• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول اللہ ﷺ اورتعلیم حدیث

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ ﷺ اورتعلیم حدیث

آپ ﷺکے کیا مناصب وفرائض منصبیہ ہیں۔اور بحیثیت رسول، آپ ﷺ کی تعلیمات کیا تھیں؟نیز اس بارے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کیا ہیں؟ اور امت نے ان ارشادات کو کیا وقعت وحیثیت دی ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رسول اللہﷺ اور مناصب

رسول اللہ ﷺ کے ارشادات عالیہ اورافعال واخلاق سامیہ کو حدیث کہا جاتاہے۔ آپ ﷺ سن ۵۷۱عیسوی کو مکہ میں پیدا ہوئے۔چالیس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز ہوئے۔جبریل امین نے تعمیل حکم میں کسی قسم کی غلطی کئے بغیرآپﷺ کے قلب اطہر پر قرآن مجید کو اتارا جس کی وضاحت اور بیان کا ذمہ اﷲتعالیٰ نے خود لیا۔ آغاز وحی سے ہی آپ ﷺ کو یہ باور کرا دیا گیا تھا کہ اب آپ ﷺ کا ہر کام اﷲ کے نام سے اور اسی کی راہنمائی سے ہو گا۔

٭… وحی کا آغاز ہوتے ہی آپ ﷺ براہ راست اللہ تعالیٰ کی حفاظت وامان میں آگئے تھے تاکہ شیطان اور اس کے وسوسوں اور حملوں سے آپ ﷺ کو بچایا جاسکے۔ یہ حفاظت الٰہی تھی جو آپ ﷺ کی ہرسوچ و حرکت اور قول کی نگران بن گئی اور آخردم تک آپﷺ کو حاصل رہی۔ اگر اللہ تعالیٰ کفار ومشرکین اور یہود ونصاری کے الزامات واستہزاء کا جواب آپ ﷺ کی زندگی میں ہی دے رہا ہے اور ساتھ ہی {وَلَلْآخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْأُوْلٰی } کی ضمانت بھی۔ تووہ آپ ﷺ کی سیرت وسنت کو تاابد باقی رکھنے کی ضمانت کیوں نہیں دے گا؟ آپ ﷺ کی زندگی کی یہ وہ استثنائی کامیابی ہے جو آپ کو براہ راست اﷲ کی مدد سے حاصل ہوئی۔ چونکہ آپ ﷺنے اپنے مشن کو عین منشا الٰہی کے مطابق پیش کرنا تھا اس لئے آپ ﷺ کبھی بہکے نہ ہمت ہاری۔عصمت اور قربت کایہ منفرد مقام آپ ﷺ کے عظیم انسان ہونے کا نہیں بلکہ پیغمبر خدا ہونے کا ثبوت ہے۔

٭… اولو العزم پیغمبروں میں سب سے بڑے اور سبھی انبیاء ورسل کے خاتم ہمارے رسول اکرم ﷺہیں۔جن کی رسالت ونبوت اس لئے ابدی اور دائمی ہے کہ آپ ﷺ انسان کامل تھے۔ آپ ﷺ کو بحیثیت رسول قبول کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ان جملہ صفات کو بھی مانا جائے جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔ اور سبھی میں آپ ﷺ کا اسوہ ٔحسنہ یعنی آپ ہی رول ماڈل ہیں۔اس مقام و منصب کو مانے بغیر کوئی مسلمان ہوسکتا ہے اور نہ ہی کہلا سکتا ہے۔

٭… رسالت کے جلو میں یہ ذیلی مناصب بتدریج اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوئے۔یہ مناصب کیا ہیں؟ ان کو قبول کرنے میں کتنی خیر ہے اور ان کا انکار کرنے میں کتنی بڑی محرومی ہے؟ انہیں جانے بغیر حدیث کی اہمیت کا ہم قطعاً ادراک نہیں کرسکتے۔اور نہ ہی اس منصب کو حاصل کرنے کے خواہش مند حضرات کی رسول دشمنی اور دین دشمنی کا اندازہ کرسکتے ہیں۔

٭…مرکز ملت اور نظام ربوبیت کی غیر قرآنی اور دجلی اصطلاحات سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے کہ کس طرح War of Terminology مسلم معاشرے پر مسلط کی جارہی ہے جو خودکو بدلنے کی بجائے قرآن اور سارے دین کو بدلنا چاہ رہے ہیں۔ان اصطلاحات میں کھلم کھلا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان ہے جو کفر کے سوا اور کچھ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مناصبِ رسول
۱۔ آپﷺ رسول اللہ اور خاتم النبیین ہیں ۔


۱… وحی الٰہی نے آپ ﷺ کے سر پر نبوت ورسالت کا آخری تاج رکھا۔جس کے لئے نہ آپ ﷺ نے کوئی ریاضت کی اور نہ خواہش۔ بس یہ رب کریم کا انتخاب تھا ۔ ورنہ اپنے رب کے متلاشیوں نے بغیر وحی کے کس طرح غاروں، کنوؤں، تالابوں اور صحراؤں میں ٹھوکریں کھائیں اور اپنے خدا کو نہ پاسکے۔آج یہی بڑے بڑے خطابات سے نوازدئے گئے ہیں۔

۲…اس منصب رسالت کے ملتے ہی آپﷺ جن وانس دونوں کیلئے تاابدہادی و راہنما بنادئے گئے۔یوں آپ ﷺاﷲتعالیٰ کی صحیح پہچان کرانے اور رب کا پیغام بندوں کے ہاں متعارف کرانے میں ، اﷲ اور بندوں کے درمیان واسطہ بن گئے۔اس منصب نے کسی اور نبی کی آمد کا امکان مسترد کردیا اور دین کی اطاعت میں کسی اور کی شراکت مشروط کردی:۔
{قُلْ یَأَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ جَمِیْعَا نِ الَّذِیْ لَہُ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ یُحْیِ وَیُمِیْتُ فَآمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہِ وَاتَّبَعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ} (االأعراف:۱۵۸)
کہہ دیجئے! اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ وہ اللہ جس کی آسمانوں اور زمین میں بادشاہت ہے۔ جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے۔پھر ایمان لاؤ اللہ اور اس کے اس رسول پر جو نبی اُمی ہے جو خود اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے، اسی کی پیروی کرو امید ہے تم ہدایت پا جاؤگے۔

۳…اس منصب کا مطلب امامت وقیادت اور سیادت کا سہرا تاقیام قیامت آپ ﷺ ہی کے سر پر رکھ دیا گیا۔آپ ﷺ کو رسول ماننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ دینی اور عقائدی معاملات میں آپ ﷺ کی تعلیمات قابل تسلیم ہیں اور صرف آپ ہی ہادی وراہنما ہیں۔ کسی اور کو یا اپنی خواہشات کوآپ ﷺ کے ارشاد وعمل پر ترجیح دینا یا تو آپ ﷺ کو نعوذباللہ مسترد کرنا ہے یا پھر جھوٹی نبوت کا دروازہ کھولنا ہے۔ حکام وامراء اور علماء وفقراء سبھی آپ ﷺ کے حکم وعمل کے آگے سرنگوں ہیں اور اپنے حکم وعمل کو چھوڑنے کے پابند۔جس میں زمان ومکان کی کوئی قید نہیں۔آپ ﷺ پر ایمان لانے کا مطلب یہی ہے:
لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہُ تَبْعًا لِمَا جِئْتُ بِہِ۔ تم میں کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش جو میں لایا ہوں اس کے تابع نہ ہو۔

۴… رسول اللہ ﷺ کی ہر بات امتِ دعوت ا ورامتِ اجابت دونوں کے لئے تاقیامت حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ آپ ﷺ کے بعد نہ کسی نبی ورسول نے آنا ہے اور نہ ہی کسی کتاب نے نازل ہونا ہے۔اس لئے آپ ﷺ کے ارشادات واعمال مناسب حال اور قابل عمل ہیں۔

۵…اس رسالت پر ایمان لانے کا مطالبہ اہل کتاب، منافقین، جنات اور عام انسانوں سے سات بار قرآن کریم میں کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ میں جو صفات تھیں اور جو نہیں تھیں انہیں تسلیم کرنا ہے ورنہ کسی ایک کا انکار سبھی کا انکار ہے۔ مثلاً آپ انسان تھے۔ اور بشری تقاضے آپ بھی رکھتے تھے۔معلم تھے۔ مرشد اعظم تھے۔ قاضی تھے۔حاکم بھی تھے۔اور سپہ سالار بھی تھے۔آخری نبی بھی تھے۔آپ ﷺ نے قولی وفعلی اعتبار سے رشد وہدایت کے چراغ روشن کئے جسے اسوۂ حسنہ کا لقب ملا ان سبھی حیثیتوں میں آپ ﷺ کی صفات کو تسلیم کرنا ہی عین ایمان ہے۔ آپﷺ حکمت دئے گئے تھے جو فطرت، عقل اور حالات کے مناسب حال تھی۔بطور مبلغ اور معلم آپ ﷺ نے جو کچھ پہنچایا یااس کی تعلیم دی وہ ایک کورس پر مبنی پروگرام تھا۔بطور مرشد اعظم آپ ﷺ نے عبادت، ذکر، معاملات، اخلاق اور احکام میں راہنمائی کی۔ آپ ایک قاضی وحکمران بھی تھے ۔ بہت سے فیصلے دئے اور انہیں نافذ کیا ۔ مجرم کو سزا دی۔جیسے چور کا ہاتھ کاٹا، شادی شدہ کو رجم کیا، قتل کی دیت مقرر کی۔ راہزن ولٹیروں کے مخالف سمت ہاتھ پاؤں کاٹے۔تجارت کے بارے میں جائز وناجائز معاملات کی وضاحت بھی کی۔نکاح وطلاق کے امور بھی بیان کئے۔زرعی زمینوں کو پانی دینے کے جھگڑوں کو بھی نمٹایا۔

۶…اہل لغت میں ازہری، جوہری، ابن سیدہ، جمال الدین بن مکرم، راغب اصفہانی، فیروزآبادی، مرتضی زبیدی اور ابو البقاء نے خاتَم اور خاتِم کے معنی مہر اور آخری قوم کے لئے ہیں۔اس لئے جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی وحدانیت میں واحد ولا شریک ہے اسی طرح رسول اللہ ﷺ بھی اپنی اطاعت واتباع میں بغیر کسی کی شراکت کے یکتا ہیں۔ آپﷺ پر ایمان لانے کا پہلا تقاضا اسی بات کا کھلم کھلا اعلان ہے۔ سیدنا ثوبانؓ آپﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں:

میرے بعد تیس دجال وکذاب مدعی نبوت ہوں گے۔ میں انبیاء کا خاتم ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

وضاحت: ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر ہر نبی، رسول نہیں ہوتا۔حدیث : میرے بعد کوئی نبی نہیں کا مطلب یہی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد رسول تو کیا ، کسی قسم کاکوئی نبی بھی نہیں آسکتا۔

دونوں صفات میں صفت خاتم النبیین بھی جمع کردی گئی ہے۔ عارف باللہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

نبوت ایک ایسا عظیم الشان منصب ہے جس سے انسانوں کے دو انتہائی طبقے کھل کر سامنے آتے ہیں۔ سچا نبی اپنے زمانے کے تمام انسانوں سے ، ناقابل تصور حد تک عالی مرتبت اور مستحق اکرام ہوتا ہے اور جھوٹا نبی اسی نسبت سے پست، ذلیل اور مستحق نفرت۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۲۔صرف آپ ﷺ ہی مطاع ہیں۔


قرآن کریم میں چالیس سے زائد مقامات پرآپ ﷺ کی اطاعت کا کہا گیا ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں وقت، زمانہ یا آپ ﷺ کی زندگی اور وفات کی کوئی قید نہیں۔ان آیات میں آپ ﷺ کی اس تقرری (Appointment) کا پروانہ ہے کہ آپ کو قابل اتباع واطاعت ماناجائے۔اس کا انکار ایک مسلمہ کفر ہے۔ان الفاظ کامفہوم یہ ہے۔

اطاعت کا معنی :
وَمَنْ أَتَی بِمِثْلِ فِعْلِ الْخَیْرِ عَلَی قَصْدِ إعْظَامِہِ فَھُوَ مُطِیْعٌ لَہُ۔ جب کوئی شخص کسی دوسرے کی تعظیم کی وجہ سے اس کے فعل کی طرح کوئی فعل کرے تو کہتے ہیں یہ شخص فلاں کا مطیع ہے۔ [ الاحکام فی اصول الاحکام ۱۹]

اطاعت :
تصدیق وعمل مراد ہے۔اطاعت عقائد و احکام کی پیروی کا نام ہے اور اتباع اخلاق وکردار اور تہذیب وشائستگی کی فرمانبرداری کا نام ہے۔

اتباع کا اصطلاحی معنی:
امام ابو الحسن الترمذی نے اتباع کا یہ اصطلاحی معنی ذکر کیا ہے :
متابعت کبھی کسی کے قول کی ہوتی ہے اور کبھی کسی کے فعل یا ترکِ فعل کی ۔کسی کے قول کا اتباع کرنا،کا معنی یہ ہے کہ اپنے متبوع کی اس طرح فرما ں برداری کی جائے جس طرح اس کے قول کا تقاضا ہے اور کسی کے فعل کا اتباع کرنا،کا معنی یہ ہے کہ اس کے فعل کو اس طرح کیا جائے جس طرح وہ کرتا ہے اور اس لئے کیا جائے کیوں کہ وہ اسے کرتا ہے۔[ الاحکام؎۹۸]

اتباع:
رسول ﷺ کی پیروی کو کہتے ہیں۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے صرف اطاعت کا لفظ اور رسول محترم کے لئے دونوں منتخب کئے۔ کسی اور کے لئے ان الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔مسلمان کو ان دوالفاظ کے بعد کسی تیسرے لفظ کی ضرورت نہیں۔ اس لئے بقول امام عطاء بن رباحؒ اطاعت رسول کا مفہوم ہے: ہُوَ اِتِّبَاعُ کِتَابِ اللّٰہِ وَسُنَّۃِ رَسُوْلِہِ۔ اتباعِ رسول دراصل کتاب اللہ اور سنت رسول کی پیروی کو کہتے ہیں۔

نوٹ:
رسول کی تقلید نہیں ہوتی بلکہ اس کی اتباع واطاعت ہوا کرتی ہے۔غیر نبی کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں ہوتے۔

اطاعت وقتی یا دائمی:
٭…لفظ اطاعت، اللہ اور رسول کے لئے مشترک چیز اورحکم ہے۔ اس لئے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت مستقل اور دائمی ہے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی مستقل اور دائمی ہے۔مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت بھی رسول اللہ ﷺ کی اطاعت پر محدود کردی۔اور یوں فرمایا:{ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ} جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی۔ یُطِع فعل مضارع ہے اور مَن شرطیہ کے بعد آیا ہے جو استمرار کے ساتھ مستقبل کا معنی بھی دے رہا ہے۔ قرآن کریم میں اگر لفظ اطاعت واتباع اکٹھے مستعمل ہوں جیسے: { فَاتَّبِعُوْنِیْ وَأَطِیْعُوْا أَمْرِیْ} طہ: ۹۰۔ تواطاعت: (احکام وعقائد) میں اور اتباع(تہذیب وثقافت )میں ہوگی۔

٭…{یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ}۔اس آیت میں اللہ کی اطاعت، رسول کی اطاعت اورأولی الامر( حکام وعلماء) کی اطاعت کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے ۔لیکن أولی الأمر( حکام وعلماء) کی اطاعت کے لئے الگ أطیعواکے الفاظ نہیں لائے گئے ۔البتہ أطیعوا اللّٰہ کے ساتھ أطیعوا الرسول ضرور کہا گیا۔جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ جس طرح اللہ کی اطاعت مستقل ودائمی طور پر فرض ہے بالکل اسی طرح اطاعت رسول بھی مستقل اور دائمی فرض ہے۔ اطاعت و اتباع کا یہ مطالبہ صرف آپﷺ کی حیات طیبہ تک محدود نہیں بلکہ جب تک قرآن ہے اس وقت تک کے لئے فرض ہے۔کیونکہ أطیعوا اور اتبعوا میں دوام واستمرار کا مفہوم منکم سے پایا جاتا ہے۔مگر أولی الأمر کے ساتھ لفظ أطیعوامستعمل نہیں ۔ کیونکہ وہ مطاع نہیں ہیں۔اس لئے ان کی اطاعت، مستقل اور دائمی نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔اگر اولو الامر( حکام وعلماء) اطاعت رسول یا اطاعت الٰہی سے انحراف کریں تو لاَ طَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ کے تحت ان کی اطاعت واجب نہیں ہوگی بلکہ مخالفت ضروری ہوگی۔اسی آیت کے دوسرے حصے {وَِإنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَئیٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ} سے مزید یہ غذا ملتی ہے کہ تنازع کی صورت میں صرف کتاب الٰہی کی طرف لوٹنا کافی نہیں بلکہ کتاب الٰہی کے ساتھ الرسول یعنی حدیث کی طرف لوٹنا بھی ضروری ہے جو رسول اللہ ﷺ کی مستقل اطاعت کو فرض ثابت کر ر ہا ہے۔

٭… وفات کے بعد بھی آپ ﷺ کی سنت کی حیثیت مرکز ملت کی ہے۔ورنہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد رسالت کا معاملہ ختم سمجھ کر جناب سیدنا ابو بکر وسیدنا عمر یا سیدنا عثمان وعلی رضی اللہ عنہم از خود مرکز ملت بن بیٹھتے۔ اور امور خلافت نمٹانے میں سنت رسول کے پابندنہ رہتے کیونکہ حالات بدل چکے تھے۔مگر ان خلفاء کے پہلے قومی خطابات پر غور کیجئے وہ بھی خلافت کی کامیابی اطاعت رسول میں ہی سمجھتے تھے۔جب صحابہ نے نہ اجماع کیا اور نہ ہی یہ تسلیم کیا کہ خلفائے امت کو مرکز ملت کا مقام ومنصب دیا جائے یا ان کی تقلیدکی جائے تو بعد کے ذمہ دار افراد کو خواہ وہ خلفاء تھے یا فقہاء وعلماء انہیں بھی یہ منصب امت نے نہیں دیا۔ایسی صورت میں ا سلام تو شاید آفاقی دین بھی نہ رہتا۔ نیز نبوت کے دروازے کھل جاتے اور کسی نبی کو جھوٹا کہنے کی نوبت ہی نہ آتی۔

٭…اطاعت واتباع میں دین کے اصل چشمۂ صافی سے سیراب ہونا ہے نہ کہ اس سے نکلنے والی نہروں اور نالیوں سے۔کیونکہ ماضی میں مذہبی دروغ بافیاں اصل دین سے خروج کے سبب تھیں۔ تقلیدی جمود یا عقلی تک بندیوں کے ترجمان مذاہب نے فرقہ پرستی کو انگیخت دی جس سے دین کے اصل حقائق درون پردہ چلے گئے۔ان سے پردہ ہٹانا گویا مرتد ہونا یا کم از کم کفر و فسق سمجھا گیا۔ دوسری طرف حریت فکر، دین اسلام کی دین ہے تاکہ لوگ دین کے مقابلہ میں آباء واجداد کی خودساختہ رسوم یا مذہبی عناصر واکابرین کی پرستش پر غور کریں اور ان سے نجات حاصل کرکے رسول ِمحترم کی اطاعت اختیار کریں اور نارمل زندگی گذاریں۔مگر افسوس یہ آزادی افراد امت کو راس نہ آسکی۔اسے ذہنی غلامی ہی اچھی لگی اور غلام سازی کا فن بھی۔

٭…بعض متاخر فقہاء نے نیک نیتی سے کسی مخصوص عالم وفقیہ کی پیروی کے لئے تقلید کی اصطلاح روشناس کرائی تاکہ عام لوگ دین فہمی میں مشکل کا شکار نہ ہوں مگر نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ یہ بھی غلطی تھی جس نے معاشرے کی فضاء کو زہر آلود کردیا۔

٭… ایران کے ژردشتی مذہب سے مستعار لفظ عشق نے ذہنوں سے اتباع اور اطاعت کا مطلب ہی چھین لیا ۔اس لفظ نے احترامِ رسول کی ہر قدر کھودی۔ امام ، ولی ، قطب، ابدال ، غوث وغیرہ کی اصطلاحات نے رسول کی ہرحیثیت کو ماند کر دیا بلکہ بعض کے ہاں یہ اصطلاحات نبی یا رسول سے بھی زیادہ افضل قرار پائیں۔مزید ظلم یہ ڈھایا گیا کہ ان شخصیات کو خدائی کاموں میں شریک قرار دے دیاگیا۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی الم ناک صورت حال کی ایک بڑی وجہ اطاعت واتباع کو چھوڑ کر انہی اصطلاحات کا گرویدہ ہونا ہے۔

٭…ذیل کی احادیث میں امت کا مستقبل اور حالات کیسے ہوں گے ؟ وضاحت دیکھئے اور سوچئے !!آپ ﷺ کا ارشادہے:

فَإِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرَی اخْتِلاَفاً کَثِیْراً۔

تم میں سے جو زندہ رہا تو وہ ضرور بہت اختلاف دیکھے گا۔

اور یہ حدیث:
افْتَرَقَتِ الْیَہُوْدُ عَلَی إحْدٰی وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً، وَافْتَرَقَتِ النَّصَارٰی عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً ، وَسَتَفْتَرِقُ ہٰذِہِ الأمَّۃُ عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً، کُلُّہَا فِی النَّارِ إِلاَّ وَاحِدَۃٌ۔
یہودی اکہتر فرقوں میں بٹ گئے اور عیسائی بہتر میں ۔ مگر یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ یہ سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے۔

ان دونوں احادیث کے بعد بھی کیا کوئی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ ہم اپنی اپنی شخصیت کو اتنا اونچا چڑھائیں کہ ان کا کہا اللہ ورسول کا کہا بن جائے اور پھر اسی کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے اوراپناا نتساب بھی اسی کی طرف ہو؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اطاعت واتباع کے طریقے:
آئیے! دیکھتے ہیں آیات و احادیث ،رسول اللہﷺ کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟

۱۔محبتِ رسول، ایمان ہے اورہر شے سے عزیزتر:
آپ ﷺ نے خود واضح فرمایا:
لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ۔
تم میں کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
مراد یہ کہ امت کو چاہئے کہ وہ رسول کا مرتبہ و مقام جانے اور اس کی قدر کرے جسے روز محشر أَنَا لَہَا أَنَالَہَاکہنے کا اور اِرْفَعْ رَأْسَکَ ، سَلْ تُعْطَ کا مقام عالی نصیب ہوگا۔ دنیا میں اس سے محبت یوں نہیں کی جاسکتی کہ اپنی عادات واطوار اور رسومات کو خاندان وکنبہ کی ناک اونچی کرنے کا ذریعہ بنایا جائے بلکہ آپ ﷺ کی سادہ وسچی تعلیم کا ہی گرویدہ ہوا جائے۔کیونکہ محبت تو محبوب کی ہر ادا پر فدا ہونے کا نام ہے۔

۲۔ اختلاف ونزاع کو ختم کرنا ہو تو آپ ﷺ ہی کو جج بنائیے:
اللہ تعالیٰ نے بھی آپ ﷺ کوباہمی نزاعات میں جج نہ ماننے اورآپﷺ کی اطاعت نہ کرنے پر یہ بات قسمیہ ارشاد فرمائی :
{فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}۔
نہیں! تیرے رب کی قسم لوگ بالکل مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ آپ کو اپنے درمیان کے جھگڑوں میں فیصل تسلیم نہ کرلیں۔ پھر جو آپ فیصلہ کریں اس کے بارے اپنے دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور اسے دل وجان سے تسلیم کرلیں۔

۳۔آپ ﷺ رسول اللہ ہیںکسی اور کو شریعت دینے یا سمجھانے کا مقام مت دیجئے۔
{وَمَا آتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْہُ}
اور جو آپ ﷺ دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے باز رہو۔

۴۔آپ ﷺنے اپنے پیچھے ایک طاقتور اور راہنما یہ راز چھوڑا:

تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمَرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا، کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ۔
میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم انہیں تھامے رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہوسکتے۔ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول کی سنت۔

۵۔تجربہ بتاتا ہے غیر نبی کی پیروی گمراہ کرتی ہے۔
{وَإِنْ تُطِیْعُوْہُ تَہْتَدُوْا}
اگر تم لوگ آپ ﷺ کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پالو گے۔

٭… اطاعت یا اتباع کا لفظ اللہ نے صرف اپنے لئے اور رسول کے لئے منتخب کیا ہے ۔والدین کی اطاعت،شوہر کی اطاعت ،کسی اولو الامر کی اطاعت تبھی مناسب ہوگی جبکہ یہ سب اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تحت ہی حکم دیں۔ورنہ از روئے حدیث لا َطَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ۔ رب کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔

٭…سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر کی سنت یا اسوہ ٔحسنہ بھی اس امت کے لئے قابل اتباع نہیں کہ ان کی زندگی میں ایک فطری خلا ء۔۔تجرد کی زندگی۔۔رہ گیا ہے ۔ اس لئے یہ نہیں ہوسکتا کہ ان کا ماننے والااسے سنت سمجھ کر زندگی بھر شادی نہ کرے ، نہ ہی عیسائی حضرات ایسا کرتے ہیں۔ایک کامل و اکمل انسان جس کی اطاعت کی جاسکتی ہے وہ آپﷺ ہی ہیں ۔

٭…اسی طرح کسی عالم یا فقیہ ومحدث کی اتباع اس لئے نہیں ہوسکتی کہ اس کی خانگی زندگی کے بیشتر پہلوؤں پر دبیز تہہ چڑھی ہوئی ہے جس کے علم سے امت کی خواتین محروم ہوتی ہیں۔کسان، مزارع اور زمیندارکے مسائل ضروری نہیں کہ ہر مجتہد نے بتائے ہوں۔ یہی حال ان مشایخ کاہے جن کامنبع علم، قرآن وسنت تو ہے مگران کے بہت سے پہلو اوجھل ہیں۔صرف اس کی اطاعت ہوسکتی ہے جوخود کامل و اکمل انسان ہو جس کی خانگی اور عوامی زندگی ظاہر وباہر ہو۔اور وہ صرف آپﷺ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آپ ﷺ کے ارشادات کی حیثیت:
٭…آپ ﷺکے ارشادات و اعمال جس طرح اس زمانے میں قابل قبول تھے اور ایمان کا حصہ تھے۔ آج بھی وہی حیثیت رکھتے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ احادیث عصری تقاضوں اور انفرادی و اجتماعی مصالح (Social-interest) سے متصادم ہوئی ہوں۔آپ ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔
ألَا إِنِّی أُوْتِیْتُ الْقُرآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ۔ أَلَا یُوشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَی أَرِیْکَتِہِ یَقوْلُ: عَلَیْکُم ْبِہٰذَا القُرْآنِ‘ فَمَا وَجَدْ تُّمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوْہُ وَمَا وَجَدْتُّمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ۔ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَمَا حَرَّم اللّٰہُ۔ ألَاَ لاَیَحِلُّ لَکُمُ الْحِمَارُ الأَہْلِیُّ وَلاَکُلُّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ‘ وَلاَ لُقْطَۃُ مُعَاھَدٍ إِلاَّ أَنْ یَسْتَغْنِیَ عَنْہَا صَاحَبُھَا وَمَنْ َنزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَیْھِمْ أَنْ یُقْرُوْہُ فَإِنْ لَمْ یُقْرُوْہُ فَلَہُ أَنْ یُعْقِبَھُمْ بِمِثْلِ قُرَاہُ۔
قرآن کریم کے طرح سنت بھی وحی کی طرح دی گئی ہے۔ اس لئے صرف قرآن کے کافی ہونے کا دعوی، باطل دعوی ہے۔

٭… خلیفہ ٔرسول اور امراء المؤمنین نے رسول کی اطاعت کو فرض سمجھااور اس کا احیاء کیا۔ اپنے امور خلافت نمٹائے۔دیگر صحابہ بھی اسی سنت کو حرف آخر سمجھتے ۔ علما ء و ائمہ دین نے بھی سنت رسول کو یہی مقام دیا۔کیوں کہ یہی محفوظ شاہراہ ہے جس کے ذریعہ مسلمان ہر طرح کے فتنوں اور گمراہیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ فقہاء کرام نے بھی استنباط مسائل میں اولین درجہ کتاب اللہ کے بعد سنت رسول کو دیا۔ اگرانہیں صحیح حدیث نہ ملی تو پھرضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دی۔ مگر حجت صحیح سنت کو ہی مانا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۳۔ آپﷺہی معصوم ہیں۔

معصومیت کا یہ مقام آپ ﷺ کو اس لئے ملا تاکہ آپ کا ہر عمل(زبان حال) اور ہر قول(زبان مقال) اﷲکی راہنمائی سے ادا ہو ۔ اس کی تصدیق قرآن مجید نے خود فرمائی:
{وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo} (النجم۳،۴)
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کرتے ہیں۔وہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو کی جاتی ہے۔
قرآن و حدیث ہی آپ ﷺ کا نطق تھا۔جس رسول کا قول وعمل وحی کے عین مطابق ہو اس سے غلطی کا امکان کہاں؟ وحی اور اس کے بیان کی نگرانی، غلطیوں سے مبرا ہونے کی ضمانت ہے ۔ کوئی نبی وحی الٰہی کے بغیرلب کشائی نہیں کرتا۔ حتی کہ مزاح اور خوش طبعی، غضب ومرض کے موقع پر بھی اس کی زبان مبارک سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ اسے اپنے جذبات پر اتنا کنٹرول ہوتا کہ زبان سے خلاف واقعہ کوئی بات نہ نکلتی ۔یہ سب نگرانی اس لئے تھی کہ رسول محترم سے کوئی غلطی نہ ہو۔

٭… شہد کو اپنے لئے حرام کرنا، ابن ام مکتوم کے آنے پر تیوری چڑھانا، ظہر یا عصر کی نماز دو رکعت پڑھا کر سلام پھیرنا ، بعض لوگوں کی درخواست پرجنگی مہم پر نہ جانے کی رخصت دے دینا وغیرہ یہ بھول چوک اﷲ تعالیٰ نے اس لئے کروائی کہ کہیں آپ ﷺ کومافوق البشر نہ سمجھ لیا جائے۔اس لئے اس کی فوراً اصلاح بھی فرمادی ۔مگر کسی اور کی بھول چوک کی اصلاح کی ضمانت دی اور نہ ہی کی۔ بلکہ اس کے لئے اطاعت واتباع رسول ہی میزان قرار دیا۔

٭…معصوم ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے شریعت الٰہی کو قولاً وعملاً امت تک پہنچانے میں کوئی غلطی کی اور نہ ہی آپ ﷺسے کوئی شے چھوٹی بلکہ مکمل واکمل صورت میں شریعت پہنچائی۔اس لئے شریعت میں کمی وبیشی کی اجازت ہے اور نہ ہی اس میں رسم ورواج یا بدعات وخرافات کو داخل کرنے کی۔ ایسے اضافے دین کی اصل شکل بگاڑ کراسے گمنامی میں لے جاتے ہیں۔دوسرا ان اضافوں میں گویا آپ ﷺ کو چڑانا ہے کہ نعوذ باللہ آپ ﷺ سے یہ بات رہ گئی جوہمارے بزرگوں کو ملی اور ہمیں عمل کرنے اور ثواب کمانے کا موقع انہوں نے بہم پہنچایا۔

٭…دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ وفات کے وقت کوئی غیر نبی ایسا نہیں جس کے نامۂ اعمال میں سب گناہ معاف ہوکر مٹ چکے ہوں۔ صرف آپ ﷺ ہی کی ذات گرامی ایسی ہے جو اس لحاظ سے معصوم تھی اور آپ ﷺ کے نامۂ اعمال میں کوئی گناہ کیا،غلطی بھی نہیں تھی ۔ اس اعتبار سے نبی ورسول کو معصوم کہتے ہیں۔عصمت کا یہ مقام امت میں نہ رسول کی اولادوآباء کو مل سکا اور نہ ہی کسی صحابی یا امام عالی مقام یا عالم و ولی ومجتہد کو۔ کیونکہ جب یہ حضرات فوت ہوئے تو ان کے لئے نمازجنازہ میں دعائے مغفرت کی گئی۔ البتہ جب اللہ کے رسول فوت ہوئے توآپ ﷺکے لئے نماز جنازہ یادعائے مغفرت کی بجائے صرف درود وسلا م پر اکتفاء کیا گیا۔

٭…تیسرا مطلب یہ بھی ہے آپ ﷺاس سے بھی معصوم تھے کہ آپ کی عقل ماؤف کرکے اللہ تعالیٰ آپ کو مجذوب بنادے اور طہارت وپاکیزگی اٹھا لے یا وجد وحال اور دھمال کی کیفیات طاری کرکے اللہ تعالیٰ آپ کو غیر متوازن بنادے۔ یاآپﷺ غائب ہو کر امت کو سسکتا چھوڑ جائیں اور افرادامت اپنی بدحالی وگمراہی پر آپ ﷺ کی آمد کا انتظار کرتے کرتے آخری سانس لے لیں۔یہ معصومیت کسی بھی انسان کے لئے معقول نہیں۔اگر یہ معصومیت آپ میں ہوتی توضرور انگلی اٹھتی ۔

٭…معصومیت کے اس مقام عالی کی یہ شان ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی طرح آپ کی احادیث کو بھی محفوظ کرنے کا بندوبست فرمایا۔کیونکہ ایسا رسول نہ اب آنا تھا اور نہ ہی کوئی نبی۔ اس لئے حدیث کو محفوظ کرنے کا اہتمام سب الٰہی تدابیر تھیں۔ آپ ﷺ فرشتہ نہیں تھے کہ جن سے غلطی اور گناہ کی حس ہی چھین لی گئی بلکہ آپ ﷺ بشر ہوتے ہوئے وحی الٰہی کی وجہ سے معصوم رہے۔ روایت حدیث کرنا، اس کا جمع ہونا اور پھر اسے نقد وتنقید کے مراحل سے گذارنا ،یہ سب علوم آپ ﷺ کی آمد سے قبل یہود ونصاری میں انجانے سے تھے ورنہ سیدنا موسیٰ وعیسیٰ علیہ السلام کے پیغامات محفوظ رہتے اور تحریف وتبدیلی کا شکارنہ ہوتے۔یہ تو علم حدیث ہی ہے جس نے مسلمانوں کے لئے آخری رسول کے آخری پیغام کو اس کی اصل صورت میں شفاف طریقے سے محفوظ کردیا ۔ جسے اللہ رب العزت نے اپنے اس ارشاد میں فرما دیا:
{إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحٰفِظُوْنَ}۔ ہم ہی نے ذکر (شریعت) کو اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر: ۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۴۔ آپ ﷺہی معلمِ اول ہیں ۔


قرآن مجید کو لے کر امت تک آپ تب پہنچا تے جب آپ ﷺ پر یہ ایک ہی دفعہ اکٹھا نازل ہوتا اور امت پر ہی چھوڑ دیتے کہ وہ اب اسے خود سمجھے۔ مگر یہ تو بتدریج تھوڑا تھوڑا نازل ہوا ۔ جس میں تقریباً تیئس سال کا عرصہ لگا۔اور آپ ﷺ اس کی تازہ بہ تازہ تعلیم وتربیت دیتے رہے تاکہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین قرآن کی عملی اور اخلاقی تعلیم کو آپ ﷺ کی روزمرہ زندگی میں ہی دیکھ لیں۔اور فہم قرآنی میں اسی سیرت کو رول ماڈل بنائیں۔ قرآن کریم میں اسے آپ کی ذمہ داری کہا گیا ہے۔ اس طرح جنہوں نے اپنی عادات وتہذیب اور اخلاق کو اسی سانچے میں ڈھالا اس سے مقصدِ نزولِ قرآن پورا ہوا۔ اکٹھا آپﷺ دے بھی دیتے تو اکثریت اس کو پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے سے کتراتی۔ بلکہ کہہ دیتی کہ بیک وقت نہ ہم سے شراب چھوٹتی ہے اور نہ ہی زنا ۔ نہ ہم اپنے تعلقات خراب کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہم سے جہاد وقتال ہوتا ہے۔نماز وزکوۃ یا صوم وحج کی پابندی بھی ہم تسلیم نہیں کرتے۔یوںمقصد نزول ہی فوت ہوجاتا۔

عربوں میں بے شمار ایسے حضرات تھے جو آپ ﷺ سے کہہ سکتے تھے کہ آپ ﷺ کا کام قرآن پہنچانا تھاجو آپ ﷺ نے پہنچا دیا اب آپ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیجئے ہم خود اس زبان سے واقف ہیں اسے سمجھ لیں گے۔ مگر شاباش ہے ان عربوں کو ، جنہوں نے مادری عربی زبان ہوتے ہوئے بھی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ بیشتر الفاظ قرآن مجمل ہیں اور وضاحت طلب ہیں جن کا رائج عربی میں مفہوم کچھ اور ہے اور قرآن کچھ اور بتارہا ہے۔اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے منصب معلم قرآن کوانتہائی عاجزی اور تواضع سے قبول کیا اور آپ ﷺ سے ہی سیکھنا گوارا کیا۔

٭…یہ تعلیم اس لئے بھی ضروری تھی کہ عرب معاشرے میں لوگوں کے مختلف نظریات وعقائد تھے۔ بھانت بھانت کی بولیاں تھیں۔ فکر وعمل میں الجھنیں تھیں۔ انہوں نے رب کریم کا قرب حاصل کرنے اور اس کی عبادت وذکر کرنے کے عجیب وغریب طریقے وحرکتیں ایجاد کررکھی تھیں۔اس لئے اللہ تعالیٰ کا تعارف قرآن کی تعلیم میں رکھ دیا۔ اس کی عبادت کے ڈھنگ ، انداز اور الفاظ تک سکھائے۔ توحید وشرک کو واضح کیا، جوکروگے وہ بھرو گے کا اصول دیا۔

٭…آپ ﷺ نے تعلیم قرآن کے ذریعے فقہی مسائل بھی صحابہ کرام کو سمجھائے۔ نماز وحج کا طریقہ سکھایا، زکوۃ کی مد اور مقدار بتائی، روزہ کے مسائل سے آگاہ کیا۔نیز حلال وحرام کی وضاحت بھی کی۔ اور یہ بھی فرمایا : یہ میرا طریقہ ہے۔ یہ میری سنت ہے۔ میر ے طر یقے سے جو روگر دانی کرے گا وہ مجھ سے نہیں۔ کیا معلم کا یہ فرض نہیں کہ وہ کتاب کے مشکل الفاظ کی وضاحت اور ان کے معانی بھی کھول کربتائے؟ اور شاگردوں کی عمدہ تربیت کرکے ان کی زندگی میں عملی انقلاب لے آئے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۵۔آپ ﷺ مبین بھی ہیں ۔

بیان :
عربی میں خفی اور مبہم کے کشف و وضاحت کو بیان کہتے ہیں۔یعنی بعض قرآنی آیات کا مخفی اور مبہم مفہوم کیا ہوسکتا ہے؟ اس کے متعدد طریقے ہیں جس کی ساری ذمہ داری صرف رسول اللہ ﷺ پر ہی تھی۔ اس لئے آپﷺ مبین بھی تھے۔ آپﷺ کایہ قرآنی بیان ، اللہ کی طرف سے ہوا ۔ دینی اور دنیاوی ضرورت کے مطابق بیان کی صورتیں تھیں۔تفسیر فتح البیان میں آیت {لتبین للناس} کی روشنی میں بیان کی یہ وضاحت ذرا ملاحظہ فرمائیے:
وَبَیَانُ الْکِتَابِ یُطْلَبُ مِنَ السُّنَّۃِ۔۔۔ قرآن کی تفسیر اور اس کا بیان سنت(حدیث) سے سمجھا جائے۔اس مجمل کے مبین خود رسول اکرم ﷺ ہیں۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ جب کبھی قرآن وحدیث میں تعارض کسی کو محسوس ہو تو حدیث کو مقدم رکھنا واجب ہے کیونکہ آیت{ لتبین للناس} ۔ کی رو سے قرآن مجمل ہے اور حدیث اس کی شرح وتفسیر ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ مبین ہمیشہ مجمل پر مقدم ہوتا ہے۔(تفسیر فتح البیان )

اس بیان کا مطلب یہی ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے قول وعمل کو سامنے رکھے بغیر قرآن کریم کے مجملات کا سمجھنا اورسمجھانا ناممکن ہے اس لئے حدیث ہی ان مجملات کی تشریح وتوضیح ہے۔

شرعی قانون اوراس کی شقوں کی وضاحت آپ ﷺ ہی کی ذمہ داری ہے:
٭… قرآن کریم کی ایک سو چودہ سورتوں میں چھ ہزار تین سو بیالیس آیات ہیں۔ عملی احکام سے متعلق ان آیات کی مجموعی تعداد صرف پانچ سو ہے۔جبکہ باقی عقیدہ ، اخلاق اورقصص سے تعلق رکھتی ہیں۔ان آیات میں عبادات سے متعلق آیات کی تعداد( ۱۴۰ )ایک سو چالیس ہے۔احوال شخصیہ (Family Law)یعنی خاندان اوراقرباء سے متعلق آیات( ۷۰) ستر ہیں۔ مدنی معاملات(Civil & Public Law) جن میں لین دین ، تجارت وغیرہ ہوتا ہو اس میں بھی( ۷۰) ستر آیات ہیں۔جنایات(Criminal Law) یعنی جرائم اور ان کی سزاؤں کے بارے میں(۳۰) تیس آیات ہیں اسی طرح عدالتی نظام (Procedural Law)سے متعلق آیات کی تعداد بھی(۳۰) تیس ہے۔ایک مسلمان حکومت کے بین الاقوامی تعلقات بالخصوص غیر مسلم ممالک کے ساتھ کس طرح ہونے چاہئیں؟ جسے انٹر نیشنل لاء کہتے ہیں۔اس سے متعلق آیات کی تعداد(۲۵) پچیس ہے۔ اسی طرح حکومت اور رعایا کے حقوق وفرائض جن میں دستوری احکام(Constitutional Law) آجاتے ہیں ان کی تعداد (۱۰) دس ہے۔حکومت کی آمدنی اور اخراجات(Financial Matters) نیز اقتصادی تعلقات کی تنظیم کے لئے جن میں امیر و غریب اور افراد وحکومت سبھی شامل ہیں ان کے بارے میں بھی(۱۰) دس آیات ہیں۔

یہ سب احکام مجمل(Precise) ہیں جنہیں حدیث کے بغیر سمجھنا یاان کے اجمالی حکم پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں۔مثلاًنکاح، بیع وشراء، قصاص اور حدودیا احکام رضاعت و میراث وغیرہ کی تفصیلات قرآن پاک کی بجائے حدیث رسول میں ہیں ۔ اصل اگر قرآن میں موجودہے تو سنت اس کی توضیح کرتی ہے ۔ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا: {مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ} ہم نے کتاب میں کسی ضروری چیز کا ذکر باقی نہیں چھوڑا۔ اس لئے اسلاف کایہ قول تھا: الْقُرْآنُ أَحْوَجُ إِلَی السُّنَّۃِ ۔ قرآن سنت کا زیادہ محتاج ہے بہ نسبت سنت قرآن کے۔ حدیثی وضاحت سے نزول قرآن کا مقصد پورا ہوتاہے۔

٭…آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی صحابہ کرام نے آپ کو اپنا مقتدا ، ہادی اور پیشوا تسلیم کیا۔وفاتِ نبوی کے تیسرے روز لشکرِ اسامہؓ کی روانگی پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سخت موقف اکثریت کے فیصلے اور رائے کو نہیں مانتا اس موقف کے پیچھے دلیل کیا ہے؟ارشادِرسول۔جی ہاں۔جسے حق مان کر سبھی صحابہ روانہ ہوجاتے ہیں۔ اور نص حدیث ہوتے ہوئے اپنی رائے وغیرہ کی غلطی کو تسلیم کرتے ہیں۔یہ بھی اصول دے دیا کہ اجتہاد میں اقلیت صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتی ہے اور اکثریت غلطی کا شکاربھی ہوسکتی ہے۔لہٰذا اکثریت کی بنیاد پر ترجیح متعین نہیں ہوسکتی۔ آپ ﷺ خود فرمایا کرتے:
ومحمدٌ ﷺ فَرْقٌ بَیْنَ النَّاسِ۔
محمد ﷺ لوگوں کے درمیان حد فاصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔(صحیح بخاری)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۶۔ آپ ﷺ قانون ساز بھی ہیں۔

٭…جب تعلیم وتبیین کی ذمہ داری آپ ﷺ کو عطا کی گئی تو لامحالہ اسلام کی دستوری اور قانونی شقیں بھی آپ ﷺ نے ہی متعین کرنا تھی۔آپ ﷺنے ان کی وضاحت بھی فرمادی۔جھگڑوں پرفیصلے دیے ۔ حرام کو حلال سے اور جائز کو ناجائز سے نکھارا۔آبائی رسمیں ہوں یا خاندانی رواج، ان کے بوجھوں کو اتارا۔ خبائث کو حرام کیا اور طیب کو حلال۔ یہ سب ایسے قوانین تھے جن کی بنیاد وحی تھی اورجن کی تصدیق قرآن کریم نے ان الفاظ میں کی:
{ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ، وَیَضَعُ عَنْہُمْ إِصْرَہُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ}
وہ ان کے لئے طیب چیزوں کو حلال ٹھہراتا اور خبیث چیزوں کو حرام کرتا ہے اور ان سے ان بوجھوں اور طوقوں کو اتارتا ہے جس کے تلے یہ دبے ہوئے تھے۔

٭…کیا دوسری شادی ، بیوی کی پھوپھی یا بھتیجی یا پھر بیوی کی خالہ یا بھانجی سے ہوسکتی ہے؟ قرآن اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ نکاح متعہ ہو یا نکاح حلالہ، پالتو گدھا ہو یا درندہ اور چیرنے پھاڑنے والے پرندہ۔ ان کے حلال وحرام کو قرآن کریم نے بیان نہیں کیا۔ شادی شدہ کے رجم کا مسئلہ ہو یا چور کے ہاتھ کاٹنے کی مقدار کا ، ان سب قانونی معاملات پر کوئی قرآنی حکم نہیں۔جب کہ یہ جرائم ہیں۔ آپ ﷺ نے اس آیت کے مطابق پہلے سے دی ہوئی خاموش ذمہ داری کے تحت اس قانونی کمی کو بھی پورا کیا۔اس لئے اسلامی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اور اس کی عدالتیں جو بھی فیصلے دیں وہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں کے عین مطابق دیں۔

٭…آپﷺ کو یہ مقام ومنصب بھی حاصل ہوا کہ آپﷺ ایسے احکام دیں جو قرآن میں مذکور نہ ہوں۔یہ اوامر واحکام بِمَا أَرَاکَ اللّٰہُ جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو سجھائے ،کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس صورت میں نہ یہ زائد از قرآن ہیں اور نہ ناسخ قرآن ۔انہیں ظاہر قرآن کے مخالف کہنا، یا قرآن سے زائد کہنا گویا آپ ﷺ کے ان تمام فیصلوں کو بے وزن کرنا ہے۔
 
Top