• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول اللہ کی دوسری بیوی سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ

شمولیت
دسمبر 05، 2017
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
رسول اللہ کی دوسری بیوی سیدنا سودہ رضی اللہ عنہ

ایک ایثار پیشہ خاتون کا معطر تذکرہ

سیدہ خدیجہ الکبری کے بعد جس بلند قسمت خاتون کو زوجیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آنے کا شرف نصیب ہوا ان کا نام سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ والد کا نام زمعہ تھا ۔
یہ قریشی تھیں ، والدہ کا نام شموس تھا ۔ یہ قبیلہ بنو نجار سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ان کی پہلی شادی اپنے چچا کے بیٹے سکران بن عمرو سے ہوئی ۔ ابتدائی دور میں انھوں نے اور ان کے خاوند سکران نے اسلام قبول کر لیا ۔
جب مکہ میں مسلمانوں پر قریش کے ظلم حد سے زیادہ بڑھ گئے تو بہت سارے لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے سے حبشہ کو ہجرت کر گئے ۔
ان ہجرت والوں میں یہ دونوں میاں بیوی بھی شامل تھے ۔
یہ کافی عرصہ وہاں مقیم رہے ۔ وہاں ان کے ہاں ایک بیٹا عبدالرحمن بھی پیدا ہوا ۔جب حالات درست محسوس ہوئے تو واپس مکہ آ گئے ۔

کچھ عرصے بعد سکران کا انتقال ہو گیا ۔ اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ بیوہ ہو گئیں ۔ ان کی عدت گزر چکی تھی کہ ایک روز سیدنا عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ بنت حکیم اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہو گئیں ۔
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاصے پریشان رہتے تھے ۔ گھر میں بچیاں تھیں ۔ نبوت کی ذمہ داریاں اور پھر مشرکین کے ساتھ ٹکراؤ تھا ۔ گھریلو مسائل یقینن تھے جن سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایک سمجھدار خاتون کی گھر میں ضرورت تھی ۔ سودہ نہایت سمجھدار اور معاملہ فہم خاتون تھیں ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرنے لگیں:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ آجکل خاصے مغموم (غم زدہ ) دکھائی دیتے ہیں ؟

شاید حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی جدائی بھلائی نہیں جارہی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کا ذکر بڑے اچھے انداز میں کیا ۔ اچانک خولہ کہنے لگیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟

اس سے آپ کا گھر آباد ہو جائے گا ۔
ارشاد ہوا کس سے کروں؟
خولہ کہنے لگیں :
میری نظر میں ایک خاتون ہے " حسب و نسب کے لحاظ سے عظیم تر ہے ۔
اگر آپ اجازت دیں تو میں بات کروں؟
ارشاد ہوا وہ کون ہے؟
خولہ نے سودہ بنت ذمعہ کا نام لیا ۔ اس کا خاوند فوت ہو گیا ہے ۔
آپ کی اجازت دینے پر وہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ کے گھر گئیں ۔ ان سے بات کی۔
انھوں نے کہا : تم میرے والد والد سے بات کرو۔ وہ بوڑھے تھے نظر بھی کمزور ہو گئی تھی ۔
جب ان کو بتایا کہ عثمان بن مظعون کی اہلیہ ہوں تو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
بیٹی کیسے آنا ہوا؟
سیدہ خولہ نے بتایا کہ آپ کی بیٹی سودہ کو حرم نبوی بنانے کے لئے آئی ہوں۔
ذمعہ نے نہایت خوشی سے ہاں کردی۔
نکاح خود سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ کے والد ذمعہ نے پڑھایا ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سو درہم حق مہر ادا کیا ۔
اس طرح سودہ بنت ذمعہ کو ام المومینین بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اور سعادت دارین نصیب ہو گئی ۔
جب ان کے بھائی عبداللہ کو معلوم ہوا (یہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) تو سخت ناراض ہوئے ، اپنے سر میں خاک ڈالی۔
بعدازاں اسلام قبول کرنے کے بعد ساری زندگی اس غلطی پر افسوس کرتے رہے۔
سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں آنے کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو ذمہ داریوں میں خاصی کمی واقع ہوگئی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت کے کام میں مزید وقت دینے لگے ۔ گھر میں ہر طرح کی خیر و برکت تھی۔
سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ چونکہ حبشہ میں ایک مدت گزار چکی تھیں اس لیے وہاں گزرے ہوئے لمحات کی روداد سناتی رہتی تھیں ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہ اپنے خاوند حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ میں مقیم تھیں ۔ کبھی کبھار سیدہ سودہ ان کا ذکر کرتی تھیں ۔
تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی باتوں میں اور زیادہ گہری دلچسپی ظاہر کرتے۔
یہ گھر جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سودہ کے ساتھ مقیم تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کی ملکیت تھا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر ذی وقار ام کلثوم رضی اللہ عنہ اور فاطمتہ الزہرہ بھی وہاں رہائش پذیر تھیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ گئے تو آپ کے اہل و عیال ابھی مکہ میں ہی تھے۔
مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ عرصہ کے بعد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ابو رافع رضی اللہ عنہ کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ روانہ فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کو وہاں سے لے آئیں ۔
یہ دونوں مکہ مکرمہ پہنچے اور وہاں سے سیدہ سودہ، سیدہ ام کلثوم، سیدہ فاطمہ، سیدہ ام ایمن اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو لے کر مدینہ منورہ پہنچے ۔

یہ لوگ مدینہ میں حارثہ بن نعمان کے ہاں فروکش ہوئے ۔
غزوہ بدر میں کافروں کے ستر قیدیوں میں سودہ کے پہلے خاوند سکران بن عمرو کا بھائی سہیل بن عمرو بھی تھا ۔ اس کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے تھے ۔ سیدہ سودہ نے دیکھا تو بے اختیار کہنے لگیں:
اس ذلت آمیز زندگی سے تو تمہیں عزت کی موت مر جانا چاہیے تھا ۔
تمہیں گرفتاری دیتے ہوئے شرم نہیں آئی؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ بات سن رہے تھے ۔ ارشاد فرمایا کہ :
اے سودہ! تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف برانگیختہ کر رہی ہو ؟

انہوں نے فوری طور پر معذرت کی کہ بے ساختہ زبان سے یہ باتیں نکل گئیں ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے اور صحابہ کو حکم دیا کہ جس کے قبضے میں کوئی قیدی ہے اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں ۔
بعد ازاں سہیل رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا ۔
سیدہ سودہ لمبے قد کی تھیں ۔ ان کا جسم بھاری تھا ۔ عمر بھی خاصی ہو چکی تھی ۔ان کو یہ خطرہ ہوا کہ کہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انہیں طلاق نے دے دیں ۔
مگر ان کی خواہش تھی کہ قیامت کے روز ازواج مطہرات کے زمرے میں اٹھائی جائیں۔
انہوں نے اللہ کے رسول سے عرض کی کہ میں اپنی باری بڑی خوشی ست سیدہ عائشہ کو دیتی ہوں۔ سیدہ عائشہ ان کے اس ایثار کو دیکھ کر نہایت متاثر ہوئیں ۔عام طور پر سوکنوں کے درمیاں ایسا تعاون نہیں ہوتا۔
سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ فتنہ دجال سے سخت گھبراتی تھیں جب کبھی دجال کا ذکر آتا تو کانپ اٹھتیں اور اس فتنہ سے اللہ کی پناہ طلب کرتیں ۔
طبیعت میں فیاضی اور سخاوت کا عنصر غالب تھا ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت مین درہم و دینا سے بھری ہوئی تھیلی خادم کے ہاتھ ان کی خدمت میں بھیجی ۔
خادم سے پوچھا یہ کیا ہے؟ خادم بولا اس مین درہم و دینار ہیں
فرمایا بھلا درہم و دینا میں بند رکھے جاتے ہیں اسی وقت ساری رقم غرباء و مساکین میں بانٹ دی ۔
اللہ تعالی ان سے راضی وہ اپنے اللہ سے راضی
~ماخوذ سنہری کرنیں~
 
Top