ابو داؤد
مشہور رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 795
- ری ایکشن اسکور
- 219
- پوائنٹ
- 111
رسلان کے باطل نظریے «حریّة العقیدہ» پر علمی و شرعی رد
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أمّا بعد:
یہ بات بدیہی اور متفق علیہ ہے کہ اسلام عقیدے میں “حرّیت” کو تسلیم نہیں کرتا۔ بلکہ اسلام ایمانِ خالص، توحیدِ کامل اور شِرک و کفر سے اجتناب کا مطالبہ کرتا ہے۔ مگر مصر میں موجود مدخلیوں کے سرغنہ محمد سعید رسلان نے اپنی خطبہ “وا إسلاماه” میں جس منافقانہ انداز سے “حرية العقيدة” کی وکالت کی، وہ قرآن و سنت کے نصوص، اور اہلِ علم کے فتاویٰ کے سراسر منافی ہے۔
مدخلی سرغنہ سعید رسلان کہتا ہے:
وكان النبي يرسل السرية، ويُجَنِّدُ الجنود، ويبعث الغازين كما في مؤتة، وما قبلها، وما بعدها ؛ يرسلهم موصياً إياهم بالرفق والرحمة؛ لأنهم دعاة سلام، ودعاة هداية، وليسوا بدعاة حرب مظلمة ظالمة، وإنما هي حرب مع الأنظمة التي كانت قائمة في عهد النبي ؛ ليُخلَّى بين وجه الحق المنير والشعوب التي قد بعث النبي لهدايتها، ثم الحرية حرية العقيدة مكفولة، فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ، الله رب العالمين لم يجعل إكراها في دينه، ولأنه لا يريد قوالب مصبوبة، ولا أجساد منصوبة، لا يريد قوالب منصوبة، ولا أجساداً مصوبة، وإنما يُريد أرواحاً قائمة بين يديه تحبه وتقبل عليه
نبی صلی اللہ علیہ وسلم لشکروں کو روانہ فرمایا کرتے تھے، فوج تیار کرتے تھے، اور مجاہدین کے دستے بھیجتے تھے، جیسے کہ غزوۂ مؤتہ میں، اور اس سے پہلے اور بعد میں بھی۔ آپ ان کو ہمیشہ نرمی اور رحمت کی وصیت فرمایا کرتے تھے، کیونکہ وہ سلامتی اور ہدایت کے داعی تھے، ظلم و تاریکی کی جنگ کے داعی نہیں تھے۔ بلکہ وہ جنگ دراصل ان نظاموں اور حکومتوں کے خلاف تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قائم تھیں، تاکہ حق کے روشن چہرے اور ان قوموں کے درمیان سے رکاوٹ ہٹا دی جائے جن کی ہدایت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیے گئے تھے۔ پھر اس کے بعد حریت عقیدہ کی آزادی دی گئی جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، کیونکہ اللہ ربّ العالمین نے اپنے دین میں جبر کو نہیں رکھا۔ وہ نہ تو ڈھالے ہوئے سانچے چاہتا ہے، نہ کھڑے کیے گئے جسم؛ وہ چاہتا ہے کہ روحیں اس کے سامنے کھڑی ہوں جو اس سے محبت کریں اور اسی کی طرف راغب ہوں۔
[خطبة بعنوان «وا إسلاماه»، بتاريخ الجمعة ٢٣ / ۱۱ / ۲۰۰۱م، في الدقيقة رقم (٠٠:٢٤:٣٣)]
یہ رسلان کی جسارت اور جہالت ہے کہ وہ اپنے بیان میں آیتِ کریمہ «فَمَن شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَن شَاءَ فَلْیَكْفُرْ» کو لے کر اسلام میں حریتِ عقیدہ کی دلیل بنا کر کہتا ہے کہ اسلام حریت عقیدہ کی آزادی دیتا ہے، اور انسان کو چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے ایمان لائے یا کفر کرے۔ یہ نہ صرف رسلان کی جہالت بلکہ نہایت خطرناک، اور منہجِ سلف سے متصادم باطل دعویٰ ہے۔
مفسرین علماء نے اس آیت کی تفسیر میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ یہ کلام ترخیس و تخيير نہیں بلکہ وعيد وتهديد ہے۔
علامہ القرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَإِنْ شِئْتُمْ فَآمِنُوا، وَإِنْ شِئْتُمْ فَاكْفُرُوا. وَلَيْسَ هَذَا بِتَرْخِيصٍ وَتَخْيِيرٍ بَيْنَ الْإِيمَانِ وَالْكُفْرِ، وَإِنَّمَا هُوَ وَعِيدٌ وَتَهْدِيدٌ. أَيْ إِنْ كَفَرْتُمْ فَقَدْ أَعَدَّ لَكُمُ النار، وإن آمنتم فلكم الجنة.
اگر تم چاہو تو ایمان قبول کرلو اور اگر چاہو تو کافر رہو۔ اور یہ ایمان اور کفر کے درمیان کوئی اختیار دینا اور رخصت دینا نہیں، بلکہ یہ تو وعید اور جھڑک ہے، یعنی اگر تم نے کفر اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے، اور اگر تم ایمان لے آئے تو تمہارے لئے جنت ہوگی۔
[الجامع لأحكام القرآن، ج : ١٠، ص : ٣٩٣]
یہ آیت حریت عقیدہ کے متعلق نہیں کہ اسلام اجازت دیتا ہے کہ انسان بعد ازاں کسی بھی دین کو اختیار کرے یا کفر اختیار کرے! رسلان منبر سے اس آیت کو لیکر اپنا لبرل فہم تھونپنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جبکہ شیخ ابن باز کا واضح فتویٰ ہے:
الإسلام لا يقر حرية العقيدة، وإنما الإسلام يأمر بالعقيدة الصالحة، ويلزم بها ويفرضها على الناس، ولا يجعل الإنسان حرا يختار ما شاء من الأديان، لا، القول بأن الإسلام يجيز حرية العقيدة، هذا غلط، الإسلام يوجب توحيد الله، والإخلاص له سبحانه، والالتزام بدينه والدخول في الإسلام، والبعد عما حرم الله
اسلام حریت عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتا، بلکہ اسلام صحیح عقیدہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے، اور اس پر عمل کو لازم اور فرض قرار دیتا ہے۔ اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ انسان جس دین کو چاہے، اختیار کر لے! نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ کہنا کہ اسلام عقیدہ کی حریت کی اجازت دیتا ہے، یہ غلط بات ہے۔ اسلام تو اللہ کی توحید، اسی کے لیے اخلاص، اس کے دین کی پابندی، اسلام میں داخل ہونے، اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے۔
[فتاوى نور على الدرب لابن باز، ج : ١، ص : ٣٠٤]
اسی طرح شیخ ابن باز فرماتے ہیں :
وبين الرب عز وجل، وبين الرسول صلى الله عليه وسلم وجوب العقيدة، ووجوب الالتزام بشرع الله، وأن لا حرية للإنسان في هذا، فليس له أن يختار دينا آخر، وليس له أن يعتنق ما حرم الله، وليس له أن يدع ما أوجب الله عليه، بل يلزمه ويفترض عليه أن يستقيم على دين الله وهو الإسلام
اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر بیان فرمایا ہے وہ عقیدہ اختیار کرنا واجب ہے، اور اللہ کے شریعت کی پابندی لازم ہے۔ انسان کو اس معاملے میں کسی قسم کی حریت حاصل نہیں کہ وہ جو چاہے عقیدہ یا دین اختیار کر لے۔ اسے یہ اجازت نہیں کہ کسی اور دین کو قبول کرے، نہ یہ کہ اللہ کی حرام کردہ باتوں کو اپنائے، اور نہ ہی یہ کہ اللہ نے جس چیز کو اس پر واجب کیا ہے، اسے چھوڑ دے۔ بلکہ اس پر لازم اور فرض ہے کہ وہ اللہ کے دین پر قائم رہے، اور وہ دین ہے اسلام۔
[فتاوى نور على الدرب لابن باز، ج : ١، ص : ٣٠٥]
پس رسلان کی “حرية العقيدة” والی گمراہی کہ انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ ایمان یا کفر، جسے چاہے، اپنائے! یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لوگ جو چاہیں دین اختیار کریں؟ یا یہ فرمایا: «أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله» [بخاری و مسلم]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو حکم ملا کہ وہ قتال کریں یہاں تک کہ لوگ توحید کا اقرار کر لیں۔ تو پھر رسلان اس کی“حرية العقيدة” والی ضلالت کہاں سے لایا؟
شیخ ابن باز نے اسی فتوے میں فرمایا:
وليس له أن يعتنق الشيوعية ولا النصرانية أو اليهودية أو الوثنية أو المجوسية، ليس له ذلك، بل متى ما اعتنق النصرانية أو اليهودية، أو المجوسية أو الشيوعية صار كافرا، حلال الدم والمال، يجب أن يستتاب، يستتيبه ولي الأمر الذي هو في بلده، ولي الأمر المسلم يستتيبه، فإن تاب ورجع إلى الحق وإلا قتله؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من بدل دينه فاقتلوه» رواه البخاري في الصحيح، من بدل دينه دين الإسلام بالكفر، يجب أن يقتل إذا لم يتب، فلهذا يعلم أن ليس للمسلم حرية أن يترك الحق وأن يدخل الباطل أبدا، بل يلزمه الاستقامة على الحق، ويلزمه ترك الباطل
اسے شیعیت، نصرانیت، یہودیت، بت پرستانہ یا مجوسیانہ عقائد اپنانے کا اختیار نہیں ہے یہ اس کے لیے جائز نہیں۔ بلکہ جب بھی وہ نصرانیت، یہودیت، بت پرستی، یا شیعیت قبول کرے گا تو کافر قرار پائے گا؛ اس کا خون اور مال حلال سمجھا جائے گا۔ اس پر لازم ہے کہ اسے توبہ کروائی جائے؛ توبہ کروانا اس کے ملک میں موجود مسلم ولی امر کا فرض ہے۔ اگر وہ توبہ کر کے حق کی طرف لوٹ آئے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کر دیا جائے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من بدل دينه فاقتلوه» یعنی جو دین سے مرتد ہو جائے اسے قتل کر دو۔ جیسا کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے، جو شخص دین اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کرے، اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کا قتل واجب ہے۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اس معاملے میں حریت نہیں کہ وہ حق ترک کر کے باطل اختیار کرے؛ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ حق پر ثابت قدم رہے اور باطل کو چھوڑے۔
[فتاوى نور على الدرب لابن باز، ج : ١، ص : ٣٠٧]
پس معلوم ہوا کہ رسلان اور اس جیسے مدخلی زنادقہ دراصل اہلِ نفاق کی نئی قبیل ہیں، جو منہج کے لباس میں کفر کے نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں، اور منبر کو حق کے دفاع کے بجائے باطل کے فروغ کا ذریعہ بناتے ہیں اور اسلام کو ایسا بنا کر پیش کرتے ہیں جیسے وہ ہر باطل دین کو برداشت کرتا ہے، یہی وہ “ مدخلی زندقہ” ہے جو وہ منہج اور رواداری کے خول میں چھپاتے ہیں۔
رسلان اور اس کے ہم فکری مداخلہ کفار، نصاریٰ اور طواغیت کی خوشنودی کے لیے “عقیدے کی حریت” کے نعرے بلند کرتے ہیں یہ ان کی علمی خطا نہیں بلکہ منہجی فساد ہے۔ یہ زنادقہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو مغرب کے نظریات کے تابع کر دیا جائے۔
“حرية العقيدة” اسلام میں مطلقاً باطل اور مردود ہے۔ رسلان کا منہج الارجاء، التميع، و الإرجاف فی الدین ہے۔ اہلِ علم پر لازم ہے کہ وہ عوام کو رسلان کی اس گمراہ سوچ سے آگاہ کریں۔
اللهم أرنا الحق حقًّا وارزقنا اتباعه، وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه۔