس آیت کو دو طرح پر رد کیا ہے۔

  • بعضوں نے (قاضی نور اللہ شوستری، مجالس المومنین) یہ فرمایا ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ خداوند تعالیٰ اس فعل خاص سے، یعنی بیعت سے راضی ہوا ہو اور آئندہ بھی راضی رہے۔۔
  • اور بعض (تقلیب الکائد) کا یہ قول ہے کہ اس بیعت کے بعد صحابہ کبار نے وہ کام کیے جو اس بیعت کے مخالف تھے، یعنی لڑائیوں میں بھاگ گئے، خلیفہ برحق کی خلافت غصب کر لی۔۔۔پس وہ اس آیت کے وعدے سے خارج ہو گئے۔


پس بہ نسبت اوّل امر کے ہم یہ جواب دیتے ہیں کہ خدا کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ صحابہ کے اور کاموں سے راضی نہ تھا، صرف ایک فعل خاص بیعت سے راضی ہوا، اس لیے (لقد رضی اللہ عن المؤمنین) الفتح: 18، فرمایا یہ ایسی تہمت ہے کہ کوئی مسلمان اپنے دل میں اس کا خیال بھی نہیں کر سکتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر خدائے عزوجل ان بیعت کرنے والوں سے ہر طرح سے راضی نہ ہوتا تو وہ لقد رضی اللہ عن المؤمنین، صرف ان کے دل خوش کرنے کو براہِ تدلیس فرماتا اور ان کی جن باتوں سے ناراض تھا، ان کو تقیۃً ظاہر نہ کرتا۔۔۔اور یہ امر بھی غور کرنے کے لائق ہے کہ حضرات شیعہ کو کس طرح سے معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اور کاموں سے خدا ناراض تھا، آخر کیوں کر ان کو اس کی نارضامندی کا حال معلوم ہوا۔

نہایت تعجب کا مقام ہے کہ خدا ان کے اس فعل کو جس سے راضی ہوا لقد رضی اللہ کہہ کر ظاہر کرے اور ان کے ان کاموں کو جن سے ناراض ہوا، سوائے شیعیان عبداللہ بن سبا کے کسی پر اظہار نہ فرمائے ۔۔۔شاید شیعیان پاک یہ جواب دیں کہ اس قرآن میں جو امام مہدی کے پاس ہے، اصحاب کی برائیاں لکھی ہوئی ہیں، مگر ہم جب تک اس کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لیں اور امام صاحب سے اس کی تصدیق نہ کر لیں اس کو قبول نہیں کر سکتے۔لیکن افسوس تو یہی ہے کہ نہ امام صاحب کا کچھ نشان ملتا ہے نہ اس قرآن کا کچھ پتہ چلتا ہے۔ ہزار برس تو گزر گئے اور ہنوز معلوم نہیں کہ ابھی اور کتنے دن امام کے ظہور میں باقی ہیں۔
صد شب ہجر گزشت و مہ من پیدانیست
طرفہ عمرے کہ بصد سال ندیدم یک ماہ
"فراق کی سینکڑوں راتیں گزر گئیں اور میرا چاند (محبوب) نہ نکلا اور عمر کا تماشا یہ ہے کہ سو سال سے میں نے ایک چاند نہ دیکھا۔"

اور بہ نسبت امر دوم کے کہ صحابہ کبار اس آیت کے وعدے سے بہ سبب نکث بیعت کے خارج ہیں، اس کا جواب ہم اس طرح دیتے ہیں کہ اس اعتراض سے بھی اتنا ثابت ہوتا ہے کہ بیعت رضوان کے وقت تک صحابہ کبار اور مہاجرین و انصار سچے مسلمان اور پکے مومن تھے، نہ منافق تھے ، نہ کافر اور ان کی بیعت صادق تھی، نہ کہ منافقانہ۔۔۔چنانچہ یہ فقرہ صاحب "تقلیب المکائد" کا کہ "ایں کلام معجز نظام دلالت می کندبرینکہ بعضے از اہل بیت رضوان نکث بیعت خواہند کرد" (یہ معجزانہ کلام اس پر دلالت کرتا ہے کہ کچھ بیعت رضوان والے بیعت کو توڑ دیں گے)، اس پر دلیل ہے کہ جب بیعت کی تھی، اس وقت تک نہ منافق تھے ، نہ کافر، بلکہ لقد رضی اللہ عن المؤمنین میں داخل تھے۔۔۔

اور شہید ثالث نور اللہ شوستری کا یہ کلمہ کہ
"مدلول آیۃ عندالتحقیق رضائے حق تعالیٰ است ازاں فعل خاص کہ بیعت است و کسی منکر ایں نیست کہ بعضے از افعال حسنہ مرضیہ ازیں شاں واقع است"
"آیت کا مفہوم اس فعل خاص یعنی بیعت سے رضامندی ہے اور اس کا تو کوئی منکر نہیں ہے کہ کچھ اچھے پسندیدہ کام ان سے ہوئے ہیں"

اس پر شاہدہے کہ ان کا بیعت کرنا فعل حسنہ تھا، بس اسی سے یہ اعتقاد کہ "صحابہ کبار اول سے منافق تھے" باطل ہوا۔ اور جب تک یہ آیت جس میں خدا نے اپنی رضامندی ظاہر کی، نازل ہوئی، ان کا مسلمان اور باایمان ہونا ثابت ہوا۔

خیر اب آگے چلیے اور اس بیعت کے بعد ان کے حال پر نظر کیجیے کہ کیا کام ان سے ایسے ہوئے ، جن سے ان کی نکث بیعت کرنا ثابت ہوا اور وہ کام کس وقت ہوئے، پیغمبر ﷺ کے جیتے جی یا ان کی وفات کے بعد۔ چنانچہ اس کی نسبت شہید ثالث اور صاحب تقلیب المکائد نے جو کچھ لکھا ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعد پیغمبر ﷺ کے سامنے ان سے نکث بیعت ہوا۔ یعنی وہ جنگ خیبر میں ثابت قدم نہ رہے بلکہ بھا گ گئے۔۔۔

اس کی نسبت ہم یہ جواب دیتے ہیں کہ اگرچہ قلعہ خیبر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے فتح نہیں ہوا، لیکن فتح نہ ہونا مستلزم فرار نہیں ہے۔ جنگ خیبر سے بھاگنا، حضرات شیعہ نے کہاں سے ثابت کیا اور بالفرض اگر وہ جنگ خیبر سے بھاگے اور انہوں نے نکث بیعت کیا تو جس طرح پر ہم نے ان کی بیعت کو خدا کے کلام سے ثابت کیا اور خدا کی رضامندی کا لقد رضی اللہ کی آیت پیش کر کے ثبوت دیا، اسی طرح پر حضرات شیعہ کے ذمہ ہے کہ بمقابلہ اس آیت کے جنگ خیبر سے ان کا بھاگنا اور نکث بیعت کرنا اور خدا کا ان سے ناراض ہونا کسی آیت سے ثابت کر دیں (واذ لیس فلیس) ۔۔۔

اور ہم خوب یقین کرتے ہیں کہ اگر صحابہ کبار سے کوئی فعل بد اس بیعت کے بعد خدا کی نارضامندی کا ہوتا تو ضرور وہ اس کی بھی خبر دیتا اور جس طرح پر ان کی بیعت سے راضی ہو کر لقد رضی اللہ فرما دیا، اسی طرح پر ان کے فرار اور نکث بیعت سے ناراض ہو کر لقد غضب اللہ علیھم ارشاد فرماتا۔ اس لیے کہ لڑائی سے بھاگنا اور بیعت کا توڑنا آخر پیغمبر ﷺ ہی کے سامنے ہوا، اس وقت تک وحی کا سلسلہ جاری تھا، جبرئیل علیہ السلام کا آنا بند نہ ہوا تھا۔ پھر کیا سبب ہے کہ خدا ان کے اچھے کاموں کو ظاہر کرے اور برے کاموں کی خبر تک نہ دے، ان کے اعمال حسنہ کی تو شہرت دے دے اور ان کے افعال بد کی پردہ پوشی کرے۔
پس یا تو خدا ان سے ڈرتا تھا (نعوذباللہ) کہ ان کی برائی بیان نہ کر سکتا تھا یا درحقیقت ان سے کوئی برائی نہ ہوتی تھی جس کو ظاہر کرتا۔ اگر کوئی لغزش ہو جاتی تھی تو اس کو معاف کر دیتا تھا اور ان کے نیک کاموں کو خیال کر کے اس کو براہِ ستاری چھپا دیتا تھا۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ بعد وفات پیغمبر ﷺ کے صحابہ کبار نے ایسے فعل کیے کہ جن سے خدا ناراض ہوا مثل خلافت غصب کرنے کے ۔۔ان کی نسبت ہم کہتے ہیں کہ اگر ان سے پیغمبر خدا کی وفات کے بعد کوئی کام ایسا ہونے والا تھا کہ جس سے خدا ناراض ہوتا تو ضرور اس کی خبر دیتا اور کبھی ان کے حق میں لقد رضی اللہ نہ فرماتا اور جب کہ خدا نے اس آیت میں یہ فرما دیا ((فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ)) کہ میں ان کے دلوں کی بات جانتا ہوں اور فرمایا کہ ((فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ)) کہ میں نے نازل کی ان پر تسلی، تو کیوں کر قیاس میں آسکتا ہے کہ ایسے لوگ کبھی جادہ حق سے منحرف ہوئے ہوں۔۔

لیکن ہم حضرات شیعہ سے عرض کرتے ہیں کہ وہ کیوں سوال و جواب میں اپنے اوقات ضائع کرتے ہیں اور کیوں علامہ کاشانی کی تفسیر کے ان لفظوں کو نہیں دیکھتے ہیں کہ

"آنحضرت فرمود بدوزخ نہ رود یک کس از مومناں کہ درزیر شجرہ بیعت کرند"
اس مفسر نے تو کچھ قصہ جھگڑا باقی ہی نہیں رکھا، عام بشارت جنت کی ، ان لوگوں کے حق میں جو اس بیعت میں شریک تھے، پیغمبر ﷺ کی زبان سے تصدیق کر دی۔۔۔لیکن اگر اس ایک روایت پر اطمینان نہیں ہوتا تو اس کی تائید میں دوسری روایت سنیں کہ ترجمہ "کشف الغمہ" میں لکھا ہے:

"جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم لوگ اس (بیعت رضوان) کے دن چودہ سو افراد تھے، اس دن میں نے پیغمبر خدا ﷺ سے سنا کہ حاضرین کو آپ ﷺ خطاب کر رہے تھے کہ تم لوگ روئے زمین میں سب سے بہتر ہو اور ہم لوگوں نے اسی دن بیعت کی تھی، بیعت کرنے والوں میں سے کسی نے سوائے قید بن قیس کے بیعت نہیں توڑی، وہ منافق تھا اس نے بیعت توڑ دی۔"
اس روایت سے چند فائدے حاصل ہوئے:
1۔ یہ ثابت ہوا کہ بیعت کے وقت چودہ سو صحابی موجود تھے، جن کے ایمان اور اسلام کی خبر خدا دیتا ہے کہ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ اور ان کی شان میں فرماتا ہے : لَّقَدْ رَ‌ضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ
2۔ پیغمبر خدا ﷺ نے ان کی نسبت فرمایا کہ تم بہترین امت سے ہو۔
3۔ ثابت ہوا کہ سوائے ایک منافق کے اور کسی نے بیعت کو نہیں توڑا۔

پس اے شیعیان پاک! اب تم انصاف سے ان روایتوں کو دیکھو اور اپنے شہید ثالث اور صاحب "تقلیب المکائد" کے ایمان اور انصاف پر خیال کرو کہ وہ محبت اہل بیت کے پردے میں کیسی خدا کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں اور کس طرح ایسے نصوص سے انکار فرماتے ہیں۔ لیکن اگر ہم صحابہ رضی اللہ عنہم کی برائیوں کو تسلیم بھی کر لیں تب بھی شہید ثالث کی تقریر کا کچھ فائدہ نظر نہیں آتا، اس لیے کہ جو علامہ کاشانی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ "آنحضرت فرمود بدوزخ نہ رودیک کس ازاں مومناں کہ درزیر شجرہ بیعت کردند" اس کاکیا جواب ہے، بغیر اس کے کہ یہ کہا جائے کہ حضرت نے تقیہ سے کہہ دیا ہوگا۔

اس مقام پر یہ امر بھی لکھنے کے قابل ہے کہ اگر کوئی شبہ کرے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس بیعت میں شریک نہ تھے، اس لیے وہ بیعت رضوان سے خارج ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پیغمبر خدا ﷺ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ایسی محبت تھی کہ بیعت میں ان کے موجود نہ ہونے کے باوجود ان کو شریک کر لیا اور کیسا شریک کیا کہ اپنے ہاتھ کو ان کا ہاتھ بنا دیا۔ (کتاب الروضۃ)۔ چنانچہ اس مقام پر مولانا و بالفضل مولانا مولوی علی بخش خان صاحب نے اپنے ایک رسالہ میں لکھا ہے: اسی کو ہم بجنسہ نقل کرتے ہیں۔ وھو ھذہ۔

"اور واسطے حصول شرف بیعت الرضوان کے رسول ﷺ نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بھی اپنے دونوں ہاتھوں سے وہ معاملہ فرمایا کہ دست حق پرست اپنے کو عثمان کا ہاتھ قرار دیا۔ روضہ کلینی میں حدیث وارد ہے کہ بیعت لی ، پیغمبر خدا ﷺ نے مسلمانوں سے اور ایک ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ پر مارا واسطے عثمان رضی اللہ عنہ کے کہ وہ لشکر میں مشکروں کے تھے"

اس حدیث سے علاوہ قطعیت مغفرت و رضوان الٰہی کے ، ایک عمدہ لطیفہ ہاتھ آیا، کہ دست نبی ﷺ ، دست عثمان رضی اللہ عنہ قرار پایا، اور دست نبی وہ ہے کہ مجازاً دست خدا ہے۔ یداللہ فوق ایدیھم۔
اب دیکھئے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو "یداللہ" یا "یدالنبی" (اللہ کا ہاتھ یا نبی کا ہاتھ) کا خطاب منصف مزاج عطا کرتے ہیں یا اس لقب کو پھر بھی مخصوص علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے کہے جاتے ہیں۔ انتہی بلفظہ۔ (واللہ درہ وعلی اللہ اجرہ) اور اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر خدا ﷺ کو اپنے یاروں کی یاری پر نہایت بھروسا تھا اور ان کے استقلال پر یقین کامل تھا۔ اس لیے کہ جب لوگوں نے کہا کہ خوشا حال عثمان رضی اللہ عنہ کا ، کہ ان کو خانہ کعبہ کا طواف نصیب ہو گیا تو حضرت ﷺ نے فرمایا یہ ممکن نہیں ہے کہ عثمان بغیر ہمارے طواف کرے، آخر ویسا ہی ہوا کہ بغیر حضرت ﷺ کے ، عثمان رضی اللہ عنہ نے طواف نہ کیا۔ چنانچہ اسی حدیث کے مضمون کو "حملہ حیدری" کے مؤلف نے بھی نظم کیا ہے۔

غرض کہ ہم شیعہ حضرات سے التماس کرتے ہیں کہ وہ ذرا انصاف فرمائیں کہ ان کے مفسرین اور محدثین اور مؤرخین صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت کیا لکھتے ہیں اور ان کے استقلال اور صبر اور ایمان اور اسلام کو کیسا تسلیم کرتے ہیں اور پھر بایں ہمہ ان سے عداوت رکھتے ہیں اور ایسے لوگوں کو جن کے ایمان اور اسلام پر پیغمبر ﷺ کو اطمینان ہو اور جن کی لغزش کرنے کا شبہ تک حضرت کے دل پر نہ گزرے اور جو باوجود مصیبتوں اور محنتوں کے سرمو اطاعت نبوی سے باہر نہ ہوں اور جن کے استقلال اور صبر کی خدا تعریفیں کرے، منافق اور مرتد کہتے ہیں (نعوذباللہ من ذالک)۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرات شیعہ کس طرح ایسے سچے مسلمانوں اور پکے ایمان والوں کو منافق کہتے ہیں اور کیوں کر ایسی صریح آیات اور سچی روایات سے انکار کرتے ہیں۔ اس لیے کہ جب کوئی شخص ان آیتوں اور حدیثوں اور روایتوں کو دیکھے تو بھلا ممکن ہے کہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل میں شبہ کر سکے، یا ان کی نسبت نفاق اور ارتداد کا خطرہ بھی اس کے دل میں گزر سکے۔

غور کرنے کا مقام ہےکہ خدا نے ان کے حالات بیان کرنے میں فقط کنائے اور اشارے پر قناعت نہ فرمائی بلکہ صاف صاف تصریح کر دی اور ٹھیک ٹھیک پتہ اور نشان ان کا بتلا دیا اور ایسی صریح آیتوں کو نازل کر کے منکرین کے شبہات کو دور کر دیا۔ اگر پیغمبر صاحب ﷺ کے اوپر ایمان لانے والوں کی فقط خدا اجمالی تعریف کرتا تو منکرین کو تاویل اور شبہے کا موقع تھا مگر جب صاف کہہ دیا کہ میں ان مسلمانوں سے راضی ہوں، جنہوں نے پیغمبر ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اور جگہ بھی بیعت کرنے کی بتلا دی کہ درخت کے نیچے اور یہ بھی کہہ دیا کہ یہ لوگ پیغمبر ﷺ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے ہیں، بلکہ میرے ہاتھ پر۔ تو اب کون شخص ہے جو ایسی بیعت کرنے والوں کے ایمان اور اخلاق پر شبہ کر سکے ، ہاں یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ شاید بیعت کرنے والے وہی معدودے چند ہوں جو موافق اعتقاد شیعوں کے مرتد نہیں ہوئے، لیکن جب کہ علمائے شیعہ نے اس امر کو تسلیم کر لیا کہ صحابہ کبار چودہ سو اس بیعت میں شریک تھے اور یہ بھی قبول فرما لیا کہ انہی کی شان میں خدا نے اس آیت کو نازل کیا اور اس کا بھی اقرار کیا کہ سوائے ایک منافق کے اور کسی نے بیعت کو نہیں توڑا تو ہم کو نہایت ہی تعجب آتا ہے کہ کیوں کر ایسی بیعت کرنے والو ں کے حق میں ایسا فاسد اعتقاد رکھتے ہیں!

لیکن یہ خیال کر کے کہ حضرات شیعہ کو نہ خدا کے کلام پر یقین ہے، نہ پیغمبر ﷺ کی حدیثوں پر ، نہ اماموں کے اقوال پر ، تو کچھ تعجب نہیں ہوتا ، اگر ان میں سے کسی پر عمل ہوتا تو کبھی ایسا عقیدہ نہ رکھتے۔
اے بھائیو! تمہارے حق میں ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ جل شانہ ، تم کو ایک ذرہ بھر ایمان عطا کردے تاکہ تم لوگ اپنے عقیدوں کی برائیوں پر خود ہی اقرار کرنے لگو اور جو ہم تم کو سمجھاتے ہیں ، وہ تم خود ہی سمجھنے لگو۔ اے یارو! ذرا ایسے عقیدوں پر غور کرو اور سوچو کہ ان میں کچھ بھی اثر ایمان اور اسلام کا ہے، اگر ہے تو دکھاؤ۔

نالہ حزنیت کو آہ آتشنیت کو
لاف عشق بازی چند عشق رانشا نیھاست

"تیرے حزن و ملال اور آہ آتش کون سنتا ہے، عشق کی نشانی عشق بازی کی چند ڈینگیں ہیں۔"


موضوع ابھی جاری ہے۔۔۔ازراہ کرم تکمیل تک تبصرہ جات سے گریز کیجئے، شکریہ۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
پانچویں آیت:
لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (الانفال: 68)
"اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی "
شان نزول اس آیت کا یہ ہے کہ جب لڑائی بدر کی فتح ہوئی اور مشرکین قید میں آئے، تب پیغمبر خداﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ ان قیدیوں کو کیا کرنا چاہیے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کی گردنیں مار دینا چاہیے بلکہ جو جس کا رشتہ دار ہو وہی اپنے ہاتھ سے اس کو قتل کرے اور خدا کی محبت کے سامنے دوسرے کی محبت کا خیال نہ کرے۔

لیکن حضرت ﷺ نے موافق مشورے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور اس روایت کو علماء اور مفسرین امامیہ بھی تصدیق کرتے ہیں۔
چنانچہ تفسیر خلاصۃ المنہج کاشانی میں لکھا ہے کہ بدر کی لڑائی میں ستّر (70) آدمی قید ہوئے منجملہ ان کے عباس اور عقیل (رضی اللہ عنہم) بھی تھے ۔ حضرت ﷺ نے ان کے باب میں اپنے یاروں سے مشورہ کیا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہ وہ بھی مہاجرین میں سے تھے کہا کہ یا رسول اللہ!یہ سب چھوٹے بڑے آپﷺ کی قوم اور قبیلے کے ہیں۔ اگر ہر ایک بقدر طاقت و استطاعت اپنی کے کچھ فدیہ دے ، تو امید ہے کہ ایک دن دولت اسلام پر پہنچیں۔

مجمع البیان طبرسی میں لکھا ہے کہ پیغمبر خداﷺ نے بدر کے دن قیدیوں کے باب میں اپنے یاروں سے کہا کہ اگر تم چاہو ان کو مار ڈالو اور چاہو جانے دو۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ! انہوں نے آپ ﷺ کو جھیلایا اور آپ ﷺ کو نکالا، اس لیے ان کی گردنیں مارنا چاہیے، عقیل کو علی رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمائیے کہ وہ ان کو ماریں اور فلاں شخص کو میرے سپرد کیجیے کہ میں اس کو قتل کروں اور یہ سب سردارانِ کفار سے ہیں۔ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! یہ آپ ﷺ کی قوم اور رشتے کے لوگ ہیں، فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہیے۔ چنانچہ اسی طرح پر حضرت نے کیا، تب یہ آیت نازل ہوئی اور پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا کہ اگر عذاب نازل ہوتا آسمان سے ، تو سوائے عمر رضی اللہ عنہ اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے کوئی نجات نہ پاتا۔

ان روایتوں سے باقرار علمائے امامیہ چند فائدے حاصل ہوئے:

1۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مہاجرین اور اہل بدر سے ہونا۔
2۔ پیغمبر خدا ﷺ کا ان سے مشورہ کرنا۔
3۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کافروں پر سخت ہونا اور خدا کی راہ میں قرابت اور برادری کا کچھ خیال نہ کرنا۔۔۔

اور جو کچھ ان فائدوں سے فائدے حاصل ہوتے ہیں، ان کو ہم بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مہاجرین میں سے ہونا ثابت ہوا تو جو فضیلتیں اللہ جل شانہ نے مہاجرین کی بیان کی ہیں اور جن کو اوپر ہم نقل کر چکے ہیں، وہ سب ان کے حق میں ثابت ہوئیں۔۔

دوسرے جو بعض امامیہ نے انکار کیا ہے کہ اصحاب ثلاثہ مہاجرین میں سے نہ تھے، وہ قول باطل ہوا۔ چنانچہ "تقلیب المکائد" کے مؤلف نے مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب قدس اللہ سرہ کے تحفہ کے باب مکائد شیعیان کے کیدنودو یکم کے جواب میں کہ ۔۔۔"اصحاب ثلاثہ از مہاجرین اولین نبودند" ((یعنی ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم) مہاجرین اولین میں سے نہیں تھے)

تیسرے امامیہ کا یہ گمان کہ معاذاللہ! حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابتدا ہی سے منافق تھے اور کبھی دل سے ایمان نہ لائے تھے اور ان کی نیت نیک نہ تھی، فاسد ٹھہرا، جیسا کہ جناب میرن صاحب قبلہ حدیقہ سلطانیہ کے باب سوم میں لکھتے ہیں:
(ترجمہ)
"شیخین کی سیرت ان کی بدباطنی پر دلالت کرتی ہے کہ چھپانے کے وقت میں آنحضرت ﷺ سے تبلیغ اسلام کی خواہش کی اور رسول اللہ ﷺ کی تکلیف کے درپے رہتے تھے اور اعلانِ دعوت کے وقت آپ ﷺ کی حمایت و اعانت سے باز رہے۔"
اگر میرن صاحب قبلہ زندہ ہوتے تو میں پوچھتا کہ حضرت ، اگر شیخین رضی اللہ عنہما کی نیت نیک نہ ہوتی اور وہ اعلان کے وقت نصرت سے ہاتھ کھینچتے ہوتے تو بدر کی لڑائی میں کیوں شریک ہوتے اور کیوں خدا ان کے ہاتھ پر فتح دیتا اور کیوں پیغمبر خدا ﷺ ان سے مشورہ کرتے اور کیوں آپ کے جد امجد کاشانی اور طبرسی مہاجرین اور اہل شوریٰ میں ان کا ہونا قبول کرتے۔۔

اے مسلمانو! شیعوں کے ایمان اور عقل و حیا پر غور کرو کہ وہ شیخین رضی اللہ عنہما کی نسبت جو کہ اپنی تمام جان سے پیغمبر ﷺ کے عاشق تھے اور اپنا تمام مال حضرت پر فدا کر چکے تھے اور جو شب و روز اظہار دعوت کے لیے اصرار کیا کرتے تھے، یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کی نیت اس اصرار سے یہ تھی کہ پیغمبر خدا ﷺ اظہار دعوت کریں اور لوگ ان کو ستاویں اور ہلاک کر ڈالیں۔۔۔افسوس ایسے عقیدے پر۔۔۔خیر میرن صاحب قبلہ جو چاہیں فرمائیں اور ان کے پدر بزرگوار جو دل میں آئے ارشاد کریں لیکن اس امر کو کہ شیخین رضی اللہ عنہما مہاجرین اور اصحاب بدر میں سے تھے، جھٹلا نہیں سکتے اور ہمارا مطلب اتنی ہی بات سے حاصل ہوا جاتا ہے اس لیے کہ جب وہ مہاجرین میں سے تھے ، تو ان فضیلتوں کے مستحق ہیں جو خدا نے جابجا قرآن مجید میں ہجرت کرنے والوں کی بیان کی ہیں اور جب کہ وہ اہل بدر سے تھے تو وہ اس مغفرت کے وعدے میں شریک ہیں، جو اللہ جل شانہ نے اہل بدر سے کیا ہے کہ میں نے ان کو مرفوع القلم کر دیا ہے، چنانچہ اس امر کو علمائے امامیہ بھی قبول کرتے ہیں۔

علامہ کاشانی خلاصۃ المنہج میں تفسیر کریمہ ((ما کان للنّبی ّ ان یّکون لہُ اسریٰ)) کی بایں الفاظ کرتے ہیں:
((اگر نہ حکمی و فرمانے می بود از خداتعالیٰ کہ پیشی گرفتہ شدہ اثبات آں درلوح محفوظ کہ بے نھی صریح عقوبت نہ فرماید، یا اصحاب بدر را عذاب نکند۔))
"اگر خدا تعالیٰ کا حکم و فرمان پہلے ہی سے لوح محفوظ میں ثابت نہ ہوتا کہ صریح ممانعت کے بغیر سزا نہ دے گا یا اصحاب بدر کو سزا نہ دے گا۔"
اور اسی طرح پر تفسیر مجمع البیان طبرسی میں لکھا ہے کہ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا ہے:
(لعلّ اللہ اطّلع علیٰ اھل بدر نغفر لھم فقال اعملوا ماشئتم فقد غفرت لکم۔))
"خدا نے اہل بدر کی شان میں فرما دیا ہے کہ جو چاہو سو کرو میں تم کو بخش چکا ہوں۔"
اور تفسیر خلاصۃ المنھج میں لکھا ہے۔
((خدائے تعالیٰ بدریاں را وعدہ مغفرت دادہ و ایشاں رابخطاب مستطاب اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم نوازش فرمودہ۔))
"پس جب پیغمبر خدا ﷺ کی زبان مبارک سے تمام اہل بدر کا قطعی جنتی ہونا اور خدا کا ان کی نسبت اعملوا ماشئتم فقد غفرت لکم کہنا ثابت ہوا تو پھر اب صحابہ کبار علی الخصوص اصحاب ثلاثہ کے قطعی جنتی ہونے میں کون سا شبہ رہا۔"
اے یارو! ہم اب تک نہیں سمجھے کہ حضرات شیعہ کے مذہب کا مدار کس پر ہے، اگر خدا کے کلام پر ہے تو وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلتوں سے بھرا ہوا ہے، اگر پیغمبر خدا ﷺ کی حدیثوں پر ہے تو ان میں بھی انہی کی صفات کا تذکرہ ہے، اگر ائمہ علیہم السلام کی روایتوں پر ہے تو ان میں بھی ان کی خوبیوں کا بیان ہے، اگر اپنی ہی تفسیروں اورکتابوں پر ہے تو ان سے بھی ان کے فضائل کا ثبوت ہوتا ہے۔۔
پس اب اور کیسی سند یہ حضرات چاہتے ہیں ، جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل پر ہم پیش کریں اور کیسی دلیل چاہتے ہیں جو ان کی بزرگی کے ثبوت میں بیان کریں۔


اصل یہ ہے کہ اگر ایمان اور انصاف ہو تو خدا کے کلام اور رسول ﷺ کی احادیث اور ائمہ کے اقوال کو مانیں۔ جب ایمان اور انصاف ہی نہیں ہے اور عبداللہ بن سبا کی پیروی کرنی منظور ہے تو پھر کیوں کر اپنے پیرو مرشد کے سکھائے ہوئے عقیدوں کو چھوڑیں۔۔افسوس ہزار افسوس کہ بارہ سو برس گزر گئے اور اس ملعون یہودی کی ہڈیاں خاکستر تک ہو گئیں، مگر جو کچھ وہ اپنے شیعوں کو سکھلا گیا اس کو وہ نہیں بھولتے اور جس راہ پر وہ اپنے یاروں کو چلا گیا، اس سے نہیں ہٹتے۔ ہزار ہزار کوئی سمجھائے، لاکھ آیتیں اور حدیثیں دکھلائے ، مگر اپنے پیر و مرشد کے قول کے روبرو ایک پر بھی نظر نہیں کرتے۔ کلام اللہ کی تاویل کر دیں، حدیثوں کو بنا ڈالیں، اماموں کے قولوں کو رد کر دیں، مگر اپنے جد امجد کی بات کو نہیں بھولتے۔ جس عقیدے کو خیال کیجیے ۔ اس میں اسی ملعون کی تعلیم کا اب تک اثر ہے، جس مسئہ پر غور کیجیے اب تک اسی کمبخت کے قول پر عمل ہے۔ ولنعم ما قبل:

بلب زدود دل آہی کہ داشتم دارم
نشستنی بر راہی کہ داشتم دارم

موضوع ابھی جاری ہے۔ ازراہ کرم تکمیل تک تبصرہ جات سے گریز کریں۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
چھٹی آیت:

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُ‌وا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَ‌ةٌ وَرِ‌زْقٌ كَرِ‌يمٌ (انفال:74)
"جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور نصرت کی وہی سچے مومن ہیں ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے "

اس آیت پر ایمان لانے والے، مہاجرین اور انصار کے ایمان اور اسلام پر کچھ شبہ نہیں کر سکتے اور ان کی مغفرت اور جنتی ہونے میں کچھ شک نہیں لا سکتے ہیں، اس لیے کہ جب اللہ جل شانہ خود تصدیق فرماتا ہے کہ جن لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے گھر بار کو چھوڑا اور جنہوں نے پیغمبر ﷺ کو اور ہجرت کرنے والوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی اور ان کی مدد کی ، وہ سچے مسلمان اور پکے ایمان لانے والے ہیں، مغفرت اور رزق کریم ان کے حصہ میں ہے۔۔

پس خدا کی ایسی شہادت کو سن کر کون شخص ہوگا کہ مہاجرین اور انصار کے ایمان میں شبہ کرے اور ان کی مغفرت میں کلام کرے۔ شیعیان عبداللہ بن سبا کو ذرا سوچنا چاہیے کہ جب اللہ جل شانہ مہاجرین اور انصار کے ایمان کی تصدیق کرتا ہے اور ان کے حق میں ((أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا)) کی شہادت دیتا ہے اور ان کی شان میں (( لَّهُم مَّغْفِرَ‌ةٌ وَرِ‌زْقٌ كَرِ‌يمٌ )) فرماتا ہے، پھر کیوں کر ان کے دل میں ایسے پاک لوگوں کی طرف سے شبہ ہوتا ہے اور کس طرح ان کی زبان سے ایسے شخصوں کی نسبت کفر و نفاق کا کلمہ نکلتا ہے

((کبرت کلمۃ ً تخرج من افواھھم))
(بڑی بات ان کے منہ سے نکل رہی ہے)

اگر کسی کو شک ہو کہ یہ آیت ان مہاجرین اور انصار کی شان میں نہیں ہے، جن کی نسبت حضرات شیعہ نیک اعتقاد نہیں رکھتے، اس لیے ہم تفسیر مجمع البیان سے ، جو امامیہ کی معتبر تفاسیر میں سے ہے، اس آیت کی تفسیر لکھتے ہیں ، جس کو شک ہو وہ صفحہ 452 ، تفسیر مذکورہ، مطبوعہ تہران 1275ھ، کو دیکھ لے۔ مفسر موصوف لکھتا ہے کہ:

"خدا نے پھر ان آیتوں میں مہاجرین اور انصار کا ذکر کیا اور ان کی ثنا و صفت بیان کی، پس خدا کے اس قول کا کہ ((وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ)) کا یہ مطلب ہے کہ تصدیق کی انہوں نے خدا کی اور اس کے رسول ﷺ کی، اور ہجرت کی اپنے گھروں اور وطن سے، یعنی مکے سے مدینے کو اور جہاد کیا انہوں نے خدا کے دین کی ترقی کے لئے اور ((وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُ‌وا)) کے یہ معنی ہیں کہ جگہ دی مہاجرین کو اپنے گھروں میں اور مدد کی پیغمبر ﷺ کی ، اور ((أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا)) کا یہ مطلب ہے کہ وہی لوگ سچے مسلمان ہیں، اس لیے کہ انہوں نے اپنے ایمان کو ہجرت کر کے اور مدد دے کر ثابت کر دیا۔"
اس تفسیر کو دیکھ کر اگر حضرات شیعہ مہاجرین و انصار کی فضیلت کا اقرار نہ کریں، تو سوائے تعصب اور ضلالت کے ، کیا تصور کیا جائے۔ کاش! حضرات شیعہ بمقابلے ایسی صریح آیتوں اور ایسی صاف بشارتوں کے ، ایک دو آیت بھی قرآن سے ہم کو دکھلا دیتے اور جس طرح پر ہم نے ان کے فضائل اور درجات کو کلام اللہ سے ثابت کیا، وہ قرآن ہی کی سند سے ان کی ایک ہی برائی کا ثبوت پہنچاتے تو ہم ان کو کسی قدر معذور بھی جانتے۔۔۔لیکن افسوس تو ہم کو اسی بات کا ہے کہ ہم تو مہاجرین اور انصار کے فضائل میں قرآن کی آیتوں کو پیش کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کو بیان کرتے ہیں، اماموں کے قولوں کو انہیں کی کتابوں سے نکال کر دکھلاتے ہیں اور وہ ان سب کو چھوڑ کر چند مفتری، کذابوں کی جھوٹی باتوں کو پیش کرتے ہیں، اور ان لوگوں کے قولوں پر عمل کرتے ہیں، جن کو اماموں نے نکال دیا، جن پر اپنی زبان سے لعنت کی اور جن کو جھوٹا اور فریبی کا خطاب دیا۔ پس انصاف کرنے والے انصاف کر سکتے ہیں کہ خدا کے کلام پر ہم ایمان رکھتے ہیں یا حضرات ِ شیعہ اور قرآن کی آیات کی ہم تصدیق کرتے ہیں یا شیعیان عبداللہ بن سبا۔

اے یارو! اگر فرض کیا جائے کہ جو ہمارا اعتقاد صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت ہے وہ معاذاللہ باطل ہو، اور جو اعتقاد شیعوں کا بہ نسبت ان کے ہے، وہی صحیح ہو اور قیامت کےد ن اللہ جل شانہ عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر ہمارے اعتقاد باطل پر ہم سے جواب چاہے تو ہم اسی کی کتاب کو اس کے سامنے کر دیں گے اور نہایت ادب سے عرض کریں گے کہ الٰہ العالمین تو عادل ہے اور شیعوں کے مذہب کے موافق تیرا عدل اصول ایمان سے ہے تو اب تو ہی انصاف کر کہ یہ کتاب تیری ہے، جس کو ہماری ہدایت کے واسطے تو نے اپنے پیغمبر ﷺ کی معرفت نازل کیا اور اس کا نام کتابِ مبین رکھا اور اس کی عبارت اور مضمون میں اغلاق اور تصنع کو دخل نہ دیا، ہر چیز کو صاف صاف بیان کر دیا اور خود اس کا حافظ رہ کر اس کو تحریف سے محفوظ رکھا۔۔ پس خداوندا ہم نے تیری ہی کتاب کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ لیا اور جو کچھ اس میں تو نے کہہ دیا اور فرما دیا اسی پر ہم نے یقین کر لیا، مہاجرین اور انصار کی اس قدر بزرگیاں اور فضیلتیں تو نے بیان کیں کہ ہم ان کی نسبت نیک اعتقاد رکھنے پر مجبور ہو گئے اور تیری ہی شہادت سے ان کے ایمان اور اسلام پر بلکہ ان کے فضائل اور درجات پر معتقد ہو گئے ، کہیں تو نے ان کے حق میں فرمایا:

الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَ‌جَةً عِندَ اللَّهِ ۚ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (سورۃ التوبہ: 20)
"یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کیا، وہ اللہ کے یہاں بڑے درجہ والے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔"
کسی مقام پر تونے ان کی نسبت ارشاد کیا:

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُ‌وا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَ‌ةٌ وَرِ‌زْقٌ كَرِ‌يمٌ (سورہ الانفال: 74)
"یعنی جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی، وہی لوگ سچے مومن ہیں۔"
کسی جگہ ان کی شان میں تو نے فرمایا:

لَّهُم مَّغْفِرَ‌ةٌ وَرِ‌زْقٌ كَرِ‌يمٌ (سورہ الانفال: 74)
کہ ان کے لیے مغفرت اور رزق باکرامت ہے۔
کسی مقام پر ان کی صفت میں تو نے کہا:
وَالَّذِينَ هَاجَرُ‌وا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْ‌زُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِ‌زْقًا حَسَنًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ‌ الرَّ‌ازِقِينَ (الحج: 58)
اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، پھر قتل کر دیے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھّا رزق دے گا اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے۔
غرض کہ خدایا جب ہم نے تیری کتاب کو کھولا تو کوئی ورق اور کوئی صفحہ اس کا مہاجرین اور انصار کا ذکر سے خالی نہ پایا۔ کسی آیت سے ان کی برائی کا ثبوت کیسا، ان کی فضیلت پر شبہ تک نہ ہوا۔ جب تیری کتاب سے ان کی نسبت شہادت چاہی تو یہی معلوم ہوا:

((أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ))

جب قرآن سے ان کے واسطے فال کھولی تو یہی نکلا کہ :
أُولَئِكَ هُمُ الفآئزون

پس جب تو نے بایں بے نیازی ان کی صفات اور فضائل سے اپنی کتاب کو بھر دیا اور ان کی شان میں بار بار ((رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ)) فرمایا اور ہم کو ان کی اقتدا اور پیروی کی تاکید کی اور ان سے محبت رکھنے کی تحریص اور عداوت و کینہ رکھنے پر تہدید فرمائی تو ہم ان سے اگر محبت نہ رکھتے اور ان کو اچھا نہ جانتے اور ان کی اقتدا نہ کرتے ، تو کیا کرتے۔۔۔الٰہ العالمین تو نے ہم کو ان لوگوں میں تو پیدا نہیں کیا، جن کی نسبت تو نے فرمایا:


لِلْفُقَرَ‌اءِ الْمُهَاجِرِ‌ينَ الَّذِينَ أُخْرِ‌جُوا مِن دِيَارِ‌هِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِ‌ضْوَانًا وَيَنصُرُ‌ونَ اللَّهَ وَرَ‌سُولَهُ ۚ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (الحشر: 8)
"(نیز وہ مال) اُن غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں یہی راستباز لوگ ہیں "
اس گروہ میں تو نے ہم کو شامل ہی نہ کیا تھا، جس کی صفت میں تو نے ارشاد کیا ہے:
وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ‌ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ‌ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِ‌هِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُ‌ونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر:9)
جو اِن مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالحجرت میں مقیم تھے یہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے اِن کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی اُن کو دیدیا جائے اُس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔
ہم کو تو ان سب کے پیچھے مخلوق کیا اور ہم لوگوں کی نسبت پہلے ہی سے تو نے یہ لکھ دیا:
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَ‌بَّنَا اغْفِرْ‌ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَ‌بَّنَا إِنَّكَ رَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ (الحشر: 10)
جو اِن اگلوں کے بعد آئے ہیں، جو کہتے ہیں کہ "اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ، اے ہمارے رب، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے"
تو کیوں کر ہم ان پیشواؤں سے محبت نہ رکھتے اور کس طرح ان سے کینہ اور عداوت رکھتے۔۔ یہ کتاب تیری موجود ہے، جس کی نسبت تو نے فرما دیا تھا:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ‌ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر:9)
کہ ہم نے ذکر (قرآن) اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
اور اسی وعدے پر ہم اس کو برابر غیر محرف سمجھتے رہے اور اس پر ایمان رکھتے آئے۔ اگر یہ آیتیں جو مہاجرین اور انصار کی نسبت ہم نے بیان کیں، تیری کتاب میں موجود ہیں، تو پھر خدایا ہمارا کیا قصور اور کیا گناہ ہے، جن کو تو نے اچھا کہا، ہم نے اچھا جانا، جن کی تونے تعریفیں کیں، ان سے ہم نے محبت رکھی۔۔ہاں ، ان لفظوں کے تو نے اگر اور کچھ معنی رکھے ہوں اور اس عبارت کا مطلب اور کچھ ہو، تو ہم نہیں جانتے، تیرے ارشاد کے موافق تیری کتاب کو کھلی اور روشن کتاب سمجھتے تھے اور اس کو معمہ اور پہیلیوں کا مجموعہ نہ جانتے تھے۔ ۔ غرض کہ ہم نہیں جانتے کہ جب ہم یہ جواب دیں گے تو خداوند عادل کس جرم میں ہم کو سزا دے گا اور کس طرح ہم کو اپنی کتاب کا تصدیق کرنے والا نہ سمجھے گا۔ ہم کو تو یقین ہے کہ ضرور ایسے عقیدے سے خدا ہماری نجات کرے گا اور ہم کو اپنے رزق کریم میں سے حصہ عطا کرے گا۔

اے یارو! ہمارا جواب تو سن لیا ، اب کچھ اپنی جواب دہی کی فکر کرو کہ اگر تمہارا عقیدہ جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نسبت ہے، باطل ٹھہرا اور قیامت کے دن خدا نے تم سے مواخذہ کیا، تو تم کیا جواب دو گے ، ہمارے نزدیک تو سوائے اس کے دوسرا جواب نہیں ہو سکتا کہ خداوند ہم نے تیری کتاب کو اس لیے پس پشت ڈال دیا تھا کہ اس میں اصحاب رسول ﷺ نے تحریف کر دی تھی اور اس کو کم و بیش کر دیا تھا۔ جیسا تو نے نازل کیا ، ویسا نہ رکھا تھا اور اصلی مصحف امام صاحب کے پاس تھا، وہاں ہمارا گزر بھی نہ ہو سکتا تھا، کچھ نشان اور پتہ بھی امام صاحب کا ملتا نہ تھا۔۔۔پس ہم کیوں کر مصحف عثمانی پر عمل کرتے اور کیوں کر محرف قرآن کی تصدیق کرتے، ہم تو کبھی اس کو دیکھتے بھی نہ تھے، حفظ یاد کرنے کا ذکر کیا ہے، کبھی اس کو پڑھتے بھی نہ تھے، بلکہ ہمیشہ امام صاحب کے خروج کی دعا کیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ جو اصلی قرآن تھا، اس کے دیکھنے پر جان دیتے تھے، مگر خداوندا ہمارا کیا قصور ہے، اس لیے کہ تو نے ایسا ان کو چھپایا کہ کہیں ان کا سایہ بھی دکھلائی نہ دیا، ہزاروں عرضیاں بھیجیں، ایک کا بھی امام نے جواب نہ دیا، صدہا درخواستیں خضر و الیاس کے ذریعے سے براہ دریا ارسال کیں، کسی پر کچھ حکم نہ آیا، بڑے بڑے مجتہدوں سے پوچھا، انہوں نے یہی فرمایا کہ ابھی انتظار میں رہو اور خروج و ظہور کی دعا کیا کرو، ہنوز وقت نہیں آیا، لیکن ہم نے بہت انتظار کیا، مگر ہمارے جیتے جی ظہور کس کا ، خروج کیسا، کچھ خبر تک امام کی نہ آئی:

شام تک تو آمد جاناں کا کھینچا انتظار
وہ نہ آیا وعدہ اپنا یاں برابر ہو گیا

ہند سے امام کی غیبت سری تک ہم نے ہجرت کی لیکن دیکھنا کس کا ملنا کیسا، صورت تو امام کی نظر ہی نہ پڑی، بس بغیر امام کے ہم کیا کرتے اور کیوں کر راہِ حق پر چلتے، ہاں امام کے دیکھنے والوں نے جو کچھ ہم سے کہہ دیا ، اس پر ہم ایمان لے آئے اور اسی کو حق جانتے رہے اور کبھی اس سے نہیں پھرے۔ پس اگر خدا یہ جواب سن کر فرما دے ، اے کم عقلو! جب کہ میں اپنے کلام کا حافظ تھا اور خود کہہ چکا تھا کہ

((إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ‌ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ))

تو کس کی مجال تھی کہ وہ تحریف کرتا اور کون تھا کہ اس کو بدل دیتا۔ کس نے تم سے کہا کہ میری کتاب میں تحریف ہوئی تھی؟ تب تم شاید یہی جواب دو گے کہ ہم نے زرارہ سے سنا تھا، ہم سے شیطان الطاق نے کہہ دیا تھا۔۔تب اگر خدا یہ فرما دے کہ اے بدبختو، میں سچا تھا یا زرارہ، میرا رسول صادق تھا یا شیطان الطاق، تو معلوم نہیں ، کیا جواب دو گے۔ ہمارے نزدیک تو تم سوائے اقرار جرم کے اور کچھ جواب نہ دے سکو گے اور اس وقت سوائے اس کے کہ

((فاعترفو بذنبھم فسحقا لّاصحاب السّعیر))
یعنی وہ اپنے گناہوں کا اقرار کر لیں گے۔۔ پس جنہوں کے لیے ہلاکت ہے) اور کچھ حکم نہ ہوگا۔


ماخوذ: آیات بینات از نواب محسن الملک سید محمد مہدی علی خان

٭٭٭٭٭ الحمدللہ موضوع مکمل ہوا٭٭٭٭٭
 
Top