۲۔صرف آپ ﷺ ہی مطاع ہیں۔
قرآن کریم میں چالیس سے زائد مقامات پرآپ ﷺ کی اطاعت کا کہا گیا ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں وقت، زمانہ یا آپ ﷺ کی زندگی اور وفات کی کوئی قید نہیں۔ان آیات میں آپ ﷺ کی اس تقرری (Appointment) کا پروانہ ہے کہ آپ کو قابل اتباع واطاعت ماناجائے۔اس کا انکار ایک مسلمہ کفر ہے۔ان الفاظ کامفہوم یہ ہے۔
اطاعت کا معنی :
وَمَنْ أَتَی بِمِثْلِ فِعْلِ الْخَیْرِ عَلَی قَصْدِ إعْظَامِہِ فَھُوَ مُطِیْعٌ لَہُ۔ جب کوئی شخص کسی دوسرے کی تعظیم کی وجہ سے اس کے فعل کی طرح کوئی فعل کرے تو کہتے ہیں یہ شخص فلاں کا مطیع ہے۔ [ الاحکام فی اصول الاحکام ۱۹]
اطاعت :
تصدیق وعمل مراد ہے۔اطاعت عقائد و احکام کی پیروی کا نام ہے اور اتباع اخلاق وکردار اور تہذیب وشائستگی کی فرمانبرداری کا نام ہے۔
اتباع کا اصطلاحی معنی:
امام ابو الحسن الترمذی نے اتباع کا یہ اصطلاحی معنی ذکر کیا ہے :
متابعت کبھی کسی کے قول کی ہوتی ہے اور کبھی کسی کے فعل یا ترکِ فعل کی ۔کسی کے قول کا اتباع کرنا،کا معنی یہ ہے کہ اپنے متبوع کی اس طرح فرما ں برداری کی جائے جس طرح اس کے قول کا تقاضا ہے اور کسی کے فعل کا اتباع کرنا،کا معنی یہ ہے کہ اس کے فعل کو اس طرح کیا جائے جس طرح وہ کرتا ہے اور اس لئے کیا جائے کیوں کہ وہ اسے کرتا ہے۔[ الاحکام؎۹۸]
اتباع:
رسول ﷺ کی پیروی کو کہتے ہیں۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے صرف اطاعت کا لفظ اور رسول محترم کے لئے دونوں منتخب کئے۔ کسی اور کے لئے ان الفاظ کا استعمال نہیں کیا۔مسلمان کو ان دوالفاظ کے بعد کسی تیسرے لفظ کی ضرورت نہیں۔ اس لئے بقول امام عطاء بن رباحؒ اطاعت رسول کا مفہوم ہے:
ہُوَ اِتِّبَاعُ کِتَابِ اللّٰہِ وَسُنَّۃِ رَسُوْلِہِ۔ اتباعِ رسول دراصل کتاب اللہ اور سنت رسول کی پیروی کو کہتے ہیں۔
نوٹ:
رسول کی تقلید نہیں ہوتی بلکہ اس کی اتباع واطاعت ہوا کرتی ہے۔غیر نبی کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں ہوتے۔
اطاعت وقتی یا دائمی:
٭…لفظ اطاعت، اللہ اور رسول کے لئے مشترک چیز اورحکم ہے۔ اس لئے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت مستقل اور دائمی ہے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی مستقل اور دائمی ہے۔مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت بھی رسول اللہ ﷺ کی اطاعت پر محدود کردی۔اور یوں فرمایا:
{ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ} جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی۔
یُطِع فعل مضارع ہے اور
مَن شرطیہ کے بعد آیا ہے جو استمرار کے ساتھ مستقبل کا معنی بھی دے رہا ہے۔ قرآن کریم میں اگر لفظ اطاعت واتباع اکٹھے مستعمل ہوں جیسے:
{ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَأَطِیْعُوْا أَمْرِیْ} طہ: ۹۰۔ تواطاعت: (احکام وعقائد) میں اور اتباع(تہذیب وثقافت )میں ہوگی۔
٭…
{یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ}۔اس آیت میں اللہ کی اطاعت، رسول کی اطاعت اورأولی الامر( حکام وعلماء) کی اطاعت کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے ۔لیکن أولی الأمر( حکام وعلماء) کی اطاعت کے لئے الگ أطیعواکے الفاظ نہیں لائے گئے ۔البتہ أطیعوا اللّٰہ کے ساتھ أطیعوا الرسول ضرور کہا گیا۔جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ جس طرح اللہ کی اطاعت مستقل ودائمی طور پر فرض ہے بالکل اسی طرح اطاعت رسول بھی مستقل اور دائمی فرض ہے۔ اطاعت و اتباع کا یہ مطالبہ صرف آپﷺ کی حیات طیبہ تک محدود نہیں بلکہ جب تک قرآن ہے اس وقت تک کے لئے فرض ہے۔کیونکہ أطیعوا اور اتبعوا میں دوام واستمرار کا مفہوم منکم سے پایا جاتا ہے۔مگر أولی الأمر کے ساتھ لفظ أطیعوامستعمل نہیں ۔ کیونکہ وہ مطاع نہیں ہیں۔اس لئے ان کی اطاعت، مستقل اور دائمی نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔اگر اولو الامر( حکام وعلماء) اطاعت رسول یا اطاعت الٰہی سے انحراف کریں تو
لاَ طَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ کے تحت ان کی اطاعت واجب نہیں ہوگی بلکہ مخالفت ضروری ہوگی۔اسی آیت کے دوسرے حصے
{وَِإنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَئیٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ} سے مزید یہ غذا ملتی ہے کہ تنازع کی صورت میں صرف کتاب الٰہی کی طرف لوٹنا کافی نہیں بلکہ کتاب الٰہی کے ساتھ الرسول یعنی حدیث کی طرف لوٹنا بھی ضروری ہے جو رسول اللہ ﷺ کی مستقل اطاعت کو فرض ثابت کر ر ہا ہے۔
٭… وفات کے بعد بھی آپ ﷺ کی سنت کی حیثیت مرکز ملت کی ہے۔ورنہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد رسالت کا معاملہ ختم سمجھ کر جناب سیدنا ابو بکر وسیدنا عمر یا سیدنا عثمان وعلی رضی اللہ عنہم از خود مرکز ملت بن بیٹھتے۔ اور امور خلافت نمٹانے میں سنت رسول کے پابندنہ رہتے کیونکہ حالات بدل چکے تھے۔مگر ان خلفاء کے پہلے قومی خطابات پر غور کیجئے وہ بھی خلافت کی کامیابی اطاعت رسول میں ہی سمجھتے تھے۔جب صحابہ نے نہ اجماع کیا اور نہ ہی یہ تسلیم کیا کہ خلفائے امت کو مرکز ملت کا مقام ومنصب دیا جائے یا ان کی تقلیدکی جائے تو بعد کے ذمہ دار افراد کو خواہ وہ خلفاء تھے یا فقہاء وعلماء انہیں بھی یہ منصب امت نے نہیں دیا۔ایسی صورت میں ا سلام تو شاید آفاقی دین بھی نہ رہتا۔ نیز نبوت کے دروازے کھل جاتے اور کسی نبی کو جھوٹا کہنے کی نوبت ہی نہ آتی۔
٭…اطاعت واتباع میں دین کے اصل چشمۂ صافی سے سیراب ہونا ہے نہ کہ اس سے نکلنے والی نہروں اور نالیوں سے۔کیونکہ ماضی میں مذہبی دروغ بافیاں اصل دین سے خروج کے سبب تھیں۔ تقلیدی جمود یا عقلی تک بندیوں کے ترجمان مذاہب نے فرقہ پرستی کو انگیخت دی جس سے دین کے اصل حقائق درون پردہ چلے گئے۔ان سے پردہ ہٹانا گویا مرتد ہونا یا کم از کم کفر و فسق سمجھا گیا۔ دوسری طرف حریت فکر، دین اسلام کی دین ہے تاکہ لوگ دین کے مقابلہ میں آباء واجداد کی خودساختہ رسوم یا مذہبی عناصر واکابرین کی پرستش پر غور کریں اور ان سے نجات حاصل کرکے رسول ِمحترم کی اطاعت اختیار کریں اور نارمل زندگی گذاریں۔مگر افسوس یہ آزادی افراد امت کو راس نہ آسکی۔اسے ذہنی غلامی ہی اچھی لگی اور غلام سازی کا فن بھی۔
٭…بعض متاخر فقہاء نے نیک نیتی سے کسی مخصوص عالم وفقیہ کی پیروی کے لئے تقلید کی اصطلاح روشناس کرائی تاکہ عام لوگ دین فہمی میں مشکل کا شکار نہ ہوں مگر نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ یہ بھی غلطی تھی جس نے معاشرے کی فضاء کو زہر آلود کردیا۔
٭… ایران کے ژردشتی مذہب سے مستعار لفظ عشق نے ذہنوں سے اتباع اور اطاعت کا مطلب ہی چھین لیا ۔اس لفظ نے احترامِ رسول کی ہر قدر کھودی۔ امام ، ولی ، قطب، ابدال ، غوث وغیرہ کی اصطلاحات نے رسول کی ہرحیثیت کو ماند کر دیا بلکہ بعض کے ہاں یہ اصطلاحات نبی یا رسول سے بھی زیادہ افضل قرار پائیں۔مزید ظلم یہ ڈھایا گیا کہ ان شخصیات کو خدائی کاموں میں شریک قرار دے دیاگیا۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی الم ناک صورت حال کی ایک بڑی وجہ اطاعت واتباع کو چھوڑ کر انہی اصطلاحات کا گرویدہ ہونا ہے۔
٭…ذیل کی احادیث میں امت کا مستقبل اور حالات کیسے ہوں گے ؟ وضاحت دیکھئے اور سوچئے !!آپ ﷺ کا ارشادہے:
فَإِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرَی اخْتِلاَفاً کَثِیْراً۔
تم میں سے جو زندہ رہا تو وہ ضرور بہت اختلاف دیکھے گا۔
اور یہ حدیث:
افْتَرَقَتِ الْیَہُوْدُ عَلَی إحْدٰی وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً، وَافْتَرَقَتِ النَّصَارٰی عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً ، وَسَتَفْتَرِقُ ہٰذِہِ الأمَّۃُ عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً، کُلُّہَا فِی النَّارِ إِلاَّ وَاحِدَۃٌ۔
یہودی اکہتر فرقوں میں بٹ گئے اور عیسائی بہتر میں ۔ مگر یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ یہ سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک کے۔
ان دونوں احادیث کے بعد بھی کیا کوئی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ ہم اپنی اپنی شخصیت کو اتنا اونچا چڑھائیں کہ ان کا کہا اللہ ورسول کا کہا بن جائے اور پھر اسی کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے اوراپناا نتساب بھی اسی کی طرف ہو؟