• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رزق کے معاملے میں سرکشوں پر اللہ کا غضب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رزق کے معاملے میں سرکشوں پر اللہ کا غضب

اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
{کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِیْہِ فَیَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبِیْ وَمَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْہِ غَضَبِیْ فَقَدْ ہَوٰی o} [طٰہٰ:۸۱]
'' کھائو ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تمھیں دی ہیں اور ان میں حد سے نہ بڑھو، ورنہ تم پر میرا غضب اترے گا اور جس پر میرا غضب اترا تو یقینا وہ ہلاک ہوگیا۔''
الطغیان:
عربی میں حد سے تجاوز کرجانے کو '' طغیان '' کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{اِِنَّا لَمَّا طَغٰی الْمَآئُ حَمَلْنٰکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ o} [الحاقۃ:۱۱]
'' بلاشبہ ہم نے ہی جب پانی حد سے تجاوز کرگیا، تمھیں کشتی میں سوار کیا۔''
یعنی جب پانی بلند ہو کر اس مقدار سے تجاوز کرگیا جو مقدار جھیل میں ہوا کرتی ہے۔
اسی طرح فرعون کے متعلق فرمایا:
{إِذْہَبْ إِلیٰ فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغٰی o} [طٰہٰ:۲۴] ...
'' اے موسیٰ! فرعون کے پاس جاؤ، بلاشبہ اُس نے سرکشی اختیار کر رکھی ہے۔ ''
یعنی فرعون نے دعویٰ ربوبیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بغاوت کر رکھی ہے۔ غرضیکہ طغیان کا معنی ناجائز تجاوز ہے۔
رزق میں سرکشی کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جنھیں اللہ تعالیٰ نے وافر رزق عطا کر رکھا ہو اور وہ اپنے رزق میں حد سے تجاوز کریں۔ یعنی بغیر ضرورت کے رزق حاصل کریں اور جس بات کا انھیں اللہ تعالیٰ نے حکم دے رکھا ہے، اس کی وہ مخالفت کریں۔ اس طرح سے ان پر اللہ کا غضب حلال ہوجاتا ہے۔
ایسے لوگوں کو رزق کی فراوانی اور صحت و عافیت اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ نافرمانی کریں۔ اور کفرانِ نعمت کرتے ہوئے اپنے منعم حقیقی کا شکر ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو لمبی مدت تک رزق کو ذخیرہ کیے رکھتے ہیں۔ اور پھر اس رزق کو کام میں لانے سے پہلے پڑے پڑے اس میں کیڑے پڑجاتے ہیں اور وہ خراب ہوجاتا ہے۔ اور اس رزق میں سے بعض کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ یعنی قابل استعمال رہتا ہی نہیں۔ چنانچہ وہ اس سٹاک کو ضائع کرکے پھینک دیتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ذخیرہ اندوزی نہ کریں تو یہ خوراک کبھی خراب اور ضائع نہ ہو۔
رزق کے معاملے میں سرکشی کرنے والے وہ لوگ ہیں کہ جو کھانے کی اتنی مقدار منگوا لیتے یا تیار کروالیتے ہیں کہ جو ان کی ضرورت و اشتہاء سے زائد ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ زائد کھانا کوڑے کرکٹ کے ڈرموں میں پھینک دیتے ہیں۔ جب کہ اس وقت کتنے ہی لاکھوں مسلمان ہیں جو کھانے، خوراک کی کمی کی وجہ سے بھوک سے مر رہے ہیں۔
اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے رزق کے بارے میں سرکشی کرنے والوں اور حد سے تجاوز کرنے والوں کو ان پر اپنے غضب کے نازل ہونے کی ڈانٹ پلائی ہے۔ اور جس پر اللہ کا غضب نازل ہوگیا جانیے کہ وہ ہلاک ہوگیا۔ اللہ کی قسم! اس کے حق میں تباہی و بربادی لکھ دی گئی۔ لیکن اللہ کریم نے اس شدید قسم کی ڈانٹ اور وعید کو مؤخر کر رکھا ہے تاکہ جو کوئی رجوع کرنا چاہے وہ توبہ کرلے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰی o} [طٰہٰ:۸۲]
'' اور بے شک میں یقینا اس کو بہت بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھے راستے پر چلے۔ ''
یہاں اس آیت کریمہ میں یہ جو فرمایا: {لِمَنْ تَابَ ...} تو اس کا معنی ہے کہ: جو آدمی اپنے کفر یا شرک یا معصیت و نافرمانی یا نفاق و سرکشی سے تائب ہوجائے۔ خلوصِ دل سے توبہ کرلے چاہے گناہ کتنا بڑا کیوں نہ ہو اور اپنے دل سے پختہ ایمان لے آئے۔ یا اگر ایمان پہلے سے ہے تو اسے مضبوط کرلے۔ {وَعمِلَ صَالِحًا} ... اور پھر اپنے وجود اور زبان سے صالح اعمال کرنے لگے۔ {ثُمَّ اہْتَدٰی} ... ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اس کے بعد وہ اللہ کی شریعت مطہرہ کے بارے میں شک میں نہ رہے۔ جناب سعید بن جبیر رحمہما اللہ کہتے ہیں: یعنی توبہ کرنے کے بعد، ایمان کو مضبوط کرکے اعمالِ صالحہ اختیار کرے اور پھر قرآن و سنت پر استقامت اختیار کرے اور جماعت حقہ کے ساتھ جڑا رہے حتی کہ اُسے موت آجائے۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top